منشا یاد(اسلام آباد)
’’مندروالی گلی‘‘ڈاکٹر انور زاہدی کا تیسر ا افسانوی مجموعہ ہے ۔
اس سے پہلے ان کے افسانوں کے دومجموعے ’’عذاب شہر پناہ‘‘(1991)اور ’’موسم جنگ کا کہانی محبت کی ‘‘(1996) شائع ہوکر ادبی حلقوں میں پذیرائی خاصی حاصل کرچکے ہیں۔ انور زاہدی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ میڈیکل ڈاکٹرہیں اوران کاتعلق ایک علمی اورادبی گھرانے سے ہے ۔ان کے والد مقصود زاہدی ایک بہت اچھے شاعر تھے۔ رباعی ان کی انفردیت تھی۔وہ ایک کامیاب ہومیو پیتھک معالج بھی تھے ۔ انورزاہدی کی ہمشیرہ ماہ طلعت زاہدی جدید لہجے کی معروف شاعرہ ہیں۔ بہنوئی ڈاکٹر اسداریب ادبی اورعلمی حلقوں کی جانی پہچانی شخصیت ہیں ۔ ان کے چھوٹے صاحب زادے خرم زاہدی فوٹوگرافی کا خاص شوق رکھتے ہیں۔ اس کتاب کا خوب صورت سرورق انہوں نے ہی بنایاہے ۔بڑے صاحب زادے شعیب حسن کاتعلق کمپیوٹر اور ماس میڈیا کی دنیاسے ہے ۔مگرانہوں نے ایک آدھ افسانہ بھی لکھاہے ۔ ان کی بیٹی لیلیٰ علی گرافک ڈیزائنر اورداماد علی عارف آرکیٹکٹ اورٹی وی کے مشہور آرٹسٹ ہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کا گھرانہ ’’ایں خانہ ہمہ آفتاب است ‘‘ کی صحیح مثال ہے۔ یوں تونوجوانی کے سنہری دنوں میں سبھی حسین اور شاعر ہوتے ہیں لیکن انورزاہدی نے اپنے سنہری دنوں میں باقاعدہ اور خوب صورت شاعری بھی کی ۔ان کی نظموں کا مجموعہ ’’سنہرے دنوں کی شاعری ‘‘ (1984) افسانوی مجموعوں سے بھی پہلے شائع ہواتھا۔
انورزاہدی مختلف الجہات تخلیق کارہیں۔ ان کاعالمی ادب کا مطالعہ خاصا وسیع ہے اورانہوں نے تحقیق ‘خاکہ نگاری اورسفرنامہ کے علاوہ عالمی ادب سے بہت سے تراجم بھی کئے ہیں۔ جن میں جدید ایرانی شعراء ‘پرمن ہیسے ‘پابلونر ودا کی خود نوشت ‘یونگ کی کتاب ’’لاشعور تک رسائی ‘‘کرغستان کی رزمیہ شاعری ‘پرتگال کے قومی شاعر فرنینڈو پیسوا کی نظموں اوردنیائے ادب کے دس بڑے شاعروں پرتحقیقی مقالوں کے ساتھ نظموں کے تراجم شامل ہیں۔ 2005ء میں ’’دنیا کہیں جسے‘‘کے عنوان سے ان کا امریکہ ‘کینیڈا‘لندن اور دوبئی کادلچسپ اور معلومات افزاء سفرنامہ بھی شائع ہواتھا۔
اس قدر بھرپور علمی اورادبی کام کرنے کے باوجود وہ اپنے طبابت کے پیشے سے بھی پورا انصاف کرتے ہیں جس کا ثبوت میں خود ہوں۔ مجھے اپنے سرکاری ہسپتال میں علاج کی ساری سہولتیں میسر ہیں مگر میں صحت کے ہر مسئلہ پر ان سے مشورہ کرنا ضروری سمجھتاہوں۔
ــ ’’مندروالی گلی ‘‘ میں پندرہ کہانیاں شاملہیں ۔ ان کو پڑھتے ہوئے اسلوب کی خوبصورتی ‘موضوعات کا تنوع‘ انسانی نفسیات کا عمیق مطالعہ اور افسانوی تحیر پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتاہے۔ جدید انسان کے گوناگوں سماجی ‘ذہنی اور نفسیاتی معاملات اور ان کی بھرپور عکاسی ان کے فن کی خاص خوبی ہے انہوں نے اپنی کہانیوں کامواد اپنے ذاتی مشاہدے‘ تجربے اور اپنے پیشے میں پیش آنے والے عجیب‘ پراسرار اور تحیرز اواقعات سے لیاہے ۔ صداقت اورواقعیت ان کہانیوں کو وقیع بناتی ہے مگرتمام ترسچائی اورحقیقت نگاری کے باوجود انہوں نے افسانونیت کے اثر کو کہیں بھی کم نہیں پڑنے دیا۔ اپنے تجربے اورمشاہدے میں آنے والے واقعات کو وہ خوابوں اورموسموں کی وساطت سے بیان کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیوں میں جابجا خوابوں کے دھندلکے ہیں۔ بدلتے موسموں کے ذائقے ہیں اورراتوں کے اسرار ہیں۔ زوال پذیر نظام اوراقدار کووہ نہایت بلیغ علامتوں جیسے کم یازیادہ روشنی ‘ اندھیرا‘رات‘بلیک آؤٹ ‘خشک سالی‘جنگل اور جنگل کے کٹنے وغیرہ سے ظاہر کرتے ہیں۔خودمندروالی گلی ایک استعارہ ہے۔بچپن کی ایک ان مٹ یاد کا۔وہ الگ بات ہے کہ یادوں کے اس سفر میں وہ چاہ مراد اورمندروالی گلی میں ہی گھومتے رہتے ہیں اورساری کہانی میں بے چاری فوزیہ ‘جس کی آنکھیں اداس اورگہری ہوتی ہوئی شام جیسی تھیں‘اورجس کے لیے یہ کہانی لکھی گئی صرف تین جملوں کی حقدار ٹھہری۔ شریف اورشرماکل عاشق ایسے ہی ہوتے ہیں۔
انورزاہدی کامیاب میڈیکل پریکٹیشنر ہیں۔ دوسرے زوال یافتہ شعبوں کی طرح اب اس مقدس پیشے میں بھی کمرشل ازم بہت درآیاہے۔لیکن انورزاہدی جیسااچھا معالج منفعت کی بجائے خدمت پریقین رکھتااورزندگی کا محافظ ہوتاہے۔ وہ ہمہ وقت زندگی کوموت کی پرچھائیوں سے بچانے میں لگارہتاہے ۔ انورزاہدی بھی زندگی بھر موت وحیات کی لکن میٹی کوقریب سے دیکھتے رہے ہیں۔ اس لئے موت سے متعلق موضوعات ان کی تحریروں میں آنا قدرتی بات تھی ۔ نئے مجموعے میں بھی ایسی بہت سی کہانیاں ہیں جن میں موت کاحوالہ یاذکرہے لیکن اب وہ بہت حدتک اس رجحان سے نکل آئے ہیں۔اب ان کی کہانیوں میں زندگی کے بھید‘مابعدالطبیعات اور نامعلوم مخلوق کاذکرڈومینیٹنگ موضوع کی حیثیت رکھتاہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی جدیدزندگی کے معاملات اورمسائل سے بھی وہ بخوبی واقف ہیں۔ شفٹنگ ‘ایک ایکسڑاکی کہانی اورپرمانینٹ فیٹل ایرر جس کی بہت عمدہ مثالیں ہیں۔ ’’جنگل کٹنے والاہے‘‘ ان کے ملکی اورعالمی سیاسی بصیرت کے علاوہ تاریخ عالم سے گہری شناسائی کامنہ بولتاثبوت ہے۔
اسلوب کی سطح پربھی’’ مندروالی گلی ‘‘ میں فنی ارتقاء اور تازگی کااحساس ہوتاہے ۔ زبان وبیان بہت معیاری اورعمدہ ہے ۔اورہاں اس خوبی کاذکربھی ضروری ہے کہ وہ شاعر ہیں مگر نثر میں شاعری کاپیوند لگاکردونوں کو داغ داراوربے توقیر کرنے کے مرتکب نہیں ہوتے اورشعریت کے بغیر بھی نثری آہنگ کوخوب صورتی سے نبھاتے ہیں۔ میری دعاہے کہ اللہ انہیں ایسی ہی تخلیقی توانائی دئیے رکھے۔