(مائیکروفکشن)
ویسے کا ویسا
جی چاہتا ہے اُس سے بات کروں
پُوچھوں کہ کیسی ہو؟
سوچتا ہُوں کہ سب ٹھیک چل رہا ہُوا، تو جو ایک واہمہ ہے کہ میری کچھ اہمیت تھی وہ بھی نہ رہے گا
وہ تو ویسی کی ویسی ہو گی
ٹھنڈی ٹھار
ہنسے گی تو اچھی لگے گی
میرے راز، راز رکھے گی
میرا خیال رکھے گی
قدر کرے گی
دِل کی باتیں کرے گی سنے گی
نہ سمجھتے ہوئے بھی میرے فلسفے برداشت کرے گی
پہروں گفتگو چلے گی۔
چائے کے دور ہوں گے
پیزا اور برگر آرڈر ہوں گے
اور ایسی لمبی باتیں،
جو بس باتیں ہی باتیں ہوں
تو پھر کروں اس سے بات؟
لیکن اگر اُس نے کہہ دیا کہ’’ٹھیک ہُوں‘‘تو پھر؟
مجھے تو پوچھے گی کہ کیسے ہو؟
میں تووُہی بولوں گا کہ،’’ویسے کا ویسا‘‘!
پتا نہیں یہ مذاق ہو گا یا حقیقت؟
لیکن ہوں تو میں ویسے کا ویسا
تو مان جاؤں کیا؟
کروں اس سے بات؟
٭٭٭
پند نامہ
ایک دوست کا پند نامہ صبح موصول ہوا،
’’قدر کرنا سیکھ لو۔ یہ زندگی آپ کو دوبارہ ملے گی نہ یہ دوست‘‘!
میں نے اضافہ کیا،
’’چاہئیں آپ کو‘‘؟
جواب کا منتظر ہوں۔
٭٭٭
ضرورت
اُسے بارہا پوچھا کہ میں اُسے تنگ تو نہیں کر رہا۔ اُس نے ہمیشہ کہا کہ بالکل نہیں، بلکہ میں تو اُلٹا اُس کا بوجھ ہلکا کرتا ہوں۔
پھر ایک وقت آیا کہ مجھے پتا چلا کہ اُسے میری ضرورت نہیں۔
تو میں نے اُسے تنگ کرنا بند کر دیا۔
٭٭٭
سموگ
ہمارے زہر نے زمین کو گھیر لیا ہے۔ ہم نے زہر اگلا، زہر چھڑکا، زہر بویا اور زہر پھیلایا۔ ہم نے خوشبوؤں تتلیوں جگنوؤں اور بیر بہو ٹیوں کو مار ڈالا۔ اب ہمیں سانس لینے کو صرف تیزابی مسموم ہوا میسر ہے۔ اندر زہر باہر زہر اوپر زہر نیچے زہر۔ ہم کتنے زہرآلود اور زہریلے ہو گئے ہیں۔ ہم نے زمین کو بھی اپنے جیسا کر دیا ہے۔
٭٭٭
نصیحت
“حضرت کوئی نصیحت فرمائیے”!
“دنیا کی دولت ادھر ہی رہ جانی ہے۔ ساتھ جائیں گے تو بس اعمال”۔
“جی حضرت”!
“عطیات اور ہدیہ کا بکس دروازے کے ساتھ رکھا ہے”۔
٭٭٭
حلال
“مجھے یہ مرغی حلال کر دیجئے”۔
“کہاں سے لائے ہیں؟”۔۔۔
“۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ “
“اوہ ! معاف کیجے گا۔ معذور ہوں۔ میں اسے آپ کے لیے ذبح تو کر سکتا ہوں، حلال نہیں کر سکتا”۔۔
٭٭٭
یکم مئی
آج، یکم مئی کو میں یہ دعا مانگتا رہا کہ کہیں مزدوروں کو پتا نہ چل جائے کہ یہ ان کا دن ہے۔
شکر ہے انہیں پتا نہیں چلا۔
٭٭٭
بھول
اس نے کہا، “مجھے بھول جاؤ”۔
اور میں بھول گیا۔
اب اسے گلہ ہے کہ میں نے اسے بھلا دیا ہے۔
جبکہ مجھے شکوہ ہے کہ وہ بھول جاتی ہے۔
٭٭٭
دوسرا کُتا
ٹھنڈے میٹھے پانی کے ایک کنویں میں کتا گر گیا۔
کچھ “سیانے” اکٹھے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ کتنی بری بات ہے۔ کتنا اچھا کنواں تھا۔ اس کا کچھ سوچا جائے۔
پھر بڑے سوچ بچار کے بعد فیصلہ ہوا کہ کنویں میں گرے کتے کو دوسرے کتے سے بدل لیا جائے۔
٭٭٭
تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے یہ فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید