معزز ناظرین، میں گلوبل اسپورٹس نیٹ ورک کا نمائندہ لی من آپ سے مخاطب ہوں۔ گلوبل اسپورٹس نیٹ ورک اس عظیم مقابلے کا آنکھوں دیکھا حال آپ تک پہنچائے گا۔ ہم گاہے بگاہے مقابلے کی تاریخ، دونوں کھلاڑیوں کی تیاری اور کھیل کے ماہرین کا تبصرہ آپ تک پہنچاتے رہیں گے۔ آپ اس مقابلے کے بارے میں پروگرام چینل سات آٹھ چھ پر اور اس کے علاوہ ڈش رکھنے والے ناظرین چینل چار دو صفر پر بھی دیکھ سکیں گے۔ آئیے آج اس کھیل کے پس منظر کا ذرا سا جائزہ لے لیں۔
دونوں کیمپوں میں تیاری زور و شور سے جاری ہے۔
یہ دوڑ ہے بھی بہت بین الاقوامی اہمیت کی حامل۔ یہ تو کسی کو نہیں یاد کہ سب سے پہلے یہ دوڑ کب منعقد ہوئی، اور زیادہ اہم بات یہ کہ پہلی دوڑ کون جیتا؟ ہزاروں سال قبل کی وہ تحریریں جو ماہرینِ آثارِ قدیمہ پڑھ سکے ہیں، چاہے وہ الورا کے غاروں سے ملی ہوں یا مصر کے اہرام سے، موئن جو دڑو کی کھدائی سے ملی ہوں یا مایا قوم کی وراثت سے، سب ہی میں اس دوڑ کا ذکر ملا ہے۔ یہ بات متنازعہ ہے کہ یونان کے پہلے اولمپک مقابلوں میں اس دوڑ کو شامل کیا گیا تھا یا نہیں، اسی لئے اسے جدید اولمپک کھیلوں میں شامل نہیں کیا گیا۔ لیکن شائقین اور ان سے بڑھ کر اس دوڑ میں شرطیں بدنے والوں نے نام بدل کر کبھی اصول بدل کر اسے کسی نہ کسی نام سے شامل کر رکھا ہے۔ گویا لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلتا صرف خاص خاص شائقین ہی اس کی بدلی شکل میں کھلاڑیوں پر نظر رکھتے ہیں اور ہار جیت میں اپنی اپنی ٹیم کی ہمت بدلاتے ہیں۔ کہنے والے تو یہ بھی الزام رکھتے ہیں کہ بعضے خود کھلاڑیوں کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ اس دوڑ میں شریک ہیں۔ یہاں منتظمین کے حسنِ انتظام کی داد نہ دینا کھیل کی روح کے ساتھ زیادتی ہو گی۔
خرگوش اور کچھوے کی یہ دوڑ دنیا کی تاریخ میں مسلمہ اہمیت کی حامل ہے۔ بعض مورخ تو اس کے اثرات جغرافیائی حدود کی ترتیب اور اقوام کے عروج و زوال پر بھی دیکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ چنگیز خان کے چوگان یا انڈیا پاکستان کی کرکٹ ڈپلومیسی کے اتنے دور رس اثرات نہیں دیکھے گئے جتنے اس دوڑ کے۔ یہ ضرور ہے کہ مختلف زمانوں میں اسے مختلف برِ اعظموں میں منعقد کیا گیا یوں اس کے انعقاد کا اعزاز صرف ایک خطے یا قوم تک محدود نہیں رہا۔ دوسری اہم تبدیلی یہ بھی آئی کہ گو پرانی دوڑوں میں ہار جیت کے نتائج اتنے واضح نہیں تھے لیکن جدید مورخ اس دوڑ میں ہار جیت کا باقاعدہ حساب رکھنے لگے ہیں۔ اب ہار جیت کے اسباب پر ریسرچ ہوتی ہے، پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دی جاتی ہیں اور اگلی دوڑ کے شرکاء کو راہ کے خطرات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ کہیں دوڑ کی کثرت اسے عمومیت کا شکار نہ کر دے اس لئے اب ہر صدی میں یہ دوڑ ایک یا دو بار سے زیادہ منعقد کرنے کی بھی ممانعت کر دی گئی ہے۔ یہ دوڑ کن تاریخوں میں منعقد ہو، اس امر کا فیصلہ ترقی پسندی اور ذہنی بالیدگی کا ایک بین ثبوت ہے۔ یعنی اب دورِ جدید میں دوڑ کی کوئی تاریخ ہی مقرر نہیں، بلکہ یہ طے ہوا کہ جب پہلے کا کوئی ہارا ہوا کھلاڑی یہ سمجھے کہ وہ مقابل کو زیر کرنے کے قابل ہو گیا ہے تو وہ کھلے عام دعوتِ مبارزت دے۔ یہ بھی کسی طرح طے پا گیا کہ مبارزت تو بس نام کی ہو، کھیل کو کھیل ہی سمجھا جائے، مقابلہ ہمیشہ دوڑنے اور متعینہ منزل پر پہلے پہنچنے کی صورت ہو۔ لیکن اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ جو ایک مرتبہ جیت گیا وہ کوشش کرنے لگا کہ حریف کو اتنا بے دم کر دے کہ کوئی ایک عرصۂ دراز تک دعوتِ مبارزت کے قابل نہ رہے۔
اس حالیہ دوڑ کے لئے کس حریف نے دوسرے کو للکارا، یہ بات کچھ واضح نہیں ہے۔ لیکن اس بات پر تو سب متفق ہیں کہ پچھلی کئی دوڑوں سے خرگوش بہت مستقل مزاجی سے جیت رہا تھا۔ ایک عام خیال یہ تھا کہ پے در پے فتوحات کے نشے میں خرگوش اپنا توازن اور جیت کی لگن کھو بیٹھے گا۔ لیکن آپ اسے خرگوش کی چالاکی کہیں، مکاری کہیں یا مستقل مزاجی۔ فتح کے نشے میں چور اور بہکے قدم دیکھے تو اکثر مخالفین کی امید بڑھی کہ اب نہ جیت سکے گا لیکن غیر جانبدار مصنفین نے پچھلی کئی دوڑوں میں اسے فاتح قرار دیا تھا۔ یہی کہا جا سکتا ہے کہ جیت ایک نشہ ہے اور ہم جانتے ہی ہیں کہ نشے کی عادت بن جاتی ہے۔ اور نشے کا عادی فرد ہر قیمت پر نشہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ خواہ وہ جیت کا نشہ ہی کیوں نہ ہو، ٹوٹنے لگے تو انسان شیطان بن جاتا ہے اور شیطان انسان کا روپ دھار سکتا ہے۔
اب آپ کا نمائندہ لی من آپ سے اجازت چاہتا ہے۔ آئندہ پروگرام میں شامل ہونا مت بھولئیے گا۔
خواتین و حضرات لی من گلوبل اسپورٹس نیٹ ورک کی جانب سے آپ کی خدمت میں۔ آج کا پورا پروگرام بغیر کسی اشتہار کے آپ تک پہنچے گا۔ یہ بذاتِ خود اک نعمت ہے۔ اور نہیں تو اسے صرف اسی لئے دیکھئیے کہ یہ بغیر کسی اشتہار کے ہے۔ اشتہار ہمارے سماجی ڈھانچے کا ایک لازمی جز بن چکا ہے۔ بنا اشتہار کوئی چیز یوں نہیں ہوتی کہ بنا مول کے قدرت نے کوئی شے مفت رکھی ہی نہیں۔ آج کے پروگرام میں ہم آپ کو دونوں کھلاڑیوں کے کیمپوں کی سیر کرائیں گے۔ آپ کو کھیل کے قوانین تو یاد ہی ہیں۔ ان کیمپوں میں اکثر بہت اہم اور خفیہ فیصلے بھی کئے جاتے ہیں، لہذا جو آپ یہاں دیکھیں گے یا سنیں گے اسے کسی کیمپ تو پہچانا خلافِ قانون ہے۔ آئیے پہلے چلتے ہیں کچھووں کے کیمپ کی جانب۔
اب کیوں کہ دوڑ کی تاریخ مقرر ہو چکی ہے تو دونوں کیمپوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ ادھر کچھوے کے حامیوں میں یہ عزم اجتماعی کہ ہم اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کر لیں گے۔ ادھر خرگوش کے حامی گو تعداد میں کم ہیں لیکن ان کے پاس دوڑ کے لئے بہترین لباس، سبک رفتار جوتے، نقشہ، کمپاس، موسم جانچنے کے آلات، ہر طرح کے لوازمات موجود ہیں۔ حواریوں کا ایک جمِ غفیر ہے جو کھلاڑیوں کو اپنی پختہ پشت پر اٹھائے پر جوش اور ولولہ انگیز نعرے لگا رہا ہے:
‘‘کل بھی کچھوا جیتا تھا آج بھی کچھوا جیتے گا‘‘ فلک شگاف نعروں سے زمین تھرا رہی ہے۔ ان کے جذبات سے صاف ظاہر ہے کہ اس دفعہ اور کچھ نہیں تو جذبہ شمشیر معاف کیجئیے گا میں غلط کہہ گیا، جذبہ کچھوا ضرور خرگوش کے سب آلات اور تیاری پر ضرور غالب آ جائے گا۔
‘‘ساتھیو، ہم پہلے بھی یہ دوڑ جیت چکے ہیں، اس بار بھی ہمیں جیت سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ایک نوجوان کچھوا بہت جذبے سے تقریر کر رہا ہے۔ سامنے میدان میں کچھووں کی صفوں کی صفیں لگی ہیں۔ دائیں ہاتھ پر نر کچھوے بیٹھے ہیں جبکہ بائیں ہاتھ پر مادہ کچھویات جمع ہیں۔ تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ کچھویات نے اس دوڑ میں کبھی زیادہ فعال کردار ادا نہیں کیا۔ یہاں یہ کہنا بے محل نہیں ہو گا کہ کچھووں کے تاریخ داں زیادہ تر نر کچھوے ہی ہیں، مادہ کچھوی مورخ تو بس آٹے میں نمک کے برابر سمجھ لیں۔ کچھویات کی اس میدان میں موجودگی از خود ایک بڑا قدم ہے۔ پے در پے شکست کھانے کے بعد جو کچھوا شکست کمیشن بنایا گیا تھا اس کی سفارشات کی روشنی میں یہ انقلابی قدم اٹھایا گیا ہے۔ اس کمیشن کی سفارشات بہت واضح اور آسان تھیں۔ ان میں صاف بتایا گیا تھا کہ اس شکست کی ذمہ داری روایات سے انحراف اور خرگوش کی چال اپنانے کی روش پر عائد ہوتی ہے۔ خرگوشوں نے اپنی روایتی چالاکی سے دوڑ جیتنے کے لئے جو آلات اور سائنسی حقائق سے مدد لینی شروع کر دی تھی، ضروری تو نہیں کہ کچھوے اپنی روایات کو چھوڑ کر ان کے پیچھے دوڑ پڑیں۔ اس سلسلے میں کچھووں میں یقیناً اختلاف رائے بھی دیکھا گیا ہے۔
‘‘پچھلی دوڑ میں کچھوا بہت تھک گیا تھا۔ راستے میں پانی کی فراہمی بھی ناکافی تھی۔ اس دفعہ اگر دوڑ کے دوران وقفے، وقفے سے بارش ہو جائے تو ہمارے امیدوار کے امکانات بہت روشن ہیں ‘‘ ۔ ایک کچھوے نے اپنی پشتِ سخت میں سے گردن نکال کر رائے دی۔
‘‘بہت صائب رائے ہے۔ دوستو یاد ہی ہو گا کسی دانشور کا کہا کہ ‘‘ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘ یہ یقیناً اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔ یہ مٹی نم تو کیا کیچڑ ہو گئی لیکن محترم دانشور یہ بھول گئے کہ زرخیزی کے لئے کئی ہاتھوں کا مل کر کام کرنا بھی تو ضروری ہے۔ آئیے سب مل کے دعا کر تے ہیں کہ راستے میں وقفے وقفے سے بارش ہو کہ ہمارے امیدوار کو تھکن اور پیاس سے نجات ملے۔ اجتماعی دعا کے لئے سب کچھووں سے استدعا ہے کہ اپنے اگلے پنجے بلند کریں۔ بہت آزمودہ طریقہ ہے۔ اب ہمیں فتح سے کوئی نہیں روک سکتا‘‘ ۔
‘‘کل بھی کچھوا جیتا تھا آج بھی کچھوا جیتا ہے ‘‘
‘‘ گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو‘‘ ۔
پورا میدان پر جوش نعروں سے گونج اٹھا ہے۔ لیکن یہاں بھی اختلاف نظر آ رہا ہے۔ کچھووں کے ایک مختصر سے گروہ کو دھکے مار کر باہر نکالا جا رہا ہے۔ وہ غالباً یہ مشورہ دے رہے تھے ہمیں بھی خرگوش کی طرح تمام مہیا سائنس سے استفادہ کرنا چاہئیے کہ جیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ آئیے ہم اس موقع سے فائدہ اٹھا کر دیکھتے ہیں کہ خر گوش اس دوڑ کے لئے کیسے تیاری کر رہے ہیں۔
میرے ساتھ رہئیے۔ یہ داہنے جانب جو کھلا میدان ہے اس میں خرگوشوں کا کیمپ لگا ہے۔ کامریڈ، یہاں تو مجمع چوتھائی بھی نہیں۔ اگر یہ اعداد کی جنگ ہوتی تو کچھوے تو کب کے جیت چکے ہوتے۔ ایک زمانہ تھا کہ شاید چھ درجن ہی کوئی ایک ہزار پر بھاری پڑ جاتے، بھئی تاریخ تو ہمیں یہی بتاتی ہے۔ تاریخ کے کم از کم یہ باب تو جھوٹ بولنے سے رہے کہ ہم نے خود لکھے تھے۔ یہ کوئی پاک و ہند کی جنگوں کی تاریخ تو نہیں، ہاری ہوئی جنگوں کی تاریخ لکھی ہی نہیں جاتی۔ زیادہ تر خرگوشوں نے دھوپ سے بچنے کے لئے آنکھوں کے سامنے سیاہعد سے لگا رکھے ہیں۔ خاصی بد نظمی اور بد انتظامی ہے۔ کچھووں کے کیمپ میں جو نظم و ضبط تھا وہ یہاں نہیں دکھائی دے رہا۔ نر اور مادہ خرگوشوں کے ٹولے ادھر ادھر الٹے سیدھے بکھرے پڑے ہیں۔ لگتا ہے اپنی عصمت اور شرافت کا انہیں اب کوئی خیال نہیں۔ جہاں کچھووں نے ایک ہی جیسا لباس پہن کر نظم و ضبط کا بہترین مظاہرہ کیا تھا، یہاں اتنا ہی بے ہنگم پن ہے۔ کچھ خرگوشوں نے تو لباس کا تکلف ہی گوارا نہیں کیا۔ جو ذرا مکلف ہیں تو وہ بھی ہر رنگ، ساخت اور ناپ کے لباس میں ملفوف ہے۔ لگتا ہے تنوع اور اختلاف انہیں تنگ نہیں کر رہا۔ بس رواداری سے جس نے جو پہن رکھا ہے اسے اس کی اجازت دے رہے ہیں، عجیب نسل ہے بھئی خرگوش بھی، رواداری میں یہ ضرور کچھوے کو مات دے گئے۔ نعرے یہاں بھی ہیں لیکن اکثر خرگوش ڈھول، تاشے، گٹار اور شہنائی جیسے آلات سے لیس آئے ہیں۔ کچھ محوِ رقص ہیں، کچھ محوِ غنا، ایک خرگوش بغیر تار کا مائیکروفون اپنی قمیض میں اٹکائے مجمع کے جذبات میں بھنور ڈال رہا ہے ،ا بال کی آواز یہاں سے سنی جا سکتی ہے۔
‘‘جیت ہماری وراثت ہے۔ ہمارے خون میں شامل ہے۔ ہمارے جسم کی ساخت ہی ایسی بنائی گئی ہے کہ وہ دوڑ میں سب سے آگے رہے۔ یہ کچھوا‘‘ حقارت سے مقرر نے زمین پر توک دیا۔ ‘‘ان کی اب یہ ہمت کہ ہمیں دوبارہ مقابلے کی دعوت دیں۔ پچھلے مقابلے میں ہم فاتح تو رہے تھے لیکن ہمارا امیدوار بہت تیز دوڑنے کی وجہ سے تھک کر بہت پیاسا ہو جاتا تھا، اور پانی کی فراہمی کا نظام بہت ناقص تھا۔ ہم یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ کوئی رکاوٹ بھی قدرت پر نہیں چھوڑو، اس کے سدباب کا طریقہ سوچو۔ ایسا نہ ہو یہ ہمارے کھلاڑی کی فتح میں آڑے آئے، ہمیں سر جوڑ کر اس کا کوئی توڑ نکالنا ہی ہو گا۔ ہماری نسل حکمرانی کے لئے پیدا ہوئی تھی اور حکمران ہم رہیں گے ‘‘
‘‘ایسا کیوں نہیں کرتے کہ بادلوں کو بانس سے ہلا کر جب چاہیں پانی بر سالیں۔ ‘‘ ایک خرگوش نے رائے دی۔ یہ دیکھنے میں خرگوش کم اور کتابی کیڑا زیادہ معلوم ہوتا تھا۔
‘‘یہ کیسے ممکن ہے۔ اب بھلا آسمان پر کون تھگلی لگائے گا؟‘‘
‘‘یہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔ اگر اسے یہ مقبول نہ ہوتا کہ ہم بادلوں کو بانس سے ہلا سکیں تو وہ بادل بنا کر ہمارے اوپر اتنے نیچے چلاتا ہی کیوں ؟
‘‘ٹھیک ہے یہ تمھاری ذمہ داری ہے، لیکن یاد رہے کہ یہ فیصلہ خفیہ ہے تاکہ دشمن کا کیمپ بھی اسی حکمت عملی کو نہ اپنا لے ‘‘
‘‘نقل کے لئے بھی تو عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اگر نقل اپنی سماجی حدود میں رہ کر کی جائے تو وہ بس نقل کی بھی نقل ہو گی۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم کچھووں کی حکمت عملی سے باخبر رہیں۔ ان میں سے کئی اس سخت کھال کے اندر دماغ بھی رکھتے ہیں۔ ‘‘ ایک ذرا عمر رسیدہ خرگوش نے متفکر لہجے میں کہا
‘‘آپ فکر مت کیجئے، اس کا انتظام کر لیا ہے ‘‘ ایک دبلے پتلے خرگوش نے مجمع کو یقین دلایا۔
‘‘وہ کیسے ‘‘
‘‘اس سے زیادہ بتانا غالباً یہاں غیر ضروری ہے۔ بس یوں سمجھ لیجئیے کہ لالچ کمزور لمحے پیدا کرتی ہے، ہمارا کام صرف موقع کی تلاش ہے، کئی کچھوے اپنی مقر رہ خوراک سے زیادہ کے طلبگار ہیں، جو ہم فراغ دلی سے انہیں فراہم کرتے رہتے ہیں۔ ‘‘ ناظرین، دونوں کیمپوں کا جوش و خروش دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ دونوں کو اپنی فتح کا یقین ہے۔ یاد رکھئیے گا آج جو کچھ بھی آپ نے دیکھا اور سنا ہے اسے کسی بھی کیمپ تک پہچانا جرم ہے۔ اب ہم واپس اپنے اسٹوڈیو بیجنگ چلتے ہیں، آئندہ پروگرام میں شامل ہونا نہ بھولئے گا، آپ کا اللہ حافظ ہو۔
معزز ناظرین گلوبل اسپورٹس نیٹ ورک کی جانب سے آپ کا نمائندہ لی من حاضر ہے۔ آپ کو یاد ہو گا پچھلے پروگراموں میں ہم آپ کو اس مقابلے کی تاریخ بتا چکے ہیں اور پھر ایک مقابلے میں آپ دونوں کیمپوں کی سیر بھی کر چکے ہیں، آئیے آج ہم دونوں کھلاڑیوں سے آپ کی ملاقات کرائیں گے۔ آئیے پہلے کچھوے سے ملاقات کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ دونوں کھلاڑیوں کو اندرونی مقابلوں کے بعد کروڑوں
کھلاڑیوں میں سے منتخب کیا گیا ہے۔ کچھوے کو ہم نے تین بجے اسٹوڈیو میں دعوت دی تھی، اب چار بج رہا ہے، لیکن وہ ابھی تک نہیں آئے ہیں، جب تک آپ موسیقی سے لطف اندوز ہوئیے۔ خود کچھوا بھی اکثر عین اس وقت رقص و سرود میں رہا ہے کہ جب پیروں تلے سے زمین کھینچی جا رہی تھی۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں کچھوا دوڑ کے آغاز پر بھی دیر سے نہ پہنچے۔
‘‘آہا ناظرین، کچھوا اسٹوڈیو پہنچ گیا ہے، آئیے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔ کہئیے جناب کیسی تیاری چل رہی ہے ‘‘ ؟
‘‘بڑی بھرپور تیاری ہے۔ استخارہ کر کے مناسب تاریخ بھی دیکھ لی ہے، میں نے تو خواب میں یہاں تک دیکھا ہے کہ ایک سفید گھوڑے پر سوار سبز عمامے میں ملبوس نورانی صورت والے بزرگ مجھے فتح کی خوش خبری دے گئے ہیں۔ ‘‘
‘‘بہت اچھی بات ہے کچھوے صاحب، یہ بتائیے کچھ ورزش، کچھ پریکٹس‘‘
‘‘بالکل جناب۔ میں روز وزن اٹھاتا ہوں، اکھاڑے بھی جاتا ہوں ‘‘
‘‘لیکن کچھوے صاحب یہ تو دوڑ کا مقابلہ ہے ‘‘ ؟
‘‘بھئی ہمارا اپنا طریقہ ہے تیاری کا۔ اس دفعہ آپ کو حیران کر دیں گے ‘‘
‘‘بہت شکریہ کچھوے صاحب۔ تو ناظرین آپ نے دیکھا کچھوا کتنا پر اعتماد ہے۔ اب تو استخارے میں تاریخ بھی نیک آ گئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ قمر در عقرب نہ ہو۔ اس دفعہ بڑے کانٹے کا مقابلہ رہے گا‘‘ ۔ لی من آپ کا نمائندہ اب آپ سے اجازت چاہتا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ خرگوش سے بھی آپ کی ملاقات کرا دیں ‘‘ ۔
‘‘ناظرین، وعدے کے مطابق لی من آپ کی خدمت میں، اور خوشخبری یہ کہ ہمارے ساتھ خرگوش بھی موجود ہے ‘‘ لی من خر گوش کی طرف مڑتا ہے۔ ‘‘کہئیے دل کی دھڑکنوں کا کیا شمار ہے، کیسی تیاری ہے آپ کی‘‘ ۔
‘‘تیاری مکمل ہے، اس دفعہ بھی کچھوے کو شکست فاش دیں گے۔ میری حکمتِ عملی اپنے مخالفین کے لئے یہ ہے کہ مکھی کو بھی ہتھوڑے سے مارو۔ ‘‘ ۔
‘‘آپ پچھلی کئی دوڑوں میں فاتح قرار پائے ہیں، اگر کچھوا اس دفعہ بھی ہار گیا تو اس کے لئے بہت منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ کچھوے اس دور میں بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ آپ سے دور میں کچھوے نے اپنے بہت سے وسائل داؤں پر لگا رکھے ہیں۔ کیا حرج ہے کہ اگر اس دفعہ کچھوا جیت جائے ‘‘
‘‘بہت حرج ہے۔ اس سے میرے مفادات پر ضرب پڑے گی اور میرے مفادات ظاہر ہے کہ دوسروں کی ضروریات سے مقدم ہیں۔ میرا تو مشورہ یہی ہے کہ خاموشی سے میری برتری تسلیم کر لے تو میں کچھوے کو اپنی خوراک اور دوسری سہولیات سے کچھ استفادے کا بھی موقع دے سکتا ہوں۔ تم یہ کس قسم کے احمقانہ سوالات کر رہے ہو۔ تم میرے ساتھ ہو یا اس کے ساتھ ہو، جو کچھوے کے حمایتی ہیں میری جیت ان کے لئے نقصان دہ ہو گی‘‘ ۔
‘‘آپ مجھے دھمکا رہے ہیں، میں تو ایک صحافی ہوں، میں کسی کی طرف نہیں ‘‘ ۔
‘‘غیر جانبداری ایک ڈھلوسکا ہے، مجھے کم از کم یہ قابل قبول نہیں۔ یا میرے ساتھ ہو یا نہیں ہو، میرا مشورہ ہے کہ اپنا قبلہ چن لو، اور وہ بھی جلد، اب مجھے مزید گفتگو نہیں کرنی یہ انٹرویو ختم‘‘ ۔
خواتین و حضرات، لی من آپ کی خدمت میں۔ وہ دن آ ہی گیا جس کا ہم سب کو انتظار تھا۔ دونوں کھلاڑی میدان میں اتر چکے ہیں۔ دونوں کیمپوں کے حواری بھی بڑی تعداد میں یہاں موجود ہیں۔ بظاہر دونوں کی تیاری بھرپور ہے، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ دونوں میں کوئی مقابلہ نہیں۔ خرگوش کی فتح یقینی ہے، خوف یہ ہے کہ اس دوڑ میں کچھوا اپنی ذات کو نقصان نہیں پہنچا بیٹھے۔ لیجئیے دوڑ شروع ہو گئی ہے، خرگوش بہت تیزی سے آگے نکل گیا ہے، بلکہ پہلی منزل پر پہنچ کے سستا رہا ہے۔ کچھوا بھی بہت ثابت قدمی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ چلئے اب ہم اختتامی منزل پر پہنچ کر ان کا انتظار کرتے ہیں، دیکھیں کون جیتتا ہے، آئیے اس وقت تک موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہیں ؟
خوں گشتہ
بس آنے میں ابھی پورا ایک گھنٹہ باقی تھا، میں نے ریسٹورانٹ کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گیا۔ یہ ریسٹورانٹ ایسا ہی تھا جیسا صدر کراچی میں آج سے کوئی بیس برس پہلے ریسٹورانٹ ہوا کرتے تھے۔ بیس برس پہلے یوں کہ اب کراچی میں ریسٹورانٹ کے نام پر خالی کمرے ہوتے ہیں، جن میں صرف کرسیاں اور میزیں بیٹھی رہتی ہیں، گاہک اس ڈر سے دور رہتے ہیں کہ مرنا ہو تو کم از کم گھر میں تو مریں۔ کسی بم دھماکے میں مرنے کے بعد تو لاش کی شناخت بھی ایک مسئلہ بن جاتی ہے اور پھر اگر میت کے ٹکڑے جمع کرنے میں ذرا سی بھی لغزش ہو جائے تو کسی کا ہاتھ اور کسی کا پاؤں جمع کر کے ایک چادر میں باندھا اور سفر آخرت پر روانہ کر دیا۔ اتنے لمبے سفر پر بھی اپنا پورا جسم تک ساتھ نہیں لے جانے دیتے۔
ریسٹورانٹ تین چوتھائی بھرا ہوا تھا۔ زیادہ تر میزوں پر لوگ تین اور چار کے گروہوں میں بیٹھے تھے۔ کراچی سے ایک مختلف بات یہ بھی تھی کہ عورت اور مرد گاہکوں کی تعداد تقریباً برابر ہی تھی۔ جینز میں ملبوس ایک لڑکی کاؤنٹر پر آرڈر دے رہی تھی، اس کے بازو میں ایک ادھیڑ عمر کے صاحب اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے، حیرت یہ تھی کہ نہ اسے گھور رہے تھے اور نہ ہی اپنا جسم اس کے جسم سے رگڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بھئی فرق تو بہت سے تھے اس ریسٹورانٹ اور کراچی کے ریسٹورانٹوں میں، صرف ذرا دھیان دینے کی ضرورت تھی۔ مجھے اتفاق سے دو لوگوں کی ایک خالی میز مل گئی تو میں اس پر بیٹھ گیا۔ میرے بیٹھتے ہی ایک لڑکی تیزی سے میری جانب آئی، ہاتھ میں تھاما جگ اور گلاس میری میز پر رکھا اور پوچھنے لگی ‘‘یس‘‘
یہ یس ایک استفہامی ابتدائیہ ہوتا ہے۔ اگر آپ اردو میں جواب دیں تو اس کی جان میں جان آ جاتی ہے، ورنہ اس کی ٹوٹی پھوٹی انگریزی کا گاہک کی ٹوٹی پھوٹی انگریزی سے مقابلہ چلتا ہے۔
‘‘کیا ہے کھانے میں، لیکن مجھے جلدی ہے، صرف پچاس منٹ میں بس آ جائے گی‘‘
‘‘آپ فکر نہیں کریں سر، دال، نہاری، پایہ، آلو قیمہ، چکن مکھانی سب تیار ہے ‘‘
‘‘ٹھیک ہے دال اور آلو قیمہ لے آؤ‘‘
‘‘نان کتنی لاؤں ‘‘ ؟
اس کو آرڈر دے کر میں نے نزدیک میز پر رکھا اخبار اٹھا لیا۔ پہلا صفحہ پاکستان اور امریکہ کی خبروں پر مبنی تھا۔ پہلے صفحے کے دامن میں پاکستان کے سستے ٹکٹوں، عمرہ کے قافلوں اور ایک مذہبی عالم کی نیویارک آنے کے اشتہار لگے تھے۔ میں نے چند ہی منٹوں میں اکتا کر اسے ایک طرف رکھ دیا، اور ریسٹورانٹ میں بیٹھے لوگوں کو خالی خالی نظروں سے دیکھنے لگا۔ آج مجھے اپنی طرح کوئی اکیلا بیٹھا نظر نہیں آیا۔ کاؤنٹر کے پیچھے چند لڑکیاں کھانا نکال رہی تھیں، کچھ ہی فاصلے پر ایک ادھیڑ عمر کے صاحب شلوار قمیض میں ملبوس برتن دھونے میں مصروف۔ ایک نوجوان پیسوں کی مشین پر بیٹھا تھا۔ مصروف ریسٹورانٹ تھا، وہ شاید اس کا مالک تھا، جانفشانی سے کام کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں ذرا ہاتھ رکا تو اٹھ کر میری میز پر آ گیا۔
‘‘بہت دنوں بعد نظر آئے طاہر صاحب‘‘ کسی اچھے دکاندار کی طرح وہ ہر گاہک کو اس کے نام سے پکارتا
‘‘ ہاں بس ایسے ہی کچھ مصروف رہا، بیٹھو‘‘
‘‘ارے بیٹھ گیا تو پھر اٹھنے کا کہاں دل چاہے گا، کسی بھی منٹ پر بھاگنا پڑے گا پیسوں کی مشین پر۔ طبیعت تو ٹھیک تھی‘‘ اس نے پھر کریدا
‘‘ہاں ٹھیک ہی تھا‘‘ میں نے گول مول سا جواب دیا، اب اسے بھلا کیا بتاتا۔ ابھی چند ماہ قبل ہی تو اس سے سلام دعا شروع ہوئی تھی اور وہ بھی صرف اس ریسٹورانٹ کی چہار دیواری تک محدود تھی۔
‘‘کوئی مسئلہ ہو بے تکلف کہئیے گا‘‘ اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ ‘‘او بابا جی ذرا دھیان سے، لو جی میرا بلاوا آ گیا‘‘ بیسن پر برتن دھوتے صاحب کے ہاتھ سے پلیٹ ٹوٹی تو وہ ادھر چلا گیا۔
بس میں بیٹھا تو برابر میں بیٹھی گوری ذرا سرک کر اور پرے ہو گئی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جگہ خالی ہونے کے باوجود میں خود اس کے برابر میں بیٹھنے کی ہمت نہیں پا رہا تھا، لیکن اس نے خود ہی اپنی برابر کی سیٹ تھپتھپا کے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ یہی کوئی پچاس کے پیٹھے میں رہی ہو گی، تنہا سفر کر رہی تھی۔ میرے چہرے پر نجانے ایسا کیا نظر آیا کہ رہ نہ سکی اور بیٹھنے کو کہہ بیٹھی۔ باقی سفر خاموشی سے ہی گزرا۔ وہ کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی، میں اپنے جوتوں کی سمت۔ گھر بس اسٹاپ سے کوئی پندرہ منٹ کی پیدل دوری پر تھا۔ اتر کر سیدھا چلنے لگا، پھر ایسے ہی مڑ کر اپنی تسلی کر لی وہ اس اسٹاپ پر نہیں اتری تھی۔ گھر پہنچ کر بھی میں کچھ دیر باہر ہی کھڑا رہا۔ جس ماحول میں، میں نے تربیت پائی تھی اس میں بیٹی کے گھر رہنا اتنا آسان نہ تھا۔
مجھے نیو یارک آئے ابھی کوئی ایک سال ہی ہوا تھا۔ بیٹی کی شادی کے بعد میں تنہا رہ گیا تھا۔ بیوی کے انتقال کے بعد، صرف ایک ہی بیٹی تھی وہ بھی شادی ہو کر امریکہ چلی گئی۔ صرف ایک بھائی تھا میرا وہ خود شادی ہونے کے بعد پچھلے گیارہ سالوں سے دوبئی میں رہ رہا تھا۔ شادی کے تین سال بعد پہلی بار بیٹی نیویارک سے گھر آئی تو مجھے دیکھ کر دکھی سی ہو گئی۔
‘‘بابا آپ نے کتنا وزن گرا لیا ہے۔ آپ ڈھنگ سے کھاتے بھی نہیں ‘‘ میں نے اسے کسی نہ کسی طرح یقین دلا لیا کہ میں اب بھی پہلے جیسا ہوں، کچھ عمر کا بھی تقاضہ ہے، اب کوئی پینسٹھ سال کی عمر ہونے کو آ رہی ہے، خوراک اور نیند ویسے ہی عمر کے ساتھ کم ہو گئی ہیں۔ دو سال بعد پھر آئی تو اب تک دو بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ داماد اتنے عرصے میں ایک بار بھی نہ آ سکا، بہت مصروف ڈاکٹر تھا۔
‘‘مطب چھوڑنا اتنا آسان نہیں ہے وہاں بابا۔ کسی کو اپنی جگہ بٹھانا پڑتا ہے، یہاں کی طرح آپ منہ اٹھا کر نہیں چل دیتے کہ مریضوں کا خدا حافظ ہے ‘‘ پچھلی بار جب آئی تھی تو یہاں کی طرح اور وہاں کی طرح کی اتنی تکرار نہیں تھی۔ اس دفعہ اسے تضادات کا کچھ زیادہ ہی خیال آ رہا تھا۔
‘‘اب عادت بگڑ گئی ہے بابا۔ بس اب آپ بھی چلیں میرے ساتھ‘‘ ۔ یہ آپ بھی چلیں تو جیسے تکیہ کلام بن گیا اس کا۔ میرا بھی اپنے نواسے نواسی کے ساتھ بہت دل لگتا۔ کیسی رونق رہتی تھی۔ چند ہفتے رہ کر وہ پھر چلی گئی، یہ وعدہ لے کر کہ اگر وہ اسپانسر کر دے تو میں بھی امریکہ چلا آؤں گا۔ اس نے نہ جانے کون سا وکیل کیا کہ ایک ہی سال میں ویزا آ گیا۔
‘‘ بابا اصل میں انہوں نے اس وجہ سے جلد ویزا دے دیا کہ اب آپ تنہا ہیں یہاں۔ یہ لوگ بھی اپنے تنہا بزرگوں کا خیال رکھتے ہیں ‘‘ ۔ اس بھی کے اضافے نے مجھے کچھ سہارا دیا ورنہ میں ارشد کے نہ آنے سے ذرا گریزاں تھا۔
‘‘میں نے ارشد سے بات کر لی ہے بابا، وہ خود بھی بہت خوش ہیں ‘‘ اور پھر ایک دن ارشد کا فون بھی آ گیا
‘‘جی انکل آپ بھی یہاں آ جائیں۔ وہاں اکیلے ’پڑے ‘ کیا کر رہے ہیں، یہاں آ جائیں تو اچھا رہے گا، آپ کا اپنا گھر ہے ‘۔ ارشد کے فون سے میرے انکار کی دیوار تو مسمار ہو گئی، لیکن نہ جانے کیوں دل میں ایک چبھن سی رہ گئی جسے میں کوئی نام نہ دے سکا۔
گھر تو آرام دہ ہے۔ گھر کے سامنے اور پیچھے، دونوں طرف باغ بھی لگا ہے۔ چار کمروں کا گھر، تین اوپر کی منزل پر اور ایک نیچے مہمان کمرہ، جسے ارشد اور نگہت نے میرے لئے صاف کر دیا۔ دونوں بچے اب تین اور چار سال کے ہو گئے تھے۔ دونوں کی دیکھ بھال کے لئے ایک آیا روز آتی۔ آیا کے آنے سے اتنا ہوا کہ اب نگہت نے بھی نوکری شروع کر دی تھی۔ گو میرے خیال میں تو ارشد کی آمدنی اتنی کافی تھی، لیکن نہ جانے نگہت کو نوکری کی ایسی کیا ضرورت تھی۔
‘‘بس بابا گھر میں پڑے پڑے بور ہو جاتی ہوں ‘‘
‘‘بیٹا دونوں چھوٹے بچے ہیں، تمھیں بور کہاں ہونے دیں گے۔ مجھے بہت مزا آتا ہے ان کے ساتھ‘‘
‘‘آپ ان کے پیچھے سارا دن بھاگیں تو پتہ چلے، یہ تو آیا ہی کے بس کے ہیں ‘‘ ۔ جو نسل اپنی ہی پیدا کی ہوئی اولاد کی تربیت میں تھک جائے وہ جانے کیسی نسل پروان چڑھائے گی، میں نے دل میں سوچا۔ خیر میں ہوں اب بچوں کی تربیت میں ذرا اپنی روایات کا رنگ بھی رہے گا۔
‘‘بابا آپ بچوں سے اردو میں بات نہ کیا کریں۔ آپ تو انگریزی بول سکتے ہیں ‘‘
‘‘لیکن بیٹا اگر ابھی سے ان کے کان مانوس نہ ہوئے تو پھر عادت نہ رہے گی۔ یہی عمر ہے کہ بچہ ہر بات آسانی سے سیکھ لیتا ہے ‘‘ ۔
‘‘لیکن اس سے یہ صرف کنفیوز ہوں گے بابا۔ اب اس سال انشاء اللہ چھوٹا کنڈر گارڈن میں اور بڑا پری سکول میں جائے گا۔ وہاں سب سے انگریزی ہی میں بات کرنی ہو گی‘‘
‘‘اسی لئے تو میں کہہ رہا ہوں، وہاں تو یہ مسلسل انگریزی بولیں گے بھی اور پڑہیں گے بھی، اردو سیکھنے کا موقع صرف گھر پر ہی مل سکتا ہے ‘‘ ۔
‘‘نہیں بھی سیکھ سکیں گے تو کیا فرق پڑے گا، لیکن اگر انگریزی اچھی نہیں ہوئی تو اس معاشرے میں کیسے رہ سکیں گے ‘‘ نگہت نے پیار سے مجھے سمجھایا۔
میری عادت ایسی پختہ تھی کہ پھر بھی خود بخود اردو ہی زبان سے پھسل جاتی۔ یہ سلسلہ اس وقت بالکل مفقود ہو گیا جب ایک دن کھانے کی میز پر ارشد نے مجھے ٹوک دیا۔ اب میں ‘‘اس ‘‘ کے گھر میں رہ رہا تھا۔ یہ بات اس نے مجھ سے کہی تو نہیں لیکن مجھے اس کا ادراک دن رات رہتا۔ اب یہ ہو گیا تھا کہ اگر عادت سے مجبور کوئی بات اردو میں شروع بھی ہو جاتی تو میں درمیان میں ہی خاموش ہو کر سوچنے لگتا کہ اسے انگریزی میں کس طرح کہوں۔
‘‘نگہت، اب انکل آ گئے ہیں اور سارے دن گھر پر ہی رہتے ہیں تو ہمیں آیا کی کیا ضرورت ہے۔ بچے اپنے بزرگوں کے سائے میں ہی اچھے اٹھتے ہیں۔ آیا انہیں ہماری روایات کیا سکھائے گی بھلا‘‘ ارشد نے spaghetti کا ڈونگا رکھتے ہوئے کہا۔ آیا دن بھر ساتھ رہنے کے بعد شام میں اپنے گھر چلی جاتی۔ ہفتہ میں دو تین بار رات کے کھانے پر ہم تینوں اور بچے اکھٹے ہو جاتے۔ ورنہ پیر سے جمعہ تک یا ارشد دیر سے آتا یا نگہت۔ سب اپنی اپنی سہولت سے کھانا کھا لیتے۔ ہفتے یا ا توار کو عموماً دونوں کہیں مدعو ہوتے۔ اگر اس گھر میں بھی کوئی میرا ہم عمر قید ہوتا تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔ اور اس پر یہ spaghetti، جوانی میں ٹنڈوں اور گوبھی سے تو بچ گیا تھا لیکن اب اس عمر میں برا پھنسا تھا۔ کسی طرحspaghetti سے بچ بھی جاؤں توPizza منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔
‘‘نہیں ارشد، بابا کیسے ان دونوں کو سنبھالیں گے ‘‘ نگہت کی آواز میں کچھ ایسا تھا کہ مجھے لگا یہ ایک ریہرسل شدہ سین ہے۔ جس میں مکالموں کی ترتیب پہلے ہی طے ہو چکی ہے۔ مجھے پتہ تھا کہ دونوں دزدیدہ نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میرا اگلا جملہ بہت اہم تھا۔ لہذا میں کچھ نہ بولا، سر جھکائے spaghetti ایسے کھاتا رہا رہا جیسے نہاری کی پلیٹ سامنے دھری ہو۔
‘‘بھئی مشکل کیا ہے، دونوں بچے اب تین چار گھنٹے تو اسکول میں گزاریں گے، بس تین چار گھنٹوں میں تم آ جاؤ گی۔ انکل کا بھی کتنا دل لگا رہے گا۔ کتنا پیار کرتے ہیں بچوں سے۔ واقعی ہمارے بچے کتنے خوش قسمت ہیں ‘‘ ارشد نے چند لمحے میرے جواب کا انتظار کر کے پھر پانسہ پھینکا۔ اس دفعہ نگہت نے جواب نہ دیا، غالباً اب اس کے سکوت کی باری تھی۔
‘‘ہاں بھئی کیوں نہیں ‘‘ آپ نے کسی کو اپنی ہی سزا پر خوددستخط کرتے دیکھا ہے۔ مجھے پنجرے میں اپنے پروں کے پھڑپھڑانے کی آوازیں سنائی دیں۔
‘‘بابا یہ کھانے کے بعد ڈکار تو نہ لیا کریں ‘‘ کتنی بری آواز ہے
‘‘اچھا بیٹا کوشش کروں گا‘‘ میرے لہجے کا دکھ نگہت نے محسوس کر لیا
‘‘بابا آپ تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہو جاتے ہیں ‘‘
‘‘بس بیٹا اب یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہی تو رہ گئی ہیں میرے پاس۔ ساری عمر کی عادتیں ہیں۔ کوشش کروں گا‘‘
اب میں پیر سے ہفتے تک گھر میں قید تھا۔ کہ آیا کے یہی ایام تھے۔ ا توار کو باہر نکلنے کا موقع ملتا۔ تو میں صبح کا نکلا شام میں ہی گھر آتا، چاہے بلا وجہ سڑکوں پر ہی نہ پھر رہا ہوں۔ ایسے میں اس دیسی ریسٹورانٹ کا دم غنیمت تھا۔ اردو اخبار دیکھنے کو مل جاتا۔ ا توار کے اتوار اپنی مرضی کا دیسی کھانا کھا لیتا۔ لاہور کی مصروف زندگی سے نکل کر نیویارک کی قید بہت کھلتی۔ کوئی ترسٹھ سال تک انتہائی مصروف اور خود مختار زندگی گزارنے کے بعد، اب ہاتھ پیر سلامت ہوئے بھی اپنے کھانے پینے، آمد و رفت سب کے لئے میں کسی کا منتظر رہتا۔ ایسا لگتا جیسے گھر ہی زندان بن گیا ہو۔ شروع میں تو بس میں بھی بہت وحشت ہوئی، لیکن اب کچھ عادت سی پڑتی جا رہی تھی۔ لاہور والا گھر بیچ کر جو پیسے بچے تھے وہی رفتہ رفتہ خرچ ہو رہے تھے۔ پیسے نہ نگہت، ارشد نے دئیے نہ میں نے مانگے۔
جیکسن ہائیٹس میں سینیما دیکھا جس میں ایک واہیات انڈین فلم چل رہی تھی، لیکن مجھ سے رہا نہیں گیا، اکیلا ہی جا بیٹھا۔ یہا توار کا دوپہر دو بجے والا شو تھا۔ میں شام چھ بجے کی بس لیتا تھا۔ فلم دیکھ کر ریسٹورانٹ میں کھانا کھاؤں گا، پھر واپسی کی فکر کروں گا۔ اتنی واہیات فلم میں مجھے اتنا مزا آ سکتا ہے، یہ بات تو میرے گمان میں بھی نہیں تھی۔ میں شاید بوڑھا ہوتا جا رہا ہوں۔ یا حماقتوں میں سکون تلاش کر ہا ہوں۔ اتفاق سے سینیما اور ریسٹورانٹ ایک دوسرے کے برابر ہی میں تھے۔ میں نے دروازے سے ہی اخبار اٹھا لیا اور ایک خالی میز کی جانب بڑھ گیا۔ ریسٹورانٹ ویسا ہی تھا جیسا میں پچھلے ہفتے چھوڑ کر گیا تھا۔ لگتا تھا وہ صاحب اب بھی وہیں کھڑے برتن دھو رہے تھے۔ ان کی کمر کا خم شاید کچھ بڑھ گیا تھا یا میری آنکھوں کو دھوکہ ہوا ہو گا۔ ریسٹورانٹ کا مالک اتنا ہی مصروف تھا، اس نے مجھے دیکھا تو مسکرا کر ہاتھ ہلایا۔ میں نے حسبِ عادت ایک نان اور اس دفعہ نہاری کا آرڈر دے دیا۔ کچھ دیر میں مہلت ملی تو وہ رجسٹر چھوڑ کر میرے پاس آ گیا۔
‘‘کیسے ہیں طاہر صاحب‘‘
‘‘وہ صاحب کون ہیں جو برتن دھو رہے ہیں ‘‘ ؟
‘‘ارے وہ بزرگوار۔ ہیں بچارے بہاولپور سے یہاں آئے تھے، وہاں اچھی خاصی وکالت تھی‘‘
‘‘تو یہاں ان کا کوئی عزیز نہیں ‘‘
‘‘ہے کیوں نہیں بیٹے کے پاس رہنے آئے تھا‘‘
‘‘تو‘‘
‘‘تو کیا، رہتے تو اب بھی بیٹے کے پاس ہی ہیں ‘‘ اس نے معنی خیز انداز میں کہا ‘‘آپ کہئیے سب ٹھیک تو ہے ‘‘
کیا واقعی میری بے بسی اتنی عیاں ہے کہ یہ سب کی مشکلات میرے آئینے میں دیکھ رہا ہے۔ کیا یہ میری عمر کے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل کا المیہ ہے۔
‘‘ہاں ٹھیک ہی ہے ‘‘ اس دفعہ میرے لہجے میں ہچکچاہٹ تھی ‘‘اور چارہ بھی کیا ہے۔ کشتیاں تو ساری جل چکی ہیں۔ یہاں کوئی واقف کار نہیں۔ قوانین سے آگاہی نہیں۔ پھر اپنے ہی اولاد کی آدمی کیا شکایت کرے ‘‘
‘‘یہ کیا بات ہوئی طاہر صاحب۔ اگر یہاں کے ماحول میں ہی رنگنا ہے تو پھر دونوں نسلیں رنگی جائیں۔ میں آپ سے اس لئے پوچھ رہا تھا کہ میں یہاں روز یہی کہانی دیکھتا ہوں۔ یہاں آنے والے تارکین کو جیت کی اتنی لگن ہوتی ہے کہ وہ اس پر سب قربان کرنے کو تیار ہوتے ہیں، جی ہر چیز۔ رشتوں اور رتبوں کا اعتبار بھی نہیں رہتا‘‘
‘‘ تمھارے اپنے ماں باپ کہاں ہیں ‘‘
‘‘وہیں وطن میں ہیں۔ میں نے کئی بار کوشش کی بھی کی، مگر وہ مجھ سے زیادہ عقلمند نکلے۔ ایک بار آئے بھی تھے مگر صرف چھ ماہ رہ کے واپس چلے گئے۔ کہنے لگے اس عمر میں اتنی بڑی تبدیلی ہمارے بس کی نہیں۔ وہ بھی اس وقت کہ جب میں خود بھی یہاں نیا ہوں ‘‘ ۔
‘‘بیٹا اب واپس جانا میرے لئے غیر ممکن ہے۔ گھر بیچ کر آیا تھا، پنشن میں اکیلے گزارا مشکل ہو گا‘‘
‘‘یہاں رہئیے لیکن اپنی قیمت کا احساس دلا کر‘‘
‘‘کیا مطلب‘‘
‘‘آپ خود عقلمند ہیں۔۔ ‘‘ اس کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ پیسوں کی مشین پر ایک گاہک بل ادا کرنے آ گیا۔ برتن دھوتے ہوئے صاحب نے مڑ کر میری جانب دیکھا تو مجھے ان کے چہرے پر خود اعتمادی اور سکون جھلملاتا نظر آیا۔ چھ بجنے میں پانچ منٹ رہ گئے تھے، میں بھی میز پر ہی بل کے پیسے چھوڑ کر جلدی باہر نکل آیا۔ بس اسٹاپ پر موجود تھی، میں لپک کر سوار ہو گیا۔ وہ آج بھی وہیں اسی سیٹ پر تھی، لیکن اس کے برابر کھڑکی والی سیٹ پر کوئی اور عورت براجمان تھی۔ سب ہی سیٹیں بھری ہوئی تھیں۔ میں اس کے پاس ہی کھڑا ہو گیا۔ اس نے سر اٹھا کر میری جانب دیکھا اور مسکرا دی۔
‘‘آج دیر ہو گئی‘‘ اس نے ایسے پوچھا جیسے عرصے سے مجھے جانتی ہو۔
اگلے ہی اسٹاپ پر کھڑکی کی سیٹ والی مسافر اتر گئی تو اس نے کھسک کر مجھے جگہ دے دی۔
‘‘نئے آئے ہو اس ملک میں ‘‘ اس کی انگریزی سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ گوری ضرور ہے لیکن انگریزی اس کی مادری زبان نہیں۔ میں نے فقط سر ہلا کر اس کی بات سے اتفاق کیا۔ کوئی اجنبی عورت خود سے مجھ سے مخاطب ہو، مسکرائے اور بھی گوری، میری ساری زندگی کی تربیت میں ایسے مراحل سے نبٹنے کا سبق شامل نہیں تھا۔
‘‘کیا تم بھی نئی آئی ہو؟‘‘ میں نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا
‘‘ہاں، لیکن کوئی دو سال ہو گئے۔ رومانیہ سے یہاں آئی تھی، بیٹے کے ساتھ رہنے آئی تھی، اب اکیلی رہتی ہوں ‘‘
‘‘کیوں کیا ہوا‘‘
‘‘رومانیہ میں تو ہم بڑھاپے میں اپنی اولاد کے ساتھ رہتے ہیں، لیکن یہاں کی سوسائٹی کا فیبرک ایسا نہیں۔ بیٹا میری وجہ سے دشواریوں میں پڑ رہا تھا۔ میں نے ایک آفس میں صفا ئی کرنے کی نوکری کر لی، اور ایک تین کمروں کے اپارٹمنٹ میں ایک اور کرائے دار کے ساتھ رہ رہی ہوں۔ ایک اور کرائے دار مل جائے تو ہمارا کرایہ بہت کم ہو جائے گا‘‘ اس نے پر امید نظروں سے میری سمت دیکھا۔
‘‘لیکن میں تو اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ رہ رہا ہوں ‘‘ میں نے بوکھلا کر کہا۔ میں اسے مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن نگہت کی صورت نگاہوں میں گھوم گئی۔
‘‘چلو کوئی بات نہیں، ضرورت ہو تو یاد رکھنا، میں تم سے ایک اسٹاپ ہی آگے رہتی ہوں ‘‘ اس نے خوش دلی سے کہا لیکن صاف ظاہر تھا کہ اسے مایوسی ہوئی ہے۔
‘‘بابا اتنی دیر لگا دی‘‘ گھر میں داخل ہوا تو نگہت اور ارشد کو تیار باہر گیراج میں منتظر پایا
‘‘خیریت تو ہے ؟‘‘ میں نے گھبرا کر پوچھا
‘‘ہاں ہاں خیریت تو ہے ‘‘ نگہت نے پیار سے میرے بازو پر اپنا ہاتھ رکھ دیا ‘‘در اصل ہم دونوں کو باہر جانا تھا، بچوں کو لے جانا نہیں چاہتے تھے، آپ کا انتظار کر رہے تھے ‘‘
‘‘لیکن آج تو میری چھٹی ہے ‘‘ بے ساختہ میرے منہ سے نکل گیا
‘‘بابا، آپ کی مذاق کی عادت!‘‘ نگہت نے معذرت خواہانہ انداز میں شوہر کی جانب دیکھا۔
‘‘چلیں ‘‘ ارشد گویا اس اشارے کا منتظر تھا
‘‘کھانا تو کھا لیا ناں آپ نے ‘‘ کاش مجھ سے پوچھ لیتی کہ کھانا نکال دوں آپ کے لئے۔ ‘‘ہاں بابا پلیز، پلیز اگر ہو سکے تو کوڑا باہر رکھ دیجئیے گا۔ ہم لوگوں کو رات آنے میں بہت دیر ہو جائے گی اور کوڑا سویرے ہی اٹھ جاتا ہے ‘‘
اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دے سکتا ان کی گاڑی گیراج سے نکل گئی۔
جب میں آئندہ اتوار اس سے بس میں ملا تو اس سے پہلے ہی ریسٹورانٹ میں اپنے لئے نوکری پکی کر چکا تھا۔ ‘‘آپ یہاں رجسٹر پر بیٹھ جائیں، تو مجھے بھی کچھ فرصت مل جایا کرے گی۔ آپ چاہیں تو تینوں وقت کھانا بھی یہاں کھا سکتے ہیں۔ تنخواہ زیادہ تو نہیں لیکن اتنی ضرور ہو گی کہ آپ اکیلے کا گزارہ چلتا رہے ‘‘ ۔
بس میں سوار ہوا تو آج وہ بھی کھڑی تھی۔
‘‘اتنا رش کیوں ؟‘‘
‘‘آج فٹ بال کا کھیل تھا ناں نیویارک اور بوسٹن کے درمیان، اسی کا مجمع ہے ‘‘ وہ میرے اتنے قریب کھڑی تھی کہ مجھے لگا میں اس سے بات بھی نہیں کر سکوں گا۔ وہ اس اثر سے بے خبر تھی۔ بس کو دھچکا لگا تو غیر ارادی طور پر میرا ہاتھ اس کے کولہے کو چھو گیا۔ میں نے گھبرا کر اس کی جانب دیکھا کہ معذرت کروں، مگر اس کے چہرے پر وہی سکون تھا، اس نے کوئی غیر معمولی بات محسوس نہیں کی تھی۔
‘‘کیا وہ کمرہ کرائے کے لئے اب بھی مہیا ہے ‘‘ میں نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا
‘‘ہاں، ہاں ‘‘ وہ تو خوشی اچھل پڑی اور میرے گال کا بوسہ لے لیا۔
مجھے لگا بس میں ہر آدمی مجھے گھور رہا ہے۔ میں نے گھبرا کے چاروں سمت دیکھا مگر کوئی اس طرف متوجہ نہیں تھا۔
‘‘ ہاں میں اپنے لئے جگہ دیکھ رہا ہوں، نوکری بھی ڈھونڈ لی ہے ‘‘
‘‘ بس کل ہی آ جاؤ۔ نوکری کے ساتھ سوشل سیکیورٹی کے پیسے بھی ملا کریں گے تو گزارا ہو جائے گا‘‘
میں بس سے اترا تو اس نے اپنا نمبر اور گھر کا پتہ لکھ کر کاغذ کا ٹکڑا مجھے دے دیا۔ میں نے اپنا فیصلہ بتایا تو نگہت رونے لگی
‘‘ مگر بابا یہاں آپ کو کیا تکلیف تھی‘‘
‘‘نہیں بیٹا، میں تو تم لوگوں کی تکلیف کے خیال سے جا رہا ہوں، بیٹی کے گھر میں زیادہ دن نہیں رہا جا سکتا‘‘ ۔
‘‘اس عمر میں آپ گھر سے جائیں گے، لوگ تو ہمیں ہی الزام دیں گے ‘‘ ارشد کو صرف یہی فکر تھی ‘‘بھلا کہاں نوکری کریں گے اس عمر میں ‘‘
‘‘ایک بڑی عمر کی بچی کو آیا کی ضرورت ہے ‘‘ میرے منہ سے نکل گیا اور میں اپنی اٹیچی اٹھا کر نکل آیا۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...