پروفیسر مظفرؔ حنفی(دہلی)
کوئی صاحبِ فہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ مشاعروں نے نہ صرف اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج میں اور انھیں مقبولِ عام بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ ہمارے کردار و شخصیت کی تشکیل و تعمیر میں، ہماری تہذیب و ثقافت کو مالا مال کرنے میں اور ہماری تحریکِ آزادی کے رگ و ریشے تک پیوست کرنے میں مشاعروں کا بڑا ہاتھ ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ انیسوی صدی سے پیشتر ہندوستان میں طباعت کا رواج نہیں کے برابر تھا اور پریس عنقا تھے۔ ظاہر ہے کہ قلمی نسخے معدودے چند ہی تیار کیے جا سکتے تھے اور وہ نوابین اور امراء کے کتب خانوں کی زینت بن کر رہ جاتے تھے۔ چنانچہ کلامِ شاعر کو عوام تک پہنچانے کا وسیلہ، صرف اور صرف مشاعرے ہو سکتے تھے۔ کم و بیش ۱۸۵۷ء تک مشاعرے ہی وہ علمی و ادبی مراکز تھے جہاں سے صفائیِ زبان اور اصلاحِ ادب کی چھوٹی بڑی تحریکات کو فروغ ملا۔ ابتدا ہی سے ان مشاعروں میں آزادیِ فکر اور جرأتِ اظہار کی مثالیں تلاش کی جا سکتی ہیں جن میں کبھی میرؔ اس حکمرانِ وقت سے جس کے وظیفہ یاب تھے، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتے ہیں تو غالبؔ دربارِ شاہی میں ببانگِ دُہل کہتے ہیں کہ․․․․
ع’’اِک کھیل ہے اورنگِ سلیمان مرے نزدیک‘‘۔ شاعروں کی اپنی ذات بھی اس تنقید و احتساب سے بَری نہیں تھی۔ ہماشما کا ذکر نہیں، میرؔجیسے عظیم شاعر اور غالبؔ جیسے بلند مرتب فنکار پر بھی تنقید ہوئی اور برسرِ مشاعرہ ہوئی تبھی تو میرؔ نے جھلّاکر کہا تھا
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
اور غالب نے جواب دیا تھا:
نہ ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
اور شعراء کے بے شمار تذکروں سے لے کر ’’نقوش‘‘ (لاہور) کے ادبی معرکے نمبر اور یعقوب عامر کے تخلیقی مقالے تک مختلف ادوار کے سخن گویوں کے مابین ادبی نبرد آزمائیوں کی داستانیں دیکھ جایئے، یہ سارے ڈرامے مشاعرے کے اسٹیج پر کھیلے گئے۔ سوداؔ اور ضاحکؔ یا انشاءؔاور مصحفیؔ کے درمیان کچھ ناشائستہ باتیں بھی ہوئیں لیکن بیشتر معرکے جن میں آتشؔ و ناسخؔ ، دبیرؔ و انیسؔ، غالبؔ و ذوقؔ، چکبستؔ و شررؔ، میرؔ و داغؔ، یگانہؔ و ناطقؔ، شادؔ عارفی و ابراؔ حسنی جیسے ادبی سورما باہم نبرد آزما نظر آتے ہیں، زبان و بیان کی ایسی ایسی لطافتوں اور نزاکتوں سے پردے ہٹائے جاتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ یہ برسرِ مشاعرہ کیے جانے والے اعتراضات اور نکتہ چینیوں کا خوف بڑے بڑے اساتذہ کو بھی سہل پسندی اور آسان روی سے باز رکھتا تھا۔ ابھی چند دہائیوں پہلے کی ہی بات ہے کہ بیخودؔ دہلوی نے اپنے استاد بھائی نواب سائلؔ دہلوی کو کسی رعایت کے بغیر ایک مشاعرے میں ٹوکا تھا کہ ان کے مطلع میں لفظ ’سی‘ کا استعمال نا مناسب ہے اور یگانہؔ کی جرأتِ رندانہ کا بھی جواب نہیں جنھوں نے بھری بزمِ سخن میں ایک نامور استاد کو لقمہ دیا تھا کہ ’’حضّت!ایطا پر نگاہ کیجیے۔‘‘ استاد بالآخر استاد تھے۔ فوراً دوسرا مطلع کہہ ڈالا اور یگانہ چٹخ کر بولے۔ ’’ایطا پہلے نہیں تھا۔ اب صادر ہوا۔ اساتذہ کو خود اعتمادی کے ساتھ اپنے کلام کا دفاع کرنا چاہیے‘‘․․․․جب صورتِ حال یہ ہو تو شاعر اپنے کلام کو بار بار مانجھنے کے بعد ہی مشاعرے میں لب کشائی کی جرأت کرتے تھے اور مبتدی کسی مستند اور معتبر استاد کی اصلاح کے بغیر مشاعرے میں شرکت کا تصوّر تک نہیں کر سکتے تھے۔ آزادیِ ہند سے پیشتر تک عام طور پر طرحی مشاعروں کا رواج تھا۔ غالباً اس سلسلے کا قابلِ ذکر آخری طرحی مشاعرہ علامہ نیازؔ فتح پوری نے چار مختلف شہروں میں ۱۹۵۶ء کے آس پاس منعقد کیا تھا۔ طرح غالبؔ کا یہ مصرعہ تھاع
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آجائے ہے
اہلِ نظر بخوبی واقف ہیں کہ طرحی مصرعوں میں طبع آزمائی کرتے ہوئے اساتذہ اور مختلف درجے کے شاعروں کو اپنے ہم عصروں سے مسابقت اور بازی لے جانے کا خیال رہتا ہے اور یہ فکر بھی لاحق ہوتی ہے کہ معدودے چند قوافی میں درجنوں سخنور شعر کہنے والے ہیں۔ اس لیے سرسری قافیہ پیمائی کی جگہ جانکاہی اور جاں فشانی کے ساتھ کوئی نہایت نازک اور نادر خیال برجستگی اور لطافت کے ساتھ نظم کیا جائے جس میں کوئی عروضی اور فنی سقم نہ ہو تبھی مشاعرے میں کامیابی ممکن ہے۔
ان مشاعروں میں شامل ہونے والے ماہرینِ فن، محض خامیوں پر گرفت ہی نہیں کرتے تھے۔ ایسی مثالیں بھی گزری ہیں کہ کوئی نومشق شاعر مطلع پڑھتا ہے اور محفل میں موجود بڑے بڑے استاد اسے داد دیتے ہوئے اپنی غزلیں چاک کر دیتے ہیں!
میر تقی میرؔ کا مشہور شعر ہے
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
مشاعروں پر گفتگو کرتے ہوئے میں اس نکتے پر بہت زور دینا چاہتا ہوں کہ خواہ شاعر عوام کے لیے اور ان کے مفاد کو پیش نظر رکھ کر شاعری کرتا ہو، اسے پسند کرنے والے خاص لوگ ہوں گے۔ سوچیے کہ پوری آبادی میں کتنے فیصد لوگ اردو جانتے ہیں۔ ان اردو دانوں میں کتنے فیصد لوگوں کو شعرو ادب اور پھر ان باذوق لوگوں میں سے کتنوں میں وہ تنقیدی بصیرت اور نکتہ رسی پائی جاتی ہے جو اچھے اشعار کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے چنانچہ میرؔ کا شعر سرسری نہیں غور کرنے کی چیز ہے___ یہی سبب ہے کہ از ابتداء تا ۱۸۵۷ء مشاعرے مخصوص ادبی نشستوں کی سی حیثیت رکھتے تھے اور کبھی ایسے عوامی جلسوں نے جن میں ہزار ہا افراد نے شرکت کی ہو، مشاعرے کی صورت اختیار نہیں کی۔ کبھی کبھار کسی با ذوق بادشاہ نے دربار ہی میں شمعِ سخن روشن کر لی ہو تو اسے عوامی جلسے کا نام نہں دیا جا سکتا۔ عام طور پر ایسی نشستیں کبھی میر تقی میرؔ، خواجہ میر دردؔ، مفتی آزردہؔ، نواب شیفتہؔ یا ایسے ہی اربابِ ادب کی جانب سے منعقد کی جاتی تھیں جن میں چنیدہ شاعروں کے علاوہ تھوڑے سے اعلیٰ ذوق رکھنے والے سامعین کو ہی باریابی کا موقع ملتا تھا۔ ان مشاعروں میں تفریح کا پہلو کم اور زبان و کردار کی ترقی پر توجہ زیادہ ہوتی تھی۔
۱۸۵۷ء کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد قوم کی مرعوبیت اور شکست خوردگی کا احساس زائل کرنے کے لیے جہاں مختلف شعبہ ہائے حیات میں سرسید احمد خاں، ان کے رفقاء اور دیگر مصلحین نے مختلف اصلاحی تحریکات چلائیں، وہیں انجمن پنجاب جیسے ادارے بھی قائم کیے گئے اور مشاعرے کے وسیلے سے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اصلاحی پیغامات پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ یہیں سے مخصوص نشستوں نے بڑے عوامی مشاعروں کا روپ اختیار کیا اور یہ سلسلہ آزادیِ ہند تک جاری رہا۔ چوں کہ اس وقت تک ادبی قدروں کے آشنا بزرگ موجود تھے اس لیے مشاعروں میں فنی نزاکتوں اور ادبی لطافتوں پر پوری توجہ دی جاتی رہی۔ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اس وقت تک ایک معمولی اردو داں بھی آج کے مقابلے میں بہت زیادہ نکھرا ہوا ادبی شعور رکھتا تھا۔ گھروں میں بیگمات بامحاورہ ٹکسالی اردو بولتی تھیں اور یوپی کے دیہاتوں میں مڈل اسکول کے طلباء سے اشعار کی تقطیع کرائی جاتی تھی۔ ایسے میں بالغ نظر شعرا سے باذوق سامعین کی ذہنی ہم آہنگی برقرار رہنا فطری تھا۔
آزادی سے کچھ پیشتر ترقی پسند ادبی تحریک نے اردو کے شعر و ادب میں بیش بہا اضافے کیے۔ ان میں سے شاعری کا بڑا حصہ آزاد نظموں پر مشتمل تھا جو ظاہر ہے مشاعرے میں بہت کم پڑھی جاتی تھیں۔ لے دے کر واضح پیامیہ شاعری اسٹیج سے پیش کی جا سکتی تھی جس میں شاعرانہ خصوصیات سے زیادہ خطابت کے اوصاف پائے جاتے تھے۔ پھر بھی بیسویں صدی کی پانچویں دہائی تک ہمارے مشاعروں کا معیار بلند رہا۔ ان میں ترنم سے پڑھنے والے حفیظؔ ، جگرؔ، ساغرؔ، مجروحؔ اور ماہرؔالقادری جیسے شاعر بھی تھے اور تحت میں کلام سنانے والے یگانہؔ، فراقؔ، جوشؔ، سیمابؔ اور فیضؔ جیسے فن کار بھی۔ ترنم کو تو خیر عوام میں مقبول ہونا ہی تھا لیکن تحت میں پڑھنے والے شعراء کی مقبولیت بھی کسی طرح کم نہ تھی۔ کہا جا سکتا ہے کہ فراقؔ کا ڈرامائی انداز اور جوشؔ کی شخصی وجاہت اور لہجے کا کراراپن سامعین کے لیے کشش کا سبب ہوں گے لیکن اس دور کے مقبول شعراء میں حسرتؔ بھی شامل تھے جن کی ظاہری شخصیت معمولی اور آواز میں منمناہٹ تھی۔ عرض یہ کرنا ہے کہ اس دور تک اچھی اور سچی شاعری کسی دوسری بیساکھی کے بغیر عوام میں اس لیے پسند کی جاتی تھی کہ سننے والے فنی نزاکتوں سے واقف تھے اور اکثر فراق، شادؔ عارفی اور یگانہ جیسے تنک مزاج شاعروں کی ڈانٹ ڈپٹ بھی برداشت کر لیتے تھے۔
دنیا جانتی ہے کہ ہندوستان میں یہ وقت اردو زبان و ادب کے لیے ابتلا اور انتشار کا ہے۔ رفتہ رفتہ پچھلے اردو جاننے والے کم ہوتے گئے اور نئی نسلیں اردو سے بیگانہ ہوتی گئیں، خصوصاً یوپی اور بہار میں جو اردو کے مرکزی علاقے تھے اور اس کے نتیجے میں اردو بولنے والوں میں سخن شناسی اور نکتہ سنجی کے اوصاف گھٹتے گئے۔ جب اچھا شعر سمجھنے کی استعداد نہ ہو یا کم ہو تو سپاٹ اور یک رخے شعر اچھے معلوم ہونے لگتے ہیں۔ اس پر ترنم کا اضافہ ہو جائے تو کیا کہنے۔بعض لوگ ترنم کی جگہ اپنے ڈرامائی انداز سے کام چلانے لگے۔ مزید برآں مشاعرے میں مفاد پرستی عام ہوگئی۔
ذرا غور کیجیے مشاعرے میں اگر کوئی شعر ترنم سے بھی پڑھا جائے تب بھی زیادہ سے زیادہ تیس سکنڈ میں شعر مکمل ہوجاتا ہے۔ اس مختصر سے وقفے میں کسی گہرے اور تہہ دار شعر کو بے حد ذہین اور سخن فہم لوگ ہی سمجھ کر محظوظ ہو سکتے ہیں۔ کم ذوق اور بے عیار سامع تو محض آواز کی دلکشی اور پیش کش کے انداز کی داد ہی دے سکتا ہے۔ ضرورت زندگی کے ہر شعبے اور ہر دور میں ایجاد کی ماں رہی ہے۔ بیان کردہ حالات کی روشنی میں ملک کے گوشے گوشے میں ایسے افراد اور انجمنوں نے مشاعروں کے ٹھیکے لے لیے جو چندے یا ٹکٹ کے ذریعے عوام سے خوب پیسہ وصول کرتے ہیں اور ان کی سطحی پسند پر پورے اترنے والے شاعروں کو بڑے بڑے معاوضے دے کر مشاعروں میں مدعو کرتے ہیں۔ دوسری طرف ہلکے پھلکے انداز میں اکثر خارج ازبحر اور اغلاط سے پُر شعروں میں ہم عصر ادبی شعراء کی جگالی کرنے والے پیشہ ور شاعروں اور شاعرات کی پوری کھیپ منظر عام پر آگئی جو آواز، اداکار ی اور معمولی تک بندی کے بل پر مشاعروں میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑنے لگی اور سامعین بھی مشاعروں کو ویسی دلچسپی کے ساتھ سننے اور دیکھنے لگے جیسے کہ قوالی یا مجرے سے لطف اندوز ہوتے ہیں! ان میں کچھ لوگ دوسروں سے لکھواتے ہیں تو کچھ ہندی میں لکھ کر لاتے ہیں۔
ستم بالائے ستم یہ کہ ایسے پیشہ ور گلوکاروں اور اداکاروں کی ٹولیوں نے اپنے اپنے ناظم اور نقیب بھی طے کر لیے جو مشاعروں میں اپنے جرگے کے شاعر یا شاعرہ کو بڑھانے کا ہر نسخہ استعمال کرتے ہیں اور دوسرے گروہ کے سخن ور کو کبھی فحش لطیفوں کی باڑھ پر رکھ لیتے ہیں تو کبھی اسی موضوع پر بہت سے شعر سنا کر شاعر کی مقبولیت کو کم کردیتے ہیں۔ شاعرات اسٹیج پر جتنی سطحیت کا مظاہرہ کرتی ہیں، سنجیدہ طبیعتیں اسے دیکھ کر بدحظ ہوتی ہیں لیکن بازاری مذاق کے ناظرین کے لیے یہ سب کچھ باعثِ لطف ہوتا ہے۔ پھر مزاح کے نام پر جس بد مذاقی اور بھونڈے پن کا مشاعروں میں مظاہرہ کیا جاتا ہے، اہلِ نظر اس سے بخوبی واقف ہیں۔ شاعر اکثر لمبی چوڑی تقریر کے ذریعے معمولی شعر کو اہم ثابت کرتا ہے اور داد کی بھیک مانگتا ہے۔ شعر اوریجنل ہے یاسرقے کا، یہ دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
ماضی بعید و قریب میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ مشاعرے اور ادب کے شاعر الگ الگ رہے ہوں۔ جگرؔ، فراقؔ، مجازؔ، مجروحؔ، ساغرؔ اور جوشؔ کبھی بیک وقت مشاعروں میں بھی مشغول تھے اور ناقدینِ ادب کی نگاہوں میں بھی محترم تھے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ مشاعرے کے بیشتر شعرا و شاعرات کے ناموں سے ہمارے نقاد واقفیت تک نہیں، نہ ان کا کلام کسی رسالے یا انتخاب میں جگہ پاتا ہے اور مشاعروں میں بھی یہی صورت حال ہے کہ وہاں کبھی ایک آدھ ادبی شاعر غلطی سے مدعو کرلیا جاتا ہے تو پہلے تو گرگِ باراں دیدہ نقیبِ مشاعرہ ہی اسے عجیب و غریب انداز میں کسی بے حد مترنم شاعر، کسی خوبرو شاعرہ یا کسی قہقہہ بردوش مزاحیہ شاعر کے بعد داد سخن دے کر دانستہ ہوٹ کراتا ہے۔ اور یہ سب نہ بھی ہو تو عوام کی بے ذوقی خود ادبی شاعر سے بے اعتناعی برتتی ہے۔
چند برس پیشتر بھوپال میں اردو اکادمی مدھیہ پردیش نے ایک ادبی نشست رکھی تھی۔ کچھ لوگ بضد تھے کہ شہریار اپنی وہ غزل سنائیں جو ایک فلم میں استعمال ہوئی تھی۔ شہر یار کو تکلف تھا لیکن میری سفارش پر انھوں نے وہ غزل سنائی اور جم کر ہوٹ ہوئے۔ ظاہر ہے ان کے پاس نہ گلوکار کی آواز تھی اور نہ سازندے موجود تھے۔ اسی طرح جامعہ کے ایک جلسے میں فیضؔ صاحب نے بتایا کہ پاکستان میں اکثر لوگ ان سے فرمائش کرتے ہیں کہ مہدی حسن کی غزلیں سنائیں۔ فیض صاحب کے ذکر پر ایک واقعہ یاد آیا جسے ابھی کچھ دن پہلے مشاعروں کے مقبول ناظم ملک زادہ منظور احمد نے مجھے بطور لطیفہ سنایا تھا۔ وہ فیض مرحوم کے آخری دن تھے اور موصوف کسی ایسے مشاعرے میں شریک تھے جس کی نظامت ملک زادہ موصوف کررہے تھے۔ بقول ان کے فیض صاحب کا حوالہ دے کر انھوں نے مشاعرے کے سامعین کو رات کے تین بجے تک روکے رکھا تھا لیکن ابھی فیضؔ نے اپنی نظم شروع ہی کی تھی کہ پنڈال سننے والوں سے خالی ہوگیا۔ لطیفہ سن کر میں نے عرض کیا تھا کہ اس پر تو ہنسنے کی جگہ ماتم کرنا چاہیے۔
اس سب کے باوجود میں نہ مشاعرے کی اہمیت اور افادیت کا یکسر منکر ہوں نہ اس کے مستقبل سے مایوس۔ اس موثر اور بے حد طاقتور ادارے کی ابتری کا سبب منتظمین کی خود غرضی اور پیشہ وروں کی سطحیت ہے۔ اگر اچھا ادبی ذوق رکھنے والی انجمنیں اور عوام کے نبض شناس ادبی شاعر مل کر کوشش کریں تو بہت جلد اصلاح ممکن ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ ادھر دس پندرہ برسوں سے اردو کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ اس لیے توقع ہے کہ سامعین کا ادبی مذاق بھی رفتہ رفتہ بلند ہوگا اور مشاعرہ اپنے بنیادی منصب کو پھرحاصل کر لے گا۔ ضرورت ہے کہ مشاعروں میں عوامی مقبولیت رکھنے والے صرف انھی شعرا کو بلایا جائے جو واقعی اچھی شاعری بھی کرتے ہیں۔ غیرموزوں یا مہمل شعر کہنے والے متشاعروں، نقالوں اور سرقہ بازوں، دوسروں سے لکھواکر پڑھنے والوں اور اردو سے نابلدافراد کو خواہ وہ گلے بازی کے ماہر ہوں یا اداکاری میں کمال رکھتے ہوں، مشاعروں سے دور رکھا جائے۔ ان کے بجائے قدآور ادبی شخصیت رکھنے والے ہم عصر شاعروں کو بھی مدعو کیا جائے نیز نظامت ایسے ذہین افراد کے سپرد کی جائے جو لفّاظی، چرب زبانی یا لطیفہ گوئی کے سہارے ایسا سماں نہ باندھے کہ عوام شاعروں کو سننے کی جگہ اس کی لطیفہ بازی سننا زیادہ پسند کریں۔ میرا خیال ہے کہ ہر مشاعرے کا ناظم اس علاقے سے ہی منتخب کیا جانا چاہیے جہاں مشاعرہ منعقد ہو۔ حالیؔ کا یہ شعر سامعین اور شعرائے کرام دونوں پر آج بھی صادق آتا ہے
خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعۂ تر کی صورت