کسی آواز سے میری آنکھ کھلی تو میں ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا، وہ باہر برآمدے میں کھڑا تھا۔ یقیناً میری آنکھ اس کی موجودگی سے ہی کھلی تھی۔ پہلے تو میں اسے پہچان نہیں سکا۔ آنکھ کھلتے ہی ہر چیز ایک سی نظر آتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ ذہن کے کسی گوشے میں شناسائی کے خلئے بیدار ہوتے ہیں تو شکل کے ساتھ ذہن میں ایک نام ابھر آتا ہے۔ اس وقت بھی ایسا ہی ہوا۔ آنکھیں مل کر دیکھا تو جیبوں میں ہاتھ ڈالے برآمدے میں کھڑا ہے۔ بہت سارے سوال بیک وقت ہی ذہن میں ابھرے۔ یہ کیسے گھر کے اندر گھس آیا، بیچ رات میں کیوں آیا ہے اور سب سے اہم یہ کہ اب میں اس کو ٹالوں کیسے۔
’ یہ کیا طریقہ ہے جناب آپ گھر میں کیسے گھس آئے، مجھے یاد ہے سونے سے پہلے میں نے صدر دروازہ تو بند کر دیا تھا‘ میں نے ناگواری سے سوال کیا۔
’ صدر دروازہ بند کرنے سے گھر محفوظ ہو جاتا ہے کیا؟ ہلکے سے دباؤ سے پچھلا دروازہ کھل گیا اور میں اندر آ گیا‘ اس نے ایسی لاپروائی سے کہا جیسے یہ ایک فطری عمل ہے جو اس کو کرنا ہی چاہئے تھا۔
’ اب آ ہی گئے ہیں تو فرمائیے کیسے زحمت کی دن کی روشنی شاید آپ کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے ‘ میں ذرا طنز سے کہا۔ نیک بخت جو اس کی آواز سن کر لحاف میں کچھ اور نیچے دبک گئی تھی اس نے ہلکے سے میری ران پر چٹکی بھری گویا انتباہ کر رہی ہو۔
’ نہیں میاں دن کی روشنی مجھے تو نہیں کھلتی، لیکن آپ ضرور مجھے پہچان کر دروازہ بند کر لیتے یا آپ کو کوئی ضروری کام یاد آ جاتا۔ رات کی تاریکی میں آپ کی مدافعت پر بھی ذرا غنودگی سی طاری ہو جاتی ہے، پھر یہ کہ ملنا بھی ضروری تھا۔ آپ سے آخر ہمارے بہت دیرینہ تعلقات ہیں، بیٹھنے کو نہیں کہیں گی؟‘
’ اب آپ اندر آ ہی گئے ہیں، چور دروازے سے اور وہ بھی رات کی تاریکی میں تو ذرا بتائیے میں اس وقت آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں ؟‘اس کو بیٹھنے کی دعوت دینا ایسا ہی تھا گویا کوئی عرب اونٹ کو خیمے میں گردن گھسانے کی اجازت دے دے۔ وہ وہیں برآمدے میں کھڑا رہا اور میں کمرے کی کھڑکی کے اس پار۔
’ آپ کو بخوبی علم ہے کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں ‘
’ مجھے واقعی نہیں معلوم، سب خیریت تو ہے آپ کے گھر میں ‘ میں انجان بنا رہا۔
’ جی میرے گھر میں تو سب خیریت ہے، یوں کہئے آپ کی خیریت نیک مطلوب چاہتا ہوں ‘ لگتا تھا اشاروں کنائے میں یہ بھی پی ایچ ڈی کر کے آیا ہے۔
’ میں سمجھا نہیں ؟‘ میں بھی ڈھیٹ بنا رہا۔
میں اپنا قرضہ واپس لینے آیا ہوں ‘۔
اس کے منہ سے وہی نکلا جس کا مجھے ڈر تھا۔ بیچ رات میں بلا بلائے کوئی اپنے گھر کے برآمدے میں کھڑا ملتا تو بقول پطرس بخاری، میں بھی عدم تشدد کو خیر آباد کہہ دیتا۔ مگر یہاں دو مسائل ذرا گھمبیر تھے، ایک تو یہ جسمانی طور پر وہ مجھ سے بہت زیادہ طاقتور تھا، دوسرے میں اس کا مقروض تھا۔ لفظ مقروض شاید اس دلدل کو بیان نہ کر سکے جس میں گھرا تھا۔ میرا بال بال نہیں بلکہ یوں کہئیے میرا رواں رواں قرض میں جکڑا ہوا تھا۔ یہ کیا ہوا، کیوں ہوا، معاملہ اس حد تک کیسے پہنچا فی الوقت یہ بحث فضول ہے۔ میں نے لفظ فی الوقت بہت سوچ سمجھ کر اور ارادتاً استعمال کیا ہے۔ دیکھئیے جب کہیں آگ لگی ہو تو فوری مسئلہ آگ بجھانے کا ہے۔ آگ کیوں لگی یہ تحقیق بعد کی بات ہیں۔ اس تحقیق کی اہمیت سے انکار نہیں کہ بہتری ابتری سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ تو فوری مسلہ آگ پر قابو پانے کا ہے۔ یہ قرضہ بیوی کی شاہ خرچی کی وجہ سے ہوا ہے یا میری جمع تفریق میں نالائقی کی وجہ سے، فی الوقت یہ بات خارج از بحث ہے۔ دوسرے یہ کہ اس بحث سے میرے اور اس نیک بخت کے درمیان گھمسان کا رن پڑنے کا اندیشہ ہے۔ سب سے آسان حل یہ ہو گا کہ ہم ایک دوسرے کو الزام دیں، تم یہ نہ کرتیں تو آج یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا وغیرہ، وغیرہ۔ جب کہ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ ہم دونوں مل کر اس بری گھڑی کو ٹالیں۔
لیکن سیٹھ صاحب یہ تو بیچ رات ہے اور اس وقت تو میرے پاس پیسے بھی نہیں ہیں، ابھی فوراً کہاں سے دوں کچھ وقت کی مہلت اور دے دیں ‘۔
’کچھ روز کی مہلت، یہ جملہ تو سمجھئے پارلیمانی لہجے سے باہر ہو گیا ہے، اس نکتے پر مذاکرات اب نہیں ہوں گے۔ سیٹھ کی اپنی ایک الگ بھاشا تھی۔ اتنے سالوں اس سے معاملہ کرنے کے بعد میں یہ سمجھ گیا تھا کہ یہ نکتہ اب مزید کام نہیں آئے گا۔
’ اگر مہلت ممکن نہیں اور میرے پاس پیسے بھی نہیں تو پھر کیا ہو سکتا ہے ‘ عجیب سادیت پسند طبعیت تھی میری۔
’ ایک صورت ضرور ممکن ہے اور وہ ہے قرقی۔ وہ پھر اپنی سرمایہ دارانہ لہجے میں بولا۔ اس کی زبان سے وہ الفاظ نکل رہے تھے جن سے میرے کان یا تو نا آشنا تھے یا اس وقت ایسے بن گئے تھے جیسے کسی اسکیمو کان میں عبرانی انڈیلی جا رہی ہو۔
’قرقی؟‘ میرا لہجہ سوالیہ تھا۔
’ جی قرقی کوئی نیا قانون تو نہیں ہے۔ صدیوں سے ہوتا چلا آیا ہے۔ جب لوگ اپنی اوقات سے زیادہ خرچ کرنے لگتے ہیں تو اکثر ان کی جائیداد اور وراثت قرق ہو جاتی ہے ‘۔
’آپ کون ہوتے ہیں مجھے اوقات یاد دلانے والے ‘ میں نے ایک بے تیغ سپاہی کی طرح جوابی حملہ کیا۔
’ اگر آدمی خود اپنی اوقات نہ بھولے تو دوسروں کو اسے اوقات یاد دلانے کی ضرورت نہیں پڑتی‘۔ طاقت اور دولت نے اس کے لہجے میں خوداعتمادی، طنز، کنایہ، ٹھہراؤ سب ہی تو بھر دیا تھا۔ کیا کوئی طاقتور، امیر آدمی حلیم الطبع ہو سکتا ہے۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ شکر ہے رات کی تاریکی میں وہ انہیں دیکھنے سے قاصر تھا۔ یا صرف یہ کمزور کی زود رنجی ہوتی ہے کہ طاقت کا لہجہ کھل جاتا ہے۔ گفت و شنید یا مذاکرات تب ہی متوازن ہو سکتے ہیں جو برابری کی بنیاد پر ہوں۔ اگر ایک فریق بہت زیادہ طاقتور ہو یا دولت مند ہو تو توازن نہ بگڑنا باعثِ حیرت ہو گا۔
’کیا آپ مجھے بے گھر کر دیں گے ‘ مجھے لگا جیسے نیک بخت نے لحاف کے اندر کروٹ لی ہو۔
’ اس کے علاوہ کیا چارہ ہے۔ اگر اس وقت مجھے پیسوں کی اشد ضرورت نہ ہوتی تو میں یہ انتہائی قدم کبھی نہ اٹھاتا۔ آپ خود ہی سوچئیے سارے دروازے تو آپ نے خود ہی بند کر دئیے۔ اب میں خود اپنے مفادات کو تباہ کر لوں یا آپ کے مکان کی فروخت سے ان کا تحفظ کر سکوں، آپ کسی چھوٹی جگہ منتقل ہو جائیے ‘ اس نے ہمدردی سے کہا۔ مجھے پتہ تھا وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ برآمدے تک آنے والی چاندنی میں اس کے سامنے کے دو دانت اچانک لمبے ہو کر اس کے بند منہ سے باہر نکل آئے تھے۔ خون آشام نے تازہ شکار کی بو سونگھ لی تھی۔ مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کی اپنی جائداد ایک وسیع اراضی پر پھیلی ہے۔ میرے مکان پر اس کی نظر صرف اس کی توسیع پسندی کے پیٹ کا ایندھن ہے۔ شکاری کا پیٹ بھرا ہوا بھی ہو تو بھی وہ عادتاً ہراس ہرنی پر تیر چلانے سے باز نہیں آتا۔ لیکن اس سے کیا بحث کروں، قصور میرا اپنا ہے۔ اپنے آپ کو اس گرداب میں پھنسانے کا ذمہ دار میں خود ہی تو ہوں۔ عدالت کا رخ کروں تو کس برتے پر۔ میرا مقدمہ اتنا کمزور ہے کہ سمجھئے ہے ہی نہیں، جگ ہنسائی کا سبب بنوں گا۔ بچت کا صرف یہی طریقہ تھا کہ اس کی کسی نیک خصلت کو ابھاروں۔ اس کو جذباتی ہیجان اور پشیمانی میں مبتلا کروں شاید مہلت دے دے۔
’ آپ میرا گھر قرق کر کے کیا حاصل کریں گے۔ کوئی اور راستہ سوچتے ہیں ادائیگی کی قسطوں میں اضافہ کر دیجئیے۔ شرحِ سود بڑھا لیں، میں ہر صورت میں راضی ہوں، خدارا ہم کو بے گھر تو نہ کیجئے ‘۔ میری آواز میں بے چارگی تھی۔ مجھے لگا لحاف میں گھسی نیک بخت نے بھی ایک سسکی بھری ہے۔ شاید یہ سسکی اس نے بھی سن لی تھی۔ اس نے کچھ ہچکچاتے ہوئے ایک توقف کے بد جواب دیا۔
’ ایک صورت اور ہو سکتی ہے ‘
’ وہ کیا صورت ہے ؟‘ امید کی کرن پھوٹ پڑی۔ انسانیت اور شرافت پر پھر میرا اعتماد بحال ہونے لگا۔ وہ دوسرا حل بتانے سے ہچکچا رہا تھا۔
’بتائیں تو جناب وہ دوسرا حل کیا ہے ؟‘
’دوسری صورت یہ ہے کہ آپ اپنے بچے مجھے دیدیں، میں انہیں پال لوں گا۔ لکھاؤں گا، پڑھاؤں گا، میرے کام آئیں گے، میرے بھروسے کے آدمی بنیں گے ‘۔ میری امیدوں پر پانی پڑ گیا۔ جہاں معاملہ ہوس اور توسیع پسندی سے ہو وہاں شرافت اور انسانیت کی امید کرنا، شرافت اور انسانیت کی توہین ہے۔
’ نہیں ‘ اس سے پہلے کہ میں اسے کوئی جواب دیتا، نیک بخت نے لحاف پھینک کر دوسری پلنگ پر لیٹے دونوں بچوں کو سینے سے لپٹا لیا۔ ’ نہیں آپ یہ بچے ہم سے نہیں لے سکتے، یہی تو ہمارا مستقبل، یہی تو سہارا ہیں ‘۔
’ بھابی جان قرضہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ یہ بچے بڑے ہو کر بھی میرے مقروض رہیں گے۔ انہیں وہی کرنا ہو گا جو میں کہوں گا۔ ابھی سے میرے حوالے کر دیں تو میں قرض معاف کرنے کو تیار ہوں۔ ذرا دور اندیشی سے کام لیجئیے ‘ اس نے نہایت سلاست سے سمجھایا۔
’ بھابی جان ‘ کمبخت کیسی شرافت اور اپنائیت سے مخاطب تھا۔ میں بالکل نہیں چاہتا کہ یہ میری بیوی کو بھابی جان کہے۔ بہتر یہ ہے کہ اسے اس کے نام سے پکارے۔ اپنے خون آشام
لہجے میں، بڑے بڑے دانتوں، لمبی سی ناک اور ڈراؤنے چہرے کے ساتھ۔ کم از کم پتہ تو ہو گا کہ ہم کس سے معاملہ کر رہے ہیں، چھری کس سمت سے آ رہی ہے۔ ’بھابی جان‘ سے تو ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی مغل دربار میں کوئی فرنگی تاجر بادشاہ سلامت کو مخمل میں لپٹا خنجر پیش کر رہا ہے۔ شیطان اصلی شکل میں ہو تو پہچان کر اس سے بچا جا سکتا ہے۔ یہاں معاملہ ایسے موذی سے تھاجس کے چہرے پر معصومیت اور زبان میں شیرینی تھی۔
’نہیں میں اپنے بچے کسی قیمت پر نہیں دوں گی، مر جاؤں گی مگر نہیں دوں گی‘ نیک بخت کسی شیرنی کی طرح دونوں بچوں پر سایہ کئے تھی۔
’آپ کی اولاد ہے، آپ کو پورا حق ہے جو چاہے فیصلہ کریں۔ میں تو صرف زمینی حقائق کی نشاندہی کر رہا ہوں۔ ساری عمر مقروض رہنے والی اولاد میری غلام نہیں رہے گی اور کیا ہو گی۔ اور اگر میرا حساب اتنا کمزور نہیں ہے تو، یہ تو کیا آپ کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی انشاء اللہ میرے بچوں اور پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کو بٹھا کر کھلائیں گے۔ میں تو آپ کو گلو خلاصی کا راستہ دکھا رہا ہوں۔ یہ حل قبول نہیں ہے تو قرقی کا راستہ کھلا ہی ہے ‘۔
نیک بخت کچھ کہتی یا نہیں یہ راستہ خود مجھے بھی قبول نہیں تھا۔ ذہن بالکل ماؤف تھا۔ اب مجھے سمجھ آ رہا تھا لوگ خود کشی کیوں کر لیتے ہیں۔ لیکن میرے خود کشی کر لینے سے نیک بخت اور میرے نام لیوا بھی سکون نہ پاتے، یہ مسئلہ جوں کا توں رہتا، کوئی اور حل نکالنا پڑے گا۔
’ کوئی اور حل سوچئے، کوئی اور طریقہ ضرور ہو گا۔ آپ جو کہیں گے وہ میں کرنے کو تیار ہوں ‘ میں نے کہہ تو دیا مگر ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں تو کیا گھنٹا گھر پورے زور سے بج رہے تھے، گویا کسی ہونے والی فوتگی کا اعلان کر رہے ہوں۔
’جو میں کہوں گا وہ تو آپ کریں گے ہی لیکن اس سے میرا قرض تو ادا نہیں ہو گا۔ اب اس قرض کی ادائیگی کسی طرح تو آپ کریں گے یا نہیں ؟‘ اس کے لہجے میں تیزی تھی۔ ’یوں سمجھئیے کہ یہ مکان قرق کر کے بھی مجھے گھاٹے کا سودا ہی رہے گا‘۔
’ وہ کیسے، میں پوچھے بنا نہ رہ سکا۔
’ وہ ایسے کہ اب اس مکان میں بچا کیا ہے، کوئی اس کی کیا قیمت دے گا‘، میری آنکھوں میں بے یقینی دیکھی تو اس نے ہاتھ میں پکڑی چھڑی زور سے کھڑکی پر ماری تو اس کا پٹ نیچے آ گرا۔
’ دیکھا کس قدر سالخوردہ ہے، آپ میری بات پر یقین نہیں کر رہے تھے ‘
’ معاف کیجئے گا، کمبخت دیمک چاٹ گئی اس کو، بس میں بدلوانے ہی والا تھا کھڑکیاں ‘ میں نے شرمندگی سے کہا۔
’ اور بدلوانے کے پیسے کہاں سے آتے، مجھ سے ہی مزید ادھار مانگتے ‘
اس کا یقیناً مذہب مختلف ہے کہ گرے ہوئے کو اس وقت تک مارتے رہو جب تک کہ وہ دم نہ دے دے۔ وہ پورے پندرہ راؤنڈ کا قائل نہیں تھا، غالباً کہیں اور بھی جانا تھا وصولی کے لئے۔
آپ کہیں تو مزید نمونے پیش کروں۔ اس کی منحوس آواز کانوں میں گونجی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہ سکتا، اس نے چھڑی دیوار میں گھسا دی۔ چھڑی دیوار کے آر پار ہو گئی۔ میری آنکھیں تقریباً باہر نکل آئیں۔ میری دیواریں اتنی بوسیدہ ہو چکی ہیں، ابھی کچھ زیادہ دن تو نہیں ہوئے اس گھر کو بنے۔ معمار بھی بہت دیکھے بھالے تھے، بہت خون پسینے کا گارا لگا تھا، پھر یہ حال کیے ہو گیا۔ کیا موسم بہت نا موافق تھا، میں نے متوحش نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ فاتحانہ نظروں سے مجھے ہی دیکھ رہا تھاجیسے چیلنج کر رہا ہو، اب بھی یقین نہ آیا ہو تو اور مثالیں پیش کروں۔
’ یہ کیسے ہو سکتا ہے ‘ میں نے بے اعتباری سے پوچھا
’ مجھ سے کیا پوچھ رہے ہو۔ اپنے آپ سے پوچھو۔ یہ سب ایک دن میں تو نہیں ہو گیا۔ لگتا ہے بہت محنت کی ہے تم نے اسے بگاڑنے میں۔ یقین جانو تو مجھے بھی اس قدر بری حالت کی امید نہیں تھی، لگتا ہے میرا تو سارا پیسہ ڈوب گیا‘۔
’ نہیں، نہیں میں نے تو بہت خیال رکھا تھا‘ مجھے خود اپنی بات جھوٹ لگی۔
’ کیا خیال رکھا تھا بتاؤ، ذرا پیچھے مڑ کر دیکھو، سوچو، بتاؤ کیا خیال رکھا تھا؟‘
’ ہم پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے، کیا رکھا ہے اس میں۔ ہم آگے بھی نہیں دیکھتے۔ بھئی حال میں زندہ رہنے میں جو مزا ہے وہ کہیں اور ممکن نہیں ‘ میں نے اسے فخر سے سمجھایا۔
’ صحیح کہہ رہے ہو، پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہئیے لیکن اگلا پچھلا حساب تو رکھنا چاہئیے۔ کبھی مرمت بھی کی تھی اس کی۔ کہیں کا پلستر ادھڑ جائے تو اسے فوراً رفو کرنا پڑتا ہے، نیا پلستر لگانا پڑتا
ہے، ورنہ بارش رس رس کر ساری دیوار خراب کر دیتی ہے۔ تمھارے پاس کوئی کاپی، کوئی رجسٹر کوئی رسیدیں ہیں کہ تم نے کہاں کہاں درستگی کرائی تھی‘
’ نہیں میں نے حساب تو نہیں رکھا، زیادہ ضرورت پڑی ہی نہیں ‘ میں نے ذرا شرمندگی سے کہا۔
’ ضرورت نہیں پڑی، تو وقتاً فوقتاً جو تم مکان کے نام پر قرض لیتے رہے ہو مجھ سے اس کا کیا کیا؟‘ اس کے لہجے میں حیرت تھی۔ میں نے اور نیک بخت نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور شرمندگی سے ہماری آنکھیں ایک ساتھ جھک گئیں۔ میں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا اور دیتا بھی تو کیا۔ پیسے لئے تو ضرور تھے لیکن کبھی کہیں سیاحت کے لئے نکل گئے، کچھ نیک بخت کو زیور کا شوق بھی زیادہ ہے۔ پھر یہ کہ میں بھی ذرا نئی گاڑی اور ٹیپ ٹاپ کا خیال رکھتا ہوں۔ آدمی اپنی ظاہری حیثیت سے ہی پہچانا جاتا ہے، بہت خیال رکھنا پڑتا ہے اپنی ظاہری حالت کا۔ ہیرے کو ٹاٹ کے ٹکڑے میں لپیٹ کر رکھ دیجئے کوئی دوسری نظر نہیں ڈالے گا۔ کچھ پیسہ پرانے قرضے اتارنے میں خرچ ہو گیا۔ ہزار خرچے ہوتے ہیں کوئی ایک خرچ ہو تو بتاؤں۔ ہر ماہ کی پہلی تاریخ بجٹ کے وقت اخراجات منہ پھاڑے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اب میں اسے کیا سمجھاؤں، مجھ پر جھنجلاہٹ طاری ہونے لگی۔
’ تم نہیں سمجھو گے، تم کبھی ان حالات سے گذرے ہی نہیں، منہ میں چاندی کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے ہو گے ‘ میں نے اپنی بے بسی کا انتقام گویا لہجے کی کاٹ سے لیا۔
’ نہیں ایسا تو نہیں۔ ہمارا گھر بھی ایک بار دھوئیں سے بھر گیا تھا۔ مگر ہم گھر کو چھوڑ کر بھاگے نہیں، سب نے مل کر آگ بجھائی، پھر جہاں جہاں آگ سے نقصان ہوا تھا اس جگہ کو دوبارہ تعمیر کیا۔ بس ذرا خیال رکھا تھا کہ چولہا اور باورچی خانہ ذرا دور ایک کونے میں تعمیر کریں کہ اگر آگ لگے بھی تو پھیلے نہیں۔ مقامی آگ پر نسبتاً آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے، پھر یہ بھی کوشش کی کہ چولہے کو ہوا کے رخ سے ذرا دور رکھیں۔ بھئی چولہا تو ہر گھر میں ہوتا ہے اس سے تو مفر نہیں لیکن ہوا کے رخ سے اسے الگ کر دیا تو یہ آگ دوبارہ پھیلی نہیں ‘ وہ اپنی سوچ میں بہت دور نکل گیا تھا۔
’نقصان تو بہت ہوا ہو گا‘
’ ہاں نقصان تو بہت ہوا تھا۔ جانیں بھی بہت ضائع ہوئی تھیں۔ لیکن اس سے ہمیں سبق ملا۔ مکان کے نقشے کا دوبارہ جائزہ لیا، چہار دیواری دوبارہ مضبوط کی، دیواریں کھڑکیاں ٹھوک بجا کر دیکھیں۔ اب حالات یہ ہیں کہ اپنا گھر مضبوط کر لیا ہے۔ اب ہم دوسری سالخوردہ یا خطرے میں گھری عمارتیں خرید کر یا تو انہیں مسمار کر دیتے ہیں۔ اگر زمین اچھی جگہ اور مہنگی ہو تو اس پر نیا ڈھانچہ کھڑا کر لیتے ہیں۔ ورنہ پرانا فرنیچر، لکڑی وغیرہ بیچ کر اچھے پیسے بن جاتے ہیں۔ اکثر تو اس کباڑ سے ایسی ایسی نادر چیزیں ملتی ہیں کہ ساری محنت وصول ہو جائے ‘۔ وہ اپنے جذب کے عالم میں مجھے اتنا کچھ بتا گیا جو شاید ویسے نہ بتاتا، اسے شاید خود بھی اس بات کا احساس ہو گیا۔
’ اس وقت بات میری نہیں آپ کی ہو رہی ہے ‘اس نے لہجے میں تلخی کے باوجود طرزِ تخاطب شائستہ ہی رکھا۔
’ بھئی کچھ کوشش تو میں نے اپنے مکان کو اچھا رکھنے کی ضرور کی تھی لیکن یہاں شب خون اتنی بار پڑا کہ دیواریں ہمیشہ کے لئے شکستہ ہو گئیں۔ یہ جو تم نے اپنی چھڑی دیوار میں گھسائی تھی یہیں ایک بار نقب لگ چکی ہے۔ ایک بار نقب لگ جائے تو پھر دیوار میں وہ مضبوطی کہاں سے آتی؟‘
’ لیکن تمھارے محلے میں تو اتنی چوریاں نہیں ہوتیں۔ تمھارے پڑوسی بھی میرے مقروض ہیں، ان کے احوال سے میں واقف ہوں، کبھی نقب زنی کی اطلاع تو نہیں آئی‘
’ بس اب کیا بتاؤں ‘ میں شرمندگی سے اپنی بات مکمل نہ کر سکا۔
’ نہیں بتاؤ، بتاؤ، میرے لئے جاننا بہت ضروری ہے۔ جانکاری اور معلومات میرے کاروبار میں سمجھو کامیابی کی کلید ہیں ‘ اس نے میرا حوصلہ بڑھایا۔
’ بھئی اندر سے ہی نقب لگتی رہی۔ میرے کچھ سسرالی رشتہ دار ایسے نکلے کہ یہاں رہتے اور نقب لگاتے رہے۔ ہم نے تنگ آ کر کئی دفعہ چوکیدار بھی رکھا۔ قسمت کی خوبی دیکھئیے کہ وہ ان سب سے بڑے چور نکلے ‘ وہ میری داستان بہت دلچسپی سے سن رہا تھا۔
’ اب جو بھی ہے، قرضے کی واپسی کی طرف آؤ، مجھے پیسے کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔ میں دو حل تجویز کر چکا ہوں، لگتا ہے قرقی ہی ہو گی۔ یہ نقب کی کہانی میں کئی گھرانوں میں سن چکا ہوں، تم لوگوں کو سبق سیکھنا چاہئیے تھا۔ اب اس مکان کو دیکھ کر اپنی حماقت پر افسوس ہو رہا ہے۔ معلوم نہیں میرے آدمیوں نے اس جائداد کے عوض اتنی رقم کیسے دیدی۔ بھئی یہاں تو بنیادی ڈھانچے میں بھی مسائل ہیں ‘۔
’نہیں ڈھانچہ بہت مضبوط ہے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ‘ میں نے زرا ناگواری سے کہا۔
’ یہ چھت اتنی نیچی کیوں ہے، آجکل تو اونچی چھتوں کا فیشن ہے ‘
’ بھئی کیا بتاؤں اونچی چھتوں میں آواز گونجتی ہے۔ میری بیوی کے کچھ رشتہ دار یہاں رہتے ہیں وہ اپنی آواز سنننا نہیں چاہتے، تمھیں تو معلوم ہی ہے اونچی چھت سے بازگشت پیدا ہوتی ہے اور ہم اپنی بازگشت برداشت نہیں کر پاتے۔ ویسے آپ صحیح کہہ رہے ہیں، چھت اونچی ہی رکھوانی چاہئیے تھی۔ اب نیچی چھت ہونے کی وجہ سے سیدھا کھڑا ہونے میں دشواری ہوتی ہے، فوراً سر ٹکرا جاتا ہے۔
’ اور خرابیاں گنواؤں ڈھانچے کی؟‘
’ بھئی جیسا بھی ہے میرا گھر ہے۔ تمھیں کچھ پتہ ہے نہیں بلا وجہ خرابیاں گنوا رہے ہو۔ در اصل ابا میاں کو ان کے خالو نے پالا تھا۔ جب خالو کا انتقال ہوا تو ابا میاں کو وہ گھر مجبوراً چھوڑنا پڑا۔ بیوی بچوں کے ساتھ سر پر چھت تھی نہیں، جلدی میں جو نقشہ بن سکا بن گیا، اس پر فوراً تعمیر شروع ہو گئی۔ میری غلطی یہ ہے کہ میں اس کی مرمت اور مضبوطی پر توجہ نہیں دے سکا۔ بس بیرونی آرائش و رنگ و روغن سے کام چلا لیا۔ لگتا ہے اندر سے یہ کھوکھلا ہوتا رہا اور باہر سے دیکھنے والے اسے مضبوط سمجھتے رہے، قصور میرا اپنا ہے ‘۔
’ مجھے انگلیاں اٹھانے اور الزام تراشی کی نہ فرصت ہے نہ عادت۔ تم میاں بیوی یہ کام کرتے رہو۔ قصور کس کس کا ہے، یہ سب کیوں ہوا، اب عذر تراشنے بند کرو۔ مجھے اپنا قرضہ واپس چاہئے۔ اتنی لمبی بحث اور کہانی سے کیا فائدہ۔ میں نے حجت تمام کر لی، میرا ضمیر مطمئن ہے۔ میرا قرض واپس کر دو، تم اپنے گھر خوش میں اپنے گھر خوش۔ نہیں واپس کر سکتے تو اپنی نسل مجھے دے دو، یہ بھی نہیں کرنا چاہتے تو مکان قرق تو ہو گا اور ہو گا بھی آج ہی کی تاریخ میں۔ شکر ہے تم مجھے اس سے نہیں روک سکتے۔ قانون میرا ساتھ دے گا، یہ تو تمھیں بھی علم ہے۔ اگر تم نے قانون سے آنکھ بند کر لی ہے تو قانون تو تمھاری طرف سے اندھا نہیں ہو گیا ‘ اس نے گویا بات تمام کر دی۔
’ جب تم نے ٹھان ہی لی ہے تو پھر جو چاہو کرو، لیکن اب یہاں سے دفعان ہو‘ شکست خوردہ لہجہ جارحانہ ہونے میں دیر نہیں لگاتا۔ صبح سے پہلے تو یہ کچھ کر نہیں سکتا، صبح ہو گی عدالت کھلے گی، یہ قرق نامہ حاصل کرے گا پھر آئے گا۔ ان چھ آٹھ گھنٹوں میں کوئی ترکیب ذہن میں آ جائے گی۔ مجھے اپنی ہشیاری پر پورا بھروسہ تھا، یہ نوبت اس سے پہلے بھی کئی بار آ چکی تھی۔ ہر دفعہ کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آتا تھا۔
’ چلو اب نکلو یہاں سے ‘، میں نے اسے باہر نکال کر اندر سے چٹخنی لگا لی۔ حالات نے ثابت کیا کہ میں اپنے آپ کو جتنا عقلمند سمجھتا تھا، اتنا میں تھا نہیں۔ صبح سے شام ہو گئی کوئی صورت نہیں بنی۔ دوسرے ساہوکاروں نے بھی قرضہ دینے سے انکار کر دیا۔ کچھ میرے حالات سے واقف تھے اور کچھ بڑے سیٹھ سے خوفزدہ۔ میں مرتے قدموں گھر واپس لوٹا کہ پھر اس سے خوشامد کروں۔ کیا دیکھتا ہوں کہ جہاں میرا گھر تھا وہاں اب صرف ملبے کا ڈھیر ہے۔ ایک بلڈوزر بچے کچے گھر کو مسمار کر رہا ہے۔ وہ بد بخت اس ملبے پر اکڑوں بیٹھا ہے۔ ملبے پر ایک بورڈ لگا دیا ہے جس پر جلی حروف میں لکھا ہے ’نئی ملکیت‘۔
’یہ میرا گھر تھا، یہ تم نے کیا کیا؟‘ میرے منہ سے بین کی سی آواز نکلی
’گھر اس کا ہوتا ہے جو اس کی حفاظت کر سکے، ورنہ ملکیت بدل جاتی ہے۔ اب میں یہاں جو نیا مکان بناؤں گا تم چاہو تو بحیثیت کرائے دار اس میں رہ لینا‘ اس نے بہت رسانیتے مجھے سمجھایا، میرا بریف کیس ہاتھ سے لے کر رکھا اور مجھے اپنے پاس بٹھا لیا۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...