(Last Updated On: )
توقیر تقی (بوریوالا)
سر پہ لٹکی ہوئی تلوار کے گرنے تک ہے
زندگی وقت ہے اور وقت گزرنے تک ہے
ریت بن کر مری مٹھی سے سرکتی خوشیاں
پاؤں نیچے یہ زمیں بھی تو سرکنے تک ہے
لوگ مصروف ہیں تنصیب میں خیموں کی مگر
راہ جذبے پہ پڑی گرد اُترنے تک ہے
شہر کھنڈرات کی بنیاد ہوا کرتے ہیں
دل کی بستی کا بسے رہنا اُجڑنے تک ہے
خاک کے ٹو ٹے مقابر میں بھٹکنا ہے اسے
یہ کبوتر جو ترے ہاتھ میں اُڑنے تک ہے
خواہشیں خضر کے پہلو سے نہیں نکلیں تقیؔ
یہ جھمیلہ تو بدن خاک میں ملنے تک ہے