شگُفتہ نے اپنی پتلی سی چوٹی مکمل کر کے آخری گرہ لگائی، اسے پیچھے پھینکا اور حسب عادت سر کو جھٹکا۔ اس کا اکہرا لامبا بدن جیسے پتلی ٹانگوں کی بیساکھیوں پر رکھ دیا گیا تھا۔ گاؤں کی تنگ گلی میں کھلتے لکڑی کے خستہ دروازے کو اپنے پیچھے آہستگی سے بند کر کے وہ باہر نکل آئی۔ گلی کے درمیان بہتی نالی کے سیاہ کیچڑ کی سڑاند اُسے اپنے نتھنوں میں گھستی محسوس ہوئی۔ وہ نالی پھلانگ کر اپنے گھر سے دوسری طرف آ گئی اور زرد لمبی گردن گھما کر سرا سیمہ نظروں سے پیچھے دیکھا۔ رات کے پچھلے پہر کی سنسناتی خاموشی میں گلی دور تک، اتنی دور تک کہ جہاں اُس کی نظریں گھومتی گلی کی گولائیوں سے جا ٹکرائیں، سنسان پڑی تھی۔ چوروں کی سی چال چلتی، ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھاتی اور زمین پر رکھتی وہ گلی سے باہر کچی سڑک پر آ گئی۔ دھول سے اَٹی سڑک کے پار جوہڑ کا دن کو سبزی مائل نظر آتا ساکت پانی پورے چاند کی پراسرار چاندنی میں نہایا سنہری نظر آ رہا تھا۔ براق چاندنی پانی کی ہموار سطح سے ٹکرا کر، منعکس ہو کر، گرد و پیش میں تحلیل ہو رہی تھی۔ جوہڑ سرما کے آخری دنوں کے ماحول کی خاموش، پرسکون بھیگ چلی رات کے اسرار میں غرق تھا۔ کبھی کبھار کوئی فرقت زدہ مینڈک ٹراتا تو خاموشی ٹوٹنے کی بجائے زیادہ گہری اور گمبھیر محسوس ہوتی۔ گاؤں کے کتے یا تو سب سو چکے تھے یا گاؤں چھوڑ چکے تھے جو کسی مریل سی کتیا، کسی پلے کے بھونکنے کی نحیف آواز بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔
اس نے جوہڑ کے کنارے کنارے چلتے کھیتوں میں گھستی پگڈنڈی پر اپنا پُر اسرار سفر جاری رکھا۔ گاؤں سے ایک ڈیڑھ ایکڑ کا فاصلہ ہی طے کیا ہو گا کہ چھوٹی سی کچی چہاردیواری میں سمٹا ایک احاطہ ظاہر ہوا۔ بکری کی مینگنیوں، گائے بھینسوں کے گوبر اور پیشاب کی ملی جلی بو ہوا کے کندھے پر سوار اس تک آ پہنچی۔ باڑے میں چند بھینسوں، ایک گائے، دو بیلوں، ایک گدھی اور ایک کونے میں سمٹی چند بکریوں کے علاوہ ایک چتکبرا کتا بھی تھا جو گاؤں کے کتوں کی خلاف معمول خاموشی میں اب تک ان کا ساتھ دے رہا تھا۔ اس کی آہٹ سن کر یا خوشبو سونگھ کر کتا بیدار ہوا اور ہلکا سا غرایا۔ طویلے کے آخر میں چھپے نیم تاریک کونے سے ایک ہیولابرآمد ہوا اور دھیمی آواز میں کتے سے بولا:
“چُپ کر جا ڈبُو۔ گھر والے ہی ہیں”۔
ڈبو نے ذرا حیل و حُجت نہ کی اور اپنی آواز گلے ہی میں دبا کر خرخر کرتا، دُم کو چکریاں دیتا دوسرے کونے کی طرف چلا گیا۔ سایہ قریب آتا چلا گیا اور بالآخر ایک طویل قامت نوجوان میں ڈھل گیا۔ نوجوان آگے بڑھا اور بے تکلفی سے شگفتہ کو بے تابی سے گلے لگا لیا۔ دوسری طرف بھی وارفتگی اور خود سپردگی کم نہ تھی۔
کئی منٹ کے بعد وہ جدا ہوئے۔
“بہت اچھا کیا آ گئی ہو۔ اب تو میں تمہارے بغیر مرنے والاہو گیا تھا۔ اگر اشرف کو پتا چل گیا تو مارتو ہمیں وہ بھی دے گا لیکن وچھوڑے کے ہاتھوں سسک سسک کر مرنے سے شاید وہ موت بہتر ہو”۔ نوجوان بولا
“اشرف اور ابا ڈیرے پر سونے گئے ہیں۔ اماں گہری نیند سو رہی تھی۔ ویسے بھی جب سے کالا موتیا اُترا ہے اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اگر جاگ بھی گئی تو مجھے ہی آوازیں دے گی۔ بس اللہ سے دعا ہے کہ سوئی رہے۔ اسے تو منظور نام سے چڑ ہے۔”
شگفتہ ایک ہی سانس میں بول گئی۔
منظور اس کی کمرکے گرد بازو حمائل کیے، اسے ساتھ لگائے، ساتھ چلاتا ہوا چارپائی تک لے آیا۔ یہ چارپائی ڈیرے میں بندھے جانوروں سے ذرا ہٹ کر دوسری دیوار کے پاس اس گدھا ریڑھی کے پہلو میں بچھی تھی جس کی پشت زمین پر ٹکی تھی اور دونوں چوبی بازو آسمان کی طرف نشانہ باندھے کھڑے تھے۔ چارپائی کی پائنتی ایک خاکی رنگ کا کھیس رکھا تھا اور سفید رنگ کا بھدی کڑھائی سے سجایا پھولوں والا سرہانا، جو تیل سے چپڑے بالوں سے مس ہو کر درمیان سے میلا ہو رہا تھا، سر کی طرف پڑا تھا۔ وہ دونوں ساتھ ساتھ چارپائی پر بیٹھ گئے۔ شگفتہ نے ہمیشہ کی طرح اپنی گوری گلابی انگلیاں، کہ ایک گھریلو دیہاتی لڑکی کے معمولات بھی جن کی ملائمت نہیں چھین سکے تھے، منظورکی گھنی سیاہ، نوکیلی اوپر کو اٹھتی ہوئی مونچھوں کے صحت مند بالوں پر پھیریں۔ یہ عمل ہمیشہ اسے بڑا ہیجان انگیز لگتا تھا۔ یہ دونوں سروں سے اوپر کو اُٹھی ہوئی شاندار کالی سیاہ مونچھیں اسے بہت پسند تھیں۔ منظور بھی ہمیشہ انہیں مروڑ کر، نو کدار بنا کر، اُٹھا کر رکھتا تھا۔ اُس نے اپنے دونوں ہاتھ شگفتہ کے زرد گالوں پر رکھے اور منہ اپنے بالکل سامنے کر کے کچھ دیر اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔ پھر چارپائی پر لیٹتے ہوئے شگفتہ کو بھی ساتھ ہی لٹا لیا اور دونوں گاؤں کے صاف آسمان پر پچھلی رات کے تاروں کے شفاف اور روشن جھرمٹ دیکھنے لگے۔
کچھ دیر تک وہ ساکت و صامت چت لیٹے رہے۔ پھر منظور آہستگی سے بولا:
“اتنا خطرہ مول لے کر آئی ہو۔ جان ہتھیلی پر لیے پھرتی ہو۔ میں تو نپٹ لوں گا لیکن اشرف تیرے ٹکڑے گن کر نہیں کرے گا۔ جب مقدر پر چھوڑا ہے تو صبر اور انتظار کرنا چاہیے حالانکہ یہ ہے بہت مشکل”۔
شگفتہ نے منظور کی طرف پہلو بدلا اور اپنے ہونٹ اس کے کان کی لَو سے مَس کرتے ہوئے سرگوشی میں بولی:
“بہت ضروری بات کرنی تھی۔ دن میں کئی کئی روز موقع نہیں ملتا کہ ایک بات بھی کر سکیں۔ پڑوسی ہو کر بھی شکل دیکھنے کو ترستے رہتے ہیں۔ اب ایسی بات آ پڑی ہے کہ انتظار نہیں ہوا”۔
“ایسی کیا مصیبت آ گئی؟ خیر تو ہے؟”
منظور نے پریشانی ظاہر کی۔
ویسے تو خیر ہی ہے لیکن جو بات میں بتانے لگی ہوں پتا نہیں تمہیں بھی اتنی خطرناک لگے یا نہ لگے جتنی مجھے پریشان کر رہی ہے۔ خیر دین نمبر دار آج لالے اشرف اور گاؤں کے پندرہ بیس اور بندوں کو ساتھ لے کر امتیاز پٹواری کے ڈیرے پر گیا تھا۔ وہاں اور بھی بہت سے لوگ آئے ہوئے تھے۔ ساتھ والے گاؤں سے بھی، اور شہر سے بھی۔ ہمارا گاؤں اب بالکل شہر کے ساتھ لگ گیا ہے۔ گاؤں تو کیڑی کی رفتار سے بڑھا ہے لیکن شہر چھلانگیں لگاتا گاؤں تک آپہنچا ہے۔ نئی کالونی کی کوٹھیوں کی چھت پر چلتے لوگ ہماری چھتوں سے صاف نظر آتے ہیں۔ اگر کالونی والوں نے بڑی سڑک کے پار لمبی دیوار نہ بنائی ہوتی تو ہمارے جانور چرتے ہوئے ان کی کوٹھیوں کے باغیچوں میں چمکتی ہری گھاس کو جا لیتے۔ اب نئی کالونی کے نصف سے زیادہ پلاٹ کوٹھیوں کے نیچے آ گئے ہیں اور خالی پلاٹوں پر ہر ہفتے نیا مکان اُگ آتا ہے۔ شہر سے آئے ہوئے بڑے لوگوں نے گاؤں والوں سے کہا ہے کہ اپنی زمینیں ان کے نام کر دیں۔ سوسائٹی بہت سے پیسے دے گی یا ہماری زمینوں کے بدلے میں زمین کے رقبے اور قیمت کے برابر پلاٹ دے گی۔ ادھر پکی سڑکیں اور زمین کے اندر چلنے والی بجلی لگے گی۔ بڑے بڑے گھر بنیں گے۔ باغ باغیچے بنیں گے۔ کھیل کے میدان بنیں گے۔ نئے ہسپتال اور بڑے بڑے انگریزی سکول کھلیں گے۔ بڑے بڑے سٹور بنیں گے جہاں بجلی کی سیڑھیاں چلتی ہیں جیسی ہوائی اڈے پر دیکھی تھیں”۔
شگفتہ نے اپنے گال کے نیچے ایک ہاتھ رکھ کر خود کو اس پر متوازن کر کے دوسرا ہاتھ منظور کے سینے پر پھیرتے ہوئے کہا۔
منظور نے ساری بات اطمینان سے سنی اور شگفتہ کے ہاتھ کا نشہ اپنے سینے سے سرایت کر کے دل دماغ اور آنکھوں تک کو پہنچتا محسوس کیا۔ کچھ توقف کے بعد احساس کی لذت سے بوجھل آواز میں بولا:
“یہ بات تو اب سارے گاؤں کو پتا چل چکی ہے، جھلئے!
اس گاؤں نے ہمیں بڑے سکھ دیے ہیں۔ دولت کے ڈھیر نہ سہی پر ہم نے سکھ کی موجیں مانی ہیں۔ ان کھیتوں کھلیانوں میں ان گلیوں رستوں میں کھیل کود کر بچپن گزرا ہے۔ میاں غلام رسول سے چھوٹی مسجد میں قاعدہ سیپارہ سے لے کر پرائمری سکول کے ماسٹر اسحاق کے اک، دو اور الف،ب تک جو پڑھا ہے اِدھر سے پڑھا ہے۔ شادی، غم، بارات، جنازہ سب اِدھر گزرے۔ لڑائیاں بھی ہوئیں اور صلح بھی۔ بھوک ننگ بھی مل کے جھیلا اور میلے ٹھیلے بھی ساتھ گزارے۔ شہر گاؤں کے پاس آیا تو سب کو فائدہ ہوا۔ بھینسوں کا دودھ دگنے پیسوں میں بکنے لگا۔ گوبر تک شہر کے مالی ٹوکریوں کے حساب سے خرید کر لے گئے۔ چارا کاٹا تو شہر لے جا کر نوٹوں میں تول کر بیچا۔ پڑھاکو لڑکوں کو گھر کی روٹی کھا کر شہر سے پڑھ کر روز پنڈ واپس آنے کی سہولت ملی۔ کمیوں کے لڑکے فیکٹریوں میں ملازم ہو گئے۔ گاؤں تک دو دو پکی سڑکیں آ لگیں۔ لڑکیاں جو سارا دن گھروں میں گھس کر ہانڈی روٹی اور کڑھائی کروشیا سے باہر نہیں نکلتی تھیں ویگنوں چنگ چیوں پر چڑھ کر سکولوں بلکہ کالجوں تک میں جانے لگیں۔ نرسیں اور استانیاں بن گئیں۔
فائدہ تو ہوا ہے لیکن نقصان بھی ہوا ہے۔ کمی جو سال بعد گندم کے چار من دانے لے کر سال سال بھر ہر طرح کی خدمت کرتے تھے اب کام کرنے شہر کو بھاگتے ہیں۔ ذرا سا کام بتاؤ تو منہ پھاڑ کر دیہاڑی کے حساب سے معاوضہ مانگتے ہیں۔ وہ پہلے والی چودھراہٹ نہیں رہ گئی۔ نائی جو گُچھی (اوزاروں کا چرمی تھیلا) لے کر تھڑے پر بیٹھ کر یا ہمارے پیچھے کھیتوں کھیتوں پھر کر ڈاڑھیاں مونڈھا اور حجامت بنایا کرتے تھے اب سڑک والے اڈے پر جا کر سیلون بنا کر بیٹھ گئے ہیں۔ ڈاڑھی منڈانے کے پیسے اُدھر کے اُدھر رکھواتے ہیں۔
سوہنیو! فائدے بھی ہوئے ہیں اور نقصان بھی”۔
منظور نے تجزیہ پیش کر دیا۔
“یہ تو ساری باتیں سچی ہیں۔ سوچنا یہ ہے کہ ہمارا اب بنے گا کیا؟ فائدہ ہو گا یا نقصان۔ گاؤں کا کیا ہو گا۔ ہمارے رہن سہن کا کیا بنے گا۔ شریکا برادری کدھر جائے گا۔ زمینیں چلی گئیں تو چودھراہٹ بھی گئی۔ یہاں تو عزت ہی زمین مرلے سے ہے۔ زمین گئی تو کمی کمین جو پہلے ہی شہر کے وسیب کے اثر میں بے لگامے ہو گئے ہیں ہمارے سر پر چڑھ کر ناچیں گے۔ میں اور ثریا نین برابر ہو جائیں گے۔ دین محمد میراثی تیرا مقابلہ کرے گا۔ تیرا حقہ نہیں تازہ کرے گا۔ چوہدری منظور، چوہدری منظور نہیں کہتا پھرے گا۔ کوئی جانور کے لیے چارا، چُوسنے کو گنے کا ٹکڑا یا منہ میٹھا کرنے کو گڑ کی روہڑی تجھ سے مانگنے نہیں آئے گا۔ بے زمین کمی عورتیں تیرے کھیت سے ساگ توڑنے نہیں آئیں گی اور اسی غرض سے تجھ سے ہنس ہنس کے باتیں نہیں کریں گی کہ چوہدری منظور کی دیسی سرسوں کی گندلیں بڑی مزیدار ہیں”۔
شگفتہ اپنی جھونک میں بولتی ہی چلی گئی۔
سلگتے، گداز جسم کے نشہ میں ڈوبے ہونے کے باوجود منظور کی ہنسی چھوٹ گئی۔
“عقلمندے! پہلے کون سی چودھراہٹ رہ گئی ہے۔ ساگ تو اب بسوں کے اڈے سے مل جاتا ہے۔ گنے بھی اُدھر پونے ملتے ہیں۔ پیسے اب کمیوں کے پاس ہم چھوٹے چھوٹے زمینداروں سے زیادہ آ گئے ہیں۔ اب دین محمد میراثی میرا حقہ صرف شام کو شہر سے واپس آ کر ایک بار بھرتا ہے اور وہ بھی میرے ساتھ مل کر شاہکوٹ کے کڑوے تمباکو کا مزہ لینے کے لیے۔ اپنے نشے کے لیے۔ میری چودھراہٹ کے خوف سے نہیں۔ پچھلے مہینے شاہکوٹ والا تمباکو ختم ہو گیا تو وہ پورا مہینا غائب رہا۔ ایک دن شام کو میاں جی سے باتیں کرتا مسجد کے پاس کھڑا نظر آیا۔ میں نے کہا، دینُو ! شاہ کوٹ سے کوڑے تمباکو کے کھبڑ آ گئے ہیں تو اگلے دن خود ہی آ پہنچا۔ تین چار ایکڑ والے نام کے چودھریوں کی نسبت کمیوں کے پاس اب زیادہ پیسے ہیں۔ وہ چھوٹا موٹا کام کر لیتے ہیں۔ عزت انا کا مسئلہ نہیں بناتے۔ نقد دیہاڑی لیتے ہیں روز کے روز۔ مجھے پتا ہے کہ اب اُلٹا چھوٹے موٹے چوہدری کمیوں کے مقروض ہوئے پھرتے ہیں۔ بس اللہ سب کا پردہ رکھے۔ ہوا اُلٹی چل پڑی ہے”۔
منظور نے ساری کتھا کہہ سنائی۔
کچھ دیر کے لیے وہ گاؤں، دنیا، گوبر اور جانوروں کے پیشاب کی بو، چمکتے چاند اور دمکتے ستاروں کو بھلا بیٹھے۔
پھر کچھ دیر بے سدھ لیٹے رہے۔
کافی وقت گزر گیا۔
“بات تو بیچ میں رہ گئی۔ میں جس فکر میں آئی تھی وہ تو ادھر ہی رہ گئی۔ کیا بنے گا ہمارا”۔
شگفتہ پھر واپس آ گئی۔
“دیکھ شگفتہ ہمارے پاس زمین ہے جو کمیوں کے پاس نہیں۔ اس زمین سے ہمیں بڑی انسیت ہے۔ یہ ہمارا فخر ہمارا مان ہے۔ ہم ہمیشہ سنتے اور مانتے آئے ہیں کہ زمین زمیندار کی ماں ہوتی ہے۔ اب بھی زمین جا رہی ہے تو ہم کوئی رضا سے نہیں جانے دے رہے۔ شہر ہمارے سر پر آ گیا ہے۔ اگر زمین ہم سوسائٹی والوں کو دیں گے تو، یا تو مہنگے پلاٹ ملیں گے جو بیچ کر ہم بھاری رقم کمائیں گے یا پھر ابھی سوسائٹی والوں سے نقد موٹی رقم لیں گے۔ گاؤں تو ہمارا ہی رہے گا۔ وہ اس کے گرد دیوار بنا دیں گے۔ ہم موٹی رقم سے یا تو کہیں شہر سے کافی دور جا کر موجودہ رقبے سے کئی گنا زیادہ رقبہ خرید لیں گے اور بڑے زمیندار بن جائیں گے یا پھر اس رقم سے بہت اچھا کاروبار کریں گے اور سوسائٹی میں کئی کوٹھیاں اور دکانیں بنائیں گے۔ شگفتہ میرے خیال میں تو یہ ہماری لاٹری نکلی ہے۔ اللہ نے ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم گوبر پیشاب کی بو سے نکلیں اور بڑے لوگوں میں شامل ہو جائیں”۔
شگفتہ اس تقریر سے بہت زیادہ متاثر تو نہ ہوئی لیکن اسے پتا تھا کہ منظور میں موروثی ضد اور اکھڑ پن موجود ہے۔ وہ وہی کرے گا جو اس کے دل میں آ چکی ہے۔ اسے یہ بھی یقین تھا کہ یہ فیصلہ اس نے منڈلی کے لڑکوں کے ساتھ مل کر کیا ہو گا اور اب یہ چاچا گاما کے لفظوں میں “منڈیر پارٹی” بڑوں سے وہی منوائے گی جو یہ ٹھان چکی ہے۔
کہیں کوئی ذمہ دار مرغ اپنے دوسرے ساتھیوں سے بہت پہلے جاگ گیا اور ان دونوں کو افرا تفری پڑ گئی۔ منظور شگفتہ کے آگے آگے چل کر جوہڑ کے دوسرے کنارے تک گیا اور گاؤں شروع ہونے سے پہلے اسے اللہ حافظ کہہ کر لوٹ آیا۔ پگڈنڈی ختم ہونے سے پہلے ایک مینڈک نے اس کے قدموں کی آہٹ سن کر پر سکون، ساکت جوہڑ میں چھلانگ لگائی تو شڑاپ کی آواز دُور تک گونج گئی۔
اب کبھی کبھار گاؤں کے کتوں کی آوازیں بھی آ رہی تھیں جو شاید سحر خیز نمازیوں کو اپنی موجودگی سے خبردار کر رہے تھے۔ منظور نے دل سے دعا کی کہ شگفتہ کے گھر پہنچنے تک کوئی نمازی گلی میں نہ نکل آئے۔
اگلے تین چار ماہ گاؤں نت کلاں میں بڑے بڑے اکٹھ ہوئے۔ خیر دین نمبردار کی حویلی سے چار آدمی نکلتے تو چھ آ کر بیٹھ جاتے۔ مذاکرات کے بعد فیصلہ ہوا کہ نوجوان طبقے کی بات مانے بنا چارہ نہیں۔ بوڑھوں نے تسلیم کیا کہ اب ان کی ہڈیوں میں اتنا دم نہیں کہ پُرکھوں کی چھوڑی دھرتی کا سینہ چیر کر اتنے نوٹ اگا سکیں جو نئی نسل کی نئی ڈھب کی لامحدود ضروریات پوری کر سکیں۔ وہ وقت لد گیا کہ حقہ اور تاش کی بازی یا بڑ کے نیچے تپتی دوپہر سے پناہ لے کر میاں محمد بخش کی سیف الملوک یا وارث شاہ کی ہیر رانجھا کے سہارے دوپہر گزار دی جائے۔ اب گاؤں میں وی سی آر، ڈِش سے آگے کیبل، موبائل بلکہ انٹرنیٹ تک کی رسائی ہو چکی تھی۔ ایزی لوڈ، بیلنس، فیس بک اور یُوٹیوب جیسے نئے نام اور نئے تقاضے راہ پا رہے تھے۔ بزرگ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کا زمانہ ماضی ہوا۔ ان کی بوڑھی ہڈیاں جوان تقاضے پورے کرنے کے قابل تو ہیں نہیں تو کیوں جوانوں کو ناراض کر کے بڑھاپا خراب کیا جائے۔ یہ فیصلہ ہو جانے کے بعد کئی دن اس بحث میں گزر گئے کہ گاؤں کی زمین کس حد سے آگے تک سوسائٹی کے حوالے کی جائے۔ دو بڑی مسجدیں تو گاؤں کی آبادی کے اندر تھیں لیکن ایک چھوٹی نیم آباد مسجد گاؤں کی مشترکہ زمین پر گاؤں سے باہر تھی۔ بڑی بحث تمحیص کے بعد بڑے میاں جی کی مرضی سے یہ طے پایا کہ وہ مسجد بھی سوسائٹی کے حوالے کر دی جائے جو چاہیں تو شہید کریں یا قائم رکھیں لیکن عوضانہ کی رقم بڑے میاں جی کو دی جائے جو اپنی نگرانی میں دونوں بڑی مسجدوں کی توسیع پر خرچ کریں۔ یہ بھی طے پایا کہ سوسائٹی بڑی سڑک سے گاؤں تک آتی نیم پختہ سڑک کے ڈیڑھ کلومیٹر ٹکڑے کو اپنے خرچ پر یا سرکاری خرچ پر دو رویہ اور پختہ کروا کر دے۔ گاؤں کے گرد کی چاردیواری میں چاروں طرف ایک ایک راستہ کھلا چھوڑا جائے جس سے نئی پختہ سڑک اور کالونی کو جاتی سڑک تک رسائی ہو۔
سب فیصلے ہو گئے اور انتظامات ہونے لگے۔ کچہری کے چکر کیا لگتے رجسٹری اور انتقال اراضی کرنے والے سوسائٹی کے زر خرید غلام اپنے بیگ بستے اٹھائے خود گاؤں آ کر گلی گلی کام نپٹانے لگے۔ شہر کے قریب ترین بینکوں کے افسران نے چھوٹے اور منیجروں نے بڑے زمینداروں کے گھروں کے چکر لگائے اور رقم محفوظ اور کم خرچ طریقے سے بینک اکاؤنٹ میں پہچانے کے بہت سے گربتا کر گاہکوں کو گھیرا۔
گاؤں میں بہت بڑی بڑی تبدیلیاں آئیں۔ گاؤں سمٹ کر ایک نو تعمیر شدہ چار دیواری میں قید ہو گیا۔ جہاں آبادی کے چاروں طرف کھیت، باڑے، ڈیرے، جوہڑ اور راستے تھے وہاں اب کنکریٹ کی ساڑھے چھ فٹ اونچی دیوار نظر کو روکتی تھی۔ اس مختصر آبادی والے گاؤں کے اردگرد پختہ اینٹوں کا گول گول گھومتا ایک پندرہ بیس فٹ چوڑا راستہ تھا جو گاؤں کی سب گلیوں کی منزل تھا۔ اس راستے کو گاؤں کے چاروں اطراف آمد و رفت کے لیے چار نو تعمیر سڑکوں سے ملا دیا گیا تھا۔ جس گاؤں میں گدھا گاڑیوں، موٹر سائیکل، ٹریکٹر، چنگ چی رکشاؤں کے ساتھ شاذ ہی کوئی پرانی کار نظر آتی تھی وہاں اب چھوٹی بڑی چمکدار نئی کاروں کا آنا جانا لگ گیا جنہیں پارک کرنا مسئلہ تھا۔ کچے پکے احاطے پکے ہو گئے، چھوٹے بڑے یک منزلہ مکانوں پر دوسری منزل سوار ہوئی اور کہیں تیسری منزل بھی وارد ہو گئی۔ جہاں منظور کا احاطہ تھا وہاں سوسائٹی کے سکیورٹی والوں نے چند ہفتوں میں اپنی بارک قائم کر لی تاکہ گاؤں کے اُجڈوں سے شروع ہی سے علیحدگی اور حفاظت کا خاطر خواہ بندوبست ہو جائے۔ گاؤں کے عادی چور اُچکے پھر بھی پر امید تھے کہ سوسائٹی میں گھسنے نکلنے کی سو سبیلیں ان کے ذہن میں کلبلا رہی تھیں۔
شگفتہ نے یہ ساری تبدیلیاں بڑے بوجھل دل کے ساتھ دیکھیں۔ اسے اپنا کچی مٹی کی سوندھی خوشبو میں بسا وہ گاؤں نہیں بھولتا تھا جس کی گلیوں کی کھلی نالیاں پھلانگتی وہ جوان ہوئی تھی۔ اسے درختوں کے وہ جھنڈ یاد آتے تھے جن کے شریں اور دھریک اپنے موسم میں مہکتے اور گاؤں مہکاتے تھے۔ اسے وہ کیکر یاد آتے تھے جو ساون بھادوں کے موسم میں اپنے کانٹوں کی چبھن سے زیادہ میٹھی خوشبو دیتے زرد پھولوں سے لد جاتے تھے اور چھونے پر زردی انگلیوں کی پوروں سے چپک چپک جاتی تھی۔ وہ املتاس کے زرد پھولوں کے لٹکتے ہار یاد کرتی تھی جو برسات میں پانی کی بوندوں کے بوجھ سے لٹک کر زمین سے قریب تر ہو جاتے تھے۔ اب یہ سب کچھ کنکریٹ کی دیوار سے باہر رہ گیا تھا جہاں ڈیزل کے بدبو دار دھوئیں چھوڑتی مشینیں اس سارے اثاثے کو کاٹ پیٹ کر سڑکیں بنا رہی تھی۔ ان کی یادوں بھری دھرتی کو چھوٹے بڑے پلاٹوں کی شکل دی جا رہی تھی۔
کئی انہونیاں بیت رہی تھیں۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ اشرف اور منظوربوسکی کی نئی قمیص پہنے ایک شاندار گاڑی کی عقبی نشست پر اکٹھے بیٹھے اور گاڑی شہر کو نکل گئی۔ وہ حیران رہ گئی کہ یہ آگ اور پانی کا میل کیسے ہو گیا ! گاؤں کے سب لوگوں نے زمینوں سے آئی رقم کو اپنی صوابدید یا اپنے مشیروں کے مشورے سے استعمال کیا۔ کوئی چھوٹا سا ٹرانسپورٹر بن گیا، کوئی پراپرٹی ڈیلر اور کوئی عمارتی سامان کا سٹور ڈال کر بیٹھ گیا۔ پشتوں سے ایک ہی پیشے سے منسلک لوگ نئے نئے کاروباری تجربات میں لگ گئے۔ کچھ لوگوں کے دھوکا کھا کر پیسے ضائع کر لینے اور بالکل محتاج ہو جانے کی خبریں بھی گردش میں آئیں جبکہ کچھ کی دولت کے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کے قصے بھی مشہور ہوئے۔
اشرف اپنے والد کا مناسب سا احترام تو کرتا تھا لیکن اسے قائل کر چکا تھا کہ اب بدلی ہوئی دنیا اشرف اور اس کے ہم عمر لوگوں کی ہے۔ پچھلی نسل غیر متعلق ہو چکی۔ جب گاؤں میں بہت سی دولت آئی تو ہر طرح کے لوگ دولت کے پیچھے آ پہنچے۔ جن خاندانوں میں فیصلے ابھی تک بزرگوں کی مشاورت سے ہوتے تھے وہ سنبھل کر چلے لیکن جہاں وقت کے بھاگتے گھوڑے کی لگام صرف نوجوان، مہم جو، نا تجربہ کار ہاتھوں میں تھی وہاں معجزے بھی رو نما ہوئے اور سانحات بھی گزرے۔
گاؤں میں سٹاک ایکسچینج اور حصص کا نام بالکل اجنبی تھا۔ سٹہ بازی کا تو شاید کسی نے کبھی خواب بھی نہ دیکھا ہو کہ کیسی بلا ہے اور کیا گل کھلا سکتی ہے۔ شہر زاد نے اپنے خالہ زاد سہیل ملک کے ذریعے منظور اور اشرف کو وہ سبز باغ دکھائے کہ دونوں باہمی مخاصمت بھول کر برضا و رغبت ایک ہی جادوگر کے سحر کے اسیر ہو گئے۔ سہیل ملک نے شہر کی سب سے شاندار آبادی کے تجارتی مرکز میں ایک عجوبہ عمارت کی ساتویں منزل پر کسی غیر معروف سٹاک بروکریج ہاؤس کا ذیلی دفتر کھول رکھا تھا۔ الٹرا ماڈرن مغربی لباس زیب تن کیے ریسپشنسٹ سے لے کر گداز صوفوں میں دھنسے، بڑی سی ٹیلی وژن سکرین پر سبز، نیلی اور سرخ پٹیوں میں چلتے اور پل پل بدلتے ہندسوں تک جادوئی ماحول، پھر میرون رنگ کی شوخ شرٹ اور کالی پتلون پہن کر کالی بو لگائے ہر آدھ گھنٹے بعد ہاٹ یا کولڈ کافی، چائے، منرل واٹر یا کولڈ ڈرنک کا آرڈر لیتے خوب صورت بیرے تک سب ماحول کسی اور ہی دنیا کا حصہ تھا۔ دونوں دیہاتیوں کے اکاؤنٹ کھول کرخرید و فروخت شروع ہو گئی۔ سبز رنگ کے بڑھتے اور سرخ رنگ کے گرتے نرخ ناچتی پریاں بن گئے۔ حصص کی خرید و فروخت کی روزکے روز رسید پیش کی جاتی۔ نئے خریدے ہوئے سمارٹ فون پر میسیج بھی موصول ہوتے جن کی انھیں کچھ سمجھ نہ آتی لیکن ہاؤس کے سمارٹ لڑکے انہیں پڑھ کر سمجھاتے۔ پہلے ہفتے میں اشرف اور منظور کی رقوم بڑھ کر دوگنا کے قریب ہو گئیں۔ ان دونوں نے مشورہ شروع کر دیا کہ اتنے پیسے کیسے سنبھالیں گے اور کہاں خرچ کریں گے۔ جو خواب وہ دیکھ چکے تھے بہت پیچھے اور بہت نیچے رہ گئے۔ منظور کا تو باپ بھی کئی سال پہلے دوسرے جہاں جا چکا تھا اور بھائی بہن کوئی تھا نہیں۔ بوڑھی ماں کو کیا بتانا تھا اور کیا چھپانا تھا۔ اشرف نے بھی اپنے والد یا شگفتہ سے کچھ ذکر نہ کیا کہ کیا کاروبار کر رہا ہے۔ بس دونوں کا لباس، گھڑیاں اور ہاتھوں میں پکڑے جدید ترین موبائل فون ظاہر کرتے تھے کہ وہ بہت خوش اور خوشحال ہیں۔ ہفتے میں پانچ دن ایک شاندار سی کار اُنہیں صبح لے جاتی اور رات گئے واپس چھوڑ جاتی۔
اس مرحلہ پر چیزیں بہت ہی تیزی سے بدلیں۔
سہیل ملک نے اشرف اور منظور کو ایڈوانس بائینگ، ایڈوانس سیلنگ، سیپیکولیٹو بائینگ اینڈ سیلنگ (Advance Buying, Advance Selling, Speculative Buying and Selling) جیسے بڑے بڑے لفظ سکھائے۔ اب لگائی گئی رقوم کو ایک ایک دن میں دوگنا چوگنا اور دس گنا ہونا تھا۔ یہ سارا وقت ایک سہانے لیکن ناقابل یقین خواب کی طرح گزر رہا تھا۔
وقت پھر گزر گیا۔
بہت وقت گزر گیا۔
گاؤں کو جاتی چاروں نئی پختہ سڑکوں کا سیاہ تار کول مٹ میلا ہو چکا تھا۔ ٹھیکیدار کی بے ایمانیاں چھوٹے چھوٹے گڑھوں کی شکل میں ظاہر ہو رہی تھیں۔ سڑک کے کناروں کی مٹی میں گاؤں کی زمینوں کی ختم ہو چکی گھاس کی بچی کھچی جڑوں نے پھر روئیدگی بھر دی تھی۔ گاؤں کی سڑک جہاں سوسائٹی کی سڑک سے ملتی تھی وہاں بہت سی دکانیں بن گئی تھیں۔ گاؤں سے قریب کے اکثر پلاٹس پر نئے دو منزلہ بنگلے بن چکے تھے جن میں سے کچھ کی دوسری منزل کی بالکونیاں بوگن ویلیا اور جھومر بیلوں کے پھولوں سے ڈھکی تھیں۔ کچھ بیلیں پھولوں سمیت نیچے کو لٹک کر لہرا رہی تھیں۔ ایسے میں گاؤں کی سڑک سے ایک پرانی بائیسکل آ وازیں نکالتی ہوئی نکلی اور کالونی کی طرف مڑ گئی۔ سائیکل کے کیرئیر پر بیٹھی معمولی سے کپڑوں میں ملبوس ادھیڑ عمر عورت نے کالی چادر اپنے گرد کس کر لپیٹ رکھی تھی تاکہ لٹک کر سائیکل کے پہیے میں نہ پھنس جائے۔ سائیکل چلانے والے مرد نے پورا زور لگا کر پیڈل گھمائے تو سائیکل کی رفتار بڑھ گئی۔ کالونی میں داخل ہو کر آٹھویں کوٹھی کے بڑے سے آہنی گیٹ کے سامنے سائیکل رکی۔ کیرئیر پر بیٹھی عورت سائیکل سے اتر کر نیچے کھڑی ہوئی، چادر ہٹا کر بدرنگ، پتلی سی چٹیا کو آگے لا کر اس کی آخری گانٹھ کو اپنی کھردری سانولی انگلیوں سے ٹٹولا، تسلی ہونے پر چٹیا پیچھے پھینکی، گردن کو جھٹکا دیا اور کوٹھی کی پارکنگ لاٹ میں داخل ہو گئی۔ باورچی خانے کاعقبی دروازہ داہنی طرف تھا اورگھر میں ڈھیروں برتن، بچے کھچے کھانے سے بھرے کوڑا دان، گندے سِنک سمیت کئی کام اس کے ہاتھوں کی معجز نمائی کے منتظر تھے۔
سائیکل والے نے سائیکل کو اپنی کمر سے ٹکا کر دونوں ہاتھ خالی کیے، انگوٹھوں اور ساتھ والی انگلیوں سے اپنی مونچھوں کو مروڑ کر نوکیں اوپر کو اٹھائیں، ایک نظر سائیکل کے ہینڈل کے ساتھ لٹکی درانتی، آری، کھر پی اور بڑی سی قینچی کو دیکھا اور سائیکل چلاتا ہوا آگے نکل گیا جہاں بارھویں کوٹھی کے بڑے سے باغیچے میں اُگی گھاس، پھول اور پودے اس کے ہاتھوں کی مسیحائی سے پنپتے اورسنورتے، پھلتے اور پھولتے تھے۔
گاؤں اور شہر نے اکٹھے رہنا سیکھ لیا تھا!!
٭٭٭