(Last Updated On: )
تبھی تو میں محبت کا حوالاتی نہیں ہوتا
یہاں اپنے سوا کوئی ملاقاتی نہیں ہوتا
اب اس بات پہ میرے یار الجھتے ہیں
کہ ہر بات سن لیتا ہوں، جذباتی نہیں ہوتا
گرفتارِ وفا! رونے کا کوئی ایک موسم رکھ
جو نالہ روز بہہ نکلے وہ برساتی نہیں ہوتا
تجھے دل میں جگہ دی ہے نظر سے دور کیا کرتے
جو مرکز میں ٹھہر جائے، مضافاتی نہیں ہوتا
بچھڑنے کا ارادہ ہو تو مجھ سے مشورہ کرنا
محبت میں کوئی بھی فیصلہ، ذاتی نہیں ہوتا
٭٭٭