صبیحہ خورشید(کامپٹی)
ماہیا سر زمین پنجاب اور ہزارہ کا لوک گیت ہے۔یہ پنجاب کے ہر علاقے :سرائیکی،ملتانی ۔گوجری ،دوگری ،ہندکو،پو ٹھوہاری،ماجھی،لہندے اور بارکے علاقوں میں گایا جاتا ہے۔اور عوام میں مقبولیت کا درجہ بھی رکھتا ہے ماہیا چونکہ ایک لوک گیت ہے ۔اور لوک گیت کی ابتداء کسی پلاننگ کے تحت نہیں ہوتی بلکہ عام لوگوں کے جذبات اور امنگوں کی عکاسی کرکے خود رو پودے کی طرح تخلیق ہو کر زبان زد وعام ہو جاتے ہیں۔لہٰذا اسکے مصنف ہونے کا دعوی کوئی نہیں کرسکتا بلکہ یہ پورے سماج کا مشترکہ اثاثہ ہوتا ہے ۔پورے معاشرے کی مشترک میراث ہے ۔ظاہری صورت میں منفرد ہونے کے باوجود اپنی سوسائیٹی کا اجتماعی ترجمان ہے۔۔ماہیے کے آغازوارتقاء کے بارے میں اگرچہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس کی تخلیق ہے لیکن اسکے بارے میں چند اسکالرز کی رائیں یہ ہیں ۔
ماہیا فن تے بنتر؛میں تنویر بخاری صاحب یوں رقم طراز ہیں :
ماہیا ؛لفظ ماہی کے ساتھ الف ندائیہ ملاکر بنایا گیا ہے ۔جن کے مرادی معنی ہیں ۔اے ماہی ،اے ساجن، اے ساتھی ،اے محبوب اور اے میرے معشوق وغیرہ۔
iلفظ ؛ماہیا؛ کی وضاحت کرتے ہوئے امین خیال لکھتے ہیں:
’’ماہیا‘‘ کے لفظی معنی ہیں۔مہیں۔یعنی بھینسیں چرانے والا وہ شخص جو جنگل بیلے میں بھینسیں چرانے کا کام کرے ؛
مہیں (مہی ) یا مینہہ کو مجھ بھی کہتے ہیں ۔اس لفظ کی کچھ اور زبانوں میں شکل دیکھیں
پنجابی ، سندھی، بلوچی، کشمیری، پراکرت، سنسکرت، اردو،
مینہہ، مینہن، میہی، مینش، مہسی، مہشی، بھینس ف۱
امین خیال کی طرح تنویر بخاری صاحب’’ماہی‘‘کے معنی کو بھینس چرانے والاقرار دیتے ہیں اور اسکے ثبوت میں انھوں نے ڈھیر ساری دلیلیں پیش کی ہیں۔جن میں سے چند ملاحظہ فرمائیے۔
(۱) میری تے ماہی دی پریت چروکی، جاں سر آہے چَھتّے
(مادھولال شاہ حسین۹۴۵ھ تا ۱۰۰۸ھ،بمطابق۱۵۳۹ء تا ۱۵۹۹ء )
(۲) حیدرؔنال ماہی دے پھر ساں جھنگ ونجن بھاویں شورونجن
(علی حیدر ملتانی ۱۱۰۱ھ تا ۱۱۹۹ھ بمطابق ۱۶۹۰ء تا ۱۷۸۵ء)
(۳) وے ماہی! میں سمجھ نہ لایا نینہہ
(حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی ۱۱۰۲ھ ، تا۱۱۶۵ھ )
(۴) میں ماہی دی مستا نی وَسدا دِل وِچ دِلبر جانی
(حضر ت سچل سر مست ۱۱۵۳ھ ، ۱۷۴۰ء جنم)
(۵) ماہی ڈھونڈ کے بابلااسیں آندا صفت ایسدی کہی نہ جاوندی ای
(ہیر دا قصہ از شاہ جہاں مقبل تحریرکردہ :۱۷۴۷ء؍۱۱۶۰ھ )
(۶) جوہ وچ ماہی مجھیں چار دے سَن رانجھے ہیر وَل کر دھیان میاں
(حضرت وارث شاہ ۔لکھت: ۶۷۔۱۷۶۶ء؍۱۱۸۰ھ ) ف۲
مذکورہ بالا مثالیں ماہی بمعنی بھینس چرانے والے کے ثبوت میں چند اسکالرز کی رائیں تھیں۔ اسکے علاوہ پنجابی ماہیے کے آغاز کے بارے میں درج ذیل روایتیں مشہور ہیں :
(۱) پنجابی عشق معاشقے کی دنیا میں دو عاشق ایسے سامنے آئے ہیں جو اپنے اپنے محبوب کی بھینسیں چرانے پر ملازم ہوئے۔ ایک گجرات کی سوہنی کا عاشق عزت بیگ تھا جو بھینسیں چرانے کے باعث مہینوال کہلایا اور دوسرا تخت ہزارے کا دھیدو رانجھا جس نے اپنی محبوبہ ہیر کی بھینسیں چرائیں۔ یہ داستانیں جب مشہور ہوئیں تو محبوب کی بھینسیں چرانے والا ماہی محبوب کے معنوں میں واضح طور پر سامنے آیا اور آہستہ آہستہ ماہی کالفظ اپنے لفظی معنوں سے ہٹ کر اصطلاحی معنوں میں فروغ پاتا چلا گیا۔ اب کسی عورت کا محبوب بھینس نہ بھی چراتا ہو تب بھی ماہی کہلاتا ہے۔ شعرائے کرام نے اس لفظ کو محبوب کی علامت بنادیا اور صوفیانہ خیالات رکھنے والے شعرائے کرام اسے مجازی محبوب سے حقیقی محبوب تک لے آئے۔‘‘ ف۳
(۲) لفظ ماہیا کی شہرت کا ایک اور سبب ماہیا اور بالو بھی ہے۔
’’کہا جاتا ہے کہ محمد علی نام کے ایک شخص کو اقبال بیگم نام کی عورت سے عشق ہوگیا تھا۔ وہ اسے اغواکر کے لے گیا پھر دونوں پکڑے گئے ۔ محمد علی گجرات کی جیل میں قید ہوگیا۔ عورت بھی عشق کے معاملے میں نڈر تھی۔ وہ اپنے عاشق سے جیل میں ملتی تو بڑی بہادری سے سوال و جواب کرتی۔ اس مقدمے میں لوگوں نے بہت زیادہ دلچسپی لی تو اس کا چرچا دور دور تک ہوگیا۔ دونوں چاہنے والے جب کچہری اور حوالات میں ماہیا کی دھن پر سوال و جواب کرتے تو سارے پنجاب میں اس غنائیے پر سر دھنا جاتا۔ محمد علی ‘ماہیا کے نام سے مشہور ہوااور ماہیا کے مقابلے میں بالو ایک محبوبہ کی علامت بن گئی۔ پھر بالو اور محمد علی نہ رہے بلکہ ہر پیار کرنے والا اپنی محبوبہ کو بالو کہہ کر مخاطب کرنے لگا۔‘‘ ف ۴
(۳) کہا جاتا ہے کہ ماہیا کا نام ’’ماہیا‘‘ بہت زیادہ پرانا نہیں ہے بلکہ ماہیا سے قبل اسے ٹپہ بھی کہا جاتا تھا جس کا ثبوت ماہیے کے اس ٹکڑے سے بھی ملتا ہے۔
آری نوں دَندا کوئی نہ
آجا ماہیا ٹپے گائیے
ویڑھے وچ بندا کوئی نہ
(۴) ٹپے کے عنوان کے تحت ڈاکٹر سیف الرحمٰن ڈار اپنی کتاب ’’رکھ تاں ہرے بھرے‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’ٹپہ(ماہیا) ہمارے لوک گیتوں کی سب سے پرانی صنف ہے۔ جسے شوق سے گایا جاتا ہے۔ ڈیڑھ مصرعے کی اس چھند کا آدھا حصہ مصرعہ ’’تُک‘‘ ہوتا ہے اور اس کا کام صرف دوسرے مصرعہ کو وزن،قافیہ اور ردیف مہیا کرنا ہے۔۔ اس میں پنجاب کے دلکش مناظر، درختوں، فصلوں، جانوروں غرض یہ کہ ہر اس چیز کا ذکر ہوتا ہے جو ہماری زندگی اور رہن سہن کا حصہ ہے۔ جن کو ہم روزانہ اپنے اردگرد کے ماحول میں دیکھتے ہیں۔۔ الگ الگ علاقے میں ٹپے کا نام بھی الگ الگ ہے۔ ساندل بار میں اسے ماہیا، کانگڑے میں سبّی، ایبٹ آبادمیں قینچی اور دیگر مقام پر اسے بھنگڑے بھی کہتے ہیں۔
ٹپہ گانے کا کوئی موقع محل نہیں ہوتابلکہ خوشی و غم ہر موقع اور ہر جگہ پر گایا اور سنا جاتا ہے۔ لڑکے بالے بھی گاتے ہیں اور مرد عورت بھی۔ ۔۔ان بولوں کا سارا حسن ان کے اختصار اور بے ساختگی میں ہوتا ہے۔‘‘
(۵) ماہیا کا ایک نام بگڑو بھی ہے۔ جس کے متعلق مختلف ماہرین کی آرا ء الگ الگ ہیں:
افضل پرویز کا کہنا ہے کہ ’’بگڑو نام کی ایک طوائف بہت اچھا گیت گاتی تھی۔ اسلئے ماہیا اس طوائف سے منسوب ہے۔‘‘ ف۵
(۶) بقول امین خیال :
’’بگڑو لفظ بگا سے نکلا ہے۔ بگا سفید اور گورے رنگ کو کہتے ہیں۔ بگڑو کا مطلب ہے سفید رنگ والی بہت گوری عورت اس طرح اپنے خوبصورت گورے چٹے رنگ کے باعث وصفی نام کی بدولت محبوبہ کی علامت بن گئی ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس گیت میں محبوب کو مخاطب کرنے کے لئے (بالو کی طرح) بار بار لفظ بگڑو آنے کے سبب اسے بگڑو(گیت) کا نام دے دیا گیا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بالو کی طرح واقعی بگڑو نام کی کوئی عورت موجود ہو۔ لیکن ہمیں ایسی کوئی مثال حاصل نہیں ہوسکی جس میں بگڑو کا لفظ موجود ہو۔‘‘ ف ۶
(۷) ڈاکٹر احمد حسین قلعداری کے مطابق :
’’ماہیا یہ لوک گیت عاشق اور معشوق کے مکالمے کے طور پر گایا جاتا ہے۔ یہ گجرات کے مشہور عاشق اور معشوق ’ماہیا اور بالو‘ کی ایجاد ہے۔‘‘ ف ۷
(۸) یوسف علی لائق اپنے مقالے ’’ ماہیا کی بازیافت‘‘ میں اس دوہے کو بنیاد بناکر فرماتے ہیں:
تورے پورب مہیں میں بپھا تنکو،نا
تورے کمجن سے مواتن میں جیا تنکو،نا
(معنی : تمہارے پورب کے مہ نشینوں میں ذرا بھی وفا نہیں ہے۔ تمہارے غمزوں کے مارے جسم میں بھی جان باقی نہیں ہے)
اس شعر سے دو رموز بھی آشکار ہوئے۔ پہلا یہ کہ پورب کا رہنے والا مہیں میں نون غنہ ہے اور دوسرا یہ کہ پورب کا رہنے والا مہیں کہیں اور جاکے آنکھ لڑا بیٹھا ہے۔ جہاں اس کی محبوبہ اسے بے وفا ہونے کا طعنہ دے رہی ہے۔ اب اس بانکے سجیلے لفظ کے معنی دیکھئے اور دیکھتے ہی رہ جائیے۔ پوربیا، پُربیا،پُربِیا( پورب کا رہنے والا) پی، بلم، خاوند، خصم، پربیا سائیں، چرویدار ، چشم بددور کون سی صفت ہے۔ جو اس میں نہیں جو اسے دیکھتا ہوگا۔ یہی کہتا ہے۔ ع جسکا عاشق ہے یہ، معشوق وہ کیسا ہوگا (ناطق لکھنوی)
اس پر ظالم نے چار چاندیوں لگادئیے کہ بیری ہوگیا۔ بے وفا بھی ،اور تواورپردیسی بھی بن گیا۔ یعنی کریلا اور نیم چڑھا کہ پردیس اور پریت لازم و ملزوم ہے۔ یقین نہ آئے تو دوہے کے اس شلوک کو دل کی زبان سے گنگنائیے اور قربان جائیے۔ع
پردیسی کی پیت کو سب کا من للچاوے
دوہی بات کا کھوٹ ہے رہے نہ سنگ جاوے‘‘
امین خیال اس پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’لائق صاحب دور کی کوڑی لائے ہیں اور پوربی زبان کے لفظ مہیں کو ماہیا کا ماخذ قرار دیا ہے اور اس کے معنی چرواہا بتاتے ہیں۔ اور مہینوال، مجھیوال اور رانجھا کو صرف بھینسوں کا چرانے والا ہی کہاہے۔ جبکہ رانجھا اور عزت بیگ مویشی چرانے پر نوکر ہوئے تھے۔ اور اس وگھ میں بھینسوں کی تعداد زیادہ تھی۔ ویسے بھی افادی نقطہ نظر سے پنجاب میں بھینس کو گائے پر ترجیح دی جاتی ہے۔جبکہ گائے بھینسوں کے وگھ کو وارث شاہ نے منگو بھی کہا ہے۔
تیرے جہے معشوق جے تھیں راضی منگو
نیناں دی دھار وچ جارئیے نی
لہٰذا چرواہا یا ماہی رانجھااور مہینوال بن کر محبوب کی علامت بن چکے ہیں۔‘‘ ف ۸
(۹) مقصود ناصر چودھری اپنی کتاب ’’پنجاب د ے لوک گیت‘‘ میں فرماتے ہیں۔
’’ماہیا لوک گیتوں کی ایک مثال ہے۔ ماہیا معشوق کو کہا جاتا ہے۔ پنجابی شاعری میں مرد معشوق اور عورت عاشق ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہجر، فراق اور پیار محبت کی لہریں ٹھاٹھیں مارتی نظر آتی ہیں۔‘‘
(۱۰) کتاب’’پنجابی ادب دی کہانی‘‘ میں عبدالغفور قریشی صاحب لکھتے ہیں :
’’یہ دیس پنجاب کا ایک مقبول ترین گیت ہے جو ٹپے کی طرح ڈیڑھ مصرعہ کا گیت ہے۔ پہلا مصرعہ چھوٹا اور دوسرامصرعہ بڑا ہوتا ہے۔ جس میں شعر کی جان ہوتی ہے۔اس کا موضوع برہا اور دکھ درد ہے۔‘‘ف۹
(۱۱) ساتھ ہی حیدر قریشی صاحب اپنی کتاب ’’اردو میں ماہیا نگاری‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’ماہیا سرزمین پنجاب کا لوک گیت ہے۔ ماہیا کا لفظ ماہی سے نکلاہے۔ لیکن یہ اردو والا ماہی نہیں ہے۔ ویسے ماہیا میں محب اپنے محبوب کی جدائی میں ماہیٔ بے آب کی طرح بھی تڑپتا دکھائی دیتا ہے۔ پنجابی میں بھینس کو مہیں کہتے ہیں۔ بھینسیں چرانے والے کو اسی نسبت سے ماہی کہا جاتا ہے۔ ان چرواہوں کو بھینسوں پر نظر رکھنے کے سوا کوئی کام نہیں ہوتا تھا اس لئے دیہاتی ماحول کے مطابق انہوں نے کسی مشغلے کے ذریعے وقت گذاری کا راستہ نکالا۔ بانسری بجانے اور گیت گانے کا مشغلہ ایسا تھا کہ بیک وقت چرواہے کا فرض بھی ادا کیا جاسکتا تھااور اپنے دل کو بہلایا بھی جاسکتا تھا۔بانسری اور اچھی آوازوں کے جادو نے بھی بعض چرواہوں کو اپنے اپنے دیہاتوں میں مقبولیت عطا کی ہوگی۔ لیکن جب محبت کے قصوں میں رانجھے اور مہینوال کو اپنے اپنے محبوب تک رسائی حاصل کرنے کے لئے چرواہا بننا پڑاتو ان کرداروں کی رومانوی کشش نے لفظ ماہی کو چرواہے کی سطح سے اٹھا کر نہ صرف ہیر اور سوہنی کا محبوب بنا دیا۔ بلکہ ہر محبت کرنے والی مٹیار کا محبوب ماہی قرار پایا۔اسی ماہی کے ساتھ اپنے پیار کے اظہار کے لئے ماہیا عوامی گیت بن کر سامنے آیا۔ف ۱۰
خلاصۂ کلام یہ کہ ماہیا پنجاب کا عوامی گیت ہے جو لفظ ماہی سے بنا ہے۔ جس کے معنی بھینس چرانے والا کے ہوتے ہیں۔ لیکن پنجاب کی دو مشہور عشقیہ داستانوں کے بعدماہیا لفظ اپنی لفظی معنوں سے ہٹ کر اصطلاحی معنو ں میں استعمال ہونے لگا ہے۔ جس کے معنی اے میرے معشوق، اے میرے ساجن، اے میرے محبوب ــ ،پیارے، ڈھولا وغیرہ کے ہوتے ہیں۔ ماہیا میں محب اپنے محبوب کے فراق میں تڑپتا دکھائی دیتا ہے۔ جس میں مخاطب کرنے والی ہستی عورت ہوتی ہے، یعنی عورت کی طرف سے مرد کے حضور میں اپنی محبت کا اظہار۔ برہااور دکھ درد اس کے خاص موضوع ہوتے ہیں۔
ماہیا سے قبل ماہیا کا نام ٹپہ اور بگڑو بھی تھا لیکن ماہیا نام زیادہ مشہور ہوااور آج ہم اس سہ مصری صنف شاعری کو ماہیا کے نام سے ہی جانتے ہیں۔
حوالہ جات :
(۱) امین خیال ۔پنجابی ماہیا۔مطبوعہ گلبن دو ماہی احمد آباد ماہیا نمبر۱۹۹۸صفحہ۲۷
(۲) ماہیا فن تے بنتر از تنویر بخاری ۔انتخاب اشعار از صفحہ نمبر ۱۰تا ۱۵)
(۳) امین خیال ۔ پنجابی ماہیا ۔گلبن ماہیا نمبر صفحہ ۲۸
(۴) ایضاَ صفحہ ۲۹
(۵) افضل پرویز ۔ بن پھلواری ۔صفحہ ۵۵
(۶) امین خیال ۔پنجابی ماہیا۔مطبوعہ گلبن دو ماہی احمد آباد ماہیا نمبر۱۹۹۸صفحہ ۲۹
(۷) بحوالہ ایضاَ صفحہ ۳۳
(۸) ایضاَ صفحہ ۳۲
(۹) ایضاَ صفحہ ۳۳
(۱۰) حیدر قریشی۔اردو میں ماہیا نگاری۔ صفحہ نمبر ۹
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو میں ماہیا نگاری کی ابتدأ
اردو میں فن ماہیا نگاری پنجاب کی دین ہے۔ اس کا آغاز اس وقت ہوا جبکہ ایک ۱۷۔۱۶سال کے نوجوان شاعر ہمت رائے شرما نے پنجابی ماہیے کے مزاج اور وزن پر سہ مصرعی شاعری کی تخلیق کی جوکہ اردو ماہیا کہلائی جس کی روایت ۱۹۳۶ء میں بننے والی فلم خاموشی سے ملتی ہے۔
فلم خاموشی کے ماہیے:
(۱) ایک بار تو مل ساجن
آ کردیکھ ذرا
ٹوٹا ہو دل ساجن
(۲) سہمی ہوئی آہوں نے
سب کچھ کہہ ڈالا
خاموش نگاہوں نے
(۳) کچھ کھو کر پائیں ہم
دور کہیں جاکر
ایک دنیا بسائیں ہم
(۴) یہ طرزِ بیاں سمجھو
کیف میں ڈوبی ہوئی
آنکھوں کی زباں سمجھو
اس طرح ماہیا نگاری میں اولیت کا سہرا مشہور فلم آرٹ ڈائرکٹر، کہانی نویس اور نغمہ نگار ہمت رائے شرماجی کے سر بندھتا ہے۔
اس بات کی تصدیق جناب ہمت رائے شرما جی کے خط جو انہوں نے حیدر قریشی صاحب کے نام قلم بند کیا تھا سے ہوتی ہے۔۲۱؍دسمبر۱۹۹۹ء کے خط میں ہمت رائے شرماجی کی تحریر اس طرح سے ہے۔
’’آج سے ساٹھ باسٹھ سال پرانی فلم ’’خاموشی کی Bookletجو پرانے گودام کے ایک اسٹور سے پھٹی پرانی حالت میں مل گئی ہے۔ یہ اُسی رنگدار سرورق کی فوٹو کاپی ہے۔ اس میں وہ سب کچھ درج ہے جس کی تلاش تھی۔ یہ فوٹو کاپی بے حد اہم اور نایاب ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لئے بہت محنت کرنا پڑی۔کافی رقم خرچ ہوئی کیونکہ اسے حاصل کرنے کے لیے ایک خاص آدمی کو کلکتہ بھیجنا پڑا۔‘‘ف۱
آگے حیدر قریشی صاحب Bookletکے سر ورق کو یوں بیان کرتے ہیں۔
’’سرورق پر ہیروئین رمولا کی تصویر ہے۔ دائیں طرف انگریزی میں، درمیان میں ہندی میں اور نیچے اردو میں فلم کا نام’’خاموشی‘‘ لکھا ہوا ہے۔ آخر میں صرف انگریزی میں ڈائرکٹر آر۔سی۔ تلوار کا نام لکھا ہے۔ سرورق کے اوپر کی طرف فلم کے پروڈیوسر، ڈائرکٹر ،کاسٹ او ر اہم ٹیکنیشینز وغیرہ کے نام درج ہیں۔ یہ سارے نام انگریزی میں درج ہیں۔ پروڈیوسر ایل۔آر۔پراشر ہیں۔ (ایل۔آر=لاہوری رام)’’ پروڈیوسر انڈر دی بینر آف تلوار پروڈکشنز (انڈرنیو مینیجمنٹ) مئی ۱۹۳۶ء‘‘ درج ہے۔ انگریزی کے اصل الفاظ ہی یہاں درج کردیتا ہوں۔
Producer under the banner of
TALWAR PRODUCTIONS
(Under new management) May1936
ف۲
فلم خاموشی کی بک لیٹ پر ۱۹۳۶درج ہونے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اردو میں ماہیا نگاری کی ابتداء فلم خاموشی ۱۹۳۶ء کے ذریعے ہمت رائے شرماجی کے نوک قلم سے ہوتی ہے۔اسکے علاوہ شرماجی کا اپنا بیان ہے کہ ’’میں نے پہلی بار اردو ماہیے پر فلم ’’خاموشی‘‘ میں گانا لکھا۔ اس وقت میری عمر کوئی سولہ سترہ برس کی ہوگی۔‘‘ف۳
فلم خاموشی کی بک لیٹ پر مئی ۱۹۳۶کے اندراج سے ہمت رائے شرماجی کے مذکورہ بالا بیان کی تصدیق ہوتی ہے۔ شرماجی کی تاریخ پیدائش ۲۳نومبر ۱۹۱۹ہے ۔ ف۴
لہٰذا ۲۳نومبر۱۹۳۵کو ان کی عمر ۱۶برس اور مئی ۱۹۳۶کو ساڑھے سولہ برس کی ہوتی ہے۔ اس طرح سے ان کی عمر کا ۱۶واں، ۱۷واں سال۱۹۳۶کاہوتا ہے۔خاموشی کی بک لیٹ اور شرماجی کا بیان تاریخ پیدائش کی روشنی میں اس بات کا بین ثبوت ہے کہ شرماجی نے فلم خاموشی کے لئے ار دو ماہیے ۱۹۳۶میں لکھے جو اردو ماہیا نگاری کا پہلا تجربہ تھا اور یہیں سے اردو میں ماہیا نگاری کا آغاز ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں عام روایت یہ بھی ہے کہ مولانا چراغ حسن حسرتؔ نے اردو میں ماہیا نگاری کا تجربہ فلم باغبان ۱۹۳۷میں کیا اور تین مصرعوں پر مشتمل ماہیانما گیت لکھا۔
فلم باغبان:
(۱) راوی کا کنارہ ہو
ہر موج کے ہونٹوں پر
افسانہ ہمارا ہو
(۲) باغوں میں پڑے جھولے
تم بھول گئے ہم کو
ہم تم کو نہیں بھولے
(۳) ساون کا مہینہ ہے
ساجن سے جدا ہوکر
جینا کوئی جینا ہے
(۴) دل میں ہیں تمنائیں
ڈر ہے کہ کہیں ہم تم
بدنام نہ ہوجائیں
(۵) یہ رقص ستاروں کا
افسانہ کبھی سن لو
تقدیر کے ماروں کا
(۶) اب اور نہ تڑپاؤ
یا ہم کو بلا بھیجو
یا آپ چلے آؤ
ڈاکٹر بشیر سیفی لکھتے ہیں :
’’اردو میں ماہیا کو تخلیقی سطح پر اپنانے والوں میں چراغ حسن حسرتؔ کا نام سرِ فہرست ہے ۔ لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ حسرت کے ماہیوں پر ماہیے کے بجائے ایک گیت کا عنوان چسپاں ہے۔‘‘ ف۵
اسکے علاوہ پروفیسر آل احمد سرور نے حسرت کے ثلاثی قسم کے گیت کو نظم قرار دیا ہے۔
’’یہ دراصل حسرت کی ایک نظم ہے پوری نظم حمید نسیم نے اپنی خود نوشت ’نا ممکن کی جستجو‘ میں درج کی ہے۔‘‘ ف۶
حیدر قریشی صاحب اپنی کتاب’’اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما‘‘ میں رقم طراز ہیں۔
’’خود حسرت اسے’ایک گیت‘ لکھتے ہیں۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی بھی اسے گیت قراردیتے ہیں۔۔۔ تو پھر خود اصل شاعر کی بات مان کر اسے صرف ایک فلمی گیت ہی کیوں نہیں مان لیا جائے؟‘‘ ف۷
ماہیا چونکہ ایک غنائی صنفِ شاعری ہے۔ مخصوص دھن اورلَے اسکی پہچان ہے۔ لہٰذا اس کی شکل میں تینوں مصرعے برابر نہیں ہوتے۔ بلکہ پہلا اور تیسرا مصرعہ برابر ہوتا ہے۔ دوسرا مصرعہ ایک سبب کم ہوتا ہے۔ لیکن حسرت صاحب ماہیے کے وزن کی نزاکت کا خیال نہیں رکھ سکے جو کہ ماہیا کا وصفِ خاص ہے ۔ اس طرح سے انہوں نے ثلاثی نما کسی گیت کی تخلیق کی ہے۔
ہمت رائے شرما اور چراغ حسن حسرت کے بعد وقفہ وقفہ سے اردو ماہیے کے ملے جلے اور غیر مؤثرتجربات اردو میں دکھائی دیتے ہیں جو بشیر منذر، عبدالمجید بھٹی،منیر عشرت، ثاقب زیروی اور اختر شیرانی کے تین مصرعوں پر مشتمل مساوی الوزن ماہیے ہیں۔ جن کی مثالیں درج ذیل ہیں:
بشیر منذر( ۱۹۵۲ء):
گھنگھور گھٹا چھائی
پھر جام چھلک اٹھے
ماحول کو نیند آئی
اک جام پلاجاؤ
لمحات بلاتے ہیں
مدہوش بنا جاؤ
(ماہنامہ : ماہِ نو کراچی ۔ جون ۱۹۵۲ص۳۵)
عبدالمجید بھٹی (۱۹۵۴ء):
یہ درد یہ تنہائی
ان چاندنی راتوں میں
تم آئے نہ نیند آئی
سمٹی ہوئی چاہیں ہیں
پھیلی ہوئی راہوں پر
مایوس نگاہیں ہیں
(ماہنامہ : ماہِنوکراچی ۱۹۵۴ء ص۳۴)
ثاقب زیروی کے مجموعۂکلام ’شہاب ثاقب ‘ سے ماخوذ:
وہ سامنے آبیٹھے
بولیں یا انہیں دیکھیں
ہم ہوش گنوا بیٹھی
(ناشر : دی پاکستان کو آپریٹیو بک سوسائٹی لمیٹیڈ، چٹاگانگ، کراچی ۔ص۱۳۶)
اختر شیرانی:
کیا روگ لگا بیٹھے
دل ہم کو لٹا بیٹھا
ہم دل کو لٹا بیٹھے
مٹ جائے یہ سینے سے
اس عشق میں جینے سے
ہم ہاتھ اٹھا بیٹھے
دم عشق کا بھرتے ہیں
ہم یاد انھیں کرتے ہیں
وہ ہم کو بھلا بیٹھے ہیں
لکھا تھا یہ قسمت میں
آخر کو محبت میں
ہم جان گنوا بیٹھی
(کلیات اختر شیرانی۔ مرتبہ ڈاکٹر یوسف حسنی ، ندیم بک ہاؤس، لاہور ۱۹۹۲ء، ص۱۵۹)
مذکورہ بالا تمام ماہیے ہم وزن مصرعوں کے ماہیے ہیں جوکہ اس وقت کی تخلیقات ہیں جب اردو زبان میں ماہیے نہیں لکھے جاتے تھے۔ لہٰذا یہ ان شعرائے کرام کی ماہیے سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔
علاوہ ازیں موجودہ دور میں ماہیے کی ابتدأ علی محمد فرشی کے مساوی الوزن ماہیے سے ہوتی ہے۔ جوکہ ۱۹۸۵ء میں منظر عام پر آئے۔
علی محمد فرشی :
دونین ہیں چھاگل سے
ایک پیڑ ہے گاؤں میں
کچھ اور نہ تم پوچھو
بس دھوپ وہ نکلی تھی
ہم لوگ ہیں پاگل سے
ہم جل گئے چھاؤں میں
(ماہنامہ ’’اوراق‘‘ لاہور۔ نومبر دسمبر ۱۹۸۴۔ص۱۷)
علی محمد فرشی کے ماہیوں کے متعلق حیدر قریشی صاحب فرماتے ہیں:
’’۱۹۸۳ء میں علی محمد فرشی کے تین ہم وزن مصرعوں کے ثلاثی ’’ماہیے‘‘ کے طور پر چھپے۔ علی محمدفرشی کے چند ماہیے۔ پاکستان ٹیلی ویژن سے ٹیلی کاسٹ کئے گئے تھے ان کی گائیکی سن ہی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ماہیے کی اصل لےَ میں نہ آنے کے باعث انہیں گانے والا بھی مشکل میں ہے اور گائیکی کا انداز بھی پنجابی کی کسی دھن سے میل نہیں کھا رہا ہے۔ علی محمد فرشی حقیقتاً تین ہم وزن مصرعوں کے ہائیکولکھنے کے بعد تین ہم وزن مصرعوں کے ماہیے لکھنے لگے تھے۔ تحریری صورت میں اردو میں ہائیکو کا تجربہ ویسے بھی ہلکا پھلکاساتھا۔ ایسے میں ماہیے کے مزاج سے قریب ثلاثی سامنے آئے تو قارئین ادب نے انہیں پسند کیا۔‘‘ ف۸
علی محمد فرشی کی پیروی میں نصیر احمد ناصر، سیدہ حنا، دیپک قمر، وصی محمد وصی وغیرہ نے بھی تین مساوی الوزن مصرعوں میں ماہیے لکھے۔علی محمد فرشی ، نصیر احمد ناصراور سیدہ حنا کے کچھ ثلاثی یہاں پیش ہیں۔ جو انہوں نے ماہیے کے عنوان سے چھپوائے ہیں۔
علی محمد فرشی :
جو فرق تھا زر کا تھا
تعبیر محل کی وہ
میں خواب کھنڈر کا تھا
ہاتھوں کی لکیروں میں
اک نام سلگتا ہے
بے آب جزیروں میں
کیچڑ میں کنول دیکھا
بے آسرا بچے کو
روتے ہوئے کل دیکھا
دیمک لگی الماری
اب اس میں رکھا کیا ہے
بیمار ہے بے چاری
نصیر احمد ناصر :
اک فاختہ بیٹھی ہے
پنکھ اس نے سمیٹے ہیں
لگتا ہے کہ زخمی ہے
سیّدہ حنا :
چاندی کی کٹوری ہے
بیوی میرے بھائی کی
کہتے ہیں چٹوری ہے
ان شاعروں سے یہ سہو، لاشعوری طور پر اور ماہیے کے دوسرے مصرعہ کے نازک فرق کو سمجھ نہ پانے کی وجہ سے ہوا ۔ سیدہ حنا کی ماہیا نگاری سے متاثر ہوکر بھارت کے دیپک قمر نے اپنی ماہیا نگاری کا آغاز تین مساوی الوزن مصرعوں سے کیا۔ دیپک قمر سے وصی محمد وصی متاثر ہوئے اور پھر سلسلہ بڑھتا ہی گیا۔ تین ہم وزن مصرعوں کی ماہیا نگاری کے نتیجے میں ماہیا نگاری میں غلط اوزان کا رواج عام ہوا اور من چاہی بحریں ایجاد ہونے لگیں۔مثالیں :
علامہ شارق جمال
روشنی کا کہیں لشکر بھی نہیں
شب میرے شہر سے گذری لیکن
جاگتی صبح کا منظر بھی نہیں
راستے میں کہیں اشجار نہیں
دھوپ ہے آج بدن کی قسمت
دور تک سایہ دار نہیں
(ماہیے : از شارق جمال ناگپور ۔ مطبوعہ نئی شناخت کٹک، جلد : شمارہ ۲)
حسن عباس رضا :
اگرچہ اب قفس میں بھی نہیں ہوں
میں نیلے پانیوں پر کیا اڑوں گا کہ اپنی دسترس میں بھی نہیں ہوں
میرے اندر کوئی تنہا بہت ہی
نہ جانے کیوں خوشی کی ساعتوں میں لپٹ کر مجھ سے وہ روتا بہت ہی
(ماہیے ۔ از حسن عباس رضا ۔ مطبوعہ لاہور ، شمارہ جون جولائی ۱۹۹۲ء)
سیما شکیب :
آنکھوں میں بھری ہے ریت
طوفان کے ہاتھوں سے
پامال ہوئے میرے کھیت
رنگیں اندھیرے میں
تری یاد مجھے لے لیتی ہے
بانہوں کے گھیرے میں
(ماہیے ۔ از سیما شکیب۔ مطبوعہ سہ ماہی ارتکاز کراچی اکتوبر ۱۹۹۲ء)
فیروز مرزا :
شجر سے ٹوٹا
سکوت جیسے
ہجر سے ٹوٹا
نکال خنجر
برہنہ سر ہے
سنبھال خنجر
(ماہیے ۔ از فیروز مرزا ۔ مطبوعہ دو ماہی گلبن احمدآباد۔ شمارہ جولائی اگست ۱۹۹۲ء)
اس طرح سے غلط وزن کے ماہیوں کی روش عام ہوتی چلی جارہی تھی۔ شعرائے کرام نئے نئے اوزان اور من چاہی بحریں گھڑتے چلے جارہے تھے۔ ایسے مجموعی حالات میں درست وزن کی طرف متوجہ کرنے کی اولین کاوش ممتاز عارف نے کی۔ اپنے خط جوکہ ’’اوراق‘‘ شمارہ اگست ۱۹۹۰ء میں شائع ہوا تھا اس میں انہوں نے درست وزن کی طرف توجہ دلائی اور اس کی بجا طور پر نشاندہی بھی کردی تھی۔
اردو ماہیے کی تحریک تو اسّی کی دہائی سے شروع ہوچکی تھی۔ لیکن جب اگست ۱۹۹۰ء میں ممتاز عارف کا خط شائع ہوا تو حید قریشی صاحب نے اپنی ساری توجہ درست وز ن کی طرف مبذول کی اور غوروخوض کیاجس کے نتیجے میں غیر ارادی طور پر ان سے چند درست اوزان کے ماہیے بھی تخلیق ہوگئے جوکہ ماہنامہ ’’ادب لطیف‘‘ لاہور کے شمارہ نومبر ۱۹۹۰میں شائع ہوئے۔ ان میں سے چند ایک ماہیے دیکھیے۔
سوہنی ہے نہ ہیر ہے وہ
اس کی مثال کہاں
آپ اپنی نظیر ہے وہ
آنکھوں میں ستارے ہیں
ہجر کی شب میں بھی
وہ پاس ہمارے ہیں
کچھ ہم نے ہی پی لی تھی
یا پھر سچ مچ ہی
وہ آنکھ نشیلی تھی
مل مہکی فضاؤں سے
یار نکل باہر
اندر کے خلاؤں سے (حیدر قریشی)
یہ تحریک اس وقت اور بھی زیادہ مضبوط اور کامیاب ثابت ہوئی ۔ جب حیدر قریشی نے ۱۹۹۰ء میں ماہیے اور ثلاثی کے فرق کو واضح کیا نتیجتاً دیگر شعراء کی توجہ بھی اس طرف مرکوز ہوئی۔ تب تحقیق سے پتہ چلا کہ بہت پہلے ۶۰۔۱۹۵۰ء کے درمیان قمر جلال آبادی اورساحر لدھیانوی پنجابی ماہیے کے وزن پر درست وزن کے ماہیے کہہ چکے ہیں۔قمر جلال آبادی کے ماہیے فلم’’پھاگن‘‘ میں محمد رفیع اور آشا بھونسلے نے مل کر گائے تھے۔
قمر جلال آبادی (فلم پھاگن):
تم روٹھ کے مت جانا
مجھ سے کیا شکوہ
دیوانہ ہے دیوانہ
کیوں ہوگیا بے گانہ
تیرا میرا کیا رشتہ
یہ تونے نہیں جانا
میں لاکھ ہوں بے گانہ
پھر یہ تڑپ کیسی
اتنا تو بتا جانا
فرصت ہوتو آجانا
اپنے ہی ہاتھوں سے
میری دنیا مٹا جانا
ساحر لدھیانوی کے ماہیے فلم ’’نیا دور‘‘ میں محمد رفیع نے گائے تھے۔
دل لے کے دغا دیں گے
یار ہیں مطلب کے
یہ دیں گے توکیا دیں گے
دنیا کو دکھا دیں گے
یاروں کے پسینے پر
ہم خون بہادیں گے
ابتدأ میں اردو ماہیوں کے بنیاد گذاروں میں چراغ حسن حسرت، قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی کو تسلیم کیا جاتا تھا،بعد کی تحقیق میں قتیل شفائی کا نام بھی سامنے آیا جنہوں نے پاکستانی فلم حسرت کے لیے ۱۹۵۳ء میں ماہیے لکھے تھے۔یہ ماہیے سلیم رضا اور زبیدہ خانم نے گائے تھے۔
باغوں میں بہار آئی
مہکی ہوئی رُت میں
دل لیتا ہے انگڑائی
بعد ازاں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے ایک انکشاف اور اس پر حیدر قریشی کی گہری تحقیق سے یہ بات روشن ہوئی کہ ’’اردو ماہیا‘‘ کے بانی ہمت رائے شرما ہیں۔
اخیر میں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ماہیا فلم اور ریڈیو کے ذریعہ اردو ادب میں متعارف ہوا۔ جس کی ابتدأ ہمت رائے شرما کے ماہیوں سے ہوتی ہے۔ ساتھ ہی اردو ماہیے کے بنیاد رکھنے والوں میں ہمت رائے شرما، قمر جلال آبادی قتیل شفائی اور ساحر لدھیانوی ہیں۔ جن سے لوک لَے کی پابندی کرنے والے اردو ماہیوں کا آغاز ہوااور حسرت ؔکا نام اس فہرست میں شامل نہیں۔ اسکے علاوہ ۱۹۵۰ء سے ۱۹۹۰ء تک ماہیا نما تخلیق ہوتے رہے۔ لیکن ۱۹۹۰ء کے بعد سے آج تک اردو ماہیا شعوری اور تخلیقی طور پر منظر عام پرآرہا ہے
بلا شبہ ماہیا رفتہ رفتہ اردو شاعری میں اپنا مقام مستحکم کر رہا ہے۔اس وجہ سے یہ ہمیں ایک مثبت امید کا پیغام بھی دیتا ہے کہ ماہیا انڈوپاک کی تہذیب وثقافت اور شعری روایت کامشترک اثاثہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)کتاب: اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما۔از حیدر قریشی صفحہ نمبر۲۳۔۲۴
(۲) ایضاَ صفحہ نمبر ۲۴
(۳) ایضاَ صفحہ نمبر ۲۴
(۴) ایضاَ صفحہ نمبر ۲۴
(۵) مضمون بشیر سیفی۔مطبوعہ ماہنامہ صریر کراچی۔جون جولائی ۱۹۹۶ء
(۶) مکتوب آل احمد سرور۔ کو ہسار جرنل۔بھاگل پور۔شمارہ دسمبر ۱۹۹۷ء
(۷) مضمون :اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما۔از حیدر قریشی
مطبوعہ ماہنامہ انشا کلکتہ شمارہ ستمبر،اکتوبر۱۹۹۸ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جو لوگ اپنی افتاد طبع کے باعث سنجیدہ علمی مباحث کے متحمل نہیں ہو سکتے یا جنہیں اہلِ علم کی مجالس میں بیٹھنے کا زیادہ موقعہ نہیں ملااور جو اس شہرت پہ نازاں ہیں کہ پگڑی اچھالناان کا کمالِ فن ہے،وہ اگر دشنام اور دلیل میں
امتیاز سے قاصر ہوں توانہیں معذور سمجھا جا سکتا ہے۔‘‘
(ارشاد احمد حقانی کے کالم حرفِ تمنّا میں شامل خورشید ندیم کے مکتوب سے اقتباس۔
مطبوعہ روزنامہ جنگ مورخہ ۲۴؍جنوری ۲۰۰۹ء)