موجِ صد رنگ کے مندرجات ،اسلوب ،بیان ،اندازِ فکر، طرز تغزل، اور روایات کے حدود میں رہتے ہوئے ، طبع زاد تخلیقی ندرت سے مالامال ہیں ا س میں کوئی شبہ ہی نہیں۔ خدا کرے دوسرا مجموعہ جلد از جلد مرتّب ہو جا ئے۔آپکا مجموعہ میرے احباب میں گشت کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی غزل نئے تفکر کی اشارہ نما ہے۔ نئے تغزل کا اشا ریہ ہے، آپ نے موجِ صد رنگ کے دیبا چے میں شعر کے مزاج کی نسبت جن خیالات کا اظہار کیا ہے۔ میں اس سے سو فیصد متفق ہوں ۔ اس مرتبہ کراچی تشریف لا ئیں تو ضرور مجھے شرف ملا قات بخشیں۔ رئیس امروہوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے آپکو بڑی محبت ، انہماک اور شوق سے پڑھا۔ آپ امپریس کرنے کے لئے نہیں لکھتے بلکہ آپ کے یہاں باریک سے باریک نکات بھی بڑے فطری ، شفاف اور غیر ڈرا ما ئی معمول سے نبھ جا تے ہیں جو واقعی بڑی بات ہے۔میری رائے میں اظہار و بیان کا ایسا ہی با لغ اور شور سے پاک انداز مستقبل میں ہما رے ادب کی محلیت کے اسباب کا موجب قرار پا ئیگا۔ جوگندر پال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبداللہ جا ویدؔ کی بیس سالہ کا وشوں کا نچوڑ موجِ صد رنگ کی صورت میں ہمارے پیشِ نظر ہے۔ ساتھ ہی ان کے وہ مضا مین بھی جو محتلف رسائل کی زینت بنے۔ہمیں اس نظرئے کی تلاش ہے جو جاویدؔ کا ایمان بن کراس کے ان ادب پا روں کے تمام جھرونکوں سے جھانک رہا ہے۔ جا وید ؔنے شاید اپنی ان تخلیقات کو ذریعہ بنا کر ان قدروں کے پر چار کا بیڑہ اٹھایاہے جو زندگی ، احساسِ شعور ،وجدا نِ فکراور ان سب سے بڑھ کر انسا ن کی عظمت کی علمبردار ہیں۔ عبداللہ جاویدؔکے نز دیک فن کا معیار آفا قی اور اسے پرکھنے کے لئے کسوٹی انسان۔ وہ انسان جو بلا تخصیص خطہ ،مذہب ، زبان ، رنگ ا ور نسل کے صرف سانس کی آتی جاتی دو دھاری تلوار کی زد میں ہے۔
عبداللہ جا وید نے خود شاعری کی تعریف یوں کی ہے کہ میری رائے میں شاعری صنّاعی نہیں بلکہ خلّاقی ہے ۔ خلّاقی کوخا لص شعوری عمل سمجھنا قرینِ قیاس نہیں۔ تنقیدی شعور کے اس درجے پر پہنچنے والے شا عر کے یہاں داخلیت اور خارجیت دونوں فکرو احساس کے بلند مرتبے ملنا کوئی مشکل نہیں۔ شاید اس لئے جاویدؔ کے ہر تیسرے شعرمیں یہ بات واضح نظر آتی ہے۔ ان نظموں میں:تم جو اَب سامنے ہو،یہ بھی کیا کم ہے ،قلوپطرہ ،زیست،بھاگتے لمحے بدلتے روپ، نوشتۂ دیوار ،لہو عظیم ہے یارو ،اور ویت نام ایک لمحۂ فکریہ، بہت خوبصورت نظمیں ہیں۔
انوار احمد زئی