میں کمرے میں داخل ہوا تو گفتگو ایک لمحے کے لئے رک گئی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، ہمیشہ یہی ہوتا آیا تھا۔ جہاں میں کسی کمرے، برآمدے، صحن میں داخل ہوا ایک لمحے کے لئے گویا وقت رک جاتا تھا۔ پھر ایک لحظہ ٹھٹک کر جیسے دوبارہ چل پڑتا۔ یہ لحظہ اتنا مختصر بھی ہو سکتا تھا کہ اگر آپ کو معلوم نہ ہو کہ یہ ہونے والا ہے تو آپ اسے محسوس بھی نہ کر سکیں اور بعض اوقات اتنا طویل ضرور ہوتا کہ کوئی کہہ دیتا ‘‘تو میں کیا کہہ رہا تھا؟‘‘ دیکھئے میرے سر پر سینگ نہیں ہیں، میں بھی دوسروں کی مانند ایک ناک اور دو کان رکھتا ہوں، اپنے پیروں پر چلتا ہوں، سر پر بال بھی ہیں، مگر نجانے وہ کون سی بات ہے کہ میں محفل میں داخل ہوا اور گفتگو ایک شرمندہ سے لمحے کے لئے رک گئی۔ شروع میں تو مجھے کئی سال اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوا، پھر مجھے یہ بات بہت دلچسپ لگی، میں بار بار کمرے میں جاتا، لوگوں کے منع کرنے سے اور زیادہ جاتا کہ دیکھوں کیا اب پھر، اور یقین کیجئیے مجھے کبھی ناکامی نہیں ہوئی۔ رفتہ رفتہ مجھے اس بات سے بہت کوفت ہونے لگی۔ میرے دل میں ایک خلش سی بیٹھ گئی، مجھ میں کیا کمی ہے ؟
اس وقت بھی ایسا ہی ہوا۔ یہ صاحب ہمارے پڑوس میں نئے آئے تھے۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا تھا کہ ان کے بھی دو بچے میری ہی عمر کے ہیں۔ جب وہ ہمارے گھر آئے تو میں صحن میں اپنے بھائی کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا۔ صمد مجھ سے صرف ایک ہی سال بڑا ہے۔ ہاں میں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ جب صمد کمرے میں داخل ہوتا ہے تو وقت ٹھہرتا نہیں، وقت پہچان جاتا ہے۔ نہیں پہچانے تو ہم اس کی یقین دہانی کرا دیتے ہیں کہ ہم وقت کو پہچانیں یا نہ پہچانیں وقت ہمیں ضرور پہچان لے، اور ہمارے ساتھ وہی سلوک کرے جو ہمارے ہم جنسوں نے ہمارے لئے طے کیا ہے۔ میں اپنے نئے پڑوسیوں سے ملنے کے لئے بے چین تھا۔ یہ نئے پڑوسی اپنے ساتھ اپنے بیٹے کو بھی لائے تھے، تقریباً میری ہی عمر کا تھا، جب کہ اس دن کھڑکی سے جو لڑکی نظر آئی تھی وہ آج ان کے ساتھ نہیں آئی تھی۔ صمد مجھے ان لوگوں کے پاس نہیں جانے دے رہا تھا۔ کسی نہ کسی بہانے روک لیتا۔ مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ وہ نہیں چاہ رہا میں اندر کمرے میں ان لوگوں کے پاس جاؤں۔ اس سے میرا شوق اور تیز ہو رہا تھا۔ ہاں یہ ایک اور بات ہے۔ میں نے اکثر محسوس کیا ہے کہ جب کوئی ہمارے گھر آتا ہے تو صمد اچانک میرے ساتھ کھیلنا شروع کر دیتا ہے، اس کی کوشش ہوتی ہے کہ میں اندر کمرے میں نہ جاؤں۔ اگر آنے والا نیا ہے اور پہلے کبھی ہمارے گھر نہیں آیا تو یہ کوشش اور زیادہ شدید ہوتی ہے، جتنا میرا اشتیاق بڑھتا ہے اتنا ہی صمد کا اضطرار۔ لیکن زیادہ تر جیت میری ہی ہوتی ہے، میں ہوں بھی بہت پھرتیلا، کسی نہ کسی طرح اسے غچہ دے کر کمرے میں گھس ہی جاتا ہوں۔ آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں کبھی کبھی تو بیچارے کی پٹائی بھی ہو جاتی ہے کہ اس نے مجھے کیوں جانے دیا۔
خیر تو میں نے جان بوجھ کر اسے معمول سے زیادہ تیز گیند پھینی، ظاہر ہے وہ سنبھال نہیں سکا۔ گیند اس کے پیچھے گئی تو وہ اسے پکڑنے دوڑا۔ وہ ادھر مڑا اور میں ادھر پڑوسی سے ملنے کے اشتیاق میں کمرے میں جا گھسا۔ تو جیسے کہ میں آپ کو پہلے بھی بتا چکا ہوں گفتگو ایک لمحے کے لئے ٹھٹھر گئی۔ پڑوسی نے مجھ پر نظر ڈالی اور غیر ارادی طور پر اس کی گرفت اپنے بیٹے کی کمر کے گرد سخت ہو گئی، میں کچھ سمجھ نہ سکا۔
‘‘آؤ بیٹا، بھئی یہ ہمارا چھوٹا بیٹا ارشد ہے۔ ‘‘
نہ جانے کیوں مجھے ابو کا لہجہ شکایتی سا لگا۔ میں اپنے والد کے پاس زمین پر بیٹھ گیا اور وہ میرے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگے۔ یہ میرا پسندیدہ وقت ہے کہ میں نیچے بیٹھا ہوں اور وہ میرے بالوں میں انگلیاں پھیر رہے ہوں۔ لیکن ایسا اکثر نہیں ہوتا، میری کسی نہ کسی بات پر انہیں غصہ آ جاتا اور شفقت کا یہ لمحہ بہت عارضی ثابت ہوتا۔ نئے پڑوسی کی نظریں مجھ پر پڑیں پھر ہٹ گئیں دوبارہ مجھ پر پڑنے کے لئے۔ ایک خفیف سے توقف کے بعد گفتگو کا سلسلہ پھر بحال ہو گیا لیکن اب پڑوسی ہر ایک سیکنڈ کے بعد دزدیدہ نگاہوں سے میری طرف دیکھنے لگا۔ جیسے مجھ سے خوفزدہ ہو۔ ہاں آپ یقین کیجئیے وہ مجھ سے خوفزدہ تھا۔ اتنا بڑا لحیم شحیم آدمی بھلا مجھ سے خوفزدہ کیوں ہے ؟وہ گاہے گاہے میری طرف دیکھتا رہا۔ مجھے پتہ ہے میری وجہ سے اس کا دھیان بٹ گیا تھا لیکن میں نے اس سے آنکھیں نہیں ملائیں۔ مجھے اجنبیوں سے آنکھیں ملانا پسند نہیں ہے۔ میں نے ان کے بیٹے کو انگلی سے اشارہ کیا لیکن وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھا۔ میں نے اسے اتنی دفعہ آؤ آؤ آؤ آؤ کہا لیکن مجھے لگا کہ وہ اگر اٹھنے بھی چاہتا تو اپنی کمر کے اطراف اپنے والد کی سخت گرفت میں گرفتار بیٹھا تھا۔ میں اٹھ کر ان کے قریب چلا گیا کہ اس کا ہاتھ پکڑ اسے اٹھا لوں۔
‘‘نہیں بیٹا یہ بہت تھکا ہوا ہے۔ ابھی سامان کھول رہے تھے اس میں بہت تھک گیا، پھر کسی وقت کھیلے گا‘‘ ۔ مجھے پتہ تھا وہ جھوٹ بول رہے ہیں، بہانے بنا رہے ہیں۔
میں نے ہاتھ بڑھایا کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھا لوں تو میرے پڑوسی نے نرمی سے میرا بڑھا ہوا ہاتھ جھٹک دیا۔ اب یہ فعل ایسے کیا گیا تھا کہ کمرے میں موجود دوسرے لوگوں کو لگا کہ جیسے نرمی سے میرا ہاتھ ہٹا دیا ہو۔ لیکن اصل بات فعل کی نہیں، فعل تو کیا فاعل کی بھی نہیں، بات تو نیت کی ہے۔ میں نے بھی بلبلا کر ان کی کلائی پر کاٹ کھایا۔ پڑوسی نے جھٹکا دے کر اپنا ہاتھ چھڑایا اور شکایتی نظروں سے میرے والد کی جانب دیکھا۔ وہ پہلے ہی ‘‘ہائیں ہائیں ‘‘ کی آوازیں نکالتے مجھے پشت سے اپنی جانب کھینچ رہے تھے۔ میرے والد کے بہت معذرت کے باوجود، پڑوسی پھر نہ بیٹھے اور فوراً چلے گئے۔ ہاں میں یہ تو آپ کو بتانا بھول ہی گیا کہ اس دن پھر صمد کی بہت پٹائی ہوئی۔ یہ سین ہمارے گھر میں بہت بار دہرایا جا چکا ہے۔
آپ کا تو مجھے نہیں معلوم لیکن میری اپنی یاد داشت تقریباً چار، پانچ سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے۔ میرے خیال میں تو اس وقت تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ لوگ ہمارے یہاں آتے، ہم لوگوں کے یہاں جاتے، میں سب بچوں کے ساتھ کھیلتا، بہت ہلکا ہلکا یاد ہے۔ یا شاید سنُ سنُ کر ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے مجھے یاد ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس وقت بھی یہ جملہ ضرور کان میں پڑتا رہتا کہ:
‘‘ بہت شریر بچہ ہی، بھئی‘‘ ، یا یہ کہ
‘‘آپ کا یہ بیٹا بہت شیطان ہے، ماشا اللہ۔ ‘‘
یہ شاید کسی ڈاکٹر کے مطب کی بات ہے کہ جب میرے کان سب سے پہلے اس لفظ “autistic” سے مانوس ہوئے، پھر تو یہ گویا میرے نام کا ایک حصہ ہی بن گیا۔ میرے نام کے ساتھ جیسے وہ قابلیت لکھی جانے لگی جس میں میرا اپنا کوئی دخل نہیں تھا، قدرت کی مہربانی تھی۔ مجھے وہ دن تو خیر خوب یاد ہے جب ابا مجھے اسکول میں داخل کرانے لے گئے۔ میرا حساب غیر معمولی طور پر اچھا ہے، یہ شہر کا ایک پرائیوٹ اور اچھا اسکول ہے۔ مجھے پوری گنتی اور انگریزی کی اے بی سی یاد تھی۔ بلکہ حساب میں تو میں پہاڑے بھی سنا لیتا تھا۔ سب کو یقین تھا کہ میں آسانی سے پہلی جماعت میں داخل ہو جاؤں گا۔ لیکن میرے ٹیسٹ کے بعد نہ جانے کیا ہوا کہ ابا نے مجھے اور صمد کو کمرے سے باہر بھیج دیا، پھر کمرے سے ان کے زور زور سے غصہ کرنے کی آوازیں آتی رہیں، اس میں صرف یہی لفظ “autistic” بار بار دہرایا جاتا رہا۔ ہم لوگ گھر واپس آ گئے تو کسی طرح مجھے یہ پتہ چل گیا کہ صرف صمد اس اسکول میں پڑھے گا۔
‘‘ بیٹا تمھیں ایک خاص، اچھے اسکول میں داخل کرائیں گے ‘‘ ۔ میں اس دن بہت رویا تھا۔ مجھے تو یہ دکھ تھا کہ صمد اس اچھے اسکول میں نہیں جا سکے گا۔ وائے نادانی، کاش میں اس دن ہی آئینہ دیکھ لیتا تو آئندہ آنے والے کئی صدموں سے جانبر ہونے میں اتنا وقت نہ لگتا۔ میں واقعی صمد کے اسکول میں ہی پڑھنا چاہتا تھا۔ اس دن ابا بہت دیر تک میرے بالوں میں ہاتھ پھیرتے رہے۔ میں نے آپ کو بتایا تھا ناں کہ مجھے اس میں کتنا مزہ آتا ہے۔ اس دن بھی بہت مزا آیا۔ دل چاہتا تھا بس وہ انگلیاں پھیرتے رہیں۔ یوں اس دن میں بہل گیا اور اس دن کیا اس قسم کے کئی دن زندگی میں ایسے آئے جب سر سہلا کر ابا نے مجھے بہلا لیا۔ نیا اسکول بہت خراب تھا۔ میری دوسرے بچوں سے بہت جنگیں ہوتیں۔ اس اسکول کے تو دروازے پر ہی وہ لفظ “Autistic” کندہ تھا۔
کچھ دن تو ایسے ہوتے ہیں کہ آپ کی یادداشت میں نقش ہو جاتے ہیں، کوشش کے باوجود و یادیں دفن ہونے سے انکاری رہتی ہیں۔ میری کتابِ زندگی تو ایسے ایام سے بھری ہوئی ہے۔ اسی اسکول میں میری ناصر سے دوستی ہو گئی۔ میں آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں میری کبھی کسی سے دوستی نہیں ہو پاتی۔ صمد کے تو بہت دوست ہیں۔ وہ ان کے ساتھ باہر کھیلتا بھی ہے۔ میں نے آج تک باہر جا کر نہیں کھیلا۔ جہاں ہم رہتے ہیں وہاں گھر کے پیچھے گلی میں بہت کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔ صمد بھی خوب کھیلتا ہے۔ میں نے اکثر کھڑکی سے دیکھا ہے۔ مگر میں نے آج تک باہر جا کر نہیں کھیلا، معلوم نہیں کیوں۔ ہاں میں اور صمد اکثر اپنے صحن میں کھیلتے ہیں۔ لیکن اس میں بھی اکثر صمد کا کھیل باہر شروع ہو جائے تو وہ بھاگ جاتا ہے۔ کتنی بری بات ہے ناں ؟ تو خیر ناصر سے میری دوستی ہو گئی۔ وہ اس طرح کہ ایک دن میری برابر والی کرسی پر جمیل بیٹھتا تھا، میں نے غلطی سے اس کی پنسل لے لی۔ اس کو تو اتنا برا لگا کہ اس نے وہی پنسل بس میرے بازو میں گھونپ دی۔ وہ تو ناصر ہمارے پیچھے بیٹھا تھا اس نے اچانک رونا شروع کر دیا، اس کے زور زور سے رونے سے ٹیچر کی توجہ ہماری طرف ہوئی تو ناصر میرے بازو کی طرف اشارہ کر کے اور زیادہ رونے لگا۔ ٹیچر نے اس دن جمیل کی خوب پٹائی کی۔ ساتھ ساتھ وہ اسے جنگلی بھی کہتے جاتے تھے۔ یہ جنگلی کیا ہوتا ہے ؟ بہت سے لوگ مجھے بھی اس نام سے بلاتے ہیں یوں آٹسٹک اور جنگلی ساتھ ساتھ میری بھی پہچان بن گئے۔ شاید یہ پیار کے نام ہیں، اسی لئے تو ارشد اور ناصر کی جگہ لوگ ہمیں اسی نام سے بلاتے ہیں۔ صرف امی ابا نے کبھی ان ناموں سے نہیں بلایا، وہ ہمیشہ ارشد یا میرا ارشد کہتے ہیں۔ ویسے میں ان کا بہت لاڈلا ہوں۔ نہ ہوتا تو وہ میرے لئے الگ سے آیا کیوں رکھتے۔ مجھے یاد ہے وہ دن جب امی رو رہی تھیں اور ابا سے کہتی تھیں ‘‘بس اب مجھ سے نہیں ہوتا، بہت تھک گئی ہوں۔ ‘‘ پھر ابا نے میرے لئے آیا رکھ دی۔ نہیں نہیں، امی اب بھی میرا بہت خیال کرتی ہیں، لیکن اب آیا میرا اور بھی زیادہ خیال رکھتی ہے۔
ہمارے اس نئے اسکول میں بہت سے لوگ آتے تھے۔ ہمیں سب کے سامنے نعت، گیت یا قومی ترانہ سنانا پڑتا۔ اس روز ٹیچر ہمیں پہلے سے سمجھا دیتے کہ آج بہت اچھا بچہ بننا ہے۔
بالکل جنگلی نہیں۔ میں اور ناصر تو بہت خوش ہوتے، اس دن ٹیچر ہماری ہر بات مان لیتے۔ کسی بچے کی پٹائی بھی نہیں ہوتی۔ اور یہ بہت خاص بات تھی کہ کسی بچے کی پٹائی نہ ہو۔ ناصر کو ویسے بھی اسکول میں کبھی سزا نہیں ملتی، وہ تو بس چپ ہی رہتا ہے۔ میری طرح ہر چیز کی ضد نہیں کرتا۔ ضد تو میں بھی بس تھوڑی دیر کے لئے ہی کرتا ہوں۔ اصل میں جب مجھے کوئی چیز بہت عجیب لگتی ہے تو میں اسے بہت قریب سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ بس اس کے پاس لھڑا رہتا ہوں، اس میں حرج بھی کیا ہے۔ میں لوگوں سے آنکھیں ملانا پسند نہیں کرتا۔ بس مجھے شرم آتی ہے۔ صرف ناصر سے بات کرنے میں مجھے کوئی مشکل نہیں ہوتی۔
اب میں دسویں جماعت میں آ گیا ہوں۔ صمد نے کچھ سال پہلے دسویں کا امتحان پاس کیا تھا، تو گھر میں بہت ہنگامہ ہوا تھا، سب کتنا خوش تھے۔ ہر وقت صمد کے کالج کی باتیں ہو رہی تھیں۔ صمد کو اس کالج میں جانا چاہئیے یا اس کالج میں، صمد انجینئیر بنے، نہیں صمد کو ڈاکٹر بننا چاہئیے۔ اس دن ہمارے پڑوسی بھی مبارکباد دینے آئے تھے۔ ان کا ایک سال کا بچہ بھی ساتھ تھا۔ اتنا خوبصورت بچہ تھا۔ مجھے تو بہت پیارا لگا۔ میں تو بس قریب جا کر اسے دیکھتا ہی رہا۔ میں نے چاہا اسے گود میں لے کر دیکھوں مگر اس کی امی کہنے لگیں ابھی دودھ پی کر سویا ہے، اٹھ جائے گا۔ پچھلی بار بھی انہوں نے بتایا تھا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں اور اس سے پچھلی بار کچھ اور۔ میں تو بس اس بچے کو تھوڑی دیر اپنی گود میں لینا چاہتا تھا، مگر شاید وہ بھی مجھ سے ڈرتی ہیں۔ مگر میں نے اس بچے کے چٹکی بھی نہیں کاٹی۔ امی اس وقت باورچی خانے میں چائے بنا رہی تھیں۔ جب میں کمرے سے نکلنے لگا تو وہ پڑوسن کہنے لگیں ‘‘جنگلی‘‘ ۔ پتہ نہیں کیوں، حالانکہ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا تھا۔
صمد اب میرے ساتھ کم سے کم وقت گزارتا تھا۔ مجھ سے اتنی ہی محبت کرتا تھا، یہ مجھے اچھی طرح پتہ تھا۔ لیکن جب سے کالج گیا تھا اس کی پڑھائی بہت بڑھ گئی تھی۔ اس لئے اب وہ اکثر ہمارے پڑوس میں رہنے والی حمیرا کے ساتھ پڑھنے لگا تھا۔ وہ اکثر اس کے ساتھ رات میں پڑھتا، امی ابو کے سو جانے کے بعد۔
‘‘ارشد، یہ بات امی ابو کو نہیں بتانا‘‘ صمد نے مجھ سے لجاجت سے کہا
‘‘کیوں ‘‘ میں کچھ الجھ سا گیا
‘‘پھر میں تمھارے ساتھ کبھی نہیں کھیلوں گا‘‘
اس کی یہ دھمکی ایسی تھی کہ میں نے اپنا منہ بند ہی رکھا۔ یہاں تک کہ جب میں نے صمد کو حمیرا کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے دیکھا، گو میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا لیکن میں نے امی ابو سے کچھ نہیں کہا، صمد بہت عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگا تھا، حمیرا کا سینہ ایسے ٹٹول رہا تھا جیسے کوئی گیند کو چھو کر دیکھ رہا تھا کہ کتنی سخت ہے، چوٹ تو نہیں آئے گی۔
پہلے تو ندا بھی کبھی کبھی اپنی امی کے ساتھ آ جاتی تھی، اب بالکل نہیں آتی۔ ندا مجھ سے صرف ایک سال ہی چھوٹی تھی۔ نہ جانے کیوں ندا آتی تو میرے دل میں عجیب سے جذبات جاگنے لگتے۔ جی چاہتا اسے ہی دیکھتا رہوں۔ وہ بھی دوسروں کے مقابلے میں مجھ سے تھوڑی دیر کھیلنے کے لئے تیار ہو جاتی۔ میں بالنگ کرتا تو وہ صمد کے پیچھے کھڑی ہو جاتی وکٹ کیپنگ کرنے۔ گیند لیتے ہوئے میری انگلیاں اس کی انگلیوں کو چھو جاتیں تو مجھے بہت اچھا محسوس ہوتا۔ جتنی دیر وہ ہمارے گھر رہتی، اس کی امی بھی وہیں برآمدے میں بیٹھی رہتیں۔ مجھے بالکل برا محسوس نہیں ہوتا تھا۔ مجھے پتہ تھا کہ اگر وہ اٹھیں تو ندا کو بھی جانا ہو گا۔ اب تو اس کو ہمارے گھر آئے تقریباً ایک سال ہو گیا۔ اس دن بھی ہم تینوں کرکٹ ہی کھیل رہے تھے۔ ندا مجھے گیند کرا رہی تھی اور صمد پیچھے وکٹ کیپنگ کر رہا تھا۔ میں رن بنانے کے لئے دوڑا تو ندا سے ٹکرا گیا۔ میرا ہاتھ غیر ارادی طور پر اس کے سینے سے ٹکرایا تو تو اس نے بہت غور سے مجھے دیکھا۔ مجھے بہت عجیب سا لگا۔ جیسے کوئی بہت نرم سی گیند پکڑ لی ہو۔ انگلی کی پور سے شعلہ سا اٹھا جو پورے جسم میں ایک عجیب آگ سی بھر گیا۔ خواہش کے باوجود میں اس گیند کو چھونے اپنا ہاتھ نہیں بڑھا سکا۔ ندا مجھے بہت عجیب طرح سے دیکھ رہی تھی، پھر جیسے مطمئن ہو کر گیند کرانے دوبارہ پلٹ گئی۔ میری اب یہی کوشش تھی کہ کسی طرح گیند ندا کے پاس جائے تو میں بھاگتا ہوا اس سے ٹکرا جاؤں۔ زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا، میں نے گیند کو ایسی ہٹ لگائی کہ وہ ندا سے تھوڑی دور جا گری، میں نے دوڑ لگائی تو ندا سے ٹکرا گیا۔ گیند چھو لینے کی خواہش اتنی شدید تھی کہ میں اپنی انگلیوں پر قابو نہ پا سکا۔ جستجو، احتیاط پر غالب آ گئی۔ میں بھول گیا کہ صمد اور ندا کی امی بھی کمرے میں موجود ہیں۔ میری انگلیاں اس گیند کی طرف ایسے بڑھ رہی تھیں جیسے کوئی بچہ پہلی بار انگلی سے بجلی کا پلگ چھو رہا ہو، دل میں یقین ہو کہ کرنٹ لگ جائے گا، لیکن لمس کی حسئیت، لمس سے ہی مکمل ہو سکتی تھی۔ ندا کی امی بجلی کی سی تیزی سے اٹھیں، اور ندا کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھسیٹتی باہر لے گئیں۔
‘‘جنگلی، سور‘‘ ندا کی امی کے صرف یہی دو الفاظ ہوا میں تیرتے میرے کانوں میں سوراخ کر گئے۔ اس دن نہ جانے صمد نے ابو سے کیا کہا کہ انہوں نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا۔ وہ تو اور مارتے اگر امی مجھے نہ بچا لیتیں:
‘‘اب اس کی وجہ سے کیا گھر میں بچیاں آنا بند کر دیں گی‘‘ ابو نے ہانپتے ہوئے کہا
‘‘ اس میں اس کا کیا قصور ہے، اسے کس نے بٹھا کر سمجھایا ہے، آپ کو سمجھانا چاہئیے تھا‘‘ امی نے میرا دفاع کیا۔
‘‘ پھر بھی صمد اس سے بڑا ہے، اس کی وجہ سے تو کبھی کوئی شکایت نہیں آئی‘‘
‘‘تو کیا مجھے خود شرمندگی نہیں ہے ؟‘‘ امی نہ جانے کیوں رو پڑیں۔ میں جو سر جھکائے خود رو رہا تھا، ایک دم سے ان سے لپٹ گیا۔ انہوں نے مجھے خود سے علیحدہ نہیں تھا، وہ میرے سر پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔
‘‘میں اسے کیسے سمجھاؤں ؟‘‘ ابو کے لہجے میں بے بسی تھی
‘‘خود بات نہیں کر سکتے تو صمد سے کہیں آہستہ آہستہ سمجھائے ‘‘ ۔
اس دن کے بعد سے ندا ہمارے گھر نہیں آئی۔ سامنے ہی تو گھر تھا۔ اس کے اسکول آنے یا جانے کا وقت ہوتا تو میں چپکے سے کھڑکی میں اسے دیکھتا رہتا۔ اس کی امی اس وقت تک دروازے پر کھڑی رہتیں جب تک اس کی وین نہ آ جاتی۔ آج بھی جمعرات تھی، مجھے پتہ ہے وہ صبح اسکول گئی تھی۔ میں نے خود اسے وین میں جاتے دیکھا تھا۔ مجھے پتہ تھا اب اس کے آنے کا وقت ہونے والا ہے۔ میں چھپ کر کھڑکی کے پردے کے پیچھے سے اسے دیکھنے لگا۔ مجھے پتہ ہے کہ امی میری اس تانک جھانک سے واقف تھیں۔ وہ آس پاس منڈلاتی رہتیں۔ شوق کیوں کہ بے ضرر تھا، شاید اس لئے انہوں نے ابھی تک دخل اندازی نہیں کی تھی۔ ندا کی وین آتی نظر آئی، لیکن اس کی امی ابھی تک دروازے پر نہیں آئی تھیں۔ میرے دل میں ایک تمنا سی اٹھی کہ ان کے آنے میں دیر ہو جائے۔ جیسے ہی ندا کی وین رکی، وہ اتر کر اندر جانے لگی، میں نے اسے تنہا دیکھا تو آواز دینے کی کوشش کی، لیکن آواز نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ میں نے کھڑکی کا پردہ ہٹا کر اسے ہاتھ ہلایا، اسی لمحے اس کی امی بھی دروازے پر آ گئیں۔ انہوں نے بھنویں اچکا کر میری جانب دیکھا تو ندا سے استفسار کیا۔
‘‘امی وہی جنگلی ہے، پاگل روز کھڑا رہتا ہے۔ سمجھتا ہے مجھے پتہ ہی نہیں ‘‘ ندا کی آوازسے میرا ہاتھ فضا میں ہی جم گیا، میں کھڑکی سے ہٹ آیا۔ جنگلی، پاگل، جنگلی پاگل یہ الفاظ میرے لئے نئے تو نہیں تھے، لیکن نہ جانے کیوں آج درد کچھ زیادہ محسوس ہوتا تھا۔ اب صمد بھی کالج سے آ گیا تھا۔ اس نے میرا لمبا چہرا دیکھا تو پوچھنے لگا ‘‘کرکٹ کھیلو گے ‘‘ ۔ مجھے لگا جیسے پوچھ رہا ہو ‘‘ جنگلی، پاگل تم کیا کرکٹ کھیلو گے ‘‘ ۔ ابو نے کھانے پر آواز دی تو نہ جانے کیوں آج پہلی بار انہوں نے بھی یہی کہا ‘‘جنگلی، پاگل آ کر کھانا کھالو۔ ‘‘ یہ آوازیں اتنی بڑھیں کہ میں نے کانوں میں انگلیاں گڑو لیں، مگر پھر بھی بند نہ ہوئیں۔ مجھے کچھ نہ سوجھا تو قریب ہی پڑی اون کی سلائی اٹھائی اور کان میں گھسا لی۔ درد کی شدت سے میری چیخ نکل گئی۔ میری چیخ سن کر امی، ابو، صمد تینوں ہی دوڑے آئے۔ میرے کان سے خون بہتا دیکھ کر، امی نے تو خود ہی رونا شروع کر دیا۔ صمد نے میرے ہاتھ سے اون کی سلائی لے لی، ابو نے مجھے لپٹا لیا، مجھے پتہ ہے وہ خود بھی بمشکل آنسو روک رہے تھے، درد سے میری چیخیں نکل رہی تھیں۔
‘‘یہ کیا کیا بیٹا، کیا ہو گیا تھا‘‘ مجھے ابو کے ہونٹوں سے لگا کہ شاید وہ یہی کہہ رہے تھے، لیکن مجھے ان کی آواز بہت مدھم سنائی دے رہی تھی۔ اب تمام ناگوار آوازیں آنا بند ہو گئی تھیں، میرے ہونٹوں پر اس تکلیف کے باوجود مسکراہٹ سی دوڑ گئی، میں نے اپنا گوشۂ عافیت ڈھونڈ لیا تھا، ابو میری مسکراہٹ سے نہ جانے کیا سمجھے، انہوں نے مجھے اور زیادہ سختی سے لپٹا لیا۔
اب میری زندگی نارمل ہو گئی تھی۔ میں نے جنگلی اور پاگل کو شکست دے دی تھی۔ اگر مخاطب کی بات سننی ہوتی تو میں اس کے ہونٹوں کی جنبش سے بات سمجھ لیتا۔ اگر نہ سننی ہو تو مخاطب کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ اب سننا میرے اختیار میں تھا۔ آپ نہیں سمجھ سکتے یہ میرے لئے کتنی بڑی تبدیلی تھی۔ اب میں نے ضد کر کے کالج کی کلاسیں لینا بھی شروع کر دیں۔ خدا بھلا کرے انٹر نیٹ کا کہ میں اکثر کورس کمپیوٹر پر ہی پڑھ لیتا۔ ان آوازوں نے کیا پیچھا چھوڑا کہ میرے ذہن نے دوسری آوازوں کو قبول کرنا شروع کر دیا۔ خواہ یہ آوازیں آنکھوں کے راستے ہی ذہن تک پہنچ رہی ہوں۔ امی، ابو اور صمد بھی میری اس تبدیلی سے بہت خوش تھے۔
میں نے پرائیوٹ بی اے کیا تو مجھے لگا امی، ابو اتنے ہی خوش ہوئے جتنا وہ صمد کے پاس ہونے پر خوش ہوئے تھے۔ اب صمد کی بات پکی ہو چکی تھی اور اگلے ماہ ہی اس کی شادی تھی۔ پھر شہناز بھابھی گھر آ گئیں۔ مجھے لگا کہ شروع میں وہ مجھ سے کچھ خوفزدہ تھیں مگر اب میں وہ پہلے والا ارشد نہیں تھا۔ مجھے بے ضرر اور محبت کا بھوکا پا کر، شہناز بھابھی نے بھی مجھے بھائیوں جیسا ہی پیار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب شہناز بھابی ننھے خالد کو لے کر گھر آئیں تو مجھے اس سے حسد محسوس ہوا۔ مگر جب شہناز بھابھی نے اسے میری گود میں ڈال دیا تو میرا دل محبت سے بھر گیا۔ یہ پہلا بچہ تھا جو کسی نے مجھے چھونے دیا تھا، مجھے اپنی گود میں لینے دیا تھا۔
میرا دل خالد کے لئے محبت سے بھر گیا اور میں ڈرے ڈرتے اس کے گال پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے، سب اسی طرح تو پیار کرتے ہیں بچوں کو۔
بھابی خالد کو ڈاکٹر کے مطب سے لے کر آئیں تو رو رہی تھیں۔ صمد کا منہ بھی لٹکا ہوا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر خالد کو گود میں لے لیا۔
‘‘کیا ہوا بیٹا‘‘ خیریت تو ہے ‘‘ امی نے گھبرا کر پوچھا
صمد نے کوئی جواب نہ دیا، بھابی اور رونے لگیں ۔
‘‘ارے بیٹا، کیا کہا ڈاکٹر نے ‘‘ ابو بھی گھبرا گئے
‘‘ابو ڈاکٹر نے خالد کو autisticبتایا ہے۔ ‘‘
میں جو صمد کے ہونٹ پڑھ رہا تھا، اچانک شدید خواہش ہوئی کہ کاش مجھ میں لبوں کی حرکت سے بات سمجھ میں آنے کی صلاحیت نہ ہوتی۔ بچپن سے اب تک کا تمام سفر میری نگاہوں کے سامنے گھوم گیا۔ میں خالد کو لے کر کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ سب باتوں میں ایسے مصروف تھے کہ کسی نے توجہ ہی نہ دی۔ ابھی میں اون کی سلائی خالد کے کان میں گھسانا چاہتا ہی تھا کہ صمد نے پیچھے سے میرے ہاتھ سے سلائی چھین لی۔
‘‘جنگلی، نجانے کیا کرنے جا رہا تھا‘‘ کاش میں نے اس کے لبوں کی جنبش نہ دیکھی ہوتی، ذات کا ایک سراب تو باقی رہتا۔ قدرت کے کھیل میں بے ایمانی ضرور کی تھی لیکن پھر بھی ہار گیا۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...