شہناز خانم عا بدی ( کینیڈا )
نرس نے میری گود میں تولیے سے لپٹے ہوئے ننّھے سے وجود کو ڈا ل دیا۔ میں نے اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔آٹھ پونڈ کا ننّھا سا بچّہ مجھے اتنا ہلکا لگا جیسے بچّہ نہیں کوئی پھول ہو ۔ چہرہ جیسے با لکل تازہ کھلا ہوا گلاب ۔ اس کی خو شبو میرے بدن کی نس نس میں سرایت کر تی جا رہی تھی، ہ میرے ہی بدن کا ایک حصّہ تھا ،کچھ دیر قبل تک وہ میرے اندر تھا ، با ہر کی دنیا میں صرف میں تھی ،وہ نہ تھا ، اس وقت میں ہوں ،اور میری بانہوں میں ․․․․․․․وہ بھی ہے سارا کا سارا لپٹا ہوا بلکہ بندھا ہوا، صرف چہرہ با ہر تھا ۔ سنہری بال ، کشادہ پیشانی ، آنکھیں بند ہو نے کے باوجود غضب ڈھا رہی تھیں اور اس پر گھنیری پلکوں کی جھالر ، گلابی پھولے پھولے گال ،چھوٹا سا دہانہ ۔اسے دیکھ کر میں اپنی ساری تکلیف بھول گئی تھی جو میں نے اس کو جنمانے میں اٹھا ئی تھی میں نے سوچا’ جنمانہ ‘ یہ بھی عجیب سا مرحلہ ہے۔ وہ تو میرے اندر بھی زندہ تھا، اس کا ننّھ سا دل بھی دھڑکتا تھا۔ جنمانے کا مطلب ہے ’ جدائی ‘ وہ میرے اندروں سے جدا ہوگیا تھا اور ایک علیحد ہ وجود کے طور پر میرے سپرد کیا گیا تھا ۔ عطیۂ خدا وندی ، میری ما متا کی تسکین کے لئے ایک تحفہ اور گھر بھر کے لیئے ایک جیتا جاگتا ۔۔۔۔۔۔۔کھلونا۔
سب لوگ بہت خوش تھے ، ہر کوئی اس بات پر زور دے کر خوش ہو رہا تھا کہ ’ بیٹا ‘ پیدا ہوا ہے ۔خالہ صاحب ہما ری سب سے بڑی خالہ ہیں دل کی بری نہیں مگر برائی کی حد تک صاف گو ہیں آتے ہی بولیں۔
’’ بیٹا مبا رک ہو !اب تو ما شا ء ا للہ تین بیٹے ہو گئے ‘‘
جب میری پہلی بیٹی کے ایک سال بعددوسری بیٹی پیدا ہوئی تھی تو سب سے پہلے خالہ صا حب ہی بولیں تھیں۔
’’ اے ہے ․․․․دوسری بھی بیٹی پیدا ہو گئی ، کہیں بیٹیوں کی لا ئن ہی نہ لگ جائے ․․․․․․․․․ایک بات کا خیال رکھنا ، نام ملتے جلتے نہ رکھناورنہ ثمینہ ،امینہ ، زرینہ ، روبینہ کی لا ئن لگ جائے گی․․․․․․․․․․․․․‘‘
اس وقت راشد بھی موجود تھے ، وہ بولے تو کچھ بھی نہیں لیکن ان کے چہرے سے صاف لگ ر ہا تھا کہ انہیں بہت برا لگا ہے۔ خالہ صاحب سمجھ گئیں کہ راشد کو یہ بات پسند نہیں آئی فوراُُ بولیں:
’’بیٹیاں تو بہت اچّھی ہوتی ہیں ۔بس ان کے نصیب سے ڈر لگتا ہے ‘‘
بچّے اس ننّھے منّے کھلونے کو دیکھ کر بہت خوش تھے سوائے چھو ٹے بیٹے یوسف کے ۔ وہ اس بات سے بہت ناراض تھا کہ ماں نے اسے اپنے سے علیحدہ کر رکھا ہے ، نہ اپنے پاس سلا رہی ہے ، نہ اس پر توجّہ دے رہی ہے ․․․․․․․․․․․․․․․․․بچّے باری باری اسے گود میں لے رہے تھے کوئی اسے گود سے اتارنے کو تّیارنہیں تھا ۔ میں نے یوسف کو پیار سے بلا یا ، اپنے پاس بٹھا یا اور اس ننّھے منّے کھلو نے کو اس کی گود میں دے دیا۔وہ بہت خوش ہوا اور اسکی ناراضگی بھی دور ہو گئی ،آہستہ آہستہ بھائی کے لئے اسکا دل بھی صاف ہو گیا ۔ ایک ہفتہ کے بعدہسپتال سے چھٹّی ملی۔گھر پہنچتے ہی لوگوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ، روزانہ کوئی نہ کوئی مبارکباد دینے آجاتا آنے والے چھوٹے بڑوں کا مرکز بھی دانش صاحب ہی ہوتے ۔وہ ہمارے گھر کے وی آئی پی جو ٹھہرے ۔
وقت کیسے گزرا ،پتہ ہی نہیں چلا ۔دانش صاحب چار مہینے کے ہو گئے، اب تو وہ اغوں ․․․․اغوں کرکے با قاعدہ باتیں کرتے ۔ کوئی ان کے نز دیک آ تا تو جلدی جلدی ہاتھ پاؤں مارتے تاکہ وہ ا ن کو اٹھالے ، میٹھی میٹھی آ نکھوں سے اس کو دیکھتے ،ٹھو ڑی پر ہاتھ رکھ کر بات کرو تو خوب ہنستے ،کبھی زور زور سے کلکا ریاں بھی مارتے ۔وہ جیسے جیسے بڑے ہوتے جا رہے تھے نہ صرف ان کی خوبصو ر تی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا بلکہ ان کی ادائیں بھی دل موہ لیتی تھیں ۔ سبھی ان پر فریفتہ تھے ۔ گھر میں جو بھی آتا ان کو گود میں لئے لئے پھرتا مگر ان کے چاہنے والوں میں سب سے آ گے عمرانہ تھیں ۔ عمرانہ ہمارے گھر کے سامنے رہتی تھیں ، دبلی پتلی ۔۔ لڑ کی سی۔ شادی ہوئے تین سال ہوگئے تھے مگر اب تک کوئی اولاد نہیں تھی۔ اسکے شوہر ابھی بچّے نہیں چاہتے تھے ، اسکے بر عکس عمرانہ کو بچّوں سے بڑا لگا ؤ تھا اور دانش کی تو وہ دیوانی تھی․․․․․․․․․․․․․․․․․دانش کی کلکا ریوں نے وقت کے گزرنے کا احساس ہی نہیں ہونے دیا ۔ا ب دانش سات مہینے کے ہوگئے تھے ۔ اس دن عمرانہ آئیں تھوڑی دیر تک وہ دا نش سے کھیلتی رہیں پھرملتجیانہ انداز میں بولیں ’’ باجی آج دانش کو اپنے گھر لے جا ؤں ‘‘ میں نے چونک کر اسے دیکھا ۔
’’ تمہارے صاحب بہادر تو چھ ،سات بجے سے پہلے گھر نہیں آ تے ابھی تو چار بج رہے ہیں ۔ کھانا تم پکا چکی ہو۔ رو ٹیاں تم تازہ بناکر پیش کروگی۔ پھر گھر جاکر کیا کروگی․․․․․․․؟ یہیں بیٹھو ،چائے بن رہی ہے ،چائے پی کر جانا ۔‘‘ میں نے ایک تقریر جھاڑ دی ۔لیکن میری تقریر بے کا ر گئی ۔
’’ میری ایک کالج کی دوست نے چار بجے آنے کے لئے کہا تھا۔مجھے چلنا ہو گا ،لیکن دانش کو چھو ڑکر جا نے کو مَن نہیں کر رہا ہے۔۔۔۔ لے جا ؤں۔۔۔۔؟‘‘
’’ تم دوست کی خاطر مدارات کروگی یا دانش کے نخرے اٹھاؤ گی ‘‘ میں نے عمرانہ کو سمجھا نے کی کو شش کی ۔در ا صل میں دانش کو اپنی نظروں سے دور نہیں کرناچاہ رہی تھی اور عمرانہ کادل بھی نہیں توڑناچاہ رہی تھی۔
’’ عابدہ میری بہت پرانی دوست ہے ۔۔دیکھنا الٹا وہی میری خاطریں کرے گی۔وہ دانش کے اور میرے نخرے اٹھائے گی ‘‘ یہ کہ کر عمرانہ دانش کو اپنے گھر لے گئی۔ میں نے باہر کا دروازہ بند کیا اور گھر کے کام کاج میں الجھ گئی۔
پتہ نہیں کتنا وقت گزرا۔۔۔۔۔دروازے کی گھنٹی سن کر میں دروازے کی جا نب بڑھی۔گھنٹی بجانے والا کوئی اجنبی تھا،میں ہر کسی کی گھنٹی پہچان لیتی ہوں۔ میں نے دروازہ کھولا ،ایک اجنبی لڑکی دانش کو بازوؤں میں اٹھائے کھڑی تھی ۔عمرانہ ساتھ نہیں تھی ۔میں سوچ رہی تھی شاید یہ عابدہ ہے۔ اس نے میری حیرانی کو محسوس کر لیا ،دانش کو میری طرف بڑھایااور بولی :’’ با جی عمرانہ دانش کو گود میں اٹھا ئے زینے سے گر پڑی ہے‘‘
میں نے دانش کو اپنے ہاتھوں میں سنبھالا اور بولی ۔’’ عمرانہ ‘‘ ۔۔۔۔۔
’’ وہ بے ہوش پڑی ہے ․․․․․․․․زخمی ۔‘‘
میں نے دانش کو گود میں اوپراٹھاکر دیکھااس کی آنکھوں سے آنسونکل کر گالوں پر نشان بنا گئے تھے۔جیسے وہ بہت رویا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔چہرہ زرد ، میں نے ہلایا جلایا۔۔۔مگر وہ تو بے ہوش تھا۔۔۔۔!
میں پریشان ہو گئی ۔۔۔۔۔گھر اور بچّوں کو بّوا پر چھوڑ ا ، اور میں دانش کو لے کر ہسپتال بھا گی۔ راشد کو آفس ، موبائل پر اطلاع دی۔مجھ سے پہلے وہ ہسپتال پہنچ گئے۔دانش کو راشد اور ڈاکٹروں کے درمیا ن چھو ڑ کرمیں ہسپتال کی لابی میں سجدہ ریز ہوگئی۔ ایک عجیب سا خوف مجھے گھیرے جا رہا تھا ۔۔۔میں دعا کر رہی تھی ’’ میرے مالک دانش کو کچھ نہ ہو ،وہ ٹھیک ہو جا ئے ‘‘ اچانک سردی کی ایک لہر میری کمر سے سینے کی طرف گئی اور دل میں اتر گئی ،سجدے سے سر اٹھا کر میں نے چیخ چیخ کر رونا شروع کر دیا تھا ،مجھے کچھ ہوش نہیں تھا ،پتہ نہیں کب ڈاکٹر کمرے سے نکلے۔ راشد نے مجھے اس طرح لپٹالیا جیسے میں دانش کو لپٹا لیتی تھی ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔بڑی مشکل سے وہ کہہ پائے ’’ دانش ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ‘‘۔۔۔۔۔۔
’’ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ‘ ‘ میں نے اپنے آپ کو راشد سے علیحدہ کیا اور ایک طرف دوڑی ۔ دو وارڈ بوائے ’’ میرے دانش ‘‘ کو لے جا رہے تھے ۔میں نے اسٹریچر کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور دانش سے لپٹ کر بے ہوش ہو گئی۔
جب مجھے ہوش آیا۔ کمرے میں بہت سی عورتیں جمع تھیں ۔۔۔۔۔میں ’ دانش ‘ پکارتے ہوئے بھاگی۔ عورتوں نے مجھے پکڑ کر بٹھا یا۔سب مجھے اپنے اپنے طریقے سے تسلّی دے رہے تھے۔مگر مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہاتھا۔میرا دل سینے سے باہر نکلا جارہا تھا۔مجھے دانش کے بغیر قرار نہیں آرہا تھامگر ۔۔۔ میری آہیں ۔۔۔ میری تڑپ۔۔۔۔میری ممتا ۔۔۔۔دانش تک پہونچنے کا ہر رستہ بند تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ کاش میں نے اسے عمرانہ کے ساتھ نہ جا نے دیا ہوتا۔۔ کاش میں نے اسے تھوڑی دیر کے لئے بھی اپنے سے دور نہ کیا ہو تا ۔۔کاش۔۔!
اور پھر۔۔۔سفید کفنی میں ملبوس ’ دانش ‘ میرے سامنے لیٹا تھا۔۔۔آج بھی اس کا صرف چہرہ کھلا تھا ۔ گلاب کی جگہ سفید موتی جیسا چہرہ ، بڑی بڑی آنکھیں ،پلکوں کی گھنیری جھالر ، سفید ہونٹ۔۔۔ وہ زندگی سے کتنی دورچلا گیا تھا۔
راشد کو ان کے دوست پکڑے ہوئے تھے ، وہ بھی غم سے نڈھال تھے۔ پھر کسی نے بڑھ کر ’دانش ‘ کو اٹھا لیا۔ وہ سب دانش کو لے کر چلے گئے۔۔۔۔۔’ ۔ شہرِ خمو شاں ‘ کی طرف ۔۔۔۔۔۔۔مجھے ہوش نہ رہا ۔۔۔۔۔ نیند کی دوائیں دے کر مجھے سلایا جا تا رہا۔ ۔۔۔۔ میں جب بھی ہوش میں آتی روتی، تڑپتی ، آ پے سے با ہر ہو جا تی ۔۔۔۔ ایسا لگتا میرا کلیجہ پھٹ جائیگا۔۔۔۔۔ مجھے زندہ رہنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ، میرا دل چاہتا کہ میں بھی دانش کے پاس چلی جاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی دوران میرے کانوں میں یہ بھی پڑتا رہا کہ عمرانہ ہسپتال میں زخموں سے چور ہے۔اسنے دانش کو بچانے کی کو شش میں اپنے آپکو زخمی کر لیا تھا۔اس نے ہسپتال سے ہر آنے جانے والے سے اپنے پچھتا وے بھجوائے تھے۔اس کے شوہر نے ہمارے گھر آکر اس کی طرف سے معافی مانگی۔
یہ گھر جو دانش کے سوگ میں بھر گیا تھا ۔۔۔۔ خالی ہو گیا ۔ ایک دن میں کرسی پر بیٹھی خلاء میں دانش کو ڈھونڈ رہی تھی ۔ میرے ہاتھ اس کو تھامنے کے لئے بے چین تھے ، میری گود اس کے لمس کے لئے بے قرار تھی۔ میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو گر رہے تھے۔۔۔ میری بڑی بیٹی رِدامیرے آنسو پونچھتے ہوئے بولی:
’’ امّی آ پ کو دانش بہت یاد آتا ہے۔۔۔مجھے بھی بہت یاد آ تا ہے ‘‘
آج پورے ایک ہفتہ کے بعد میں نے اپنے بچّوں کی طرف دیکھا۔۔ نہ بچّوں کے کپڑے صحیح تھے ، نہ ہی بال ٹھیک سے بنے ہوئے تھے۔ ’’ یہ میں کیا کر رہی ہوں۔۔ میں نے اپنے بچّوں کو کس حال میں چھوڑا ہوا ہے۔ اگر میں نے اپنے آپ کو نہیں سنبھالا تو میرے بچّوں کو کون سنبھا لے گا۔۔؟ شا ید میں نے دل ہی دل میں اپنے آپ سے سوال کیے۔ میں نے تینوں بچّوں کو لپٹا لیا اور ڈھا ئی سالہ یوسف جو میری ٹانگوں سے لپٹا کھڑا تھا اسے گود میں اٹھا لیا۔ ’’ یہ دانش ہی تو ہے ۔ میرے آس پاس تین اور دا نش موجود تھے ۔ چا روں میرے اپنے تھے ۔ ایک اور دانش شاید غلطی سے آگیا تھا۔‘‘ میں نے سوچا اور میں نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی۔آہستہ آہستہ معمولاتِ زندگی نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایسا نہیں تھا کہ میں دا نش کو بھول گئی تھی ۔۔۔۔۔البتّہ میں نے دانش کی یاد کو اپنے دل کی حد تک محدود کر لیا تھا۔
ایک شام عمرانہ اپنے میاں کے ساتھ ہمارے گھر آئی ۔ وہ ہلکا سا لنگڑا کر چل رہی تھی۔ آتے ہی وہ میرے قد موں پر گر گئی اور چیخ چیخ کر رونے لگی ، اور معا فی مانگنے لگی۔ میں نے اسے اپنے پیروں سے الگ کیا ، اٹھا کر کھڑا کیا ، صوفے پر بٹھا یا ، دونوں کچھ دیر بیٹھ کر چلے گئے ۔جب وہ چلے گئے تو میں نے محسوس کیاکہ میں نے عمرانہ کو معاف نہیں کیا ہے ۔ اگر چہ کہ میں یہ جان چکی تھی کہ زینے سے گرنا محض ایک حادثہ تھا اور مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ گرتے گرتے بھی اس نے دانش کی حفاظت کی تھی ۔ مگر میری آنکھیں اس کی صورت دیکھنے کے لئے تیّار نہیں تھیں۔ مجھے اس سے میل جول ترک کرنا پڑا تھا۔ وہ دونوں بھی چند ایک روز بعد کہیں اور چلے گئے تھے ۔ ان کے میاں کا کسی ااور شہر میں تبادلہ ہو گیا تھا۔
اس واقعہ کو دو سال گزر چکے تھے۔ ایک شام دروازے کی گھنٹی بجی ۔ گھنٹی اجنبی تھی۔ میں یوسف کو پڑھا نے کی کوشش میں لگی تھی۔ راشد در وازے کی طرف گئے تھوڑی دیربعد وہ تقریباًً ایک سال کے بچّے کو گود میں اٹھائے ہوئے آئے۔ میں نے بچّے کو ایک نظر دیکھا۔ بچّہ کیا تھا ۔۔۔ حسن اور معصومیت کا شاہکا ر مجسّمہ۔۔۔بچہ پر ایک نگاہ ڈالنے کے بعد میں نے راشد کی جانب سوالیہ انداز میں دیکھا؟دروازے کے باہر یہ کھڑے تھے۔۔ تنہا۔۔۔
’’ بیٹے آپ کون ہیں ‘‘ میں نے پوچھا اور بچّے کے سر پر ہاتھ پھیرا۔تو وہ رونے لگا۔ میرے اند ر ’ ممتا ‘کا ایک طوفان امڈا ، میں نے اسکو لپٹا لیا ۔یا شاید خود ہی اس سے لپٹ گئی۔۔۔۔پھر جلد ہی میں نے اس کے منہ میں کیلے کا ایک چھو ٹاسا ٹکڑا دیا ، اس نے منھ کھول کر نوالہ سا لے لیا۔۔۔ اس کے بعد باقی کیلا بھی اس کو کھلادیا۔ تھوڑی دیر کے لئے میں اپنے بیٹے یوسف کو بالکل بھول گئی تھی۔ جب مجھے یوسف کا خیال آیا اور میں نے اس کی طرف دیکھا۔ ۔ وہ اس وقت تک سب بچّوں کو اکھٹّا کر چکا تھا ۔میں اس نو وارد پھول سے بچّے کو اپنے بچّوں میں گھرا چھوڑ کر راشد کی طرف متوجّہ ہوئی جو ہم سب کو بڑے پیار سے دیکھ رہے تھے۔
’’ دانش کے با رے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ۔‘‘
’’ دانش۔۔؟ ‘‘ راشد نے مجھے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
’’ دانش۔۔۔؟آپ نے اجنبی بچّے کودانش پکا را ‘‘
’’ جی کیا فرمایاآپ نے ؟ میں نے اجنبی لڑکے کو دانش کہا۔محتر مہ سب سے پہلے دانش کا نام آپ کے منہ سے نکلا ‘‘
’’ کیا واقعی ۔۔۔۔؟ ‘‘میں نے کہا۔
اس دوران وہ بچہ میرے اور راشد کے بیچوں بیچ آکر کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔جیسے اس کا نام دانش ہو اور ہم دونوں کی ز بان سے بار بار ’’ دانش ‘‘ ادا ہوتا سن کر ہما رے بیچ آگیا ہو۔۔۔۔۔ میں یہ محسوس کرکے اور سوچ کر سنّا ٹے میں آ گئی۔ راشد اس معاملے پر غور نہ کر سکے ۔۔۔۔ ’’ یہ تو صاف بات ہے ،کسی نے گھنٹی بجا ئی اور لڑکے کو دروازے پر چھوڑ کرچلا گیا‘‘ راشد کسی قدر تامّل کے بعد بو لے
’’ایسا کون کر سکتا ہے ۔۔۔؟ اور یہ لڑ کا کس کا ہے۔۔۔۔۔۔؟میں نے راشد کو ’’سوالات ‘‘دینے کی کوشش کی۔
’’ تمہا رے ان سوا لات کا جواب تو پولس ہی دے سکتی ہے ۔ ہمیں لڑکے کو فوری طور پر پولس چوکی پہنچا دینا چاہئے ۔ ورنہ ہم خود کسی مصیبت میں گرفتار ہو سکتے ہیں ۔‘‘ راشد نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
’’ راشد ڈیئر۔ ۔۔ ایسا بھی تو کیا جا سکتا ہے کہ آپ پولس چوکی فون کرکے اطلاع دیں اور بچّے کو گھر میں ہی رہنے دیں ۔‘‘ میں نے بچّے کو پولس والوں کے ہا تھو ں میں لگنے سے بچانے کی کوشش کی۔
اتنے میں بچّہ روتا ہوا میری طرف آیا ، میں نے اسے گود میں اٹھا لیا ۔ بچّے کو گود میں اٹھا تے ہوئے میری نظر اس کی قمیض کی جیب میں رکھے لفافے پر پڑی۔ میں نے اس کی جیب سے لفافہ نکالا اور راشد کی طرف بڑھا دیا۔
لفافہ دیکھتے ہی وہ زور سے ہنس پڑے۔ اور بولے ’’اچھّا تو یہ معاملہ تھا ۔۔؟ ‘‘
’’ کیسا معاملہ ۔۔؟‘‘ میں بولی
’’کچھ نہیں۔۔۔۔ بھیک مانگنے کا ایک جدید طریقہ ‘‘
’’ بھیک ‘‘ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
’’جی ہاں ۔۔۔ بھیک ۔۔ لفافے میں ایک چھپی یا خوشخط لکھی ہوئی اپیل ہوگی۔۔۔یتیم ۔۔ یسیر ۔۔ بچّے کی مدد کرنے کی۔۔۔۔‘‘
راشد نے یہ کہہ کر لفافے میں سے پر چہ نکالا۔۔۔۔۔جو کچھ اس پر چے میں لکھا ہوا تھا اسکو پڑھ کر راشد کو جیسے رعشہ سا طاری ہو گیا۔۔۔انہوں نے وہ پرچہ میری طرف بڑھا دیا۔ میں نے پرچہ لے لیا ۔ لیکن راشد کا بدلا ہوا چہرہ میری نظروں میں کُھب کر رہ گیا۔۔میں نے پرچے پر ایک نظر ڈالی ۔ مجھے اپنی بینائی جاتی ہوئی معلوم ہوئی ۔تحریر میری آنکھوں کے سامنے موجود تھی لیکن اس پر یقین کرنا ممکن نہیں تھا ۔ پرچہ پر تحریر تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔:
’’ باجی ۔ سلام ،ہم لوگ آپ کا ’’ دانش ‘‘ لوٹا رہے ہیں ۔ اس پر ہمارا حق نہیں ہے ۔ آپ کی امانت آپ کو مبارک ہو ۔ آپکی قصور وار عمرانہ‘‘۔