جب عدم مساوات کی آخری منزل اور خود مطلبی اور مطلب بازی کی آخری حد آ جائے تو پھر قوم انقلاب کی نوید سنتی ہے۔ جب چند محدودے قوم کی مجبوریوں پر میٹھے مذاق سے لطف اندوز ہوں تو سمجھ لو عام راستے خون کے پیاسے ہوتے ہیں … جب پورا انسان کہیں نظر نہ آئے تو فکر کا زہر معاشرہ میں پھیل جاتا ہے جب ساری مخلوق خدا وقت کے ہاتھوں اور حکومتی رویوں سے نالاں ہو تو انقلاب کو کون روک سکتا ہے جن کا کل وقت ختم ہونا ہے اُن کا آج اُن سے وقت چھین لیتا ہے پھر ایسے لوگ پھل اتار لیتے ہیں اور باغ اجاڑ دیتے ہیں جو بڑی محنت سے لگایا ہوتا ہے۔ جب قوم کی آنکھیں بند ہوں گی تو ایسی لوٹ ضرور مچے گی …!
جب معاشیات کے درخت کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے تو شاخ شاخ بکھر جاتی ہے پتہ پتہ الگ ہو جاتا ہے قوم کی ساری محنت رائے گاں ہو جاتی ہے بلین ہوا میں بے فائدہ اڑائے جاتے ہیں اور سارے بے فکرے اِس فکر میں مبتلا ہوتے ہیں اب کیا کیا جائے کرنے کو تو اب کچھ باقی رہا ہی نہیں … انکشافات جب منہ چڑھانے لگیں اور ملزم مسکرانے لگے تو سمجھ لو ڈھیٹ پن کی حکمرانی ہے … جب نظریے بدل جائیں تو اُس سے پہلے نظر بدلتی ہے جب نصب العین ہی کوئی نہ ہو تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ساری کار روائی کا کوئی مقصد نہیں جہاں بے دریغ خود کو اور دوسروں کو ہلکان کرنے کی منصوبہ سازی ہو وہاں امن و امان کی ہلاکتیں ہوتی رہیں گی۔
دولت کا درخت سب کو پیارا لگتا ہے اور سارے اُس کی چھاؤں میں بیٹھنا چاہتے ہیں مگر غربت کی دھوپ میں بیٹھے ہوؤں کے جذبات کو ٹھنڈا کون کرے گا امیروں اور حکمرانوں کا گرم اور تازہ خون …!
جب سانپ اور شیطان دونوں اکٹھے ہوں گے تو شیطان شکار کو اٹھائے گا اور سانپ مارے گا … دولت کدوں پر بیٹھے ہوئے اژدہا یہ نہیں جانتے یہ بہروپ اُن کو دھوکا دے رہا ہے قوم جب بیدار ہو گی تو اُس کے آگے بند نہیں باندھا جائے گا … یہ سفید اور سبز انقلاب ایک دن انقلاب سرخ بن جائے گا جب قوم کے جذبوں اور جذبات کا امتحان لیا جائے گا۔ یہ صف زر لپیٹ دی جائے گی یہ نورانی نما شیطانی شکلیں غائب ہو جائیں گی جب حاجت روا اپنا حق چھیننے کے لئے حکمرانوں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالے گا جب غربت کی غیرت کا خون کھولے گا تو یہ زر پرست زرداری والی گدی چھوڑ کر بھاگ جائیں گے … جو قوم کا دل چاہتا ہے وہی خدا کی مرضی ہوتی ہے قوم کو دھوکا دیا جا سکتا ہے اُس کو کون دھوکا دے سکتا ہے جو عدم سے آگاہ ہے جس کی نظر میں سارے زمانے ہیں جو خالق کون و مکاں ہے کوئی وہ اصول بتاؤ جو تمہاری مرضی کے مطابق اور خدا کی مرضی کے خلاف ہو اور یہ گرہ باندھ لو رزق حلال ہو تو فرشتہ … رزق حرام ہو تو شیطان یہی انقلاب کا نعرہ ہے یہ سچی مسلمان قوم کی دُعا ہے ایمان ہے … بتاؤ میرے دوست! انقلاب کتنی دور ہے کب تک آ جائے گا مجھے اُس کا انتظار ہے۔
زندگی کے سارے مسافرو پناہ گاہوں سے باہر نکل آؤ اور دولت والے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے دولت خوروں کا قتل عام کر دو یہ واجب القتل ہیں جو پوری زکوٰۃ نہیں دیتے جو صدقہ و خیرات اور خمس نہیں دیتے جو خدا کی عطا کی ہوئی نعمتوں کو تقسیم نہیں کرتے …!
جو دولت کے غم میں ذہنی مفلوج ہو چکے ہیں اِن کو قتل گاہوں میں لے جا کر اِن کے سر قلم کر دو کیونکہ یہ اب زندہ رہنے کے قابل نہیں اِن کے پیٹ اتنے بھر گئے ہیں کہ اب پھٹنے والے ہیں اِن کی بھوکی آنکھ نکال دو یہ دیس کو لوٹنے والے بدیسی ڈاکو ہماری روایات کے لباس پہن کر ہمارے ہی گھروں کو لوٹ رہے ہیں یہ بڑے بڑے مسائل ہمارے اِن اپنے دشمنوں کی وجہ سے ہیں انہیں دولت غم کی بیماری ہے اور عوام بھوکی اور پیاسی مر رہی ہے۔
اے زندہ روح مردہ قوم! انقلاب کو پکارو، آواز دو وہ بے تاب نظروں سے تمہارے انتظار میں ہے ہمت کرو کچھ نہیں ہو گا صرف سینکڑوں جانوں کی قربانی مانگتا ہے کوئی زیادہ اجر نہیں مرنا تو ہر حالت میں ہے مگر کسی عظیم قصد کے لئے مرنا شہادت کی موت ہے ایسی موت کے بعد رزق حلال سے بے نیاز ہوں گے … آؤ! قافلوں کی صورت میں انقلاب کو خوش آمدید کہیں، کوچہ ڈولو روسا سے بھی تو کوئی نکلا تھا کیا اُسے صلیب پر چڑھانے والوں نے ختم کر لیا ہے … کیا شہر مدینہ سے نکل کر کربلا کی گرم ریت پر شہید ہونے والے کے پیغام کو کوئی روک سکا … زندگی میں جنت اور دوزخ کا فاصلہ ایک پل ہے اِس کا فیصلہ حُر نے کیا تھا جو خاک نشین ہو کر تخت نشین ہوا اور اُس خاک کو خاک شفا بنا گیا جس پر اپنا خون بہا گیا …!
بے گھروں کو کوئی تو گھر چاہئے شہید ہو کر یہاں سے جنت میں گھر ضرور ملے گا ظلم کے خلاف جہاد انقلاب لا سکتا ہے کافر کو مارنے سے پہلے اپنے اندر والے کفر کو مارو گے تو باہر والے انقلاب کی سمجھ آئے گی … جو خدائی احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں اُن کے خلاف جہاد واجب ہے …!
جہاد جہاد پکارنے والو اٹھو! مظلوم، بے بس اور افلاس زدہ بھوکے عوام کے گوشت اور خون سے اپنے محلات بنانے والوں کا خون آپ کو معاف ہے آسمانوں سے فرشتے نہیں اتریں گے تم میں سے ہی کوئی خدا کے بندے ظاہر ہوں گے جو انقلاب کی لگامیں کھینچ کر اُس پر سوار ہو کر ظالموں کو روند ڈالیں گے …!
اٹھو! انقلاب آپ کا انتظار کر رہا ہے بلکہ دہلیز پر کھڑا ہے اپنے ضمیر کا در تو کھولو … اپنے نفس کو بے حِسی والے غار سے تو نکالو، دیکھو انقلاب کی آنکھوں میں خون اتر آیا ہے۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...