فی قلوبھم مرضٌ
(اُن کے دلوں میں بیماری ہے )
بجلی کبھی گری کبھی صیاد آ گیا
ہم نے تو چار دن بھی نہ دیکھے بہار کے
زُباریہ نے بہت ضبط سے پہلی محبت کی کرچیاں دل میں دفن کر کے ایمانداری سے اللہ کی رضا سمجھ کے اپنا آپ اپنے مجازی خُدا عبدُالحنان کے سپرد کر دیا۔
عبدُالحنان اُس کے لیے صرف اچھا نہیں بہت ہی اچھا جیون ساتھی ثابت ہوا تھا۔
دن گُزرنے کے ساتھ اُس کی محبت میں اضافہ ہی ہوا تھا۔
عبدُالحنان نے اپنی بے پناہ اور بے لوث محبت سے بہت جلد زُباریہ کے دل میں اپنے قدم جمانے شُروع کر دئیے۔
زندگی میں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں رقص کرنے لگیں۔
ایک سال بعد اللہ نے اس خوشگوار اور خوبصورت جوڑے پر اپنا انعام، اپنی رحمت دو ننھی ننھی جُڑواں پریوں انوشے اور پلوشہ کی صورت میں برسائی۔
زُباریہ اور عبدُالحنان کی اُن میں جان تھی۔
دونوں اُنہیں دیکھ دیکھ کے جیتے تھے۔
عبدُالحنان کے والدجیسے اپنی پوتیوں کے انتظار میں ہی زندہ تھے۔ اُن کی آمد کے ایک مہینے بعد ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ یوں عبدُالحنان کے سر سے اکلوتا سایہ بھی اُٹھ گیا۔
وہ اپنی فیملی چھوٹی سی فیملی کے ساتھ لندن شفٹ ہو گیا۔ اپنا بزنس بھی اُدھر ہی سیٹ اپ کر لیا۔ زُباریہ اپنے گھر داری کے فرائض پوری ایمانداری اور دل لگی کے ساتھ سر انجام دینے لگی۔ یوں وقت ہنسی خوشی سرکنے لگا۔
ابھی چار ماہ ہی گُزرے تھے کہ عبدُالحنان روڈ ایکسیڈنٹ کا شکار ہو گیا۔ اطلاع ملتے ہی وہ پاگلوں کی طرح ہسپتال کی طرف دوڑی تھی۔ ڈاکٹرز نے قومہ میں جانے کی اطلاع دی۔ سجدے میں جا کے اپنے شوہر کے لیے گڑگڑا کے دُعائیں مانگیں۔ کوئی دُعاقبولیت کا درجہ نہ پا سکی۔ تین دن زُباریہ نے سولی پہ لٹک کے گُزارے تھے۔ چوتھے دن تو جیسے اُس کی دُنیا ہی اندھیر ہو گئی۔ عبدُالحنان اس فانی دُنیا کو الوداع کہہ گیا۔ ایک قیامت تھی جو اُس پہ ٹوٹی تھی۔ کہتے ہیں جس جگہ کی مٹی سے اللہ نے انسان کو بنایا ہووہاں کی مٹی میں ہی وہ جا ملتا ہے۔ لندن میں ہی دفنا دیا گیا۔ زُباریہ کے گھر والوں نے اُس کے پاکستان آنے پہ بہت اصرار کیا۔ لیکن اُس نے انکار کر دیا۔ عدت پوری کرتے ہی اُس نے اُدھر ہی اپنے شوہر کا بزنس سنبھال لیا۔
٭٭
تمہاری دید ہی مقصد رہا جس کی بصارت کا
یہ چشم منتظر پتھرا گئی کیا تم نہ آؤ گے ؟
اُس نے بہت کوشش کی تھی سب کچھ بھول کے پہلے کی طرح ہنسنے کھلکھلانے کی لیکن صرف چند دن ہی وہ ایسا کر پائی تھی۔ اُس نے لاکھ کوشش کی یادوں سے پیچھا چھُڑانے کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہو پا رہی تھی۔ کیسے کامیاب ہو پاتی؟ جب بھی آنکھیں بند کرتی اُس دُشمن جاں ساجن کا چہرہ آنکھوں میں آ سماتا۔ پھر نئے سرے سے پہلے سے زیادہ شدت سے درد جاگ جاتا۔ رات کے اندھیرے میں بند کمرے میں تکیے میں منہ چھُپائے سسکتے ہوئے اُس نے آج اعتراف کر ہی لیا تھا۔ اُس نے سائیڈ ٹیبل پہ پڑا موبائل اُٹھایا نئی بنائی گئی آئی ڈی کھولی شاہ ویز کی آئی ڈی سرچ کی۔ میسیج کے اوپشن پہ کلک کیا اور ٹائپ کرنے لگی۔
رات کے پچھلے پہر تم
چُپکے سے خواب کی صورت
بند پلکوں کے دریچوں پر آ ٹھہرے
میں نے لاکھ کروٹیں بدلیں
اس خواب کو جھُٹلایا مگر
میں کامیاب نہ ہو سکی ’پیا‘
تب دو موتی پلکوں سے ٹوٹ کر
میرے تکیے میں جذب ہو گئے
پھر لبوں سے درد کی صورت اک آہ نکلی
تیرے بن ہے من کو لاگے روگ ’پیا‘
تیرے بن میں کون ’پیا‘؟
تیرے بن میں کون ’پیا‘؟
سینڈ کے آپشن پہ کلک کر کے اُس نے آنکھیں موند لیں۔ وہ سوچنے لگی کہ اُسے شاہ ویز کے بارے میں بابا کو بتا دینا چاہئیے۔ اب درد بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اُسے لگا اس بند کمرے میں اُس کا سانس بند ہو جائے گا۔ وہ اُٹھی اور باہر نکل کے لاؤنج میں چلی آئی۔
سامنے ہی صوفہ پہ بابا بیٹھے سموکنگ کر رہے تھے۔
اُسے شاہ ویزیاد آ گیا۔
کچھ ایسا تھا جو بابا کو دیکھتے اُس کے ذہن میں کھٹکتا تھا لیکن ابھی تک وہ سمجھ ہی نہیں پائی تھی۔
اب سمجھ میں آئی تھی۔ کہ شاہ ویز تو بالکل بابا کی کاپی تھے۔ وہ نجانے کب تک یوں ہی کھڑی اُنہیں دیکھتی رہی۔ پھر بابا نے ہی کسی کی موجودگی محسوس کر کے سر اُٹھا یا۔
’انوشے۔۔ ۔ ! بیٹے کیا بات ہے ؟ اُدھر کیوں کھڑی ہو ؟ ادھر آ جاؤ بابا پاس۔ ‘
اُنہوں نے سگریٹ ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے اپنے ساتھ صوفہ پہ جگہ بناتے ہوئے کہا۔
وہ خاموشی سے آ کے اُن کے پاس بیٹھ گئی۔ وہ اُن کو شاہ ویز کے بارے میں بتانا چاہتی تھی۔ اُن سے یہ بھی پوچھنا چاہتی تھی کہ اُن کا شاہ ویز سے کیا رشتہ ہے ؟۔ لیکن اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کرے۔
اُنہوں نے اُسے بازو کے گھیرے میں لیتے ہوئے کہا۔
’کیا بات ہے ؟ خیریت تھی ہمارے بیٹے کو نیند نہیں آ رہی تھی؟‘
وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔
’نو۔۔ بابا آپ کیوں جاگ رہے ہیں ؟‘
’بس ایسے ہی۔۔ ۔ نیند نہیں آ رہی تھی۔ ‘
اُنہوں نے نظریں چُراتے ہوئے جواب دیا۔
’ آپ ٹھیک تو ہیں ؟‘
اُس نے پریشانی سے پوچھا۔
’یس ! آئی ایم فائن مائی ڈئیر۔ ‘
اُنہوں نے مُسکرانے کی ناکام سی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’بابا ! کین آئی آ سک ون کوئیسچن؟‘
آخر اُس نے ہمت کرتے ہوئے پوچھا۔
’یس یو کین۔ ‘
اُس کی طرف دیکھتے ہوئے اُنہوں نے کہا۔
’ بابا میں نے آپ سے اُس دن جھوٹ بولا تھا۔۔ ۔۔ ۔ ‘
اُس نے اُنگلیاں مڑوڑتے ہوئے آخر بات کا آغا زکیا۔
’یس آئی نو۔۔ ۔ ‘
اُنہوں نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بہت آرام سے کہا۔
اُس نے نظریں چُرا لیں۔
اُنہوں نے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کے تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
’انوشے بیٹا۔۔ ۔ ڈونٹ بی کنفیوز۔۔ ۔ یو کین شئیر اینی تھنگ۔ ‘
’بابا۔۔ ۔ ! شاہ ویز حیات خان۔۔ ۔۔ ‘
اتنا کہتے ہوئے وہ رُک گئی۔
’کیا ہواشاہ ویز حیات خان کو۔۔ ۔ ؟
انوشے بیٹا مجھے پوری بات بتاؤ۔۔ ۔ آپ جانتی ہو اُسے۔۔ ؟‘
اُنہوں نے بے چینی سے پوچھا۔
اُن کے سینے سے لگ کے ہچکیوں اور آنسوؤں کے ساتھ دھیرے دھیرے اُنہیں سب بتا دیا۔ کیسے اُس نے اُس سے کنٹیکٹ کیا سے لے کر اُس کے یہاں آنے اور فلیٹ پہ اُس آخری رات کے بارے میں سب بتا دیا۔
’ بابا۔۔ آپ تو جانتے ہیں نا کہ مجھے کچھ بھی نہیں پتہ کہ آپ کا آپس میں کیا ریلیشن ہے۔۔ ۔۔ پھر اُس نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا بابا۔۔ ۔ وائے بابا وائے۔۔ ۔۔ ؟؟؟‘
وہ سسک رہی تھی۔
وہ چُپ ہو گئے تھے بالکل چُپ۔ اُن کے پاس اُس کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
آپ کو اس دُنیا میں جس سے سب سے زیادہ محبت ہو۔ جسے دیکھنے کے لیے آپ سالوں سے تڑپ رہے ہوں۔ جس کے لیے آپ اپنی جان بھی بخوشی دے سکتے ہوں۔ اور بدلے میں آپ کو اپنے لیے اُس کی نفرت کی شدت کا اندازہ پتہ چلے تو کیا آپ کے پاس بولنے کے لیے کچھ رہ جائے گا؟؟؟
وہ اُسے کیا دلاسہ دیتے۔ ؟
وہ تو یہ سُن کے خود ہی بکھر گئے تھے۔
رات کے آخری پہر اُن دونوں کی اذیت کی وجہ ایک ہی شخص تھا۔
اُس کی آنکھیں برس رہی تھیں۔
لیکن اُن کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔
صوفہ کے پیچھے فلیٹ کے اندھیرے میں ڈوبے حصے میں گُم صُم کھڑے ایک اور وجود کی آنکھیں برس رہی تھیں۔ جب نیند اُن کے شوہر اور بیٹی پہ حرام ہو تو وہ کیسے سکون سے رہ سکتی تھیں ؟
اُن کا درد ایسا تھا کہ وہ چاہ کے بھی پاس آ کے تسلی کے دو بول نہیں بول سکتی تھیں۔
وہ کئی سالوں سے اپنے شوہر کو یہ اذیت سہتے دیکھ رہی تھیں۔
اب اُن کے شوہر کی وجہ سے اُن کی بیٹی کے حصے میں بھی اذیت لکھی جا چُکی تھی۔ یہ دونوں لوگ ہی اُن کے جینے کی وجہ تھے۔ ان کے بغیر وہ زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں۔ اُن کے بس میں ہوتا تو وہ اپنے حصے کی خوشیاں بھی اُن کی زندگی میں لکھ کے اُن کے سارے دُکھ درد اپنے حصے میں لکھ لیتیں۔ اُنہوں نے اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔
وہ پھر سے ماضی میں کھو گئے تھے۔
٭٭
کانپتے تھے جن کے ڈنکے سے زمین و آسماں
چُپ پڑے ہیں قبر میں اب ہوں نہ ہاں کچھ بھی نہیں
پنجاب کا ایک خوبصورت گاؤں فیروز خان اور شیراں بی بی کی ملکیت تھا۔ پاکستان اور انڈیا کی تقسیم سے پہلے کے وقت سے ہی یہ گاؤں اُن کے آباء و اجداد کی ملکیت تھا۔ زمیندار گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے حاکمیت کا عنصر تو اُن کی طبیعت میں سب سے نمایاں تھا۔ جائیداد کے ساتھ غصہ بھی اس خاندان کے مردوں کو جیسے وراثت میں ملتا آ رہا تھا۔ اُن کے غصے سے سارا گاؤں ڈرتا تھا۔ کسی کی بھی اُن کے آگے بولنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔ فیروز خان کو باغبانی کا بہت شوق تھا۔ اس لیے گاؤں کا تیسرا حصہ باغوں پہ مُشتمل تھا۔ جس میں ہر طرح کے پھلوں اور پھولوں کے درخت موجود تھے۔ پھر آہستہ آہستہ وقت گُزرنے کے ساتھ بہت سے خوبصورت اور رنگ برنگے پرندوں نے اُن باغوں کو اپنا مسکن بنا لیا۔ جن کی چہکار سے فضا میں موسیقی کا سا گُمان ہوتا۔ اس کے علاوہ بے شمار مضبوط درختوں کے تنوں پر پیں گیں لٹکی نظر آتیں۔ اُدھر مالی لوگوں کے علاوہ اور کسی کا بھی بنا اجازت آنا ممنوع تھا۔ فیروز خان اورشیراں بی بی کو اللہ نے تین بچوں سے نوازا تھا۔ حیات فیروز خان، شہباز فیروز خان اور شہناز فیروز خان۔ اس زمیندار گھرانے کی ایک روایت برسوں سے چلی آ رہی تھی۔ بچپن میں ہی اپنی اولاد کے رشتے طے کر دینا۔ پھر وقت گُزرنے کے ساتھ اُن کی ہر خواہش پوری کرنا، کبھی پھولوں کی چھڑی سے بھی نہ اُن کو چھونا۔ غرض اپنی محبت اپنی اولاد میں خون سے زیادہ بھر دینا۔ لیکن جب شادی کا مرحلہ آنا۔ تب اپنی اولاد کے آگے اپنے فیصلے رکھنا۔ یا تو اُن فیصلوں پہ سر جھُکا دو، یا پھر جائیداد سے عاق ہو کے اس گاؤں سے نکل جاؤ۔ آج تک سب ہی ان فیصلوں پہ مجبوراًسر جھُکاتے آئے تھے۔ اور بجائے ان رسموں کو ختم کرنے کے یہی رسمیں لے کے چلتے آ رہے تھے۔ فیروز خان نے شہباز خان کا رشتہ اپنے دوست چوہدری امام علی کی بیٹی زہراں سے، اور اپنی بیٹی شہناز کا رشتہ امام علی کے بیٹے امتیاز علی سے وٹہ سٹہ میں طے کر دیا۔ جبکہ حیات خان کا اپنے رشتے کے چچا زاد بھائی کی بیٹی نازیہ سے۔ وقت آنے پہ سب نے دلوں میں کسی اور کی محبتوں کے جہاں آباد کیے والدین کے فیصلوں پہ سر جھُکا دیا۔ حیات خان اور ہاجراں کے دو جُڑواں بیٹے یوسف حیات خان، سکندر حیات خان اور ایک بیٹی وجیہہ حیات خان تھی۔ شہباز خان اور نازیہ کا ایک بیٹا احسن شہباز خان اور دو بیٹیاں زُلیخا شہباز خان، مریم شہباز خان تھیں۔ جبکہ شہناز اور چوہدری امتیاز علی کو اللہ نے دو بچوں رمیز امتیاز علی اور زویا امتیاز علی سے نوازا تھا۔ فیروز خان نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹوں کے بچوں کے بھی رشتے خود طے کر دئیے۔ گویا اُن کے منہ سے نکلی بات پتھر پہ لکیر سمجھی جاتی۔ گاؤں کے ایک سرے پہ واقع بڑی حویلی شہناز کے نام کر دی گئی۔ جبکہ حیات خان کے لیے حیات ولا۔۔ اوراُس کے ساتھ ہی شہباز خان کے لیے شہباز ولا گاؤں کے دوسرے سرے پہ تعمیر کروایا گیا۔ یوں سارے فیصلے خود کر کے وہ منوں مٹی تلے جا سوئے۔ ایک سال بعد شیراں بی بی بھی اپنے شوہر کے پہلو میں جا سوئیں۔ ماں باپ کی وفات کے بعد شہنازاپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ بڑی حویلی میں آ بسیں۔
٭٭
حیات خان اور شہباز خان کے سب بچے شہر سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے گاؤں لوٹ آئے تھے۔
اب رواج کے مطابق آج رات حیات ولا اور شہباز ولا کو دُلہن کی طرح سجایا گیا۔ دیگیں پکوا کے سارے گاؤں میں بانٹی گئیں۔ سب رشتہ داروں کو مدعو کیا گیا۔ سب آن پہنچے۔ اُن کے بچے بہت دیر بعد ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔ اُن کی آپس میں نوک جھونک سے چھوٹے بڑے سب لُطف اندوز ہو رہے تھے۔ اسی خُوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا۔ کھانے کے بعد بچوں، بڑوں سب کو حیات ولا کی بیٹھک میں اکٹھے ہونے کا حُکم دیا گیا۔ کچھ دیر بعد سب بڑی سی بیٹھک میں نہایت عُمدہ، خوبصورت اور آرام دہ صوفوں پر براجمان حیات خان کے بولنے کا انتظار کر رہے تھے۔ اپنے مخصوص انداز میں گلا کھنکھارتے ہوئے اُنہوں نے اپنی بات شروع کی۔
’اللہ کے فضل و کرم سے ہمارے بچوں نے اپنی تعلیمی منازل بخوبی طے کر لی ہیں۔ تو اب وقت آ گیا ہے آپ سب کو آپ کے دادا فیروز خان کی بات سے آگاہ کر دیا جائے۔ بڑے تو اس بات سے آگاہ ہیں۔ بچوں سے یہ بات اب تک اس لیے ہی چھُپائی گئی تھی کہ آپ لوگ اپنا سارا دھیان صرف تعلیم پہ رکھو۔ ہمارے بابا جان اور آپ کے دادا فیروز خان نے آپ کی پیدائش پہ ہی رواج کے مطابق آپ لوگوں کے رشتے طے کر دئیے تھے۔ ‘
اتنا کہہ کے وہ رُکے تو شہباز خان اور شہناز بیگم نے بڑے بھائی کی بات سے متفق ہوتے اثبات میں گردن ہلائی۔
یوسف، سکندر اور رمیز کی نظریں زُلیخا کی طرف اُٹھی تھیں جبکہ زُلیخا اور زویا کی یوسف کی طرف۔ وجیہہ اور احسن نے کن اکھیوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تھا۔
’زُلیخا، سکندر کی منگ ہے۔ ‘
دو دلوں کی دھڑکنیں ایک دفعہ تو رُکی تھیں۔ جبکہ سکندر کے دل سے بے اختیار الحمدُ للہ نکلا تھا۔ رمیز کے دل میں حسد کی آگ جل اُٹھی تھی زُلیخا کو کسی اور کا ہوتا دیکھ کے۔ زویا نے سکون کا سانس لیا تھا۔ زُلیخا کو یوسف کے نہ ملنے پہ۔ لیکن اُس کا یہ سکون عارضی تھا۔
مریم، یوسف کی منگ ہے۔ ‘
اب حسد کی آگ زویا کے دل میں اپنے بھائی سے زیادہ بھڑکی تھی۔ مریم کو کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا کیونکہ اُس نے اپنے دل میں ابھی تک کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی۔
اور وجیہہ، احسن کی منگ ہے۔ ‘ دونوں کے دلوں میں لڈو پھوٹے تھے۔
’نکاح کے لیے اگلے مہینے کی بیس تاریخ ٹھیک رہے گی۔ کیوں شہباز۔ ‘ حیات خان نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے شہباز خان سے پوچھا۔
’بھائی جیسا آپ بہتر سمجھیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ‘ اُنہوں نے اپنی رضامندی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
یوسف نے اعتراض کرنا چاہا۔
’ لیکن بابا جان۔۔ ۔ !‘
اُنہوں نے ہاتھ اُٹھا کے منع کر دیا۔
’یوسف مجھے لیکن ویکن کچھ نہیں سُننا۔ پہلی بات یہ ہمارے بابا جان کا فیصلہ ہے جسے ہر صورت ماننا ہی ماننا ہے۔ اگر نہیں مان سکتے تو اجازت ہے اس گاؤں سے خالی ہاتھ جا سکتے ہو۔ ہم سمجھیں گے جانے والا مر گیا ہے۔ اور دوسری بات ہم نے اپنی اولاد میں سے کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ ہمارے آگے اپنی زُبان کھولنے کی اور ہمارے فیصلوں سے اعتراض کرنے کی ہمت کرے۔ ‘
اُنہوں نے کچھ اس طرح سخت لہجے میں بات کی کہ یوسف سمیت اُدھر بیٹھے ہر انسان کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔
سب کو اسی طرح چھوڑ کے وہ اپنی نشست سے اُٹھے اور باہر کی جانب قدم بڑھا دئیے۔ اُن کے پیچھے شہباز خان اور امتیاز علی نے بھی۔
رمیز نے لبوں پہ مُنافقانہ مُسکراہٹ سجاتے ہوئے اُن کو مبارکباد دی اور باہر نکل گیا۔
زویا نے بھی اپنے دل کا مرض چھُپاتے مسکراتے ہوئے اُن کو مُبارکباد دی۔
زُہراں بیگم نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا اور پھر گُم صُم بیٹھی زُلیخا کی طرف۔ وہ ماں تھیں اپنی اولاد کے دل تک اُن کی رسائی تھی۔ لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتی تھیں۔ اُنہوں نے اُٹھتے ہوئے اُس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
’یوسف بیٹا۔۔ غصے اور جذبات میں آ کے کوئی فیصلہ لینے سے پہلے اپنی ماں کے بارے میں ضرور سوچ لینا۔۔ ۔ بیٹا بھلائی اسی میں ہے اپنے بابا جان کی بات مان لو۔ ‘
یوسف خاموشی سے یہ زہر کا گھونٹ پینے کے لیے خود کو تیار کرنے لگا۔ اس لیے نہیں کہ وہ ڈرپوک تھا یا اُس کی محبت کھوکھلی تھی۔ بلکہ اس لیے کہ نہ تو وہ اپنے بابا جان کے خلاف جا سکتا تھا۔ نہ ہی وہ اپنی ماں کو چھوڑ سکتا تھا۔ نہ ہی وہ اپنی بہن کی خوشیاں چھین سکتا تھا۔
ہاں۔۔ ۔۔ !
اپنے ارمانوں کا قتل ضرور کر سکتا تھا۔
٭٭
راہزنوں سے توبچ نکلا تھا
اب مجھے رہبروں نے گھیرا ہے
پیپر دے کے آتے ہی خوشی خوشی گھر جانے کے لیے اپنی پیکنگ کی۔ ہاسٹل میں اپنی آخری رات اُس نے اپنی دوستوں کے ساتھ گُزاری۔ صبح فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ ہاسٹل کے لان میں چہل قدمی کرنے لگی۔ وہ گاؤں جانے کے لیے بے چین ہو رہی تھی۔ کیوں نہ ہوتی آخر اُس کے اکلوتے لالہ کی شادی تھی۔ بابا نے رات کو کال کر کے بتا دیا تھا کہ وہ کوشش کریں گے اُسے خود ہی لینے آئیں ورنہ وہ ڈرائیور کو بھیج دیں گے۔ اُس نے سوچا اُسے بابا کو کال کر کے پوچھ لینا چاہئیے کون آ رہا ہے لینے۔ ابھی وہ کمرے میں پہنچی ہی تھی کہ اُسے وارڈن کا پیغام ملا۔ اُسے لینے کے لیے ڈرائیور آیا ہے۔ اُس نے جلدی سے چادر لپیٹی بیگ اُٹھاتے ہوئے ہاسٹل کی بلند و بانگ عمارت سے باہر نکل آئی۔ سامنے کھڑی جیپ کے ساتھ مودبانہ انداز میں کھڑے ملازم نے اُسے دیکھتے ہی جیپ کا پچھلا دروازہ اُس کے لیے کھولا۔ اُس نے غور سے ڈرائیور کو دیکھا، وہ اُسے پہلی دفعہ دیکھ رہی تھی۔
’کیا تُم مجھے لینے آئے ہو؟ مجھے نہیں لگتا میں نے تمہیں اس سے پہلے کبھی دیکھا ہو۔ ‘
’بی بی صاحبہ ہم چوہدری امتیاز علی کے خاص ملازم ہیں۔ ڈرائیور کو چھوٹے صاحب نے کسی ضروری کام سے دوسرے شہر بھیجا ہوا تھا۔ اس لیے بڑے صاحب نے ہمیں آپ کو لینے کے لیے بھیجا ہے۔ آپ اُن کو فون کر کے پوچھ لیں۔ ‘
وہ سر ہلاتے بیگ اُسے پکڑاتے ہوئے جیپ میں بیٹھ گئی۔ ملازم نے مستعدی سے دروازہ بند کیا۔ ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کے ایک پہ بیگ رکھا۔ دوسری پہ بیٹھ کے وہ جیپ سٹارٹ کرنے لگا۔ ہاسٹل کی حدود سے نکلتے ہی جیپ ایک دم سے رُکی۔ ملازم نے پھُرتی سے جیب سے کلورو فام کی شیشی نکالتے ہوئے پیچھے مڑتے ہوئے اُس پہ سپرے کیا۔ وہ جوجیپ کے رُکنے کی وجہ پوچھنے لگی تھی۔ اچانک سپرے چھڑکے جانے پہ بے اختیار اُس نے ایک ہاتھ آنکھوں پہ اور ایک ناک پہ رکھا۔ اُس کا دماغ ماؤف ہونے لگا اور آنکھیں بند۔ ملازم نے اپنا کام کر کے دوبارہ جیپ سٹارٹ کر دی۔ وہ مکمل غنودگی میں پہنچ گئی۔ اُس کا سر سیٹ کی پُشت سے جا لگا۔
٭٭
تیرے مست مست دو نین
میرے دل کا لے گئے چین
وہ ہوش میں آئی تو اُس کا سر چکرا رہا تھا۔ اُس نے کراہتے ہوئے اُٹھنے کی کوشش کی۔ اچانک اُس کے ذہن میں کلک ہوا۔ ہاسٹل۔۔ ۔ جیپ۔۔ ۔ ڈرائیور۔۔ ۔ وہ فوراً اُٹھ کے بیٹھ گئی۔ اُس کا دل زور سے دھڑکا تھا کسی انہونی کے احساس سے۔ یہ کمرہ اُس کی حویلی کا نہیں تھا۔
پھر وہ کہاں تھی؟
اُسے محسوس ہوا اُس کے علاوہ اس کمرے میں کوئی اور بھی ہے۔ اُس نے گردن گھُما کے دائیں طرف دیکھا۔ صوفے پہ بیٹھے ہوئے انسان کو دیکھ کے اُس کا خوف جیسے اچانک دور ہوا۔
اُس کی آنکھوں میں شناسائی چمکی۔
بچپن کی کچھ یادیں جو وہ اتنے سالوں کے گُزر جانے کے باوجود بھی نہیں بھُلا پائی تھی پھر تازہ ہوئیں۔
گاؤں کے ایک خاص حصے سے آگے جانا اُنہیں سختی سے منع تھا اسی طرح جتنا احاطہ باغوں پہ مُشتمل تھا اُس کے بھی ایک خاص حصے سے آگے جانا منع تھا۔ اُتنی جگہ پہ ایک سفید رنگ کی واضح لائن لگی ہوئی تھی۔ جو اُن بچوں کو اُس جگہ سے آگے جانے سے روکتی تھی۔ تب اُس کی عمر دس سال تھی۔ اُس دن وہ اپنے سے چھوٹی کزنز بسمہ اور ماہ نور کے ساتھ باغوں میں جھولا جھولنے آئی تھی۔ اچانک جھولا جھولتے اُس کے دل میں نجانے کیا خیال آیا۔ اُس نے اُن دونوں کو کہا آپ لوگ ادھر ہی جھولے لو میں کھانے کے لیے پھل توڑ کے لاتی ہوں۔ پھل توڑنے کی بجائے وہ اُس حصے کی طرف آ گئی جدھر سفید لائن لگا کے آگے جانے سے روکا گیا تھا۔ وہ سوچتی اگلا حصہ بھی بالکل اُن کے حصے جیسا ہی ہے تو پھر وہ کیوں اُدھر نہیں جا سکتے ؟ اس لیے آج اُس نے سوچا تھا وہ لائن کراس کر کے اگلا حصہ بھی دیکھ کے آئے گی۔ وہ آگے آ تو گئی لیکن اُسے ڈر محسوس ہونے لگا وہ واپس پلٹنے لگی کہ اُسے سامنے درخت کے نیچے اپنے جتنا ہی ایک بچہ بیٹھا نظر آیا۔ جو دونوں بازو اپنی ٹانگوں کے گرد لپیٹے بیٹھا ہوا تھا۔ اُس نے اپنا سر درخت کے تنے سے ٹکایا ہوا تھا۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔ وہ بھی خاموشی سے اُس کے ساتھ جا کے بیٹھ گئی۔ اُس کے بیٹھنے پہ وہ اُس کی طرف دیکھنے لگا۔ لیکن اُسے کچھ نہ کہا۔ اُس نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اُٹھا کے اُس کی آنکھوں سے بہتے آنسو اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے ہوئے پوچھا۔
’ تم رو کیوں رہے ہو؟ کسی نے مارا ہے ؟‘
اُس نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو پورا کھول کے سر ہلا ہلا کے اُس سے پوچھتی لڑکی کی طرف دیکھا تو اُسے پتہ نہیں کیوں ہنسی آ گئی۔ شاید اُس کی آنکھوں کی وجہ سے جنہیں دیکھ کے یوں لگتا کسی نے ایک سفید پیالے میں کالے رنگ کے بنٹے رکھے ہوں۔ اُس نے اپنی بارہ سالہ زندگی میں پہلی دفعہ کسی کی اتنی بڑی اور خوبصورت آنکھیں دیکھی تھیں۔
اپنے سوال کے جواب میں اُسے ہنستا دیکھ کے وہ منہ کھولے حیرت سے اُسے دیکھنے لگی۔ عجیب ہی انسان تھا۔ خیر اُسے ہنستا دیکھ کے وہ خود بھی اب مُسکرانے لگی۔
’مجھے کسی نے نہیں مارا۔۔ میرا دل کر رہا تھا رونے کو اس لیے رو رہا تھا۔ ‘
اب وہ خود ہی بتانے لگا۔
’اکیلے بیٹھ کے ؟‘
’اکیلا نہیں بیٹھا۔ اپنے دوست کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ ‘
اُس نے اردگرد نظر دوڑائی اُسے اپنے اور اُس کے علاوہ اُدھر کوئی بھی نظر نہ آیا۔ وہ پھر اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھول کے اُس کی طرف دیکھنے لگی۔ اُس کے دوبارہ اسی طرح دیکھنے پہ وہ ہنستے ہوئے بولا۔۔
’پاگل ! ‘
درخت کے تنے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
’یہ درخت میرا دوست ہے۔ ‘
’تمہیں کیسے پتہ یہ تُمہارا دوست ہے ؟‘
’ کیونکہ اس کا نام ہی مہربان دوست ہے۔ ‘
’ تُمہیں کس نے بتایا کہ اس درخت کا یہ نام ہے ؟‘
’میری بی بی جان نے بتایا تھا۔ ‘
’تمہاری ماما تمہیں اتنی دیر گھر سے باہر رہنے پہ ڈانٹیں گی نہیں ؟‘
اُس کے سوال پہ اُس نے کوئی جواب نہ دیا کچھ دیر اُسے دیکھتا رہا اور پھر اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لیا۔
’بتاؤ نا۔۔ ۔ !‘
اُس نے اُس کا بازو ہلاتے ہوئے دوبارہ پوچھا۔
’میری ماما نہیں ہیں۔ ‘
نجانے کیوں بتاتے وقت ایک آنسو آنکھ سے چھلک پڑا۔ جسے اُس نے فوراً صاف کر لیا۔
لیکن اُس نے دیکھ لیا تھا۔ بہت آہستگی سے اُس نے اُس کی پلکوں پہ رہ جانے والا آنسو اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے صاف کیا۔ دس سالہ بچی یہ جانتی تھی کہ اگر کسی کی ماما نہ ہو تو یہ بہت دُکھ کی بات ہوتی ہے۔ اُسے بھی دُکھ ہو رہا تھا۔ لیکن اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب وہ کیا کرے جس سے اُس کا دُکھ کم ہو جائے۔ وہ کچھ دیر اُسے دیکھتی رہی جو اُس سے نظریں چُرا رہا تھا۔
’تم کل بھی ادھر آؤ گے ؟‘ آنکھوں میں اُداسی لیے اُس نے پوچھا۔
’ہاں۔۔ ! میں روز آتا ہوں۔ ‘ ذرا کی ذرا اُس کی طرف دیکھتے ہوئے اُس نے جواب دیا۔
وہ خوش ہوتے ہوئے رازداری سے اُس کے کان میں بولی۔
’ ٹھیک ہے پھر، میں بھی کل آؤں گی۔ پھر ہم کھیلیں گے بھی۔ لیکن پلیز کسی کو بتانا مت کہ میں ادھر آئی تھی۔ بابا جان نے منع کیا ہوا ہے ادھر آنے سے۔ میں چوری سے آئی ہوں۔ ‘
اُس نے اثبات میں گردن ہلا دی۔ تو وہ اُٹھتے ہوئے بھاگ گئی۔ وہ اُسے جاتا دیکھنے لگا۔ سفید لائن کراس کرتے وقت اُس نے مڑ کے اُس کی طرف دیکھا۔ مُسکراتے ہوئے الوداعی ہاتھ ہلایا۔ اُس نے بھی مُسکرا کے ہاتھ ہلا دیا۔ وہ نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ اُسے یہ بڑی بڑی آنکھوں والی لڑکی اچھی لگی تھی۔ ماں باپ کے پیار کو ترسے ہوئے بچے کی سوچ کا رُخ آج اپنے والدین سے ہٹ کے اُس بڑی بڑی آنکھوں والی لڑکی کی طرف مڑ گیا تھا۔ اس سے پہلے کے آغا جان کسی کو اُسے ڈھونڈنے کے لیے بھیجتے وہ مُسکراتے ہوئے گھر کی جانب چل پڑا۔
یہ شاہ ویز کے پہلے پیار کی ابتدا تھی۔
یہ نازنین کے پہلے اور آخری عشق کی ابتدا تھی۔
٭٭
؎چلتے ہو توچمن کو چلیے، سُنتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے
حویلی کے سب مرد صبح شہر میں نئی لگائی گئی فیکٹری میں چلے جاتے۔ پھر شام کے وقت ہی واپس آتے۔ دوپہر کو سب بچے سکول سے واپس آکے کھانا کھاتے تو اُن کی مائیں اُن کو سونے کے لیے کمروں میں بھیج کے خود بھی سونے کے لیے چلی جاتیں۔
دو گھنٹے سے پہلے کوئی بھی نہیں اُٹھتا تھا۔
وہ آج بیڈ پہ لیٹ کے سونے کی بجائے آنکھیں بند کر کے باقی سب کے سونے کا انتظار کرنے لگی۔
پندرہ بیس منٹ بعد جب اُسے لگا سب سو گئے ہوں گے۔
وہ اُٹھی۔
بنا آواز پیدا کیے چلتے ہوئے حویلی کے پچھلے چھوٹے دروازے سے ہوتے ہوئے وہ بھاگتے ہوئے باغ کے اُس حصے کی طرف جا رہی تھی جدھر جانا منع تھا۔
اُس سفید لائن کے پاس رُک کے اُس نے سانس لیا۔
پیچھے مُڑ کے دیکھا کوئی دیکھ تو نہیں رہا؟۔
کوئی نہیں تھا۔
تسلی ہو گئی۔
لائن کراس کر لی۔
تھوڑا آگے آئی۔
وہ اُسے کل والی جگہ پہ ہی بیٹھا نظر آ گیا۔
آج اُس کے چہرے پہ اُداسی کی بجائے مُسکراہٹ تھی۔
اُس نے اُسے دیکھ لیا۔
مُسکراہٹ اور گہری ہوئی۔
وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔
مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا۔
نازنین نے اپنے نازک ہاتھ میں اُس کا ہاتھ تھام کے چھوڑ دیا۔
سلام پورا ہوا۔
’کل رو رہے تھے۔ آج ہنس رہے ہو۔ کیا ایک دن روتے ہو اور اگلے دن ہنستے ہو؟۔ جیسے کل رو رہے تھے آج ہنس رہے ہو۔ کل پھر روؤ گے کیا؟‘
’نہیں پاگل۔۔ ۔ تم پاگل ہی رہنا۔۔ میں سب کے سامنے نہیں روتا۔۔ سب کے سامنے میں بہت بہادر بن کے رہتا ہوں۔۔ ۔ وہ تو کل تم اچانک آ گئی تھی۔۔ ورنہ ادھر کوئی نہیں آتا۔۔ ۔ ‘
’ہاں ویسے تو دیکھنے میں بھی بہادر لگتے ہو۔۔ ۔ ‘
اُس نے اپنی آنکھوں کو گھُماتے ہوئے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اُس کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے اپنی رائے دی۔
’میرے پرندے دیکھو گی ؟‘
بہت پیار سے اُس نے پوچھا تھا۔
’ہاں۔ ‘
اثبات میں سر ہلایا گیا۔
دونوں آگے درختوں کے جھُنڈ کی طرف بڑھنے لگے۔
’ایک بات پوچھوں ؟‘
چلتے چلتے سوال کیا گیا۔
’ہاں پوچھو۔۔ ‘
شہزادیوں کی طرح نزاکت سے سر ہلاتے ہوئے اجازت دی گئی۔
’تمہاری آنکھیں اتنی بڑی کیوں ہیں۔ ؟
اُس کے سوال پہ حیرت سے اُس کی آنکھیں اور کھُل گئیں۔ بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے والا سوال تھا۔
’اُفف ! ویسے مجھے پاگل کہتے ہو لیکن ہے تم خود۔ اب مجھے کیا پتہ میری آنکھیں اتنی بڑی کیوں ہیں۔ اللہ نے بنائی ہیں، اللہ سے پوچھو۔ ‘
اپنی عقل سے جواب دے دیا گیا۔
وہ چُپ ہو گیا۔
’کیا تمہیں اچھی نہیں لگتیں ؟‘
کچھ دیر بعد بہت آہستگی سے رازداری سے سوال کیا گیا تھا۔
’اچھی لگتی ہیں تو پوچھا تھا نا۔۔ ۔ کہ بتاؤ کیسے اتنی بڑی ہیں میں بھی تھوڑی بڑی کر لوں اپنی۔ ایسے تمہارے جیسے۔ ‘
اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو شہادت کی انگلی کے ساتھ ملا کے دائرہ بنا کے اُس کی آنکھوں کا سائز بتایا۔
وہ کھکھلا کے ہنس دی۔
وہ اُسے ہنستے ہوئے زیادہ اچھی لگ رہی تھی۔
وہ اُس جگہ پہنچ چُکے تھے جدھر شاہ ویز کے پرندے تھے۔ دو خوبصورت رنگ برنگے پرندے آ کے اُس کے ایک ایک کندھے پہ بیٹھ گئے۔
’تم نے انہیں اسی طرح کھُلا رکھا ہوا ہے۔ اگر یہ اُڑ گئے تو؟؟؟‘
’جنہیں اُڑنا تھا وہ اُڑ چُکے ہیں۔ ‘
شاہ ویز نے ایک پرندے کو ہاتھ میں پکڑ لیا۔
’کیا مطلب؟‘
’دیکھا ایک چھوٹی سی بات بھی تمہیں سمجھ نہیں آتی۔ تو پھر تمہیں پاگل نہ کہوں تو اور کیا کہوں ؟‘
’چلو ٹھیک ہے میں پاگل۔ اور تُم پاگلوں کے سردار۔۔ ۔ سردار آف پاگل۔۔ اب بتاؤ نا کہ یہ اُڑیں گے نہیں ؟‘
شاہ ویز اُس کی چالاکی پہ ہنس دیا۔
زیر لب دُہرایا۔
’سردار آف پاگل۔ ‘
’میرے آغا جان نے مجھے بہت زیادہ پرندے لا کے دئیے تھے۔ میں نے ایک ہفتہ تک اُن سب کا بہت خیال رکھا۔ اُس کے بعد میں نے سب کو اُڑا دیا۔ لیکن یہ کچھ پرندے پھر میرے پاس لوٹ آئے۔ اس لیے میں نے اُس کے بعد انہیں قید نہیں کیا۔ کیونکہیہ میرے وہ پرندے ہیں جو مجھے چھوڑ کے اب کہیں نہیں جائیں گے۔ ادھر ہی رہیں گے ہمیشہ۔ ‘
اُسے بتاتے ہوئے اُس نے پرندے کو سامنے کرتے ہوئے پوچھا۔
’کیوں شہزادے میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟‘
پتہ نہیں پرندے کو سمجھ بھی آئی تھی یا نہیں لیکن وہ ٹے ٹے کرنے لگ گیا۔ جس سے وہ بہت خوش ہوئی۔ وہ تالیاں بجانے لگی۔
’واؤ! یہ تو تمہاری باتیں بھی سُنتے ہیں۔ ‘
یوں وہ دونوں اپنے اپنے گھر والوں سے چھُپ کے ایک مہینہ تک ملتے رہے۔ وہ چُپکے سے پچھلے دروازے سے ہی نکل آتی اور پھر ایک گھنٹے بعد اُسی دروازے سے واپس جا کے اپنی جگہ پہ لیٹ جاتی۔ وہ دونوں ڈھیروں باتیں کرتے۔ اُسے شاہ ویز کی پسند نا پسند سب کچھ ازبر ہو گیا تھا۔ پھر ایک دن جب وہ اُدھر گئی شاہ ویز نہیں آیا تھا۔ وہ لگاتار کئی دن جاتی رہی۔ لیکن شاہ ویز نہیں آیا تھا نہ اُس کو آنا تھا۔ ایک دن اُسے اُٹھتے ہوئے اُس کی ماما نے دیکھ لیا۔
’نازی کدھر جا رہی ہو؟‘
’کہیں نہیں ماما۔ پیاس لگی ہے پانی پینے جا رہی ہوں۔ ‘
پھر اُس نے اُدھر جانا چھوڑ دیا۔ لیکن اُس دس سالہ بچی کے ذہن میں وہ ایک مہینہ اتنا گہرا نقش ہو گیا تھا کہ سالوں گُزر گئے لیکن اُن گُزرے ہوئے دنوں کی ایک ایک بات ایک ایک لمحہ اُسے حفظ تھا۔
٭٭
ایک مدت سے تیری یاد بھی نہ آئی ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
وہ اُٹھی۔ اُس نے ارد گرد دیکھا۔ اپنے آپ کو انجانی جگہ پہ پا کے خوف کا سایہ اُس کے چہرے پہ لہرایا تھا۔ لیکن پھر اُس کی آنکھیں اُس کی طرف اُٹھیں۔ اُسے دیکھ کے خوف کا سایہ چہرے سے ہٹ گیا۔ اُن بڑی بڑی آنکھوں میں ڈر کی جگہ شناسائی نے لے لی۔ پھر نجانے وہ کیاسو چنے لگی کہ اُس کی آنکھیں مُسکرانے لگیں۔ شایدیاد کا اینڈ اچھا نہیں تھا اس لیے اُس کی آنکھیں پھر اُداس ہو گئیں۔ وہ حیران ہو رہا تھا کتنی آسانی سے وہ اُس کی آنکھیں پڑھ رہا ہے۔ اُس کے ذہن میں کچھ کلک ہو رہا تھا۔ اُسے لگ رہا تھا کہ اُس نے اُسے کہیں دیکھا ہے۔ لیکن کہاں دیکھا ہے اُسے بالکل بھی نہیں یاد آ رہا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا۔ جیسے وہ اُسے جانتا ہے۔ جیسے اُس کا اُس سے کوئی گہرا رشتہ ہو۔ آخر اتنی جلدی یاد بھی کیسے آتا ؟ پندرہ سال گُزر گئے تھے۔ پندرہ سال کا عرصہ کوئی تھوڑا تو نہیں ہوتا کسی کو بھولنے کے لیے۔ وہ اُس کے بولنے کا انتظار کرنے لگا۔ اُسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا اُس نے تو اپنے پہ بارہا حملہ کروانے والے کی بیٹی کو اغوا کروایا تھا۔ لیکن اُسے لگ رہا تھا جیسے کچھ غلط ہو گیا ہو۔ شاید خان غلطی سے کسی اور لڑکی کو لے آیا ہو۔ ابھی وہ اسی پریشانی میں تھا کہ اُسی نے اُس کی پریشانی دور کی۔
’شاہ ویز۔۔ ۔ !‘
بیڈ سے اُٹھتے ہوئے اُس کے لبوں سے اُس کا نام ادا ہوا۔
اُس کا اندازہ ٹھیک نکلا تھا۔ وہ ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ اب وہ اپنے ذہن پہ زور دے کے یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ جب خوشگوار لمحے ساتھ گُزرے ہوں تو چاہے پچاس سال کیوں نہ گُزر گئے ہوں۔ یاد کرنے پہ یاد آ ہی جاتا ہے۔ اُسے بھی آخر یاد آ ہی گیا تھا۔ اُس نے اپنے صوفہ کے کنارے پہ لگ کے بیٹھتی اُس بڑی بڑی خوبصورت آ نکھوں والی لڑکی کی طرف دیکھا۔ جو حیرت سے اُسے دیکھ رہی تھی۔ اُسے اندازہ ہو چُکا تھا کہ وہ اُسے بھول گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ اُس کی آنکھوں سے سُنہرے موتی بکھرتے شاہ ویز کے لبوں نے ایک لفظ بند کمرے کی فضا کے سپرد کیا تھا۔
’پاگل۔۔ ۔ !‘
موتی پھر بھی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں سے ٹوٹ کے بکھر گئے۔
لیکن مُسکراہٹ کے ساتھ۔
اچانک ملنے والی خوشی کے ساتھ۔
اُس نے ہاتھ آگے بڑھا کے اُس کی آنکھوں سے بہتے موتیوں کو اپنی انگلیوں پہ چُن لیا۔
ایسے ہی جیسے پندرہ سال پہلے اُس نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اُس کی آ نکھوں سے بہتے آنسوؤں کو چُن لیا تھا۔
اُس کی اس حرکت پہ نازنین کے لبوں نے مُسکراتے ہوئے کچھ کہا۔
’سردار آف پاگل۔ ‘
اُس نے سُن لیا۔
مُسکرا دیا۔
دل پہ ہاتھ رکھ کے سر کو جھُکا آداب پیش کیا۔
گُزرے وقت کی یادیں شاہ ویز کے ذہن میں بھی ایک ایک کر کے تازہ ہو رہی تھیں۔
نازنین کو بھول گیا کہ اُسے اغوا کیا گیا ہے۔
اُسے بس یاد تھا تو وہ بہادر لڑکا۔
جسے بچپن کی طرح اپنے سامنے بیٹھا دیکھ کے اُس کا دل کر رہا تھا کہ وہ اُس کی ہر پریشانی ہر دُکھ چُن لے۔ جو وہ سب سے چھُپاتا رہا ہے۔
شاہ ویز کو بھی بھول گیا کہ اُس نے اُسے کس مقصد کے لیے اغوا کروایا ہے۔
بچپن کی طرح اب پھر وہ اُسے دیکھ کے اپنی ہر پریشانی بھول گیا تھا۔ حتیٰ کہ انوشے کو بھی۔۔ ۔۔
بس اب یاد تھی تو وہ بڑی بڑی آنکھوں والی پاگل لڑکی جواُس کے سامنے، اُس کے ساتھ کچھ فاصلے پہ ہی بیٹھی تھی۔
نازنین کے لبوں پہ ہزاروں سوال مچل رہے تھے۔ وہ اُن گُزرے پندرہ سالوں کا حساب لینا چاہتی تھی۔ کتنا انتظار کیا تھا اُس نے اُس کا۔ گھنٹہ گھنٹہ وہ اُس کے مہرباں دوست کے پاس بیٹھ کے اُس کا انتظار کیا کرتی۔ اُس کا دوست اُس کے انتظار کے لمحات کا گواہ تھا۔
وہ اُس کی آنکھوں کو قطرہ قطرہ پڑھ رہا تھا۔
اُن کی قسمت میں یہ ہی لکھا تھا۔
اُن کو جُدا ہونا ہی ہونا تھا۔
وہ محبت ہی کیا جو آسانی سے مل جائے۔
محبت کو صبر، اور آنسوؤں کی لڑیوں میں پرو کے انتظار کی آگ میں سے گُزر کے کُندن بننا ہی ہوتا ہے۔
وہ اُس کی آنکھوں میں چمکتے سوالوں کا جواب دینے لگا۔
’ میرا آٹھویں کا رزلٹ آ چُکا تھا۔ لیکن آغا جان اور بی بی جان نے مجھے سر پرائز دینے کے چکر میں نہیں بتایا تھا۔ اُنہیں پتہ تھا کہ مجھے پڑھائی کا کس حد تک جنون ہے۔ اس لیے وہ میرے شہر میں داخلے کی تیاری کرتے رہے۔ جب اُنہوں نے شہر کے ایک اعلیٰ سکول میں میرا داخلہ کروا دیا۔ میرے رہنے کے لیے شہر میں ایک فلیٹ بھی خرید لیا۔ ملازمہ اور چوکیدار کا بندوبست بھی کر لیا گیا۔ بی بی جان نے جانے کے لیے میرا بیگ بھی تیار کر دیا۔ اُنہوں نے اپنا سرپرائز تب مجھے دیا جب اُس دن میں تمہیں مل کے واپس گھر گیا تھا۔ اگلے دن صبح بی بی جان اور آغا جان کے ہمراہ مجھے شہر کے لیے نکلنا تھا۔ پڑھنا میرا جنون تھا۔ لیکن تمہارے لیے میں شاید گاؤں میں ہی رُک جاتا اگر ذرا بھی مجھے اندازہ ہوتا کہ آ غا جان کا یہ ارادہ ہے۔ اب سب کچھ ہو چُکا تھا۔ مجھے جانا ہی جانا تھا۔
نیا شہر، نیا ماحول، نئے لوگ، نئی کتابیں، نئے ٹیچرز۔۔ ۔ میں ایڈجسٹ ہونے کے چکر میں ڈسٹرب ہو کے رہ گیا۔ کورس اور ٹیچرز تو خیراتنا مسئلہ نہیں تھے مین مسئلہ نئی جگہ اور نئے لوگ تھے۔ نہ ہی تو میں اتنی جلدی کسی نئی جگہ پہ ایڈجسٹ ہو سکتا تھا نا ہی میں اتنی جلدی کسی دوسرے کے ساتھ گھُل مل سکتا تھا۔ تب پھر پہلی پریشانیوں کو بھولنے لگا۔ اُن کی جگہ نئی پریشانیوں نے لے لی۔ میں تم سے کوئی جھوٹ نہیں بولوں گا۔ ہاں تم بس کچھ دن مجھے یاد آئی تھی پھر میں تمہیں بھولنے لگا۔ پھر ایک مہینے بعد میں گاؤں آیا تب مجھے تم یاد آئی تھیں میں باغوں کی طرف سب سے پہلے گیا تھا۔ لیکن تم نہیں تھی۔ تمہیں کیسے بُلاتا۔ ؟ پھر اُس کے بعد میں سالوں میں نے گاؤں کا رُخ نہیں کیا۔ بی بی جان اور آغا جان مجھے شہر آ کے مل جاتے تھے۔ دو تین مہینوں بعد تم میرے ذہن میں کہیں بھی نہیں تھی۔ تب میرا ایک ہی مقصدبن گیا تھا۔ اپنی تعلیم اچھے گریڈز میں مکمل کرنے کا۔ میں نے اپنی ایجوکیشنل لائف تک کسی لڑکی کو اپنے قریب بھی کھڑے ہونے کی اجازت نہیں دی تھی۔ ‘
ٓدھیرے دھیرے وہ اُسے بتاتا رہا۔ یہاں تک بتا کے وہ سانس لینے کے لیے رُکا۔
آپ نے کسی کو لمحہ لمحہ یاد کیا ہو۔ اُس کا انتظار کیا ہو۔ بنا کسی وعدے کے۔ بنا کسی عہد کے۔ اور وہ آپ کو بھول چُکا ہو۔ آپ اُس کی زندگی میں کہیں بھی نہ ہو۔ تو کیا کم تکلیف ہوتی ہے ؟
وہ اُس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ ان بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں کو اُداس نہیں دیکھ سکتا تھا۔ یہ آنکھیں اُسے مُسکراتے ہوئے ہی اچھی لگتی تھیں۔ وہ جانتا تھا اس وقت وہ اُداس ہوں گی۔ وہ یہ بھی جانتا تھا اُس کے برعکس وہ اُسے نہیں بھولی ہو گی۔ اُس نے ایک ایک لمحہ اُس کا انتظار کیا ہو گا۔
اُس نے ٹیبل پہ رکھے سگریٹ کے پیکٹ سے ایک سگریٹ اور لائٹر ہاتھ میں لے کے اُس سے اجازت طلب کی۔
’کیا میں ادھر سموکنگ کر سکتا ہوں ؟‘
’نہیں۔۔ ۔ !‘
آنکھوں میں ڈھیروں ناراضگی لیے کہا گیا۔
اُس نے خاموشی سے سگریٹ اور لائٹر دوبارہ ٹیبل پہ رکھ دیا۔ یہ انوشے نہیں تھی۔ کہ اگر وہ انکار بھی کرتی تو وہ ڈھٹائی سے پھر بھی سموکنگ کرتا اور اُسے زچ کرنے کے لیے دھُواں اُس کے منہ پہ چھوڑتا۔ یہ نازنین تھی۔ جس کے ساتھ وہ ایسی کوئی بدتمیزی نہیں کر سکتا تھا۔ جب وہ دس سال کی چھوٹی سی بچی تھی تب بھی وہ بے اختیاری طور پہ اُس کی ہر بات پہ سر جھُکادیا کرتا تھا۔ اور اب تو وہ اُردو ادب میں پی ایچ ڈی کرنے والی ایک جوان حسینہ کے سامنے بیٹھا تھا۔ جس کی بڑی بڑی آنکھیں پہلے سے زیادہ پُر کشش ہو گئی تھیں۔ جنہیں وہ دیکھتا تو پہلے سے کہیں زیادہ اُن میں ڈوب جاتا۔ تو پھر اب کیایہ ممکن تھا کہ وہ کچھ کہتی اور وہ مانتا نہ؟؟؟
وہ اُداس آنکھوں کے ساتھ اُس کے آگے بولنے کا انتظارکرنے لگی۔
٭٭
کچھ نہ پوچھ اے ہمنشیں !میرا نشیمن تھا کہاں
اب تو یہ کہنا بھی مشکل ہے وہ گلشن تھا کہاں
زُباریہ نے اپنی بیٹیوں کے لیے جلد ہی خود کو ایڈجسٹ کر لیا تھا۔ بزنس کو چلانا اتنا آسان کام بھی نہیں تھا اُس کے لیے۔ وہ جب جب اپنی بیٹیوں کی طرف دیکھتی تو اُسے نئے سرے سے نئی طاقت ملتی۔ وہ اُن کے لیے کچھ بھی کر سکتی تھی۔ ابھی دو مہینے ہی اور گُزرے تھے کہ پلوشہ رات کو ٹھیک ٹھاک تھی۔ وہ اُس کے ساتھ روٹین سے زیادہ کھیلی تھی۔ اور پھر تھک کے سو گئی۔ چار بجے کا وقت تھا اُس کے رونے کی آواز سے اُس کی آنکھ کھُلی۔ اُس نے اُٹھ کے بیٹھتے ہوئے اُسے گود میں اُٹھا لیا۔ ابھی گود میں اُٹھایا ہی تھا۔ کہ پلوشہ نے اُس پہ خون کی اُلٹی کر دی۔ وہ انوشے کو آیا کے حوالے کرتے۔ گاڑی نکال کے فوراً اُسے لے کے ہسپتال کی طرف بھاگی تھی۔ ابھی وہ ہسپتال میں داخل ہوئی ہی تھی۔ ایک سال دو ماہ کی پلوشہ نے اُس کی بانہوں میں دم توڑ دیا۔
ابھی تو شوہر کو گئے بھی ایک سال نہیں ہوا تھا۔ ابھی تو پہلے دُکھ ہی ہرے تھے۔ وہ ٹوٹ گئی تھی۔ ہمت ہارنے لگی۔ اُس کا دل کرنے لگا وہ بھی اپنے عبد الحنان اور پلوشہ کے پاس چلی جائے۔ وہ کیوں اللہ کی ناشکری کر رہی تھی۔ ابھی اُس کے پاس اُس کے جینے کی وجہ ہے تو تھی۔۔ ۔
ابھی اُس کو زندہ رہنا تھا اُسے جینا تھا اپنی انوشے کے لیے۔۔ ۔
وہ کوشش کے باوجود بھی اب کی بار ایڈجسٹ نہیں ہو پارہی تھی وہ ڈسٹرب ہو کے رہ گئی تھی۔ وہ سونے کے لیے لیٹی لیکن اب اُسے نیند نہیں آتی تھی۔ وہ اُٹھی آیا ’بی بی جان‘ کو انوشے کے پاس چھوڑا۔ اور خود گاڑی نکال کے بے مقصد سڑکوں پہ دوڑانے لگی۔ برج خلیفہ پہنچ کے پارکنگ ایریامیں گاڑی پارک کر کے وہ سمندر کے سامنے والے نسبتاً سُنسان گوشے کی طرف آ گئی۔
ٹانگیں لٹکا کے وہ اُدھر بیٹھ گئی اور نظریں سامنے سمندر کے پانی پہ مرکوز کر دیں۔ رات کے دس بجے کا وقت تھا وہ اندھیرے میں بیٹھی کئی سال پیچھے چلی گئی۔
اُس نے اپنے ماں باپ اور بھائی کا بے تحاشا پیار پایا تھا۔ اُنہوں نے اُسے کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی تھی۔ اُس کے منہ سے نکلی ہر بات کو پورا کرنا جیسے اُن کا فرض تھا۔ اُس کی زندگی میں کوئی دُکھ نہیں تھا۔ زندگی بہت حسین تھی۔ پھر یک طرفہ محبت کے ناگ نے اُسے ڈس لیا۔ اُس کا محبوب کسی اور سے محبت کرتا تھا۔ اٹس اوکے یہ اُس کی زندگی تھی۔ اُس نے یہ دُکھ بھی صبر سے برداشت کر لیا۔ عبد الحنان کو اُس کے والدین نے اُس کے لیے چُنا۔ اُس نے سب کچھ بھول کے اُن کی خواہش پہ سر جھُکا دیا۔ اُس کا شوہر اُس سے خوش تھا۔ اللہ نے اپنی رحمت سے بھی نواز دیا۔ زندگی ایک دفعہ پھر اچھی گُزرنے لگی تھی۔
شاید خوشیاں اُسے راس ہی نہیں آ رہی تھیں۔
شوہر جُدا ہو گیا۔
پھر اب بیٹی بھی جُدا ہو گئی تھی۔
اب وہ ڈرنے لگی تھی۔
جُدائی کے ناگ سے۔۔ ۔
جو اُسے بار بار ڈس رہی تھی۔۔ ۔
اُس کی زندگی اسی محور میں آ گئی تھی۔
جو محبتوں کے اسیر تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے۔
ماضی سے حال تک کا سفر کہنے کو تو وہ آدھے گھنٹے میں طے کر آئی۔۔ ۔
لیکن اُسے لگ رہا تھا وہ صدیوں کا فاصلہ طے کر کے آئی ہو۔ اُس کی آنکھوں سے نجانے کب کے آنسو بہہ رہے تھے۔ لیکن وہ بے خبر تھی۔ جب اُسے اندازہ ہوا اُس کی آنکھوں سے برسات ہو رہی ہے۔ اُس نے اپنا آنسو اپنی اُنگلی پہ چُن کے چاند کی روشنی میں دیکھا۔
شایدیہ آنسو ہی اُس کی قسمت میں لکھے جا چُکے ہیں۔۔ ۔
وہ اپنی قسمت پہ پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔۔ ۔
’زُباریہ۔۔ ۔ ‘
اُسے اپنے نام کی ہلکی سی صدا سُنائی دی۔۔
آواز اُس کے بائیں جانب سے آئی تھی۔۔ ۔
گردن اُس طرف موڑ کے دیکھا۔۔
اُس سے کچھ ہی فاصلے پہ جو شخص بیٹھا تھا۔۔ ۔ اُسے اُس نے اندھیرے میں بھی پہچان لیا تھا۔۔ ۔
کیسے نہ پہچان پاتی۔۔ ۔ ؟
وہ سکندر تھا۔۔ ۔ !
ہاں ! سکندر ہی تھا۔۔ !
سکندر کو دیکھ کے اُس کے آنسوؤں میں سمندر سے بھی زیادہ روانی آ گئی۔
جیسے دُکھ کے وقت کسی اپنے کو پاس پا کر۔۔ ۔
اُسے اس وقت کسی اپنے کا کندھا چاہئیے تھا۔۔ ۔
ایسے ہی سکندر کو کسی مُخلص انسان کی ضرورت تھی۔ جس سے وہ اپنا درد کہہ سکتا۔
سکندر نے خاموشی سے اپنا کندھا اُسے فراہم کر دیا۔۔ وہ اُس کے کندھے سے لگ کے بچوں کی طرح رو دی۔۔
’ زُباریہ۔۔ مجھے نہیں پتہ آپ کیوں رو رہی ہیں۔۔ ۔ آپ کے یہاں آنے سے پہلے میں بھی یہ کام ہی کر چُکا ہوں۔۔ ۔ رونے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے۔ آپ پچھلے آدھے گھنٹے سے رو رہی ہیں۔ زیادہ رونے سے اکثر دل کا بوجھ بڑھ بھی جایا کرتا ہے۔۔ ‘
اُس نے اپنے آنسو صاف کر لیے۔۔ ۔
کسی حد تک وہ ریلیکس ہو گئی تھی۔۔ ۔
اور پھر ساری رات اُنہوں نے ایک دوسرے کو اپنی دُکھ بھری داستان سُناتے گُزاری۔۔ ۔
یہ وہ جگہ تھی جدھرسکندر اور زُباریہ نے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کیا تھا۔۔
یہ وہ ہی جگہ تھی جدھر انوشے اور شاہ ویز پہلی دفعہ ملے تھے۔۔ ۔
یہ وہ ہی جگہ تھی جدھر شاہ ویز سکندر حیات خان نے بیٹھ کے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کیا تھا۔۔ ۔
٭٭
ضمیر نہیں کانپتے یہاں
زمین کانپ جاتی ہے
حیات ولا سے آنے کے بعد اُس نے ایک ہی رٹ لگائی ہوئی تھی۔ ماموں جان اور پھپھو سے جا کے زُلیخا کا رشتہ مانگیں۔ شہناز کب سے اُسے سمجھا رہی تھیں کہ زُلیخا سکندر کی منگ ہے۔ اب تو سب کے سامنے باقاعدہ بتا بھی دیا گیا ہے۔ تو اُس نے خاصی بدتمیزی سے یہ فقرہ بولا۔۔
’میں نہیں مانتا کسی رسم و رواج کو۔ مرنے والے مر گئے ہم پہ اپنے فیصلے تھونپ گئے ہیں۔ ‘
اُنہوں نے رکھ کے اُس کے منہ پہ تھپڑ لگایا۔
’یہ آپ اچھا نہیں کر رہیں۔ دیکھ لینا آپ بھی اگر زُلیخا میری نہ ہوئی تو میں اُسے کسی اور کا بھی نہیں ہونے دوں گا۔ ‘
تھپڑ کا اُس پہ کوئی اثر نہ ہوا۔ اُس سے زیادہ بدتمیزی سے کہہ کے ٹیبل کو ٹھوکر مارتا ہوا وہ اُن کے کمرے سے نکل گیا۔
شہناز اپنا سر تھام کے بیٹھ گئیں۔
ابھی وہ اسی پریشانی میں مبتلا تھیں کہ اُنہیں کچھ شور کی آواز سُنائی دی۔ کمرے سے باہر نکل کے آئیں تو دیکھا آواز زویا کے کمرے سے آ رہی تھی۔ وہ جلدی سے سیڑھیاں پھلانگ کے حویلی کے اوپر والے پورشن میں گئیں۔ زویا کے کمرے کا دروازہ کھولا۔
وہ ہر چیز اتنے قیمتی ڈیکوریشن پیس اُٹھا اُٹھا کے مار رہی تھی۔
اُنہیں لگا آج وہ پاگل ہو جائیں گی۔
وہ بچتے بچاتے آگے آئیں اور اُسے بازو سے تھام کے بولیں۔
’زویا۔۔ ۔ ؟ تُم ہوش میں تو ہو۔۔ ؟ کیا بچپنا ہے یہ؟‘
’چھوڑ دیں مجھے۔ نہیں ہوں میں ہوش میں۔ اچھا ہوا اُسے بھی اُس کا پیار نہیں ملا۔۔ اچھا ہوا اُسے زُلیخا نہیں ملی۔۔ اُس نے مجھے ٹھکرایا تھا۔۔ اُسے اس کی سزا ملی ہے۔ یوسف صرف میرا ہے۔۔ لیکن میں اُسے کسی اور کاہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔۔ ۔۔ نہیں دیکھ سکتی۔۔ ‘
وہ اپنے بھائی سے بھی دو ہاتھ آگے نکلی تھی۔
ان کے دلوں میں مرض اس قدر بڑھ گیا تھا کہ اُنہیں کچھ سُجھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔
وہ دونوں بہن بھائی مُنافقت کا لبادہ اوڑھے دلوں میں حسد کی آگ جلائے خود ہی اُس میں جل رہے تھے۔
شہناز نے اپنی طرف سے بہت سختی سے اپنے بچوں کی پرورش کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اُن کے باپ کے بے تحاشا پیار نے اُن دونوں کو بگاڑ دیا تھا۔ اگر اُنہیں کوئی چیز پسند آ جائے تو بس وہ اُنہیں ہر حال میں چاہئیے ہوتی۔ اُن کے باپ نے اُن کی فرمائشیں پوری کر کر کے یہاں تک پہنچا دیا تھا۔ کہ اب اُنہیں کسی چیزیا انسان میں فرق ہی نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ وہ انسان تھے کوئی چیز تھوڑی تھے کہ اُنہوں نے کہہ دیا ہماری ہے تو اُن کا باپ لاکھوں ادا کر کے بھی لا دیتا۔
وہ اُسے بھی اُس کے حال پہ چھوڑ کے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ وہ جانیں یا اُن کا باپ۔ وہ اُن کے بس میں نہیں رہے تھے۔ اُنہوں نے تو کبھی کسی کا بُرا نہیں چاہا تھا۔ کبھی ضد نہیں کی تھی۔ ہمیشہ باپ اور بھائیوں کے فیصلوں پہ سر جھُکا دیا کرتی تھیں۔ نجانے اُن کی اولاد ایسی کیوں تھی۔
زویا کی بات باہر دروازے کی اوٹ میں کھڑے رمیز نے بھی سُن لی تھی۔
ماں کے جانے کے بعد وہ اُس کے کمرے میں آ گیا۔
’تُم فکر نہ کرو۔ بس تھوڑا صبر کرو۔ دیکھنا میں اُن سے کیسے انتقام لیتا۔ بس مجھے تمہارا ساتھ چاہئیے۔ ‘
’میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ‘
لبوں پہ کمینگی مُسکراہٹ سجائے ایک عزم سے کہا گیا تھا۔
یہ وہ لوگ تھے جو دوسروں کے خلاف دل میں بیماری(حسد، بُغض، کینہ ) رکھتے تھے۔ اُن کی پیٹھ پیچھے اُن کے خلاف سازشیں کرتے تھے۔ لیکن اُن سے بہت خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔ دوست کی طرح۔ اُن کے ہمدرد بن کے۔ ایسے لوگوں کا انجام اللہ نے قر آن پاک میں بہت درد ناک بتایا ہے۔
٭٭
اس شرط پہ کھیلوں گی پیامیں پیار کی بازی
جیتوں تو تمہیں پاؤں ہاروں تو پیا تیری
’تعلیم مکمل ہو گئی۔ میں گاؤں واپس آ گیا۔ میرا ارادہ گاؤں میں فیکٹری لگانے کے ساتھ لڑکیوں کے لیے کالج بنانے کا تھا۔ ابھی مجھے گاؤں واپس آئے کچھ دن ہی گُزرے تھے کہ کسی نے مجھ پہ قاتلانہ حملہ کروانے کی کوشش کی۔ میرے ملازم نے اُس نقاب پوش کو دیکھ لیا تھا۔ وہ پکڑے جانے کے خوف سے ڈر کے بھاگ گیا۔ اور پھر کوئی میری مسلسل جاسوسی کرنے لگا۔ ایک دن مجھے گاؤں واپس آتے دیر ہو گئی۔ ابھی میں مین سڑک پہ تھا کہ کسی نے رات کے اندھیرے میں مجھ پہ فائر کیا۔ میری قسمت میں ابھی موت نہیں لکھی تھی۔ سو بچ گیا۔ آغا جان کا ایک ہی دُشمن ہے شہباز خان۔ وہ سمجھ رہے ہیں مجھ پہ قاتلانہ حملے وہ کروا رہا ہے۔ لیکن مجھ پہ حملہ کروانے والے کے ایک خاص ملازم کی کسی زمانے میں، میں نے مدد کی تھی۔ اُس نے میرے احسان کا بدلہ چُکا دیا۔ آج اُس شخص کی حویلی میں اُس کے سب مہمان جمع ہیں۔ آج اُس کے بیٹے کا نکاح تھا۔ اور اُس شخص کی بیٹی اس وقت میرے سامنے بیٹھی ہے۔ ‘
اُس نے اُس کے سارے سوالوں کے جواب دے دئیے تھے۔ اُن گُزرے سبھی سالوں کا حساب دے دیا تھا سوائے انوشے کے ساتھ گُزارے چند دنوں کے۔
اتنہائی شاک کے عالم میں کہا گیا تھا۔
’میرے بابا ایسا نہیں کر سکتے۔ تمہیں ضرور غلط فہمی ہوئی ہے۔ ‘
کنفرم کرنے والے انداز میں پوچھا۔
’کیا تمہارے والد کا نام رمیز امتیاز علی نہیں ؟‘
اب کسی شک کی گنجائش ہی نہیں رہی تھی۔ آنکھوں میں ڈر اور ہزاروں پریشانیوں نے جگہ لے لی۔
شاہ ویز نے آہستگی سے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
’اگر تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو پھر مجھے کوئی پروا نہیں تھی۔ ابھی رات نہیں ہوئی۔ دوپہر کے تین بجے ہیں۔ کہتی ہو تو گاؤں چھوڑ آتا ہوں۔ جاتے جاتے دو ڈھائی گھنٹے تو لگ ہی جائیں گے۔ شام ہو جائے گی۔ کبھی بھی تمہاری بات پہ یقین نہیں کیا جائے گا۔ رُسوائی کا دھبہ تمہاری ذات پہ لگ چُکا ہے۔ تمہارے گھر والے تمہیں پاگلوں کی طرح ہر جگہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ تُم ملو تو وہ تمہیں زندہ درگور کر سکیں۔ ہو سٹل وارڈن کی بھی شامت آئی ہوئی ہے۔ ان سب حالات میں کیا تم واپس جانا چاہو گی؟ اگر جانا بھی چاہو تو میں تمہیں نہیں جانے دوں گا۔ یہ تم بھی اچھی طرح جانتی ہو میں جو کہہ رہا ہوں بالکل سچ ہے۔ تمہارے والد کی غلطیوں کی سزا تمہیں بھُگتنی پڑ رہی ہے۔ جس کے ہاتھوں نے درخت کے تنے کے ساتھ لگ کے بیٹھے ایک ٹوٹے ہوئے بچے کے آنسو پونچھ کے اُسے ہنسایا تھا اور پھر کئی دن اُس کا درد بانٹا تھا وہ اُس کو تکلیف پہچانے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔ جو ہوا انجانے میں ہوا۔ تمہارا مجرم تمہارے سامنے ہے۔ اُسے تمہاری دی گئی ہر سزا دل و جان سے قبول ہے۔ ‘
’بابا جان کی تم سے کیا دُشمنی وہ کیوں تمہیں قتل کروانا چاہیں گے ؟‘
وہ اپنے ہی یقین کو جھُٹلا رہی تھی۔ وہ چاہ رہی تھی بس کسی طرح یہ بات جھوٹ ہو جائے۔
’یہ بات ہی تو مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ دو دفعہ میں اُن کے کروائے گئے حملے سے بچ چُکا ہوں۔ اب میں اُن کے تیسرے حملے کا تو انتظار نہیں کر سکتا تھا نہ ہی کہیں یہ لکھا ہے کہ میں ہر دفعہ ہی بچتا رہوں گا۔ شاید اس مسئلے کا حل میں کسی اور طرح سوچتا لیکن کل رات میں نے کچھ زیادہ ہی پی لی تھی۔ اس لیے میں نے اُسے رمیز امتیاز علی کی بیٹی کو اغوا کرنے کے لیے کہا۔ اس طرح میں اُس شخص کو اپنے سامنے لانا چاہتا تھا اُس سے میں اپنا قصور پوچھنا چاہتا تھا۔ جو وہ ویسے تو کبھی نہ بتاتا۔ ‘
یہ وہ تھی جس کے سامنے کبھی اُس نے اپنے آنسو چھُپانے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ پھر اپنی غلطیاں اور خرابیاں کیسے چھُپا پاتا۔۔ ۔ ؟؟؟
’تم پیتے بھی ہو؟‘
آنکھوں میں بے پناہ حیرت لیے پوچھا۔
’اب نہیں پیوں گا۔ ‘
آنکھیں چُراتے ہوئے جواب دیا۔
’نماز پڑھتے ہو؟‘
’اب پڑھا کروں گا۔ ‘
وہ چُپ ہو گئی۔ اُس کا ہاتھ ابھی بھی اُس کے ہاتھوں میں تھا۔ نہ اُس نے چھوڑا نہ ہی اُس نے چھڑوایا۔
دونوں کے درمیان خاموشی چھا گئی۔
’شاہ! اب کیا ہو گا؟‘
آنکھوں میں بے پناہ ڈر تھا۔
نہ چاہتے ہوئے بھی آنکھیں چھلک پڑیں۔
’کچھ نہیں ہو گا۔ میں تمہارے ساتھ ہوں نا۔ میرے ہوتے تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ دُنیا کے سامنے میں بہت بہادر ہوں۔ جیسا کہ دیکھنے میں بھی بہادر لگتا ہوں۔۔ ہے نا؟‘
وہ بہتی آنکھوں کے ساتھ ہنس پڑی۔
بہتی بارش میں کھلتی دھوپ کا سا سماں۔۔ ۔
وہ دیکھے گیا۔
آنسو پونچھتے ہوئے اثبات میں گردن ہلا دی۔
’تمہیں فی الحال یہیں رہنا ہو گا۔ میرا آج گاؤں میں ہی موجود ہونا ضروری ہے۔ میں تمہارے لیے ملازمہ کا بندوبست کر دیتا ہوں۔ وہ رات کو بھی تمہارے پاس رہا کرے گی۔ گارڈ کا بھی تمہاری سیکیورٹی کے لیے۔
یہ لو یہ سب چابیاں ہیں کمروں کی۔ فریج میں کھانے پینے کا سب سامان موجود ہے۔ ڈرنا نہیں۔ میں ایک دو دن میں لوٹ آؤں گا۔ پھر کوئی حل سوچیں گے۔ ٹھیک ہے ؟ رہ لو گی نا۔ ؟‘
دوسرے ہاتھ سے اُس نے جیب سے چابیاں نکال کے ٹیبل پہ رکھتے ہوئے اُس سے پوچھا۔
’اب اور کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔ یہ بازی بھی کھیل ہی لوں گی۔ ‘
’ویل۔۔ ۔ ! مجھے تم سے یہ ہی اُمید تھی۔ اپنا خیال رکھنا۔ ‘
آہستگی سے لب اُس کے ہاتھ پہ رکھ کے چھوڑ دیا۔ اُٹھ کھڑا ہوا نظریں ملائے بغیر۔۔ ۔
’میں کرتا ہوں کسی کا پتہ۔ کوشش کروں گا جلدی آ جاؤں پھر مجھے گاؤں کے لیے بھی نکلنا ہے۔ آؤ دروازہ بند کر لو۔ ‘
اُس نے یہ کہتے ہوئے اپنے قدم باہر کی جانب بڑھا لیے۔
اُس کے پیچھے نازنین بھی۔۔ ۔
٭٭