کینیڈا۔۱۸ستمبر۔۲۰۰۸
عزیز گرامی حیدر قریشی۔سلام خلوص
سنا ہے آپ میرا گو شہ چھاپ رہے ہیں۔یہ نہیں کہ میں ان سب چیزوں سے بے نیاز ہوں۔میں بھی سب کی طرح آدمی ہوں۔قلم کار بھی ہوں ۔ نہ ہی سادھو سنت ہوں نہ تارکِدنیاپیر‘ فقیراور یہ جو1970 سے‘ مشاعروں ‘ مذاکروں سے توبہ کی اور ایک کونہ پکڑا سو اس کے پیچھے ساتھی قلم کاروں کی آپا دھا پی‘ ٹانگ گھسیٹی‘ خود تشہیری ‘ اور خود سا ختہ اور نام نہاد اکا برینِ ادب ‘ نقّا دا ن اکرام اور گدّی نشینا نِ ادارہ ہائے ادب کی غلط بخشیاں‘ اور گروہ نوا زیاں اور بقول ڈاکٹر احسن فارو قی ’’ اپنے گھوڑے یا گھوڑی کو آگے لگا نے ‘‘کی نفسیات رہی ۔مجھے اس سے ا نکار نہیں کہ یہ سب بھی بندے بشرکے ضمیر میں ازل سے شا مل ہے لیکن آٹے میں نمک کی حد تک ہوں تو کوئی مجھ سا لکھنے وا لا در گذر کر جا ئے لیکن نمک میں آٹا ہو جا ئیں تو کیا کرے۔۔؟ خود گذر جا ئے ۔۔ میں بھی قریب قریب گذر ہی گیا لیکن شعروادب کی شراب’’ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کا فر لگی ہوئی ‘‘ کے مطابق جان سے لگی رہی ‘ ۔ گاہے گاہے کلام اور مضا مین و غیرہ شائع ہو تے رہے۔’فنو ن‘ ’ سیپ‘ کبھی کبھار جنگ کراچی‘ ایک آدھ مرتبہ ’ڈان‘ کراچی اور جسا رت میں ہفتہ وار ادبی کالم ’گاہے گاہے ‘کے عنوان سے کچھ عرصہ۔فی ا لحال ہفتہ وار ’اردو پوسٹ ‘ کینیڈا میں ادبی کالم۔ وغیرہ وغیرہ۔
قریشی صا حب !آپ کی حِس مزا ح نہا یت بر جستہ ہے۔ ابھی کی بات ہے ٹیلیفونی بات چیت میں آپ نے کتنا بر جستہ کہا تھا ’’ آپ گوشہ نشین کیسے ہوئے۔۔؟ گوشہ نشین تووہ ہوتا ہے جس کا گوشہ شا ئع ہو جا تاہے۔‘‘ ابھی میں آپ کے اس فقرے کا پوری طرح مزہ بھی نہ لے پایا تھا کہ خبر ملی کہ آپ مجھ کو ’’ گوشہ نشین‘‘ کر نے کا ارادہ کر رہے ہیں ۔میں نے لڑکپن میں اپنی والد ہ کو یہ کہتے سنا تھا ’بن مانگے موتی ملے ، مانگے ملے نہ بھیک ‘ یہ کہا وت میری کمزو ری بن گئی کیونکہ بعد میں۔۔۔ شعرو ادب کا جو ماحول بنا اس میں موتی تو موتی معمو لی کنکر ‘ پتھر بھی بن مانگے ملنا قطعی بند ہو گئے بلکہ مانگنا۔۔۔ بھیک مانگناہو کر رہا ،یا پھر۔۔۔آگے بڑھ کر۔۔۔سفا رش سے حا صل کر نا‘ ہتھیا لینا ‘ جھپٹ لینا ‘ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ بھائی یہ میں چاہتا تھا جو آپ بن مانگے دینے جا رہے ہیں ۔ میں تو حیران ہوں اورآپکا تہہ دل سے شکر گذار ہوں۔
مخلص
عبداللہ جا وید