(Last Updated On: )
جعفر ساہنی (کولکاتا)
عاشقی کے پیام سے نکلو
جی حضوری کے دام سے نکلو
خود نشاں اپنا اک مزا دے گا
جدّ امجد کے نام سے نکلو
دشتِ ہو کا سفر بھی لازم ہے
گلستاں کے قیام سے نکلو
زندگی یوں بسر نہیں ہوتی
کچھ تو عالی مقام سے نکلو
رات سے گفتگو بھی کرنی ہے
اب مہکتی سی شام سے نکلو
کردو آغاز اک نئی رُت کا
جب کسی اختتام سے نکلو
ہو گئی سادگی پرائی سی
شہر میں اہتمام سے نکلو
وقت کی بندشوں میں رہ دیکھو
ساعتِ بے لگام سے نکلو
بھاگتی جا رہی ہے یہ دنیا
ساہنیؔ تیز گام سے نکلو