عبداللہ جاوید(کینیڈا)
میری بیوی نہ تو اتنی خوبصورت تھی کہ اس کے حسن کے چرچے عام ہوتے اور نہ ہی اتنی بد صورت کہ دیکھنے والا اس پر دوسری یا تیسری نظر نہ ڈا لے ، البتہ اس کے جسم میں کچھ تھاما ئل کر نے اور پکڑ نے والا۔ میں اپنی بیوی سے با لکل مطمئن تھا اور شاید وہ بھی مجھ سے مطمئن تھی۔ سب سے بڑی بات ،دنیا ہم سے مطمئن تھی اور ہم دنیا سے مطمئن تھے ۔ہمارے گھر میں ہم دونوں کے علاوہ ایک کتّا تھا جو باہر سے بد صورت اور اندر سے بے حد خوبصورت تھا ، ڈھیر سا رے چھو ٹی ذات کے طو طے تھے اور ایک سفید چوہا۔ میری بیوی ان کے ساتھ گھل مل کر رہتی اور ان کی دیکھ بھال کر تی ۔ وہ پڑوسیوں کے ساتھ بھی مل جل کر رہتی ۔ رشتے داروں کا آناجانا نہیں تھا ۔میرے سب لوگ میلوں دور اور اس کے لوگ سمندروں دور رہتے تھے ۔ شادی کے بعد دو سال ایسے گز رے جیسے ویک اینڈ گزر جا تا ہے۔ پھر یہ ہوا کہ میرا تبادلہ امورِخارجہ کے اس شعبہ میں ہو گیا جو میرے ملک کے عالمی منصوبوں پر کام کر تا ہے اور جلد ہی مجھ کو ایک خاص مشن پر دور دراز کی ایک چھو ٹی ریاست میں بھیج دیا گیا ۔ وہاں کا ماحول سازگار نہ تھا یوں انسانی جان کی کوئی قیمت نہ تھی لیکن باہر والوں کو چو کنّا رہنا پڑتا تھا۔وہاں زیرِ زمین ایسی تنظیمیں موجود تھیں جو باہر والوں کی ’’ ٹارگٹ کلنگ ‘‘ میں مشہور تھیں اس کے علاوہ بیرونی ملکوں کے ایجنٹ بھی موقع ملتے ہی کام کر جا تے ۔ مقامی لوگ تو فرقوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے تھے ایک د وسرے کو مارنے کاٹنے میں مصروف رہتے تھے ۔ میرے ملک والے ہی نہیں دوسری بڑی طاقتوں کے ایجنٹ مقامیوں کو تقسیم کر نے اور لڑانے میں لگے ہوئے تھے ۔ ان کے مقاصد مختلف ہو سکتے تھے لیکن ان سب کا طریقہء کا ر مشترک اور ایک جیسا تھا ۔ میں یہاں آیا تو پتہ چلا کہ یہاں فرائضِ منصبی ادا کرنے کے اوقات صحیح معنوں میں کل وقتی تھے یعنی دن اور رات کے چوبیس گھنٹے ساتھ ہی یہ بھی پتہ چلا کہ گھر جانا کوئی آ سان نہیں۔ فون کالس پر بھی پابندی تھی۔ ای میل پر بات کرنا بھی متعیّنہ حدود کے اندر ممکن تھا ورنہ درمیان سے سینسر ہو جا تا۔ حدود سے میری مراد موضوعات کے حدود۔ سچ تو یہ ہے کہ گفتگو ہا ئی ، ہیلو ، ہوَ آر یو ، فائن ، تھینک یو ، آئی لو یو ، لو یو ٹو ، اوکے ، ٹیک کیئر تک ہی محدود ہوتی۔ محکمہ جاتی مراسلت ، پرنٹڈ میٹر ،کی شکل اور خاص معاملات ’’ کوڈ ‘‘ میں بھیجے جاتے۔ جیسے ہی میں وہاں پہنچا مجھے بہت سارے معاملات پر بریف کردیا گیا ۔ ہر روز کے انسٹرکشن ایک مخصوص طریقہء کا ر کے تحت روز روز مل جا تے ، انٹر نیٹ پر بھی بہت کچھ لیا اور دیا جا تا۔یوں تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا لیکن بڑامسئلہ یہ تھا کہ میں اپنی بیوی سے قریب قریب جدا ہو گیا تھا۔ یہ جدائی مجھے بے حد شاق گزرتی۔۔۔۔۔ وہ بھی میری جدائی میں بہت بور ہو تی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔ اتنے عرصے کے ساتھ میں یہ حقیقت مجھ پر آشکار ہو چکی تھی کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے لئے بنے تھے ۔ ایک دو سر ے کے ساتھ رہ کر ہی زندگی گزار سکتے تھے ’’ ہَوسوئیٹ اینڈ ہَو اوریئنٹل ‘‘ (کتنا پیارا اور کتنا مشرقی ) میں نے اپنی ا س سوچ کی آ پ ہی تضحیک کی۔ یوں تو میں گھر جانے کے لئے پہلے ہی ہفتے سے جُگاڑ نکالنے میں لگا تھا لیکن کامیابی تیسرے مہینے کے اواخر میں نصیب ہو ئی ۔ شاید یہ کا میابی بھی اس لئے ممکن ہوئی تھی کہ ہم لوگوں نے کم وقت میں مطلوبہ نتائج حا صل کر لئے تھے۔ جن دو بڑے مذہبی گروہوں میں منا فرت کے بیج ہم نے بوئے تھے وہ اب قد آور درختوں کی صوررت اختیا ر کرکے پھل دینے لگے تھے۔ دونوں گروہوں کے اربابِ اختیارمیں سے بیشتر نہیں چاہتے تھے کہ آپس کے اختلافات کو ہوا دی جا ئے ۔اس سبب سے ہمارا کام قد رے مشکل ہو گیا تھا۔ چاروناچار ہمیں ایسے اقدامات کی جا نب رجوع ہو نا پڑا جو خود ہما رے لئے بھی خطرے سے خالی نہیں تھے۔ ہر صورت میں ہمیں پردے میں رہنا تھا۔ بہر حال ایک سے زائد مرتبہ کبھی اِس گروہ اور کبھی اُس گروہ کے لوگوں کو دورانِ عبادت قتل کر وا نا پڑ تا ، تا آنکہ ان کا پیمانۂ صبر چھلک پڑا اور وہ ایک دوسرے کا خون بہا نے پر مجبور ہو گئے۔ یہی ہمارا سب سے بڑامشن تھا اور اس مشن میں ہم کامیاب ہو گئے تھے ۔اسی دوران ہمیں اپنی ایمبیسی کے چند مقامی ملا زموں کو بھی مروانا پڑا۔ افسوس کہ مقامیوں کے علاوہ ہمارا ایک آد می بھی زد میں آ گیا ۔ اس طرح کے واقعات تو ہما رے پیشے کے معمو لات میں داخل ہوتے ہیں ۔ کہاں ہما ری ایک جان اور کہاں مقامیوں کی ہزار جانیں۔۔۔۔۔ دونوں میں کوئی تناسب نہیں دیکھا جا سکتا تھا ۔ ریاست کے دونوں بڑے گروہ ایک دوسرے کے ساتھ بر سرِ پیکار تھے۔ آئے دن فسادات رو نما ہونے لگے تھے ، لا اینڈ آرڈر کا شیرا زہ بکھر چکا تھا۔ قانون کی حکمرانی اور حکومت کے رِٹ کے تصوّر کی اینٹ سے اینٹ بج چکی تھی۔ اسٹاک ایکسچینج کا انڈکس روز بروز گرتا جارہاتھا ۔باہر کے لوگوں نے جو پیسہ ریاست کی صنعت و تجا رت میں لگایا تھا اسے تیزی سے نکال رہے تھے۔ مقامی انو یسٹرز کی کمر ٹوٹ چکی تھی ۔حکو مت بیرونی قر ضو ں کے جال میں پھنستی جا رہی تھی ۔بیرونی طاقتیں امداد کے نام پر غلا می کے طوق پہنانے میں مصروف ہو گئی تھیں۔ پڑ و سی ملک ریاست کی سر حدوں پر اپنی رال ٹپکا رہے تھے ، غرّا رہے تھے ، دھمکیاں دے رہے تھے جس کے نتیجہ میں ریاست کے وسائل ، بیرونی قرضوں ، اور امداد کا بڑا حصّہ ہتھیاروں کی خریداری اور دفا عی سا مان کی فرا ہمی میں صرف کیا جا رہا تھا۔ ایک کمزور ، زوال پذیر ملک بہت جلد ہما ری گود میں گرنے کے لئے تیّار ہو رہا تھا۔ بہت جلد وہ بظا ہر آزاد اورببا طن ہمارا غلام ملک ہونے جارہا تھا۔ ہمارا محکمۂ فوج اس ملک میں اپنا فوجی اڈّہ بنانے کی تیّا ریاں پہلے ہی مکمل کر چکا تھا ۔ جس دن میں اپنے گھر کے لئے پرواز کرنے والا تھا مجھے یہ احکا مات وصول ہوئے کہ میری چھٹّی منسوخ کی جا چکی تھی اور اب مجھے سرکا ری کام سے جا نا تھا۔ اس کام کی مدّت ایک ہفتہ تھی۔ البتہ مجھے اجا زت دی گئی تھی کہ میں اپنے گھر رہ سکتا تھا۔ یہ صورتِ حال میرے لئے خلافِ توقع حد تک بہتر اور قابلِ قبول تھی شاید ایسی ہی صورتِ حال کو ’ ایک پنتھ دو کاج ‘ کہا جاتا ہے۔ میں خوش تھا ، اور کیوں نہ خوش ہو تا آخر گھر جا رہا تھا ۔۔۔۔گھر ، جہاں میری بیوی رہتی تھی ۔ میں یہ محسوس کرکے بے حد حیران تھا کہ میری خوشی میں کوئی اڑ چن سی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے میں خوش ہوں بھی اور نہیں بھی۔ ’’یہ سب کیا ہے ؟ ‘‘میں یہ سب سوچنے پر مجبور تھا۔ بیوی سے اتنا عر صہ جدا رہنا میرے لئے کیسا تجربہ تھا یہ میں خوب جانتا تھا۔ میرے سوا اور کون جان سکتا تھا ؟ شاید یہ بھی پورا سچ نہیں تھا۔ پورا سچ تو یہ تھا کہ میرے چہرے مہرے ،طور و اطوار سے یہ پتہ چل گیا تھا کہ میں ان شوہروں میں سے تھا جن کو ’ ہین پیکیڈ ‘کہا جاتا ہے۔ سب کو نہیں تو میرے ایک افسرِ با لا اور ایک رفیقِ کار کو ضرور اس کا اندازہ تھا۔ اس کا پتہ مجھے اس طرح چلا کہ جب میرے افسرِبالا نے ایک پارٹی میں مجھے اس کارنر میں بیٹھے دیکھا جہاں وہ لوگ بیٹھتے ہیں جن کو ڈانس کرنا نہیں آتا یا جو کسی نہ کسی سبب سے ڈانس کر نے سے گریزاں ہو تے ہیں ۔ اس نے مجھے دیکھا ، مسکرایا اور آ نکھ دبا کر بولا ’’انجوائے دی پارٹی اولڈ مین‘ ‘ آخر پارٹی میں مسز ذی کا کوئی مصرف ہونا چاہئے۔ اور ہاں مس ایکس تو تمہیں ہڑپ کر نے کے لئے با لکل تیّار ہے۔ اگر تم اسکو مگر مچھ بن کر نگل بھی جا ؤ تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا اور نہ ہی محکمے کو ہو سکتا ہے ‘‘ میں بھی جواب میں مسکرایا لیکن اس جگہ سے اس وقت تک نہیں ہلاجب تک ڈانس کی موسیقی بند نہیں ہوئی ۔ میں نے ڈانس کے دوران مسز ذی اور مس ایکس پر اچٹتی نظر ڈالی وہ دونوں ڈانس کرتے ہوئے مردوں پر اس طر ح گر رہی تھیں جیسے تتلیاں پھولوں پر گرتی ہیں۔ اس کے دوسرے دن کافی بریک کے دوران اس نے مجھے تنہا بیٹھا دیکھ کر صرف اتنا کہا ’’ بیوی یاد آرہی ہے ۔۔۔ہے نا ‘‘ اور ہنستا ہوا ایک لمبی ٹانگوں والی لڑکی کے ساتھ کافی لاؤنج سے با ہر نکل گیا ۔ کسی ایسے ہی موقع پر ایک کو لیگ نے بھی میرے ساتھ ایسا ہی رویّہ اپنایا۔ ایک ہر دلعزیز دیالو مقامی لڑکی جس سے میل جول کا اوپر سے او کے سگنل ملا ہواتھا خود میری طرف آئی اور مجھے اپنے گھر لے جا نے پر اصرار کرنے لگی لیکن میں پس و پیش کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔ میرے اس کولیگ نے دور ہی سے صورتِ حال کو بھانپ لیا اور میری کلائی پر بندھی گھڑی جیسی شکل کے فون پر مجھے پیغام دیا ’’ اے بیوی کے وفادار احمق !اگر تو نے اس خوبصورت کتیا کو ٹھکرایا تو میں تجھے مار ڈالونگا۔‘‘ یہ بتانا ضروری نہیں کہ میں اس خوبصورت نو جوان کتیا کے ساتھ اس کے گھر چلا گیا۔ اس کا گھر جو ایک بوڑھی آنٹ کی موجودگی کے باوجود ہم جیسے دورافتادہ جوان آدمیوں کے لئے جنّت سے کم نہ تھا ۔۔۔۔۔ یہ اور بات جب ہم دنیا و ما فیہا سے بے خبر ایک دوسرے کے مزے لوٹ رہے تھے گھر کے ایک کونے میں رکھے ہوئے ٹی وی اسکرین پر مقامی لوگوں کے ہاتھوں مارے گئے مقامی لوگوں کی لاشیں ایک عبادت خانے کے اندر جگہ جگہ خون سے لت پت دکھائی جا رہی تھیں۔ عجیب لوگ تھے کہ بچّوں ،جوانوں، اور بوڑھوں کی لاشوں کا انتہا ئی قصّا با نہ انداز سے بار بار نظارہ دکھا رہے تھے ، کیف ومستی میں پوری طرح غرق ہوجا نے کے باوجودمیں اس منظر سے بد مزہ ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور واش روم جاکر الٹی کرنے پر مجبور ہوگیا۔ یہ اور بات کہ میں نے اپنے احساسات اس مقامی حسینہ پر ظا ہر نہیں ہونے دیئے ورنہ وہ ضرور حیران رو جاتی کہ اتنے بڑی عالمی طاقت کا ایک سپوت اتنا جذ باتی اور نرم دل۔ ’’کیا میں واقعی نرم دل ہوں ۔۔۔ ہیو مینٹرین۔۔۔۔ ٹو ہیل وِد اِٹ۔۔۔شٹ۔‘‘میں اندر ہی اندر اپنے آپ پر غصّہ ہوا اور اپنے اندر کے وُلف (بھیڑیئے ) کو باہر نکال کر اس مقامی لیکن جان لیوا بھیڑ پر ٹوٹ پڑا اگر میں ایسا نہ بھی کر تا تو بھی وہ میرا والٹ ضرور ہلکا کرتی۔
بیوی سے میری ملا قات ایئر پورٹ پر ہو ئی ، وہ مجھے ایئر پورٹ پرلینے آئی تھی ، معمول سے کہیں زیادہ پُر کشش لیکن قد رے مختلف اس نے بالوں کوبالکل ہی مختلف انداز سے بنایا ہوا تھا جسکی وجہ سے اسکا چہرہ بدل سا گیاتھا، گردن اور زیادہ پتلی ہو گئی تھی۔ اس کا لبا س بے حد مختصر تھا۔ اٹھنگی سے شر ٹ اورچھو ٹی سی چڈّھی وہ بھی بھڑ کیلے لال رنگ کی۔وہ سر سے پیر تک دعوت ہی دعوت تھی۔ میں نے اس سے قبل اپنی بیوی کو کسی پبلک پلیس پر ایسے لباس اور ایسے انداز میں نہیں دیکھا تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ چلتے ہوئے ایئر پورٹ کے کار پارکنگ کمپلیکس کی بھول بھلیّوں میں بھٹک رہے تھے ۔ میرے جن ہاتھوں کو بیوی کے پتلی کمر کے گردحلقہ بنانا تھا وہ ہینڈ کیری گھسیٹ رہے تھے اس کے لازمی نتیجے کے طور پرمیری بیوی نے اپنے ایک بازو سے میری کمر کو اور کولھوں کو تھاما ہوا تھا۔ ایئر پورٹ سے گھر جانے کے دوران میں نے اپنی بیوی کا اچھّی طرح جائز ہ لیا۔ اس مختصر لباس میں گاڑی چلاتے ہوئے وہ بالکل برہنہ لگتی اگر اس کے کپڑوں کا رنگ بھڑکیلانہ ہو تا ۔جب میں نے اس کے چہرے کا جائزہ لیا تو اسکی آنکھو ں کے نیچے سیاہی مائل بھورے حلقے نظر آئے۔ ’’کیا وہ بیمار تھی۔۔؟ کیا وہ دیر دیر تک جاگتی رہتی تھی ۔۔؟ کیا اس نے میری جدا ئی کو اپنے اندر لے لیا تھا۔۔؟ کیا وہ زیادہ پینے لگی تھی۔۔؟‘‘ ایئر پورٹ سے گھر بہت زیادہ دور نہ تھا۔ جب ہماری گاڑی گھر کے گیراج میں داخل ہو رہی تھی ۔ میں نے اس کے گال پر ہلکی سی تھپکی دیتے ہوئے بڑے پیار سے پوچھا ۔’’ کیا تم زیادہ پینے لگی ہو ۔۔‘‘ میرے اس سوال پر وہ چونکی اور بولی ۔ ’’ تمہیں کیسے معلوم ہوا۔۔؟ ہم دونوں گا ڑی سے اترے ، اتر تے ہی وہ تیزی سے میری طرف آئی اور مجھ سے لپٹ ہی نہیں بلکہ چمٹ کر سسکیاں لینے لگی ،گیراج کا شٹر اوپر ہی تھا ، میں نے اسکے ہاتھ سے ریموٹ لیا اور شٹر گرا دیا ۔ میں اسکو لپٹائے ، لپٹائے چھوٹا سا چوبی زینہ چڑھ کر اور اسکو اپنے سہارے چڑھاکر گھر میں داخل ہو گیا۔ گھر کے اندر پہونچتے ہی وہ آواز سے رونے لگی ،میرے گلے میں اپنی باہیں حمائل کئے ، میرے چوڑے سینے سے اپنا گداز سینہ چپکائے وہ رورہی تھی کبھی آواز سے اور کبھی بے آواز۔۔۔آخر میں نے اس کو انتہائی رسان سے ، نرمی سے اپنے بدن سے جدا کیا ۔۔۔اسکے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور اسکے روتے پھڑکتے منہ اور ہونٹوں کو اپنے منہ اور ہونٹوں سے بند کیا ،ایک خاموش طویل بوسے کی صورت میں جو ہم دونوں کے جسموں سے ہوکر روحوں میں اتر گیا اور دیر تک اترا رہا۔۔۔ جب میں نے اسکے منہ کو آزاد کیا تو اس نے اپنا سر جھکا لیا اورسر گو شی کی جیسے کسی گناہ کا اعتراف کررہی ہو۔ ’’ یس ڈارلنگ۔۔ تمہاری پیاری بیوی ایک ڈرنکرڈ ۔۔ایک بلڈی ڈرنکرڈ ہوگئی ہے ۔ !! ‘‘ میں نے اپنے آپ پر قا بو پا لیا ۔اس قسم کے پروفشلزم کی ہمیں تربیت دی جا تی ہے ۔ ورنہ سچ پوچھئے تو اپنی بیوی کی حالت اور اس اعتراف سے میرے اندر بہت کچھ ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ اس سے قبل وہ بیئر بھی کم کم پیتی تھی ۔ شیمپیئن بھی صرف چند چسکیاں۔وہسکی کے جا م تو وہ لبوں سے چھونے سے بھی گریز کرتی۔ میں نے تاسّف ،تردّد اور تفکّر کے سارے مرحلے اس ایک لمحے میں ،ایک ہی ساتھ طے کر لئے تھے ۔ ساتھ ہی اپنے آپکو خوف زدہ بھی محسوس کر رہا تھا ،یہ سب میرا اندر تھا۔اپنے باہر جو میں نے ردِّ عمل ظاہر کیا وہ یہ تھا کہ میں نے اس کے ہونٹوں پر دو انگلیاں ثبت کیں پھر آہستہ سے کہا ’’اس موضوع پر کسی اور وقت بات کریں گے ‘‘
گھر جاکر ، بیوی سے ملا قات کرکے میں نے صورتِ حال کی مضحکہ خیزی کا خوب خوب عرفان کرلیا تھا۔ محکمے نے مجھے چھٹّی پر نہیں بلکہ ڈیوٹی پر روانہ کیاتھا۔ یہاں تک کہ میرا گھر جانا اور اپنی بیوی سے ملنا بھی ایک ڈیوٹی جیسا لگ رہا تھا ۔۔ ۔۔ڈیوٹی سے بھی زیادہ سنجیدہ اورگھمبیر ۔۔۔۔میری حالتِ زار کا اندازہ صرف وہی انسان لگا سکتا تھاجسکا واسطہ کسی عادی شرابی سے پڑا ہو اور وہ بھی شرابن بیوی سے۔ ایک جانب میں اس کام میں جٹا ہوا تھاجو میرے سپرد کیا گیا تھا تو دوسری جانب میں اپنی بیوی کو زیادہ سے زیادہ وقت دینے کی کوشش میں لگا تھا ۔ میں چاہتا تھا دونوں محا ذوں پر کامیاب ہو جا ؤں ۔ سرکاری کام قدرے آسان ثابت ہو رہا تھا لیکن غیر سرکا ری کام جس کا تعلق میری اپنی بیوی سے تھا میرے لئے ’’نا قابلِ حصول ٹارگٹ ‘‘ بنتا جا رہا تھا ۔ سرکا ری کام ڈکیو مینٹیشن کی نوعیت کا تھا انفار میشن کو ڈس انفارمیشن میں بدلنے کا اور ڈس انفارمیشن کو مصدّقہ ( اتھینٹک ) بنا نے کا۔ ایک ہفتے کے کام کو صرف دودن میں نمٹا چکاتھا اب میری پوری توجّہ اپنی بیوی پر تھی۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے شراب ترک کر دی تھی البتہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری خاطر وہ ٹُن ہو نے سے بچنے لگی تھی ۔ دن میں ’ جوب ‘ کے دوران پینے سے یوں بھی بچتی ہو گی۔میری خاطر ’جوب ‘ سے چھٹّی کر نے کے باوجود وہ شراب کو ہاتھ نہیں لگاتی تھی۔ لیکن میرے گھر سے باہر جاتے ہی وہ ایک دو گھونٹ حلق سے نیچے اتارلیتی ۔ میں اسکی پسند اور اسکے طریقۂ کار سے و اقف ہو چکا تھا۔ زیادہ تر وہ ’’ ووڈکا ‘‘ سے شوق کرتی لیکن موقعہ ملتا تو ’’ جن ‘‘ میں سنگتروں کا رس آمیز کر کے چڑھاتی۔ وہسکی کے لئے وہ ہمہ وقت تیّار رہتی اور اسکے ساتھ سیب کا رس پی کر تو وہ خود شراب بن جاتی ۔ شام کا آنا تو غضب ہو جا تا۔ شام ۔۔۔۔اور شام کے بعد وہ بڑی مشکل میں پڑ جا تی۔پہلے وہ مجھ سے چھپ کروا ش روم میں پیتی لیکن بہت جلد چھپنے چھپانے کے تکلّف سے آزاد ہو جاتی۔میں حتی ا لامکان اس کا ہاتھ روکتا لیکن اس کو روکنا مشکل سے مشکل تر ہو تا جا تا۔ اس کو پکڑنا اس لئے مشکل ہو تا کہ وہ ہر قسم کے برتن میں ڈال کر رکھ لیتی تاکہ نظر میں آئے بغیر ’ پی سکے ‘ عام گلاس ، ڈسپوزل ایبل گلاس ، کوئی سا بَول (پیالہ ) ،چھوٹا ، بڑا ، سوپ نوشی کا ، یا جوس پینے کے مقصد کا کوئی سا کپ ،یا مگ ۔۔۔۔ گھر کے اندر وائن بَول میں وہ عام طور پر پانی پیتی تھی۔پانی پینے کا تو یونہی ذکر آ گیا۔ شراب کی زیادتی نے اس کے جگر پر اثر کرنا شروع کر دیا تھا وہ پانی پینے اور پانی ہضم کر نے کے لائق نہیں رہی تھی ۔۔۔ شراب کی عادت نے ، میری جدائی نے ،نئے لوگوں کی صحبت نے ، اس میں کچھ بدلاؤ بھی کر دیا تھا۔۔۔ اس کا پہلا تجربہ یوں ہوا کہ ایک شام جب میں واش روم میں نہانے گھسا تو وہ بھی میرے ساتھ لگی چلی آئی ا ور میرا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتی ہوئی شاورباتھ میں لے گئی میں ننگ دھڑنگ اس کے پیچھے گھسٹتا چلا گیا ، میں شاور کے نیچے کھڑا تھا اور وہ شیشے کی دیوار کی دوسری جا نب کھڑی مجھے دیکھتی رہی تھوڑی دیر وہ مجھے دیکھ کر ہنستی رہی پھر نجانے کہاں سے اس کے ہاتھ میں ایک گلاس آگیا۔جس میں میرے اندازے کے مطا بق چار پیگ تھے۔ کھڑے کھڑے اس نے ایک ہی سانس میں ساری کی ساری شراب حلق سے نیچے اتارلی اور خالی گلاس قریب ہی کہیں رکھ کر جب وہ نمودار ہو ئی تو اس کے گلے میں لٹکے ہوئے ایک ننھے سے کراس کے علاوہ تن ڈھانپنے کے لئے اور کچھ نہ تھا۔ ’’تمہیں تو شا ور کے نیچے نہانا بھی نہیں آتا ‘‘اس نے گھٹی گھٹی ہنسی میں ملی جلی آواز سے کہا۔ پھر اس نے مجھے شاور کے نیچے نہانے کا درس دینا شروع کیا۔ تھوڑی دیر کے لئے میں یہ بھی بھول گیا کہ میری بیوی ایک ’’ شرابن ‘‘تھی جس کو مجھے ایک نارمل عورت بنا نا تھا ۔ اس وقت وہ صرف ایک عورت تھی ۔
اس عورت نے مجھے شاور کے نیچے نہا نے کا جو درس دیا تھا کس سے سیکھا تھا؟ میری بیوی تو یہ سب کچھ نہیں جانتی تھی۔ کیا یہ عورت ’’ میری بیوی نہیں ہے ؟ ‘‘ کیا یہ کوئی اور عورت ہے ؟ کیا ’’میری بیوی ‘‘ بدل گئی ہے؟ کسی اور عورت نے میری بیوی کی جگہ لے لی ہے؟ اگر یہ ’’ میری بیوی ‘‘ نہیں ہے تو یہ شرا بن میرے گھر میں کیا کررہی ہے؟
شاور کے نیچے نہانے کے بعد پہلی تنہا ئی میسّر آ نے پر میں نے اپنے آپ کو ان جیسے بے شمار سوالوں میں گھرا ہوا پایا۔
جس پہلی تنہائی کا ذکر میں نے کیا ہے وہ میں نے کس طرح گذاری اس کا ذکر آ پ کے لئے با عثِ تعجب ہو گا ۔ وہ کسی طرح بھی تنہا ئی کہلا نے کی مستحق نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ ایک ڈسکو کلب تھا ، مجمع ، شور ، رقص ، گہما گہمی ، لپٹا لپٹی ، خوشبو ، رنگ ، رنگ برنگی روشنیوں کی مار ، ہر سائز ، ہر وضع ، ہر عمر ، ہر قماش کی عورتیں اور مرد ،ٹین ایجرز سے لے کر پختہ جوان مرد ، ادھیڑ ، بوڑھے ، سینیئرس ، ساٹھے پاٹھے ، سترے بہترے ، ایک دو ان سے بھی گئے گزرے ، ایک دو معذور ، ایک وہیل چیئروالا ، دو ایک مصنوعی بازو ، مصنوعی ٹانگ والے ریٹائرڈ فوجی جن میں بیشتر کسی نہ کسی جسمانی نقص کو اپنی فوج کی سوغات کے طور پر پیش کر نے کے شوقین !ڈاڑھی والے ، کلین شیو ،صرف مونچھوں والے، گنجے مرد ، گنجی عورتیں ، وِگ پوش مرد ، وِگ پوش عورتیں ، بلونڈ بالوں والی عورتیں ، برینٹ بالوں وا لی عورتیں،سرخ سر والے مرد اور عورتیں ، گورے لوگ ، کالے لوگ ، بھورے لوگ ، زرد لوگ ، لمبے ، ٹھگنے ، موٹے ، دبلے لوگ ، شریف ، بدمعاش ، شرابی ، ڈرگ ایڈکٹس ، جواری ، چور، اسمگلر ، نو سر باز ، ڈاکو، اپنی موجودگی کا ثبوت دینے والے ، اور اپنی موجودگی کو غیر محسوس کرانے والے ، اپنے شوہروں کی نگراں عورتیں ، اپنی عورتوں کے نگراں مرد ،سِلیبریٹیز مرد اور عورتوں کے ساتھ ان کے با ڈی گارڈز ، ایک جانب کسی کسی پول سے لپٹی ہوئی برہنہ لڑکیاں ، بے شمار قوموں ، رنگوں ،نسلوں کی نما ئند گی کر تے ہوئے کسی چھو ٹی سی ڈائیس پر اسٹرپٹیزپرفارم کرتی ہوئی لڑکیاں جو پانچ سے دس ڈالر کے عوض اپنا سب کچھ لٹانے پر تیاررہتیں۔ رقص ، موسیقی ، شور ، جوانی ، مستی ، شراب ، نشہ ، جوا ، ڈالروں کی ریل پیل کے اس عالم میں،خود شراب پینے ، نیم مدہوش ہونے ، کچھ لڑکیوں کو چھیڑنے ، کچھ لڑ کیوں کو گالیاں دینے ،ایک آدھ سے گالی کھانے ،کچھ ما ل جوئے میں لٹانے کے بعد میں اس قابل ہوا کہ اپنی بیوی کے بارے میں کچھ سوچتا اور جیسے ہی میں نے سوچامیرے ذہن میں ایک جھما کا سا ہوا ۔۔ایک تجلّی،شاید ایسی ہی تجلّی پرنس سدھا رتھؔ کے ذہن میں نمودار ہوئی تھی جب وہ دنوں ہفتوں یا شاید مہینوں ایک پیپل کے پیڑ کے نیچے گیان دھیان میں لگے رہے تھے۔ یہ بات پہلی مرتبہ اپنے ایک پرائمری کلاس کے ٹیچر سے سنی تھی۔اس تجلّی کے بعد وہ پرنس سدھارتھ سے ’’ بدھا ‘‘ بنے تھے ۔
میری تجلّی سے مجھے بھی کچھ بن جانا تھا ۔ لیکن ضروری نہیں ہے جو کچھ ہونا ہے وہ فوری ہو جا ئے ۔ اس ریا ست میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی نیو برسوں پہلے رکھی گئی تھی۔اور جو بہت بعد میں ہوگا اس کی داغ بیل آج ڈالی جارہی ہے۔ ڈسکو کلب کے اس متوالے صد رنگے ہجوم میں اچانک وہ ہوجا ئے جو اس ریاست کی عبادت گا ہوں میں ہو رہا ہے تو کیا ہو ؟۔ ہنستے کھیلتے لوگوں پر اچانک نزول ہو دہشت ، خوف ، تباہی ، بربادی ، ٹوٹ پھوٹ ، شور شرابہ ، کراہیں ، انسانی اعضاء کا جسموں سے علیحدہ ہو نا ،دور و نز دیک گرنا ،سروں کا دھڑوں سے کٹ کر چھتوں اور دیواروں سے ٹکرانا ،انسانی خون کا زخموں سے رِسنا ،بہنا ، اور کسی جسم سے فوّارے کی طرح اڑنا ، لوگوں کی بھگدڑ ، مردہ جسموں سے الجھ کر گرتے ہوئے لوگ ،اور مردہ یا نیم مردہ جسموں کو کچل کر گزرتے ہو ئے لوگ ،لیٹے لیٹے کراہتے اور چلّا تے لوگ ، رینگ رینگ کر ، گھسٹ گھسٹ کراس قیامت والی جگہ سے باہرنکل جانے کی کوشش میں مصروف لوگ ۔ چھوٹی عمر میں اپنی پرائمری ٹیچر سے میں نے سنا تھا کہ پرنس سدھارتھ(بھگوان بدھا ) نے اپنی محل کی زندگی تج دیتے اور بچّے اور بیوی کو سوتا ہوا چھوڑتے سمے ، اور بعد میں ’گیا‘ (ہندوستان ) میں سچ کی تلاش میں ادھر اُدھر بھٹکتے ہوئے اور بالآخر پیپل کے پیڑ تلے آسن جما کر بیٹھنے کے دوران طرح طرح کے آ زاروں اور دکھوں میں مبتلا مخلوق کا دھیان کیا تھا ۔ میں بھی تو وہی کرنے لگا تھا ۔ تو کیا میں دوسرا بدھ بھگوان بننے جا رہا تھا؟ لیکن میں ان سے قطعی مختلف آد می تھا۔وہ انسانوں کودکھوں سے محفوظ کرنا چا ہتے تھے اور میں ۔۔۔ میں تو ایک بہت بڑی مشین کا پرزہ تھا جس کا کام ہے انسانوں کو دکھوں میں مبتلا کرنا۔۔پرنس سدھا رتھ نے اپنی جس جوان بیوی کو ترکِ دنیا کرتے سمے سوتا چھوڑا تھا اس پر دنیا خا موش تھی ۔اس کے بارے میں اگر کچھ ملتا بھی ہے تو اسکی نوعیّت ، قیاس اور گپ شپ کے دا ئرے میں آتی تھی ۔ میں نے بھی تو اپنی بیوی کو تنہا چھو ڑا تھا۔ میری بیوی بھی مجھے اتنی ہی پیاری تھی جتنی پرنس کی بیوی پرنس کو پیا ری تھی ،جوانی ہم دونوں کی بیویوں کے درمیان قدر مشترک بھی تھی
ڈسکوکلب کی پُر ہجوم تنہائی میں بیوی کے با رے میں گیان کی جو روشنی میرے ذہن میں اتری تھی اس کے تحت میں نے بیوی سے پوچھا’’میری غیر موجودگی میں کوئی دوسرا مرد ؟ ‘‘ ایئر پورٹ جا تے ہوئے گاڑی میں چلا رہا تھا اور وہ میرے ساتھ اس طرح بیٹھی ہوئی تھی کہ اس کا ایک چوتھا ئی بدن مجھ پر لدا ہو تھا ۔میرا سوال اس کے کانوں کے راستے اسکے دماغ میں اور دماغ سے شاید اسکے پورے بدن میں گونج گیا ۔ اس کا بدن اچانک تن گیا ۔ وہ مجھ سے علیحدہ ہو گئی اور تن کر بیٹھ گئی۔میں اس کو کنکھیوں سے دیکھ کر اس کے اعضاء کی حر کت کا جا ئزہ لے رہا تھا۔ریفلیکس ایکشن (غیرارادی حرکات ) پر میرا اچّھا خاصا مطالعہ تھا ۔۔ با ڈی لینگویج سے واقف تھا۔وہ سیدھی ہوکر اور اپنی سڈول خوبصورت اور بے حد گوری ٹانگوں کو اکڑ اکر بیٹھ گئی جیسے اس کا جسم کسی ناگہا نی حملے سے بچنے کے لئے تیّار ہو گیا ہو ۔اس نے مجھے بغور دیکھا۔میرا چہرہ سنجیدہ تھا۔ معمول کی مسکراہٹ سے بھی خالی ۔‘‘
’’ کیا یہ ایک سنجیدہ سوال ہے جو تم پوچھ رہے ہو ؟ ‘‘
’’ یس‘‘ میں نے اس کے بعد ’میڈم ‘کہنے سے اپنے آپ کو بمشکل باز رکھا ۔ اگر کہہ دیتا تو میری یہ ’’ یس ‘‘ خوفناک حد تک طنزیہ بن جا تی ۔
’’ تم نے اس سوال کے لئے بہت ہی غلط وقت چنا ہے ۔ کاش!تم کسی فرصت کے وقت پوچھتے اور میں تفصیل سے کام لیتی۔‘‘
بولتے بولتے وہ رک گئی اور یوں لگا جیسے گاڑی کے شیشے سے باہر دیکھ رہی ہو ۔ایک لحظہ کے لیے ایسا بھی لگاجیسے وہ رو رہی ہو۔رونے پر قابو پا رہی ہو یا بس رونے والی ہو ۔۔ پھر اسی طرح شیشے سے دیکھتے ہوئے اس نے گر یہ سے معمور آواز میں ایک ہلکا سا ’’یس‘‘ گا ڑی کی بند فضا میں چھوڑ دیا۔ جو کسی سائلنسر لگی ہوئی گن سے نکلی ہوئی گولی کی طرح میرے ذہن میں پیوست ہو گیا ۔
ایئر پورٹ پر جب میں ڈرائیونگ سیٹ سے نیچے اترا تو وہ میری جگہ کھسک آئی اور گاڑی پارک کرنے چلی گئی ۔ جس وقت وہ گاڑی پارک کر کے لوٹی میں کلیرنس لے چکا تھا۔ ہم دونوں نے آنکھیں نہیں ملائیں ۔البتہ جب میں اپنی ہینڈ کیری گھسیٹتا ہوا دوسرے مسافروں کے ساتھ جہاز کی طرف جا نے لگا تووہ ایک جھٹکے کے ساتھ میرے سینے سے آ لگی اور دوسرے لمحے علیحدہ ہوگئی اور ایئر پورٹ کی بیرونی راہداری کی طرف اس کے قدم بڑھنے لگے ۔ اس کی جانب دیکھے بغیر میں یہ بتا سکتا تھا کہ وہ آنسوؤ ں سے رو رہی تھی ۔میرا یہ سفر کس طرح کٹا آپ اندازہ کر سکتے ہیں ۔ بچپن میں آپ کبھی پتنگ اُ ڑارہے ہوں،اچانک ہوا تیز ہو گئی ہو، ڈور سے پتنگ سنبھالنا مشکل ہو گیا ہو، اورپھر ڈور نہ صرف آپکے ہاتھوں سے نکل گئی ہو بلکہ چرخی کو بھی اُڑا لے گئی ہو۔ مجھے تو ڈور سنبھالنے کی کوشش کرنے کا موقع ہی نہیں نصیب ہوا اور میری بیوی میرے ہاتھ سے نکل گئی ۔ اسکو تیز ہوا لے گئی۔ ہوا جو قدرت کا مظہر ہے ۔ حالات کا سمبل ہے۔جس پر میرا یا میری بیوی کا کوئی قابونہیں ۔ہماری جدائی ،اس کی تنہائی ۔۔تنہائی کی طویل شام اور لمبی رات جس کی اسکو عادت ہی نہیں تھی ۔جب وہ پہلی بار میرے بغیر گھر میں رہی ہوگی تو گھر کے طو طوں اور کتّے نے اسے ضرور رفاقت دی ہوگی۔ سفید چوہے نے کچھ دیر اسے لّبھائے بھی رکھا ہو گا یا پھر ان سب نے اس کے تنہا رہ جا نے کے احساس کو گھٹن کی حد تک پہنچا دیا ہوگا۔گھر اسے کاٹنے دوڑا ہو گا اور وہ گھر سے باہردوڑ گئی ہوگی اور اور پھر اسکا ایکسپوز ہو گیا ہوگا۔اس ہزار پا ، اکٹوپس کے سامنے جس کو عرفِ عام میں دنیا کہا جا تا ہے۔ میں نے ہمیشہ اسے ایکسپوز ہونے سے بچایاتھا۔ کاش! میں نے ایسا نہ کیا ہو تا ۔اس کو تھوڑاتھوڑا ایکسپوز ہو نے دیا ہو تا۔کیا میری بیو ی واقعی ایک پتنگ تھی جس کو تیز ہوا اڑا لے گئی تھی ۔میری غیر متوقع اور اچانک جدائی کی تیز ہوا۔۔یامیری پتنگ کو کسی شاطر پتنگ باز نے پہلے کاٹا اور پھر لوٹ لیاتھا ۔
میری سوچ جب اس مرحلے پر پہنچی تو جیسے سب کچھ بدل گیا۔۔۔ سارا ما حول بدل گیا۔۔۔۔ ما حول کیا بدل گیا۔۔۔۔۔؟ بدلتا جب کچھ ہوتا ، وہاں تو کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔ جہاز جس میں بیٹھا تھا۔۔۔ مسافر ۔۔۔ چھوٹے بڑے کاموں کے سلسلے میں ادھر اُدھر گشت کرتی ہوئی ہوسٹس لڑکیاں۔۔۔ سب کچھ جیسے ہوا میں تحلیل ہو چکاتھااور اسی ہوا میں ۔۔۔۔۔میں اڑتا ہوا جا رہا تھا ۔۔۔۔میری شرٹ کے اندر جیکٹ تھا ایسا ہی جیکٹ جو عام طور پر خود کُش حملہ آور پہنتے ہیں۔ میرا ٹارگٹ تھا خود اپنے گھر کو دھما کے سے اُڑا دینا کیونکہ اس گھر میں وہ پہنچ چکا ہو گا ۔۔۔۔میری بیوی کی تنہا ئی دور کرنے۔۔۔۔۔
جہاں تک میں اپنی بیوی کو جانتا تھا اس کی بنیاد پر اب میں وثوق سے یہ بات کہہ سکتاتھا کہ میری بیوی نے اپنے آپکو محض اس لئے شراب کے سپرد کیا تھا کہ اس کی زندگی میں ’’ وہ ‘‘ داخل ہوگیا تھا۔ میری بیوی اس قماش کی لڑکی تھی کہ وہ نہ تو میری زندگی میں کسی عورت کو برداشت کر سکتی تھی اور نہ ہی اپنی زندگی میں کسی مرد کو ۔۔۔۔۔ اور جب اس کی زندگی میں ’’وہ ‘‘داخل ہو گیا تو اسکے اندرکی لڑ کی کو زبردست دھچکالگا۔۔۔اس دھچکے کو وہ سہہ نہ پا ئی اور خود کو شراب میں غرق کر دیا ۔۔۔۔۔ ایک لمحہ کے لئے میرے دل کے کسی گوشے میں میری بیوی کے لئے پیار جا گا ۔۔۔۔ لیکن میں تو بدل چکا تھا۔۔۔ میں ۔۔۔۔میں نہیں رہا تھا ورنہ اس احمقانہ مشن پر کیسے روانہ ہوتا ۔۔ میں اسکو حماقت ، دیوانگی ، اور غیر انسانی وحشیانہ زندگی سے تعبیر کرتا تھا۔۔۔۔۔ ایسے کام وہی لوگ سر انجام دیتے ہیں جن کے سر میں یا تو دماغ سرے سے ہوتا ہی نہیں ہے اور ہوتا بھی ہے تو اس پر کسی ماسٹر مائنڈ کا قبضہ ہو چکا ہوتا ہے۔۔۔۔۔
یہ میں ہی تھا جو جہاز میں سوار اپنے مشن کی کی تکمیل کرنے جا رہا تھا اور یہ بھی میں ہی تھا جو جہاز کے باہر الٹی سمت ہوا میں اُڑتا ہوا اپنے ہی گھر کو دھما کے سے اڑانے جا رہا تھا، محض اس لئے کہ گھر میں ’’ وہ ‘‘ پہنچ چکا ہوگا اور مجھے اسے اڑانا تھا ۔ اگر میں نے یہ دھماکا کیا تو گھر کے دوسرے مکینوں کا کیا ہو گا۔ میرا اور میری بیوی کا عزیز از جان کتّا ، جو باہر سے بد صورت اور اندر سے خوبصورت تھا ۔۔۔چھوٹی ذات کے طوطوں کا جنہیں ہم نے بڑے چاؤ سے پا لا تھا۔۔۔۔سفید چوہے کا جسکی ہم اپنے خاص مہمانوں کو زیا رت کراتے تھے ۔۔۔۔؟اور میری بیوی کا۔۔۔ جو میرا سب سے قیمتی اثاثہ تھی۔۔۔۔؟
اس سے پہلے کہ میں ہوا میں اڑتا ہوا اپنے ٹارگٹ پر حملہ آور ہوتا میرا جہاز زمین پر اتر کر ٹیکسی کر نے لگا ۔اسکے ساتھ ہی مجھے ہوش آ گیا۔ میں اپنے ذہن کو سمیٹ کراس مشن پر مر کوز کرنے لگاجو میرے ملک کی جا نب سے اسائن کیا گیا تھا۔ جسکا مقصد مذکورہ ریاست کو تہ و با لا کر نا تھا۔یہ مشن بھی غیر انسانی اور وحشیانہ تھا لیکن میرے ماسٹر مائنڈ کے مطابق اسکا مقصد امن کو فروغ ،کلچر کا بڑھاوا تھا۔ سب سے اہم نکتہ جو میرے اورمیرے ساتھ فرائضِ منصبی ادا کرنے والے ساتھیوں کو فیڈ کیا گیا تھا وہ یہ تھاکہ اس مشن کی تکمیل اوراس ریا ست کے پر خچے اڑانے اورلاتعداد آدمیوں ،فوجی ،غیر فوجی ، مرد ، عورت اور بچّوں کی اموات کے بعد ہمارا ملک پہلے سے زیا دہ محفوظ ہو گا۔ میں اور میرے اس مشن کے ساتھآدمی کم اور ’’پروگرامڈ ‘‘ روبوٹس زیادہ تھے۔ کیا آدمی ’ پروگرامڈ‘ رہنے کے بعد بھی آدمی رہتا ہوگا ؟ اگر آدمی رہتا بھی ہوگا تو کتنا ؟ میں جو کچھ بھی اپنے ساتھ جہاز سے لے کر اترا تھا وہ ریاست کی پیٹھ پر آخری تنکا تھایا شاید اس سے بہت زیادہ ۔۔ میں جانتا تھا کہ ریاست کے بھک سے اڑجانے میں اب زیادہ دیر نہیں تھی ۔۔میں پروگرامڈ روبوٹ جو اپنے اندر رمق برا بر’ آدمی ‘ کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہورہاتھا پہلی فرصت میں یہ انتظام کر لیا تھا کہ میری بیوی اور اس کے ’’ وہ ‘‘ کی نہ صرف نگرا نی کی جاسکے بلکہ اس کی شناخت ، اس کے بارے میں وائٹل معلومات ، اس کی تصویر ، میری بیوی کے ساتھ اسکی تصاویر جلد از جلد مجھ کو مہِیّا ہو جا ئیں ۔ یہ سب کام انتہا ئی راز داری اور پیشہ ورانہ انداز سے انجام پایا۔ اس کام میں بمشکل تین دن لگے۔ساتھ ہی میں جو کچھ لے کر پہنچا تھا وہ انتہائی تیزی سے نتیجے کی طرف بڑھا۔مجھے یقین تھا کہ اس کے بعد کسی اور اقدام کی ضرورت نہیں پڑنی تھی ۔ یہ قطعی طور پر آخری اقدام تھا اس کے بعد جو کچھ بھی ہونا تھا ، خود کار ہونا تھا ۔ اگر چہ تباہی اور بربادی ، خون خرا بہ بھی ا نتہا کا ہونا تھا لیکن کیا کیِا جا ئے ایسے کاموں میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس دن کے آخری ٹارگٹ کو میری نگرانی میں تکمیل پانا تھا۔ میں اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لئے نکل چکا تھا کہ مجھ کو ، میرے گھر کے ، میری بیوی کے بارے میں ایک لفافہ ملا ۔ (یہ میرا خانگی معاملہ تھا اور اس معاملے میں کمپیوٹر کو ذریعہ نہیں بنایا جاسکتاتھا ) میں نے لفافہ بند ہی رہنے دیا اور اسے اندرونی جیب میں ٹھونس لیا۔میری پہلی تر جیح اپنے فرضِ منصبی کی تکمیل تھی اور میں جان و دل سے اس کام میں جُٹ گیا۔ اچانک میرے ذہن میں وہی روشنی ، وہی تجلّی ، پھوٹ گئی جس کا ذکر اس سے قبل ( گیا ) انڈیا کے پرنس سدھا رتھ گو تم بدھ کے حوالے سے کر چکا ہوں۔مجھ کو اور میرے دو ساتھیوں کو اس آخری مشن کی بھینٹ چڑھنا تھا اور میرے ملک نے اسکی تیّا ری کرلی تھی کہ ہم تینوں کسی طرح بچ نہ نکلیں ۔ ہمارے ملک کے اپنے مامور کئے ہوئے آدمی محفوظ فاصلوں پر اس حکم کے ساتھ موجود تھے کہ ہمارے بچ نکلنے کی صورت میں ہمیں نشانہ بنا لیا جا ئے۔ یہ میرا آخری مشن ہی نہیں بلکہ میری زندگی کا آخری دن تھا ،میرا مرنا لکھا جا چکا تھا اور یقینی تھا۔میں پہلی مرتبہ اس سے رجوع ہواجو کہیں نہ کہیں موجود ہے اور وقتِ آخر ہر آدمی اس سے رجوع ہوتا ہے۔ میرے اندر سے گریہ ایک فوّارے کی طرح جاری ہوا ۔ روتے دل ، روتی آنکھیں ، روتے لبوں میں نے اس ہستی سے گڑ گڑا کر معافی مانگی۔اگر چہ جو کچھ میں نے کیا تھا اپنا فرضِ منصبی سمجھ کر کیا ۔ لیکن خلقِ خدا کی اس کثرت سے اموات ،تباہی ، بربا دی ،خون خرابہ کتنا وحشیانہ اور غیر انسانی لگا اس وقت جب کہ میں خود مرنے جا رہا تھا۔اس حا لت میں نجا نے کیسے میں نے وہ لفافہ اپنی اندرونی جیب سے برآمد کیااور اس کو چاک کردیا اس کے اندر سے میری بیوی کے ساتھ ’’ اس ‘‘ کے فوٹو بر آ مد ہوئے ۔ ممکن ہے اپنی موت کو اتنا قریب دیکھ کر میری بینائی میں خلل واقع ہو گیا ہو ۔ہر فو ٹو میں ’ وہ ‘ ہنس رہا تھا۔ وہ ایک مقامی تھا ۔میں نے اسے ریاست میں دیکھا تھایا شاید اس سے بات بھی کی تھی۔ یاد آیا۔۔ میرے ملک اور ریاست کی مشترکہ انجمن کے سالانہ ڈنر میں۔ پیشے سے وہ انجینئرتھا ۔ میرے ملک میں جاب کرتا تھا ، اسی فرم میں ، جس میں میری بیوی ملازم تھی ۔ تصویر کے پیچھے لکھی ہوئی مزید معلو مات پڑھنے کا موقع نہ مل سکا۔میرا مشن پورا ہو چکا تھا۔۔۔میری موت آچکی تھی!