جب کوئی قوم فرمانبرداری میں بے حِسی کی حالت تک چلی جائے اور حق اور فرائض منصبی کی پہچان کھو دے تو وہ زندہ ہونے کے باوجود موت کے منہ میں چلی جاتی ہے جب اپنا حق مانگتے ہوئے شرمائے یا بزدلی کا مظاہرہ کرے تو اُس سے زندہ رہنے کا حق لے لیا جاتا ہے جب ہر چیز اُسے عزت نفس کے عوض ملتی ہو جب بے کسی، بے بسی اور بے دلی اُس کے احساسات میں نمایاں ہو اور بنیادی حقوق خیرات میں اُسے دیئے جائیں غیر حقیقی طریقے سے اُس کی خواہشات تھوڑی تھوڑی کر کے پوری کی جائیں تا کہ اُس کی انا کا سانس آہستہ آہستہ نکلے مر بھی جائے اور کسی کی ذمہ داری بھی نہ بنے ایسے ماحول میں قوم کے ہر فرد کی زندگی بے معنی اور بے مقصد ہوتی ہے اور قوم اپنی ذہنی اور جسمانی آزادی سے محروم ہو جاتی ہے اُس کی زندگی ایک بے ربط کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کی طرح بسر ہوتی ہے اخلاقی پستی اور مذاق پرستی اُس کے ماحول کا حصہ بن جاتی ہے قوم میں اتحاد ختم ہو جاتا ہے جو قوموں کی روح ہے۔
قوم جب بے حِسی اور بزدلی کا شکار ہو جائے تو مذہب، فلسفہ اور طرز حیات ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو جاتے ہیں انسان سوچتا کچھ اور ہے اور کرتا کچھ اور ہے یہی قوموں کی بدنصیبی اور بے نصیبی ہے ساری قومی زندگی کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ شیرازہ بکھر جاتا ہے۔
قوم کا جب اعتماد کھو جائے تو ملک کی بنیادیں ہل جاتی ہیں افراد کے ذہنوں میں زہر بھر جاتا ہے اُن کی زبان پر بد دعائیں ظاہر ہوتی ہیں پھر ملک میں انتشار اور افراتفری کا دور دورہ ہوتا ہے۔ ہر نفس کی آواز ہوتی ہے “اب کیا بنے گا”معاشرہ کی زخمی روح پکار پکار کر انقلاب انقلاب کی صدا گاتی ہے پھر کوئی باہر اقلیت، بیزار عوام اور نامہربان ہمسائے ہم دردی کے روپ میں اُس ملک کی آبو کو بچانے کا نظریہ لے کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں قریہ قریہ خون آلودہ ہو جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے قوم اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ جب قوم کے اٹھنے اور بیٹھنے میں فرق مٹ جائے تو مطلب واضح ہوا کہ قوم کی فرمانبرداری پر بے حِسی کا گہرا سایہ ہو گیا ہے اُسے زندگی سے پیار ہے۔
قوم کے زوال کی ساری وجوہات اکٹھی کی جائیں تو اِس کی مرکزی وجہ نا اتفاقی اور بے جہتی ہے۔ قومی لیڈر وہ ہوتا ہے جو قوم کی سمت کا تعین کرتا ہے۔ وہ لیڈر قوم کو کچھ نہیں دے گا جس کی زندگی کا مقصد صرف ذاتی اغراض کی تکمیل ہے جو فراز پر ہے مگر نشیب کی طرف اُس کی نظر نہیں ہے گر نہ جائے ہمیشہ کی فرازی تو صرف خالق کو زیب دیتی ہے اور اُس قوم کو جو فرض پورا کرتی ہے اور حق مانگنا جانتی ہے ورنہ ورنہ اِس کی زندگی کے آثار سطح زمین پر کم اور زمین کے نیچے زیادہ رہتے ہیں درس عبرت کے کورس میں کہیں کہیں اُس کا ذکر باقی رہتا ہے۔ مجموعی طور پر قوم مٹی میں منہ چھپا کر اِس امید کے ساتھ زندہ رہتی ہے غیب سے کوئی مدد آئے گی اور تمام مسائل حل کر کے اِن کو اِس حالت سے نجات دلائے گی اور شیطان کے شہر سے نکال کر خدا کے شہر میں آباد کرے گی مگر جو خدا سے محبت نہیں کرتے خدا اُن سے محبت نہیں کرتا خدا سے محبت کا واحد طریقہ اپنے بُرے اعمال کی معافی کی طلب اور سچی توبہ … خدا کی پسند اچھے، ارفع اعمال ہیں۔
قوم جب خدا کی رحمت سے بھی مایوس ہو جائے اور عظیم انسانوں سے بھی محروم ہو جائے تو اُس کی سوچ کو شیطان کھا جاتا ہے پھر سوچتی ہے ہمیں کیا ضرورت ہے ہماری انا کو زندہ کرنے کوئی آئے گا ہماری مدد کرے گا ہماری ضروریات پوری ہو جائیں گی اپنے فیصلے خود نہیں کرتی اور نہ اپنے آپ میں اتحاد پیدا کرتی ہے جمود اور دور شاہی کا شکار ہو جاتی ہے۔ دور شاہی میں انسان ذہنی غلام ہو جاتا ہے یہ کب ہوتا ہے جب انسان اپنا حق دوسروں کے ہاتھ میں دے دیتا ہے قوم ہو یا فرد پھر اُس کے پاس صرف سانس لینے اور ہوا کھانے کا حق رہ جاتا ہے۔
جو قوم نئے جہاں کی تلاش میں نہیں نکلتی وہ پرانے جہاں میں زمین پر حکمرانی کی بجائے زمین میں دب کر زندگی بسر کرتی ہے جس قوم کا ذہنی موسم ہی نہیں بدلتا وہ خود کیسے بدلے گی۔ بے راہ روی بے فکری اور خرافات جیسے انسان کو کھا جاتے ہیں اِسی طرح قوموں کو نگل جاتے ہیں بے یقینی اور تذبذب قوم ہو یا فرد زہر قاتل ہے ساری قوم ایک ہی موسم میں زندگی بسر کر رہی ہے “بے حِسی”کسی خدائی نقارہ کے انتظار میں ہے۔
کوئی قوم، ملت، امت، معاشرہ، تہذیب، تمدن، رواج، روایات، اصول قوم کی حالت نہیں بدل سکتے جب تک اُس کے اندر بدلنے کا احساس زندہ نہ ہو بغیر کوشش، جد و جہد اور ہمت نفسی سے کام نہ لیا جائے اور نہ ہی من حیث القوم کوئی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ انسان یہ جانتا ہے کہ عروج و زوال فطرت کا حصہ ہے مگر صرف زوال پر اکتفا قوموں کی مردہ دلی کا شاخسانہ ہے۔
جو قوم اپنے ایمان کی قیمت وصول کر لے اُس سے ایمان کی بات نہیں کرنی چاہئے جو فرد ایمان کے بدلے اپنے پیٹ کی حاجات خریدے اُن کا ایمان پر حق ختم ہو جاتا ہے۔ وہی قوم اور افراد زندہ رہیں گے وطن جن کا ایمان ہے مگر جس قوم میں نہ کوئی نظم و ضبط ہو نہ ہی نمونہ اور نہ ہی وطن پرستی اُس کو دنیا عالم میں راستہ کون دے گا میری قوم اور میں بند گلی میں آ گئے ہیں جہاں صرف موت ہے … موت۔ جن اشخاص کے ہاتھ میں قوم کی زندگی ہے وہ ہی اپنی قبریں خود کھود رہے ہیں وہ جہنم میں اپنے گھر خود تعمیر کر رہے ہیں وہ قوم اور اپنا خون یک ظرف میں پی رہے ہیں وہ قانون باز، قانون ساز اور قانون نواز والے سارے کھیل اکھٹے اور خود کھیل رہے ہیں۔
قوم اور افراد زندگی کے متن کو نہیں پڑھ رہے وہ ضمیمے اور فٹ نوٹ پر اپنے فیصلے کر رہے ہیں اِس وجہ سے غلط ہو رہے ہیں بھرپور عملی زندگی قوم ہو یا فرد ہی کو عذاب اور اذیت کے گرداب سے نکال سکتی ہے … جو قوم قیمتی وقت کا خون کرتی ہے خدا اُن پر رحمت کی بارش نہیں برساتا … بیدار مغز قوم ہو یا فرد وہ دن اور رات کے فرق سے مبرا ہوتے ہیں وہ معاشرہ کی زندگی کی فکر میں رہتے ہیں۔ جب حواس مردہ ہو جائیں سانس بے شک چلتا رہے اِسے زندگی نہیں کہتے۔ دنیا میں جن کے حصہ میں ندامت نہیں حشر میں وہ ندامت کیوں محسوس کریں گے بے شک شفاعت کرنے والا اُن کو جنت کی تسلی دے گا۔
جس قوم کا جذبہ غم زدہ اور تنہا رہ جائے اُسے کسی ماتم یا مسرت میں شریک ہونے یا نہ ہونے کا احساس نہیں ہوتا۔ جب قوم کامیاب سابقین کے نشان زدہ راستوں سے بے راستہ ہو جائے تو اُن کا سفر تھم جاتا ہے۔ میری قوم وقت کے دھارے میں ایک بے نام لہر ہے۔ جب قوم کے آتش دان بجھ جائیں تو وہ ٹنڈی ہو جاتی ہے۔ تنگ مزاج قوم خوش مزاج ماحول کو پیدا نہیں کر سکتی اور خود دار لیڈر کا انتخاب کبھی نہیں کرے گی جو سوچنے والی صلاحیت سے محروم ہو اُسے کوئی موضوع نہیں ملتا … جو سنہری تاریخ کو بھول جائیں وہ قوم اپنی تاریخ نہیں بنا سکتی۔ جس قوم کے پاس حسن نظر نہ ہو وہ کسی خوبصورت اور اعلیٰ قومی لیڈر کی تصویر نظر میں نہیں لا سکتی۔ جس قوم کی تہذیب زوال پذیر ہو جائے وہ قوم نہیں بلکہ قوم نما افراد کا ایک مجموعہ رہ جاتی ہے جس قوم کی کسی اعلیٰ قوم سے نسبت نہ رہے وہ قوم نما بے نام قوم ہوتی ہے۔ فکر و نظر کی برتری قوم کے ذہنوں کو بلند کرتی ہے جس قوم کی شرم کو ڈوبنے کے لئے پانی ہی میسر نہ ہو وہ خشکی پہ ڈوب جاتی ہے۔
وہ قوم بھی کوئی قوم رہ جاتی ہے تاریخ ماضی جس کے نغمے گائے، قصیدے پڑھے مگر دور حاضر میں وہ اپنی میت پر نوحے پڑھے اور ماتم کرے اپنے جنازے اپنے ہی کاندھوں پر اٹھائے اپنے ہی لگائے ہوئے زخم خود چاٹے اپنے ہی زخموں پر نمک پاشی کرے شہرت کو بدنام کرے اور کامیابی کو دروازہ سے لوٹا دے … افسوس ہے پھر ایسی قوم زندہ رہنے کا حق مانگے جس کے ایک ہاتھ میں کشکول اور ایک میں عصا گدائی جس سے اُس کے پیچھے پڑے ہوئے کتوں سے حفاظت کرے۔
آسمان پر بادل کا نشاں نہیں ایک بوند کا امکان نہیں قوم رحمت والی بارش کی شدت سے انتظار میں کیوں ہے سوچ اور فکر والی کھیتی خشک اور ویران ہے نہ جانے تمنا کو جواں کیوں رکھے ہوئے ہے قوم کی مردہ روح کو بیدار کرنے کے لئے کوئی جانباز زندہ آواز نہیں خدا کیوں مدد کرے گا۔ جب غریب کو غربت سے نجات ملتی ہے تو غربت سے ڈرے ہوئے دور جانے والے قریب آ جاتے ہیں آنکھیں دکھانے والے آنکھیں بچھاتے ہیں یہی حال قوموں کا ہوتا ہے جو قوم اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی ہمت اور صلاحیت رکھتی ہے اُسی کی حیثیت قائم رہتی ہے۔ بے حیثیت قوم ہو یا فرد اُس کی عزت اور عزت افزائی واجب نہیں کیونکہ اُس کی کوئی عزت نفس نہیں ہوتی …!
قوم بہتے دریا کی طرح ہوتی ہے اِس کا رخ موڑنے کی ضرورت ہے اِس کے لئے کوئی درد مند، عقل مند، دانشور، فکر مند، روح پرور، زندہ ضمیر، بے لوث، محبت نواز، محب الوطن لیڈر چاہئے جو ملکی دولت اور قومی دولت میں فرق جانتا ہو جس کی نیند اور بیداری قوم کے لئے ہو جو اپنی زندگی کے لمحہ لمحہ کی خیرات قوم میں تقسیم کرے جو تاریخ کا رخ موڑنے کی صلاحیت رکھتا ہو اُس کی اہلیت مسلم ہو اور اخلاق بلند ہوں، ایمان مضبوط اور دیانت شکوک سے بالاتر قابلیت شعلہ نما ہر دل عزیز عوام نواز ہو صرف قائد عوام نہ ہو صرف روٹی کپڑا اور مکان کا جھوٹا اور بے وزن نعرہ باز نہ ہو صرف شہید جمہوریت نہ ہو جمہوریت نواز ہو، جمہوریت کا احترام کنندہ ہو جو آنے والی سحر کے اسرار کو جانتا ہو جو قوم کی تقدیر کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اِس کی صحیح تشخیص کرے اور اُس کا باقاعدہ اور مکمل علاج کرے تا کہ قوم صحت مند اور ذہنی اور تن درست ہو … کاتب تقدیر پوچھ کر قوم کی تقدیر لکھے …!
جو قوم اندیشوں میں ڈوب جائے اُس کی نیک خواہشات بھی پوری نہیں ہوتیں خواہ وہ بڑی بڑی اجتماعی دعاؤں کا سہارا لے۔ جس قوم کی فراست کھو جائے اور مرحلہ نازک پر اُس کا قیام ہو اُسے اپنے قدم اٹھانے سے پہلے قدم رکھنے کی جگہ پر نظر رکھنی چاہئے اپنے ذرائع محدود ہوں اور کاندھوں پر قرض کا بوجھ ہو وہ قوم اگلے جہاں میں بھی سرخرو نہیں ہو گی جس قوم پر ساری قوموں کی نظریں ہوں اُسے نظر بد سے محفوظ رہنے کے لئے اپنی زندگی کو زندہ محسوس کرنا ضروری ہے۔ زندہ قومیں ہی اپنا نام تاریخ کے خالی اوراق میں خود درج کرتی ہیں۔
قوم صرف وہ ہی بنتی ہے اور رہتی ہے جس کا محافظ بہترین معلم ہو، علم کا معمار ہو، استاد ہو نا کہ نظام حکومت صرف نظام تعلیم قوم بناتی ہے۔
علم میں تسخیر کی طاقت ہے اور وہی قوم سرخرو ہو گی جس کے پاس علم اور صاحب علم ہے۔
اے خدایا! میری قوم کو کوئی مامور من اللہ عطا کر اِسے شفا کاملہ و عاجلہ عطا کر اِسے خود غرضی اور خود فریبی کے عذاب سے نجات دلا اِسے مفاد پرست، مطلب پرست ڈاکو ٹولہ سے بچا اِسے احساس محرومی کے گرداب سے نکال اور جو اِس نے خسارے کے سودے کئے ہیں اِن میں اِسے نفع بخش دے انہیں شاہی قلعوں سے آزادی دلا جمہوریت کے ثمرات سے غریب کو حصہ دلا اِس انصاف پسند ماحول میں سانس لینے کی قوتیں عطا کر اِسے ذہنی سیاست پرست اور مذہب پرست معذور لوگوں سے نجات دلا۔
خدایا! اِس قوم پر تو رحم فرما جو اپنے اوپر رحم کھانے سے قاصر ہے۔ (آمین ثم آمین)
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...