آج بھی وہ اپنے مقر رہ وقت پر ہی آئے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں تھی۔ بچپن سے ہی میں نے سیکھ لیا تھا کہ وہ جس وقت کا وعدہ کرتے ہیں اسی وقت پہنچ جاتے ہیں۔ اس سے پہلے ان کی آمد کی امید رکھنا عبث ہے۔ یہ ضرور ہے کہ کبھی کبھی ایک خوشگوار حیرانگی کے لئے بغیر اطلاع کے بھی پہنچ جاتے ہیں۔ آج بھی اپنے مقر رہ وقت پر ہی پہنچ گئے۔ دسمبر کی یخ بستہ شام ان کی گاڑی ڈرائیو وے میں داخل ہوئی تو میں صدر دروازے پر ان کا منتظر تھا۔ بڑھ کر ان سے بغل گیر ہوا تو لگا کہ اپنے آپ سے مل رہا ہوں۔ ان کا سامان ان کے ہاتھ سے لے لیا۔
جب سے وہ تنہا رہ گئے تھا ان کا یہی وطیرہ تھا۔ سال میں دو تین بار چند ہفتوں کے لئے میرے پاس آ جاتے۔ خاص طور پر دسمبر میں کرسمس کے دوران تو ضرور آتے کہ نیویارک میں کرسمس کا موسم بہت زندہ اور جیتا جاگتا ہوتا ہے۔ ویسے تو جب ہمارا گھر بہت بھرا پُرا تھا مجھے وہ اس وقت بھی بہت تنہا لگتے، اپنے وقار اور سربراہی میں تنہا۔ پھر اولادیں جوان ہو کر گھونسلہ چھوڑ گئیں، لیکن جس مکان میں وہ گزشتہ تیس سال سے رہ رہے تھے اسے چھوڑ کر کسی کے ساتھ منتقل ہونے کو تیار نہیں تھے۔
‘‘آئیے، یہاں آتشدان کے سامنے آ جائیے۔ میں نے اسے آپ کے انتظار میں پہلے ہی دہکا دیا تھا‘‘
‘‘ہاں بھئی سردیوں میں آتشدان کے سامنے پیر پسارے، کافی پینے، اور کچھ نہ کرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ ‘‘ وہ ہنس کر بولے۔ میں پہلے ہی کافی مشین میں پانی بھر کر اس کا پلگ لگا رہا تھا۔ بیٹھک میں نشست کی ترتیب کچھ یوں تھی، کہ آتشدان ان کے صوفے کے داہنے ہاتھ پر تھا، سامنے ٹی وی چل رہا تھا۔ جب کہ بائیں ہاتھ پر کھینچ کر کھولنے والا بڑا فرنچ دروازہ مکان کے عقب میں میرے چھوٹے سے باغ میں کھلتا تھا۔
‘‘ بھئی یہ پردہ ہٹاؤ، تمھارے باغ کے درختوں پر بھی برف دیکھیں ‘‘ ۔
‘‘بس ابھی کافی بنا کر ہٹاتا ہوں۔ آتش دان کی گرمی زیادہ تو نہیں، آپ موزے اتار دیجئیے ‘‘ میں نے ان کے موزے میں تلوے کی سمت سوراخ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ سوراخ دیکھ میں نے ایک سکون کا سانس لیا تھا کہ سب ٹھیک ہے۔
‘‘ابھی تک تو حرارت اچھی لگ رہی ہے۔ کچھ دیر میں موزے پگھلنے لگیں گے تو اتار دوں گا۔ پچھلے سال تمھارے ہاں کی گرمی سے ہی موزے میں سوراخ ہوا تھا۔ یاد گار کے لئے رکھ چھوڑا ہے ‘‘ لیجئے مجھے یقین ہو گیا کہ سب ٹھیک ہے، ، کچھ بھی نہیں بدلا۔ ‘‘اور بھئی سچ بات تو یہ ہے کہ ہمیں کبھی پتا ہی نہیں چلا کہ کتنی آنچ ٹھیک ہوتی ہے۔ ابھی اچھا لگ رہا ہے، کچھ ہی دیر میں یہی حرارت بری لگنے لگے گی۔ حالانکہ کمرے کا درجہ حرارت تو اتنا ہی ہو گا۔ یہ تو اطراف سے باہمی اختلاط کا مسئلہ ہے میاں ‘‘ مجھے ان کا لہجہ معانی خیز لگا۔
میں نے جواب نہیں دیا۔ ان کی کافی بہت آسان ہوتی ہے۔ نہ شکر کی جھنجھٹ، نہ دودھ کا مسئلہ۔
‘‘میاں اچھائی میں ملاوٹ نہیں کیا کرتے ‘‘ وہ مجھے چھیڑتے۔ ان کی دیکھا دیکھی میں نے بھی کافی میں شکر ڈالنا تو چھوڑ دی تھی، لیکن دودھ کی ملاوٹ ابھی باقی تھی۔ مگ میں کافی انڈیل کر مگ انہیں پکڑا دیا، اور فرنچ دروازوں کے سامنے پڑا پردہ ہٹا دیا۔ وہ کرسی سے اٹھ کر میرے ساتھ آ کھڑے ہوئے۔
‘‘بھئی ماننا پڑتا ہے کہ کم از کم باغ تو تم سلیقے سے رکھتے ہو‘‘ یہ ان کی گفتگو کا ایک خاص انداز تھا جیسے چھیڑ رہے ہوں۔ اب دیکھئے یہاں ’[کم از کم‘‘ بالکل بلا ضرورت ہے یا نہیں۔ غیر آلودہ تعریف نہیں کرتے۔ اس ’کم از کم‘ میں جو بلاغت ہے اس سے ان کی اولاد خوب واقف ہے۔
‘‘ارے یہ سیب کے درخت کے گرد تم نے ربن باندھ رکھی ہے۔ یہ وہی ہے ناں جو میں نے پچھلی بار بھی دیکھی تھی‘‘ انہوں نے استعجابیہ استفسار کیا۔
بچپن میں کبھی مجھے عادت پڑ گئی تھی کہ جب کسی نئی الجھن کا سامنا ہوتا تو اپنے پچھواڑے کے درخت پر ایک ربن باندھ دیتا۔ پہلے وہاں باندھتا رہا جہاں اب وہ رہتے تھے، میں نے اپنا علیحدہ گھر تو بنا لیا لیکن یہ عادت نہ گئی۔ وہ الجھن خواہ امتحان کی ہوتی یا نوکری کی، یا کسی نئے منصوبے کی۔ کبھی تو ایک ہی ہفتے میں کئی ربنیں بندھ جاتیں اور کبھی مہینوں کوئی نئی ربن نہیں بندھ پاتی۔ جلد یا بدیر، اپنے تئیں، جب وہ معاملہ سلجھ جاتا تو وہ ربن بھی کھل جاتی۔ وہ میری اس کمزوری کے عادی تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ انہوں نے ہمیشہ اس کی حوصلہ افزائی کی۔
‘‘جی، یہ وہی ربن ہے، آپ پچھلی بار ستمبر میں آئے تھے جب سے ہی بندھی ہے ‘‘ میں نے کچھ جھینپ کر اقرار کیا۔ گویا یہ اپنی شکست کا اقرار تھا۔
‘‘اب تک کھلی کیوں نہیں۔ بات کریں ؟‘‘ ان کی اس دعوت میں یہ خواہش مخفی تھی کہ میں اس الجھن پر ان سے بات کروں، گویا خود سے بات کروں، اس گفتگو میں شاید کوئی راستہ نکل آئے۔
‘‘ابھی میں تیار نہیں ہوں ‘‘ میں نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا۔
‘‘ٹھیک ہے مجھے بھی کوئی جلدی نہیں۔ بہت کم ہی کوئی ربن میں نے اتنا طویل عرصہ بندھی رہتی ہے۔ لیکن اس میں تمھاری مستقل مزاجی کا قصور نہیں بلکہ کامیابی کے تناسب کی سند ہے ‘‘ انہوں نے چٹکی لی۔
‘‘آپ کو اس پر حیرت نہیں کہ کبھی کبھی تو کوئی ربن مہینوں نہیں بندھتی، کبھی ایک ہی دن میں دو بندھ جاتی ہیں۔ کوئی ربن تو چند روز میں ہی اتر جاتی ہے تو کبھی سال بھر بھی لگی رہی ہے ‘‘ مجھے اپنے لہجے میں شکوے پر حیرت اور ندامت محسوس ہوئی۔
‘‘بھئی وقت خود اپنے قابو نہیں آتا تو ہمارے قابو کیسے آئے گا۔ ہمیں تو وقت کا دراک بس اتنا ہی ہے کہ جیسے یہ ناپنے کا کوئی آلہ ہو۔ یہاں سے وہاں تک چھ فٹ، کل سے آج تک چوبیس گھنٹے، اور بس۔ ‘‘
‘‘سچ پوچھیں تو مجھے تو اس وقت پر بہت غصہ آتا ہے ‘‘
‘‘کیوں ؟‘‘ وہ مسکرائے
‘‘جس چیز پر کوئی اختیار نہیں ہو، لیکن جس کے تعاقب میں زندگی گزر رہی ہو اس پر غصہ نہیں آئے گا؟‘‘
‘‘تعاقب میں کہاں۔ ابھی کتنے پچاس کے ہی تو ہوئے ہو۔ مجھے یاد ہے جب تم میڈیکل اسکول سے فارغ ہوئے تھے تو تمھارا خیال تھا کہ تم وقت کے آگے آگے بھاگ رہے ہو!‘‘
‘‘صحیح کہہ رہے ہیں آپ۔ یہی تو رونا رو رہا ہوں۔ اس وقت کا خیال کتنا دلفریب لیکن خام تھا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ پچاس کے قریب پہنچ کر معاملات زیادہ سمجھ میں آنے لگیں گے۔ وقت، مذہب، وجود سب الجھنیں واضح ہونے لگیں گی۔ مگر اب تو لگتا ہے معاملہ کچھ اور بگڑ گیا ہے۔ ‘‘
‘‘ہاں میاں ‘‘ انہوں نے ٹھنڈی سانس بھری ‘‘یہی کہہ سکتا ہوں کہ سمجھ لو تم اکیلے نہیں ہو۔ تو کیا معاملہ محض اختیار کا ہے ؟‘‘
‘‘ نہیں اختیار تو دور کی بات، یہاں تو نیم اختیار بھی نہیں۔ میں نے تو ہار مان کر برسوں پہلے صرف حال میں ہی جینا شروع کر دیا تھا؟‘‘
‘‘ بھئی یہ تو بہت زیادتی ہے، کچھ مستقبل کا بھی تو حق ہے تم پر!‘‘ آپ نے اگر ان کے ساتھ عمر گزاری ہوتی تو آپ سمجھ جاتے کہ اس سوال کا جواب تھا ان کے پاس۔ یہاں محض مقصد یہ تھا کہ وہ اس گفتگو پر مزید گفتگو کے خواہاں ہیں۔
‘‘بھئی مستقبل میں تو بہت دور دور تک امکانات ہیں، یہاں تو کل صبح بلکہ اگلے پل کا بھی نہیں پتہ، تو اس کا مجھ پر کوئی حق ہونا زیادتی ہے۔ ‘‘
‘‘میں اس پر تم سے متفق نہیں۔ بظاہر سطحی طور پر بات صحیح کہہ رہے ہو، لیکن میں چاہتا ہوں خود ہی سوچو‘‘ ۔
مجھے خیال ہی نہیں رہا کہہ ہم کتنی دیر سے دروازے کے پاس کھڑے باہر دیکھ رہے ہیں، وہ یقیناً تھک گئے ہوں گے۔
‘‘آئیے آتشدان کے پاس بیٹھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس دفعہ حرارت سے آپ کا موزہ رفو ہو جائے ‘‘ اب موقع تھا کہ میں بدلہ چکا دیتا۔
‘‘ہوں ‘‘ انہوں نے ہنس کر میرے شانے پر ہاتھ مارا اور وہیں رہنے دیا۔ ہم اسی طرح صوفے کی طرف بڑھ گئے اس سے جہاں محبت، قربت اور یگانگت مقصود تھی وہیں میری خود اعتمادی کو بڑھاوا دینا بھی شامل تھا۔ پہلے ایسی باتیں میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ وہ اکثر غیر ضروری طور پر مجھ پر یوں انحصار کرنے لگتے کہ مجھے حیرت ہوتی کہ سب تو یہ خود کر سکتے ہیں۔ مگر جب عمر پچاس کے قریب ہونے لگتی ہے تو فہم و ادراک کی نئی کھڑکیاں روشن ہونے لگتی ہیں۔ میرے خیال میں ذہن میں کچھ خلئیے ایسے پروگرام کئے گئے ہیں کہ وہ عمل پذیر ہونے کے لئے کم از کم چالیس سال کا وقفہ مانگتے ہیں۔
‘‘آپ کا پسندیدہ پروگرام آ رہا ہے ‘‘Everybody loves Raymond‘‘ ، لگا دوں ٹی وی۔ ‘‘
‘‘بالکل لگا دو، نیکی اور پوچھ پوچھ۔ تمھارے ساتھ دیکھوں گا تو اور مزا آئے گا‘‘ ۔ غریب الوطنی میں انہیں ٹی وی پر مزاحیہ پروگرام ہی زیادہ پسند آتے۔ ‘‘بھئی رونے دھونے کے لئے پچھلی کدورتیں کم ہیں کہ نئی پٹاریاں کھول لوں۔ ‘‘ وہ بیزاری سے کہتے۔
کھانا کھا کر ہم دونوں دیر تک باتیں کرتے رہے۔ میرا تو سارا ماضی ان کے ساتھ مشترک تھا۔ ہم نے خوب پچھلے قصے دہرائے۔ ان کا بستر میں نے اپنے برابر والے کمرے میں ہی کر دیا تھا۔ ان کے سرہانے پانی کا گلاس رکھ کر میں نے انہیں شب بخیر کہا۔
‘‘کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے آواز دے دینا۔ ‘‘
‘‘نہیں کل ہفتہ ہے، تمھاری بھی چھٹی ہے، آرام سے اٹھنا۔ بہت دنوں سے تمھارا کوئی افسانہ بھی نہیں پڑھا۔ بلکہ صبح خود مجھے سنانا۔ ‘‘
سارا زمانہ افسانہ پڑھ لے۔ بڑے جید نقاد بھی داد دے دیں تو وہ مزا نہیں ملتا جو ان کے چند الفاظ سے ملتا تھا۔ نہ معلوم کیوں۔ شاید ان کی آواز میں مجھے خود اپنی رائے کی بازگشت سنائی دیتی تھی۔ لکھتا تو آدمی اپنے لئے ہی ہے۔ اوروں کو دھوکہ دینا تو آسان ہے، خود کو دھوکہ دینا ایک اور ہی فریب ہے۔ میں ذہن میں اپنے نئے لکھے افسانوں میں سے بہترین کا انتخاب کرنے لگا۔ وہ، نہیں اس میں تو کچھ جھول تھا، اچھا تو پھر وہ، نہیں اس کا اختتام تو پہلے ہی پتہ چل جاتا ہے۔ کسی چھوٹے بچے کی مانند ذہن کے کسی گوشے میں وہی خواہش تھی جو برسوں پہلے کوئی نیا ہنر سیکھ کر ہوتی تھی کہ کس طرح یہ بات ان تک پہنچ جائے۔
صبح چہل قدمی کا شوق برف باری کی نذر ہو گیا۔ لہذ ا ناشتے کے بعد، کافی کے مگ بھرے اور دوبارہ اپنی پسندیدہ نشستیں سنبھال لیں۔
‘‘کس وقت زیادہ لکھتے ہو، جب دکھی ہو یا خوش؟‘‘
یہ سوال غیر متوقع تھا، میں گڑبڑا سا گیا ‘‘کوئی خاص فرق نہیں پڑتا‘‘ میں نے ٹالا
‘‘اچھا چلو سناؤ، کوئی نئی چیز؟‘‘
‘‘اب نیا لکھنے کا وہ جوش نہیں رہا۔ میرے خیال میں، میں نے اپنی حدوں کو چھو لیا ہے۔ ‘‘
‘‘واقعی‘‘ وہ مسکرائے، پھر وہی سر پرستانہ مسکراہٹ۔ ‘‘میں تو خود اب تک اپنی حدیں نہیں پہچان سکا، تم کیسے پہچان گئے۔ یاد رکھو جب بھی اپنی حد کو پہنچتے ہو، تو گویا ایک نئی حد مقرر ہونے لگتی ہے۔ میرے خیال میں تو کسی کے لئے کوئی حد مقرر کی ہی نہیں گئی۔ تم تو خود ڈاکٹر ہو۔ سوچ کا saturation point تو آ ہی نہیں سکتا۔ اب کیا مکان کے دروازے بھی گنے چنے ہونے لگے۔ ‘‘ لگتا تھا انہیں میری بات بری لگی، یا شاید مایوسی ہوئی۔ میں نے تو محض یہ بات مدافعانہ حکمت عملی میں کہی تھی کہ اگر میرا نیا افسانہ پسند نہ آئے تو اس دیوار کے پیچھے چھپ سکوں۔ اب اپنے بچھائے جال میں خود ہی پھنس چکا تھا۔
‘‘ان خیالات کے حامل مصنف سے کوئی کیا سنے ؟‘‘ ان کی ناراضگی برقرار تھی۔
‘‘جیسے آپ کی مرضی ‘‘ میں نے شانے اچکائے
‘‘اچھا چلو سناؤ‘‘ یہ سوچی سمجھی پسپائی تھی۔ ایک فاتح سپاہ سالار کی حکمت عملی۔ بہت سنجیدگی اور خاموشی سے افسانہ سنتے رہے۔
‘‘واہ میاں، پھر کہتے ہو اپنی حدوں کو چھو لیا ہے۔ تم صرف یہ چاہ رہے تھے کہ میں تمھاری تعریف کروں۔ ‘‘ ان کے جملے سے میرا خون سیروں بڑھ گیا۔
دوپہر کا کھانا کھا کر ہم دونوں گھر سے باہر نکل گئے
‘‘مال چلتے ہیں، میں چاہتا ہوں آپ کو ایک اوور کوٹ دلا دوں۔ ‘‘
‘‘مجھے ضرورت نہیں، دیکھ تو رہے ہو، یہ جو پہنے ہوں اس میں کیا کمی ہے ؟‘‘
‘‘لیکن پھر بھی۔ ایک سے دو اوور کوٹ بہتر ہیں۔ کبھی بدل کے یہ پہن لیا کبھی وہ۔ ‘‘
‘‘دیکھو میں اپنی مرضی سے علیحدہ اور تنہا رہتا ہوں۔ سب ہی بچوں نے کئی کئی مرتبہ پورے خلوص سے کہا ہے کہ ساتھ آ کر رہیں۔ لیکن فی الحال میں اپنی آزادی تم لوگوں کے تابع کرنے کے حق میں نہیں۔ لہذا تمھارے ذہن میں کوئی Guilty Conscious نہیں ہونا چاہئیے۔ ‘‘
‘‘اس بات کا اوور کوٹ سے کیا تعلق ہے ؟‘‘
‘‘سوچو، سمجھ جاؤ گے ‘‘
میں مصر رہا اور اوور کوٹ دلا کر ہی رہا۔ مال سے واپسی پر میرا موڈ بہت خوشگوار تھا۔ وہ بھی خوش تھے۔ سڑک کے کنارے کسی گاڑی کا شکار ایک گلہری کا جسم دیکھا تو افسردہ ہو گئے ‘‘ان جانوروں کی دنیا، ہماری دنیا سے ایسی پیوست ہے کہ علیحدگی اب مشکل ہے۔ لیکن انہیں اس کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے !‘‘
‘‘تمھارا مذہب پر اعتقاد بحال ہوا یا نہیں ؟‘‘ وہ ایسے ہی اچانک حملہ آور ہوتے
‘‘وہی بے یقینی کی کیفیت ہے، بہت سے سوال اٹھتے ہیں ذہن میں۔ ‘‘
‘‘تو اس میں کیا حرج ہے ؟ بے یقینی ہی سے تو یقین کا کھوج ملے گا۔ میں خود ابھی تک بے یقینی کا شکار ہوں۔ بس یہی کہنا ہے کہ دروازہ کھلا رکھنا‘‘
‘‘دروازہ تو کھلا ہے، لیکن یقین کیجئیے کچھ پتہ نہیں۔ سوچو تو پچاس سال میں کتنی تعلیم حاصل کر لی ہے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہونے اور نہ ہونے کی بابت جتنا علم پیدائش کے وقت تھا، بالکل اتنا ہی آج بھی ہے، ایک حرف زیادہ نہیں ‘‘
‘‘خوب‘‘ وہ مسکرائے۔ ‘‘یہ ادراک ’کہ نہیں معلوم‘، تمھاری جستجو جاری رکھے گا، یہ ایک خوش آئند بات ہے ‘‘
میں نے بہت کوشش کی کہ رات کا کھانا ہم کہیں باہر کھائیں، لیکن وہ نہ مانے، میں نے جو گھر پر بنایا، وہی خوش ہو کر کھایا اور تعریف بھی کرتے گئے۔
‘‘میاں میں اس دفعہ تمھارے پاس صرف دو دن کے لئے آیا ہوں صبح ہی نکل جاؤں گا‘‘ انہوں نے انکشاف کیا۔
‘‘کیوں ؟ کم از کم ایک ہفتہ تو ٹھہرتے۔ ‘‘
‘‘نہیں، اور اب تو تم نے اوور کوٹ بھی دلا دیا ہے ‘‘ میری آنکھوں میں جانے کیا دیکھا کہ کاندھے پر ہاتھ مار کر قہقہہ لگایا۔ ‘‘نہیں میر خیال میں تمھیں صرف دو ہی دن کی ضرورت تھی۔ اس دفعہ یہاں سے نکل کر چھوٹے کے پاس جاؤں گا، وہاں ایک دو ہفتے ٹھہروں گا، اگر تم کو کوئی اعتراض نہیں ہو‘‘ انہوں نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔
‘‘اور اگر مجھے اعتراض ہو؟‘‘ میں ذرا شوخی سے پوچھا
‘‘ہم نے یہ استحقاق کسی جذباتی دباؤ میں نہیں دیا ہے، کچھ دیکھ کر ہی دیا ہے ‘‘ وہ سنجیدہ تھے۔ مجھ سے صرف یہی جواب بن پڑا:
‘‘نہیں جہاں آپ خوش رہیں ‘‘ گویا ہتھیار ڈال دئیے
صبح انہیں گاڑی میں بٹھا کر بھاری قدموں سے واپس گھر آیا۔ پچھلے دروازے سے باغ میں جا کر سیب کے درخت سے بندھی ربن کھول دی۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...