شرافت نے اجرت کے تین سو روپے جیب میں ڈالے اور کام سے چھٹی کر کے تھکا ماندہ گھر کی طرف چل پڑا۔ وہ راستے میں پڑنے والے ایک بڑے سے میڈیکل سٹور میں داخل ہو گیا جہاں گاہکوں کا کافی رش تھا۔ دکان پر کام کرنے والے تین چار لڑکے ہاتھوں میں ڈاکٹری نسخے تھامے مستعدی سے مختلف خانوں سے دوائیاں نکالنے اور گاہکوں کو سمجھانے میں مصروف تھے کہ کون سی دوا کتنی مقدار میں اور کب کھانی ہے۔ شرافت نے ان پر سرسری سی نگاہ ڈالی اور اپنی جیب سے تہہ کیا ہوا ایک ڈاکٹری نسخہ نکال کر کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے دکان کے مالک سے بولا:
’’بھائی صاحب۔۔۔ ذرا ان دوائیوں کی قیمت تو بتا دیں کہ ان پر کتنے پیسے لگ جائیں گے۔۔۔۔؟‘‘
پکی عمر کا گھنی مونچھوں والا شخص اس سے نسخہ لے کر دیکھنے لگا اور پھر کیلکولیٹر پر تیزی کے ساتھ انگلیاں چلانا شروع کر دیں۔
’’تین ہزار چار سو روپے‘‘ اس نے شرافت کی طرف دیکھتے ہوئے بے نیازی سے کہا۔
پیسے سن کر شرافت کے تو پسینے چھوٹ گئے، مزید بات کرنے کی اس میں ہمت نہ ہوئی۔ اس نے دکان دار سے نسخہ لیا اور شکستہ قدموں کے ساتھ چپ چاپ دکان سے اتر آیا۔ اس کے دماغ میں ’’تین ہزار چار سو روپے‘‘ گونجنے لگے۔ کہاں سے لاؤں گا اتنے سارے پیسے؟ وہ اسی پریشانی میں ڈوبا آس پاس سے بے خبر ہو کر گھر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی ماں دوائیوں کی منتظر ہو گی جو سرطان جیسے موذی مرض کے ساتھ زندگی کی جنگ لڑ رہی تھی۔ کل ہی اس نے کہیں سے ادھار لے کر اپنی ماں کا چیک اپ کروایا تھا اور ڈاکٹر نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے دوائیاں لکھ کر دی تھیں، جنہیں فوری طور پر شروع کرنے کی سختی کے ساتھ ہدایت کی تھی۔ مگر دوائیوں کی قیمت سنتے ہی اس پر مردنی چھا گئی تھی۔
کب وہ اپنے علاقے میں پہنچا؟ اسے پتہ ہی نہ چل سکا۔ اسے ہوش اس وقت آیا جب وہ محلے کی زیرِ تعمیر مسجد کے قریب سے گزرا، جہاں سپیکروں پر چندے کے لئے بار بار اعلان کیا جا رہا تھا اور چندہ دینے والوں کے نام محلے بھر میں گونج رہے تھے۔
’’کیا خدا کو بھی پیسوں کی ضرورت ہے۔۔۔۔؟‘‘ اس نے ایک لمحے کے لئے سوچا مگر پھر اسے اپنی ہی سوچ پر جھرجھری سی آ گئی اور اس نے دل ہی دل میں فوراً خدا سے معافی مانگ لی۔
شرافت رات بھر پریشانی سے کروٹیں بدلتا رہا، ماں کی فکر نے اسے سونے نہیں دیاجس کی حالت خطر ناک حد تک بگڑ چکی تھی اور وہ بے بسی کی زنجیروں میں جکڑا کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا۔ وہ کسی سے ادھار لینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا تھا اور ویسے بھی اسے مزید ادھار کون دیتا؟ جو پہلے بھی کافی لوگوں کا مقروض ہو چکا تھا۔ ایسی جانگسل صورتِ حال نے اسے غمزدہ کر دیا۔ اس کے اختیار میں کچھ بھی نہیں تھا مگر اپنی جنت کو اس طرح سے بے بسی سے مرتا ہوا دیکھنے کی ہمت اس کے اندر نہیں تھی۔ وہ ہر صورت میں اسے بچانا چاہتا تھا مگر کیسے۔۔۔؟ یہی کچھ سوچتے سوچتے اچانک اس کے ذہن میں ایک راستے نے راستہ بنا لیا۔
اگلے روز اس نے کام سے چھٹی کی۔ پچھلی عید کا سلا ہوا جوڑا پہنا۔ گھر سے ایک چنگیر لے کر اس پر کپڑا ڈالا اور سر پر ٹوپی کر کے وہ شہر کے ایک معروف بازار کی طرف چل پڑا۔
’’جزاک اللہ جی۔۔۔ مسجد کا چندہ۔۔۔ جزاک اللہ۔۔۔‘‘ ہر دکان پر جا کر وہ دکاندار سے چندہ طلب کرنے لگا۔
سخت گرمیوں کے دن تھے، وہ تھوڑی ہی دیر میں پسینے میں شرابور ہو گیا۔ مگر وہ ایسی جھلستی دھوپ میں کام کرنے کا عادی تھا، اس لئے آگ برساتا سورج اس کے ارادوں کے سامنے ٹھنڈا پڑ گیا۔ وہ چندے کی آواز لگاتا رہا اور اس کی چنگیر میں ہر قسم کے سکے اور نوٹ جمع ہوتے رہے۔ زندگی میں پہلی بار کئی قسم کے لوگوں کے ساتھ اس کا واسطہ پڑا تھا۔ کسی نے کچھ نہ دے کر نہایت عاجزی کے ساتھ دعا کرنے کو کہا، کسی نے اس پر آنکھیں نکال کر غصہ کیا، کسی نے کاروبار کا رونا رویا اور کسی نے روکھے انداز میں یہ کہہ کر اسے چلتا کیا کہ جاؤ بھئی جاؤ تنگ مت کرو، مگر کئی لوگوں نے بڑی شفقت اور فیاضی کا معاملہ کرتے ہوئے بڑے بڑے نوٹ بھی ڈال دئیے تھے۔ وہ سارا دن مارا مارا پھرتا رہا اور اس کی زبان پر جزاک اللہ کا ورد جاری رہا مگر وہ دل ہی دل میں اللہ سے توبہ بھی کرتا رہا۔ اِس غلط کام کا اسے پوری طرح سے احساس تھا۔ نماز کے اوقات میں راستے میں آنے والی مسجد میں وہ نماز پڑھتا تو کافی کافی دیر تک اللہ سے معافی مانگتا رہتا۔
شام کی نمازاس نے شہر کے ایک مشہور چوک میں پڑھی اور پھر وہیں سے واپسی کا ارادہ باندھا۔ تھکاوٹ سے اس کا برا حال تھا اور اس کی ٹانگیں جواب دے گئی تھیں، ویسے بھی اس نے اچھی خاصی رقم جمع کر لی تھی۔ وہ آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد تھکا ہارا اپنے گھر پہنچ گیا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سیدھا اپنے کمرے میں جا گھسا، جہاں اس نے تسلی سے بیٹھ کر پیسے گنے۔ اس کی آنکھیں چمک اٹھیں، پیسے اس کی ضرورت سے کافی زیادہ تھے۔ اس نے پیسوں کو ایک لفافے میں لپیٹ کر الماری میں رکھا اور تالا لگا کر چابی جیب میں ڈالی ہی تھی کہ اس کے گھر کے دروازے پر دھڑا دھڑ دستک ہوئی۔ وہ فوراً کمرے سے باہر نکلا اور سیدھا دروازے کی طرف لپکا۔ باہر نکلا تو سامنے مسجد کے متولی کریمو اور امام مسجد کو ایک ساتھ دیکھ کر حیران رہ گیا۔
’’کیوں شرفو۔۔۔! یہ کیا حرکت کی ہے تم نے؟ تم سے کس نے کہا کہ مسجد کے لئے بازاروں میں چندہ مانگتے پھرو۔۔۔۔؟‘‘
کریمو نے خشمگیں نظروں سے اُسے گھورتے ہوئے کرختگی سے کہا، جیسے وہ لڑنے آیا ہو۔
شرافت یہ سن کر سٹپٹا سا گیا۔ اس سے کوئی جواب نہیں بن پایا اور وہ اسے خالی خالی نظروں سے دیکھتا رہ گیا۔ امام مسجد بھی اسے چبھتی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
’’بولو شرفو۔۔۔ چندہ مانگنے کی اجازت تمہیں کس نے دی؟ تم کب سے متولی بن کر مسجد کے معاملات میں ٹانگ اڑانے لگے؟ اور غضب خدا کا تم نے چندہ بھی امام صاحب کے حوالے نہیں کیا۔‘‘ کریمو نے غصے سے پھنکارے ہوئے کہا۔
شرافت ڈر کے مارے سہم گیا اور ڈرتے ڈرتے بولا:
’’کریمو بھائی۔۔۔ اللہ مجھے معاف کرے، اصل میں بہت مجبور ہو کر وہ پیسے میں نے اپنی ماں کے علاج کے لئے مانگے ہیں، مسجد کے لئے نہیں۔‘‘
’’توبہ۔۔۔ توبہ۔۔۔ توبہ۔۔۔ کیا بے ایمان زمانہ آ گیا ہے۔ توبہ نعوذ باللہ تم نے خدا کو بے وقوف بنایا ہے۔۔۔ کچھ شرم کرو شرفو اور خدا کے قہرسے ڈرو۔‘‘
کریمو نے چنگھاڑتے اور کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔
شرافت اس کی دھاڑ سے کانپ اٹھا۔ اس کی آنکھوں سے جیسے چنگاریاں سی نکل رہی تھیں۔ اس کی چنگھاڑتی آواز سن کر گلی کے چند اور لوگ بھی وہاں جمع ہو گئے۔
’’شرفو۔۔۔ تم نے یہ بہت گھٹیا حرکت کی ہے۔ تمہیں ذرا بھی خوفِ خدا نہیں رہا کہ تم نے اللہ کے نام اور اس کے گھر کو بدنام کیا ہے۔ یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔ تم ایمان سے خالی ہو چکے ہو اور اللہ کے عذاب کو آواز دی ہے تم نے۔‘‘ امام مسجد نے بھی اس پر اپنا غصہ اتار دیا۔
’’اب شرافت کے ساتھ چندے کے سارے پیسے میرے ہاتھ پر رکھو اور اللہ سے اپنے کئے کی معافی مانگو۔‘‘
کریمو نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے غصے سے کہا
’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ یہ پیسے میں نہیں دے سکتا، میں نے بہت مشکل سے یہ پیسے اپنی ماں کے لئے اکٹھے کئے ہیں۔ مجھ پر نہیں تو میری ماں پر رحم کرو۔‘‘ شرافت نے ایک دم جوشیلے انداز میں کہا۔
’’کیا کہا تم نے۔۔۔؟ تم نہیں دو گے۔۔۔؟ تمہاری یہ جرأت کہ تم انکار کرو اور اللہ کے پیسے اپنے پاس رکھو؟ میں کہتا ہوں کہ عزت سے سارے پیسے مجھے دے دو ورنہ مسجد میں تمہارا داخلہ بند کروا دوں گا۔‘‘ کریمو نے چیختے ہوئے کہا۔ غصے کی شدت سے اس کا منہ سرخ ہو گیا اور ہونٹوں سے جھاگ نکلنے لگا۔
’’کریمو بھائی۔۔۔ میں سچ کہتا ہوں اس وقت میں بہت مشکل میں ہوں۔ میری ماں کینسر کی وجہ سے مر رہی ہے، اور یہ پیسے میں نے اس کے علاج کے لئے جمع کئے ہیں۔ میرے ساتھ یہ ظلم مت کرو، میں تمہیں خدا کا واسطہ دیتا ہوں۔‘‘ شرافت نے منت کرتے ہوئے لجاجت سے کہا
’’شرفو۔۔۔! تم بات کو خواہ مخواہ الجھا رہے ہو۔ یہ شریعت کا معاملہ ہے اوراس میں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم یہ غیر شرعی کام کسی صورت نہیں ہونے دیں گے۔ تمہارے اندر اگر ذرہ برابر بھی ایمان اور خوفِ خدا ہے تو چپ چاپ سارے پیسے ہمارے حوالے کر دو اور اللہ سے فوری طور پر اپنے اس گناہِ کبیرہ کی معافی مانگو۔۔۔ تم نے اللہ کے گھر کے ساتھ ساتھ پورے محلے کو بدنام کیا ہے۔‘‘ امام مسجد نے اسے سرزنش کرتے ہوئے غصے سے کہا۔
مگر شرافت ٹس سے مس نہ ہوا اور اس نے پیسے دینے سے صاف انکار کر دیا۔ شور شرابہ سن کر محلے کے کافی لوگ اکٹھے ہو گئے اور چپ چاپ یہ سارا معاملہ دیکھنے لگے۔
’’امام صاحب۔۔۔! لگتا ہے یہ ایسے نہیں مانے گا، ہمیں کچھ اور ہی کرنا پڑے گا۔‘‘
کریمو نے غصے سے کہا اور شرافت کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے لگا۔
’’چلیں امام صاحب۔۔۔ اس سے مزید بات کرنا فضول ہے، اس کا کوئی دوسرا بندوبست کرتے ہیں۔‘‘
کریمو نے امام صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور دونوں وہاں سے پیر پٹختے ہوئے چلے گئے۔
شرافت نے وہاں پر کھڑے تماش بینوں پر ایک اداس سی نظر ڈالی اور خاموشی کے ساتھ اپنے گھر میں داخل ہو گیا۔ برآمدے میں اس کی ماں چارپائی پر اٹھ کر بیٹھی ہوئی تھی جسے اس کی بیوی نے دونوں کاندھوں سے پکڑ کر سہارا دے رکھا تھا۔
’’کیا ہوا … شریفے۔۔۔! یہ باہر … دروازے پر کیسا … شور تھا، خیر تو … ہے نا۔۔۔؟‘‘ اس کی ماں نے نحیف سی آواز میں پوچھا۔ فکر مندی اس کے چہرے پر چھاپے مار رہی تھی
’’کچھ نہیں اماں۔۔۔! بس یوں سمجھو جنت کے ٹھیکیدار تھے اور ہمیں بے دخل کرنے آئے تھے۔‘‘
شرافت نے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔
’’تم فکر مت کرو اماں۔۔۔ میں کھانا کھا کرا بھی تمہارے لئے دوائیاں لے آتا ہوں، انشا اللہ تم جلد ہی ٹھیک ہو جاؤ گی۔‘‘
شرافت نے ماں کو دونوں شانوں سے پکڑ کر آہستگی سے لٹاتے ہوئے کہا
’’اللہ تمہیں سکھی رکھے پتر۔۔۔ جگ جگ جیو۔۔۔‘‘
اس کی ماں نے کپکپاتی آواز میں اسے دعائیں دیتے ہوئے کہا اور اس کا چہرہ یوں کھل اٹھا جیسے اسے دونوں جہانوں کے خزانے مل گئے ہوں۔
شرافت اپنی ماں کے ساتھ والی چارپائی پر بیٹھا کھانا کھانے میں مصروف تھا کہ اچانک باہر دروازے پر زور زورسے دستک ہوئی۔ اس نے ہاتھ میں لیا ہوا نوالہ جلدی سے منہ میں ڈالا اور اسے چباتے ہوئے اٹھ کر سیدھا دروازے کی طرف بڑھا۔ باہر نکل کر دیکھا تو اس کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا اور نوالہ حلق میں ہی اٹک گیا۔ دو پولیس والے اس کے دروازے پر موجود تھے، جن کے ساتھ کریمو بھی کھڑا تھا۔
’’حوالدار صاحب۔۔۔ یہی ہے وہ شرافت۔۔۔ جس نے مسجد سے چندے کے پیسے چوری کئے ہیں۔‘‘
کریمو نے اس کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ شرافت نے یہ سنا تو اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔
’’گرفتار کر لو اسے‘‘ حوالدار نے انتہائی کرخت آواز میں کہا اور اگلے ہی لمحے شرافت پولیس کے شکنجے میں تھا۔
ساری رات وہ حوالات میں بند رہا اور پولیس نے تھپڑوں، گھونسوں، لاتوں اور ڈنڈوں سے اس کی خوب پٹائی کی، پورا تھانہ اس کی چیخوں سے گونجتا رہا اور وہ بار بار خدا رسول کی قسمیں کھاتے ہوئے کہتا رہا کہ میں پانچ وقت کا پکا نمازی ہوں اور میں نے اللہ کے گھر سے کوئی پیسے چوری نہیں کئے مگر تھانے میں اس کی سننے والا کون تھا؟ وہ جتنا اپنے آپ کو بے گناہ کہتا اسے اتنی ہی مار پڑتی، جیسے پولیس والے اسے مجرم مان کر اس سے منوانے کا تہیہ کر چکے تھے۔ مگر اس نے بھی شاید نہ ماننے کی قسم کھا رکھی تھی اور سارے ہتھکنڈوں کے باوجود پولیس کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
رات بھر تشدد کے باوجود جب اس نے کچھ نہ مانا تو صبح ہوتے ہی پولیس تلاشی لینے اس کے گھر پہنچ گئی۔ تین چار پولیس والے اس کے گھر میں داخل ہوئے تو اندر کا منظر ان کے ہوش اڑا دینے کے لئے کافی تھا۔ برآمدے میں چارپائی پر سفید چادر میں ڈھکی شرافت کی ماں کی لاش رکھی ہوئی تھی، جس کے ارد گرد خواتین افسردہ چہرے لئے بیٹھی تھیں اور شرافت کی بیوی اپنے بچوں میں گھری چارپائی کے سرہانے بیٹھی دہاڑیں مار مار کر روئے جا رہی تھی۔ مگر یہ دلدوز منظر پولیس کے ارادوں کی دیوار میں دراڑیں نہ ڈال سکا۔ انہوں نے سرسری سی نگاہ ڈالی اور دندناتے ہوئے کمروں میں گھس کر تلاشی لینے میں مصروف ہو گئے۔ چند ہی لمحوں میں انہوں نے کمرے کی چیزوں کو تہہ و بالا کر کے اس کی حالت ابتر کر دی۔ ادھر پولیس تلاشی میں مصروف رہی اور ادھر شرافت کی بیوی کی دل دہلا دینے والی آواز گھر بھر میں گونجتی رہی۔
’’اِن ظالموں نے میرے شوہر کو قیدی بنا کر اماں کو مار ڈالا۔ وہ پوری رات شریفے۔۔۔ شریفے پکارتی مر گئی۔۔۔ ہائے ظالمو۔۔۔ اب تو چھوڑ دو میرے بے گناہ شرافت کو۔۔۔ اس کی دنیا تو اجاڑ دی تم لوگوں نے۔۔۔ اب اور کیا چاہئے۔۔۔؟‘‘
مگر لگتا تھا کہ پولیس نے کانوں میں روئی ٹھونسی ہوئی تھی، ان پر جوں تک نہیں رینگی اور وہ مسلسل اپنے کام میں لگے رہے۔ کچھ ہی دیر میں الماری کا تالا توڑ کر لفافے میں لپٹے پیسے برآمد کر لئے گئے اور پولیس شرافت کی بیوی کو روتا دھوتا چھوڑ کر وہاں سے فاتحانہ انداز میں رخصت ہو گئی۔
’’یہ سنبھالیں اپنی امانت جناب۔۔۔! بڑی محنت کے ساتھ یہ پیسے برآمد کئے ہیں میرے جوانوں نے۔‘‘
حوالدار نے مسکراتے ہوئے کہا اور پیسوں کی موٹی سی گڈی اپنے سامنے بیٹھے کریمو کے ہاتھ پر رکھ دی، جسے اس نے جھٹ سے لے لیا۔ اتنے سارے پیسے دیکھ کر اس کی باچھیں کھل اٹھی تھیں۔
’’بہت سخت جان نکلا یہ مردار۔۔۔ ہمارے تو پسینے چھڑوا دیئے اس نے مگر مجال ہے جو کچھ مانا ہو۔۔۔‘‘
حوالدار نے شرافت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، جو اس کے کمرے کے سامنے ہی بنے حوالات کے اندر نیم بے ہوشی کی حالت میں دیوار سے ٹیک لگائے اور سر ایک طرف ڈھلکائے بیٹھا ہوا تھا۔
’’جی بہت مہربانی حوالدار صاحب۔۔۔! واقعی آپ نے اس کام کے لئے جان ماری ہے اور ایک غیر شرعی کام کو روکا ہے۔ اللہ پاک آپ کو اس کا اجر ضرور دے گا۔ میں تو کہتا ہوں کہ اب اس اللہ نبی کے گناہگار کو چھوڑ دیں۔۔۔ سنا ہے کل رات اس کی ماں بھی فوت ہو گئی ہے۔‘‘
کریمو نے پیسوں کی گڈی اپنی جیب میں ٹھونستے ہوئے کہا
’’ظاہر ہے جب اولاد کے کرتوت ایسے ہوں گے تو کون سی ماں سکھی رہے گی۔۔۔؟ اوئے اسلم۔۔۔! چھوڑ دو اس مجرم کو۔۔۔ ورنہ لوگوں کو تو پولیس کو بدنام کرنے کا بہانہ چاہئے کہ اُدھر ایک ماں مری پڑی ہے اور اِدھر ظالم پولیس نے اس کے بیٹے کو بند کیا ہوا ہے۔‘‘
حوالدار نے دروازے پر کھڑے سپاہی کو گرجدار آواز میں حکم دیتے ہوئے کہا اور وہ ’’یس سر‘‘ کہتا ہوا حوالات کی طرف بڑھ گیا۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...