اکبر حمیدی(اسلام آباد)
اور کچھ چاند رات آگے بڑھے
جو دلوں میں ہے بات آگے بڑھے
سب ہے انسان کی پیش قدمی پر
یہ بڑھے کائنات آگے بڑھے
میں ہی رہتا ہوں اپنی ذات میں بھی
میں بڑھوں میری ذات آگے بڑھے
تین سے سات پر تو پہنچا ہوں
تب مزا ہے جو سات آگے بڑھے
آخری بات پر رکی ہے بات
اب وہ چاہیں تو بات آگے بڑھے
ہوئی تیغ و سناں کی پسپائی
تب قلم اور دوات آگے بڑھے
ناچیں اودھم برات کے لونڈے
یہ ہٹیں تو برات آگے بڑھے
کچھ ادھر کا اشارہ ہو اکبرؔ
تو ہمارا بھی ہاتھ آگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک ترا حسن ہے جو ذاتی ہے
باقی ہر شے مواصلاتی ہے
کہیں دولہا نظر نہیں آتا
اور جسے دیکھو وہ براتی ہے
ہم عذابِ الہی کہتے ہیں
کاروائی جو انضباتی ہے
آپ کو دیکھا تو ہوا معلوم
زندگی کیسے مسکراتی ہے
پھولوں میں آنے والی ہر سرخی
تیرے ہونٹوں کو چھو کے آتی ہے
روٹھ کر جانے والو رک جاؤ
زندگی آپ کو بلاتی ہے
ہجر ہو یا وصال ہو اکبرؔ
ندی دریا کے گیت گاتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ اس طرح سے مشقت ہے میرے جینے میں
کوئی نہ فرق رہا خون اور پسینے میں
کچھ اس قرینے سے خود کو سنوارتے ہیں وہ
نظر نہ آئے قرینہ کبھی قرینے میں
شبِ وصال کے منظر نظر میں بھر آئے
چمک دمک نظر آتی ہے جب نگینے میں
کبھی کبھی کی ملا قات یونہی ہوتی ہیں
نہ امتیاز رہا سال اور مہینے میں
کچھ ایسا عدم تحفظ کا خوف ہے اکبرؔ
تمام دریا سمٹ آیا ہے سفینے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برس مجھ پر ایسا شرابور* کر دے
بھگو اتنا مجھ کو جو بے طور کر دے
نظر ڈال ایسی جو سب کی نظر میں
بہت مجھ کو بھی قابلِ غور کر دے
ملاقات کر مجھ سے جلوت میں ایسی
جو مجھ اور کو اور ہی اور کر دے
تپا میرا تن اپنے تن کی تپش سے
عنایات کا دوسرا دور کر دے
نہیں ہے اب اس عمر میں صبر اتنا
عطا جو بھی کرنا ہے فی الفور کر دے
اگر گوجرانوالا تھوڑا سا ڈالیں
تو لاہور کو پورا لاہور کر دیں
وہ دیکھے گا پلکیں اٹھا کر جو اکبرؔ
تو ساون رُتیں اور گھنگھور کر دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* اکبر حمیدی صاحب کا اصرار ہے کہ اصل لفظ شرابُور نہیں بلکہ شرابور ہے،جیسا کہ اس مصرع میں لایا گیا ہے ۔اہل علم کے لیے مکالمہ کا موقعہ ہے۔(ح۔ق)