ذالک الکتاب
(وہ بلند رُتبہ کتاب)
عین اُسی لمحے شاہ ویز جیپ کا ٹائر چیک کرنے کے لیے نیچے جھُکا تھا اور گولی بنا اُسے چھوئے اُس کے سر کے اوپر سے ہوتی ہوئی گُزر گئی۔ اُس نے سامنے درخت کے تنے میں پیوست ہوتی گولی دیکھی تو اُسی وقت وہ جیپ سے اپنی گن اُٹھا کے اُسی سمت بھاگا جدھر سے فائر کیا گیا تھا۔ لیکن تب تک وہ جو کوئی بھی تھا فرار ہو چُکا تھا۔ وہ بھی واپس آ گیا۔ اُس نے جیپ کا ٹائر جو پنکچر ہو چُکا تھا وہ بدلا اور حویلی کی راہ لی۔ جب اُس نے حویلی میں قدم رکھا۔ حسب معمول بی بی جان بر آمدے میں بیٹھیں اُس کی راہ تک رہی تھیں۔ اُنہوں نے اُسے دیکھ کے خُدا کا شکر ادا کیا۔
وہ اسلام علیکم بی بی جان کہتا اُن سے لپٹ گیا۔
’ شُکر اُس سوہنے رب کا تم خیریت سے پہنچ گئے ہو، پتہ نہیں کیوں آج شام سے ہی میرا دل ہول رہا تھا۔ میں تو تب سے خُدا سے تمہاری سلامتی کے لیے دُعا کر رہی تھی۔ ‘
بی بی جان نے اُس کا ما تھا چومتے ہوئے کہا۔
وہ سوچنے لگا نجانے ماؤں کو کیسے پتہ چل جاتا ہے جب اولاد پہ کوئی مصیبت آنی ہو۔ آج وہ صحیح سلامت گھر آ گیا تھا تو اس وجہ سے کہ اُس کے پیچھے وہ ہستی جو اُس کے لیے ماں سے بڑھ کے تھی وہ اُس کی سلامتی کے لیے دُعا گو تھی۔ وہ اُن سے لپٹا رہا۔
’ شاہ ویز پُتر تم ٹھیک تو ہو نا؟‘
بی بی جان نے پریشانی سے پوچھا۔
’ جی بی بی جان، بس تھک گیا ہوں۔ آغا جان سو گئے ہیں ؟‘ اُس نے الگ ہوتے ہوئے پو چھا۔
’ ہاں۔۔ ! سو گئے ہیں۔ آج سارا دن باہر ہی رہے تھے۔ کہہ رہے تھے شاہ ویز کہہ رہا ہے وہ گاؤں میں لڑکیوں کے لیے کالج بنانا چاہتا اُسی کا حساب لگا رہا تھا۔ ویسے پُتر بہت چنگا فیصلہ کیا ہے۔ ‘
بی بی جان نے اُس کے کالج بنانے کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا۔
’ جی بی بی جان لڑکیوں کے لیے بھی تعلیم اُتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ لڑکوں کے لیے۔ چلیں میں صبح مل لوں گا آغا جان سے۔ آپ سو جائیں جا کے۔ ‘
’تم نے کچھ کھانا نہیں بھوکے پیٹ ہی سونا ہے کیا؟‘
بی بی جان اُسے ڈانٹتے ہوئے بولیں۔
نہیں بی بی جان۔ بھوک نہیں ہے شام کو تایا جان کے گھر سے کھا کے ہی نکلا تھا۔ آپ کو سب سلام کہہ رہے تھے۔ ‘
’وعلیکم السلام۔ جیتے رہیں۔ تمہارے تایا جان ٹھیک تھے ؟‘
’ جی سب ٹھیک تھے۔ باقی باتیں صبح پوچھ لیجیئے گا۔ بارہ بج گئے ہیں سو جائیں اب۔ ‘
شاہ ویز اُن کو بازو سے پکڑ کے اُٹھاتے ہوئے بولا۔
بی بی جان اُس کے ماتھے پہ بوسہ دے کے اپنے کمرے کی جانب چلی گئیں۔ اور شاہ ویز اپنے کمرے کی طرف ہو لیا۔
٭٭
بھول کے سب نفرتیں اب اک کام کریں گے
دُنیا کے اک اک کونے میں محبتیں آباد کریں گے
سکندر کی ڈائری پڑھنے کے بعد اُس نے اپنے گرد خاموشی کی چادر بہت خوبصورتی سے اوڑھ لی تھی۔
حتیٰ کہ اللہ کی بارگاہ میں بھی شکایت کا ایک لفظ بھی زُبان سے نہیں نکالا تھا۔
اسی طرح خاموشی سے ایک سال اور بیت گیا۔ اب اُن کا پانچواں سمسٹر شروع ہو گیا تھا۔
آج اُن کا مینجمنٹ کا فرسٹ لیکچر تھا جو اُنہیں سر رؤف نے پڑھانا تھا۔ جنہوں نے حال ہی میں اُن کی یونیورسٹی کو جوائن کیا تھا۔ ساری کلاس ایکسائٹمنٹ سے سر کا انتظار کر رہی تھی اور سب دُعائیں مانگ رہے تھے کہ آنے والے سر نرم دل اور ہر بات آسانی سے مان لینے والے ہوں۔۔ جیسے کہ ہم کہیں سر آج ہمارا دل نہیں کر رہا پڑھنے کو۔۔ تو سر نہ پڑھائیں۔۔
یا پانچ چھ لائینیں پڑھ کے کہیں سر آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔۔
تو سر کہیں اوکے ایز یو وش۔۔ ۔
اُن کو لگ رہا تھا یہ حسرتیں بس حسرتیں ہی رہ جانی ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا تھا ساری کلاس کی دُعائیں آخر مُستجاب ہو ہی گئی تھیں۔
سر رؤف نے کلاس میں قدم رکھا تو مُسکراہٹ اُن کے لبوں پہ سجی ہوئی تھی۔
جس نے کلاس میں بیٹھے سب سٹوڈنٹس کو ذرا تقویت بخشی۔
پھر وہ مُسکراہٹ اور گہری ہوئی۔
جس سے آٹومیٹکلی سب مُسکرانے لگے۔
پھر وہ گہری مُسکراہٹ قہقہے میں بدل گئی۔
اگلے ہی پل ساری کلاس قہقہوں سے گونج اُٹھی۔
جب قہقہے ذرا تھمے تو وہ اپنا اور اپنے سبجیکٹ کا تعارف کروانے کے بعد بولے۔
’جو بھی مجھے کلاس میں پڑھائی کے حوالے سے ٹینشن میں نظر آیا تو ہم اُسے کلاس سے باہر نکال دیں گے۔ آپ لوگ ریلیکس ہو کے کلاس میں آؤ اگر دیر ہو گئی ہے تو کوئی بات نہیں، اجازت لینے کی ضرورت نہیں سیدھا اندر آ جاؤ۔ اورہم بالکل بھی نہیں پڑھا کریں گے۔ باتیں کیا کریں گے بس اُس کے دوران پندرہ منٹ کی پڑھائی کی بریک لے لیا کریں گے۔ اور اینڈ پہ ایک اچھی بات بھی ڈسکس کر لیا کریں گے۔ ‘
اُن کے کہنے کی دیر تھی کہ ساری کلاس یک جان ہو کے بولی۔
’یس سر۔ ‘
’چلو جی ٹھیک ہو گیا۔ ‘
یہ کہتے ہوئے اُنہوں نے کچھ جوک سُنائے کہ سب کا ہنس ہنس کے بُرا حال ہو گیا۔ اسی طرح پنتالیس منٹ گُزر گئے۔ سر رؤف نے سر اُٹھا کے وال کلاک کو دیکھا کلاس آف ہونے میں پندرہ منٹ رہ گئے تھے۔
’چلو بھئی آج کی اچھی بات میں ہم ایک بہت ہی خاص ہستی کا ذکر کریں گے۔ ہم خود سے بھی اتنی محبت نہیں کرتے۔ جتنی محبت وہ ہستی ہم سے کرتی ہے۔ جانتے ہو وہ ہستی کون ہے ؟‘ اُنہوں نے پوچھا تو ساری کلاس بولی
’اللہ تعالیٰ۔ ‘
’واہ بھئی آپ لوگ تو بہت اچھے ہو۔ پھر تو آپ لوگوں کو اُن باتوں کا بھی پتہ ہو گا جو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پہ ایمان والوں کو مُخاطب کر کے کہی ہیں ؟‘
ساری کلاس خاموش رہی۔ کوئی جواب نہ آیا۔
سی آر بولا۔۔ ’کونسی باتیں سر؟ ‘
’ آپ لوگ قر آن پاک پڑھتے ہو؟ یاد رہے ادھر پڑھنے سے مُراد تلاوت کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب ہے کہ اُسے سمجھ کے پڑھنا۔۔ غور و فکر کرنا۔ یہ دیکھنا کہ لکھنے والا ہمیں بتانا کیا چاہ رہا ہے۔ ‘
اب ساری کلاس کی نظریں جھُک گئی تھیں۔
’کیا آپ کا دل نہیں کرتا وہ بُلند رُتبہ کتاب پڑھنے کو ؟جس میں کوئی شک نہیں۔ اور جو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ہمارے لیے نازل کی ہے۔ اور جسے کبھی ہم نے کھول کے پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی اگر کبھی کھول ہی لیں تو فٹا فٹ بس عربی پڑھ کے کام ختم کرتے ہیں۔ ‘
وہ ذرا رُکے۔۔ ۔ ساری کلاس خاموشی سے شرمندگی کا احساس لیے اُن کی بات سُن رہی تھی۔ سر رؤف نے اپنے دھیمے لہجے میں بات جاری رکھی۔
’کیا آپ کا دل نہیں کرتا وہ بلند رُتبہ کتاب پڑھنے کو۔۔ ۔ ؟ جس میں اللہ نے بہت ساری باتیں ہمیں ڈائریکٹ مُخاطب کر کے کہی ہیں۔۔ یا ایھُا الذین اٰمنو۔۔ اے لوگو۔۔ جو ایمان لائے ہو۔۔ اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ تو یا ایھُا الذین اٰمنو نہیں لکھا۔۔ بہت سی جگہوں پہ اللہ نے یا ایھُا الناسُ لکھا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ سارے انسانوں سے مُخاطب ہیں۔۔ اور پھر کچھ باتیں اللہ نے صرف یا ایھا الذین یعنی ہمیں ایمان والوں کو مُخاطب کر کے کہی ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہم نے کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ وہ ایسی کون سی خاص باتیں ہیں جو اُس بُلند رُتبہ کتاب جس میں نبیوں کا ذکر ہوا ہے اُس میں ہمیں مُخاطب کر کے کہی ہیں۔ اگر آپ لوگ قر آن نہیں پڑھتے تو اب پڑھ کے دیکھیے گایقین مانیے بہت سکون ملتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ صرف ہمارے لیے لکھی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سے بات کر رہے ہیں۔ جس طرح ایک ماں اپنی اولاد کے شعور کی منزل پہ پہنچتے ہی اُسے صحیح اور غلط سمجھاتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح اور غلط بتا رہے ہیں۔ اچھے اعمال کی جزا اور بُرے اعمال کی سزا مثالیں دے دے کے ایک ایک بات سمجھا رہے ہیں۔ یقین مانیے جب دُنیا میں کوئی انسان توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس انسان سے اتنا خوش ہوتے ہیں کہ ساتوں آسمانوں پہ چراغاں کرواتے ہیں۔ حتیٰ کہ فرشتوں کی محفل میں اُس انسان کا ذکر کرتے ہیں۔ چلو بھئی پھر کروا رہے ہو فرشتوں کی محفل میں اپنا ذکر؟‘
جب تک سر بولتے رہے اُن کے لفظوں کا سحر ساری کلاس پہ چھایا رہا اور جب اُنہوں نے بات ختم کر کے اُن سے پوچھا تو تب اُن کا سحر ٹوٹا۔
سب پھر یک جان ہو کے بولے۔
’یس سر۔ ‘
سر اگلی کلاس میں ملنے کا کہہ کے چلے گئے۔ یونیورسٹی سے واپسی تک سر کی باتیں اُن کے ذہن سے محو ہو چُکی تھیں۔
سوائے سکندر اور زُباریہ کے۔
اب زُباریہ بے صبری سے سر روؤف کے لیکچرز کا انتظار کرتی۔
کیونکہ۔۔ ۔۔
سر روؤف بہت زندہ دل انسان تھے۔ جو خود بھی ہمیشہ اپنے لبوں پہ مُسکراہٹ سجائے رکھتے اور دوسروں کے لبوں پہ بھی مُسکراہٹ بکھیرنا جن کا کام تھا۔ وہ دوسروں کو زندگی کو مزے سے گُزارنے کا درس دیا کرتے۔ اُن کے مُطابق زندگی کا دُکھوں اور غموں سے پُرانا ساتھ ہے۔ تو پھر بہتر نہیں کہ سب کچھ پس پُشت ڈال کے تھوڑی سی زندگی جو رہ گئی ہے وہ کھُل کے زندہ دلی کے ساتھ گُزاری جائے۔ مُسکراتے۔۔ ۔ قہقہے لگاتے۔۔ دوسروں سے محبتیں کرتے۔۔ ۔ محبتیں بکھیرتے۔۔ ۔ محبتیں سمیٹتے۔۔ اور اپنے فرائض کو پوری ایمانداری سے سر انجام دیتے۔۔ ۔
اگر آپ ایسا کر لو تو پھر دُنیا کی سب سے قیمتی چیز جسے سکون کہتے ہیں وہ آپ کے پاس وافر مقدار میں ہو گا۔ پھر حسرتیں نہیں رہیں گی۔ آپ زندگی کو جینا سیکھ لیں گے۔
وہ بھی مُسکرا کے۔۔ اپنے دُشمنوں کو جلا کے۔۔
جو اللہ نے دیا اُس کا شُکر ادا کر کے۔۔ ۔
جو نہیں دیا اُس کا بھی شُکر ادا کر کے۔۔ ۔
اُستاد ہماری زندگیوں میں ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹلی بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم سب سے زیادہ اپنے اُساتذہ سے ہی سیکھتے ہیں۔ اور سب سے زیادہ باتیں بھی ہمیں اپنے اُساتذہ ہی کی یاد رہتی ہیں۔
سر روؤف نے بھی ان ڈائریکٹلی اُس کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔
اب اُس نے جینا سیکھ لیا تھا۔
٭٭
وہ ابھی تک اُس کے رویے کو سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ اتنی محبت دے کے کیوں ایسا کیا اُس نے ؟ اُسے کیوں لگتا کہ اُس نے اُس سے جھوٹ بولا ہے۔ کیا باباجیسے اچھے انسان کسی کو مار سکتے ہیں ؟۔ وہ بھی شاہ ویز کی مما کو؟ شاہ ویز کا اُس کے بابا سے کیا رشتہ ہو سکتا ہے ؟ وہ اپنے بابا سے پوچھنا چاہتی تھی اُن کو سچ بتانا چاہتی تھی لیکن نجانے کیوں الفاظ اُس کا ساتھ ہی نہیں دیتے تھے۔ اور شاہ ویز بھی تو بنا کچھ بتائے چلا گیا تھا۔ شاہ ویز سے ساری بات کرنے کے لیے اُس نے اُسے فیس بُک پہ میسیج کیا۔ لیکن اُس نے جواب دینے کی بجائے اُسے بلاک کر دیا۔ وہ تکیے میں منہ چھُپا کے سسکنے لگی۔
میری محبت کی کہانی
میرے لفظوں کی زُبانی
میری بے قراریوں کی داستان
اُس کی تفریح کا سامان
میں اُس کے عشق میں گھائل
تھے اُس کے پاس دلائل
بے نام سا جو رشتہ تھا آخر وہ توڑ گیا
تڑپتا سسکتا وہ مجھ کو چھوڑ گیا
ختم ہوئی اُس پہ میری محبت کی کہانی
جو سمجھ نہ سکا میرے لفظوں کی زُبانی
کچھ دیر وہ اسی طرح سسکتی رہی۔ اُس کے کمرے کا دروازہ ناک ہوا تو اُس نے جلدی سے آنسو پونچھ ڈالے۔ اور سوتی بن گئی۔ لیکن اُس کے دونوں بہن بھائیوں نے آ کے ہلہ بول دیا۔ اور اُسے باہر جانے کے لیے تنگ کرنے لگے۔
’اشعر۔۔ ہالے۔۔ میں کہہ رہی ہوں نا مجھے اکیلا چھوڑ دو۔۔ میرا نہیں دل کر رہا کہیں بھی جانے کو۔ ‘
اُس نے اپنا چہرہ دوبارہ کمبل کے اندر کرتے ہوئے کہا۔
’ کیوں نہیں جانا۔۔ ؟ کوئی وجہ بھی تو ہو ؟‘
چودہ سالہ اشعر نے دوبارہ اُس کے چہرے سے کمبل ہٹاتے ہوئے کہا۔ تو بارہ سالہ ہالے بھی بولی۔
’ تو اور کیا بجو۔ جب سے ہم ٹور سے واپس آئے ہیں نہ ہی تو آپ ہمارے ساتھ بیٹھی ہیں نہ ہی کو ئی بات کی ہے بس یہ ہی کہہ رہی ہیں مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ ‘
اُس نے بے بسی سے دونوں کی طرف دیکھا۔ اور اُسے اپنی طرف تکتا پا کے اشعر دوبارہ بولا۔
’ٹھیک ہے نہ ہی تو آپ ہمارے ساتھ باہر جانا چاہتی ہیں اور نہ ہی آپ ہماری کمپنی چاہتی ہیں۔ اٹس اوکے ہم چلے جاتے ہیں۔ ‘
وہ کہہ کے بیڈ سے نیچے اُترنے لگا۔ انوشے نے اُس کا بازو پکڑ لیا۔ اور اٹھتے ہوئے بیڈ کی بیک سے ٹیک لگا کے بولی۔
’ اشو میرا سچ میں کہیں باہر جانے کو دل نہیں کر رہا۔ ہالے جاؤ مما سے کافی اور سنیکس کا بول آؤ۔ ہم ساتھ میں کافی پئیں گے اور باتیں کریں گے۔ ‘
’لیکن بجو باہر۔۔ ۔ ؟‘
ہالے نے منہ لٹکا کے کہا۔
’یو نو مجھے سردی کچھ زیادہ ہی لگتی ہے اور آج تو ویسے بھی بہت سردی ہے، اس لیے باہر پھر کسی دن چلیں گے۔ پرامس۔ ‘
اُس نے وعدہ کرتے ہوئے کہا۔
ہالے فوراً مما تک اپنا پیغام پہنچا کے بھاگی بھاگی آئی۔
اور اشعر کے ساتھ مل کے اپنے ٹور کی کچھ یادگار باتیں اور کچھ مزاحیہ باتیں سُنانے لگی۔
انوشے کافی حد تک بہل چُکی تھی۔
جب مما اُن کے لیے کافی اور سنیکس لے کے آئیں تو تینوں کو پہلے کی طرح ہنستے قہقہے لگاتے دیکھ کے اُنہوں نے خُدا کا شُکر ادا کیا۔
٭٭
’چوہدری صاحب کچھ پتہ چلا کہ رات کو کس نے چھوٹے صاحب پہ گولی چلا ئی تھی۔ ؟‘
چوہدری صاحب کے خاص اور وفا دار ملازم فضلو نے اُن سے ذرا ایک قدم پیچھے مؤدب انداز میں ہاتھ باندھ کے چلتے ہوئے پوچھا۔
اُن کا اُٹھا ہوا قدم اُدھر ہی ساکت ہوا تھا۔
’ کیا کہہ رہے ہو؟‘
’چوہدری صاحب۔۔ رات کے دوسرے پہر ڈیرے کے مُخالف سمت گولی چلنے کی آواز سُنی گئی تھی۔ سننے میں آیا ہے رات کو چھوٹے صاحب اُسی راستے سے گاؤں کی طرف آ رہے تھے اور۔۔ ۔ ‘
سامنے سے آتے شاہ ویز کو دیکھتے ہوئے فضلو نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔ اُس کے قریب پہنچتے ہی اُنہوں نے اپنے رعب دار لہجے میں اُس سے پوچھا۔
’شاہ ویز رات کو کیا ہوا تھا؟‘
’ آغا جان ! آئیں بیٹھ کے بات کرتے ہیں۔ ‘
وہ اُنہیں لیے ڈیرے کی طرف چل دیا۔
کیکر کے درخت کے نیچے بچھی چارپائی پہ بیٹھتے ہوئے اُس نے آہستگی سے بات شروع کی۔
’رات کو مجھے شہر سے آتے دیر ہو گئی۔ اس لیے میں سپیڈ سے جیپ چلا رہا تھا۔ گاؤں کی کچی سُنسان سڑک پہ آتے ہی میری جیپ جھٹکا کھا کے رُک گئی۔ میں خرابی چیک کرنے کے لیے باہر نکلا۔ تو درختوں کے جھُنڈ میں سے کسی نے نشانہ باندھتے ہوئے گولی چلائی۔ اور اُسی لمحے میں ٹائر چیک کرنے کے لیے نیچے جھُکا تھا جس وجہ سے اُس کا نشانہ خطاء ہو گیا۔ میں نے پھر اُس کا پیچھا بھی کیا لیکن وہ جو کوئی بھی تھا فرار ہو چُکا تھا۔ میں ابھی اُسی طرف سے ہو کے آ رہا ہوں کسی نے جان بوجھ کے راستے میں پتھر اور نوک دار چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔ مطلب جو کوئی بھی تھا وہ بہت دیر سے میرا پیچھا کر رہا ہو گا جسے خبر تھی کہ میں اس پہر اس راستے سے گُزروں گا۔ ‘
’اور تم نے اتنی بڑی بات مجھ سے چھُپائی؟‘
اُنہوں نے غصے سے سُرخ ہوتے ہوئے کہا۔
’ آغا جان میں نے چھُپائی نہیں تھی۔ میں نے آپ سے رات کو ہی بات کرنی تھی۔ آپ سو رہے تھے اس لیے میں نے آپ کی نیند خراب کرنا مُناسب نہیں سمجھا تھا۔ ‘
آغا جان سے اپنا غصہ کنٹرول نہیں ہو رہا تھا اُنہوں نے اُٹھ کے ٹہلنا شروع کر دیا۔
’ ہمارے دُشمن اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ وہ تمہیں جان سے مارنے کی کوششیں کرنے لگے ہیں۔ ‘
شاہ ویز نے بھی اُٹھتے ہوئے اُن سے کہا۔
’ آغا جان ! چھُپ کے وار کرنا بزدلوں کی نشانی ہے۔ ایسے بُزدلوں کو مجھے بہت اچھی طرح سبق سکھانا آتا ہے۔ آپ فکر نہ کریں میں ڈھونڈ نکالوں گا وہ جو کوئی بھی ہوا۔ ‘
اُنہوں نے برہمی سے کہا۔
’شاہ ویز تم ایسا کچھ نہیں کرو گے۔ میں خود دیکھ لوں گا۔ تم ہی تو میرا واحد سہارا ہو، اور میرے جینے کی وجہ۔ میں نہیں چاہتا تمہیں معمولی سی بھی خراش آئے۔ ‘
وہ بات ٹالتے ہوئے بولا۔
’ کچھ نہیں ہو گا مجھے آغا جان! میرے خیال سے لڑکیوں کے کالج کے لیے وہ جگہ مناسب رہے گی۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو اُدھر کام شروع کروا لوں ؟‘
اُنہوں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اجازت دیتے ہوئے کہا۔
’جاؤ تم گھر جاؤ۔ تمہاری بی بی جان تمہارا پوچھ رہی تھیں ناشتہ بھی نہیں کیا اور باہر نکل آئے ہو۔ ‘
اُس نے سر ہلاتے ہوئے حویلی کی جانب قدم بڑھا دئیے۔
٭٭
وہ اُنہیں کافی دے کے اپنے کمرے میں آ گئیں۔ خاموشی سے بیڈ پہ اپنے شوہر کے پہلو میں بیٹھ گئیں۔
اُنہوں نے لیپ ٹاپ پہ کام کرتے کرتے اُن کی طرف دیکھا، اُن کو پریشان پا کے لیپ ٹاپ بند کر کے سائیڈ پہ رکھ کے اُن کی طرف متوجہ ہوئے۔
’ بیگم۔۔ ! بیگم تو بے غم ہوتی ہیں۔۔ پھر آپ کیوں پریشان ہیں ؟‘
وہ اُن کے پوچھنے پہ اُن کی طرف متوجہ ہوئیں۔
’انوشے کو لے کے پریشان ہوں۔ کچھ تو ہوا ہے جو وہ ہم سے چھُپا رہی ہے۔ ابھی تو اُس کا بچپنا نہیں گیا تھا دونوں بہن بھائیوں سے زیادہ چہکتی پھرتی تھی۔ اب ایک دم ہی اتنی سنجیدہ ہو گئی ہے۔ بیماری کا بہانہ کر رہی ہے۔ یہ چیز مجھے بہت پریشان کر رہی ہے۔ ‘
وہ اُنہیں سمجھاتے ہوئے بولے۔
’ آپ پریشان کیوں ہو رہی ہیں ؟ پریشان ہونے سے بھی کبھی مسئلے حل ہوئے ہیں کیا؟ مجھے بھی پتہ ہے کہ اُس نے مجھ سے جھوٹ بولا ہے۔ کوئی اور بات ہے جو وہ ہم سے چھُپا رہی ہے۔ لیکن ہم نے اُس کی بات کو سچ مان کے اُسے یقین فراہم کیا ہے۔ آپ اُسے وقت دیں، جب وہ اپنے آپ سے باہر نکلے گی تو خود ہی سب بتا دے گی۔ ہو سکتا ابھی وہ خود کو حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کر رہی ہو۔ آپ تو جانتی ہی ہیں کہ یہ عمر تو ہوتی ہی ایسی ہے۔ اور اب تو ویسے بھی وہ دونوں شرارتی ٹور سے واپس آ گئے ہیں۔ نارمل ہو جائے گی اب۔ ‘
اُن کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئی بولیں۔
’ جی آپ کی چھوٹی نواب زادی کافی کا آرڈر دے کے گئی تھی۔ وہ ہی ڈیلیور کر کے آ رہی ہوں۔ تینوں کھلکھلا رہے تھے۔ ‘
’یہی تو کہہ رہا ہوں، کہ آپ پریشان ہونے کی بجائے مجھے وقت دیں۔ بُڈھا ہو گیا ہوں اب تو مجھے آپ کی ضرورت ہے۔ ‘ وہ آنکھوں میں شرارت لیے اُن کی آنکھوں میں دیکھ کے بولے۔
اُن کے اس طرح دیکھنے پہ اُن کے چہرے پہ حیا کی لالی اُمڈ آئی۔ وہ نظریں چُراتے ہوئیں بولیں۔
’ استغفر اللہ۔۔ ! آپ مجھے ایسے نہ دیکھا کریں۔ یونیورسٹی میں ویسے ہی آپ کو بس دیکھ کے ہی میرے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو جاتی تھیں۔ اور اب آپ کا آنکھوں میں محبت اور شرارت لیے دیکھنا، مجھے آنکھوں سے قتل کرنے کے لیے کافی ہے۔ اور اوپر سے کہتے ہیں کہ بُڈھے ہو گئے ہیں آپ۔ ‘
’ ہاہاہا۔۔ بیگم آپ بھی نا۔ ‘
اُنہیں بازو کے گھیرے میں لیتے ہوئے اُن کے ماتھے پہ اپنی محبت کی مہر ثبت کرتے ہوئے اُنہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
حیا سے اُنہوں نے اُن کے کشادہ سینے میں اپنا چہرہ چھُپا لیا۔
٭٭
لندن سے واپس آنے کے تین دن بعد۔۔ ۔۔
جنوری کی سرد اور شدید دھُند میں لپٹی رات میں وہ بی بی جان کے منع کرنے کے باوجود ڈیرے کی طرف جانے کا کہہ کے حویلی سے نکل آیا تھا۔ لیکن ڈیرے پہ جانے کے بجائے وہ باغوں کی طرف آ گیا تھا۔ گھنے درختوں کے جھُنڈ سے ہوتے ہوئے وہ اپنے مہرباں دوست کے پاس آیا تھا۔
ہاں اُس کا دوست اوکاں نام کا درخت جو اپنے خوبصورت نظارے کی بنا پہ دیکھنے والے کو اپنی طرف یوں بُلاتا جیسے ایک دوست دوسرے دوست کو دیکھ کے اُسے اپنی طرف آنے کا اشارہ کرتا ہے۔
اسی لیے لوگ اُسے مہرباں دوست کے نام سے پُکارتے ہیں۔ شاہ ویز بچپن میں جب بھی اس درخت کے پاس سے گُزرتا تو اُسے بھی ایسا محسوس ہوتا جیسے یہ درخت اُسے اپنے پاس بُلاتا ہے۔ لیکن وہ اپنے خیالات جھٹک کے اُدھر سے آگے گُزر جایا کرتا۔ جب اُسے اپنی ماں کے قاتل کا بتایا گیا جو اُس کا اپنا ہی باپ تھا۔
اُس دن وہ ٹوٹ گیا تھا۔
پھر پہلی دفعہ وہ اپنے مہرباں دوست کے پاس آیا تھا اور اُس کے گھنے سائے تلے اُس درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کے دل کھول کے رویا تھا۔ اُسے لگا اُس کا سارا درد ساری تکلیف اس درخت کے تنے نے اپنے اندر جذب کر لی ہو۔
اُس دن شاہ ویز نے اس درخت کو اپنا پہلا مہرباں دوست بنایا تھا۔
آج بھی وہ خاموشی سے اُس کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کے بیٹھ گیا۔
شکسپئیر ایک جگہ لکھتے ہیں۔
’ عشق تو ایک غبار ہے، جسے آہوں نے پیدا کیا ہے، جب یہ غبار دب جاتا ہے تو پھر آنکھوں سے آگ کے شعلے نکلنے لگتے ہیں۔ ‘
ویسے ہی آگ کے شعلے اس وقت شاہ ویز کی آنکھوں سے نکل رہے تھے۔
اُس کا دل کر رہا تھا وہ ہر چیز کو تہس نہس کر دے۔
ساری دُنیا کو آگ لگا دے۔
اُسے اللہ پہ بھی بہت غصہ آ رہا تھا۔
اُس نے اب پکا ارادہ کر لیا تھا آج کے بعد وہ کبھی اللہ کے پاس نہیں جائے گا۔
اب کبھی کچھ نہیں مانگے گا اللہ سے۔
اُس نے یہ بھی سوچ لیا تھا وہ اب اپنے تایا جان سے بھی نہیں ملا کرے گا۔
کیونکہ وہ اُسے نماز پڑھنے اور اللہ سے دُعا مانگنے کا کہا کرتے ہیں۔
اُسے لگ رہا تھا اللہ جان بوجھ کے اُس کے نا کردہ گُناہوں کی سزا اُسے دے رہے ہیں۔
اُس نے نہ ہی اپنی ماں کا پیار پایا۔ نہ ہی باپ کا۔
اُسے لگتا تھا کہ ایک دن جب وہ اُٹھے گا تو اُس کے ماں باپ اُس کے پاس بیٹھے اُسے پیار کر رہے ہوں گے۔ وہ اپنے ماں باپ کی تصویر چومتا اور سینے سے لگاکے خیالوں میں کھو جاتا۔ جہاں اُس کے ماں باپ اُس کے پاس ہوتے۔ اُسے پیار کرتے۔ وہ اُن سے ضد کرتا اُنہیں جان بوجھ کے تنگ کرتا۔ ابھی وہ آٹھ سال کا تھا کہ وہ حقیقتیں اُس پہ کھُلنے لگیں جو آج تک اُس سے چھُپائی گئی تھیں۔
یوں اُس کے بچپن کا پہلا خواب بے دردی سے ان تلخ حقیقتوں نے توڑا تھا۔
اُس کی ماں اب کبھی واپس نہیں آ سکتی تھی اور باپ سے وہ کبھی نہیں مل سکتا تھا کیونکہ وہ ایک بُرا انسان تھا جس نے اُس کی ماں کو مار ڈالا تھا۔
پھر اُس کے دل میں اپنے باپ کے خلاف زہر بڑھتا گیا۔
نفرت پیدا ہوتی گئی۔
اُس نے اپنے آپ کو ایک تنہائی کے خول میں بند کر لیا تھا۔ اُس کے بہت سے دوست بھی تھے۔ جن میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جن کی اُس نے ضرورت کے وقت مدد کی ہوتی۔ لیکن اُس نے کسی کو بھی اپنی ذاتیات میں دخل اندازی کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ وقت گُزرتا گیا اُس کی سٹڈی لائف ابھی ختم ہوئی ہی تھی کہ انوشے بنا اُس کی اجازت زبردستی ہی اُس کی زندگی میں داخل ہو گئی تھی۔ اور ابھی محبت نے اُس کے دل میں اپنے قدم رکھے ہی تھے۔ کہ اللہ نے پھر درد دے دیا۔
کیا تھا اگر اُس کا اُس کے باپ سے کوئی بھی رشتہ نہ ہوتا۔
یاوہ اُس کی زندگی میں ہی نہ آئی ہوتی۔
یا اُسے اُس سے محبت ہی نہ ہوئی ہوتی۔
یا کاش اُس نے اُس سے جھوٹ ہی نہ بولا ہوتا۔
٭٭
آج صبح آسمان نے تو رو کے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیا تھا۔
شام کا وقت ہو چلا تھا۔
آسمان کے آنسوؤں سے زمین ابھی تک گیلی تھی۔
نم ہوا بھی وقفے وقفے سے اُفق کے پار رہنے والی پریوں کے راز سرگوشیوں کی صورت زمیں کے شہزادوں کے سپرد کرنے آ رہی تھی۔
خوشگوار موسم کی وجہ سے طالبات نے آج پڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔ سب اپنے دوستوں کے ساتھ موسم سے لُطف اندوز ہو رہے تھے۔ آج زرتاشہ نہیں آئی تھی اس لیے وہ اکیلی ہی کیفے کے پلر سے ٹیک لگائے کھڑی سوچوں میں کھوئی ہوئی تھی کہ اچانک اُسے اپنی دھڑکنیں اُتھل پُتھل ہوتی محسوس ہوئیں، اُس نے نظریں اُٹھائیں وہ دُشمن جاں اپنی تمام تر وجاہت لیے اپنے دوستوں کے ہمراہ کیفے کے سامنے سے گُزرا۔
آہ۔۔ ! اُسے دیکھتے ہی دل میں اک ہوک سی اُٹھی تھی۔
وہ اُس کا پیار تھا۔
اُس کی محبت تھا۔
اُس کا عشق تھا۔
وہ خوابوں میں اُس کا بہت اپنا تھا۔
لیکن حقیقت میں وہ اُس کا اپنا نہیں تھا۔
اُن کے درمیان فاصلہ زمیں اور آسماں کے فاصلے سے بھی بہت زیادہ تھا۔ وہ یہ فاصلہ کم کرنا چاہتی تھی۔ لیکن وہ دشمن جاں اُسے دیکھتے ہی نگاہیں پھیر لیتا۔ نگاہوں کے سبھی مفہوموں سے آشنا ہونے کے باوجود، پھر اُس میں اتنی ہمت ہی نہ رہتی کہ وہ آگے بڑھ کے اُسے مُخاطب ہی کر لے۔
اُس کے اس رویے سے دل کے ہزاروں ٹکڑے ہوتے تھے۔
روح چھلنی چھلنی ہو جاتی تھی۔
پھر وہ سوچتی آخر وہ کون لوگ ہیں جو عشق کو میٹھی اور لذت بھری چیز کہتے ہیں۔ عشق کو بہاروں سے تشبیہ دیتے ہیں۔
حقیقت میں تو عشق خزاں کے ایسے موسم کا نام ہے جو ہرے بھرے درختوں کو پتوں سے خالی کر دیتی ہے۔ اسی طرح عشق بھی زندگی کو خوشیوں سے خالی کر دیتا ہے۔
عشق تو زہر سے بھی کڑوی شے کا نام ہے جسے حلق سے اُتارنے میں سارا اندر چھلنی چھلنی ہو جاتا ہے۔
وہ کامرس ڈیپارٹمنٹ سے تھا جبکہ فریسہ بی بی اے ڈیپارٹمنٹ سے تھی۔ کبھی کاریڈورز میں تو کبھی کیفے میں اکثر وہ اُسے دکھائی دیتا۔ اُس کی پرسنلٹی ایسی تھی جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ایسے ہی نجانے کب اور کیسے اُسے اُس سے محبت ہو گئی۔
محبت ہمیشہ انجانے میں ہی ہوتی ہے اور اُس سے ہوتی ہے جس سے غلطی سے بھی نہیں ہونی چاہئیے۔ جو سوچ سمجھ کے کی جائے وہ محبت نہیں ہوتی۔
موبائل پہ آنے والی ڈرائیورکی مسڈ کال سے اپنی سوچوں سے باہر نکلتے وہ پارکنگ ایریا کی طرف چل دی۔
٭٭
محبت کی آبلہ پائی نے مجھے یوں گُمنام کر ڈالا
کہ ستارے مشعلیں لے کر ہیں مجھ کو ڈھونڈنے نکلے
شاہ ویز پہ حملہ ہونے کے ایک ہفتے بعد۔۔ ۔۔
رات کا وقت تھا۔ چاروں طرف سُناٹا چھایا ہوا تھا۔ گاؤں والے اپنے بستروں میں دبکے میٹھی نیند سو رہے تھے۔ کالی چادر میں اپنا منہ ڈھانپے کوئی وجود درختوں کے جھُنڈ سے ہوتا ہوا ڈیرے کی طرف آیا۔ ڈیرے کا گیٹ تھوڑا سا کھُلا ہوا تھا جس سے وہ با آسانی بنا آواز پیدا کیے اندر داخل ہو گیا۔
بھینسوں کے باڑے سے ہوتا ہوا دائیں طرف واقع اندھیرے میں ڈوبے کمرے میں داخل ہوا۔
ایک مخصوص جگہ زمیں میں فٹ ڈھکن اُٹھا یا۔ اُس میں داخل ہو کے ڈھکن کو دوبارہ اپنی جگہ پہ فٹ کر کے اپنی جیب سے ٹارچ نکال کے جلاتے ہوئے وہ سیڑھیاں اُتر کے ایک ہال نما کمرے میں آ گیا۔ ٹارچ بند کر کے جیب میں رکھی۔ منہ سے چادر ہٹاتے وہ چلتا ہوا سامنے زیرو بلب کی روشنی میں بیٹھے شاہ ویز کے پاس آیا۔
ادب سے جھکتے ہوئے سلام کیا۔
’سلام چوہدری صاحب۔۔ ‘
’وعلیکم السلام۔۔ ! آؤ خان بیٹھو۔ ‘
اُس نے سلام کا جواب دیتے اُسے بیٹھنے کا کہا۔
وہ نیچے زمیں پہ بیٹھنے لگا۔
’خان۔۔ ۔ تم میرے وفادار دوست ہو۔ نیچے بیٹھو گے تو مجھے اچھا نہیں لگے گا۔ ادھر کُرسی پہ بیٹھو۔ ‘
شاہ ویز نے اپنے سامنے رکھی کُرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’ وہ جھجھکتے ہوئے کرسی پہ بیٹھ گیا۔
’چوہدری صاحب خاکسار کو اتنی عزت دینے کا شکریہ۔ ‘
’کہو کیا خبر لائے ہو؟‘
’اس دفعہ بھی آپ پہ حملہ چوہدری امتیاز علی کے بیٹے نے ہی کروایا ہے۔ کل شام حویلی میں ایک چھوٹا سا فنکشن رکھا گیا ہے جس میں اُس کے بیٹے کا نکاح امتیاز علی کی خالہ زاد بہن کی بیٹی سے ہو گا۔ سارے مہمان پہنچ چُکے ہیں سوائے امتیاز علی کی پوتی کے۔ اُسے لینے کے لیے صبح صبح حویلی سے کوئی جائے گا۔ ‘
جھُکے ہوئے سر سے اطلاع باہم پہنچائی گئی۔
’خان مجھے وہ لڑکی کل میرے شہر والے فلیٹ میں چاہئیے ہر حال میں۔ ‘
اُس نے سائیڈ پہ پڑی بوتل اُٹھا کے گلاس میں مشروب انڈیلتے ہوئے کہا۔
’جو حُکم چوہدری صاحب۔ ‘
پہلی دفعہ اُسے کوئی ایسا حکم دیا گیا تھا۔ خان نے کن اکھیوں سے اُسے مشروب کا گلاس ہونٹوں سے لگاتے دیکھا۔ وہ اپنے محسن کو پہلی دفعہ اس مشروب سے دل بہلاتے دیکھ رہا تھا۔
’خان پیو گے ؟‘
اُس نے اُسے آفر کی۔
’استغفرُاللہ!‘
خان کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولا۔
وہ مُسکرا دیا۔
خان نے اجازت مانگی۔
نگاہوں کے اشارے سے اجازت دی۔
خان چلا گیا۔
رات دھیرے دھیرے ڈھلتی گئی۔
وہ آہستہ آہستہ پیتا گیا۔
صبح کے نمودار ہونے سے پہلے وہ لڑکھڑاتے ہوئے چوروں کی طرح حویلی کے پچھلے دروازے سے ہوتا اپنے کمرے میں بیڈ پہ گرتے اردگرد سے بے خبر ہو گیا۔
٭٭
آج کافی دنوں بعد جنوری کی دھوپ کسی حسین جوان دوشیزہ کی طرح انگڑائی لے کے بیدار ہوئی۔
چاروں اور جیسے چاندنی بکھر گئی۔۔ ۔۔
سُنہری چاندی کی طرح چمکتی دھوپ آنکھوں کو حدت پہچانے لگی۔
اُن سب کا آج یونیورسٹی میں آخری دن تھا۔
اُداسی چاروں طرف ڈیرہ ڈالے برا جمان تھی۔
دو دلوں میں ایک ہی انسان کی جُدائی کے خیال سے قیامت برپا تھی۔
اتنی زور سے دھڑک رہے تھے گویا ابھی سینہ چیر کے باہر آ جائیں گے۔
محبت بھی عجب شے ہے جتنا بھی محبت کے پیچھے بھاگو گے، اُتنا ہی محبت آپ سے دور بھاگے گی۔ کبھی ہاتھ نہیں آئے گی۔ بھاگتے بھاگتے جب پاؤں تھک جائیں۔ روح چھلنی ہو جائے۔ پھر آبلہ پائی مقدر میں لکھ دی جاتی ہے۔ تہی داماں رہ جاتے ہیں محبت کرنے والے۔
پہلی محبت یادوں کی راکھ کے ساتھ دل کے سب سے اوپر والے نُمایاں خانے میں دفن کر دی جاتی ہے۔
پھرزندگی جبر مسلسل کی طرح بہت حوصلے اور صبر سے جس کے ساتھ مرضی کاٹنی پڑے۔ بہت ہی خوبصورتی اور کمال مہارت سے لبوں پہ مُسکراہٹ سجائے کا ٹتے جاتے ہیں۔
پہلی محبت کبھی نہیں مرتی، وہ ہم میں تب تک زندہ رہتی ہے جب تک ہم زندہ رہتے ہیں۔
کیا ہی بہتر ہو ہم محبت کے پیچھے بھاگیں ہی نہ۔۔ کاش ایسا ممکن ہوتا کہ ہم ’بھاڑ میں جائے محبت ہم تو جینے چلے ‘کہہ کے آگے بڑھ جاتے۔
فریسہ یک طرفہ محبت کی کسک لیے اپنے شہر کی طرف روانہ ہو گئی۔
زُباریہ بہت ہمت اور حوصلے سے لبوں پہ مُسکراہٹ سجائے ملک سے باہر اپنے والدین کے پاس چلی گئی۔
سکندر دل میں محبتوں کا جہاں آباد کیے بے تابی سے اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا۔
یونیورسٹی کی بلند و بانگ عمارت نے ہر سال کی طرح اس سال بھی بہت سے راز اپنے اندر سمو لیے۔
٭٭
’واؤ۔۔ ۔ واٹ آ ڈریمیٹیکل پلیس۔ ‘
اُس جگہ پہ نظر پڑتے ہی بے اختیار اُس کے لبوں سے نکلا تھا۔
کیا مبہوت کر دینے والا نظارہ تھا خوابوں کی دُنیا سے بھی خوبصورت، آنکھوں کو خیرہ کر دینے والا نظارہ۔
وہ بے تابی سے آگے بڑھی۔
شفاف آئینے کی طرح چمکتے پانی کی جھیل کچھ دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ جن میں اونچے اونچے سبز درختوں کا عکس پانی پہ پڑنے کی وجہ سے پانی کی رنگت سبزہ مائل دکھائی دے رہی تھی۔
جس پہ چار چاند سورج اپنی سُنہری کرنیں بکھیر کے لگا رہا تھا۔
جھیل کے ختم ہوتے ہی سامنے سبزے سے ڈھکا راستہ ڈھلوان کی طرح اوپر چڑھ رہا تھا۔ جس پہ سُرخ رنگ کی چادر اوڑھے محل نما کوٹھی اپنی شان و شوکت سے کھڑی تھی۔
کوٹھی سے اوپر نظریں اُٹھاؤ تو خوبصورت درخت قطار در قطار کھڑے نیلے آسماں کو چھوتے محسوس ہو رہے تھے۔ ایسے جیسے آسماں سے باتیں کرنے میں مصروف ہوں۔
ہوا بھی محبت کی چادر اوڑھے ہنستی کھلکھلاتی وادی کی ہر چیز کو چھو کے گُزر رہی تھی۔
نکاح کے بعد شاہ ویز کی طرف ملنے والے اس انمول تُحفے پہ اُس نے نگاہوں میں شُکریہ کے جذبات لیے اُس کی طرف دیکھا تھا۔
وہ لبوں پہ قاتل مُسکراہٹ سجائے اُس کی طرف بڑھا۔
اُس کا ہاتھ تھام کے لبوں سے لگایا اور دوسرا بازو اُس کی کمر کے گرد حائل کرتے اُسے خود سے قریب کر لیا۔
حیا دھنک رنگ اوڑھ کے اُس کے چہرے پہ بکھر گئی۔
لانبی پلکیں رقص کرنے لگیں۔
وہ اپنا چہرہ اُس کے چہرے کے قریب لاتے اُس کے گال سے رگڑنے لگا۔
ہلکی ہلکی رکھی داڑھی کے بال اُسے گُد گُدانے لگے۔
وہ اُسے لیے کنارے لگی سُرخ رنگ کی کشتی کی طرف بڑھا۔
وہ دونوں اُس میں بیٹھے تو کشتی خود بخود چلنے لگی۔
وہ اُنہیں لیے کنارے پہ پہنچی۔
وہ اُتر کے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ڈھلوان چڑھتے اوپر آ گئے۔
انوشے نے اپنا رُخ جھیل کی طرف کیا۔ دونوں بازو ہوا میں پھیلا دئیے۔ آنکھیں بند کر لیں۔ اور کھلکھلاتے ہوئے اُس کے لبوں نے شاہ ویز کا نام وادی کے سُپرد کیا۔
اُس کی مام نے اُس کے لبوں کو کوئی لفظ ادا کرتے سُنا، لیکن آواز اتنی آہستہ تھی کہ وہ سمجھ نہ سکیں۔
اُنہوں نے خاموشی سے اُس کی طرف دیکھا جو صبح اُٹھنے کے بعد لاؤنج میں آ کے دوبارہ صوفے پہ سو گئی تھی۔
اُس کے چہرے پہ اس وقت خوشی کا ایسا منظر چھایا ہوا تھا وہ بھی دیکھتے ہوئے مُسکرا دیں۔
لگ رہا تھا بہت حسین خواب نے اُسے اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔
انوشے کے ذہن میں بہت سوال منڈلاتے جو وہ اپنے والدین سے پوچھنا چاہتی تھی۔ لیکن اُس کی ہمت ہی نہ ہوتی۔ اس لیے وہ بات ہی بدل دیتی۔ اب وہ خوابوں کے ذریعے خود کو بہلانے لگی تھی۔ اب وہ پریشان بھی نہیں ہوتی تھی۔ مانا اُس کا درد بہت گہرا تھا لیکن اُسے پریشان دیکھ کے اُس کے ماما بابا اور بہن بھائی جو پریشان ہوتے۔
اُس سے اُن سب کی پریشانی بھی نہیں دیکھی جاتی تھی۔
اس لیے وہ اب آہستہ آہستہ نارمل ہو رہی تھی۔ صبح جب اشعر اور ہالے سکول چلے جاتے اور اُن کے بابا اپنے آفس
تو پھر وہ دونوں ماں بیٹی ساتھ میں وقت گُزارتیں۔ آج کل انوشے فری تھی۔ اُس کی سکول لائف ختم ہو گئی تھی۔ وہ اُس کے ساتھ وقت گُزار کے ان ڈائریکٹلی اُسے اُس کی جو بھی پریشانی تھی اُس سے باہر نکال رہی تھیں۔
اب بھی وہ اُسے یوں خواب میں مُسکراتا دیکھ کے خود بھی مُسکراہٹ لبوں پہ سجائے اُدھر سے اُٹھتے ہوئے کچن کی طرف چل دیں۔
٭٭
تیری یادیں، تیری باتیں بکھری ہیں میرے کُو بکُو
میری چاہت، میری راحت بس تُو ہی تُو میرے چار سُو
وہ شاہ ویز کے ساتھ محبتوں کے جہاں میں محبتوں کے سنگ کھلکھلا رہی تھی۔
ایک دم ہی زندگی بہت خوبصورت ہو گئی تھی۔
کہ اچانک کان کے پاس بجتی رنگ ٹون اُسے خوابوں کی دُنیا سے باہر لائی اور وہ ہڑ بڑا کے اُٹھ بیٹھی۔
دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا کہ اُسے اپنا ہاتھ سینے پہ رکھ کے دل کو خاموش کروانا پڑا۔
اُس نے اردگرد دیکھا۔
وہ اپنے گھر میں تھی۔
’شٹ یہ خواب تھا۔ ‘
چند لمحوں بعد اُس نے بڑبڑاہٹ کی۔
اُسے یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ وہ خواب تھا اُس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اُسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ سچ میں شاہ ویز کے ساتھ اُس خوبصورت وادی سے ہو کے آئی ہو۔
ہائے۔۔ !قسم سے کچھ خواب ہی اتنے خوبصورت ہوتے ہیں کہ اُن کے سحر سے باہر نکلنے کو ہی دل نہیں کرتا۔
’ آج اُٹھنے کو دل نہیں کر رہا۔ سب ٹھیک ہے نا۔ ‘
مما کی آواز پہ اُس کا سحر ٹوٹا تھا۔
اُس نے انگڑائی لیتے ہوئے نفی میں گردن ہلائی۔
’نو مام۔۔ میرا دل کرتا کہ میں سو سو کے ہی مر جاؤں۔ ‘
’بدتمیز۔۔ ! ایسا نہیں کہتے۔ ‘
اُنہوں کے اُس کے پاس بیٹھتے ہوئے اُس کے بازو پہ چیت لگاتے ہوئے کہا۔
’مام۔۔ ۔ !‘ وہ دونوں بازو اُن کے گرد لپیٹتے اُن کے کندھے پہ سر ٹکاتے ہوئے بولی۔
اُنہوں نے اُس کے ماتھے کا بوسہ لیتے ہوئے کہا۔
’یس جان مام۔۔ ۔ !‘
’ مام۔۔ ۔ اگر کوئی ہمیں غلط سمجھتا ہو۔ ہم سے نفرت کرتا ہو۔۔ تو ایسا کیا کرنا چاہئیے ؟
کہ اُس کی نفرت ختم ہو جائے۔ اُس کے دل میں ہمارے لیے اچھے جذبات پیدا ہو جائیں۔ از اٹ پاسیبل؟۔ ‘
وہ آنکھیں موندتے ہوئے بولی۔
’یس اٹ از پاسیبل۔ ‘ اُنہوں نے گردن ہلاتے ہوئے کہا۔
وہ فوراً آنکھیں کھول کے سیدھے ہو کے بیٹھ کے پوری طرح اُن کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولی۔
’مام ہاؤز اٹ پاسیبل۔ ؟ ٹیل می پلیز۔ ‘
وہ اُس کی بے تابی پہ مُسکرا دیں۔
’اگر آپ ایک دفعہ سورۃ الفاتحہ، تین دفعہ سورۃ الاحد اور ایک دفعہ درود ابراہیمی پڑھ کے اللہ تعالیٰ سے کہیں کہ اللہ یہ اُس انسان کے دل کو میری طرف سے تحفہ پہنچا دیں۔ تو اللہ پہنچا دیں گے۔ پھراُس کے دل میں خودبخود آپ کے لیے اچھے جذبات پیدا ہو جائیں گے۔ ‘
’ واؤ مام آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ تو کیا ایسا کرنے سے سچ میں ہمارا تحفہ پہنچ جائے گا۔ ؟‘
’ جو تحفہ اللہ کے ذریعے پہنچایا جائے وہ کیسے نہیں پہنچے گا؟
وہ تو اُسی وقت ایک منٹ کی تاخیر کے بنا پہنچ جائے گا۔ ہاں بس صبر دوسری شرط ہے۔ یہ نہ ہو ایک دفعہ تحفہ پہنچا کے یہ سمجھنے لگو کہ وہ اب فوراً آپ کے بارے میں اچھا سوچنا شروع کر دے۔ نہیں پہلے اس بات پہ یقین رکھو کہ آپ کا تُحفہ پہنچے گا۔ پھر صبر سے کام لو۔ پہنچاتی رہو۔ پھر دیکھنا ایک دن آئے گا۔ آپ کے بارے میں اچھی رائے ظاہرکرے گا۔ ‘
وہ اُن کا گال چومتے ہوئے بولی۔ ’ تھینک یو مام۔ فار شئیرنگ سچ آ بیوٹیفُل نالج۔ ‘
’بس بس اب زیادہ مسکے لگانے کی ضرورت نہیں۔ پانچ منٹ میں فریش ہو کے آؤ میں ناشتہ لگا رہی ہوں۔ پھر اپنے فارم بھی نکال کے رکھو۔ تمہارے بابا کہہ رہے تھے کالج میں ایڈمیشن اوپن ہو گئے ہو۔ ‘
’اوکے دی ورلڈ بیسٹیسٹ مام۔ آپ کا حُکم سر آنکھوں پہ۔ ‘
اُس نے اُٹھ کے اپنا ہاتھ ماتھے پہ لے جا کے جھُکتے ہوئے اُنہیں آداب پیش کرتے ہوئے کہا۔
پھر دونوں ماں بیٹی کے قہقہے گھر کے درو دیوار نے بہت دنوں بعد سُنے تھے۔
٭٭
کبھی محبت اور عزت میں سے کسی ایک کو چُننا پڑے تو تم عزت کو چُننے میں پہل کرنا
اُن کا پورا گروپ ہاسٹل کے لان میں بیٹھ کے کل کے ٹیسٹ کی تیاری کر رہا تھا۔ سدرہ سب کو سمجھا رہی تھی۔ باقی سب بہت توجہ سے سمجھنے میں مصروف تھیں سوائے وجیہہ کے۔ جو گود میں کتاب کھولے اپنے ہی خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ سمجھاتے سمجھاتے سدرہ نے جب سر اُٹھا کے دیکھا اوراُس کی نظر سیدھی سامنے بیٹھی وجیہہ پہ پڑی۔
تو اُس نے اچانک اُس کی گود سے کتاب اُٹھاتے ہوئے شرارت سے پوچھا۔
’اوئے ہوئے۔۔ کسے سوچا جا رہا ہے ؟ جو چہرے پہ دھیمی سی شرمیلی سی مُسکان، حیا کے رنگوں کے ساتھ چھائی ہوئی ہے۔ ‘
اُس کے کہنے پہ باقی چاروں بھی متوجہ ہو گئیں، اور اُسے دیکھنے لگیں۔ سب کو اپنی طرف تکتا پا کے وہ کنفیوز ہونے لگی۔
’ کیا ہے یار۔۔ !؟
سب ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟
اور تم ادھر کرو میری کتاب حد ہو گئی ہے، سمجھ تو رہی تھی میں۔۔ ۔ !‘
’نہ جی۔۔ ۔ سمجھ ہی تو نہیں رہی تھی۔ ہائے مجھے تو یاد ہی نہیں رہا تھا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے تمہارے گھر سے کوئی ملنے آیا تھا نا۔۔ ۔ اثرات بتا رہے ہیں کہ کون آیا تھا۔۔ ۔ اوئے ہوئے بتا نا۔۔ میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا۔ ؟‘
سدرہ نے اُسے تنگ کرتے ہوئے پوچھا۔ تو باقی بھی شروع ہو گئیں۔
آخر اُسے اعتراف کرنا ہی پڑا۔
’ہاں۔۔ احسن آئے تھے۔ ‘
’ہاں۔۔ احسن آئے تھے۔۔ ‘ سدرہ نے اُس کی نقل اُتارتے ہوئے کہا۔
مدیحہ بھی بولی۔۔
’اوئے ہوئے آئے تھے۔۔ واہ اتنی عزت۔۔ ‘
وجیہہ نے اُن کے اوئے ہوئے کہنے پہ بولی۔
’تو اس میں اوئے ہوئے کرنے والی کیا بات ہے۔ رشتہ کوئی بھی ہو اُس میں سب سے ضروری ایلیمنٹ عزت ہے۔ ‘
سارہ نے اُس کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا۔
’ جی نہیں۔۔ محبت سب سے ضروری ایلیمنٹ ہوتا ہے۔ ‘
وجیہہ سارہ کی بات سُن کے بولی۔
’کیسے ؟؟؟ فرض کرو ایک انسان تمہیں بہت محبت دیتا ہے۔ لیکن تمہیں عزت نہیں دیتا۔ بات بات پہ تمہاری بے عزتی کرتا ہے۔ تو کیا تم اُس انسان کے ساتھ رہ لو گی؟ تمہارا دل نہیں کرے گا کہ وہ تمہیں عزت سے مُخاطب کرے ؟ آرام سے سوچ کے بتاؤ۔ ‘
’کرے گا۔ ‘
’تو پھر بتاؤ کونسا ایلیمنٹ ضروری ہے ؟‘
’عزت۔ ‘ سارہ نے اعتراف کیا۔
’ چلو اب بس آ جاؤ واپس ٹاپک پہ۔ شام ہونے سے پہلے اسے مکمل کرنا ہے۔ ‘
سدرہ نے کہتے ہوئے دوبارہ کتاب پہ سر جھُکا دیا۔ باقی بھی پڑھنے میں مشغول ہو گئیں۔ پھر رات کو اُس کی دوستوں کی طرف سے ملنے والی سرپرائز برتھ ڈے پارٹی نے اُس کا دن اور خوبصورت اور یادگار بنا دیا۔
٭٭
گرمیوں کے دن تھے۔ سخت دھوپ گراں گُزر رہی تھی۔
کہ دوپہر کے بعد آسماں پہ بادلوں کی آمد نے اچانک آ کے سر پرائز دے دیا۔
اس سرپرائز نے سب جانداروں کے چہروں پہ مُسکراہٹ بکھیر دی۔
ہواؤں کی آمد نے موسم کو خوشگوار بنا دیا۔
پرندے جو کچھ دیر پہلے گرمی سے بے حال ہو کے اپنے گھونسلوں کی چھاؤں میں بیٹھے تھے۔ باہر نکل کے کھُلے آسماں تلے چہکتے ہوئے ایک درخت سے دوسرے درخت پہ جھومنے لگے۔
زُلیخا کو بھی اُس کی سکھی نے پیغام بھجوایا۔۔ باغوں کی طرف جانے کا۔ امی حیات ولا گئی ہوئی تھیں۔ وہ اُن سے اجازت لینے کے لیے اپنی حویلی کا گیٹ پار کرتے ہوئے حیات ولا کا گیٹ کھولتے ہوئے اندر داخل ہو گئی۔
سامنے آنگن میں جامن کے درخت کے نیچے چارپائی پہ امی کے ساتھ بیٹھی تائی جان کے ساتھ بیٹھتے ہوئے وہ بولی۔
’السلام علیکم تائی امی۔۔ !‘
’وعلیکم اسلام۔۔ ! جیتی رہو۔۔ ۔ ‘ تائی امی نے اُسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
وہ اپنی امی سے مُخاطب ہوئی۔
’امی جان۔۔ دیکھیں نا۔۔ کتنا پیارا موسم ہو گیا ہے۔۔ ۔ ‘
وہ اُس کی بات کاٹ کے بولیں۔
’ اور اب تمہارا دل باغوں کی طرف جانے کو مچل رہا ہو گا۔ ‘
ہائے۔۔ سچی۔۔ ۔ امی آپ کتنی اچھی ہیں نا۔۔ بنا کہے میرے دل کی بات جان جاتی ہیں۔ ‘
وہ اس طرح چہکتے ہوئے بولی کہ امی اور تائی امی دونوں ہنسنے لگیں۔
سیڑھیاں اُترتے یوسف نے اُس کے آخری الفاظ سُن لیے۔
’چاچی جان کونسی دل کی بات جان لی ہے آپ نے ؟۔ ‘
وہ پاس آ کے کن اکھیوں سے زُلیخا کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
’کچھ نہیں۔۔ بس ذرا ہوا کیا چلنے لگ جائے اس کا باغوں کی طرف جانے کو دل مچلنے لگ جاتا ہے۔ ‘
زُلیخا کی امی نے جواب دیا۔ تو وہ کہنے لگا۔
’تو جانے دیں نا۔۔ میں بھی اُدھر ہی جا رہا ہوں۔ بلکہ میرے ساتھ ہی بھیج دیں۔ ‘
’نہیں۔۔ میں نے اپنی سہیلیوں کے ساتھ جانا ہے۔ ‘
’ ہاں سہیلیوں کے ساتھ جانا ہے اور پھر شام کو ہی واپس آنا ہے۔ کوئی ضرورت نہیں۔ جانا ہے تو یوسف کے ساتھ ہی جاؤ۔ اور ایک گھنٹے میں واپس آؤ۔ ‘
’ اچھا ٹھیک ہے میں چادر لے لوں۔ ‘ ڈانٹ سُننے کے بعد وہ اُٹھتے ہوئے منہ بنا کے بولی۔
یوسف بھی اُنہیں سکندر کے آنے کی اطلاع دیتے ہوئے باہر نکل آیا۔
٭٭
وہ دونوں درختوں کے جھُنڈ سے ہوتے ہوئے گُزر رہے تھے کہ اوکاں کا درخت دیکھتے ہوئے زُلیخا رُکتے ہوئے یوسف سے بولی۔
’یوسف۔۔ !؟‘
’جی جان یوسف۔ ؟‘
اُس کے یوں کہنے پہ وہ اُسے گھورتے ہوئے بولی۔
’میں اسی لیے آپ کے ساتھ نہیں آ رہی تھی۔ ‘
وہ شرارت سے بولا۔
’ چلو اب تو آ گئی ہو نا۔۔ بتاؤ کیا کہنا تھا۔ ‘
وہ منہ پھُلاتے ہوئے بولی۔
’کچھ نہیں۔ ‘
اُس نے سیریس ہو کے کہا۔
’چلو اب بتا بھی دو۔ ‘
اُسے سیریس دیکھ کے وہ بتانے لگی۔
’اس درخت کے پاس سے گُزرتے نجانے مجھے کیوں ایسا لگتا جیسے یہ درخت مجھے اپنے پاس بُلا رہا ہو۔ مجھے کہہ رہا ہو کہ کچھ دیر آ کے میرے پاس بیٹھو۔ کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا ہے ؟‘
’نہیں۔۔ میرے ساتھ تو کبھی ایسا نہیں ہوا۔ ویسے اچھا لگتا ہے دیکھنے میں۔ ‘
’تو پھر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟‘
’کیونکہ اس درخت کا نام ہی مہرباں دوست ہے یہ ہر کسی کو اتنی ہی محبت سے اپنے پاس بُلاتا ہے۔ لیکن صرف حساس لوگ ہی اسے محسوس کر سکتے ہیں۔ ‘
’واؤ گُڈ۔۔ آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ ‘
’پہلے کبھی تم نے پوچھا ہی نہیں۔ اب آگے جانا ہے یا ادھر سے ہی واپس جانا کا ارادہ ہے ؟‘
یوسف کے کہنے پہ اُس نے آگے کی طرف قدم بڑھا دئیے۔ گاؤں کا چوتھا حصہ تو اس باغ پہ مُشتمل تھا۔ یہ حیات ولا اور شہباز ولا والوں کی ملکیت تھا۔ اُن کے علاوہ ادھر کسی کو آنے کی اجازت نہیں تھی۔ سوائے مالی لوگوں کے۔ جنہیں اس باغ کی دیکھ بھال کے لیے رکھا گیا تھا۔
چلتے چلتے یوسف نے اُس کا ہاتھ تھام لیا۔
وہ رُک گئی۔
پلٹ کے سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھا۔
’ میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکوں گا۔ میں مر۔۔ ۔ ‘
اُس نے فوراً اُس کے لبوں پہ اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
’اللہ نہ کرے۔۔ ۔ یہ اچانک چلتے چلتے کیا ہوا ہے آپ کو؟‘
وہ اُس کا ہاتھ ہٹاتے درخت کے تنے سے ٹیک لگا تے ہوئے بولا۔
’پتہ نہیں کیوں رات سے مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے کچھ غلط ہونے والا ہے۔ میری چھٹی حس کسی خطرے کا اعلان کر رہی ہے۔ اسی لیے تمہاری آواز سُنتے ہی آ گیا تھا۔ ‘
وہ اُس کی بات جھٹلاتے ہوئے بولی۔
’کچھ نہیں غلط ہونے والا۔ ایسے ہی آپ کو لگ رہا ہو گا۔ وہم ہو گا آپ کا۔ ‘
’اللہ کرے وہم ہی ہو۔ بس کوئی تمہیں مجھ سے جُدا نہ کرے۔ ورنہ میں جی نہیں پاؤں گا۔ ‘
اُس نے بے بسی سے کہا۔
تو زُلیخا کی آنکھوں سے آنسو نکل کے اُس کے گالوں پہ پھسلنے لگے۔
’ آپ سے پہلے میں مر جاؤں گی۔ ‘
’پاگل۔۔ ۔ !‘ یوسف اپنی انگلیوں سے اُس کی آنکھوں سے بہتے موتی چُننے لگا۔
وہ اُس کے بازو سے سر ٹکا کے رونے لگی۔
’اب اس طرح کرو گی تو میں نے کوئی گُستاخی کر دی پھر تمہیں ہی اعتراض ہونا ہے۔ ‘
یوسف کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ اُس نے فوراً اپنے آنسو پونچھے اور واپسی کے راستے پہ قدم بڑھا دئیے۔
یوسف بھی اُس کے قدموں کے نشانوں پہ چلنے لگا۔
٭٭٭