(Last Updated On: )
طاہرؔ عدیم(جرمنی)
گلوں میں لپٹے خیالات کے علاوہ بھی
ہزار غم ہیں غمِ ذات کے علاوہ بھی
کوئی خبر مرے حالات کے علاوہ بھی
کوئی تو لفظ شکایات کے علاوہ بھی
ہے بعدِ ماتمِ مہتاب لاش سورج کی
ابھی تو دن ہے پڑا رات کے علاوہ بھی
گِلہ نہ کر کہ میں تجھ پر غزل نہیں کہتا
مجھے سمجھ مری عادات کے علاوہ بھی
ہزار معجزے دنیا میں سانس لیتے ہیں
درونِ شہر طلسمات کے علاوہ بھی
کوئی تو ذکر کہ جس میں نہ ذکر ہو تیرا
کوئی تو بات تری بات کے علاوہ بھی
خدائے عشق بتائے کہ کچھ ہُوا ہے کبھی
دلوں کے دشت کرامات کے علاوہ بھی
کماں پہ تِیر سجائے ہے مُنتظر کوئی
مچانِ چشم تری گھات کے علاوہ بھی
بس ایک نُقطہِ آغاذ ہی نہیں کافی
کہ مرحلے ہیں شروعات کے علاوہ بھی
جو سر اٹھائے تو سب کچھ بہا کے لے جائے
درونِ چشم ہے برسات کے علاوہ بھی
کتابِ زیست پہ طاہرؔ جو دسترس ہو مری
لکھوں جنوں پہ حکایات کے علاوہ بھی