پروفیسر ضیاء المصطفیٰ ترک(ہری پور)
کس کو معلوم تھا
کس نے سوچا تھا
اتنے سرابوں سے ہَو کر گزرتے ہُوئے
ایک دریا بھی رستے میں
آ جائے گا
ایک دریا۔۔۔!
جو اپنے کناروں سے باہر بھی موجود ہی
یہ ایک نظم “دریا” کی سطریں ہیں جو اپنے معنوی و فنّی تناظر میں فکری و تخلیقی توانائی کی واضح نشاندہی کر رہی ہیں ۔کارِ شعرگوئی بظاہر نہایت سادہ عمل معلوم ہوتاہے کہ جو چاہا لِکھ ڈالا اور جو جی میں آیا تحریر کر دیا لیکن درحقیقت ، یہ اپنے بطون میں نہایت پیچیدگی اورپُراسراریت کا حامل ہے۔ ایک سادہ سا مصرعہ بھی بڑی دیدہ سوزی اور جانکنی کے مراحل کے بعد معرضِ اظہار میں آتا ہے، اور بالخصوص تازہ گو شعراء میں جو نیا پن اور جدّت نظر آتی ہے وہ تخلیقی ریاضت کے بغیر کسی صورت ممکن نہیں ۔ اپنی لفظیات سے لیکر فکری جہات تک ایک خیال نہ جانے کس کس پیرائے اور اُسلوب میں منتقل ہوتاہوا، اپنی مطلوبہ ہئیت اور شکل میں نمودار ہوتا ہے ۔ تخلیق کار ، اپنے انہماک میں ناموجود کو موجود میں بدلنے کی سعی میں نہ جانے کتنے ہفت خواں سر کرتا ہے ، تب کہیں جا کر کوئی بھرپور اور توانا فن پارہ وجود میں آتا ہے ، اور یہی دراصل معجزہء فن کی نمود کا عمل ہے
اُس کی تصویر سے مخاطب ہوں کیا خبر کوئی معجزہ ہو جائے !!
“احمد حسین مجاہد “کا مندرجہ بالا شعر اور نظم ، میرے خیال میں اُس تصورِشعر کی مکمل عکاسی کرتے ہیں جو اُس کے تخلیقی سفر کا محرّک ہے۔ اُس کے کلام میں وہ تمام عناصر موجود ہیں جن کے ایک دوسرے سے آمیز ہونے سے تازہ اور توانا شاعری وجود میں آتی ہے۔وہ اپنی فکری نہج اور اسلوب کی نوعیت کے اعتبار سے اُن صاحبِ طرز شعراء کے قبیلے سے مماثلت و مشابہت کا حامل ہے ، جو ساٹھ ستّر کی دہائی میں اور ازاں بعد منظرِ عام پر آئے اور شاعری میں تازہ کاری کو بارِ دیگر رواج دینے کا موجب ہوئے ۔ اُس کی شعری زبان(Diction) اور مخصوص تمثال کاری (Imagery)جہاں اُس کے بعض ہمعصر شعرا کے ساتھ اُس کی فکری و تخلیقی قُربت کی نشاندِہی کرتی ہے وہیں اُس کے شعری فضاء بجائے خود اُس کی ذاتی انفرادیت کا ثبوت بھی فراہم کرتی ہے۔
ٹی۔ایس۔ایلیٹ نے اپنے معروف مضمون ” روایت اور انفرادی صلاحیت (Tradition & Individual Talent) ” میں ایک جگہ نقدِ شعر کے منصب کو واضح کرتے ہوئے بڑی خوبصورت بات کی ،کہتا ہے :Honest criticism
and sensitive appreciation is directed, not upon the poet but upon the poetry.
سو میرے خیال میں ” احمد حسین مجاہد ” کی شاعری فکری و حوالے سے ایسے آشوب کا بیانیہ ہے جو انفرادی ہونے کے ساتھ ساتھ بتدریج اجتماعی حیثیت میں نموپذیر ہوتا نظر آتا ہے۔اُس کے شعری دائرے میں دَر آنیوالی مخاطبت اور گاہے گاہے کی بلند آہنگی کہیں اُس تعزیّتی سکوت کا اظہاریہ معلوم ہوتی ہے، جو اُس کے درون میں نہ جانے کب سے برپا ہے۔
مجھ کو میرے سب شہیدوں کے تقدّس کی قسم ایک طعنہ ہے مجھے شانوں پہ سَر رکھا ہُوا !!!
ہَم اور آپ تَو ہیں دشتِ نینوا میں ابھی کہ خیمہ زن ہے عدو ارضِ انبیا میں ابھی
شعر میں تمثال کاری اور منظر نگاری کاعمل ،جہاں شاعر کی فنی مہارت کی دلیل ہے وہیں اِس سے وہ فکری رُجحانات بھی اظہار پاتے ہیں جو تخلیقی سطح پر اُس کے تحرّک کے لیے اُس کے نہاں خانوں میں کہیں اُمید اور یاسیّت کے احساسات کی صورت میں موجود ہوتے ہیں ۔احمد حسین مجاہد کے امیجز میں زندگی ایک یقین کے ساتھ موجود ہے اور شاید یہی سبب ہے کہ اُس کے اشعار درونِ ذات ایک شادمانی اور فرحت و مسرّت کے اجراء کا موجِب بنتے ہیں ۔ اِس ضمن میں چند منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیے :
برہنہ پیڑ کی شاخوں پہ چاند اترا ہے مجھے یہ وقت دعا کا دکھائی دیتا ہے
جھٹک کر ڈالتی ہے جب وُہ بھیگے بال شانے پر تو نیچے دُور وادی میں کہیں دریا چمکتا ہی
میں کسی گم شدہ دریا پہ کھڑا ہوں احمد موج ورنہ مرے سر تک کوئی آئی ہوتی
مجھ سے لپٹا تو مری پشت سے احمد اُس نے میرے دشمن کی طرف ہاتھ بڑھایا ہُوا تھا
یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ احمد حسیں مجاہد کے ہاں بعض اوقات یہ تصویر کشی ، بتدریج تجرید کاری کے ارتفاع پر منتج ہونے لگتی ہے، جس کی مثالیں اگرچہ فی الوقت بہت زیادہ نہیں لیکن یہ امر میرے لیے تو بہرحال نہایت خوش کُن اورلائقِ مسرّت ہے ، کیونکہ میری دانست میں یہ وہ تخلیقی سطح ہے جو منتہائے سخن اور کمالِ شعر کہلائی جا سکتی ہے، بشرطیکہ اِس میں لا یعنیت (Absurdity) شامل نہ ہو پائے۔ ذرا اِن دو اشعار پر نظر ڈالئیے :
کھڑکی پہ جھکی ہُوئی تھیں بیلیں کمرے میں کوئی معاملہ تھا
مثلِ سراب کرتی ہے موہوم سے ظہور جلتے ہُوئے درخت کا سایہ ہے زندگی
بقول شخصے : “فن پارہ ، کوئی الہامی شئے نہیں ہوا کرتا جو کسی خاص لمحے اور مخصوص ہئیت میں از خود وجود میں آجائے، بلکہ فن پارے کو تو بہت سوچ سمجھ کر، بڑے سلیقے اور محنت سے تشکیل دیا جاتا ہیتاکہ وہ متیّعنہ مخصوص تائثر پیدا ہو جائے جو تخلیق کار نے پہلے سے طے کیا ہوا ہے اور یہ کام تلازمات (Correlatives) کی توضیع اور موزوں لفظیات (Diction) کے انتخاب سے ممکن ہو پاتا ہے ” ۔ اگر مذکورہ بالا نظریہء فکر کی روشنی میں ” احمد حسین مجاہد ” کی شاعری کو پڑھا جائے تو یہ تسلیم کیے بناء چارہ نہیں کہ وہ لفظ و خیال کی بُنت اور تلازمہ کاری سے ، شعر میں مطلوبہ تاثیر پیدا کرنے میں بجا طور پر کامیاب رہا ہے۔ اُس کی نظمیں اپنی کیفیت اور مزاج کے اعتبار سے ، اُس کی غزلوں سے قدرے مختلف نظر آتی ہیں اور شاید اِس کی وجہ کسی حد تک یہ بھی ہو سکتی ہے کہ نظم کہتے ہوئے ، شاید وہ نادانستہ طور پر داستان گوئی کی سمت منقلب ہو جاتا ہے لیکن یاد رہے کہ اِس امتیاز کے باوجود، میرے خیال میں اُس کی نظمیں اپنے آہنگ کے لحاظ سے اُس کے فطری لحن میں صورت پزیر ہوتی ہیں اور یہ امر بجائے خود لائقِ تحسین ہے۔ ملاحظہ فرمائیے :
بندھی ہے گردشِ افلاک میرے سانسوں سے یہاں میں اپنے کسی کام سے نہیں آیا
بہت بھلی تھی وُہ شاخوں سے پھوٹتی ہوئی لَو شجر کی اوٹ میں شاید کوئی ستارا تھا
تجھ حسن سے معاملہ کس آن میں ہُوا میں تَو جواں ہی میر کے دیوان میں ہُوا
جیسے میرا خواب ہے یہ زندگی جیسے اب بیدار ہو جاؤں گا میں
احمد حسین مجاہد جس سر زمین پر محوِ سفر ہے ، وہاں اِن دنوں جیتے جاگتے دریاؤں کے غیاب اور گم شدگی پر کوئی اچنبھا نہیں ہوتا۔اُسے ٹوٹتے ستاروں نے آنے والے شدید موسموں کی پیش آگاہی بخشی ہے اور ہجرت و ہجر کے ذائقے سے آشنا کیا ہے۔اپنی خاک ہوتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ وُہ موجۂ خوشبو کے تعاقب میں سرگرداں ہے اور اپنی سانسوں کے ساتھ گردشِ افلاک میں شراکت کا دعویدار بھی۔چار سُو بکھری آیات کی تلاوت کرتا ہُوا ،اپنی تنہائی کے ہمراہ اَن دیکھی ،انجانی سمتوں میں گامزن ہے ۔اُن سمتوں کی طرف جہاں ہر شجر کی اوٹ میں کوئی ستارا اپنی لَو کے جلو میں اُس کا منتظر ہے اور ہر کنجِ تاریک میں کوئی نقشِ کفِ پا ، مثلِ چراغ روشن ہے۔منہدم مکانوں پر نمازِ عصر ادا کرنے کے بعد ،اب اُس اب اُس کو طلب فقط آبِ حیات ہی کی نہیں بلکہ وُہ بعد ازاں اوک میں بھری آگ کا گھونٹ بھرنے کوبھی تیار ہے۔ غبار آلود راستوں ،ملبے تلے دبے پھولوں اور دلوں کو چیرتے بے نُور سناٹے سے گزر کر آنے والے کی سچائی لفظ لفظ آپ تک رسا ہونے کو ہے، خبر دار رہیے گا !!