خوشامد ایک بیماری ہے، فن ہے، عادت ہے، ضرورت یا فریب نفسی بہرحال اِس کی جو بھی صورت ہے وہ قابل قبول نہیں کیونکہ یہ انسانیت کے لئے باعث شرم و ننگ ہے۔ خوشامدی ندامت محسوس نہیں کرتا اور جو ندامت محسوس نہ کرے اُس میں تبدیلی والا عمل رک جاتا ہے مگر وہ خود کو چلتا ہوا محسوس کرتا ہے اُس کا ذہن صرف مفاد کی طرف راغب ہوتا ہے وہ اپنے عقیدہ اور اصولوں سے بیگانہ ہوتا ہے وہ اِس خیال کے ساتھ بندھا ہوا ہے کہ جو وہ سوچ رہا ہے یہی اُس کے لئے فائدہ مند ہے اور جو وہ کر رہا ہے یہ حقیقت ہے یہی غلط فہمی اُسے خوشامدی رویوں پر مجبور کرتی ہے۔
خوشامدی رویے انسانی چہرے کے خدوخال کو تبدیل کرتے رہتے ہیں اور خوف کے بارے میں نہ جانتے ہوئے بھی اُس کے اندر سے خوف نہیں نکلتا۔ وہ مد مقابل کو سمجھتا ہے جو وہ بات کر رہا ہے وہ اِسے حق اور سچ سمجھ رہا ہے اور خوشامد پسند اُسے اپنے حق میں جائز اور درست تسلیم کرتا ہے اِس طرح خوشامد پسند اور خوشامد پرست کا ایک رشتہ قائم ہو جاتا ہے دونوں ایک دوسرے کی کمزوریوں پر پردہ ڈالتے ہیں اور جھوٹی ہنسی کی شکل میں ایک دوسرے کو داد والی نظروں سے دیکھتے ہیں دونوں کا مقصود قریب نظر آتا ہے اور دونوں کا مفاد یک جاہ ہوتا ہے اِس وجہ سے اُن کو ایک دوسرے میں کوئی عیب نظر نہیں آتا۔
خوشامد وہ انداز گفتگو ہے جو ناحق بات کو حق کی شکل بنا کر دکھایا جائے۔ خوشامد پسند اور خوشامد پرست ایک دوسرے کی بے جا حمایت اور تعریف کرتے ہیں جس کی وجہ سے انصاف پر مبنی فیصلہ کرنے میں غلطی ہو جاتی ہے۔ کمزور ذہن اور کمزور قوت فیصلہ شخص بہت جلد اِس کا شکار ہوتا ہے۔ یہ سب سے مہلک ذہنی بیماری ہے جو ضمیر فروشوں اور بے نفسوں کو لگتی ہے، جن کے دل گناہ اور ثواب کے فرق سے مبرا ہوتے ہیں، جو روح کو حبس بیجا میں رکھتے ہیں اور خود ساختہ معززین میں شمار ہوتے ہیں، خود ہی بات کرتے ہیں اور خود ہی قہقہے لگا کر اپنے نفس کو اطمینان کا فریب دیتے ہیں، آنکھوں میں سے شرم اور ضمیر میں سے ندامت نکال دیتے ہیں جب خوشامد سے اپنا اپنا مطلب نکالتے ہیں۔ بتاؤ ایسے لوگوں سے زندگی کیا حاصل کرے گی یا یہ زندگی کو کیا دیں گے فقط حوائج ضروریہ اِن کا پسندیدہ مشغلہ رہ جائے گا۔
خوشامد پسند اور خوشامد پرست زور زور سے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار مار کر اپنے مکار نفس کو خوشی کا فریب دیتے ہیں خود بیوقوف ہوتے ہیں اور دوسروں کو بیوقوف سمجھتے ہیں خدا کو ناراض کر کے ناخداؤں کو راضی کرتے ہیں اپنے لئے گناہ اور دوسروں کے لئے ثواب کا بندوبست کرتے ہیں ایسے لوگ ذہنی مہلک بیماری کا شکار ہوتے ہیں، معاشرہ میں اکثر جگہ کثرت سے پائے جاتے ہیں سرکاری اداروں اور قانون ساز اداروں میں اِن کی اکثریت ہے۔ خوشامد ساز اور خوشامد باز اپنے نفس کو فریب دیتا ہے، یہ نفسانی چھیڑ خانی ہے یہ نفس کی بُو کلامی ہے یہ ضمیر کی بے ایمانی ہے یہ شیطان کی حقیر سی مہربانی ہے جو آدمی کو باور کراتا ہے کہ اِس میں تیرا مالی فائدہ ہے اور تیرے شیطانی رویوں کو تقویت ملے گی۔ تیرے دل پر شیطانی خوشی کی کیفیت پیدا ہو گی تو ناخدا کی نظر میں مقام پائے گا تجھے وہ اپنے پاس بٹھائے گا تو اُسے اُس کے من کی جب داستان سنائے گا وہ خوش ہو کر تیری دل جوئی کرے گا تو خود کو بھول جائے گا تیری حیثیت کیا ہے، وقعت کیا ہے، اصل کیا ہے، تم کون ہو تمہیں یاد نہیں رہے گا تو زندہ نظر آئے گا مگر تم میں زندگی نہیں ہو گی۔
خوشامد پسند، خوشامد پرست، خوشامد ساز، خوشامد باز اپنے وجود میں خود نہیں ہوتا وہ دوسرے کی خوشی میں اپنے اطمینان کو تلاش کرتا ہے، وہ خوشامد پسند کی نظر میں اپنا مقام بنانے کی شدت سے خواہش کا قتل عمد کرتا ہے اور اُس میں سے جو خون بہتا ہے اُسے خوشی خوشی پیتا ہے تا کہ اُسے سکون نصیب ہو وہ اپنی روح کا دشمن ہوتا ہے وہ خود پر بے اعتمادی کا اظہار کرتا ہے وہ اپنی خودی کو گروی رکھ دیتا ہے وہ اپنے آپ کو دانستہ گم کر دیتا ہے وہ اپنے آپ کو تلاش کرنے میں دربدر خود کو رسوا کرتا ہے رسوائی کی خاک در خاک اپنے سر میں ڈالتا ہے اور بے فائدہ زندگی کو برباد کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اُس کا شمار معززین شہر میں ہو گیا ہے وہ معتبر بن گیا ہے۔ یہ خدا کو ناراض کر کے اپنے جیسے لوگوں کو راضی کرتے ہیں اور اپنے اِس فعل پر نظر ثانی کے لئے کبھی تیار نہیں ہوتے ایک دوسرے کی برائی پر پردہ ڈالتے ہیں اور اکٹھے با جماعت ایک ہی عبادت گاہ میں عبادت گزاری کا عمل بجا لاتے ہیں خود کو نہیں دیکھتے اور دوسروں پر کڑی تنقید اور نظر رکھتے ہیں ایسے لوگوں کے گھروں میں بھی خوشامدی ماحول بن جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ یہ بیماری سارے معاشرہ میں پھیل جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ معاشرہ میں انصاف پسندی اور انصاف پرستی ختم ہو گئی ہے۔ لوگوں کا ایک دوسرے پر اعتبار اٹھ گیا ہے ہر کوئی ایک دوسرے کو پُر فریب نظروں سے دیکھتا ہے۔
خوشامد پسندی اور خوشامد پرستی ذہنوں میں ذلت اور معاشرہ میں غلاظت کا باعث ہے، شیطانی ذہن کی غذا لذیذہ ہے، حق بات کہنے اور سننے سے روکتی ہیں، انسانی فکر کو اندھا کر دیتی ہیں یہ نفسی شرارت سازی ہے۔ خوشامد پسندی اور خوشامد پرستی شیطان کی دو شریر حرکات ہیں جن سے وہ انسان کے اندر حقیقت والے جوہر کو مار دیتا ہے انسان کے دل سے خدا کا خوف نکال دیتا ہے اور شیطان کی محبت جاہ گزیں ہو جاتی ہے۔ انسان ارفع و اعلیٰ فکر، شعور اور احساس سے محروم ہو جاتا ہے اُسے ہر گز معلوم نہیں ہوتا وہ ایسے کیوں کر رہا ہے در اصل یہ نفس کی بدترین شرارت بازی ہے جو انسان کی پاکیزہ صلاحیتوں کو کھا جاتی ہے پھر انسان جھوٹ اور سچ کے فرق کو محسوس کرنے سے محروم ہو جاتا ہے۔
آپ خود کا جائزہ لیں اور اپنے نفس کا تجزیہ کریں کیا آپ اِس بیماری میں مبتلا تو نہیں اِس کا علاج اِس سے توبہ میں ہے۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...