(Last Updated On: )
عمران حیدؔر (لاہور)
بچشمِ یاد تحیّر سا بھر کے جا ئے گا
یہ شو قِ دید تو لگتا ہے مر کے جا ئے گا
وہ نقش عکس کی ناؤ میں تیر کر آیا
کنارے خواب سے آگے اتر کے جائیگا
میں ریگِ حرفِ تمنا بیٹھاتا ہوں دل میں
کہ سیلِ فکرِ تپاں تو گزر کے جائے گا
یہ ابرِ رنگ جو برسے گا دل کی دھرتی پر
دھنک کو آنکھ میں پیوست کر کے جائیگا
جنوں بھی ضبط کی صورت سمٹ کے آیا تھا
سو ریگزارِ بدن میں بکھر کے جائے گا
نجانے کیوں میرے دل کی زمین چیختی ہے
یہاں پہ ایک مسافر ٹھہر کے جائے گا
عجیب در بدری اس نے پائی ہے عمران
دھڑکتے دل کی صدا سے بھی ڈر کے جائیگا