جو کسی کی عزت اتار کر اپنی عزت کو ڈھانپتے ہیں وہ ہمیشہ ننگے رہتے ہیں۔
٭٭٭
جس جھوٹ کو آپ ظاہری حفاظت کے لئے بولتے ہیں وہ آپ کو اندر سے تباہ کر دیتا ہے۔
٭٭٭
بے غیرت وہ ہے جسے عزت ملے مگر وہ اُس کی حفاظت نہ کر سکے۔
٭٭٭
پتھر دلوں پر المیہ اثر نہیں کرتا …!
٭٭٭
اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ ہاتھ اوپر والا ہے نیچے والے ہاتھ ہمیشہ شکریہ کے لئے ہیں … کام کرنے والا ہاتھ بھی نیچے نہیں ہو گا۔
٭٭٭
عدالت پر سنگ باری عدل کو سنگسار کرنے کے مترادف ہے جب قانون کا محافظ انصاف کو خود ذبح کرے گا تو خون ناحق انصاف کے لئے کس کو پکارے گا۔
٭٭٭
شریف النفس وہ ہوتا ہے جو طاقت رکھتے ہوئے کسی کا نقصان نہ کرے اور معاف کرنے والا جذبہ ہمیشہ اُس پر حاوی ہو۔
٭٭٭
کمزور اور بدنام قوم کبھی اپنا مقام نہیں بنا سکتی جس کا سارا وجود الزام تراشیوں سے تراشہ گیا ہو
٭٭٭
جس شخص کے پاس اپنی عزت نفس کے لئے کچھ نہیں دوسرا اِسے عزت کی نگاہ سے کیوں دیکھے گا۔ جو شخص بھیک بھی مانگتا ہو اور سخی کو قتل کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہو اُس کی ایک آنکھ میں عیاری اور دوسری میں مکاری ہوتی ہے ایسے شخص کے ایمان پر کبھی یقین مت کرو خواہ وہ قرآن ہاتھ پر اٹھائے اور ہاتھ خدا کی طرف بلند کرے۔
٭٭٭
جن کا دلیل والا خانہ خالی ہوتا ہے اُن میں کمینہ پن اور بے غیرتی والا مادہ زیادہ ہوتا ہے وہ نرم لہجہ کے مقابلہ میں تلخ اور بلند آواز کو بڑا پن سمجھتے ہیں وہ شرافت والی زبان سے نابلد ہوتے ہیں ایسے لوگوں کی ساری زندگی تلخ ماحول میں گزرتی ہے اور اِن کے دل خوف خدا سے خالی ہوتے ہیں جن کا دلیل خانہ خالی ہوتا ہے یہ ہر وقت فائدہ اور فتح کی آرزو رکھتے ہیں۔
٭٭٭
حالات کی رو میں بہہ جانے والا نہ سمجھدار ہے اور نہ ہی عقل مند وہ مالی نقصان سے بچ سکتا ہے مگر ذہنی نقصان سے نہیں … سب سے زیادہ ذہنی اور قلبی نقصان ہوتا ہے عبادت بھی اِس نقصان سے بچنے کے لئے ہے … اِس سے بچنا نیکی ہے۔
٭٭٭
جن کی ساکھ ٹھیک نہیں اُن کا ایمان مشکوک ہے اُن کے دل جھوٹے اور ہمیشہ دماغ میں ناجائز فائدہ سوچتے رہتے ہیں اور اُن کے ہر اٹھائے ہوئے قدم میں نقصان ہوتا ہے۔ زندگی میں بہترین دولت ساکھ ہے۔
٭٭٭
جو شخص اپنے رویوں پر کڑی نظر رکھتا ہے وہ جانتا ہے کون سے راستے پر وہ چل رہا ہے اور جو یہ جانتا ہے یہ راستہ کہاں جاتا ہے وہ کبھی غلط راہ پر نہیں چلتا راہ راست کا انتخاب انسان کو منزل پر لے جاتا ہے۔ جو غلط راستہ پر چلتے ہیں انہیں منزل نہیں ملتی وہ ساری زندگی خوار ہوتے ہیں اور فضولیات میں گزار دیتے ہیں وہ سب کچھ کرنے کے باوجود اطمینان سے دور رہتے ہیں۔
٭٭٭
جس معاشرہ میں انسانیت کے قتل عام پر عوام خاموش ہے وہاں انسانوں کا قتل کوئی المیہ نہیں ایسا معاشرہ اسلامی اور انسانی ہر گز نہیں جہاں سر عام دیانت کے چہرے کو مسخ کر کے اُس کے حق میں دلائل دیئے جائیں اور قومی دولت پر دن دھاڑے ڈاکہ ڈال کر اُس کے حق میں جواز پیش کیا جائے کہ لوٹ مار میں مساوات ہونی چاہئے ایسا ملک کبھی بھی بھوک، افلاس اور غربت سے نہیں نکل سکتا اور اِس میں بسنے والی قوم ذہنی مفلس اور غلام رہتی ہے جب قانون کا وکیل قانون کا مذاق اڑائے جب جج اپنے نفس کی پیروی کے لئے انصاف نہ کرے دانستہ غلط فیصلے کر کے حاکم وقت کے ہاتھ مضبوط کرے وہ عدالتیں نہیں ہوتیں غنڈوں کا ڈیرہ ہوتا ہے جہاں سارے فیصلے بدمعاشی کے زور پر کروائے جائیں وہاں انسانیت کا قتل عام ہوتا ہے وہ نظام اسلام کے ساتھ مذاق ہوتا ہے جہاں بددیانتی کا دفاع کیا جائے وہاں چور ،چوروں کے حق میں فیصلے کرتے ہیں۔
٭٭٭
جب تک آپ کسی کے ظرف کو نہ پہچان لیں اُس وقت تک اُس سے تعلقات استوار مت کریں۔ جب تک آپ کو یقین نہ ہو جائے آپ کے تعلق والا آپ سے مخلص ہے اُس وقت تک آپ اُس کی دعوت قبول مت کریں۔ جو شخص چائے کی پیالی اور ریاکاری والی زبان سے آپ کا اعتماد اور اعتبار لوٹ لے ایمان اُس کے قریب سے بھی نہیں گزرتا … لوگ ایمان کی قسم اٹھاتے ہیں اپنے ایمان کو روزمرہ میں استعمال نہیں کرتے کیونکہ ایسے لوگوں کا ایمان مسلک پرست مولوی کا ادھار والا ایمان ہوتا ہے جس کا ظرف چھوٹا اور بات بڑی کرتا ہے۔ بات اللہ اور رسولﷺ کی کرتا ہے اور اُس میں مطلب اور مفاد اُس کا اپنا ہوتا ہے ایسے ایمانداروں کی وجہ سے معاشرہ میں اداسی پریشانی اور بے اطمینانی ہے لوگ تعلقات کی آڑ میں نقصان کرتے ہیں لہذا کسی کے ظاہری ایمان کو دیکھ کر دھوکا مت کھائیں انسان تلاش کرنا ہے تو پہلے پہل اپنے آپ میں انسانیت تلاش کریں اور جب انسانیت مل گئی تو پھر انسان خودبخود آپ سے ملاقاتی ہو جائے گا۔ جب تعلقات بناؤ تو باہر نکلنے کے راستے کا انتخاب پہلے کر لو لوگ ہوتے کچھ ہیں اور بنتے کچھ اور ہیں، یہ ایمان اور یقین کی کمزوری ہے ایسے لوگ جیسی دنیا میں زندگی بسر کرتے ہیں ایسی ہی آخرت والی زندگی نصیب ہو گی سوچنے والی بات پر غور ضرور کرو اور بُری بات پر بُرا ضرور مناؤ ورنہ بُری باتیں آپ کے ظرف کو گندہ کر دیں گی بتاؤ میری اِس تحریر میں کتنا سچ ہے؟۔
٭٭٭
ذہنی کمزور لوگ اکثر غلط فیصلے کرتے ہیں اور جن کی قوت فیصلہ کمزور ہو اُسے ہم راز اور دوست مت بناؤ خواہ وہ آپ کا عزیز رشتہ دار ہو یا پڑوسی ایسے لوگ آپ کا ساتھ کبھی نہیں دیں گے جب آپ پر کوئی کڑا وقت آئے گا بلکہ یہ تماشائیوں میں شامل ہوں گے۔
٭٭٭
دوست بناتے وقت دشمنی ذہن میں رکھیں اور دشمنی بناتے وقت دوستی ذہن میں رکھیں بہرحال گھر کے سارے دروازے مقفل مت کریں شاید آپ کو ہنگامی طور پر باہر نکلنا پڑے۔ کسی معاملہ کی انتہا تک جانے سے پہلے اُس کے نتیجہ اور انجام کو نظر میں ضرور رکھیں مہربان ہر وقت آپ کے ساتھ ہے اُس کی ہدایت اور حکم پر عمل کریں وہ ہماری نیت کو جانتا ہے اور وہ بھی جانتا ہے جو عدم میں ہے … زندگی کے ہر معاملہ میں ایک قدم پیچھے ہٹ کر اننگ کھیلیں آؤٹ ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے خواہ سکور کم بنیں۔ دوست اور دشمن میں فرق ضرور رکھیں جس پر احسان کرتے ہیں اُس سے زیادہ احتیاط کریں وقت نہیں بدلتا لوگ وقت آنے پر بدل جاتے ہیں راستے نہیں بدلتے مسافر بدلتے ہیں … دوران سفر اپنی سیٹ پر آرام سے بیٹھیں دوسرا کہاں بیٹھا ہے اور کیا کر رہا ہے یہ سوچ کر اپنے ذہن کو متغیر مت کریں یہ نفسیاتی بیماری ہے۔
٭٭٭
بُرے رویے انسان کی ظاہری خوبصورتی کو کھا جاتے ہیں زبان میں انسان خود چھپا ہوا ہے سارے حواس اُس کی غمازی کرتے ہیں خواہ وہ خاموش رہے۔
٭٭٭
دوسروں کی باتوں پر وقت ضائع کرنے سے یہ نہایت فائدہ مند ہے کہ آپ اپنی کہی ہوئی بات پر توجہ دیں آپ کیا کہہ رہے ہیں کیونکہ یہ آپ کی ذات کی عکاسی کرتی ہے۔
لوگوں کی 90%باتیں لایعنی، لا فہم اور فضول ہوتی ہیں جب آپ کو یہ معلوم ہی نہ ہو آپ بات کیا کر رہے ہیں اور اِس کا آپ کی ذات کے ساتھ تعلق کیا ہے تو وہ بات آپ کو فائدہ دے نہ دے آپ کا نقصان ہو سکتا ہے۔ حواس کو زندہ رکھو آپ کوئی بات فضول نہیں کریں گے مردہ حواس مردہ زندگی زندہ حواس زندہ انسان …!
٭٭٭
جو قوم ہوس پرستی کا شکار ہو جاتی ہے وہ دنیا میں رسوا ہو جاتی ہے۔ قوموں کے وقار کی بنیاد اُن کی اخلاقیات پر ہے جو قوم صفائی نہیں رکھتی اُس میں نصف سے کم ایمان ہوتا ہے اور جو من الحیث القوم بد دیانت ہے اُس میں انسانیت بالکل نہیں ہوتی وہ حیوانات سے بدتر ہوتے ہیں خواہ اُن کے گھر بڑے اور صاف ہوتے ہیں اُن افراد کے ذہن گندے اور غلیظ ہوتے ہیں۔
٭٭٭
جس میں احسان کرنے والا جذبہ نہیں وہ آخری درجہ کا بخیل ہے جو فرض پورا کر کے اُسے مہربانی سمجھتے ہیں اُن کے احساس ذمہ داری میں اعتماد نہیں ہوتا۔ جو رحم کو ہر وقت نظر میں رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کا اُن پر ہر وقت رحم ہوتا ہے۔ رحم ایمان کا مضبوط ترین ستون ہے۔
٭٭٭
جھوٹ اگر چیخ چیخ کر بھی بولا جائے تو وہ سچ نہیں ہو جاتا اور سچ اگر آہستہ آہستہ بھی بولا جائے تو وہ جھوٹ پر بھاری ہوتا ہے لوگ جھوٹ سے اپنے جھوٹے نفس کو فریب دیتے ہیں مگر سچ سے اپنے نفس کی پرستش نہیں کرتے اِس وجہ سے اُن کی روح بے چین رہتی ہے اور ضمیر مردہ ہو جاتا ہے اِس وجہ سے انسان کے جسمانی نظام میں اس کا عمل ہوتا ہے ایسا شخص کبھی بھی اطمینان والی زندگی بسر نہیں کرے گا جو جھوٹ کو سچ سمجھ کر بولتا ہے وہ ذہنی اور نفسانی مریض ہوتا ہے اُس کا اپنی ذات پر اعتماد نہیں ہوتا بلکہ اُس کا خدا پر ایمان مشکوک ہوتا ہے۔
٭٭٭
جو عورت شوہر کا احترام نہیں کرتی اُن کے بچوں پر یہ حد لاگو نہیں ہوتی کہ وہ والدین کا احترام کریں۔ ماں کی زبان میں بچے بولتے ہیں وہ بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔
٭٭٭
آگے چلنے کا بڑا مزہ ہے مگر کسی نیک کے پیچھے چلنے کا اِس سے زیادہ مزہ ہے مگر بُرے کے نہ آگے چلو اور نہ پیچھے بلکہ اُس سے دور رہو …!
٭٭٭
جس معاشرہ میں حسن عاجزی نہیں وہ انتشار کا شکار رہے گا۔
٭٭٭
دولت عزت کی ضمانت نہیں زندگی کی ضرورت ضرور ہے۔
٭٭٭
جو عطار کی بات مانتے ہیں ضروری نہیں انہیں عطر بھی خالص ملتا ہے۔
٭٭٭
جب عدالت حیثیت دیکھ کر فیصلہ کرتی ہے تو پھر قانون کا منہ دوسری طرف ہوتا ہے قانون اندھا نہیں ہوتا مگر حیثیت کو دیکھ کر شرما جاتا ہے اِس وجہ سے معاشرہ میں ظالم کی حکومت ہے۔
٭٭٭
جب آپ یہ سوچتے ہیں کہ آپ کتنے لوگوں سے بہتر ہیں تو کیا یہ اُس سے بہتر نہیں کہ آپ سوچیں آپ سے کتنے لوگ بہتر ہیں اِس طرح یقیناً آپ کے اندر بہتر بننے کے جذبات شدت سے جنم لیں گے اور آپ کے اندر بہترین تبدیلی وجود میں آئے گی مگر یہ بھی بہتر ہے آپ سوچیں آپ کتنوں سے بہتر ہیں یہ راستہ شکر کی طرف جاتا ہے۔
٭٭٭
آپ جب یہ سوچتے ہیں کہ دوسرے کا نقصان کر کے فائدہ اٹھایا جائے تو کیا یہ بہتر سوچ نہیں کہ آپ دوسرے کو فائدہ پہنچا کر اپنے آپ کو فائدہ میں رکھیں مگر فطری اصولوں کی خلاف ورزی نہ ہو اور نہ ہی اعلیٰ اقدار کی بدنامی …!
٭٭٭
شعور کی زندگی انسانیت کی حیات ہے۔ انسانیت کی حیات معاشرہ کی خوبصورتی ہے۔ معاشرہ کا حسن اطمینان کی ضمانت ہے۔ اطمینان کی ضمانت دیانت ہے۔ دیانت فطرت کی روح ہے۔ فطرت کی روح خدا کا امر ہے اور خدا کے امر میں ساری کائنات ہے۔ شعور فطرت کی معرفت کو پا سکتا ہے انسان سوچتا جائے مگر ایک حد پر آ کر رک جاتا ہے اور وہ حد یہ ہے “خدا کیا ہے اور کیسا ہے”نظر نہیں آتا مگر نظر میں رہتا ہے اور ہر نظر آنے والی شئے میں موجود ہے ظاہر نہیں ہوتا محسوس ضرور ہوتا ہے در اصل کسی شئے کا احساس ہی اُس کا خالق ہے۔
٭٭٭
دوسروں کی دنیا کی فکر کرنے سے زیادہ اطمینان بخش فکر یہ ہے کہ آپ اپنی آخرت کی فکر کریں اِس طرح دنیا شاد اور آخرت آباد رہے گی۔
٭٭٭
بڑا بننے کے لئے پہلے چھوٹا بننا پڑتا ہے خواہ بڑا پیدا ہی بڑا کیوں نہ ہو …!
٭٭٭
خود شناسی انسان کو عاجز بنا دیتی ہے۔
٭٭٭
موت خدا کا ایک کھلا راز ہے اِس کے بارے میں ہر ذی نفس جانتا ہے مگر اِس راز حقیقت کی معرفت سے کوئی آگاہ نہیں۔ موت کی لطافت زندگی کی لطافت سے زیادہ سحر انگیز ہے بعد از موت کوئی غم، دُکھ، درد و الم، تکلیف، مصیبت، مشکل نہیں رہتی۔ موت کے یقین میں بھی زندگی کی تمنا ہوتی ہے، امید انسانی جبلت کا حصہ ہے۔ موت نظر آ رہی ہوتی ہے اور امید سہارا دیتی ہے۔
٭٭٭
جو مرنے والے سے نفرت کرتے ہیں اُن کا زندہ سے پیار مشکوک ہے۔
٭٭٭
شرفا کی نسل میں سے اگر کوئی شرافت چھوڑ دے تو سمجھ لو کہیں نسل میں بددیانتی ہوئی ہے۔
٭٭٭
جس کا احساس نہ ہو اُس کی یاد نہیں رہتی اور جس کی یاد نہ ہو وہ زندہ نہیں ہوتا خواہ آپ کے روبرو کھڑا ہو۔
٭٭٭
جو آپ کے غم میں شریک نہیں ہوتا آپ اُس کی خوشی میں شریک نہ ہوں غم انگیزی انسانی احساس کو بیدار کرتی ہے نا کہ خوش فہمی …!
٭٭٭
جو انسانا نسانیت کی حفاظت کرتا ہے وہ مومن ہے۔
٭٭٭
جب آپ کسی کا عیب ظاہر کریں گے تو کوئی آپ کا عیب ظاہر کرے گا اِس لئے پردہ پوشی کا حکم ہے جو سب کچھ جانتا ہے وہ سب سے بڑا پردہ پوش ہے۔
٭٭٭
مومن وہ ہے جسے غصہ دیر سے آتا ہے اور راضی جلدی ہو جاتا ہے۔
٭٭٭
دشمن کی طاقت در اصل دوست کی کمزوری ہوتی ہے۔ قوی دوست کی وجہ سے دشمن کمزور ہوتا ہے اِس میں اصول اور اخلاق کا بڑا کردار ہے۔
٭٭٭
اللہ تعالیٰ اصلاح کے دروازے بند نہیں کرتا یہ کام انسان خود اپنے خلاف کرتا ہے۔
٭٭٭
خدا کو ناراض کر کے جو مخلوق خدا کو راضی کرتے ہیں اُن سے مخلوق خدا کبھی مخلص نہیں ہوتی۔ خدا کو راضی رکھو مخلوق خدا خود بخود راضی ہو جائے گی۔
٭٭٭
جن کے قلوب بغض، عداوت اور نفرت سے بھرے ہوئے ہیں اُن کی عبادت صرف وقت کا زیاں اور بے فائدہ مشقت ہے۔
٭٭٭
حسب و نسب کا جب غرور ٹوٹے گا تو انسان خدا کے سامنے جھکے گا۔
٭٭٭
جو شئے آپ خدا کے نام پر دے دیتے ہیں اُس پر آپ کا حق ختم ہو جاتا ہے۔
٭٭٭
انسان ایک دوسرے کے قریب اُس وقت آئے گا جب اُس میں معاف کرنے اور درگزر کرنے والا جذبہ بیدار ہو گا۔
٭٭٭
ندامت کا احساس سب سے پہلے حضرت آدم ؑ نے کیا تھا لہذا ہر بنی آدم پر اِس کا احساس کرنا لازم قرار دیا گیا ہے جس میں احساس ندامت نہیں وہ انسان نہیں …!
٭٭٭
واردات قلبی انسان کی آنکھ میں ایک مقدس مصفا آب کا ایک قطرہ ہے جسے “آنسو”کہتے ہیں … ایک آنسو سارے گناہوں کو دھو دیتا ہے جسے خدا توبہ کی صورت میں قبول کر لیتا ہے ریا کاری والی عبادت پر یہ ایک قطرہ آب بھاری ہے، انسان کی بے بسی کا یہ آخری اور حتمی علاج ہے۔
٭٭٭
جو شاکر نہیں اُسے اطمینان نصیب نہیں ہو گا۔ جس نے اپنے مقام کو دریافت کر لیا وہ مطمئن ہو گیا۔
٭٭٭
خوشی روح کا ایک انداز نظر ہے اِسے غم میں سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے باطن کا سنورنا خوشی ہے۔
٭٭٭
محبت عظیم خواہش کا نام ہے۔ وہ دل کعبہ سے عظیم تر ہے جس میں خدا سے سچی محبت ہے اور خوف خدا کا گھر ہے۔
٭٭٭
سچا دین ایک کامل انسان کی صداقت اور دیانت کا نام ہے ہم دین کے لئے نہیں دین ہماری راستی کے لئے ہے دین جھگڑا نہیں دین امن ہے دین نفرت نہیں دین پیار ہے دین محبت ہے دہشت گردی نہیں۔
٭٭٭
جب آپ کے سامنے مقصد عظیم نہ ہو تو آپ کو لڑائی زیب نہیں دیتی بہرحال لڑائی جھگڑا کسی مسئلہ کا حل نہیں۔
٭٭٭
جب تک انسان اپنے اندر سے سچ کو تلاش نہیں کرے گا اُسے باہر سے کوئی صادق نہیں ملے گا… اندر کی سچائی کو ظاہر کرو باہر والا سچ آپ کے سامنے آ جائے گا۔
٭٭٭
جن کے دل مردہ ہوتے ہیں اُن کی یادداشت کمزور ہوتی ہے اور وہ خود غرض اور مفاد پرست ہوتے ہیں وہ اپنی ذات سے باہر نہیں نکلتے …!
٭٭٭
عورت ناقص العقل ہے مگر محبت کے لئے بنی ہے اور عقل کی بنیاد محبت ہے جب تک انسان میں محبت والا جذبہ نہیں ہو گا اُسے عقل والے راستے کا پتہ نہیں چلے گا۔ سچی محبت خدا کے بتائے ہوئے راستے کا سنگ میل ہے۔ سب سے قابل اعتبار موت سے محبت ہے جوہر حالت میں آنی ہے۔
٭٭٭
بہبودی انسان کے خلاف جو بھی علم ہے وہ فاسق ہے اور انسانیت کی فلاح کے لئے جو بھی علم ہے وہ حقیقی ہے۔
٭٭٭
احساس الفاظ کا جوہر لطیف و تقدیس ہے جس میں احساس زندہ نہیں الفاظ اُس پر اثر انداز نہیں ہوتے اور وہ ہی مردہ لوگ ہیں انہیں میں حیوانیت ہے وہی چلتی پھرتی لاشیں ہیں … احساس زندگی کا اسم ثانی ہے۔
٭٭٭
غیر جانبدار رویے انسان کو آسودہ خیال رکھتے ہیں۔
٭٭٭
جھوٹ آپ کو شاید مالی فائدہ تو دے سکتا ہے مگر سکون قلب نہیں دے سکتا۔
٭٭٭
سچ اگر آپ کو کچھ بھی نہ دے تو کم از کم دلی اطمینان ضرور دیتا ہے۔ سچ بولنے سے جو نقصان ہوتا ہے وہ جھوٹ والے فائدہ سے زیادہ بہتر ہے۔
٭٭٭
انسان کا ظاہر بکھر جائے تو وہ اکٹھا کیا جا سکتا ہے اور اگر اُس کا باطن ٹوٹ جائے تو وہ ناقابل مرمت ہے۔ انسان کا باطن مضبوط ایمان اور یقین محکم سے پاک اور صاف رہتا ہے اور یہی ہو تو انسان، انسان رہتا ہے۔
٭٭٭
دوسرے کے لئے بھی جھوٹ مت بولو مگر اپنے لئے ہمیشہ سچ بولو سچ انسان کے باطن کی قوت یزداں ہے۔ دونوں جہانوں کی کامیابی سچ میں ہے۔ سچ انسان کا نجات دہندہ ہے۔ سچ بولنے والے کی روح کبھی بیمار نہیں ہوتی۔ سچ روح کی غذائے لذیذہ ہے نفس مطمئنہ کی جان ہے سچ در اصل خدا کا فرمان ہے بلکہ خدا کی زبان ہے یہ جہاں کہیں بھی ہو گا اِس کا نام سچ رہے گا۔
٭٭٭
جن کو کچھ معلوم نہ ہو انہیں کچھ کہنے سے گریز کرنا چاہئے۔
٭٭٭
جب کرسی اقتدار پر جھوٹ بولنے والا ہو تو عوام پر جھوٹ بولنا واجب ہے جب حاکم بدکار ہو تو رعایا پر بدکاری واجب ہے جیسا حاکم ویسی رعایا۔
٭٭٭
انسان کی تہذیبی روایات اُس کے ہر عمل پر حاوی ہوتی ہیں اِس وجہ سے نا مناسب مصائب اور پریشانیوں میں مبتلا رہتا ہے یہی روایات ہمارے رویوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
٭٭٭
زندگی کے ہر حادثہ میں ایک سبق پوشیدہ ہے جو اِس سبق سے مثبت پہلو نکال لیتے ہیں وہ کامیاب اور اطمینان بخش زندگی بسر کرتے ہیں۔
٭٭٭
نفرت اور الزام تراشی کے احساس کے باعث انسان اپنی حکمت اور دانائی والی پوشیدہ صلاحیت سے محروم رہتا ہے۔
٭٭٭
غصہ نفرت پیدا کرتا ہے اور نفرت ہمارے روزمرہ معمولات پر اثر انداز ہوتی ہے ہماری صلاحیت منفی رد عمل کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہے غصہ ہمارے فہم و ادراک اور بصیرت کا دشمن ہے۔
٭٭٭
اپنی ذات سے محبت والا رویہ انسان کو خود تنقیدی سے محفوظ رکھتا ہے اور دوسرے پر الزام تراشی اور عیب جوئی سے باز رہنے والا رویہ انسان کو آسودہ خیال اور ذہنی آزادی اور خود مختاری والی دولت عطا کرتا ہے اپنی ذات سے محبت کا طریقہ یہ ہے کہ انسان عفو و درگزر، برداشت، ایثار اور قربانی جیسے جذبہ سے سرشار ہو۔ غیر مہذب عمل بھی انسان کا دشمن ہے۔
٭٭٭
یقین محکم ہی انسان کے اندر انسانیت کو بیدار کرتا ہے جو فطرت میں ڈوب جائے گا اُس پر یقین کا راز فاش ہو گا ہر پیدا ہونے والی شئے فانی ہے۔
٭٭٭
جو لوگ اپنے معاملات کو بدلہ اور انتقام کے ذریعہ حل کرنا چاہتے ہیں وہ تباہ و برباد ہو جاتے ہیں اُن کا سکون غارت ہو جاتا ہے انسان کو ذہنی اور عملی رویہ پر کڑی نظر رکھنی چاہئے یہ الزام تراشی اور انتقام والے جذبات سے پیدا ہوتے ہیں یہ انسان کو سرد مُہر اور سنگدل بنا دیتے ہیں یہ مقدس تعلیمات کی خلاف ورزی ہے یہ عقیدہ اور عقیدت کی نفی ہے۔
٭٭٭
غصہ، ناراضگی اور نفرت کے جذبات آپ کی پسند اور انتخاب کو متاثر کرتے ہیں۔
٭٭٭
معاف کرنا ایک جرات مندانہ اور پُر وقار فعل ہے۔
٭٭٭
بُرائی کو ختم کرنا ہے تو بھلائی کرو۔
٭٭٭
جو دو قبروں کی معرفت سے آگاہ ہیں وہ انتقام اور بدلہ والی زندگی سے نفرت کرتے ہیں ایک اپنی اور ایک دوسرے کی … قبر سب کی ایک جیسی ہوتی ہے۔
٭٭٭
روحانی اور محبت بھری زندگی بسر کرنے کے لئے انسان کا فہم و فراست، بصیرت و ادراک سے کام لینا اشد ضروری ہے۔
٭٭٭
جو لوگ نہیں جانتے وہ کیا کر رہے ہیں خدا انہیں ہدایت نہیں دیتا ہے، اُن کو تو اپنی ذات سے آگاہی نہیں جو یہ نہیں جانتے انہیں کیا کرنا چاہئے۔
٭٭٭
جو اپنی ذات کے دشمن ہیں وہی دوسروں سے دشمنی بناتے ہیں۔
٭٭٭
ایک انسان دوسرے انسان کو وہی کچھ دے گا جو اُس کے پاس ہے اگر آپ کے پاس نفرت، عیب جوئی اور الزام تراشی والا جذبہ ہے تو آپ وہی تقسیم کریں گے اور اگر آپ کے پاس محبت، پیار، ایثار اور قربانی والا جذبہ ہے تو وہی آپ دیں گے۔
٭٭٭
بیشتر اِس کے کہ میں مر جاؤں مجھے اُن سے معافی مانگ لینی چاہئے جن کے ساتھ میں نے ظلم کیا ہے، حق کھایا ہے، دل آزاری دانستہ کی ہے، الزام تراشی اور عیب جوئی کی ہے اور اُن گناہوں سے توبہ کرنی چاہئے جو میں نے دانستہ کئے ہیں وہ جو مجھے معلوم نہیں تا کہ میں سکون سے موت کو گلے لگا سکوں … موت میرے لئے باعث سکون ہو۔
٭٭٭
اپنی ذات میں موجود صلاحیت اور اہلیت کو افتخار کی نظر سے دیکھو گے تو آپ میں مثبت اور پسندیدہ تبدیلی آئے گی۔
٭٭٭
جب آپ کی قربانی اور ایثار میں پاکیزہ جذبات ہوں گے تو آپ کو اِس کا صلہ ضرور ملے گا۔
٭٭٭
سوچ اور فکر کی آزادی انسان سے کوئی چھین نہیں سکتا لہذا انسان جب چاہے وہ بہتر سوچے اور اپنے اچھا ہونے کی فکر کرے تو کوئی اُسے کچھ نہیں کہے گا صبح جب اٹھو تو اچھائی لے کر بیدار ہوں اور جب رات کو سوئیں تو اچھی فکر لے کر بستر پر جائیں جو سب جانتا ہے اُس کی رحمت کے سایے میں رہیں گے۔
٭٭٭
بھوک اور افلاس کے مارے ہوئے لوگوں کے پاس انتہائی ضروریات کی شکل میں خدا ظاہر ہوتا ہے اُن کی بھوک اور افلاس میں اُن کا ایمان ہے۔ بھوک اور افلاس کیسے دور ہوں جن لوگوں کی جواں ہمتی معذور ہے جو صرف دعاؤں کا کاروبار کرتے ہیں اور محنت پر یقین سے عاری ہیں وہ خدا کو ضروریات کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ خدا سب کا مددگار ہے اور اُس کی رحمت سب کے لئے برابر ہے وہ بھوک اور افلاس کے ساتھ پیدا نہیں کرتا فطرت سب کے لئے یکساں اہمیت کی حامل ہے۔ احساس کمتری انسان کو مفلوک الحال بنا دیتی ہے۔ انسان کو اپنی صلاحیت پر توجہ دینی چاہئے۔ وہ بھوک اور افلاس سے کبھی نہیں نکل سکتا جس کے احساس میں کمزوری اور کمی ہو۔ احساس غربت انسان کو بھول اور افلاس کے شکنجے سے نکلنے نہیں دیتا اور وہ روٹی کی ایک وقت کی ضرورت میں خدا کو بھول جاتا ہے جو اپنی توانائی بے معنی اور لا حاصل انداز میں خرچ کرتے ہیں وہ بھوک اور افلاس سے کبھی نہیں نکل سکتے۔
٭٭٭
انسانیت ایک وجود ہے اور ہر فرد جب تک انسان نہیں بنتا انسانیت کا وجود خطرے میں رہے گا۔
٭٭٭
جو آپ کو مشورہ دیتا ہے اُس کے نام اور مقام کی طرف مت جاؤ اُس کے کام کو نظر میں رکھو … دیکھو وہ مشورہ وہ تو نہیں دے رہا جس کے مطابق وہ خود عمل نہیں کرتا۔
٭٭٭
اپنے کردار پر اتنی نظر ضرور رکھیں اگر دوسروں کو اِس کے بارے میں معلوم ہو بھی جائے تو آپ سے وہ نفرت نہ کریں۔
٭٭٭
آپ ہر اُس نعمت کا شکر بجا لائیں جو آپ کے پاس ہے اور ہر اُس نعمت کے لئے دُعا کریں جو آپ کی ضرورت ہے اور اُس کا پر زور شکریہ ادا کریں جو آپ پر خدا کی مہربانی تھی وہ واپس لے لی ہے خدا کی رضا پر راضی رہنے کا بہترین طریقہ ہے۔
٭٭٭
آپ اپنی روحانی اور جسمانی توانائی کو اِس طرح بچا سکتے ہیں کہ آپ اپنی کمزوری کو اپنے اوپر سوار مت ہونے دیں اور کسی کو اِس لئے مت بتائیں کہ وہ آپ کی مدد کرے گا آپ کی وہ کمزوری دوسرے کی نظر میں آپ کو کم تر کر دے گی۔
٭٭٭
جب تک آپ ایک رہیں گے تو آپ کو دو کوئی نہیں کر سکتا اور جب آپ دو ہو جائیں گے تو کوئی دوسرا آپ کو ایک نہیں کر سکتا … اپنے آپ کو تقسیم ہونے سے بچائیں یہ آپ کی قوت ارادی کا جوہر اکسیر ہے۔
٭٭٭
طمع اور ہوس سے نجات پانے کے لئے یہ ضروری ہے آپ کے پاس دنیا کی ہر آسائش میسر ہے مگر آپ سمجھ لیں آپ کے پاس کچھ نہیں آپ اور آپ کی ہر شئے منزل فنا کی مسافر ہے صرف وقتی طور پر آپ کے استعمال میں ہے دلی، روحانی اور باطنی طور پر اِس کا ادراک ضروری ہے۔
٭٭٭
دوسروں کی خوشیوں میں ہماری خوشی پوشیدہ ہے دوسروں کو ناراض کر کے جو خوشی ہم حاصل کرتے ہیں وہ فریب نفسی ہے۔
٭٭٭
جو خدمت کو عبادت سمجھتے ہیں وہ ہمہ وقت دلوں میں خدمت والا گھر بنائے رکھتے ہیں۔
٭٭٭
انسان کے اپنے متعلق اپنے ہی کئے ہوئے فیصلے فائدہ اور نقصان پہنچاتے ہیں دوسرا اُس وقت ذمہ دار ہو گا جب آپ اُس کے فیصلہ کے مطابق عمل کریں گے۔
٭٭٭
اپنی غلطیوں کا سر عام اقرار کرو یہی وہ عمل ہے جو آپ کو راہ راست پر لائے گا۔
٭٭٭
جس چیز کو آپ پا نہیں سکتے اُسے فراموش کر دیں تا کہ آپ کا ذہن آزاد ہو جائے … ذہنی آزادی نفس کی آسودگی ہے۔ ذہنی صلاحیت ہی انسانی زندگی کا نشیب و فراز ہے۔ ذہن آزاد نہیں تو آپ کسی فکر کے قیدی ہیں اور ایسی فکر آپ کی کامیابی کے راستے کی رکاوٹ ہے یہ قسمت کا لکھا نہیں انسان کا اپنا حسن انتخاب ہے۔ وہی چیز آپ کی ہے جسے آپ آزادی سے استعمال کر سکتے ہیں جس کی اجازت طلب کرنی ہے وہ آپ کی نہیں اُسے حاصل کرنے کے لئے کسی دیگر کی ضرورت ہے …!
٭٭٭
جو آپ کے غم میں حصہ دار نہیں اُسے کوئی حق نہیں کہ وہ آپ کی خوشیاں چھین لے …!
٭٭٭
جو شئے آپ کی صلاحیت کو کھا جائے در اصل وہی سب سے زیادہ نقصان دہ ہے خواہ آپ کو اُس سے بہت مادی فوائد حاصل ہوں وہ صلاحیت جو آپ کی روح کو راحت اور مسرت مہیا کرے اُس کا نعم البدل کوئی نہیں۔
٭٭٭
جن کے چہرے پر ہر وقت ندامت کا پسینہ رہتا ہے در اصل اُن کی روح دائمی بیماری میں مبتلا رہتی ہے۔
٭٭٭
جنہیں لوگ مجذوب کہتے ہیں در اصل وہی لوگ انسانیت کا درد دل میں لئے بیٹھے ہیں۔
٭٭٭
جو اولاد اپنے بوڑھے والدین کو بوجھ سمجھتی ہے اُن کی اولاد اُن کے بڑھاپے کا انتظام کسی بوڑھے گھر میں بھی نہیں کرے گی اُس کی موت اُس کے گھر کی دہلیز کے باہر ہو گی، خدائی قانون اٹل ہے۔
٭٭٭
جس انسان کی نیت میں خرابی اور ذہن میں بددیانتی ہے اُسے کوئی دُعا اور کوئی وظیفہ فائدہ نہیں دے گا دعائیں اور وظیفے بھی صرف اِس لئے ہوتے ہیں انسان پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرے اور یہ عبادات بھی انسان کی ظاہری اور باطنی طہارت کے لئے ہیں جب تک انسانی حواس دیانت دار نہیں اُس کا کوئی کارہائے زندگی درست نہیں ہو گا اور نہ ہی اِس کے بغیر انسان کو اطمینان اور سکون نصیب ہو گا جو زندگی اور آخرت کے لئے یکساں فائدہ مند سرمایہ ہے … نیت خراب بیڑہ غرق ذہن خراب۔
٭٭٭
زندگی خواہ کتنی ہی دراز کیوں نہ ہو مختصر اور تھوڑی سی لگتی ہے جو گزر جاتی ہے اُسے یاد نہیں رکھتے اور جو باقی ہے اُسے دراز سمجھتے ہیں حالانکہ زندگی اتنی ہی ہے جتنی خالق نے دی ہے۔
٭٭٭
خدا اُن دلوں میں رحم ڈالتا ہے جو انسانیت کے درد میں دھڑکتے ہیں جو خدا کے خوف میں مبتلا ہوتے ہیں جو مخلوق خدا کے دُکھ کو اپنا سمجھتے ہیں۔
٭٭٭
دو خیالوں کے تصادم کو حادثہ کہتے ہیں انسان کر کچھ رہا ہو اور سوچ کچھ اور رہا ہو۔
٭٭٭
سخی اندر اور باہر سے یکساں خوبصورت ہوتا ہے یہ وہ حسن ہے جو خدا دل مومن پر نازل کرتا ہے۔ چہرہ خوبصورت ہونا حسن کی دلیل نہیں جو خوشبو دے وہ حسین ہوتا ہے۔
٭٭٭
جو دوسرے کی بے عزتی میں عزت تلاش کرتے ہیں وہ زیادہ دیر عزت دار نہیں رہتے۔
٭٭٭
جتنا جسم کے لئے رزق کمانا ضروری ہے اِس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ غور و فکر سے فطرت سے روح کے لئے رزق حاصل کیا جائے اِس طرح زندگی اور موت میں یکساں اطمینان ہو گا۔
٭٭٭
احساس جرم انسان کو اکیلا کر دیتا ہے اور یہی اکیلا پن انسان کو انسان بناتا ہے جب تنہائی میں انسان اپنے جرم اور گناہ پر آنسو بہاتا ہے۔
٭٭٭
جس کو زندگی کے مقصد کی سمجھ آ جائے وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا …!
٭٭٭
زندگی کی معراج یہ ہے کہ دوسروں کے لئے زندہ رہو۔
٭٭٭
اِن دو باتوں میں سے کون سی بات خوب ہے … خدا کی مہربانی چہرے کا حسن ہے یا روح کی خوب سیرتی …؟
٭٭٭
اگر انسانی جسم بیت الحرام ہو گا تو امر ربی (روح ) کا اُس میں مقام ہو گا جس میں وہ سکون پائے گی۔
٭٭٭
گھر سے ہر کوئی فاتحانہ انداز سے نکلتا ہے مگر ہر کوئی گھر کامیاب نہیں لوٹتا جیسا دل لے کر گھر سے نکلتا ہے ویسے دل کے ساتھ گھر میں داخل نہیں ہوتا انسان مضبوط ارادے لے کر گھر سے نکلتا ہے اور ٹوٹے ہوئے ارادے لے کر گھر واپس آتا ہے۔ انسان سارا دن سفر کرتا ہے مگر بغیر منزل کے واپس لوٹ آتا ہے … جب تک انسان کے پاس مقصود کا پتہ نہ ہو وہ بے تلاش مارا مارا پھرتا رہے گا… ایک دن اُس کا یہ سارا سفر اُسی شہر میں ختم ہو جائے گا جہاں سارے لوگ مرنے کے لئے مقیم ہیں بس سارے لوگوں کی زندگی کی منزل یہی ہے ہر انسان کے دل میں تمناؤں کو فتح کرنے کا جذبہ ہے اور ہر انسان گھاٹے کا سودا خرید کر دنیا سے جاتا ہے ماسوائے جو صبر کے ساتھ زندگی کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔
٭٭٭
جب آپ کا رشتہ آپ کی میراث سے ٹوٹ جائے تو آپ کہیں بھی رہیں، کیسے ہی رہیں، کچھ بھی کریں آپ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا آپ روایات کے قاتل ہوں گے حالات پر کسی کا قبضہ نہیں ہوتا جیسے حالات ہوتے ہیں انسان کو ویسا بنا لیتے ہیں۔
٭٭٭
وہ آدمی کمال ہوتا ہے جو ضبط اور ضابطہ کے اصولوں کا پابند ہو اور جذبات اور جذبہ کی نمائش کو پسند نہ کرتا ہو … جو منافقت کو شرک کا درجہ دیتا ہے۔ جذبہ کا اظہار بہترین طریقہ سے کرنا چاہئے انسان کی شخصیت پر اِس کے گہرے اثرات پڑتے ہیں۔
٭٭٭
زندگی کا سودوزیاں عجیب ہے دولت کا نقصان صبر کا نفع ہوتا ہے دولت ایک بوجھ ہے جو اِس کے نیچے دب گیا اُس کا نفس اور ضمیر مر گیا اُس کا دل مردہ اور دماغ نخوت سے بھر گیا … اُس کی جوانی کو اُس کے نفس کا بڑھاپا کھا گیا۔
٭٭٭
جن کے پاس صبر کا ذخیرہ ہوتا ہے اُن کا نفس بھوکا نہیں رہتا ہے اور وہ بھوک اور افلاس کو بھی خوش نصیبی سے تعبیر کرتے ہیں۔
٭٭٭
جو فرض کی ادائیگی کا معاوضہ وصول کرتے ہیں در اصل وہ اپنے فرض کو فروخت کر دیتے ہیں اگر فرض کی ادائیگی کا معاوضہ سکون قلب ہے تو پھر انسان کو یہ فرض نبھانا چاہئے۔
٭٭٭
اخلاقی قدروں کی حفاظت ایمان کی حفاظت سے زیادہ اہم ہیں در اصل ایمان ہی اخلاقی اقدار کی بنیاد ہے اِس کے بدلہ میں کوئی دوسری شئے قبول مت کرو، دولت، شہرت نام نہاد، فضول معتبری اور بے آبرو ناموری … اخلاقی اقدار مضبوط کردار کی بنیاد ہے۔
٭٭٭
جب عزت ملے تو ہر وقت اُس کی حفاظت کی دُعا کرو زندگی کے ہر اٹھنے والے قدم پر نظر رکھو۔
٭٭٭
مال غنیمت جس کو دولت مند بنا دے وہ امیر المومنین نہیں ہوتا اور نہ اُسے غنی کہتے ہیں۔
٭٭٭
گھر کے ماتھے پر ماشاء اللہ اور ہذا من فضل ربی سے نسب اور نصیب کا کوئی تعلق نہیں لکھنے اور لکھوانے والا جانتا ہے اِس پر کون کون سا ظلم گواہ ہے۔
٭٭٭
ضرورت ایک دوسرے کے سامنے جھکنے پر مجبور کرتی ہے وہ جو ہماری ساری ضروریات پوری کرتا ہے اُس کے سامنے ہم اپنی مرضی سے جھکتے ہیں اِس سے بڑا بھی کوئی تکبر ہے یہ در اصل نخوت نفس ہے یہ عدم یقین کا ایک رخ ہے جو انسان دیکھتا ہے۔
٭٭٭
جن کی آنکھوں کی بھوک زندہ ہو اور ضمیر پر نیند کا شدید غلبہ اُن کی عبادت میں خود فریبی اور نفس میں شرارت باز ہوتی ہے اور یہ رات کے پچھلے پہر اٹھ کر اپنے ہی نفس کو فریب دیتے ہیں۔
٭٭٭
مسلمان شریعت قلبی کا مقلد ہے اِس لئے فرقہ در فرقہ اور سلسلہ در سلسلہ تقسیم ہو رہا ہے کہیں عقیدہ کو اپنی مرضی کہتا ہے اور کہیں اپنی عقیدت کو مرضی کا نام دیتا ہے اپنے سوا ہر دوسرے کے بارے میں کفر زباں میں رکھتا ہے ماسوائے اپنے سب کی بکنگ جہنم میں کرتا ہے۔ خواہشات پر جو سواری کرتے ہیں اُن سے مذہب کے بارے میں سوال کرنا عبث ہے۔
٭٭٭
زندگی میں خوشگوار لمحے یادوں میں نور کی طرح رہتے ہیں در اصل ایسے لمحے زندگی کا سرمایہ ہوتے ہیں بلکہ اِن کا نام زندگی ہے۔
٭٭٭
جب خاوند کے رویے بیوی کے لہجوں کے محتاج ہو جائیں تو وہ سارا گھر گھٹن کا شکار ہو جاتا ہے اور ایسی گھٹن اعلیٰ صلاحیتوں کی دشمن ہے۔ ایسا جوڑا ذہنی عدم تعاون کا شکار ہوتا ہے یہ رویے اور لہجے اولاد کی تباہی اور گھر کی بربادی کے بنیادی اسباب ہوتے ہیں۔
٭٭٭
آوارہ کتا چوکیداری نہیں کر سکتا اور آوارہ شخص دوستی نہیں نبھا سکتا در اصل دونوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا … ایک گلی کوچے چھانتا ہے ایک کوڑا کرکٹ والی روڑھی کی تلاشی لیتا ہے۔ جس کا کوئی نہ گھر ہو نہ گھاٹ وہ آوارہ ہوتا ہے جو کسی ایک دروازہ پر بندھا ہو اُس پر ایک حد تک اعتبار کیا جا سکتا ہے
٭٭٭
نظریہ ضرورت کتے کی ایک جبلت کا نام ہے کتنا بھی کاٹنے والا کتا ہو اُسے گھی لگی روٹی دو دن ڈالیں وہ آپ کو دیکھ کر دم ہلائے گا اُس کو یہ یاد ہی نہیں ہو گا کبھی میں اِس کا دشمن تھا۔
٭٭٭
انسان کے اندر ایسا چڑیا گھر ہے جس میں جانور، حیوانات، حشرات اور پرندے ہیں جونسا جی چاہے وہ نکال کر اپنا مطلب پورا کرتا ہے اِس کا اپنا کوئی مزاج نہیں …!
٭٭٭
جب انسان کی رفتار بھی سست ہو اور سمت بھی غلط تو اُسے نہ منزل ملتی ہے اور نہ مقصود … اُسے نہ زندگی کا مقصد معلوم ہوتا ہے اور نہ ہی مفہوم جانتا ہے … ہوا کے دوش پر زندگی گزارتا ہے اُس پر کوئی در نہیں کھلتا جسے کسی در عقیدت کا معلوم نہ ہو … بے ذوق زندگی بذات خود گمراہی ہے خواہ انسان کتنا ہی پُر جمال ہو … انسان حدت اور شدت کا مجموعہ ہے جونسی کیفیت غالب آ جائے وہی کچھ بن جاتا ہے کبھی آتش پرست اور کبھی خدا پرست … انسان ماحول کا بندہ ہے اِس کی اپنی کوئی رفتار اور سمت نہیں۔
٭٭٭
کمینے شخص سے یاری نفس کی خواری … فراز پر نشیب کی سواری …!
٭٭٭
کم نگاہ لوگ خوبصورت زندگی کے دریچوں میں ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں مزہ نہیں لے سکتے … جب تک انسانی نفس زندگی کے سفر کا مبصر نہ ہو اُسے زندگی کی رعنائیاں نظر نہیں آتیں۔
٭٭٭
جو منظر دیکھ کر غلط اندازہ لگاتے ہیں وہ کیا جانیں پس منظر کیسا ہو گا …! پس منظر در اصل حقیقت ہوتی ہے مگر اکثر لوگ سطحی نظر سے زندگی گزار دیتے ہیں … نوشتہ دیوار سب پڑھ لیتے ہیں پس دیوار کیا ہے کوئی نہیں جانتا …!
٭٭٭
فریب میں نرمی یا نرمی میں فریب در اصل مکار آدمی کا فن ہوتا ہے ایسا شخص فریب نفسی کا شکار ہوتا ہے۔
٭٭٭
کارکن کی موت تحریک کی زندگی ہے … شہید روح تاریخ ہوتا ہے۔
٭٭٭
انعام کے لئے اگر غداری شرط ہے تو پھر سیاستدان ہونا ضروری ہے جھوٹ اتنا صاف ہو کہ سورج اپنی روشنی دیکھ کر شرما جائے۔
٭٭٭
موت چل کر سب کے پاس آتی ہے مگر شہید چل کر موت کے پاس جاتا ہے۔
٭٭٭
جو بہترین زندگی بسر کرتے ہیں وہ عمر رفتہ کو فراموش نہیں کرتے عمر رفتہ تجربات کی پناہ گاہ ہوتی ہے اور تجربہ زندگی کا نچوڑ …! گرم جوش اور حساس آدمی تجربہ سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
٭٭٭
دریا دیوانے ہوتے ہیں جب کبھی اِن پر پاگل پن کا دورہ پڑتا ہے تو اپنی ہی بستیاں اجاڑ دیتے ہیں اور اپنے ہی کناروں پر بسنے والوں کو بہا لے جاتے ہیں۔ دریاؤں سے دوستی مت رکھو اور دریا دلوں سے پیار کرو … دریا کفایت اور کفالت دونوں کا خیال رکھتے ہیں مگر جب ناراض ہو جائیں تو تباہی پھیلا دیتے ہیں … دریا وطن کی زندگی ہے … دریاؤں کے کنارے بسنے والے لوگ دریاؤں جیسا مزاج رکھتے ہیں۔
٭٭٭
زندگی کے آگے ضبط اور ضابطہ کا مضبوط بند ضروری ہے ورنہ اِس کے بہہ جانے کا خطرہ رہے گا دولت اور جوانی زندگی کے لئے انتہائی خطرناک ہیں۔ انسان کی زندگی میں جب دولت اور جوانی کا خمار آتا ہے تو وہ سنجیدگی اور فہمیدگی کو فراموش کر دیتا ہے اُس کا خوش حال عریاں ہو جاتا ہے اُس کا نفس رنجیدہ ہونا چھوڑ دیتا ہے اسباب و انجام سے بے خبر ہو جاتا ہے۔
٭٭٭
یادیں جب خوابوں کی جھیل میں ڈوب جائیں تو انسان آنکھوں کی موجودگی میں منظر نہیں دیکھ سکتا انسان ماضی کی وسیع اور نرم آغوش میں سکون کا متمنی رہتا ہے۔
٭٭٭
جب سوچ چھوٹی ہو تو بات بڑی نہیں کرنی چاہئے اور جب سوچ بڑی ہو تو بات چھوٹی نہیں کرنی چاہئے۔
٭٭٭
دنیا کی بہترین خوشبو ختنہ ہرن میں اور بہترین لذت ناف زن میں … بہترین مٹھاس لباب مگس شیریں میں ہے۔
٭٭٭
جتنا جتنا انسان فطرت سے دور ہوتا جائے گا اُس کی خوشیوں میں اتنی اتنی خوشبو کم ہوتی جائے گی پھر وہ مصنوعی خوشبو اور مصنوعی خوشیوں سے دل بہلائے گا۔
٭٭٭
امتحان شامہ نفس شناسی ہے … جب خوشبو اور بدبو میں فرق مٹ جائے تو انسان، انسان نہیں رہتا۔
٭٭٭
ابو البشر جسے عرف عام میں حضرت آدم ؑ کہتے ہیں جس کی اولاد کا نام آدمی ہے جب جنت سے بوجہ رائے زوجہ نکالے گئے تو اُن کی آنکھوں سے جو آنسو ٹپکا وہ کرہ ارض پر سمندر بن کر پھیل گیا۔ جہاں ابن آدم ؑ نے سب سے پہلے ذریعہ تجارت بنایا اور اُس میں انسان کے لئے خوراک رکھ دی جسے اب لوگ سی فوڈ کہتے ہیں خشکی پہ رہتے ہیں اور بڑے مزے سے اُسے کھاتے ہیں ابن آدم ؑ بھی کمال ہے خود ہی علم ہے اور خود ہی طالب علم …! پاکبازی کا درس دیتا ہے مگر اندر سے پلیدی نہیں نکالتا … جو ہاتھ بڑھاتا ہے اُس پر بیعت کر لیتا ہے مگر اپنے اندر والے انسان سے نا آشنا ہے جس کے پاس علم حقیقی ہے یہ بشر بھی عجیب ہے کبھی درندہ اور حیوان بن جاتا ہے کبھی زندہ ہوتا ہے اور مردہ ہو جاتا ہے۔
٭٭٭
شکر کا جذبہ در اصل روح کی تسلی ہے جو شکر بجا نہیں لاتے اُن کی روح ترسیدہ رہتی ہے الحمد للہ کی صدا خدا کو بہت پسند ہے اور سبحان اللہ خدا کے نزدیک ترین کرتی ہے۔
٭٭٭
مٹی پر سجدہ کرو اِس طرح خاک اور خاکی کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے اور خدا کے فرشتے اِس رشتہ پر گواہ ہوتے ہیں کہ انسان نے اپنے اصل سے رشتہ قائم کر رکھا ہے یہ خود شناسی کی طرف مکمل رجوع کا پیش خیمہ ہے … خدا سے ملاقات کی تمنا مت کرو اور دیکھنے کی آرزو دل میں رکھو گے تو فطرت کے ذرہ ذرہ میں آپ کو نظر آئے گا جدھر نظر اٹھاؤ ادھر نظر آئے گا جس رخ بھی خاک پر سجدہ کرو اُسی کے لئے ہو گا بس تسکین روح کے لئے ہو۔
٭٭٭
ایک بُرے کے پیچھے دوسرے بڑے بُرے کو پشت پناہ کہتے ہیں بڑا چھوٹے کی پشت پناہی کرتا ہے۔
٭٭٭
جمع متکلم لہجہ انسان کی عزت میں اضافہ کرتا ہے اور انسان کے اندر احترام والا جذبہ پیدا ہوتا ہے اِس سے گفتگو میں احساس زندہ رہتا ہے۔
٭٭٭
جب آنکھوں پر یقین نہ آئے تو دل والا یقین خودبخود ختم ہو جاتا ہے یقین ہی حقیقت کے راز فاش کرتا ہے اور فطرت کا سینہ چاک … موت کو دیکھ کر انسان موت کو یاد نہیں کرتا یہ کتنا بے خود عدم یقین ہے۔
٭٭٭
جفا کش اور فاقہ مست نہ ظاہری جنگ ہارتا ہے نہ باطنی یہ مضبوط اور مصمم ارادے سے زندگی بسر کرنے کا زندہ جذبہ رکھتا ہے یہ شکوک بازی سے مرغوب نہیں ہوتا اِسے موسمی اثرات شکست نہیں دے سکتے … یہ سفر اور حضر کا عادی ہوتا ہے یہ بھوک اور پیاس کے سہنے کا حوصلہ رکھتا ہے در اصل یہ جواں ہمت ہوتا ہے یہ برکیف اور خانہ بردوش ہوتا ہے۔
٭٭٭
دل ایک وہ وادی ہے جو مشکلات، مصائب اور مسائل زندگی کے درمیان واقعہ ہے اگر اِس وادی میں خوف خدا رہتا ہے تو اِس پر موسمی اثرات بے اثر ہوتے ہیں تو پھر اِس کے ارد گرد سارے پہاڑ اِس کی حفاظت کرتے ہیں … وادی تنگ ہو سکتی ہے مگر بے صورت نہیں ہوتی۔
٭٭٭
انسان کے لئے سب سے بڑی علم و ہنر کی جاگیر ہے اِس جاگیر کو قومیایا نہیں جا سکتا مگر اِس سے انسانی ذہن سیراب ضرور کئے جا سکتے ہیں جس سے قوموں کو فائدہ ہوتا ہے اور ملک ترقی کرتے ہیں۔ جہاں علم و ہنر کی جاگیریں نہیں ہوتیں وہ پسماندہ رہتے ہیں خواہ زمین کھلیں، دولت وافر اور ذہن تنگ رہتے ہیں۔
٭٭٭
غیر متعین سفر انسان کو ذہنی اور جسمانی طور پر تھکا دیتا ہے اور اکثریت اِسی سفر کی مسافر ہے منزل کی طرف چل رہا ہے مگر راہ گرد آلودہ ہے مسافر کی آنکھیں ہیں مگر اُس نے خود بند کی ہوئی ہیں شاید وہ زندگی کے سفر کو دیکھنا نہیں چاہتا۔
٭٭٭
پُر خمار خطرہ پسند ہوتا ہے اور پُر مغز خطرہ بھانپ لیتا ہے۔
٭٭٭
دنیا احمقوں کے لئے جنت اور عقل مندوں کے لئے اسرار خانہ … احمق اپنی حماقتوں سے اپنی ہی دنیا برباد کرتے ہیں اور عقل مند اپنی فکر سے اپنی دنیا آباد رکھتا ہے وہ دنیا کو عذاب خانہ اور احمق جنت خانہ قرار دیتا ہے۔
٭٭٭
جو اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں پھنس جاتا ہے اُسے کوئی دوسرا نہیں نکالتا … زندگی کی تاریک غار میں جو پھنس جاتے ہیں انہیں باہر نکلنے کا راستہ نہیں ملتا … انسان کے بس میں کچھ نہیں مگر سمجھتا ہے سب کچھ اِس کے بس میں ہے اِس وجہ سے جال میں پھنس جاتا ہے اور بے حِسی کی تاریک غار میں دھنس جاتا ہے۔
٭٭٭
بے عقل اور بد عقل سے عقل مندی اور عقل پسندی کی باتیں کرنا کھلی حماقت ہے عقل مندی یہ ہے کہ آپ اِن سے زندگی کے کسی معاملہ پر بحث مت کریں ان کے ذہن قفل زدہ اور فکر و شعور زنگ آلود ہوتا ہے۔
٭٭٭
نوالہ اور پیالہ دونوں منہ بند کرتے ہیں جو زیادہ فضول بک بک کرتے ہیں اُن کا یہ علاج ہے … کار بد کرنے والوں کا یہ دونوں علاج ہیں حقیقت زندگی کیا ہے نوالہ اور پیالہ کیا جانیں۔ جو محنت پر یقین رکھتے ہیں وہ خدائی معرفت کی پہچان رکھتے ہیں۔ کثافتی ماحول میں رہنے والے لوگوں کا لطیف ہوا میں دم گھٹتا ہے … تنہائی روح کے لئے مفید ہے اور لطیف ہوا جسم کے لئے … تنہائی اور لطیف ہوا زندگی کے لئے نہ کہ نوالہ اور صرف پیالہ … نوالہ جسم کے لئے اور پیالہ تنہائی کے لئے۔
٭٭٭
کج بحثی فضول ہے یہ منطق، صبر اور برداشت کے خلاف ہے سچی بات سچی ہے خواہ چھپ کر کی جائے یا سر عام اِسے عار نہیں …!
٭٭٭
مشروب بد کی بو اور سگریٹ کا دھواں انسان کو اندر سے کھا جاتا ہے وہ لوگ انسان نہیں بن سکتے جو اِن کو زندگی کا حصہ بنا لیتے ہیں … انسان کی بلندی اور پستی کا بھی کوئی معیار ہونا چاہئے جگہ اور بے جگہ کا انتخاب بڑا ضروری ہے۔ جب انسان بستر مرگ پر پڑتا ہے تو اِس کے باطن سے خبر نشر ہوتی ہے جو کیا ہے وہی بھر رہے ہو … جو صحت کے دشمن ہیں اُن سے انسان کو دوستی نہیں رکھنی چاہئے اور جو ذہن کے دشمن ہیں اُن سے تعلقات مت رکھو اور جو عزت میں حصہ دار نہیں وہ رشتہ دار نہیں۔ بڑھاپا کی خبر جوانی میں ہو جانی چاہئے اِس طرح زندگی پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ہاں یہ ضرور ہے اندھے زمانے میں آنکھ نہیں ہوتی اور آنکھ کھلتی ہے تو زمانہ گزر چکا ہوتا ہے … فضولیات زندگی کی تباہی کے اسباب ہیں۔
٭٭٭
بچے روح کی قوت ہوتے ہیں جو بچوں سے پیار نہیں کرتے اُن کی روح بیمار ہوتی ہے۔
٭٭٭
ندیدہ پن، ذخیرہ اندوزی اور دکانداری تینوں انسانیت کے خلاف محاذ آرائی پر آمادہ رہتے ہیں جب معاشرہ پر مشکل وقت آتا ہے تو یہ تینوں عوام کے خلاف بغاوت کر دیتے ہیں۔
٭٭٭
جب بیوی خاوند کو کہے چپ ہو جاؤ آپ کو کچھ معلوم نہیں تو سمجھ لو چادر سر سے سرک گئی ہے اور چاردیواری گر گئی ہے لوگوں نے صحن میں سے راستہ بنا لیا ہے۔
٭٭٭
سب سے قیمتی تحفہ دینے کے لئے آپ کے پاس کوئی مشورہ ہمدردانہ، دوستانہ، بزرگانہ اور مہربانہ ہونا چاہئے کم از کم بھی اگر دیں تو اپنی میٹھی گفتگو سے ایک ٹھنڈا لفظ ضرور دے دیں یہ بھی صدقہ جاریہ ہے جو دوسرے کے دل میں تسلی اتار دے۔
٭٭٭
جو شہ رگ سے نزدیک ہے وہ ہمارے گریبان میں جھانک کر ہماری مجبوریاں نہیں دیکھتا وہ ہر شئے جانتا ہے خواہ ہم اُسے یاد نہ بھی رکھیں وہ ہمیں نہیں بھلاتا … مہربان کی یہ پکی اور خالص نشانی ہے خون کی صورت میں ہمارے جسم میں دوڑ رہا ہے اور سانسوں کی صورت میں زندگی میں موجود ہے۔
٭٭٭
جو اپنی نظروں میں نیچا ہو جائے وہ وضعداری والے جذبہ سے محروم ہو جاتا ہے خواہ وہ بڑے اونچے مقام پر ہو یا شاندار بنگلہ میں رہتا ہو … خواہ پنجگانہ مسجد میں پڑھتا ہو یا تہجد سے اپنے اطمینان کو فریب دیتا ہو … زندگی کا سارا اور مکمل سازوسامان انسان کی اپنی نظر میں ہوتا ہے … نظر جھکا کر اپنے گریبان میں دیکھ لو …!
٭٭٭
جو جذبات کی رو یں بہہ جاتے ہیں وہ کہیں نا کہیں ڈوب جاتے ہیں۔
٭٭٭
تاریخ کے گواہوں میں جو سلطانی اور وعدہ معاف گواہ ہوتے ہیں اُن کا نام احترام سے نہیں لیا جاتا خواہ مورخ بڑے بڑے القاب سے اُسے مخاطب کرے تاریخ خاموش ہو سکتی ہے گوں گی نہیں ہوتی وہ محسن نواز اور محسن کش دونوں کو جانتی ہے وقت آنے پر وہ صاحب سسانحہ اور صاحب گواہ کے کرداروں کو ظاہر کرتی ہے جب لوگوں میں شعور آتا ہے تو پھر وہ تاریخ سے ایسے لوگوں کو نکال کر اُن پر اُن کی حیثیت کے مطابق کیفیت بیان ضرورت کرتے ہیں۔ تاریخ ماضی کے رازوں کا ایک خزانہ ہوتی ہے۔
٭٭٭
جن سے آپ محبت کرتے ہیں اپنی وصیت میں یہ لکھ دو کہ اِس کی قبر آپ کی قبر کے پہلو میں بنائی جائے اچھا پڑوسی نعمت خداوندی ہے اور دوسرے پیرہ میں یہ لکھنا کہ کسی بے شعور کے ساتھ مجھے مت دفنانا مرنے کے بعد بھی میری روح بے چین رہے گی۔
٭٭٭
مصافحہ اِس طرح کرو محسوس ہو کہ آپ کی انا زندہ ہے۔
٭٭٭
پُر نظر زندگی کو ایک دولت سمجھتا ہے اور قانع زندگی کو پُر لطف دولت۔ جس زندگی کو سیم و زر کی کم از کم ضرورت ہو اُسے غنی کہہ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ سیم و زر کی تلاش میں زندگی ضائع مت کرو بلکہ سیم و زر میں زندگی تلاش کرو بلکہ اصل زندگی سیم و زر ہے جس میں کوئی پچھتاوا نہ ہو جو پُر نظر اور پُر لطف ہو جو جذبوں سے بھرپور جو مقدس جذبات سے لب ریز ہو جس میں اطمینان، قناعت اور یقین ہو “یہ صرف امانت ہے””ریاضت میں ہے”۔
٭٭٭
پختہ عمر، خوش مزاج، لطیف طبع، خاموش، با ہوش، تجربہ کار، محبت نواز، الفت گزار، نعمت شناس، مزاج شناس شخص سے محبت کرو وہ آپ کو زندگی کے رازوں سے پردہ سرکا کر اُس کا اصل دیدار کروائے گا اگر زندگی کو احسن طریقہ سے گزارنا ہے اور آخرت والی جوابدہی کم کرنی ہے۔
٭٭٭
جب کسی غم زدہ، مظلوم، یتیم اور مسکین، معذور، لاغر، لاچار کو دیکھ کر آنکھیں نم ہو جائیں تو سمجھ لو خدا آپ سے خوش ہے اور اگر آپ اپنی بھری ہوئی جیب سے ہاتھ نکال کر دوسرے کی خالی جیب میں خالی کر دیں تو آپ خوش نصیب ہیں … اپنے مال میں سے کچھ نہ دیں مگر خدا کے دیئے ہوئے مال میں سے خدا کے نام پر دیں تو آپ خوش حال ہیں۔
٭٭٭
بزدل کے دل میں خوف قطار بنا کر داخل ہوتے ہیں ایک ایک کر کے باہر نہیں نکلتے کیونکہ وہ اپنا سراغ لگانے سے قاصر ہوتا ہے۔
٭٭٭
انسان ایک زرد پتہ کی مانند ہے جو قدرت کے درخت سلیمانیہ سے متواتر گر رہے ہیں اور پھر وہ واپس اُسی درخت کی جڑوں میں گم ہو جاتے ہیں … کمال زندگی یہ ہے کہ اپنے اندر ایک شمع جلاؤ جو روشنی دے نا کہ جلا دے … زندگی موت کی زد میں ہو مگر موت سے ڈرے نہیں۔
٭٭٭
قدرت بڑی مہربان اور رحم والی ہے جن خواہشات میں ہماری ہلاکتوں کا سازوسامان ہوتا ہے وہ اکثر پوری نہیں ہوتیں ہم سمجھتے ہیں خدا کو اپنی مخلوق سے پیار نہیں حالانکہ ہم اپنی ہر خواہش کے پورا ہونے کی شدت اور پُر زور الفاظ سے دُعا کرتے ہیں۔
٭٭٭
جس معاشرہ کی عورت میں عورت پن مر جائے وہ معاشرہ حقیقی زندگی سے لطف اندوز نہیں ہوتا … عورت پن خوبصورت معاشرہ کو زندہ رکھتا ہے عورت اپنی حد میں خوبصورت اور خوب سیرت لگتی ہے۔
٭٭٭
جو زندگی میں قلعے بناتے ہیں بعد از موت اُن کے مقبرے بنتے ہیں بلکہ وہ زندگی میں بھی مقبروں جیسی زندگی بسر کرتے ہیں زندہ ہوں تو ارد گرد ہجوم مر جائیں تو مقبرہ دیکھنے والوں کا ہجوم پہلا خوشگوار اور دوسرا ناگوار …!
٭٭٭
گہرا آدمی ہو یا گہرا پانی دونوں سے احتیاط کرو … قیافہ شناس کا یہ مشورہ ہے۔
٭٭٭
انسان زندگی کا سفر نہایت احتیاط سے کرتا ہے اور جب وہ وقت آ جاتا ہے جو معین نہیں تو پھر زندگی سے اتر کر موت پر سوار ہو جاتا ہے بہرحال انسان سفر پر رہتا ہے پہلے دنیا کے سفر پر پھر آخرت والے سفر پر … زندگی سے نکلتا ہے تو حیات میں داخل ہو جاتا ہے۔
٭٭٭
جنوں کی بات میں عشق کی روح ہوتی ہے جنوں نہ چڑھے تو عشق نہیں ہو سکتا محبت اندھی ہوتی ہے مگر عشق اندھا، بہرہ اور بے زباں ہوتا ہے جنوں اِن کا دربان اور پاسبان ہوتا ہے۔
٭٭٭
لوگ کہتے ہیں فراوانی دولت ہاتھ پر سرسوں جمانے کی صلاحیت ہے یہ ایمان نہیں مانتا مگر میں دنیا داروں سے سوال کرتا ہوں کیا ایسا ممکن ہے … جواب کا انتظار کروں گا …!
٭٭٭
سچ بولنے کا رواج جب ختم ہو جائے تو منافقت پروان چڑھتی ہے لوگ باہر سے ووٹ والی پرچی ایک سے لیتے اور اندر جا کر مہر دوسرے فریق کے حق میں لگاتے ہیں تو پھر زرداری جیسے لوگ صدر بن جاتے ہیں یہ ظلم کوئی دوسرا نہیں کرتا ہم خود اپنے آپ پر کرتے ہیں چینی 125روپے کی بجائے یہی 200روپے فی کلو میں بھی نہیں ملے گی … سارا ملک شوگر فری ہو جائے گا۔
٭٭٭
حقیقت سب سے بلند اور گہری ہوتی ہے مگر لوگوں کا خیال ہے زندگی حقیقت ہے مگر نہیں اصل حقیقت موت ہے اور اِس کا اصل نام یقین اور پتہ شہر خاموشاں ہے گلی کا نام جنازہ گاہ اور مکان کا نام قبر ہے بس جس نے قبر کی حقیقت کو پا لیا وہ دونوں جہانوں میں سرخرو ہو گیا۔
٭٭٭
ضبط کا جو مظاہرہ کرتے ہیں وہ غم اور خوشی کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں نہ خوشی اُن کے جذبات کو باہر نکالتی ہے اور نہ غم انہیں اندر سے کھاتا ہے اُن کا نفس رضا الٰہی کا طواف کرتا ہے۔
٭٭٭
مرنے کے بعد کچھ انسان، انسان کو مٹی میں ملا دیتے ہیں اور کچھ اِس مٹی کو آگ میں پکا دیتے ہیں … آگ میں پکانے والے کو ہندو اور مٹی کو مٹی میں ملانے والے کا نام مسلمان ہے … خدا کا بھی عجیب نظام ہے مٹی اگر مٹی ہی رہتی تو اُسے کیا فرق پڑتا اور مٹی سے اگر انسان بنا دیا ہے تو پھر اِسے انسان بنا دے تو یہ توفیق بھی اُسے ہی ہے۔
انسان خاکدان ہے اور چل پھر کر مٹی سے اپنا رزق حاصل کرتا ہے اور پھر خود مٹی کا رزق بن جاتا ہے … انسان کی بے یقینی اُسے خاک کر دیتی ہے … مٹی میں اگر علم ہو تو انسان ورنہ مٹی …!
٭٭٭
مصافحہ اور بغل گیری سب فریب ہے اگر انسان کا باطن صاف اور نیت نیک نہ ہو لوگ السلام علیکم بھی کہتے ہیں اور بد دُعا بھی مانگتے ہیں بتاؤ کس پہ اعتبار کیا جائے۔
٭٭٭
بد نظری کے سامنے لباس کی کوئی حیثیت نہیں انسان کی نظر میں حیاء نہ ہو اور دل پر ایمان کا پہرہ نہ ہو تو اُسے سارے ننگے نظر آئیں گے۔
٭٭٭
نفس پکار رہا ہے “تم جس کی تلاش میں سرگرداں ہو وہ میں ہوں”۔
٭٭٭
نصیب اچھے نہ ہوں تو بے نصیب متھے لگ جاتا ہے۔
٭٭٭
جس ملک کی اشرافیہ حق ترجیح پر ایمان رکھتی ہو بتاؤ وہاں قانون کا احترام ہو سکتا ہے جہاں قانون غلام ہو وہاں قوم محکوم اور حاکم مطلق العنان ہو گا … وہاں جمہوریت مذاق اور آمریت عذاب۔
٭٭٭
حیاء انسان کی اندر والی غلاظتوں کو چھپانے والا ایک بہترین فارمولا ہے یہ مرد سے زیادہ عورت کے لئے مفید اور مجرب نسخہ ہے۔
٭٭٭
جو لیڈر اپنی زندگی میں سے قوم کو کچھ نہیں دیتا اُس کی گردن پر قوم کا قرض باقی رہتا ہے جو قوم کو مقروض کر کے مرتے ہیں ایسے لیڈر خود الزامی کے جذبہ سے مغلوب نہیں ہوتے … خود غرض اور مطلب پرست لیڈر قوم کا سب سے بڑا غدار ہوتا ہے۔
٭٭٭
دولت کے اندھوں کو معاشرہ کی نا انصافیاں نظر نہیں آتیں۔
٭٭٭
موت کو اگر جلالت بخشنے کا شوق ہے تو آپ کی عزت نفس کو طمانیت حاصل ہونا ضروری ہے کوئی تو یادگار انسان کو ایسی چھوڑ جانی چاہئے جس سے اُس کی پہچان ہو کم از کم کسی اعلیٰ کردار اور اچھے عمل کا ہونا ضروری ہے نشان خیر کے طور پر کوئی اچھی بات ہی چھوڑ جانی چاہئے جسے لوگ جب اکٹھے ہوں تو دوہرائیں۔
٭٭٭
جتنا اضافہ آبادی میں ہو رہا ہے اگر اتنا اضافہ علم میں ہوتا تو شاید اضافہ آبادی کو روکا جا سکتا … جہاں وسائل کی کمی اور آبادی کی زیادتی ہو وہاں مسائل گھمبیر اور مالی مشکلات زیادہ ہوں گی، وہاں معاشرہ میں مایوسی اور محنت میں چوری کا عنصر پایا جائے گا۔ علم انسان کی مثبت سوچ کا نام ہے۔
٭٭٭
ہمارا مزاج جب قصوروار ہوتا ہے تو ہمارے ذہن کو سزا ملتی ہے ذہنی سزا جسمانی سزا سے زیادہ مشقت ور ہے۔
٭٭٭
ترقی جو شجاعت کو کھا جائے وہ زوال ہوتا ہے انصاف جو قانون کو کھا جائے اور قانون جو انصاف کو کھا جائے، نہ وہ قانون ہوتا ہے اور نہ ہی وہ انصاف، انصاف …! میرے خیال کے شعور میں یہ بات ہے ہر بلندی پستی کی زد میں ہے۔
٭٭٭
جو مومن مسلمان موت سے خوف کھائے اور زندگی سے محبت کرے وہ مومن کم اور مسلمان زیادہ ہوتا ہے کلمہ خوف سے پڑھتا ہے اور محبت دل سے کرتا ہے۔
٭٭٭
قدرت کا امتحان ہمیشہ کورس سے ہوتا ہے یہ کبھی نہیں ہوتا کہ فہم و فراست پر اجارہ داری کسی خاص قبیلہ یا خاندان کی ہو یہ رویہ انسانوں کے رویوں کو اور صلاحیتوں کو کھا جاتا ہے نہ وہ ملک آگے ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی اُس قوم میں شعور بیدار ہوتا ہے جس بیج میں طاقت اور صلاحیت ہو وہ زمین کا سینہ چاک کر کے نکل آتا ہے۔
٭٭٭
جو چمگادڑ کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں انہیں ہر چیز الٹی نظر آتی ہے یہی نظر انسان کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔
٭٭٭
جو لیڈروں کی جوتیاں صاف کرتے ہیں وہ اقتدار کے گردوارہ کے زائرین ہیں وہ پاپوش نگر کے باسی ہیں۔
٭٭٭
شہید جو قیمت ادا کرتا ہے وہ قوم پر ہمیشہ قرض رہتی ہے۔
٭٭٭
قناعت ختم ہو جائے تو انسان کا بھرا ہوا پیٹ خالی لگتا ہے۔
٭٭٭
طرز اختیار میں اسم اعظم جرات ہے اور اسم ثانی قربانی اگر اسم ثانی اور اسم اعظم انسان میں اکٹھے ہوں تو وہ زندگی کے ساتھ انصاف کر سکتا ہے یہی بڑی اور اعلیٰ قوموں کی نشانی ہے۔
٭٭٭
اپنے لئے تو سارے زندہ رہتے ہیں دوسروں کے لئے زندہ رہنے والا قلب تیمار دار سینے میں رکھتا ہے یہی قلب خدا کے حضور جھکتا ہے اِسی میں ایمان ہوتا ہے۔
٭٭٭
جو ذہنی پستی سے سمجھوتہ کر لے وہ کبھی انسانوں کی فہرست میں شامل نہیں ہو گا۔ انسان کا اصل مقام انسانیت کی بلندی ہے وہ نظر کہاں سے لاؤں جو پستی اور بلندی کے فرق کو محسوس کر سکے۔
٭٭٭
جو حاضر انسان کی مجبوری، بے بسی، لاچاری، غربت، بیماری، بے کسی کو دیکھ کر اعتبار نہیں کرتا اُس کا ایمان با نصیب بھی مشکوک ہے۔ جس پر ایمان با نصیب ہے اُس کے حکم کی تعمیل نہایت اشد ضروری ہے
٭٭٭
توبہ کے لئے اگر زندگی کا سارا اثاثہ بھی لٹانا پڑے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں خدا کرے ایسا کرنے کے بعد توبہ قبول ہو جائے۔
٭٭٭
دیدہ عبرت انسان کا اندر روشن کر دیتی ہے اندر کے راز اگل دیتی ہے اندر کے خزانوں سے آگاہ کرتی ہے دیدہ عبرت حیرت زدہ کر دیتی ہے انسان میں سے ایک سچا انسان نکال لاتی ہے حقیقت میں سے حق کو باہر لے آتی ہے۔
٭٭٭
جب انسان کے اندر میں سے احساس والا مادہ نکل جاتا ہے تو پھر وہ انسان نہیں رہتا۔
٭٭٭
خوشگوار خبر انسان کے باطن کا حسن ہے، جمالیاتی احساس انسان کو عاجزی کی طرف مائل کرتا ہے
٭٭٭
جس بزدل میں رحم ہو وہ قابل تعزیر نہیں ہوتی وہ بدعا کا کوئی ڈر ہے۔
٭٭٭
جس گھر میں آپ مستقل رہائش پذیر نہ ہو سکیں خواہ وہ کتنا بڑا اور خوبصورت عالی شان کیوں نہ ہو اؑس گھر کے مقابلہ میں حقیر اور چھوٹا ہے جہاں آپ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قیام کرنا ہے اُس کا ایک ہی نام ہے “مقام قبر”… وہ شہر خموشاں میں ہر کسی کے لئے تیار ہے۔
٭٭٭
دو میں سے ایک امیر ہو سکتا ہے یا حکمران یا ملک …!
٭٭٭
جس کے اپنے آنسو اِسے دعا دیں خدا کی مدد لے کر کوئی بندہ خدا اُس کی مدد کو پہنچ جاتا ہے۔
٭٭٭
ایمان یہ نہیں کہ ہم نے کسی چیز کو مان لیا ہے اُس پر عمل کرنا ایمان ہے۔ انسان ہر شئے کو Denatureکر کے اُس سے فائدہ حاصل کر رہا ہے حالانکہ Natureسے زیادہ پُرسکون فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ جہاں جہاں انسان فطرت سے دور ہے وہ پریشان ہے۔ عبادت فطرت کے قریب کرتی ہے اور اگر انسان عبادت کے باوجود مایوس، اداس، پریشان ہے تو وہ فطرت کو غلام بنا رہا ہے یہی وہ لوگ ہیں جن کی تبلیغ بے اثر ہے وہ سچ تو بول رہے ہیں مگر سچے دل اور سچے عمل سے ثابت کرنے سے قاصر ہیں لہذا فطرت سے بغاوت اپنے ایمان اور خالق ایمان سے بغاوت ہے۔ ایک حقیقت جو نظر آ رہی ہے اُس کو ماننا ایمان ہے … ہر شئے کا کوئی خالق ہے جب ہم شئے کی حقیقت کو مان رہے ہیں تو یہ لازم ہے ہم اُس کے خالق کو بھی مانیں … کوئی تو ہے جس نے اُسے خلق کیا ہے وہی خدا ہے۔
ہم فطرت کو غیر فطری حالت میں لا سکتے ہیں مگر غیر فطری شئے کو فطری حالت میں نہیں لا سکتے یہ انسان کے بس میں نہیں … ہم کسی فطرت کی شبیہ تو بنا سکتے ہیں مگر ہم اُس میں فطرت والی روح پیدا نہیں کر سکتے … بس انسان جب اِس حقیقت کے قریب ہو گا تو اپنے نفس پر قابو پا کر دیانت حقیقت اور صداقت کی طرف راغب ہو گا۔ فطرت کی پہچان کی طرف رغبت ایمان ہے۔
٭٭٭
عوام بُرے نہیں ہوتے اُن کا چناؤ بُرا ہوتا ہے تو قوموں کو زوال آتا ہے۔
٭٭٭
جس وجود میں ایثار اور قربانی والا مادہ نہیں وہ دھرتی پر بوجھ ہے۔
٭٭٭
کسی مسیحا کی مسکراہٹ میں انتقام نہیں ہوتا قوم کے لیڈر قوم کے مسیحا ہوتے ہیں طنز، طعنہ انہیں زیب نہیں دیتا۔
٭٭٭
تمام دُکھوں کی بنیادی وجہ انسان کی ناجائز خواہشات ہیں خواہشات پر قابو پانا سب سے بڑی خواہش ہو گی تو کوئی دُکھ، دُکھ نہیں رہے گا۔
٭٭٭
انسان کو ختم کرنے کی خواہش انسان کی انسانیت کو مار دیتی ہے۔
٭٭٭
صرف ماں کی دعاؤں میں کامیابی نہیں ماں کا دل فتح کرنا کامیابی ہے۔
٭٭٭
جس کے اپنے بچے نہ ہوں مگر وہ بچوں سے محبت کرے اُس کا احترام کرنا بچوں پر واجب ہے۔
٭٭٭
جب عمل کی قوت کے برابر عمل ہو اُس کو رد عمل کہتے ہیں مگر وہ مخالف سمت میں ہو۔
٭٭٭
سیاست گزیدہ لوگ ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں اُن کو اپنے جیسا کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔
٭٭٭
جس نے زندگی میں کوئی مقصد حاصل نہ کیا اُس کی موت حرام ہے۔
٭٭٭
عقل جب آپ کے خلاف فیصلے دے تو سمجھ لو تم سے خدا کے کرم والا سایہ اٹھ رہا ہے۔ جب خدا ناراض ہوتا ہے تو سب سے پہلے عقل ماری جاتی ہے … جب انسان کی عقل ماری جاتی ہے تو وہ فطرت اور حقیقت سے جنگ شروع کر دیتا ہے۔ خدا کو ناراض کر کے ناخداؤں کو راضی کرتا ہے۔
٭٭٭
اُسے کبھی دوست مت بناؤ جس کا وجود تو اپنا ہو مگر اُس میں فیصلہ کرنے والی قوت کسی دوسرے کی ہو … ایسے لوگ بگولا مزاج ہوتے ہیں … پل پل زندگی تذبذب کا شکار …!
٭٭٭
بکھرے ہوئے خیالات کو یک جاہ کرنے کا نام “عبادت”ہے مگر خیالات کا پاکیزہ ہونا ضروری ہے …!
٭٭٭
جب تک انسان اپنی بے بسی کو آزما نہ لے اُسے یقین نہیں آتا اِس وجہ سے اُسے راہ راست نصیب نہیں … جب دُکھ، درد اور تکلیف ہو تو سکھ چین اور آرام کی آرزو کرتا ہے … جب یہ نصیب ہو تو خدا کو کم کم یاد کرتا ہے … مگر دعویٰ یہ کرتا ہے کہ خدا اُسے بہت یاد ہے … انسان بڑا فریب کار ہے … سب سے زیادہ اپنی ذات کو دھوکا میں رکھتا ہے۔ ہر ایک پہ یہ عالم آئے گا کہ سب کچھ ہو گا مگر اُس کے بس میں کچھ نہیں ہو گا۔
٭٭٭
پاکیزہ دل فرشتوں کی عبادت گاہ ہوتے ہیں اور پاکیزہ دامن حوروں کی میراث …!
٭٭٭
جب بزرگی کا احساس ہو تو انسان رویے بدل لیتا ہے ورنہ ساری زندگی لوگوں کی صف میں بسر کرتا ہے … جو لوگ پیدا ہوتے ہیں اور لوگ ہی مر جاتے ہیں، خدا انہیں ہدایت دیتا ہے جو اپنے نفس میں خدا کی ہدایت پالتے ہیں وہ سکون سے زندگی بسر کرتے ہیں اور حالت اطمینان میں مرتے ہیں یہی کامیاب زندگی ہے … انسان کم سے کم گناہوں کا بوجھ اٹھائے اور کم سے کم ذہنی، روحانی اور قلبی مقروض ہو … انہیں بزرگ مت کہو جن کی عمریں طویل مگر لالچ، ہوس و حرص، طمع دولت و اقتدار جو ساری زندگی انا کو پالتے ہیں عاجزی اور انکساری اُن کے قریب سے نہیں گزرتی … اِن کے لئے دنیا جہنم کدہ اور آخرت والی کامیابی نصیب نہیں ہو گی خواہ صدیوں سانس لینے والی زندگی بسر کریں … افسوس ہے اُن لوگوں پر جو مرتے مر جاتے ہیں مگر ہدایت اُن کے نصیب میں نہیں …!! زندگی صرف روز و شب نہیں بلکہ معرفت ذات اور ذات الٰہیہ ہے … فطرت شناسی اور حقیقت شناسی ہے … اِس کے لئے عمر کے کسی خاص حصے کی ضرورت نہیں … یہ نصیب کی بات ہے … خالق نہ جانے کس عمل سے یہ نواز دے … بزرگی یہ نہیں کہ عمر کے ساتھ ساتھ انسانی اعضاء کام کرنا چھوڑ دیں تو انسان بزرگ کہلائے … جوانی میں جو انسان بن جائے وہ بھی بزرگ ہوتا ہے۔
٭٭٭
عزت کا معاملہ اُن کے نزدیک اہمیت رکھتا ہے جو زندہ ہیں … اِس کا تعلق زندگی سے نہیں … آسودہ حالی سے نہیں … ہر شخص نے عزت کا معیار اپنے ذہن کے مطابق بنایا ہوا ہے … عزت صرف وہ ہے جو خالق عطا کرتا ہے … اور خالق اُسے عطا کرتا ہے جو عزت کی حفاظت کرنا جانتا ہے ہم نام نہاد عزت کے دعویٰ دار بن کر اکڑ کر اُس کی زمین پر سر اٹھا کے چلتے ہیں … یہ تکبر اور غرور ہے … یہ ناپسندیدہ عمل ہے … عزت تو خلق خدا کی خدمت میں ہے … خدا کے سچے خوف میں ہے … اپنے احتساب میں ہے … عاجزی اور انکساری میں ہے … موت سے جو محبت کرتے ہیں … معاملہ فہم لوگوں کو خدا عزت سے نوازتا ہے … بے فہم اور غیر سنجیدہ شخص ہر وقت بے عزتی کی زد میں رہتا ہے … اُس کا ہر عمل اُس کے خلاف ہوتا ہے … وہ خدا کی توفیق کی طلب نہیں رکھتا … اُس کی اپنی منصوبہ سازی ہوتی ہے … ناپاک رویے اُس کی عادات کی میراث ہوتے ہیں … ہر عمل کو … ہر شئے کو الٹی نظر سے دیکھتا ہے … عزت کی اُس کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی … خدا حمیدہ اور فہمیدہ لوگوں کی مدد کے اسباب پیدا کرتا ہے …!
٭٭٭
ضد پالنے والا، جذبات سے مغلوب اور کم فہم و بے ادراک شخص ہو یا معاشرہ کبھی تغیر پذیر نہیں ہوتا … جو فرائض کو معمولی سمجھے اور خود پرستی کی خوش گمانی زیادہ رکھتا ہو … صلاحیتوں کو بروئے کار لائے مگر اُن پر فخر زیادہ کرے … جس کو اپنے حسب و نسب اور تاریخ خاندانی پہ ناز ہے در اصل اُس کی اپنی صلاحیتیں مر چکی ہوتی ہیں۔
٭٭٭
جو نہ زبان سے سچ بولے اور نہ اُس کے نصیب میں رزق حلال ہو وہ مسلمان تو درکنار انسان بھی نہیں … جو فساد فی الارض کا پیروکار ہو … امن کا دشمن ہو … جس کو آدھے ایمان کا شعور تک نہ ہو … جس کو ذاتی مفاد عزیز تر ہو … اُس میں نہ شرم ہوتی ہے نہ حیاء … فقط مطلب سے یاری …!
٭٭٭
کسی کے شعور کو بیدار کرنے کے لئے اپنے شعور کی قربانی دینی پڑتی ہے … بے شعور لوگوں کو بے شعوری سطح پر جا کر سمجھایا جا سکتا ہے … اُن کی ذہنی سطح پر جا کر اُن کے ذہن کو بدلا جا سکتا ہے … بے شعور لوگوں کا ایک جنگل ہے اور با شعور اکیلا ہے۔
٭٭٭
جو اولاد سے زیادہ والدین سے محبت کرتے ہیں وہ فطرت سے بغاوت کے مرتکب ہیں وہ ساری زندگی اولاد کے ذہنوں سے نفرت اور بغض و کدورت نہیں نکال سکتے جو بہن بھائیوں کو اولاد پر ترجیح دیتے ہیں … کسی کو حق سے محروم مت کرو اور فرائض میں کوتاہی … ہر ایک کا اپنا درد ہوتا ہے اولاد اور والدین کے درمیان بڑا نازک درد ہوتا ہے جہاں خاندانی نظام قدرت کی پاسداری ہے۔
٭٭٭
ذہنی تناؤ کے رجحانات جتنے کم کرو گے اتنی زندگی آسان اور کامیاب گزرے گی … ترجیحات کو کبھی فراموش مت کرو … ترجیح بنیادیں کامیابی کی ضمانت ہیں اور وقت کے ساتھ انصاف …!!!
٭٭٭
سارے جذباتی فیصلے انسان کے اپنے خلاف ہوتے ہیں … ہر غصہ انسان کا اپنا دشمن … محبت بھرا لہجہ انسان کا بہترین دوست … انسان کے اندر ہی اُس کا دوست اور دشمن … جس سے چاہے وہ دوستی لگائے …!
٭٭٭
کمزور پہ ہاتھ مت اٹھاؤ ورنہ تمہارا ہاتھ کمزور ہو جائے گا … خدا جس کے ساتھ ہوتا ہے وہ کبھی کمزور نہیں ہوتا …!!! خدا مظلوم کے ساتھ ہے اِس کی آہ سے ڈرو …!!!!
٭٭٭
جہاں انسان کے مفاد کی بات ہوتی ہے وہاں اُس کے پاس اُس کے لئے جواز کی بات ہوتی ہے … وہ اپنے جھوٹے نفس کو بھی تسلی دیتا ہے … وہ پھر انسانی ضمیر کو بھی ورغلا لیتا ہے … کچھ نہیں ہو گا …! دیکھا جائے گا …! ایسا رویہ ہی انسان کو گناہوں پر ابھارتا ہے جب وہ خود کو جھوٹی تسلی دیتا ہے …!! انسان اپنے اندر والے سچے انسان کو شکست دینے کی آرزو پالتا رہتا ہے یہ نہیں سوچتا کہ آخری شکست تو باہر والے انسان کا نصیب ہے جو شیطان سے دوستی رکھتا ہے اور خدا کو ماننے کا دعویٰ کرتا ہے …!!!
٭٭٭
دنیا کی بہترین اور کمال ترین خواہش کا نام “اولاد”ہے … ہر ذی نفس کی زندگی اِس کا طواف کرتی ہے … انسان سب سے زیادہ پریشان اِن کی وجہ سے ہوتا ہے … خوش نصیبی اور بد نصیبی بھی اِن کے رویوں کے دو نام ہیں۔
٭٭٭
انسان اپنی زندگی کی حفاظت کے لئے بہت سی زندگیوں کو بھی ختم کر دے تب بھی وہ اپنی زندگی کو طویل نہیں بنا سکتا … وہ اپنی بے بسی سے بچ نہیں سکتا۔
٭٭٭
خیانت اور بددیانتی سے نفس کمزور ہو جاتا ہے۔
٭٭٭
جن ذہنوں میں خباثت اور خناس کا بیج اُگتا ہے وہ عدالتی حکم تو کجا خدا کے حکم سے بھی دانستہ انکاری ہو جاتے ہیں … پر نتیجہ کیا نکلتا ہے تم بھی جانتے ہو۔
٭٭٭
ماخذ اور تشکر: کتاب ایپ
ای بک سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی باز تشکیل: اعجاز عبید
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...