احتشام حسین
عام انسانی تاریخ کی طرح تاریخ ادب میں بھی کچھ شخصیتیں اپنے حق سے زیادہ بلند جگہ پاجاتی ہیں اور کچھ ایسے اندھیرے میں پڑجاتی ہیں جہاں ان کے صحیح خدوخال نظر نہیں آتے۔ لیکن غور کیا جائے تو اکثر و بیشتر اس کے ڈھکے چھپے اسباب ہوتے ہیں۔ بعد کے مورخ اور ناقد انہیں نظر انداز نہیں کر سکتے۔ یہی صورتحال شاد عارفی کے ساتھ پیش آئی۔ انہوں نے نظمیں اور گزلیں لکھیں، طنزیہ شاعری کی، مضامین اور خطوط لکھے لیکن انہیں وہ شہرت اور مقبولیت حاصل نہ ہو سکی جو ان سے کم صلاحیت رکھنے والے ہم عصر شاعروں اور ادیبوں کو حاصل ہوئی۔ اس میں کچھ تو رام پور کی فضا کا ہاتھ تھا، کچھ خود ان کے افتاد مزاج کا، کچھ اس رنگ سخن کی کساد بازاری کا جس کے وہ تاجرتھے۔ خوش قسمتی سے انہیں مظفر حنفی جیسے شاگرد نصیب ہوئے ہیں جو استاد پرستی کی ھد تک وہ سارا رطب و یابس جمع کررہے ہیں جو شاد عارفی سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ نثر و غزلدستہ میں ان کے ادبی مضامین، تعارف، پیش لفظ، چند مطالعے، منظومات اور غزلیں یکجا کر دی گئی ہیں اور ایک تھا شاعر میں شاد عارفی کی شخصیت اور شاعری پر مضامین اور کود ان کے خطوط شامل ہیں۔ ان دونوں کتابوں کو جس سلیقہ اور لگن سے ترتیب دیا گیا ہے اس کے بعد کسی کو یہ کہنے کا حق باقی نہیں رہ جاتا کہ شاد عارفی کی طرف سے بے توجہی برتی گئی ہے۔ شاد عارفی ایک طنز نگار غزل گو شاعر تھے اور گو ان کی گزلوں میں بھی فلسفیانہ اور تہہ دار اشعار کی کمی نہیں لیکن اصل جوہر طنزیہ کلام میں کھلتا ہے۔ طنز نگاری کے امکانات کچھ محدود ہوتے ہیں تا ہم ان کے اندرونی سماجی مقصد کی وجہ سے ان کا دائرہ کبھی کبھی پھیل بھی سکتا ہے۔ شاد عارفی نے اس حیثیت سے اپنی شاعری کا معیار بلند رکھا تا ہم اس کی اپیل آفاقی اور ہمہ گیر نہ ہو سکی۔ ان کے اس رنگ نے ان کی شاعری کی دوسری خصوصیات کو پس پردہ کردیا ورنہ انہیں اس سے زیادہ ہردلعزیزی حاسل ہوتی۔
مظفر حنفی کی یہ کوشش قابل تحسین ہے کہ انہوں نے ان کی تحریروں کی فراہمی میں کدوکاوش کی ہے اور بہت سے ادیبوں اور نقادوں کے افکار اکٹھا کر دیے ہیں لیکن انہیں بھی اندازہ ہوگا کہ زمانے کے مذاق میں خاصی تبدیلی آچکی ہے اور یہ امید نہیں کی جا سکتی ہے کہ شاد عارفی کے رنگ اور طرز اظہار کو فروغ ھاصل ہو سکے گا۔ تاہم ان کی یہ کاوش رائگاں نہیں جائے گی اور اردو ادب کا مورخ ان کی دستاویزی تالیفات سے فائدہ اٹھائے گا۔ مجھے ذاتی طور پر شاد عارفی کی شاعری نے متاثر کیا ہے، وہ جو تھے وہی ان کی شاعری ہے۔ زندگی نے انہیں جو کچھ دیا ہے وہ ان کے کلام میں کبھی غم و غصہ بن کر، کبھی طنز اور زہر خند بن کر، کبھی دکھے دل کی پکار بن کر محفوظ ہوگیا۔