مبشر احمد میر(گجرات)
’’کیاانسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا راز اس کی معاشرتی زندگی میں پوشیدہ ہے؟‘‘ اِس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہوئے معاشرتی زندگی بسر کرنے والے پرند، چرند، درند اور حشرات الارض کی انواع سے بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں البتہ انسان اور دیگر مخلوقات کی معاشرتی زندگی میں پائے جانے والے فرق کی نوعیت اکتسابی و ابلاغی ہے۔ انسان جس معاشرے میں رہتا ہے وہ اس سے کچھ وصول کرتا اور کچھ دیتا رہتا ہے۔ لین دین کا یہ عمل صرف مادی نہیں ہوتا بلکہ ذہنی اور علمی بھی ہوا کرتا ہے۔ انسان معاشرے سے سیکھتا بھی ہے اور اپنی استعداد اور رجحان کے مطابق دیتا بھی رہتا ہے۔ اس لین دین اور سیکھنے سکھانے کے نتیجے میں معاشرے کے مجموعی رویے ظاہر ہوتے ہیں ۔ معاشرے کے انھی مجموعی رویوں کو عصرِ حاضر کی اصطلاح میں کلچر کہا جاتا ہے۔ انیس ناگی کے مطابق، ’’کلچر ایک اسلوبِ زیست ہے جس میں معاشرے کے خواب اور ہوش کی جملہ وارداتیں شامل ہوتی ہیں۔ کلچر ایک معاشرے کی باطنی تنظیم کا مظہر ہوتا ہے جو ایک معاشرتی عمل اور جغرافیائی حدودِ اربعہ اور مذہبی روایات اور رسوم سے اپنے خدوخال مرتب کرتا ہے۔‘‘ (۱)
انسان کی انفرادی زندگی کی مانند اجتماعی زندگی میں بھی تغیر و تبدل اور عروج و زوال آتے رہتے ہیں۔ کسی معاشرے کے کلچر کی تشکیل میں اس کے عقائد، روایات اور ماحول اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جب کہ کلچر میں تبدیلیاں، تبدیلی عقائد، نقلِ مکانی اور دوسرے معاشروں سے ربط و ضبط کے علاوہ علمی ترقی یا انحطاط کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ چونکہ یہ عوامل ہمیشہ افراد اور معاشروں پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں اس لیے ہر معاشرے کے کلچر میں تبدیلی کا عمل ایک جاری و ساری عمل ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ، ’’کلچر اس کا نام نہیں کہ معاشرے میں موجود تمام رسوم و رواج اور عقائد و نظریات اور علوم و فنون کو جوں کا توں قبول کر لیا جائے، بلکہ اکتساب میں انتخاب کا عمل کلچر ہے۔ ………… آباؤاجداد سے ورثے میں ملنے والی یا منتقل ہونے والی تمام اقدار کلچر کا حصہ نہیں ہوتیں بلکہ ان اقدار میں سے انتخاب کر کے اقدار کو اپنانا کلچر ہے۔‘‘ (۲)
ویسے تو کلچر میں معاشرے کے مجموعی رویوں اور طرزِ عمل کا مطالعہ کیا جاتا ہے جن کا اظہار اس معاشرے کے رسوم و رواج اور فنونِ لطیفہ میں ہوتا ہے۔ تاہم کسی معاشرے کے کلچر کو سمجھنے کا سب سے موثر ذریعہ اس معاشرے کے اہل قلم کا تخلیق کردہ ادب ہوا کرتا ہے ۔ ادب کے مطالعے سے ہی افرادِ معاشرہ کے اعتقادات، خیالات، روایات اور عادات کا علم ہوتا ہے۔ ادب میں ہی کسی معاشرے میں فرد کی پیدائش سے پہلے سے لے کر اس کی موت کے بعد تک کی رسوم، رویوں اور کیفیات کا مفصل بیان ملتا ہے۔ فیض احمد فیض کے نزدیک، ’’ادب کلچر کا سب سے ہمہ گیر، سب سے نمائندہ، سب سے جامع اور سب سے موثر جزو ہے۔ کلچر کے باطنی اور نظریاتی پہلو پر نظر ڈالیے تو مجموعی قدروں، تجربوں اور امنگوں کا تعین، تعریف اور تفسیر سب سے زیادہ ادیب ہی کے نطق و قلم سے ہوتی ہے۔ وہی اس کی پریشان اور پوشیدہ صورتوں کو ترتیب اور اظہار کی صورت بخشتا ہے۔ لاشعور سے شعور، احساس سے ادراک، تصور سے تصویر تک کے منازل اسی کی مساعی سے طے ہوتے ہیں۔‘‘ (۳)
برِصغیر کے جن علاقوں پر پاکستان مشتمل ہے ان کا قدیم زمانے سے وسط ایشیا اور ایران سے گہرا تعلق رہا ہے۔ شمال مغربی سرحدی صوبہ اور بلوچستان کے کلچر پر وسط ایشیائی اور ایرانی اثرات اتنے زیادہ ہیں کہ ان کے مابین تفریق دشوار ہے۔ پاکستان کا قدیم شہر ملتان کسی دور میں پارسی تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ غالباً یہی سبب ہے کہ ملتان کی زبان میں اردو یا پنجابی کی نسبت فارسی سے زیادہ قربت پائی جاتی ہے۔ گیارھویں صدی عیسوی میں سلطان محمود غزنوی کے پنجاب کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے کے نتیجے میں پنجاب کا براہ راست وسط ایشیا کی ریاستوں سے تعلق استوار ہو گیا۔معزالدین محمد ابن سام غوری کے عہدِ حکومت (۱۱۷۴ء۔ ۱۲۰۶ء) میں شمالی ہند کی فتح کے بعد برِصغیر میں وسط ایشیا اور ایران سے ہر شعبہء زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا جو مغلیہ سلطنت کے زوال تک جاری رہا۔وسط ایشیا اور ایران سے آنے والے ان سپاہیوں ہنرمندوں، فن کاروں اور قلم کاروں نے برصغیر کی معاشرت کو ہر جہت سے متاثر کیا جس کے نتیجے میں ہندی مسلم تہذیب نے جنم لیا۔
مسلمانوں نے برِصغیر پر تقریباً ایک ہزار سال تک حکومت کی۔اس ہزار سالہ دور میں بالعموم فارسی کو سرکار، دربار اور مقتدر طبقات کی زبان کا مقام حاصل رہا۔غزنوی دور حکومت میں لاہور سے تعلق رکھنے والا ابو عبداللہ جو مسعود اول( ۱۰۳۰ء ۔ ۱۰۴۰) کے دربار سے وابستہ تھا فارسی زبان کا پہلا شاعر سمجھا جاتا ہے۔ غزنوی دور ہی کے معروف شاعر مسعود سعد سلمان (۱۰۴۶ء ۔ ۱۱۲۱ء) کے کلام میں مسلم طبقۂ خواص کے احساسات کی اولین عکاسی ملتی ہے۔
تیرھویں صدی عیسوی میں صحرائے گوبی سے اٹھنے والے منگولوں کی طوفانی یلغار کے نتیجے میں ہونے والی تباہی و بربادی نے ماوراء النہر اور خراسان کے شرفا کو اپنے آبائی گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ برِصغیر سے روابط ہونے اور منگولوں کی یلغار سے محفوظ ہونے کے سبب اکثریت نے اسی کا رخ کیا۔ ماوراء النہر کے ان شرفا کی آمد کے نتیجے میں اس دور میں ’’دہلی، صوبائی مراکز اور قلعہ دار شہروں میں فارسی زبان اگرچہ مختلف چشموں سے رواں تھی لیکن بنیادی طور پر ماوراء النہری بول چال، لہجہ سے بہت مشابہ تھی۔‘‘ (۴)
سلطنتِ دہلی کے دور سے تعلق رکھنے والے امیر خسرو کی فارسی شاعری میں تاریخی علیت کا نمایاں شعور پایا جاتا ہے۔جس کا اولین اظہار منگولوں سے لڑتے ہوئے جان قربان کرنے والے شہزادہ محمد بلبن کے مرثیہ میں ملتا ہے۔ جبکہ تاریخی رزمیہ اپنے نقطہ عروج پر عصامی کی ’’فتوح السلاطین‘‘ میں دکھائی دیتا ہے۔ تغلقوں کے دور میں وسط ایشیا سے آنے والوں نے برِصغیر کی فارسی شاعری کو تشکیکی عقلیت اور ابہام نویسی سے روشناس کرایا۔ اس دور میں عبیدؔ کی تشکیک اور بدرچاچؔ کی ابہام گوئی نے برِصغیر کی سیدھی سادی فارسی شاعری کو چیستان اور معمہ بنا دیا۔
مغلیہ دور کے آغاز میں ترکی اور فارسی زبانوں کے مابین دربار میں فوقیت حاصل کرنے کے لیے کشمکش ہوئی۔ مغلیہ سلطنت کا بانی ظہیرالدین بابر ترکی زبان کا شاعر تھا لیکن اس کا وارث نصیرالدین ہمایوں فارسی میں شعر کہتا تھا۔ شیرشاہ سوری سے کشمکش کے نتیجے میں ہمایوں کو ایران میں پناہ لینا پڑی۔ جہاں سے واپسی پر فارسی اہلِ دانش کی کھیپ در کھیپ آمد کے نتیجے میں ترکی زبان کا اثر جلد ہی ختم ہو گیا۔
ایران میں صفوی دورِ حکومت میں فارسی شاعری کے تنزل کا بالواسطہ برِصغیر کے فارسی ادب کو فائدہ پہنچا۔ اسی دور میں نظیریؔ، ظہوریؔ اورعرفیؔ جیسے قادرالکلام شاعر سرزمینِ ایران سے برِصغیر میں وارد ہوئے۔ جہانگیر اور شاہجہان کے درباروں سے وابستہ ملک الشعرا طالبؔ آملی، قدسیؔ مشہدیؔ اور کلیمؔ ہمدانی سب ایران کے رہنے والے تھے۔
جلال الدین اکبر کے مذہبی و سیاسی تجربات نے برِصغیر میں فارسی شعر و ادب کو ایک حد تک متاثر کیا۔ عبدالرحیم خان خاناں کی شاعری میں مقامی اثرات ملتے ہیں۔ ملا شیریؔ نے اکبر کی بدعت کی پوشیدہ ہجو لکھی۔ ملک الشعرا فیضیؔ کے ہاں تشکیک اور ذہنی کشمکش کا اظہار انیسویں صدی آتے آتے اسداللہ خاں غالبؔ کی شاعری میں نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔
برِصغیر کی فارسی شاعری نے مسلم اشرافیہ کی اقدار کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ اس معاشرے کے انحطاط کی عکاسی بھی کی۔ اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد سیاست کے میدان میں بھی انحطاط کا عمل تیز ہو گیا لیکن اخلاقی اعتبار سے یہ عمل پہلے سے جاری تھا۔ جس کی عکاسی ظہوریؔ کے ’’ساقی نامہ‘‘ میں کی گئی ہے۔ غنیمتؔ کنجاہی کی مثنوی ’’نیرنگِ عشق‘‘ معاشرے میں پائی جانے والی ہوس رانی کا احوال بیان کرتی ہے۔
شاعری کے علاوہ نثری ادب میں ابوالفضل، ملا بدایونی اور فرشتہ نے بیش بہا اضافے کیے۔ انشا یعنی سرکاری خط و کتابت اول اول تو ایران اور وسط ایشیا سے آنے والے اہلِ قلم کے ہاتھ تھی جن کا معیار کسی اعتبار سے ایران کے صفوی دربار سے کم نہیں تھا۔ آہستہ آہستہ انشا پردازی کا شعبہ ہندو کائستھوں کے لیے مخصوص ہو گیا۔ کائستھوں کی فارسی انشا پردازی کا آغاز ہرکرن سے ہوا۔ جس نے چندر بھان سے ہوتے ہوئے اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں ’’انشائے مادھورام‘‘ کی صورت میں کلاسیک کا درجہ حاصل کر لیا۔ (۵)
برِصغیر کی فارسی شاعری ابتداً وسط ایشیائی اسلوب میں کہی گئی تاہم بتدریج اس میں عقلیت اور ذہنی بازی گری کے عناصر شامل ہوتے چلے گئے۔اس کا بنیادی سبب منگولوں کا خوف، ازبکوں کے ہرات و سمرقند پر قابض ہونے کے علاوہ ازبکوں اور صفویوں کی چپقلش کے نتیجے میں پھیلنے والی ابتری کے باعث ترکِ وطن کر کے جنوبی ایشیا میں آباد ہونے والی اشرافیہ کا رویہ تھا جنھوں نے ذہنی طور پر برِصغیر کی تہذیب اور ماحول کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے شاعری کو عزیز احمد کے الفاظ میں ’’جذباتی ذہنی ریاضی کے طور پر لکھنا شروع کیا جس میں تمثالی پیکروں کو اعداد کی طرح جمع تفریق اور ضرب کے عمل سے گزارا جاتا ہے اور چھوٹے سے چھوٹے اعشاریات میں تقسیم کیا جا سکتا تھا۔‘‘ (۶)
برِصغیر کے فارسی اسلوب کی نمایاں خصوصیات تصنع اور دماغی کاوش ہیں۔اس اسلوب کو سبک ہندی کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور اس کا خالق عبدالباقی خاں، فغانیؔ شیرازی (وفات ۱۵۱۹ء) کو سمجھا جاتا ہے۔ اس اسلوب کے ابتدائی آثار امیر خسرو کی شاعری میں مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں۔تاہم شاعری میں ان کی ذہنی کاوش تجربے کی حد تک محدود تھی۔ برِصغیر کی فارسی شاعری کو دماغی اور ذہنی ورزش بنانے میں لودھیوں کے عہد میں داخلِ نصاب شاعر بدرچاچؔ کا کلام خاص رکھ رکھاؤ کا حامل تھا۔ فغانیؔ کی وفات ۱۵۱۹ء میں ہوئی۔ اس صدی کے اختتام تک برِصغیر میں روایتی ہندوستانی شاعری اور فغانیؔ کا انداز کسی حد تک ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو چل رہے تھے۔ فیضیؔ اور عرفیؔ کے ہاں یہ دونوں اسلوب علی الترتیب الگ الگ نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔البتہ دونوں میں انضمام کا عمل بھی جاری تھا۔ حکیم ابوالفتح گیلانی نے فارسی شاعری پر دانشورانہ رنگ چڑھا کر اسے ایک مشکل فن بنا دیا۔
انضمام کا یہ عمل سترہویں صدی میں ’’سبک ہندی‘‘ کی صورت میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ جس کی نمایاں خصوصیت متوازی بیانی ہے۔ متوازی بیانی کا کچھ حصہ تصویر اور کچھ حصہ موضوعِ تصویر پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دعویٰ کر کے اس پر شاعرانہ دلیل پیش کی جاتی ہے۔ یہ طریق غنیؔ، صائبؔ اور کلیمؔ کے ہاں ملتا ہے۔ سبک ہندی میں ایسے دور از کار تشبیہات و استعارات کا استعمال کیا جاتا ہے کہ سامع کا ذہن آسانی سے اس طرف منتقل نہ ہو۔ ’’سبک ہندی‘‘ کی جڑیں برِصغیر کی مسلم اشرافیہ کے احساسِ تفاخراور انفردیت پسندی کے علاوہ گردوپیش کے ماحول سے ذہنی عدم مطابقت کے نتیجے میں بال کی کھال نکالنے کی بھول بھلیوں میں گرفتار رہنے میں پوشیدہ ہیں۔
مرزا عبدالقادر بیدلؔ (وفات ۱۷۲۱ء) کے ہاں یہ اسلوب اپنے نقطۂ عروج کو پہنچا۔ ’’اس کے باوجود ان کی داخلی تشخیص کی شدت جو اتنی حقیقی اور تیز ہے اور ان کے مابعدالطبعیاتی تجربے اتنے شدید ہیں کہ صنائع و بدائع کی چہار دیواریوں کے باوجود حقیقی شاعری پوری تابانی کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔‘‘ (۷) انیسویں صدی کے عظیم شاعر مرزا اسداللہ خان غالبؔ کے ذہن پر مرزا بیدل کے اسلوب کا گہرا اثر تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے بیدل کے اسلوبی عجائبات سے اجتناب کرتے ہوئے عرفیؔ و فیضیؔ کی طرف رجوع کرتے ہوئے بالاخر خود کو پالیا۔ آگے چل کر بیسویں صدی میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؔ نے طرزِ بیدل کی بجائے فکرِبیدل سے کچھ رہنما اصول اخذ کرتے ہوئے اپنا پیغام برِصغیر کی حدود سے آگے مسلمانانِ عالم تک پہنچانے کے لیے فارسی شاعری کا انتخاب کیا۔
اگرچہ علامہ محمد اقبالؔ کے پیشِ نظر صرف اور صرف اپنے نظریات کا ابلاغ تھا لیکن ان کے اسلوب نے برِصغیر کی فارسی شاعری کو نئی رفعتیں عطا کیں۔ ان کی شاعرانہ عظمت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے محمد اسلم جیراجپوری نے تحریر کیا، ’’ہم سنا کرتے تھے کہ فارسی زبان سیکھنے کے بعد صرف چار کتابیں اچھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ شاہنامۂ فردوسی، مثنوی مولانا رومؔ، گلستانِ سعدیؔ اور دیوانِ حافظؔ۔ مگر اب جاویدنامہ کو بھی پانچویں کتاب سمجھنی چاہیے جو کہ معنویت اور نافعت کے لحاظ سے ان سب پر فوقیت رکھتی ہے۔‘‘ (۸)
عزیز احمد کے مطابق علامہ محمد اقبالؔ نے مسلمانان عالم تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے فارسی زبان کا انتخاب کیا جب کہ خود علامہ محمد اقبالؔ نے ’اسرارِ خودی‘‘ میں شاعری کے لیے فارسی کے انتخاب کا سبب بیان کرتے ہوئے بتایا، ’’اگرچہ اردو زبان کی مٹھاس میں کوئی شبہ نہیں مگر فارسی میں جو رسیلا پن ہے اردو اس سے محروم ہے۔‘‘ (۹)
پیام مشرق کا ترجمہ کرتے ہوئے فیض احمد فیضؔ نے فارسی زبان کے اس رسیلے پن کا راز منکشف کرتے ہوئے لکھا، ’’اردو اور فارسی میں قربت کے باوجود اظہار و آہنگ کے پیرائے کافی مختلف ہیں۔ فارسی زبان کو تراکیب اور مشتقات کی وجہ سے اجمال و اختصار کی جو سہولتیں حاصل ہیں وہ اردو میں موجود نہیں۔‘‘ (۱۰)
مسلمانوں کے دورِ حکومت میں تقریباًایک ہزار سال تک فارسی برِصغیر کی سرکاری، ثقافتی اور ادبی زبان رہی مزید برآں فارسی وسیع تاریخی و ادبی پس منظر کی وجہ سے احساسِ برتری کی غماز بھی تھی۔ چنانچہ دورِ انحطاط کے مسلمان شعرابالخصوص مرزا اسد اللہ خان غالبؔ اور علامہ محمد اقبالؔ اردو پر قدرت رکھنے کے باجود اگر فارسی میں اظہار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں تو فارسی کی دیگر خوبیوں کے علاوہ اس کے جذباتی، نفسیاتی اور ثقافتی اسباب بھی ہو سکتے ہیں۔
علامہ محمد اقبالؔ نے اپنے آفاقی نظریے اور شاندار اسلوب کی بنا پر فارسی شعر و ادب میں اعلیٰ ترین مقام تو حاصل کر لیا لیکن فارسی ادب کی انحطاط پذیر روایت کو مٹنے سے نہ بچا سکے۔ اسے حالات کی ستم ظریفی ہی کہا سکتا کہ علامہ محمد اقبال کے خوابوں کی تعبیر یعنی پاکستان میں جنم لینے والی نسل میں ان کے فارسی کلام کو سمجھنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس کا اندازہ تعلیمی درسگاہوں کے شعبہ فارسی میں داخلہ لینے والے طالب علموں کی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے۔
برِصغیر میں فارسی شعر و ادب کی روایت کو سمجھنے کے لیے اس کی تاریخ پر ایک مرتبہ پھر سے نظر ڈالنا ہو گی۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے عددی اقلیت میں ہونے کے باوجود تقریباً ایک ہزار سال برِصغیر پر شان و شوکت سے حکومت کی۔ اس اقتدار و اختیار کے نتیجے میں ’’وہ ہمیشہ خود کو ہندوستانی آبادی کا اعلیٰ و ارفع طبقہ تصور کرتے تھے اور یہ کہ وہ ملک پر ان خصوصی اوصاف کی بنا پر حکومت کرتے رہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے خاص فضل و کرم سے عنایت فرمائے تھے۔‘‘ (۱۱)
ابتدائی دور کے اکثر شعرا کا تعلق ان علاقوں سے تھا جہاں فارسی زبان نہ صرف بولی اور سمجھی جاتی تھی بلکہ اکثر شعرا کی مادری زبان فارسی ہی تھی ۔ چنانچہ وہ فارسی زبان میں طبع آزمائی کو ترجیح دیتے تھے۔ اگرچہ چند شعرا نے مقامی زبانوں میں طبع آزمائی بھی کی جن میں امیر خسرو اور دورِ اکبری کے عبدالرحیم خانخاں کے نام بھی شامل ہیں تاہم شاہی دربار میں فارسی گو شعرا کا غلبہ ہونے کے نتیجے میں یہ عمومی رویہ نہ بن پایا۔ اسی طرح درمیان میں ایک دور ایسا بھی آیا جب ترکی زبان و ادب نے اپنے قدم جمانے کی کوشش کی لیکن ہمایوں کی ایران سے واپسی اور نورجہاں کے زیرِاثر فارسی زبان و تہذیب کو مغل دربار میں فیصلہ کن غلبہ حاصل ہو گیا۔
وسط ایشیااور فارس سے آنے والے شعرا کا احساسِ تفاخر اتنا بڑھا ہوا تھا کہ وہ برِصغیر کی ہر چیز کو حقیر گردانتے ہوئے انہیں اپنی تخلیقات میں بار دینے پر بھی آمادہ نہیں تھے۔ چنانچہ برِصغیر میں تخلیق ہونے والی شاعری میں بھی مقامی موسموں یا مقامی تہواروں کا ذکر تک نہیں ملتا۔فارسی شاعری کے زیرِ اثر اردو شاعری کی اصناف اور موضوعات پر بھی وسط ایشیائی اور ایرانی معاشرت کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔
شاعری میں استعمال ہونے والی تشبیہات استعارات اور تراکیب وسط ایشیا اور ایران سے برآمد کی جاتی تھیں ۔ یہ عجیب حقیقت ہے کہ برِصغیر میں تخلیق ہونے والی شاعری میں بالعموم مقامی رنگ اور بو باس مفقود تھی۔ وسط ایشیا اور ایران سے ترکِ وطن کر کے برِعظیم پاک و ہند میں آنے والے فارسی شاعروں نے یہاں کے دلفریب نظاروں کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھااور اپنے سابقہ وطن کے خیالوں میں کھوئے رہے۔ ان کے زیرِ اثر مقامی شاعروں نے بھی ایسی زندگی اور مناظر کو موضوعِ سخن بنایا جن کے متعلق انہیں کوئی ذاتی علم و تجربہ نہیں تھا۔ اس طرح برِصغیر میں کہی جانے والی فارسی شاعری کی جڑیں دھرتی میں پیوست نہیں تھیں۔ تاہم متقدمین میں امیر خسرو اور بعد ازاں جلال الدین اکبر کے دور کی فارسی شاعری میں مقامیت کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں لیکن ایرانی امرا کے بڑھتے ہوئے رسوخ کے نتیجہ میں یہ رجحان خودبخود ختم ہو گیا۔
اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ برِصغیر کے فارسی گو شعرا کے ہاں معاشرتی شعور سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔خالصتاً برِصغیر سے تعلق رکھنے والی صنفِ سخن شہر آشوب جو یہاں کے مخصوص حالات میں لکھی گئی ان کے سماجی شعور کی تصدیق کرتی ہے۔ اسی طرح مختلف ادوار میں تحریر کیے گئے شخصی مرثیوں اور جنگ ناموں میں اس دور کے حالات کا عکس دکھائی دیتا ہے۔فرخ سیر کے دور میں تو جعفر زٹلی کو اپنی ایک ہجو میں ملکی انتظام و انصرام میں پائی جانی والی بدنظمی کی نشاندہی پر ۱۷۱۳ء میں جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
فارسی روایت کے زیرِ اثر برِصغیر میں کہی جانے والی شاعری کے اہم موضوعات تصوف اور وحدت الوجود کے نظریات رہے ہیں۔ اگر چہ سولھویں اور سترھویں صدی میں عرفیؔ اور کلیمؔ جیسے اہلِ تشیع شعرا کے زیرِ اثر صوفیانہ شاعری کی جانب توجہ کم ہوئی لیکن داراشکوہ اور بیدل نے برِصغیر کی فارسی شاعری میں تصوف کو ازسرِنو بحال کر دیا۔
برِصغیر میں مسلمانوں کے دور حکومت میں فارسی ادب ہمیشہ داخلِ نصاب رہا ہے۔ اس نصاب میں نظم و نثر دونوں شامل تھے۔ اسی نصاب کے نتیجے میں ایران و ترکی سے تعلق رکھنے والے فارسی اہل قلم آج بھی اجنبی محسوس نہیں ہوتے۔ شیخ سعدی شیرازی کی گلستان و بوستان، دیوانِ حافظ اور مثنوی مولانا روم کے ناموں سے ہر پڑھا لکھا شخص آگاہ ہے۔ گلستان و بوستان کا موضوع اخلاقیات ہے۔ دیوان حافظ ، کو تصوف کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے جبکہ مثنوی مولانا روم کو ’’ہست قران در زبانِ پہلوی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
دیوان حافظ نے برِصغیر میں تصوف پھیلانے میں اہم کردار کیا۔ خوش عقیدہ لوگ مہمات و مشکلات کے مواقع پر دیوانِ حافظ سے فال نکالا کرتے تھے۔ حافظ سے ان کی عقیدت اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ علامہ محمد اقبال نے تصوف کے منفی پہلوؤں پر تنقید کرتے ہوئے حافظ کے نظریات کو ’’مسلک گوسفندی‘‘ قرار دیا تو انھیں مذہبی حلقوں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح مولانا روم کے افکار سے بھی مسلمانانِ برِصغیر بہت متاثر تھے۔ علامہ محمد اقبال بھی مولانا روم کے افکار و نظریات سے بہت متاثر ہیں اور انہیں اپنا مرشد قرار دیتے ہیں۔ اکثر شارحینِ اقبال کے نزدیک ان کا نظریہ خودی براہ راست مولانا روم کے افکار سے اخذ کیا گیا ہے۔
برِصغیر کی زبانوں بالخصوص اردو کی اصنافِ نظم و نثر پر فارسی اصناف کے گہرے اثرات ہیں۔ اردو کی اصناف قصیدہ، مثنوی، غزل، رباعی اور داستان سب فارسی کی معرفت اردو ادب کا حصہ بنیں۔ اگر چہ بیسویں صدی میں غزل کی شدید مخالفت کی گئی۔ اس کے باوجود اس کے موضوعات میں بہت وسعت آئی اور آج بھی اسے اردو ادب کی شناخت سمجھا جاتا ہے۔ یہ فارسی ادب کی معرفت ہی اردو ادب کا حصہ بنی ہے۔ سرائیکی اور سندھی کی کافی کو بھی ہیئت اور موضوعات کے اعتبار سے غزل کہا جا سکتا ہے۔ اِسی طرح پنجاب و سندھ کی تمام تر صوفیانہ شاعری فارسی شاعری کی مقروض ہے۔
ان تمام اثرات کا اہم سبب فارسی شعر وادب کی شاندار روایت کے علاوہ سرکار دربار تک اس کی رسائی کے باعث اہلِ قلم کی مرعوبیت بھی ہو سکتی ہے۔۱۸۵۷ء تک اردو کی تمام تر اصناف سخن ہیئت اور موضوعات کے اعتبار سے فارسی کی مثنٰی تھیں۔مغلیہ سلطنت کے انحطاط اور سلطنت میں طوائف الملوکی پھیلنے کے نتیجے میں فارسی کا اثر و رسوخ کم ہونے لگا۔ مزیدبراں وسط ایشیا اور ایران سے اہلِ علم کی آمد کا سلسلہ ختم ہونے کے نتیجے میں اردو کو آگے بڑھنے کا موقع ملا۔ولی دکنی کے اردو کلام سے شمالی ہندوستان کے اہلِ ادب کو اردو کی تخلیقی قوت کا احساس تو ہوالیکن وہ فارسی سے اتنے مرعوب تھے کہ انیسویں صدی کے وسط تک اردو شعرا کے تذکرے فارسی میں لکھے جاتے تھے۔
فارسی کے مقابل پر اردو کو بڑھاوا دینے میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی اہم کردار ادا کیا، جس نے اپنے سیاسی مصالح کی بنا پر اردو اور ہندی کی سرپرستی کرتے ہوئے دوہرا فائدہ اٹھایا۔ ان کی اس پالیسی سے جہاں اردو زبان و ادب کو فائدہ پہنچا وہیں ہندی کے سنسکرت کی جانب جھکاؤسے مقابلے کے باعث ارادی یا غیر اردی طور پر فارسی کا تمام تر ورثہ اردو نے اپنے اندر جذب کر لیا ۔ اس کے نتیجے میں دیکھتے ہی دیکھتے اردو کا شمار ایسی زبانوں میں ہونے لگا جس میں ہر نوعیت کا اعلیٰ ادب تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ اس امر کا احساس اسد اللہ خان غالبؔ اور علامہ محمد اقبالؔ کو بھی تھا لیکن فارسی ادب کی شاندار روایت کی موجودگی میں انہیں اس کا اعتراف کرنے میں ہچکچاہٹ تھی۔ انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو غالبؔ کا اردو کلام فارسی کلام سے کم درجے کا نہیں ۔ اسی طرح بال جبریل میں شامل اقبالؔ کا کلام ان کے فارسی کلام کے مقابلے میں کسی پہلو سے کم نہیں۔
۱۹۴۷ء میں آزادی کے حصول کے بعد نفسیاتی اعتبار سے ہندی سے مسابقت کی دوڑ ختم ہونے، خود مختاری کے احساس اور بدلے ہوئے عالمی تناظر میں فارسی زبان کی وہ اہمیت باقی نہ رہی۔ ایران سے قریبی اور بردرانہ تعلقات کے باوجود پاکستان کا اس سے وہ تعلق نہ رہا جو عہدِ مغلیہ میں تھا۔ ویسے بھی انیس ناگی کے مطابق، ’’فارسی زبان سے ہمارا تعلق کچھ مبہم سا ہوتا جا رہا ہے۔ لسانی سطح پر ابھی تک ہمارا تعلق کلاسیکی فارسی سے رہا ہے اور عمداً کلاسیکی فارسی کے لہجوں کو اپنایا ہے۔ اردو زبان نے جو کچھ فارسی سے حاصل ہے، وہ کلاسیکی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ۱۸۵۷ء کے بعد اہلِ ایران سے ہمارا رابطہ ختم ہو چکا تھا اور اودو زبان نے اپنے تشکیلی مراحل میں انگریزی کی طرف رجوع کیا تھا۔‘‘ (۱۲)
مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے کہ اردو آج جس مقام پر کھڑی ہے اس نے اس مقام پر پہنچنے کے لیے فارسی زبان و ادب سے بہت کچھ لیا ہے لیکن جس طرح انگریزی زبان لاطینی زبان و ادب کی روایت کا تسلسل ہونے کے باوجود اس سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔ اسی طرح فارسی ادبی روایت کا تسلسل ہونے کے باوجود اردو زبان فارسی کے تابع نہیں بلکہ اس کی ہمیت ایک خود مختار زبان کی ہے جسے دنیا کی زبانوں میں اعلیٰ مقام دلانے کے لیے ہمیں ہر جہت میں ترقی کرنا ہو گی۔ صرف اعلیٰ ادب تخلیق کر کے اپنوں کی محفل میں ڈینگیں تو ماری جا سکتی ہیں لیکن اہل دنیا سے اردو ادب کی عظمت تسلیم کرانے کے لیے دورِ جاہلیت کے شعرا کی مانند سیاسی غلبے کا انتظار کرنا ہو گا۔
حوالہ جات و حواشی
۱۔ انیس ناگی، ’’تصورات‘‘، فیروزسنز لمیٹڈ، لاہور، ۱۹۹۰ء، ص ۲۶
۲۔ ایم۔ خالد فیاض، پورا کلچر، مشمولہ کتابی سلسلہ ’’سطور نمبر ۳،‘‘ بیکن بکس، ملتان، ۲۰۰۱ء، ص ۴۵
۳۔ فیض احمد فیض، ’’پاکستانی کلچر اور قومی تشخص کی تلاش‘‘، فیروز سنز لمیٹڈ، لاہور، ۱۹۸۸ء، ص ۸۶
۴۔ امیر خسرو کی کلیات میں غرۃ الکمال کا دیباچہ بحوالہ عزیز احمد ’’برصغیر میں اسلامی کلچر‘‘، مترجم جمیل جالبی،ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، لاہور۔ ۱۹۹۰ء، ص ۳۴۳
۵۔ جنوبی ایشیا میں فارسی شاعری کے ارتقا کا مواد عزیز احمد کی تصنیف ’’برصغیر میں اسلامی کلچر‘‘مترجمہ جمیل جالبی کے دسویں باب ’’قرونِ وسطیٰ کا ادب‘‘ سے اخذ کیا گیا ہے۔
۶۔ عزیز احمد، ’’برصغیرمیں اسلامی کلچر‘‘، مترجم جمیل جالبی، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، لاہور، ۱۹۹۰ء ص ۳۴۸
۷۔ عزیز احمد، ’’برصغیرمیں اسلامی کلچر‘‘، مترجم جمیل جالبی، ص ۳۵۱
۸۔ محمد اسلم جیراجپوری، جاوید نامہ، مشمولہ نیرنگِ خیال اقبال نمبر، بحوالہ ’’نقوش اقبال نمبر‘‘، لاہور، نومبر ۱۹۷۷ء، ص ۱۱۶
۹۔ عبدالشکور احسن، ڈاکٹر، اقبال کی فارسی شاعری کا تنقیدی جائزہ، اقبال اکادمی، لاہور، ۱۹۷۷ء، ص و
۱۰۔ فیض احمد فیضؔ، ’’پیامِ مشرق …… اردو ترجمہ‘‘، اقبال اکادمی، لاہور، ۱۹۷۷ء، ص ۵
۱۱۔ رالف رسل، ’’اردو ادب کی جستجو‘‘، مترجم، محمد سرور رِجا، انجمن ترقی اردوپاکستان، کراچی، ۲۰۰۳ء، ص ۴۲
۱۲۔ انیس ناگی، ’’تصورات‘‘، ص ۴۵