جناب عبداللہ جا وید ایک خوش گو شاعر ہیں انہیں غزل اور نظم پر یکساں قابو حاصل ہے، غنائیت اور شعر یت کے ساتھ ساتھ فکر بھی موجود ہے ۔ان کی پابند نظموں میں تسلسل اور خیال کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ غزل ساما نی بھی پوری طرح موجود ہے۔ان کی غزل میں روایت کے احترام کے ساتھ ساتھ تازہ قا ری کا ہر پہلو موجود ہے۔ ان کی غز ل میں عہدِ حاضر کے سا رے قرینے نظر آتے میں۔ جیسا کہ انہوں نے خود کہا ہے
صنفِ محبوبِ غزل کا تو وتیرہ ہے یہی ہر نئے دور میں یہ تا زہ جوا نی ما نگے
ہر اچّھا شا عر خواب ضرور دیکھتا ہے۔ تعمیر کے خواب ، انسا نیت کی بہبو د کے خواب، عبداللہ جاوید نے
بھی خواب دیکھے ہیں۔ان کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ حقیقت میں بھی خواب کے پہلو تلاش کر لیتے ہیں
کہا بھی ہم نے کہ وہ آدمی ہے خواب نہیں یہ دل غریب مگر خواب دیکھتا ہی رہا
ان کی شاعری میں غمِ عشق کے ساتھ ساتھ شعورِذات بھی ہے ، کائنات فہمی میں بھی اور ذا ت و صفات الٰہی کی آگہی بھی۔کائنات ، اپنی ذا ت اور اپنے خدا سے رشتہ ، یہی تین عناصر ہیں جو حقیقی غزل کو جنم دیتے ہیں اور ایسے ہی شاعر کو یہ کہنے کا حق حاصل ہے کہ غزل کی صنف سمندر کی طرح وسیع ہے
ہم نے اس صنف کو پر کھا تو سمندر پایا لوگ کہتے ہیں کہ داما نِ غزل تنگ بھی ہے
ابوالخیر کشفی