(Last Updated On: )
مبشر سعید(فرانس)
کب مری حلقہء وحشت سے رہائی ہوئی ہے
دل نے اِک اور بھی زنجیر بنائی ہوئی ہے
اور کیا ہے مرے دامن مِیں محبت کے سوا
یہی دولت مری محنت سے کمائی ہوئی ہے
میرا ہونا ترے ہونے سے ہُوا ہے مشروط
تیرے ہونے نے مری بات بنائی ہوئی ہے
عشق مِیں عالمِ تفریق نہیں ہوتا مِیاں
تو نے اِس دشت مِیں دیوار اٹھائی ہوئی ہے !
تیری صورت جو مَیں دیکھوں تو گماں ہوتا ہے
تو کوئی نظم ہے جو وجد مِیں آئی ہوئی ہے
جب سے آیا ہوں مَیں اس دشت محبت کی طرف
خواب اپنے ہیں مگر نیند پرائی ہوئی ہے
اِک پری زاد کے یادوں مِیں اُتر آنے سے
زندگی وصل کی بارش مِیں نہائی ہوئی ہے
تم گئے ہو یہ وطن چھوڑ کے جس دن سے سعیدؔ
اِک اُداسی درو دیوار پہ چھائی ہوئی ہے