محمد خالد انجم عثمانی(دہلی)
انیسویں صدی ہندوستان میں تاریخی ،سیاسی ، تہذیبی و سماجی تبدیلیوں سے عبارت ہے۔اس صدی میں مغل حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور باقاعدہ انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی۔اس میں مشرقی تہذیب و ثقافت کو صدمہ پہنچا اور مغربی علوم کی آمد کے ساتھ فکر و خیال کی تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ اس عہد کی سیاسی صورت حال کی ابتری کی تصویرکشی یوں بھی کی گئی ہے
سلطنت شاہ عالم از دہلی تا پالم
لیکن انیسویں صدی کے ہندوستان میں صرف تاریخی سماجی و معاشی تبدیلیاں ہی نہیں ہوئیں بلکہ افکار و خیالات کے دھارے بھی تبدیل ہوئے۔ جدید علوم کی آمد نے ہندوستانی عوام کے لیے نیا راستہ ہموار کیا۔اورتاریخ شاہدہے کہ ہرتخریب کے پیچھے تعمیر کا عمل پوشیدہ ہوتاہے۔جس کی مثال بذات خود دہلی بھی ہے جوکئی مرتبہ بربادہوکرپھرسے آباد ہوئی۔بغداد کی بھی تاریخ ایسا ہی کہ جب ہلاکو خاں نے اس پر قبضہ کیا پھر اس نے وہاں کے عوام کو قتل کر کے سروں کے پہاڑ بنا دیئے اورہل چلاکر پھرسے آبادکیااورعلم ودانش کامرکزبنادیا۔چنانچہ ہندوستان میں بھی تین سوسال پرانی مغلیہ تہذیب وتمدن پارہ پارہ ہوگیا۔ مگرجدید علوم وفنون نے لوگوں کے لیے غوروفکر کی نئی راہیں کھول دیں۔زندگی کے اقدار بدلیں توادب پربھی اس کے اثرات رونماہوئے۔چوں کہ دہلی کوہمیشہ مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔یہ حملہ آوروں کی آماجگاہ بھی رہی ہے۔چنانچہ انیسویں صدی میں ہونے والی تبدیلیوں اورافکار وخیالات کی آمدنے دلی کی زبان کونئے موضوعات واسالیب دئیے۔اس نے دہلی کی سیاسی،تہذیبی اورتمدنی حیثیت کوہی متاثر نہیں کیا بلکہ علمی،ادبی اعتبارسے بھی ان تغیرات کے اثرات رونماہوئے۔انیسویں صدی کے تقریبا نصف تک گرچہ فارسی ہی سرکاری زبان تھی لیکن عوام میں مقبولیت ومحبوبیت اردوکوہی حاصل تھی۔یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ فورٹ ولیم کالج تک ادبی فن پارے حکمراں طبقوں کے زیر اثر لکھے جاتے تھے۔لیکن اس بدلے ہوئے ماحول کوعملی جامہ پہنانے کی شروعات سب سے پہلے ۱۸۰۰ء میں فورٹ ولیم کالج سے ہوئی۔جس کا مقصد ہندوستان میں انگریزوں کاایساگروہ قائم کرنا تھاجوہندوستانی زبان سے پوری طرح واقف ہو تا کہ ان کویہاں حکومت کرنے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنی پڑے۔اس کے لیے سہل زبان کی ضرورت تھی۔ لہٰذا کالج کے ادیبوں کویہ بات باورکرادی گئی کہ ترجمے میں عام بول چال کی زبان استعمال کریں،محاورے واستعارے بے جابے محل نہ ہوں۔اس اصول کوسب سے پہلے میرامن نے’’باغ وبہار‘‘ میں برتا۔جس کے چھوٹے چھوٹے جملوں سے وہ سب باتیں اداکرالیے گئے ہیں جوعام قاری کوبھی مسحور کرلینے کی قوت رکھتے ہیں۔اورمیرامن گفتگوچین کی کریں یاروم کی مگر پورامعاشرہ دہلی کا معلوم ہوتا ہے۔وہ یوسف سوداگر کومدعوکرتے وقت لکھتے ہیں:
’’تمام حویلی میں فرش کیا مکلف لایق ہرمکان کے جابجا بچھاہے اورمسندیں لگی ہیں،پان دان،گلاب پاش،عطر دان،پیک دان،نرگس دان،قرینے سے دھرے ہیں۔طاقوں میں رنگترے،کنوے،نارنگیاں اورگلاب دان رنگ برنگ کے چنے ہیں،ایک طرف رنگ آمیز ابرک کی مٹیوں میں چراغاں کی بہارہے۔ ایک طرف جھاراورسروکنول کے روشن ہیں۔۔۔سب آدمی اپنے عہدے پرمستعد ہیں‘‘۔ ۱
’’باغ وبہار‘‘میں میرامن نے جوتہذیبی وثقافتی سرگرمیاں پیش کی ہیں وہ سب دہلی کے رسم ورواج کی غمازہیں۔ان کا اسلوب اجتہادی کوشش کا نتیجہ ہے۔ بلکہ جس طرح میرتقی میر کی چھوٹی چھوٹی بحریں ان کی شاعری کوانفرادیت دیتی ہیں تومیرامن کے چھوٹے وچست درست جملے اورمکالماتی اندازبیان ماجرے کوپرلطف بنادیتے ہیں۔دراصل ان کے اسلوب کی سادگی ودلکشی ان کی نثری خوبیوں کودوبالاکردیتاہے۔ چوں کہ ادبی نثرانسانی جذبات واحساسات،تجربات ومشاہدات کا ترسیلی عمل ہے اس لیے ’’باغ وبہار‘‘ میں اس عہدکا سماج،تہذیب وثقافت،معمولات زندگی سب کچھ پایاجاتاہے۔
گرچہ فورٹ ولیم کالج نے کلکتہ میں سادہ وعام فہم اسلوب کی بنیاد ڈالی تھی۔لیکن دہلی میں بھی کئی طرح کے اسالیب آچکے تھے۔مثلا خطوط نگاری کا اسلوب،صحافت کا اسلوب، ادبی نثر کے اسالیب اورعلمی نثر کے اسالیب وغیرہ۔خطوط نگاری کا انوکھا اسلوب غالبؔ کے یہاں دکھائی دیتا ہے۔غالبؔ کے خطوط کی انفرادیت یہ ہے کہ ان کی تحریر دل سے نکلی ہوئی اورالفاظ کے پیکرمیں ڈھلی ہوئی زبان معلوم ہوتی ہے۔اورایسا محسوس ہوتا ہے کہ جذبات الفاظ میں ڈھل گئے ہوں۔روایت سے بغاوت غالبؔ کا محبوب مشغلہ تھا۔اوراس کوغالبؔ نے اپنے ہرتخلیق کے لیے استعمال کیا۔وہ اپنے ہرفن پارے کے لیے منفرد اسلوب اپنانا چاہتے تھے۔اسی لیے غالبؔ نے خطوط نویسی کے لیے القاب و آداب سے مبرا گفتگو میں آنے والی زبان کی بنیاد ڈالی مثلا مارہرے کی خانقاہ کے بزرگ سیدصاحب عالم نے غالب کوایک خط لکھا۔ان کی تحریر نہایت شکستہ تھی۔ اسے پڑھنا جوئے شیرلانے کے
مترادف تھا۔غالب نے انہیں جواب دیا:
’’پیرومرشد، خط ملا،چوماچاٹا، آنکھوں سے لگایا۔آنکھیں پھوٹیں جوایک حرف بھی پڑھا ہو۔تعویذ بناکر تکیہ میں رکھ لیا۔ نجات کا طالب۔غالبؔ ۲
اوراپنے دوست امراؤ سنگھ جوہرگوپال تفتہ کے عزیز دوست تھے ان کی دوسری بیوی کے انتقال کا حال تفتہ نے مرزاصاحب کوبھی لکھا۔توانہوں نے جواب دیا:
’’امراؤ سنگھ کے حال پراس کے واسطے مجھ کورحم اوراپنے واسطے رشک آتاہے۔اللہ اللہ! ایک وہ ہیں کہ دوباران کی بیڑیاں کٹ چکی ہیں اورایک ہم ہیں کہ پچاس برس سے اوپر پھانسی کا پھندا گلے میں پڑاہے۔ نہ پھندا ہی ٹوٹتاہے نہ دم ہی نکلتاہے ‘‘۔ ۳
اس طرح غالبؔ نے مکتوب نگاری کوتصنع سے نکال کراس کا رشتہ زندگی کی سچائیوں سے جوڑدیا۔اورمقفی،مسجع روش کوچھوڑکرسادگی اوربے تکلفی پیداکی۔ لیکن غالبؔ اردوسے زیادہ فارسی کو عزیز رکھتے تھے اوراپنے فارسی کلام کو بہتر مانتے تھے جس کا اظہار انہوں نے خود کیا ہے
فارسی بیں تابہ بینی نقش ہائے رنگ رنگ
بگزر ازمجموعہ اردوکے بے رنگ من است
غالبؔ کے اس بیان سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اردو کے ساتھ فارسی کے بھی جےّد عالم تھے اس لیے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ان کا اردومکتوب نگاری میں نئی روش قائم کرنے کی وجہ’’تزک بابری‘‘ہے۔کیوں کہ ’’تزک بابری‘‘ میں بابرنے ہمایوں کوخطوط نویسی کے زبان وبیان کے بارے میں نصیحت کی ہے۔ جس کو قمررئیس صاحب نے ’’تزک بابری‘‘ کے اس حصے کوترجمے کے بعداس طرح نقل کیاہے:
’’مجھے اس خط کا مطلب نکالنے میں کافی پریشانی ہوئی۔۔۔پیچیدگی کی وجہ سے خط کا مطلب واضح نہیں ہوتا اس کی وجہ مشکل الفاظ ہیں۔ آئندہ جب بھی لکھو الفاظ میں دکھاوا اوربناوٹ سے پرہیز کرو۔ جوکچھ کہنا ہے آسان الفاظ میں لکھو‘‘۔ ۴
۱۹۲۵ء میں دلی کالج کے قیام سے یہاں کے اسالیب میں تنوع پیداہوا۔اورعلمی نثرکا نیااسلوب ابھرکرسامنے آیا۔چوں کہ اسلوب مظہر بالذات ہے۔اس میں مصنف،ماحول، موضوع، مقصداورمخاطب کی کارفرمائی ہوتی ہے۔اسلوب ان سبھی کے سنگم کا نام ہے۔ دلی کالج میں یہی سنگم علم ودانش کی ترقی کا ضامن بنا۔فورٹ ولیم کالج نے بامقصدادب کے بیج بوئے۔دلی کالج نے آب پاشی کاکام کیا، سرسید نے معقولیت اورمقصدیت کا لباس پہنایا اورآخرمیں ترقی پسندتحریک نے اس کواپنے مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنادیا۔
دلی کالج میں تخلیقی نثرسے زیادہ علمی تراجم پرزوردیاگیا۔اورترجمے کے لیے جواصول وضع کیے گئے ہیں ان میں لفظ بہ لفظ ترجمے کی جگہ مفہوم کی ادائیگی پرخاص خیال رکھاگیا۔اورعلمی نثرکے لیے سادہ عام فہم الفاظ کے استعمال پرزوردیاگیا۔ترجمے کے موضوعات ریاضی‘ نیچرل فلاسفی‘ تاریخ‘ معاشیات ‘ جغرافیہ اور اصو ل قانون وغیرہ تھے ۔ علوم جدیدہ کو ہندوستان میں فروغ کی کو شش کرنے والوں میں مسٹر ٹیلر ‘ مسٹر بتروس ‘ ڈاکٹر اسپر نگر‘ جے کارگل ‘ مولوی مملوک علی‘ مولوی امام بخش صہبائی ‘ مولوی سبحان بخش‘ ماسٹر وزیر علی‘ ماسٹر رام چندر ‘ ماسٹر امیر علی ‘ پیارے لال آشوب‘ بھیروں پرشاد ‘ مولوی ذکاء اللہ‘ ڈپٹی نذیر احمد‘ مولوی احمد علی، میر اشرف علی‘ مولوی کریم الدین‘ پنڈت من پھول‘ ماسٹر نور محمد اور مولوی حسن علی خاں وغیرہ اہم ہیں۔ ’’دہلی کالج ورناکیولرٹرانسلیشن سوسائٹی‘‘ کے تحت ابتدا میں ۱۲۸؍کتابیں شائع ہوئیں۔ جس کا ذکر ’’تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند‘‘ میں اس طرح کیاگیا ہے:
’’ ورنیکلر سوسائٹی نے تقریبا ۱۲۸؍ کتابیں لکھوا کر شائع کیں۔ ان کتابوں میں تاریخ پر تقریبا ۱۵‘ طب‘ میکانیات‘ طبیعات اور کیمیا پر ۲۰‘ ریاضیات پر ۱۰‘ قانون پر۱۰‘ جغرافیہ پر ۵، علم ہیئت پر ۲؍اور باقی کتابیں سیاسیات ، معاشیات ، ادبیات ، صرف و نحو، فلسفہ اور مشاہیر کے تذکروں سے متعلق ہیں۔ان کتابوں نے پہلی بار اردو میں مغربی علوم کے فروغ کی راہ ہموار کیں اور یہ صحیح طور پر نشأۃ ثانیہ کا باعث بنیں ۔‘‘ ۵
ہندوستان میں مغربی علوم کا فروغ آسان کام نہیں تھا لہذا رام چندر نے معاشرے میں پھیلی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے رسالہ نکالنا شروع کیا۔ تاکہ علوم جدیدہ کے لیے سازگار ماحول بنایا جا سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے رام چندر نے پہلے’’خیر خواہ ہند‘‘اور اس کے بعد ’’فوائد الناظرین‘‘ کے نام سے دوسرا رسالہ نکالنا شروع کیا۔جس میں ان کاطرز تحریر عام فہم اور سادہ ہے۔رام چندر پیچیدہ عربی فارسی الفاظ سے گریز کرنا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں۔چونکہ رام چندرکا میدان علمی نثر تھا لہذا ان کے اسلوب میں بھی سادگی ، سلاست اور وضاحت پائی جاتی ہے۔ان کے طرز تحریر پر صدیق الرحمن قدوائی لکھتے ہیں:
’’رام چندر کا طرز تحریر اپنے دور کا سب سے اہم طرز تحریر ہے ۔ ان کے نگارشات میں اس دور کی خوبیاں بھی اپنے شباب پر ہیں اور خامیاں بھی نظر آتی ہیں۔ ان کی زبان عام بول چال کی زبان ہے۔ انہوں نے دقیق الفاظ ،دور ازکار محاورے اور بے جا وبے محل تشبیہات و استعارات کہیں استعمال نہیں کیے۔۔۔رام چندر کی تحریروں کا بنیادی مقصد اشاعت فکر تھا ۔ وہ ابلاغ سے زیادہ تبلیغ کے لیے فکر مند تھے۔ ‘‘ ۶
مولوی ذکاء اللہ کی تحریروں میں سر سید کی معقولیت اور مقصدیت دونوں پائی جاتی ہے۔یہ منفرد اسلوب کے حامل اور بے باک نثار ہیں۔ ذکاء اللہ کا میدان علمی نثر تھا۔ اور ان کی تحریروں کا کینوس بے حد وسیع ہے۔ ذکاء اللہ نے ریاضـی، تاریخ، ادب، جغرافیہ،اخلاقیات، طبیعات، علم ہیئت اورسیاسیات وغیرہ پر طبع آزمائی کی۔ چونکہ اس عہد میں جدید علوم سے نفرت کی وجہ مذہب کو مانا جاتا تھا لہذا ہر ادیب مذہب و سائنس میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ ذکاء اللہ نے بھی سدھی ہوئی برجستہ تحریروں کے ذریعہ سائنس و مذہب میں رواداری لانے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ مذہب جدید علوم کی ترقی کا دشمن نہیں ہے بلکہ اسے ہم انسانیت کی فلاح و بہود کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ذکاء اللہ نے اپنے مضمون’’کیسا غلط خیال ہے کہ زمانہ بر سر تنزل ہے‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’اب مذہب پر خیال کیجیے کہ پہلے کیا اصول تھے ۔ اب کیا ہیں ۔ جن باتوں کو متقدمین یہ جانتے تھے کہ ان سے انسان ملکی صفات بن کر فرشتہ ہوتا ہے۔ وہ حقیقت میں ان کو بہائم سیرت بنا کر وحشی جانور بناتی تھیں۔ انہوں نے خلاف فطرت تزکیہ نفس کے لیے جو چلہ کشی اور خلوت نشینی و مجاہدات و کم خوابی ، بے خوراکی اور استغراق ذات اور فنا فی الفنا ہونا مقرر کیا تھا ۔۔۔اب اس کی جگہ یہ اصول قائم ہوئے ہیں کہ انسان اپنے دل و دماغ کوکام میں لاکردنیا کی ساری چیزوں سے جو نفع اٹھا سکتا ہے اٹھائے۔یہی اس کی فرشتہ منشی ہے۔۔۔ایک آدمی جوگی بن کر پہاڑ کی چوٹی پر جا بیٹھے تو اس سے کوئی نفع انسانیت کو نہیں پہنچے گا۔‘‘ ۷
منشی ذکاء اللہ بہت وسیع اورخلاق ذہن کے مالک تھے۔انہوں نے اخلاقیات اورتہذیبی اقدار کی بات کی۔اوراردو نثر کونت نئے اسالیب سے روشناس کرایا۔مثلا ان کی تاریخ ہندوستان اورریاضی سے متعلق کتب وغیرہ۔ علمی نثر کے فروغ دینے میں منشی ذکاء اللہ کی خدمات کوبھلایا نہیں جاسکتاہے۔مگران کی تحریروں میں اس زمانے کے رواج کے مطابق مقفی ومسجع رنگ بھی نظرآتے ہیں۔جیسے اپنے مضمون’’دیوان حالی‘‘میں لکھتے ہیں:
’’جناب مولوی خواجہ الطاف حسین صاحب حالیؔ کی یہ تصنیف اردوزبان کے علم ادب کے لیے سرمایہ فخروناز ہے۔وہ ہماری زبان کے علم ادب کا تاج ہے۔جس میں فصاحت بلاغت کے جوہر،محبت اوراخلاق کے گوہر،پندوحکمت کے زرمیں جڑے ہوئے اپنی روشنی سے ہمارے دل ودماغ کومنورکرتے ہیں‘‘۔ ۸
لیکن اس مقفی اسلوب کے باوصف اس سچائی سے انکارنہیں کیا جاسکتا کہ ذکاء اللہ نے اردونثر کوتاریخ نگاری کا اسلوب بھی دیا اوردیگرعلوم کے اظہار کا ذریعہ بھی بنادیا۔
لیکن ۱۸۵۷ء کے حادثے نے اردو نثر پربھی گہرے اثرات مرتسم کیے۔ اس سانحہ کے بعدنثرکے موضوعات بھی بدلے اورمقاصدمیں بھی تبدیلیاں ہوئیں۔اورادب کوہندوستانی سماج کی اصلاح وترقی اورفلاح وبہبود کے مقاصد کے لیے استعمال کیاگیا۔ ۱۸۵۷ء کے بعدسرسید منفرد افکاروخیالات کولے کرسامنے آئے۔اورمرصع مقفی اسلوب کی جگہ بامقصد ادب، سادہ،عام فہم اوراستدلالی طرزتحریر کی بنیاد ڈالی۔ ان کی کوششوں سے مصنفین کی ایک ایسی جماعت بن گئی جس نے معاشرے کے معاملات اوران کے مسائل کوپیش کرنے کی کوشش کی۔سرسید اوران کے رفقاء نے اردونثر کومختلف اسالیب بخشے ۔مثلا ڈپٹی نذیر احمد نے ناول نگاری کے رجحان کی بنیاد ڈالی مختلف علوم وفنون کے تراجم کیے۔حالی نے سوانح، تنقید اورمضمون نگاری کورواج دیا۔ محمدحسین آزادنے مختلف سمتوں میں اپنی قابلیت کے جوہردکھائے۔مثلا انہوں نے تاریخ،تنقید،تحقیق، مضمون نگاری اورانشائیہ نویسی کے رنگارنگ اسالیب کوفروغ دیا۔گرچہ محمدحسین آزاد کی نثر شعری لطافتوں سے بھی مالا مال ہے۔ رنگینی وقافیہ پیمائی کی جھلکیاں بھی جابجاموجود ہیں لیکن ہر چیز اچھی نثر کی خوبیوں میں شمار نہیں ہوتیں مگرمحمدحسین آزادکا اسلوب اتنا توانا اورپراثرہے کہ ان کی خامیاں بھی خوبیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔مثلا آب حیات میں ذوق کے بیان میں لکھتے ہیں:
’’حافظ احمدیار نے چندروز پہلے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک جنازہ رکھاہے۔ بہت سے لوگ گردجمع ہیں۔وہاں حافظ عبدالرحیم جوحافظ احمدیار کے والد تھے۔ایک کھیرکا پیالہ لیے کھڑے ہیں اورشیخ علیہ الرحمہ کواس میں سے چمچہ بھربھر کردیتے جاتے ہیں۔ حافظ موصوف نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا معرکہ ہے اورجنازہ کس کا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ مرزارفیع کا جنازہ ہے اورمیاں ابراہیم ان کے قائم مقام مقرر ہوئے ہیں۔‘‘ ۹
انیسویں صدی کے دہلوی کا یہ مختصر ساجائزہ ثابت کرتا ہے کہ اس زمانے کے مصنفین نے ملک وقوم کے بدلتے ہوئے حالات کونہ صرف سمجھا بلکہ ان تمام اہم تبدیلیوں سے روشناس کرایا جوادب کومتاثر کررہی تھیں۔اس صدی میں شروع سے آخرتک ہمیں اسالیب کی دھوپ چھاؤں کا منظرملتاہے۔ کہیں عربی،فارسی کا گہرا رنگ ہے۔ کہیں صحافتی اسلوب زندگی کے مسائل سے دوچارہیں۔کہیں غالب کی سرگوشیاں ان کے خطوط کوزندگی کے سربستہ رازوں کومنکشف کرتی سنائی دیتی ہیں۔کہیں دلی کالج کے تحت منظر عام پرآئے مصنفین اوراساتذہ نے سادہ، سلیس اورعام فہم علمی اورسائنسی مضامین لکھ کرخالص علمی اسلوب کوبڑھا وا دیا۔ اورصرف یہی نہیں بلکہ سرسید اوران کے ساتھیوں نے زندگی کے مسائل سے زبان کواتنا قریب کیا کہ ان لوگوں کی نثرصرف اس دورکے سیاسی معاشرتی تقاضوں کی شارح ہی نہیں بلکہ عام انسانی زندگی کی عکاسں بن گئی۔ ان لوگوں نے سوانح، تنقید،تحقیق،ناول نگاری، مضمون نویسی، انشائیہ نگاری اورتاریخ نویسی کے علیحدہ علیحدہ رجحانات قائم کیے اوراس دورکے نثری اسالیب کوجدید علوم کی ترسیل کا ذریعہ بنایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی:-
۱ ۔ باغ وبہار مرتبہ ڈاکٹرعبدالحق ص ۵۲۔۵۱
۲ ۔۳ ۔ ادیبوں کے لطیفے مرتبہ نارنگ ساقی ص۔۵۳
۴ ۔ظہیرالدین بابر(ویکتتواورکاوے) پروفیسر قمررئیس ص۔۵۷
۵ ۔ تارخ ادبیات مسلمانان پاکستان وہند جلد سوم ص۹۱۔۹۰
۶ ۔ماسٹر رام چندر،پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی ص ۱۴۴
۷ ۔ انتخاب ذکاء اللہ مرتب اصغر عباس، ص ۲۹
۸ ۔ انتخاب ذکاء اللہ ص ۱۲
۹ ۔ آب حیات،محمد حسین آزاد ص ۵۴۲