لکڑی کی چوکی پر کھڑا اجُو حیران تھا کہ نذیر نائی آج کچھا اتار کر اس کی حجامت کیوں بنائے گا۔ صبح ہی سے حویلی میں رونق معمول سے کچھ زیادہ تھی۔ برادری والے صاف کپڑے پہن کر سروں پر رنگ برنگے صافے باندھے اکٹھے ہو رہے تھے۔ اجو نے سوچا کہ آج پھر بیل گاڑیوں اور گھوڑوں پر سوار ہو کر سب تحصیل جا رہے ہوں گے اور شام کو ابا اس کے لیے برفی یا جلیبی لائے گا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ کسی قریبی گاؤں میں فاتحہ یا ولیمہ کے لیے جا رہے ہوں اور دن ڈھلے واپس لوٹ آئیں۔ نذیر نائی نے بھی خلافِ معمول صاف کپڑے پہنے ہوئے تھے اور جاٹوں کی داڑھیاں مونڈھتا، مونچھیں کترتا پھر رہا تھا۔ اجو کوئی بہت بچہ بھی نہیں تھا کہ پانچ چھ سال کا ہو چلا تھا لیکن تھا تو بچہ ہی۔ نذیر نائی چاچے صفدر کی ڈاڑھی مونڈ کر مسکراتا ہوا اجو کے پاس آیا۔ نذیر کا چرمی تھیلا جس میں اس کی قینچیاں، استرے، انگریزی موٹی اور باریک کٹائی والی مشین، میل سے اَٹی ہوئی پلاسٹک کی کنگھی، شیو کا جھاگ بنانے والاصابن، گھسا ہوا برش، ناخن کاٹنے والا اوزار جسے وہ نیہرنا کہتا، استرا تیز کرنے کا پتھر جسے وہ وَٹی کہتا اور جانے کیا کیا بھرا رہتا تھا، اس کے کاندھے پر لٹکا تھا۔ چمڑے کا ایک ٹکڑا علیحدہ لٹک رہا تھا۔ وَٹی پر اُسترا گھس کر نذیر اس چمڑے پر استرے کی دھار باندھتا۔ اجو ہمیشہ حیران ہوتا کہ نذیر چمڑے پر استرے کو آگے پیچھے رگڑتے ہوئے اپنی زبان بھی منہ کے اندر باہر کیوں لے جاتا ہے۔ اجو کو استرے کی چمڑے پر حرکت اور نذیر کی زبان کی مسلسل اور باقاعدہ آمد و رفت سے یہی سمجھ آ یا کہ اس تال میل سے استرے کی صحیح دھار بندھنے کا کوئی نہ کوئی تعلق ضرور تھا۔ خیر مسکراتا ہوا نذیر بالآخر اجو کے سامنے آ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں بانس کی پتلی سی نلکی جیسی کوئی چیز اور دوسرے ہاتھ میں استرا تھا۔ تاج دین حلوائی نے اجو کے ہاتھ پکڑ لیے اور نذیر بولا، “چوہدری اعظم اُوپر دیکھ نیلے رنگ کی ٹٹیری اڑتی ہوئی جا رہی ہے”۔ اجو نے ابھی اوپر نظر کی ہی تھی کہ نیچے ہوئی حرکت سے اُس کی چیخ نکل گئی۔ اس نے خود کو چھڑانا چاہا تو دو لوگوں کی مضبوط گرفت نے اسے ہلنے بھی نہ دیا۔ اب تاج دین کے ساتھ اجو کا ماموں بھی اسے پکڑے ہوئے تھا۔ جو ہونا تھا ہو چکا تھا۔ اجو کی مرہم پٹی ہونے تک نذیر نائی اور تاج دین حلوائی کو اتنی فصیح و بلیغ گالیاں مل چکی تھیں کہ ان کا ترجمہ کروانے میں کئی ہفتے لگ جاتے۔ ماموں صاحب کو بھی گالیوں میں سے وافر حصہ ملا تھا۔ بہر حال ہونی بیت چکی تھی۔ اللہ بخش نمبر دار کو جب بھی کسی نے مشورہ دیا کہ اعظم کے ختنے کروا لو، بڑا ہو گا تو تنگ کرے گا تو اس نے ہنس کر کہا کہ میرا ایک ہی بیٹا ہے، ذرا بڑا ہو لے تو دھوم دھڑکے سے ختنے کریں گے۔ کمیوں کو راضی کریں گے اور برادری کی اچھی دعوت کریں گے۔ اچھی دعوت کے لیے پالے گئے دو کٹڑے کاٹے گئے۔ میٹھے اور نمکین چاولوں کی دیگیں اتریں اور گرم گرم روٹیوں کے ساتھ خوب دعوت اڑی۔ کمی کمینوں کو لاگ دئے گئے۔ مہمانوں نے کمیوں کو گھر والوں سے علیحدہ پیسے دئیے۔ میراثیوں نے حویلی میں گانے سنائے اور نقلیں اتار کر چوہدریوں کو خوب ہنسایا۔ چوہدرانیوں کو گھر کے اندر میراثنوں نے بھدی آوازوں میں خوب خوب گانے سنائے اورذ و معنی لطیفے سنا کر ہنسایا۔ نذیر نائی نے نمبردار سے لاگ لینے سے انکار کر دیا اور بولا کہ میں چوہدری اعظم کی پٹی اترنے پر انعام لوں گا۔ چوہدری بھی مان گیا کہ ٹھیک ہے جو تیری خوشی۔ اگلے دن جب نذیر پٹی بدلنے آیا تو اجو کو خاصی تکلیف تھی۔ اس نے دونوں ٹانگیں دور دور کر رکھی تھیں اور ڈیوڑھی میں بچھی چارپائی پر تکیے کے سہارے نیم دراز تھا۔ شوکت فقیر کھجور کے پتوں والی پکھی ہلا کر مکھیوں کو دور کر رہا تھا۔ نذیر کو دیکھتے ہی اجو دھاڑا۔
“نذیر نائیا ! تیری ماں۔۔۔۔ تم نے۔۔۔۔ کاٹ کر کیوں پھینک دیا؟ اس کے ساتھ میں تمہاری۔۔۔۔ کو یہ کرتا تھا، وُہ کرتا تھا۔”
نذیر نائی ہنستا بھی گیا اور اجو سے جھوٹی جھوٹی معافیاں بھی مانگتا گیا۔ بالآخر مذہبی مجبوری بتائی اور کوئی شادی کا بھی جھوٹا سچا حوالہ دیا لیکن اجو کا غصہ کم ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ اس حادثے کو دو ہفتے گزر گئے۔ چوہدری اعظم کی پٹی جسے وہ پگڑی کہتا تھا کھل چکی تھی۔ حاصل حصول سے اللہ بخش نمبردار، چوہدری اعظم عرف اجو اور نذیر نائی سب مطمئن تھے۔ سردیوں کی صبح کی دھند گاؤں کے چاروں طرف پھیلے کھیتوں میں گندم کے نوخیز نرم پودوں اور باغیانہ سر اُٹھاتی سرسوں کے نرم ڈنٹھلوں، کہ جن پر زرد پھولوں کے بچھنے میں چند ہفتے پڑے تھے، کو خوب بھگو کر آہستگی سے غائب ہوتی جا رہی تھی۔ پرعزم سورج اپنے زور میں دھند کو دھکیل کر گاؤں کے کچے پکے مکانوں، جانوروں کے طویلوں اور حویلیاں کہلوانے والے مردانہ ڈیروں کو روشن اور نیم گرم کرنے کے درپے تھا۔ صبح جلد اُٹھ جانے والے دیہاتی فارغ تھے کہ اس علاقے کی ربیع کی فصلیں بوئی جا چکی تھیں اور جانوروں کے لیے چارا دوپہر کے بعد ہی کاٹا جانا تھا۔ دیواروں کے ساتھ ٹکرا کر دھوپ کی حدت بڑھ جاتی ہے سو سورج کی طرف رخ کر کے اپنے اپنے محلے کے مرد گروہوں کی صورت میں دھوپ کھا رہے تھے۔ گپ شپ کرتے انہی گروہوں میں سب سے پر رونق ڈیرہ نمبر دار کی حویلی کے تھڑے پر لگا تھا۔ حُقے تازہ تھے اور نذیر نائی موقع غنیمت جان کر ہر خواہشمند کی ڈاڑھی مونڈھ کر اپنا کام نپٹا رہا تھا۔
“ہاں بھئی نذیر ! اجو کا زخم بھر گیا۔ اب بتا تو نے کیا لینا ہے۔ میں تیرا حق دے کر فارغ ہونا چاہتا ہوں۔”
نمبر دار کو یاد آ گیا۔
“چوہدری جی جو آپ کی خوشی۔ ہم تو آپ ہی کا دیا کھاتے ہیں۔ آپ ہی کی مہربانی سے پشتوں سے آپ چوہدریوں کی خدمت کر کے بچے پال رہے ہیں۔”
نذیر نائی نے نسلوں سے یاد کیا ہوا فقرہ دُہرایا۔
“نہ بھئی نذیر۔ ایسے نئیں۔ تو نے کہا تھا کہ مرضی کی چیز لے گا اور میں نے وعدہ کیا تھا کہ تجھے خوش کروں گا”۔
نمبر دار نے اصرار کیا۔
ایک دو بار رسمی انکار کے بعد نذیر بولا،
“چوہدری صاحب اگر آپ بضد ہیں تو مجھے کوئی کٹڑی دے دیں۔ خدمت کروں گا۔ کل کو بھینس بن جائے گی تو بچے دودھ دہی کو نہیں ترسیں گے۔ لسی کا پیالہ پی کر آپ کے جان مال کو دعائیں دیں گے۔ آپ کی رانی کو بھی صبح ہی صبح گڑوی پکڑ کر لسی مانگنے نہیں جانا پڑے گا”۔
چوہدری نے ذرا توقف کیا۔ پھر نظر مویشیوں سے بھرے باڑے پر ڈالی جہاں قسم قسم کے جانور چارا کھانے، جگالی کرنے یا آرام فرمانے میں مشغول تھے اور بولا۔
“جا راجہ جا کر بھوری کٹڑی کھول لے۔ کسی پر مہربانی کریں تو پوری کریں۔ اس کی ماں دودھ کی نہریں بہاتی ہے۔ بالٹی بھر کر دودھ دیتی ہے دونوں وقت۔ خدمت کر۔ جھوٹی (جوان بھینس) بنے گی تو تمہاری بھوک مٹا دے گی۔ عیش کروا دے گی۔ سارے محلے کو لسی بانٹنا”۔
نذیر کی خوشی سے باچھیں کھل گئیں۔ لاکھوں دعائیں دیتا اٹھا اور بھوری کٹڑی کا ماتھا چوما۔ رسی کھونٹے سے کھول کر خوشی خوشی گھر کو روانہ ہوا۔
جب نذیر کٹڑی لے کر گھر پہنچا تو اس کے گھر والوں کی تو جیسے عید ہو گئی۔ نذیر کا گھر جوہڑ کے کنارے پر ایک کچے کمرے، چھوٹے سے صحن اور بیرونی دروازے کے سامنے چھوٹے برآمدے، جسے گاؤں والے ڈھارا کہتے تھے، پر مشتمل تھا۔ گھر کے سامنے کھلی بد رو اور اس سے آگے جوہڑ۔ کٹڑی کو جوہڑ کے کنارے کھونٹا گاڑ کر باندھ دیا گیا۔ جلدی میں ایک ناند بنائی گئی۔ بھوسے اور چارے کا بندوبست کیا گیا اور سارا خاندان کٹڑی کی خدمت میں جُت گیا۔
اگر امید کے سراب نہ ہوں تو غربت اور کمزوری میں جینا دوبھر ہو جائے۔ امید جینے کا سہارا بھی دیتی ہے اور انسان کو اٹھائے اٹھائے بھی پھرتی ہے۔ کٹڑی کی شکل میں جو امید نذیر کے گھر آئی اس نے گھر بھر میں توانائی دوڑا دی۔ کٹڑی کی خوب خوب خاطر مدارات ہونے لگیں اور اس کاوش کے مثبت اثرات بھی صاف نظر آنے لگے۔ صحت مند اور لاڈلاجانور عام رفتار سے زیادہ تیزی سے قد کاٹھ اور رنگ روپ نکالنے لگا۔ اجو کے ساتھ گزرے واقعہ کو خاصا وقت بیت گیا اور وہ یہ سانحہ بھول گیا۔ نذیر کی مہربانی تو ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو گئی لیکن چوہدری کی مہربانی پھلتی پھولتی گئی۔ نذیر نائی نے گاؤں بھر سے مانگ تانگ کر اچھے سے اچھا چارا، کھل بنولہ، گندم اور جو کا دلیہ کھلا کھلا کر بھوری کٹڑی کو جھوٹی بنا دیا۔ اسے نہلا دھلا کر سرسوں کا تیل ملتا تو اس کی جلد چمکنے لگتی۔ سینگوں کو کالاتیل لگا کر خوب چکنے کئے رکھتا۔ جب وقت آیا تو اپنے گاؤں کا کوئی بھینسا نذیر کو بھوری کے جوڑ کا نہ لگا۔ پورا دن نکال کر اعوان گڑھ جا کر سرکاری سانڈھ سے میل کروایا اور رہٹ کے صاف پانی سے نہلا کر ناند پر لاباندھا۔ اب دس گیارہ مہینے کا انتظار شروع ہوا۔ پورا خاندان دن میں کئی بار بھوری کی جسامت کا اندازہ لگاتا۔ تھن دیکھے جاتے۔ اس کی ماں کی خوبیاں بیان ہوتیں اور اپنی قسمت پر ناز کیا جاتا۔ کئی ماہ اس چاؤ اور امید میں نکل گئے۔ سالہا سال کی محنت رنگ لانے جا رہیتھی۔ دودھ اور شہد کی نہیں تو کم از کم دودھ کی نہر والی جنت بس ملا ہی چاہتی تھی۔ یہ جھوٹی نذیر کی کٹیا کا سب سے قیمتی اثاثہ تھی۔
گرمیوں کے دن تھے اور برسات کی آمد آمد۔ بادل یکدم کسی سمت سے نکل آتے اور اکثر ڈراتے دھمکاتے گزر جاتے۔ بجلی ابھی چھوٹے شہروں میں بھی نہیں آئی تھی اور گاؤں والوں نے تو صرف بجلی کی کہانیاں ہی سنی تھیں۔ راتوں کو برسات کی بوندا باندی ہوتی تو سوتے لوگ چھتوں سے چارپائیاں بستر گھسیٹ کر حبس زدہ کمروں میں گھس جاتے۔ ایک رات اجو چھت پر سو رہا تھا کہ بادل کے گرجنے سے جاگ گیا۔ اس نے آسمان کی سمت دیکھا تو بادل چھدرے سے تھے اور جگہ جگہ بادلوں سے خالی آسمان پر تارے چمک رہے تھے۔ اس نے سوچا کہ بارش کا امکان کم ہے سو چھت پر ٹک کر دوبارہ سونے کی کوشش کی جائے۔ ابھی اس نے آنکھیں موند کر کروٹ بدلی ہی تھی کہ اسے کل رات والی بد مزگی یاد آ گئی جب بوندا باندی نے اس کی نیند ایسی اچاٹ کی تھی کہ رات بھر کروٹیں بدلتا رہا، نیند نہ آئی اور سورج نکل آیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ نیچے جا کر بیٹھک میں سویا جائے تاکہ دن چڑھے تک مزے کی نیند کی عیاشی کی جائے۔ کھیس اور تکیہ بغل میں دبائے اپنی ہلکی سی چھوٹی چارپائی اٹھا کر وہ سیڑھیوں سے نیچے اتر آیا۔ ابھی بیٹھک میں داخل نہیں ہوا تھا کہ اسے کھسر پھسر کی آواز آئی۔ وہ اس ناوقت، غیر متوقع گفتگو کے بارے میں تجسس میں مبتلا ہو گیا۔ اجو نے چارپائی اور بستر ایک طرف رکھے، دبے پاؤں بیٹھک کے بند دروازے تک پہنچا اور کان لگا کر گفتگو سننے لگا۔ اس نے اپنے ابے اور معراج دین اوڈھ کی آوازیں فوراً پہچان لیں جو رات کے سناٹے میں بہت واضح سنائی دے رہی تھیں۔
“ٹھیک ہے نمبردارا۔ یہ کام تو آج رات ہی ہو جائے گا۔ باقی پہلے بھی تم ہی سنبھالتے ہو اب بھی تم ہی سنبھالنا”۔
معراج دین بولا۔ پھر کچھ دیر خاموشی رہی۔ نمبردار اس وقت بھی حقہ گڑگڑا رہا تھا۔ پھر اس کی آواز سنائی دی۔
“ہاں ماجھے یہ کام اب ہو جانا چاہیے۔ کمیوں کے پاس وافر رزق آ جائے تو ہمیں کون پوچھے۔ یہ قدرت کا بنایا نظام ہے۔ اس نے ایسے ہی چلنا ہے”۔
اجو نے سوچا کہ آدھی رات کو ابے سے گالیاں کھانے سے بہتر ہے چھت پر ہی سویا جائے۔ بارش آ گئی تو پھر دیکھا جائے گا۔ اس نے اپنی کھٹولی اٹھائی اور دبے پاؤں دوبارہ چھت پر چڑھ گیا۔ رات بارش تو نہ آئی لیکن صبح ہی صبح اسماعیل دھوبی کے زور زور سے بولنے کی آواز نے اسے جگا دیا۔ اسماعیل نمبردار کو آوازیں دے رہا تھا۔
“چوہدری جی جلدی چلیں۔ نذیر نائی کا سارا خاندان دہائیاں دے رہا ہے۔ رات کوئی اس کی لاڈلی جھوٹی کھول کر لے گیا ہے۔ وہی جو آپ نے اسے کٹڑی دی تھی نا دو سال پہلے۔ اب تو گابھن تھی۔ سارے خاندان نے اتنی محنت سے پالی تھی۔ رانی رسولاں بین کر کر کے کہہ رہی ہے کہ اس کی قسمت میں گھر کا دودھ دہی نہ ہو سکا۔ اس کی عمر لسی مانگ مانگ کر ہی گذر جائے گی۔ اس کے بلونگڑوں جیسے بچے بھی ماں کے ساتھ چمٹ چمٹ کر رو رہے ہیں”۔
نمبر دار نے جلدی سے اٹھ کر اپنا تہہ بند سنبھالا، کھونٹی سے اتار کر پگڑی سر پر رکھی اور عصا پکڑ کر عجلت میں باہر نکل آیا۔
“اوہ! یہ تو ظلم ہو گیا۔ ان بے چاروں کا جانور کون کھول کر لے گیا۔ وہ نمانے تو مسکین ہیں۔ تھُڑ دلے ہیں۔ نذیر اپنی زنانی کے ساتھ اندر سو گیا ہو گا، جھوٹی باہر باندھ کر۔ ان لوگوں کو بس ایک ہی کام آتا ہے۔ ان کمیوں کو کیا پتا جانوروں کی حفاظت کیسے کرتے ہیں۔ رسہ گیری پھر سر اٹھا رہی ہے۔ کچھ کرنا پڑے گا۔ اوئے سلامتے ! میرا حقہ تازہ کر کے پیچھے ہی لے آ۔ میں جا رہا ہوں نذیر کی طرف۔ اسماعیل ! میرا بچہ! تو جا ذرا جا کر رفیق کھوجی کو بلا کر لا۔ کوئی کھوج نکالیں کون یہ ظلم کر گیا ہے۔ جھوٹی تو ڈھونڈھنی ہی پڑے گی”۔
جب نمبر دار نذیر کے گھر کے سامنے پہنچا تو خالی ناند بچے کھچے چارے کے ساتھ بڑی اداس لگ رہی تھی۔ رسولاں رونا دھونا چھوڑ کر، تھک ہار کر اب بس ٹھنڈی سانسیں بھر رہی تھی۔ بچے بھی ماں کے ساتھ چمٹ کر سہمے بیٹھے تھے۔ نذیر نے نمبردار کو آتے دیکھا تو تیزی سے آگے بڑھا اور چوہدری کے گھٹنوں کو چھو کر بولا۔
“چوہدری جی معاف کر دیں۔ ہم آپ کی مہربانی سنبھال ہی نہیں سکے۔ آپ کی عنائت کی قدر ہی نہیں کر سکے۔ چوہدری جی ہم بھوری کے قابل ہی نہیں تھے۔ ہماری نہ اتنی اوقات تھی نہ مقدر۔ چوہدری جی ہمیں معاف کر دیں “۔
٭٭٭