(Last Updated On: )
اقبال اس دور کے سب سے بڑے قومی شاعر اور اسلام کی فکری، تہذیبی اور ثقافتی روایت کے ایک اہم نمائندے اور تاریخ ساز شخصیت ہیں۔ اقبال نے شاعری کے علاوہ بعض ضروریات کے تحت ہزاروں خطوط بھی لکھے۔ یہ خطوط مختلف لوگوں کو لھے گئے۔ ان خطوط میں کچھ تو خالصتاً ذاتی نوعیت کے ہیں، کچھ علمی و فکری اور بعض کی نوعیت محض رسمی ہے۔
بظاہر تو مکاتیب مستقل اور باقاعدہ تصنیف کی ذیل میں نہیں آتے۔ خطوط بسا اوقات عجلت میں لکھے جاتے ہیں اور ان میں وحدت فکر کی کمی ہوتی ہے، مگر علامہ اقبال کے قلم سے نکلا ہوا ہر لفظ چونکہ ہمارے نزدیک ایک مقدس امانت ہے اور اس امانت کو قوم تک پہنچانا ایک مقدس ترین فریضہ ہے، مزید برآں علامہ کی شخصی زندگی، اس کے گوناگوں رحجانات اور نفسیاتی و جذباتی کیفیات ان کے خطوط میں آئینہ ہو گئی ہیں اس لئے ان کے خطوط کی اہمیت، ان کی شعری تخلیقات سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔
علامہ اقبال بھی غالب کی طرح خطوط اشاعت کی غرض سے نہیں لکھتے تھے، (سوائے ان چند خطوط کے جو مختلف اخبارات کے ایڈیٹروں کے نام لکھے گئے۔) جب انہیں اس امر کا علم ہوا کہ ان کے دوست احباب ان کے خطوط اشاعت کی غرض سے محفوظ رکھتے ہیں تو انہوں نے اس پر، خان محمد نیاز الدین خان کے نام 19اکتوبر1919ء کے خط میں اس طرح تبصرہ کیا:
’’ مجھے یہ سن کر تعجب ہوا کہ آپ میرے خطوط محفوظ رکھتے ہیں۔ خواجہ حسن نظامی بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ ہوا، جب انہوں نے میرے بعض خطوط ایک کتاب میں شائع کر دیے، تو مجھے پریشانی ہوئی، کیونکہ خطوط ہمیشہ عجلت میں لکھے جاتے ہیں اور ان کی اشاعت مقصود نہیں ہوتی۔ عدیم الفرصتی تحریر میں ایک ایسا انداز پیدا کر دیتی ہے، جس کو پرائیویٹ خطوط میں معاف کر سکتے ہیں، مگر اشاعت، ان کی نظر ثانی کے بغیر ، نہ ہونی چاہئے۔‘‘ 1؎
شاید یہی وجہ ہے کہ علامہ کی زندگی میں ان کے خطوط کا کوئی مجموعہ شائع نہ ہوا، مگر خطوط کے متعدد مجموعے ان کی وفات کے بعد منظر عام پر آئے۔
علامہ اقبال طبعی طور پر تساہل پسند تھے۔ ان کے اکثر دوست احباب انہیں ’’ قطب از جانمی جنبد‘‘ کہہ کر چھیڑا کرتے تھے، لیکن علامہ اقبال خط کا جواب خاصی مستعدی، تعجیل اور باقاعدگی سے تحریر کیا کرتے تھے، یہ اور بات ہے کہ طبعی تساہل ان خطوط کے بین السطور میں بھی جھلکتا ہے چنانچہ زیادہ تر خطوط مختصر ہیں اور ’’ زیادہ کیا عرض کروں‘‘ کی تکرار تقریباً ہر خط میں نظر آتی ہے۔
علامہ اقبال کو جو خط موصول ہوتا، وہ اس کا جواب فوراً دیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی لکھتے ہیں:
’’ دستور یہ تھا کہ ادھر ڈاکیا خطوط دے کر جاتا تھا اور ادھر وہ اپنے خدمت گار علی بخش کو فوراً قلم دان اور کاغذات کا ڈبہ لانے کی ہدایت فرماتے تھے، پھر فوراً جواب لکھتے تھے اور اسی وقت علی بخش کے حوالے فرماتے تھے کہ لیٹر بکس میں ڈال آئے۔‘‘ 3؎
چنانچہ علامہ اقبال نے زمانہ طالب علمی سے لے کر وفات تک بلا مبالغہ ہزاروں خطوط اردو، انگریزی، جرمنی، فارسی اور عربی میں لکھے۔ قدیم ترین دستیاب خط مولانا حسن مارہروی کے نام ہے، جو گورنمنٹ کالج کے ہوسٹل سے 28 فروری 1899ء کو لکھا گیا۔ 3؎ آخری خط 19اپریل 1938ء کا ہے جو ممنون حسن خاںکے نام لکھا گیا۔ آخری برسوں میں ضعف بصارت کے سبب بقلم خود جواب لکھنے سے قاصر ہو گئے تو املا کرا کے خود دستخط کر دیتے۔ خطوط اقبال کے کاتبین میں منشی طاہر الدین، میاں محمد شفیع، ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، سید نذیر نیازی، مس ڈورالینٹ ویرا اور جاوید اقبال شامل ہیں۔4؎
القاب کے سلسلے میں وہ مکتوب الیہ کے رتبے کا بطور خاص خیال رکھتے تھے۔ علامہ اقبال خطوط کا جواب جس طرح پابندی سے دیتے تھے، اسی طرح وہ موصول شدہ خطوط کو ضائع بھی بڑے التزام سے فرماتے تھے۔ سوائے اکبر الہ آبادی کے خطوط کے، جواب لکھنے کے فوراً بعد وہ خطوط کو تلف کر دیتے تھے۔ 5؎
ہماری کتاب کا موضوع چونکہ ’’ اقبال کی اردو نثر‘‘ ہے، اس لئے اس باب میں بھی فقط اردو خطوط کا تذکرہ کیا جائے گا، انگریزی خطوط یا دیگر زبانوں میں لکھے گئے خطوط کے تراجم زیربحث نہیں آئیں گے۔ علامہ کی وفات کے بعد ان کے اردو خطوط کے درج ذیل مجموعے شائع ہو چکے ہیںـ:
1شاد اقبال، مرتبہ: ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور۔ (اول 1942ئ)
2 اقبال بنام شاد: مرتبہ: محمد عبداللہ قریشی
اول: جون1986ی
(یہ مجموعہ ’’ شاد اقبال‘‘ ہی کی اشاعت مکرر ہے، اس میں کچھ مزید خطوط بھی شامل کئے گئے ہیں، جو اس سے قبل ’’ صحیفہ‘‘ اقبال نمبر(حصہ اول) 1973ء میں شائع ہوئے تھے۔)
3 اقبالنامہ (حصہ اول)، مرتبہ: شیخ عطاء اللہ ایم اے
اول:(1944ئ)
4 اقبالنامہ (حصہ دوم) مرتبہ: شیخ عطاء اللہ ایم اے
اول:1951ء
5مکاتیب اقبال، بنام: خان محمد نیاز الدین خان مرحوم
اول:1954ء
دوم:1986ی
6مکتوبات اقبال، مرتبہ: سید نذیر نیازی
اول: ستمبر1957ء
دوم: اکتوبر1977ء
7 انوار اقبال، مرتبہ: بشیر احمد ڈار
اول: مارچ1967ء
دوم:1977ء
8 مکاتیب اقبال بنام گرامی، مرتبہ: محمد عبداللہ قریشی
اول: اپریل 1969ء
دوم: جون1981ء
9 خطوط اقبال، مرتبہ: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
اول:1976ء
دوم:1977ء
10 خطوط اقبال بنام بیگم گرامی، مرتبہ: سید حمید اللہ شاہ ہاشمی
اول: جنوری 1978ء
11اقبال نامے، مرتبہ: ڈاکٹر اخلاق اثر
اول:1981ء
12اقبال۔۔۔۔ جہان دیگر، مرتبہ: محمد فرید الحق
اول:8جولائی 1983ء
13کلیات مکاتیب اقبال، جلد اول مرتبہ: سید مظفر حسین برنی
طبع اول 1989ء ۔۔۔۔۔ طبع دوم:1991ء
14کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم1991ء
15کلیات مکاتیب اقبال جلد سوم، 1993ء
16مکاتیب سر محمد اقبال بنام سید سلیمان ندوی 1992ء
آئندہ صفحات میں ہم اردو خطوط کے ان مجموعوں کا جائزہ پیش کریں گے۔
1شاد اقبال:ـ
علامہ اقبال نے اپنی زندگی میں بلامبالغہ ہزاروں خطوط لکھے، لیکن اقبال کی زندگی میں ان کے خطوط کا کوئی مجموعہ منظر عام پر نہ آ سکا، کیونکہ اقبال اپنے خطوط کی اشاعت کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد وقتاً فوقتاً کئی مجموعہ ہائے مکاتیب اشاعت پذیر ہوئے۔ اس سلسلے میں اولیت کا شرف جامعہ عثمانیہ کے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر محی الدین زور کو حاصل ہے، جنہوں نے ’’ شاد اقبال‘‘ کے زیر عنوان علامہ اقبال کے 49اور شاد کے 52خطوط شائع کیے۔
مہاراجا سر کشن پرشاد سے علامہ اقبال کے دوستانہ تعلقات تھے۔ خطوط کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال، مہاراجا سے اپنے ذاتی مسائل بھی بیان کر دیا کرتے تھے، اور مہاراجا بھی اپنے ذاتی مسائل کے سلسلے میں علامہ اقبال سے مشورے طلب کرتے تھے۔ مہاراجہ سے اقبال کی اولین ملاقات مارچ1910ء میں ہوئی، اس وقت وہ حیدر آباد میں مدار المہام تھے۔ 1910ء اور 1913ء کے درمیانی عرصے میں علامہ کی مراسلت ضرور ہوئی ہو گی، لیکن یہ خطوط ابھی تک دستیاب نہیں ہو سکے۔ 1913ء میں مہاراجہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے اور اسی سال وہ پنجاب کی سیر کو نکلے اور لاہور میں ان کی علامہ سے کئی ملاقاتیں ہوئیں، جن کا حال سرکشن پرشاد نے ’’ سیر پنجاب‘‘ میں بیان کیا ہے۔ مدار المہام کے عہدے پر شاد کی تقرری دسمبر1926ء میں ہوئی اور علامہ کا آخری خط بھی دسمبر1926ء کا ہے۔ 6؎
’’ شاد اقبال‘‘ اعظم اسٹیم پریس حیدر آباد دکن سے پہلی بار1942ء میں شائع ہوا۔ کتاب کا سائز علامہ اقبال کے مروجہ شعری مجموعوں کے مطابق ہے۔ کل صفحات 176+40=216 ہیں۔ ص:1سے 7تک کتاب کا عنوان اور فہرست مکتوبات درج ہے۔ ص8 خالی چھوڑ دیا گیا ہے۔ ص9سے 38تک سید محی الدین قادری زور کا مقدمہ ہے، جس میں انہوں نے اقبال اور شاد کے باہمی تعلقات کا ذکر کیا ہے اور شاد کی علم دوستی اور علم پروری کا تذکرہ کیا ہے۔ ص39پر شاد کا 29دسمبر16ء کے خط کا عکس درج ہے اورص40پر علامہ اقبال کے 24اکتوبر23ء کے خط کا عکس ہے۔ اس کے بعد دونوں شخصیات کی ایک ایک تصویر ہے۔ ان چالیس صفحات کے بعد دونوں اصحاب کے خطوط کے لئے علیحدہ سے صفحات نمبر شمار کئے گئے ہیں، یعنی پہلا خط:3 پر درج ہے اور آخری خط ص:175پر۔ تمام خطوط کو تاریخ وار ترتیب دیا گیا ہے۔ پہلا خط اقبال کا ہے، اس کے جواب میں دوسرا خط شاد کا، تیسرا خط اقبال کا اور چوتھا شاد کا، آخ تک یہی ترتیب ہے۔
مقدمے میں ڈاکٹر الدین قادری زور لکھتے ہیں:
’’ اس مجموعے میں جو خطوط شائع کئے جا رہے ہیں، وہ مہاراجہ کی وفات سے دو تین سال قبل ہی بغرض اشاعت وصول ہوئے تھے لیکن ان کی ترتیب و طباعت میں اتنی تعویق ہو گئی کہ یہ مجموعہ ان کی وفات کے دو تین سال بعد شائع ہو رہا ہے۔‘‘ 7؎
شاد کا انتقال1939ء 8؎ میں ہوا لیکن یہ مجموعہ 1942ء میں منظر عام پر آیا، گویا اس کی تدوین و ترتیب میں خاصا وقت لگ گیا۔ مرتب نے 19دسمبر1919ء اور اکتوبر1922ء کے درمیانی اڑھائی سال کے خطوط فراہم نہ ہو سکنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے، لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد شاد کے نام اقبال کے خطوط دستیاب ہو گئے، جسے محمد عبداللہ قریشی نے ’’ صحیفہ‘‘ میں چھاپ دیا۔ ’’صحیفہ‘‘ میں شامل مکتوبات پر بحث ہم آگے کریں گے۔
’’ شاد اقبال‘‘ میں خطوط کے ساتھ حواشی اور تعلیقات نہیں دئیے گئے، اگرچہ کشن پرشاد کے اپنے خطوط سے علامہ کے خطوط کے بعض مخفی گوشے واضح ہو جاتے ہیں، تاہم بعض باتوں کی وضاحت ضروری تھی اور محی الدین قادری زور کے لئے اس زمانے میں ان پرائیویٹ نوعیت کی باتوں کا سراغ لگانا بہ نسبت آج کے قدرے آسان تھا۔ شاید کسی نے اس وقت اس امر کی طرف توجہ نہیں کی، اس لئے اس مجموعہ مکاتیب کے کئی حصوں کی وضاحت نہ ہو سکی۔
اگرچہ مرتب نے مقدمے میں بیان کیا ہے کہ خطوط کی:’’ ترتیب اور نقل کے سلسلے میں مرتب کو صاحبزادہ میر محمد علی خاں میکش، صاحبزادہ میر اشرف علی خاں صاحب بی اے تحصیلدار اور رشید قریشی صاحب ایم اے سے خاص طور پر مدد ملی۔۔۔۔‘‘ 9؎ لیکن متون خطوط کے بغور مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصل خطوط کو پڑھنے اور پھر انہیں احتیاط و صحت کے ساتھ نقل کرنے میں وقت نظر سے کام نہیں لیا گیا۔ تین خطوط کی اغلاط کی نشان دہی محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب 10؎ نے کی ہے۔ اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر تمام خطوط کی عکسی نقول دستیاب ہو جائیں تو اغلاط کی تعداد بیسیوں تک پہنچ جائے۔
’’ شاد اقبال‘‘ کے بعض خطوط پر تاریخیں غلط درج کی گئی ہیں، مثلاً خط نمبر:1کی صحیح تاریخ یکم اکتوبر ہے، نہ کہ نومبر، اسی طرح خط نمبر5کی صحیح تاریخ 5دسمبر ہے، نہ کہ 4دسمبرخط نمبر96کی صحیح تاریخ29دسمبر ہے نہ کہ 9دسمبر۔
ابتدا میں علامہ کے مکتوب کا جو عکس دیا گیا ہے، وہ نامکمل ہے (دیکھئے اصل خط: ’’ شاد اقبال‘‘ ص:154, 153) علاوہ ازیں یہ خط23اکتوبر1923ء کا ہے جبکہ عکسی نقل میں 24 اکتوبر 1922ء ہے۔ جو کہ درست نہیں ہے۔ ’’ شاد اقبال‘‘ میں بعض الفاظ کا املا واضح طور پر غلط ہے۔ ممکن ہے ان میں سے کچھ اغلاط کاتب سے سرزد ہوئی ہوں، بہرحال ذیل میں بعض اغلاط کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
صفحہ
غلط
صحیح
66
19دسمبر
29دسمبر
97
لللہ
للہ
111
الحمد لللہ
الحمد للہ
115
1923ء
1922ء
115
11اکتوبر
11اکتوبر
155
واتمام
والاتمام
اقبال اپنے نام کے جزو (محمد) پر علامت’’ ص‘‘ بناتے تھے، لیکن ’’ شاد اقبال‘‘ میں یہ التزام کہیں نظر نہیں آتا۔ بعض مقامات پر کچھ الفاظ یا عبارات حذف کر دی گئی ہیں، مثلاً: (صفحات 136, 126, 125, 123, 112, 32, 19) مرتب نے یہ نہیں بتایا کہ محذوف الفاظ و عبارات مصلحتاً درج نہیں کئے گئے ، یا وہ پڑھے نہ جا سکے۔
’’ شاد اقبال‘‘ دوبارہ شائع نہ ہو سکی۔ آج کل یہ کتاب تقریباً ناپید ہے۔ بیشتر لائبریریوں میں موجود نہیں ہے۔ ’’ شاد اقبال‘‘ میں اقبال کی شخصیت کے بہت سے پہلو آشکارہ ہوتے ہیں۔ اس مجموعے میں شامل خطوط کی اہمیت صاحب مرتب ہی کے الفاظ میں اس طرح ہے:
’’ ان کے مطالعے سے ہندوستان کے دو بڑے انسانوں کے قلبی و ذہنی رحجانات بے نقاب ہو جاتے ہیں۔ ان میں ان کی اخلاقی اور روحانی قوتوں کی گہرائیاں آئینے کی طرح صاف و شفاف نظر آتی ہیں۔ یہ خطوط اس حقیقت حال پر سے پردہ اٹھا دیتے ہیں کہ دوستی اور محبت نبھانے اور اس میں ترقی دینے کے لئے قلب و دماغ کی کیسی وسعتیں درکار ہیں اور دو انسان وطن، مذہب اور مرتبے کی وسیع سے وسیع تر خلیجوں اور اختلافات کے باوجود کیونکر ایک دوسرے کے رنج و راحت کے شریک اور کمالات کے معترف رہ سکتے ہیں۔ ‘‘ 11؎
نوادر اقبال (غیر مطبوعہ خطوط):
ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے ’’ شاد اقبال‘‘ میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ 19دسمبر1919ء اور11اکتوبر1922ء کے درمیانی زمانے کے خطوط دستیاب نہ ہو سکے، لیکن خوش قسمتی سے اس مدت کے 4خطوط اور 1913ء اور1916ء کے درمیانی زمانے کے 46 خطوط چند سال قبل دستیاب ہو گئے۔ اقبال اکیڈمی نے شاد کے نام اقبال کے ان پچاس خطوط کو خرید کر محفوظ کر لیا اور عبداللہ قریشی نے انہیں مرتب کر کے ’’ صحیفہ‘‘ اقبال نمبر (اول) اکتوبر1973ء میں ایک طویل مقدمے اور حواشی و تعلیقات کے ساتھ شائع کر دیا۔ اس طرح شاد کے نام اقبال کے خطوط کی تعداد 50+49=99 ہو جاتی ہے۔ یہ پچاس خطوط’’ صحیفہ‘‘ میں ایک مضمون کی صورت میں شائع ہوئے۔ ان کو کتابی صورت میں چھاپنے کی اشد ضرورت تھی، چنانچہ محمد عبداللہ قریشی نے انہیں بھی نئے مجموعے ’’ اقبال بنام شاد‘‘ میں شامل کر لیا۔
اقبال بنام شاد:
’’ صحیفہ‘‘ میں اقبال کے شاد کے نام پچاس خطوط اور’’ شاد اقبال‘‘ میں شامل اقبال کے 49 اور شاد کے 52 خطوط کو کتابی صورت میں محمد عبداللہ قریشی نے جون1986ء میں شائع کیا۔ یہ کتاب ’’ بزم اقبال‘‘ لاہور نے چھاپی ہے۔ عبداللہ قریشی نے ’’ صحیفہ‘‘ میں شامل اپنے طویل مقدمے کو بعینہ نقل کر دیا ہے، یہ امر قابل افسوس ہے کہ انہوں نے سر ورق پہ ڈاکٹر محی الدین قادری زور کا نام نہیں دیا۔ یہ ان کا اخلاقی فریضہ تھا کہ وہ اقبال کے خطوط کے اولیں مرتب کا حوالہ دیتے۔ اپنے طویل مقدمے میں انہوں نے ’’ شاد اقبال‘‘ کے مرتب کے مقدمے سے استفادہ کیا ہے، لیکن اس کا حوالہ بھی کہیں نہیں دیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی رقمطراز ہیں:
’’ اقبال بنام شاد۔۔۔۔ اصل میں تو یہ شاد اقبال، ہی کا اضافہ شدہ ایڈیشن ہے اس مجموعے کا اصل نام برقرار رکھنا چاہئے تھا اور سر ورق پر اس کے مرتب ڈاکٹر زور کا نام بھی درج کرنا قرین انصاف تھا، اور اس کے ساتھ محمد عبداللہ قریشی صاحب کا نام، بہ طور شریک مرتب خوب جچتا‘‘ 13؎
’’ اقبال بنام شاد‘‘ میں خطوط کی ترتیب’’ شاد اقبال‘‘ کی نسبت مختلف ہے، یعنی اس میں پہلے تمام خطوط علامہ اقبال کے ہیں اور اس کے بعد خطوط شاد ہیں۔
’’ صحیفہ ‘‘ میں جو پچاس خطوط عبداللہ قریشی نے حواشی و تعلیقات کے ساتھ شائع کیے ہیں، ان میں بھی ’’ شاد اقبال‘‘ کی طرح اقبال کے نام کے جزو’’ محمد‘‘ پر ’’ محمد ؐ‘‘ علامت نہیں بنائی گئی تاہم ’’اقبال بنام شاد‘‘ میں اس کا خاص التزام کیا گیا ہے (سوائے خطوط نمبر1, 2, 3, 4اور5 کے) تعلیقات بعض مقامات پر خاصے طویل ہو گئے ہیں، جس سے اصل خط پس منظر میں چلا جاتا ہے اور تعلیقہ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تعلیقات مختصر مگر جامع ہوتے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی فرماتے ہیں:
’’ ایک ڈیڑھ سطر کے مختصر تعلیقات کے مقابلے میں بعض تعلقے کئی کئی صفحات پر پھیل گئے ہیں۔۔۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کے بارے میں فاضل مرتب کو جو بھی معلومات حاصل ہو گئیں، وہ سب تعلیقات میں شامل کر لی گئیں، قطع نظر اس سے کہ، متعلقہ مقام پر ان کی ضرورت بھی ہے یا نہیں۔۔۔ انہوں نے خیال نہیں فرمایا کہ وہ خطوط کے تعلیقات رقم کر رہے ہیں، رجال اقبال یا معاصرین اقبال کی سوانح عمریاں مرتب نہیں فرماتے رہے۔‘‘ 13؎
لیکن تعلیقات کی طوالت کے باوجود کئی اہم اور مطلوبہ شخصیات کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی، حالانکہ ان کی زیادہ ضرورت تھی کیونکہ ان کے بارے میں عام قارئین نہیں جانتے، مثلاً: اللہ اکبر، مرزا صاحب، سائیں رب، شاہ صاحب علاوہ ازیں ان خطوط میں بعض جملے اور اقتباس مبہم ہیں۔ ان کی وضاحت از حد ضروری تھی، لیکن ہمیں اس سلسلے میں بھی کوئی وضاحت نہیں ملتی، مثلاً:
1’’ سائیں رب کو آپ کا پیغام پہنچا دیا تھا‘‘ لا تقتنطوا فرماتے تھے (ص: 107)
2’’ ایاک نستعین کا دور دورہ پھر ہو جائے گا‘‘ (ص:205)
3 ’’ ایاک نعبد تو کوچ کر گئے‘‘ (ص:231)
4’’ اگرچہ میرا ٹیلی فون خراب ہے اور ادھر شان بے نیازی ہے، تاہم جواب کی توقع ہے۔ ‘‘ (ص:265)
’’ شاد اقبال‘‘ کی طرح محمد عبداللہ قریشی نے بھی بعض خطوط کے محذوف شدہ حصوں کی وضاحت نہیں کی مثلاً: (صفحات: 272, 271, 245, 230) خط:53 (ص:202) کی تاریخ محررہ22فروری درج کی گئی ہے، جبکہ ’’ شاد اقبال‘‘ خط:14ص:29پہ 23فروری درج ہے۔ اس کی وجہ شاید کتابت کی غلطی ہے۔ اسی طرح خط:53 (ص:202) کی تاریخ محررہ22 فروری درج کی گئی ہے جبکہ ’’ ثرو اقبال‘‘ خط:89(ص:271) پہ صرف دسمبر لکھا گیا ہے، حالانکہ زمانی ترتیب کے اعتبار سے اس کا سنہ کا بآسانی تعین کیا جا سکتا تھا، یعنی یہ خط دسمبر1922ء میں لکھا گیا ۔
اگرچہ ’’ اقبال بنام شاد‘‘ میں کتابت کی غلطیاں زیادہ نظر نہیں آتیں، تاہم کہیں کہیں چند اغلاط نظر آجاتی ہیں، مثلاً:
صفحہ
غلط
صحیح
78
چند روز ہونے
چند روز ہوئے
109
جاپہنچا
جا پہنچتا
128
روز ہونے
روز ہوئے
محمد عبداللہ قریشی نے اگرچہ خاصی دقت نظر سے اس مجموعے کو مرتب کیا ہے، مگر کہیں کہیں ان سے بھی لغزشیں ہوئی ہیں۔ تاہم مجموعی طور پر یہ مجموعہ اہم ہے۔
3 اقبال نامہ، حصہ اول:
اقبال کے خطوط کا یہ مجموعہ شیخ عطاء اللہ لیکچرار معاشیات علی گڑھ یونیورسٹی نے مرتب کر کے باہتمام شیخ محمد اشرف، تاجر کتب، کشمیری بازار، لاہور سے شائع کیا۔ جلد اول میں مرتب نے خطوط کی تعداد درج نہیں کی لیکن آخری خط کا نمبر شمار267ہے۔ اور اس کے بعد بھی ایک خط ڈاکٹر نکلسن کے نام درج ہے۔ صابر کلوروی لکھتے ہیں کہ اس مجموعے میں خطوط کی کل تعداد266ہے اور اس میں وہ خط بھی شامل ہے، جو ڈی مونٹ مورینسی کے نام ہے اور دیباچے میں دیا ہوا ہے۔ تعداد میں فرق اس لئے ہے کہ اس مجموعے میں خط نمبر183اور خط نمبر202 سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ مزید برآں خط نمبر205خط نہیں ہے، بلکہ یہ اسد ملتانی کا ’’ شبنم کا قطرہ‘‘ دیا ہوا ہے۔ 14؎ اس مجموعے میں شامل خطوط کی تعداد ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے نزدیک 267ء کے بجائے 236ہے اور اس کی وضاحت وہ حاشئیے میں یوں کرتے ہیں:
1 اصل تعداد، کل تعداد سے مندرجہ ذیل نوعیت کے خطوط منہا کر کے نکالی گئی ہے:
(الف) ایسے انگریزی خطوط کے اردو تراجم، جن کا اصل متن کسی انگریزی مجموعہ مکاتیب میں شامل ہے (چونکہ اردو ترجمہ اصل انگریزی متن کے مقابلے میں بہرحال ثانوی حیثیت رکھتا ہے، اس لئے یہاں ایسے اردو تراجم کو گنتی سے خارج کر دیا گیا ہے، البتہ وہ اردو تراجم شمار میں شامل ہیں، جن کے انگریزی متون کسی مجموعے میں نہیں ملتے)
(ب) ایسے اردو خطوط جو یہاں نا مکمل صورت میں ہیں، مگر کسی اور مجموعہ خطوط میں ان کا صحیح اور مکمل متن شامل ہے۔
(ج) شمارہ نمبر205(ص:340) کو بھی گنتی میں شامل نہیں کیا گیا، کہ یہ ایک نظم ہے۔ 15؎
’’ اقبال نامہ‘‘ حصہ اول کے سر ورق یا دیباچے میں اس کا سنہ اشاعت درج نہیں ہے۔ شیخ عطاء اللہ نے دیباچے میں بتایا ہے کہ ان خطوط کی تدوین و ترتیب کے کام کا آغاز فروری 1943ء میں ہوا۔ اور اس میں ڈیڑھ سال کا عرصہ لگا۔ بشیر احمد ڈار نے اس کا سنہ اشاعت 1944ء 16؎ لکھا ہے۔ صابر کلوروی نے بھی سنہ اشاعت1944ء ہی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے اس بیان کو ایک اور شہادت سے بھی تقویت ملتی ہے کہ میر ولی اللہ ایبٹ آبادی، جو علامہ کے معاصر ہونے کے ساتھ علامہ کے دوست تھے، اقبال کے متعلق ہر کتاب منگوا کر اپنی لائبریری میں محفوظ کر لیتے تھے۔ ان کے ذاتی کتب خانے میں جو انہوں نے بعد میں پشاور یونیورسٹی کو عطئیے کے طور پر دے دیا، ’’ اقبالنامہ‘‘ جلد اول کا نسخہ بھی موجود ہے جو انہیں شیخ احمد نامی کسی صاحب نے بطور عطیہ دیا تھا۔ نسخہ پیش کرنے کی تاریخ4دسمبر1944ء ہے جو اس بات کے ثبوت میں مضبوط دلیل ہے کہ یہ مجموعہ 1944ء کے اواخر میں شائع ہو چکا تھا۔17؎
علامہ اقبال سے شیخ عطاء اللہ کو گہری عقیدت تھی اور یہی احترام اور عقیدت مندی اس مجموعے کی تدوین و ترتیب کا بنیادی محرک بنی۔ وہ دیباچے میں لکھتے ہیں:
’’ اگرچہ اقبال کے مکاتیب کی فراہمی و اشاعت سے مقصود ایک حد تک ان جواہر پاروں کو دستبرد زمانہ سے محفوظ کر لینا ہے۔ لیکن اقبالنامہ کی اشاعت سے میرا سب سے اہم مقصد اقبال کے آئندہ سیرت نگار کے لئے بعض مسائل اور خود اقبال کی زندگی پر اقبال کی تحریری شہادتیں مہیا کرنا ہے۔‘‘ 18؎
مرتب کی عیقدت مندی اپنی جگہ ایک مستحسن امر ہے، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس مجموعے کو کسی اسکیم کے بغیر افراتفری میں مرتب کیا گیا ہے۔ بعض خطوط کے تراجم ناقص ہیں، بعض خطوط کے متون پڑھنے میں غلطیاں ہوئی ہیں، کچھ خطوط نامکمل چھاپے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں بعض غیر متعلق چیزیں بھی اس مجموعے میں شائع کی گئی ہیں مثلاً: فلسطین پر بیان (:451) شبنم کا قطرہ: اسد ملتانی (ص:340) لمعہ حیدر آبادی کی نظم (ص:293)
اس مجموعے کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ فہرست مندرجات ص: اتاث، اور دیباچہ ص: ج تا ق مقدمہ ڈاکٹر محمد حبیب الرحمن شروانی نے رقم فرمایا ہے اور یہ ص: ک تان پہ مشتمل ہے۔ انتساب: شمس العلماء مولانا میر حسن مرحوم (ص:و) کے نام ہے۔ خطوط کا شمار علیحدہ صفحات سے کیا گیا ہے اور یہ صفحات 3سے 474تک محیط ہے۔ اس میں سات خطوط کی عکسی نقول دی گئی ہیں۔ مرتب نے کہیں بھی یہ وضاحت نہیں کی کہ آیا انہوں نے تمام خطوط کے اصل متن ملاحظہ کئے تھے یا نہیں؟
’’ اقبالنامہ‘‘ میں جن سات خطوط کے عکس دیے گئے ہیں، ان کے تقابلی جائزے سے نقل شدہ متن میں بیسیوں اغلاط نظر آتی ہیں، مثلاً: حافظ محمد اسلم جیرا جپوری کے نام خط کا جو عکس دیا گیا ہے، اس میں ایک جگہ عبارت پڑھی نہیں گئی، لہٰذا اسے بغیر کسی وضاحت کے چھوڑ دیا گیا ہے، مزید یہ کہ بعض الفاظ و عبارات میں ترمیم و اضافہ کر دیا گیا ہے، ملاحظہ کیجئے:
صفحہ
اقبالنامہ
عکس خط
55
تحقیقات
تحقیق
55
مجھے بڑی تسکین قلب ہوئی، امید کہ۔۔۔
مجھے بڑی تسکین قلب ہوئی اس لئے مجھے یہ خط لکھنے کی جرأت ہوئی، امید کہ۔۔
مولوی ظفر احمد صدیقی کے نام خط کی عکسی نقل کے تقابلی جائزے سے درج ذیل اغلاط سامنے آئی ہیں، مثلاً:
صفحہ
اقبالنامہ
عکس خط
201
میری تحریروں
مری تحریروں
204
جمعیت اقوام بنے ہوئے
جمعیت اقوام کو بنے ہوئے۔۔
204
شاعرانہ تشبیہہ نہیں۔۔۔
شاعرانہ تشبیہہ نہیں ہے
میر سید غلام بھیک نیرنگ کے نام خط میں کچھ اسی قسم کی ترامیم کی گئی ہیں، مثلاً
صفحہ
اقبالنامہ
عکس خط
206
میری جان و آبرو
میری جان اور آبرو
اس خط میں ایک جگہ علیحدہ سے پیراگراف نہیں بنایا گیا، یعنی خط کی ترتیب میں تبدیلی کر دی ہے۔
پروفیسر شجاع کے نام خط میں(ص:220) ایک جگہ لفظوں کی ترتیب بدل دی ہے، یعنی عکس خط کے مطابق’’ عربی خاصی‘‘ لکھنے کے بجائے ’’ خاصی عربی‘‘ لکھ دیا ہے، اور عکس خط کے مطابق ایک جگہ علیحدہ سے پیراگراف بھی نہیں بنایا۔
مولانا عبدالماجد دریا بادی کے نام خط نمبر7میں ایک غلطی نظر آتی ہے، مثلاً
صفحہ
اقبالنامہ
عکس خط
239
افسوس ہے کوئی
افسوس کہ کوئی
اس خط میں بھی ایک جگہ علیحدہ پیراگراف نہیں بنایا گیا۔
سید راس مسعود کے نام خط نمبر16میں بھی بعض غیر ضروری ترامیم و اضافے کیے گئے ہیں، مثلاً:ـ
صفحہ
اقبالنامہ
عکس خط
374
اس رقم کو قبول۔۔
اس رقم مزید کو قبول
375
اس امر سے اطلاع۔۔۔
اس امر کی اطلاع۔۔۔
376
امید ہے مزاج۔۔۔
امید کہ مزاج۔۔۔
اس خط میں بھی ایک جگہ عکس خط کے مطابق علیحدہ سے پیراگراف نہیں بنایا گیا۔
خط نمبر23 جو ظہور الدین مہجود کے نام سے درج ہے، اصل میں یہ خط منشی محمد دین فوق کے نام لکھا گیا تھا۔ یہ ’’ انوار اقبال‘‘ (ص71, 70) میں انہی کے نام سے چھپا ہے، کیونکہ اس خط میں ’’ تذکرہ شعرائے کشمیر‘‘ کا ذکر ہے جو منشی محمد دین فوق نے لکھا تھا۔ ’’ انوار اقبال‘‘ اور’’ اقبالنامہ‘‘ میں شامل اس خط کے متون میں بعض اختلافات پائے جاتے ہیں، مثلاً:
صفحہ
اقبالنامہ
صفحہ
انوار اقبال
58
مسلمانوں کی۔۔
70
مسلمانان کشمیر کی۔۔
58
لٹریچر و حفاظت۔۔
70
لٹریچر کی تلاش و حفاظت
59
تذکرہ کشمیر
70
تذکرہ شعرائے کشمیر
59
بار آور ثابت ہو گی اگر۔۔
71
بار آور ہو گی اور اگر۔۔
59
امید کہ۔۔۔
71
امید ہے کہ
مندرجہ بالا غیر ضروری ترامیم و محذوفات کے علاوہ اس مجموعے میں متعدد مقامات پر کتابت کی اغلاط بھی نظر آتی ہیں، مثلاً:
صفحہ
غلط
صحیح
145
آیہ توریت
آیہ توریت
158
بہ ممکن
یہ ممکن
225
حو
جو
409
سلاح الدین
صلاح الدین
216
غرض کروں
عرض کروں
گویا تدوین و ترتیب کے ضمن میں جس غایت درجہ کی محنت و کاوش کی ضرورت ہوتی ہے، مرتب نے اس کا خیال نہیں رکھتا، نتیجتہً اس مجموعے میں بہت سی اغلاط اور تصرفات و محذوفات در آئی ہیں اور متون خطوط کو مجروح کرنے کا باعث بنی ہیں۔
’’ اقبالنامہ‘‘ جلد اول، میں سب سے بڑی خامی جس کا تذکرہ متعدد محققین نے بھی کیا ہے، وہ تاریخ و سنہ کے بارے میں مرتب کی بے احتیاطی ہے۔ ان گنت خطوط کی تاریخ، مہینہ یا سال غلط لکھا ہے، یا سرے سے لکھا ہی نہیں۔ مرتب نے دیباچے میں لکھا ہے کہ وہ مکاتیب کے سلسلے میں تقدیم و تاخیر کو اہم نہیں سمجھتے، حالانکہ بہ قول صابر کلوروی، علامہ کے افکار کو اپنے عہد کے حوالے سے پرکھنے اور ان کی مستند سوانح حیات مرتب کرنے کے کام میں خطوط کی تاریخ محررہ کا صحیح صحیح معلوم ہونا بے حد ضروری ہے۔ صابر کلوروی نے اس سلسلے میں متعدد خطوط کی صحیح تاریخ کا تعین نہایت وقت اور محنت سے کیا ہے۔ 19؎ لیکن انہوں نے خط نمبر67(ص:136) کا ذکر نہیں کیا، جس پر تاریخ19اگست1924ء درج ہے، یہ تاریخ غلط ہے، کیونکہ یہ خط27اگست1924ء (ص:133) کے بعد لکھا گیا ہے، خط کے متن سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔
اس مجموعے میں مکتوب الیہ کے سلسلے میں ایک سے زیادہ خطوط کی ترتیب زمانی ہے، لیکن بعض مقامات پر اس کا اہتمام نہیں کیا جا سکا۔ مثلاً: خط نمبر39اور41 (ص:87, 84) کی زمانی ترتیب غلط ہے۔
ان فروگذاشتوں کے علاوہ دوسری خامیاں حسب ذیل ہیں:
1اقبال اپنے نام کے جزو ’’ محمد‘‘ پر ہمیشہ علامت’’ ؐ ‘‘ بناتے تھے’’ اقبالنامہ‘‘ میں یہ اہتمام نہیں کیا گیا۔
2دستخط سے پہلے، خط کے خاتمے پر موجود لفظ’’ والسلام‘‘ نقل نویس نے عام طور پر حذف کر دیا ہے۔
3 ڈی ماؤنٹ مورینسی کے نام ایک خط دیباچے میں شامل کیا گیا ہے۔
4 خط نمبر207کا نمبر شمار غلط ہے، یہ دراصل خط نمبر206ہے۔
5خطوط پر حواشی درج نہیں ہیں، جن خطوط پر ان کا اہتمام کیا گیا ہے، وہ مکتوب الیہ کی جانب سے کیا گیا ہے، مثلاً سید سلیمان ندوی کے نام خطوط میں حواشی کا التزام خود سید سلیمان ندوی نے کیا ہے۔
6 ص:437 پر تین خطوط ایسے بھی درج ہیں، جن کا مکتوب الیہ گم نام ہے۔ مرتب ’’اقبالنامہ‘‘ نے لکھا ہے کہ یہ خطوط سید نعیم الحق کا عطیہ ہیں اور ان کا خیال ہے کہ شیخ عبداللہ کے نام لکھے گئے تھے۔ شیخ صاحب نے مزید لکھا ہے کہ ان کے خیال میں یہ کسی اور بزرگ کے نام لکھے گئے ہیں۔ یوں ان خطوط کا مکتوب الیہ گم نام ہے۔ شیخ عطاء اللہ تھوڑی سی محنت اور جستجو کرتے تو انہیں اس مسئلے کو حل کرنے میں زیادہ دشواری نہ ہوتی۔ ان تینوں خطوط کے مکتوب الیہ کے بارے میں صابر کلوروی صاحب کا کہنا ہے کہ یہ خطوط مسلم لیگ کے آنریری سیکرٹری مولوی سر محمد یعقوب کے نام لکھے گئے تھے۔ 20؎
’’ اقبالنامہ‘‘ کے ان نقائص سے یہ نتیجہ ہرگز اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ اقبالیات میں اس کی اہمیت نہیں۔ اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، کیونکہ تعداد کے اعتبار سے اس میں اقبال کے سب سے زیادہ خطوط شامل ہیں، اگر شیخ عطاء اللہ بروقت خطوط کی تدوین و ترتیب کا فیصلہ نہ کرتے تو یقینا آج مکتوبات اقبال کا ایک بڑا ذخیرہ ضائع ہو چکا ہوتا۔۔۔۔ علاوہ ازیں اقبال کی شخصیت، ان کے مشاغل اور دیگر مصروفیات کے علاوہ ہمیں اس مجموعے سے علامہ کی بعض نظموں کے ابتدائی متن کا بھی پتا چلتا ہے مثلاً
نظم (ردیف انگشتری) ص:16 غزل: سلیقہ مجھ میں کلیم کا (ص:82) فارسی اشعار بسلسلہ مسعود، ص:393
’’ اقبالنامہ اول‘‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا پہلا ایڈیشن اشاعت کے بعد واپس لے لیا گیا یا اس میں سے بعض صفحات نکال دئیے گئے۔ یہ صفحات چودھری محمد حسین کے ایما پر نکالے گئے۔ علامہ کی وفات کے بعد چودھری محمد حسین کا علامہ اور ان کی اولاد اور پھر علامہ کی تصنیفات کے ضمن میں یہ روش رہی کہ وہ ہر ایسی کوشش کی مخالفت کرتے رہے، جس سے علامہ کے مقام پر حرف آتا ہو۔ چودھری محمد حسین کے ایماء پر جو صفحات نکالے گئے، ان میں گمان غالب ہے کہ سر راس مسعود کے نام خطوط تھے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ خطوط انتہائی پرائیویٹ نوعیت کے ہوں کیونکہ 2 جون1934ء میں علامہ کا سر راس مسعود کو یہ لکھنا کہ اپنے صحیح پتہ سے نوازیں، کیونکہ ایک اہم معاملے کے متعلق مشورہ مطلوب ہے۔ اس سے بھی معاملے کی نزاکت کا پتہ چلتا ہے اور علامہ یہ پسند نہیں کرتے ہوں گے کہ ان کا خط غلط ہاتھوں میں چلا جائے۔ قرین قیاس ہے کہ یہ خطوط علامہ نے مالی امداد یا وظیفے کے لئے لکھے ہوں گے۔ ’’ اقبالنامہ‘‘ حصہ اول کی اشاعت کے بعد جب اس کی اشاعت روک دی گئی تو پروفیسر آل احمد سرور نے تحریفات و ترمیمات کی مخالفت کی تھی، لکھتے ہیں:
’’ اس مجموعے کو چھپے ہوئے تقریباً سال بھر ہو گیا۔ اس کی کچھ کاپیاں شائع ہوئیں اور اس کے بعد ایک حیرت انگیز سازش کے ماتحت جس کا جواب غالباً اردو ادب میں ملے اس کی اشاعت روک دی گئی۔ ادبی دنیا، اور دو ایک رسالوں میں اس پر ریویو بھی نکلے۔ سنا ہے کہ اشاعت روک دینے کی وجہ یہ ہوئی کہ اقبال پرستوں کے بعض حلقوں میں یہ خطرہ پیدا ہوا کہ اس کی اشاعت اقبال کی شان کے منافی ہے، کیونکہ اس میں اقبال نے سید سلیمان ندوی اور بعض دوسرے علماء سے عقیدت ظاہر کی تھی چنانچہ اب یہ کتاب کہیں نہیں ملتی اور پبلشر پر زور ڈالا جا رہا ہے کہ ایسے نامناسب خطوط نکال دیے جائیں تاکہ اقبال کی عظمت میں فرق نہ آئے۔ حالانکہ اقبال کی عظمت دوسرے کی عظمت کا اعتراف کرنے سے بڑھتی ہے، گھٹتی نہیں اور نہ جاوید کے لئے پنشن کی درخواست سے یہ خیال باطل ہو سکتا ہے کہ اقبال ذاتی طور پر درویش اور قناعت پسند آدمی تھے، اقبال کی ایک ایک سطر کو شائع کرنا چاہئے۔ یہ قوم کی میراث ہے، کسی کا مال تجارت نہیں۔‘‘ 21؎
’’ اقبالنامہ‘‘ کی طباعت و اشاعت میں یہ ترامیم تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس سلسلے میں اس مجموعے کے ناشر شیخ محمد اشرف نے 5جولائی 1979ء کو ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو ایک ملاقات میں بتایا:
’’ اقبالنامہ کی اشاعت رکوانے کا قصہ یہ ہے کہ اس میں ایک خط تھا راس مسعود کے نام، جس میں اقبال نے لکھا تھا کہ جب تک جاوید کی تعلیم مکمل نہیں ہوتی اس کے لئے پنشن جاری رہے گی۔ یہ ایک طرح کی درخواست تھی۔ چودھری محمد حسین اس زمانے میں پریس برانچ کے سپرنٹنڈنٹ تھے اور پیپر کنٹرولر بھی۔ اس وقت کاغذ پر کنٹرول تھا، جا کس مطلب تھا کہ ناشرین کی روح وہ قبض کر سکتے ہیں۔ چودھری صاحب نے کہا یہ خط ہے اسے شامل نہ کیا جائے، مگر کتاب چھپ چکی تھی جلدیں بن گئیں تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسے بیچ میں سے نکال دو مگر میں نے یہ پسند نہ کیا اور کتاب روک کر رکھ دی، فروخت بند کر دی۔ کافی عرصہ انتظار کیا۔ (پھر) میں نے وہ خط کتاب میں سے نکال دیا۔‘‘ 22؎
چودھری محمد حسین کے ایماء پر بعض خطوط میں ترامیم بھی کی گئیں، مثلاً راس مسعود کے نام10جون 1937ء کے خط میں یہ ترمیم واضح طور پر نظر آتی ہے۔ اس خط میں علامہ نے اپنے بچوں (جاوید اور منیرہ) کے گارڈین کے متعلق لکھا تھا۔ اپنے بھتیجے شیخ اعجاز احمد کی جگہ وہ سر راس مسعود کو بچوں کا گارڈین مقرر کرنا چاہتے تھے، لیکن اس ترمیم کی جو وجہ انہوں نے تحریر کی تھی وہ ’’ اقبالنامہ‘‘ حصہ اول میں مکمل صورت میں درج نہیں ہے۔ یہ خط اپنی مکمل صورت میں’’ اقبال اور ممنون حسن خاں‘‘ مصنف: ڈاکٹر اخلاق اثر میں شائع ہوا ہے اور یہاں سے لے کر اسے ’’اقبالیات‘‘ میں ڈاکٹر وحید عشرت نے تنقید و تبصرے کے ساتھ شائع کیا ہے۔ مجلہ ’’ اقبالیات‘‘ میں ڈاکٹر وحید عشرت نے تنقید و تبصرے کے ساتھ شائع کیا ہے۔ مجلہ ’’ اقبالیات‘‘ لاہور میں ’’اقبالنامہ‘‘ کی اولیں سو کاپیوں میں شامل 10 جون1937ء کا خط بھی شامل ہے، یہ وہ سو کاپیاں ہیں جو چودھری محمد حسین کی قطع و برید سے قبل شائع ہوئیں۔ ذیل میں ہم ’’ اقبالنامہ‘‘ میں شامل اس خط کے دونوں متون کا اصل متن سے موازنہ کرتے ہیں، مکمل خط کے بجائے صرف اس حصے کا تقابلی جائزہ پیش کیا جاتا ہے، جسے اصل متن سے نکال دیا گیا یا پھر اس میں ترمیم و تبدیلی کر دی گئی:
خط نمبر1۔ اقبال نامہ، حصہ اول، ص386 عبدالغنی بیچارے کی بابت میں تم کو اطلاع دے چکا ہوں۔ اس کی جگہ خاں صاحب میاں امیر الدین سب رجسٹرار لاہور کو مقرر کرنے کا ارادہ ہے۔ نمبر3 شیخ اعجاز احمد میرا بھتیجا ہے۔ نہایت صالح ہے، لیکن وہ خود بہت عیالدار ہے اور عام طور پر لاہور سے باہر رہتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کی جگہ تم کو Guardian مقرر کر دوں مجھے امید ہے کہ تمہیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہو گا۔
خط نمبر2۔ اقبال نامہ، حصہ اول، ص386 عبدالغنی بیچارے کی بابت تم کو اطلاع دے چکا ہوں میں چاہتا ہوں کہ اس کی جگہ تم کو Guardian مقرر کر دوں۔ مجھے امید ہے کہ تمہیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہو گا
عکس خط: (اقبال اور ممنون 1؎) ص:15 عبدالغنی بیچارے کی بابت میں تم کو اطلاع دے چکا ہوں۔ اس کی جگہ خان صاحب میاں امیر الدین سب رجسٹرار لاہور کو مقرر کرنے کا ارادہ ہے۔ نمبر3 شیخ اعجاز احمد میرا بڑا بھتیجا ہے۔ نہایت صالح آدمی ہے مگر افسوس کہ دینی عقائد کی رو سے قادیانی ہے۔ تم کو معلوم ہے کہ قادیانیوں کے عقیدے کے مطابق تمام مسلمان کافر ہیں۔ اس واسطے یہ امر شرعاً مشتبہ ہے کہ آیا ایسا عقیدہ رکھنے والا آدمی مسلمان بچوں کا Guardian ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ خود بہت عیال دار ہے اور عام طور پر لاہور سے باہر رہتا ہے میں چاہتا ہوں کہ اس کی جگہ تم کو Guardian مقرر کر دوں۔ مجھے امید ہے کہ تمہیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہو گا۔
شیخ اعجاز احمد اس خط میں تحریف کا سارا الزام چودھری محمد حسین پر دھرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ اس کی اشاعت میرے محترم شریک کار (ہم دونوں یعنی چودھری محمد حسین اور شیخ اعجاز جاوید اور منیرہ کے گارڈین تھے) کی سیاست کو گوارا نہ ہوتی، اس سیاست بازی کے متعلق کچھ کہنا مناسب نہیں۔‘‘ 24؎
٭٭٭
ڈاکٹر وحید عشرت لکھتے ہیں کہ اس خط میں تحریف کوئی نادانستہ طور پر کسی ایک فرد نے نہیں کی بلکہ کسی خاص فرد اور جماعت کی طرف سے ایک خاص منصوبہ بندی اور کوشش سے مختلف اشخاص سے اپنے اثر و نفوذ کی بنیاد پر تحریف کروائی گئی ہے اور اس کا مقصد شیخ اعجاز احمد، ان کے عقیدے اور قادیانیوں کے بارے میں علامہ اقبال کے واضح اور صریح اظہار و موقف کو چھپانے کی سعی نا مسعود کی گئی ہے۔ 25؎
’’ اقبالنامہ‘‘ اول کی اشاعت کے بعد اس میں شامل ڈاکٹر عباس خاں لمعہ حیدر آبادی کے بیشتر خطوط کو ڈاکٹر محمد دین تاثیر نے ’’ وضعی‘‘ 26؎ قرار دیا۔ اس ضمن میں عبدالواحد معینی کا بیان ہے کہ :’’ شیخ عطاء اللہ یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ ان میں سے اکثر خطوط کو آئندہ اشاعت میں حذف کر دیا جائے گا۔‘‘ 27؎
ان خطوط میں علامہ اقبال نے لمعہ حیدر آبادی کی شاعری کی بے حد تعریف و توصیف کی ہے اور ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔ اقبال، جنہوں نے ہمیشہ اصلاح سخن سے پہلو تہی کی ہے، وہ لمعہ کو نہ صرف اپنے مفید مشوروں سے نوازتے ہیں بلکہ مسلسل اصلاحیں بھی دیتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ لمعہ حیدر آبادی کے ٹیگور سے بھی دوستانہ مراسم تھے اور انہوں نے اقبال اور ٹیگور کو ملانے کی بھی کوشش کی۔ ان چونکا دینے والی باتوں کی وجہ سے لمعہ کے نام، اقبال کے خطوط پر بعض محققین اقبال نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہ کے بارے میں’’ اقبال اور بھوپال‘‘ کے صفحہ72 پر جو کچھ لکھا گیا ہے، عبدالواحد معینی نے اس پر اعتراض کیا ہے، ان کا ارشاد ہے:
’’ یہ ضروری ہے کہ اس کا ذکر کر دوں کہ لمعہ صاحب کے (نام) علامہ کے خطوط بیشتر جعلی ہیں اور خود عطاء اللہ صاحب (مرحوم) اس کے معترف تھے۔ اس لحاظ سے لمعہ صاحب کا ذکر ہی اس سلسلہ میں غیر ضروری ہے اور یہ سراسر غلط ہے کہ علامہ، لمعہ صاحب کی شاعرانہ صلاحیتوں کے دل سے معترف تھے۔ اتنا بڑا جعل اردو ادب کی تاریخ میں شاذ و نادر ہی سر زد ہوا ہو گا۔‘‘ 28؎
ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہ کے نام خطوط شائقین اقبال کے لئے ایک اختلافی مسئلہ بنا ہوا تھا، مگر اب دہلی سے شائع ہونے والی کتاب ’’ اقبال کے کرم فرما‘‘ مصنف: ماسٹر اختر، سے یہ مسئلہ بہت حد تک حل ہو جاتا ہے۔ مصنف نے مدلل انداز میں ثابت کیا ہے کہ اقبال سے منسوب لمعہ کے نام29 خطوط میں23وضعی اور جعلی ہیں اور چار میں تحریف کی گئی ہے، باقی دو اصلی ہیں۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ لمعہ نے یہ خطوط لکھے تھے۔ مصنف نے لمعہ کے خطوط کو جن امور کی بناء پر جعلی اور وضعی قرار دیا ہے وہ اس نوعیت کے ہیں کہ انہیں باسانی رد نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر ہم لمعہ کے نام، خط نمبر2(ص:37) کے وضعی ہونے کی وجوہ انہی کے الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
خط نمبر2(ص:37)
جناب من ڈاکٹر لمعہ
السلام علیکم آپ کا خط مل گیا ہے۔ فی الحال اصلاح اشعار سے معاف فرمایے کہ فرصت بالکل نہیں ہے۔ کسی فرصت کے وقت دیکھوں گا۔ امید ہے کہ آپ بخیر ہوں گے۔
مخلص محمد اقبال لاہور
7مئی 1929ء
٭٭٭
یہ خط دو خاص وجوہات کی بناء پر قابل بھروسہ نہیں ہے۔ اول تو یوں کہ اس خط میں لمعہ کو ڈاکٹر لمعہ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے جو غلط ہے۔ کیونکہ لمعہ اس وقت ڈاکٹر نہیں تھے۔ لمعہ صاحب فرماتے ہیں:
’’ اقبال سے میری ملاقات جنوری یا فروری 1929ء میں حیدر آباد میں ہوئی۔ اس وقت میں انٹرنس کا طالب علم تھا۔‘‘ 29؎
ظاہر ہے کہ اگر 1929ء میں ہی انہوں نے انٹرنس پاس کر لیا ہو گا، تب بھی وہ ڈاکٹر کہاں سے ہو گئے؟ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ لمعہ نے اپنے وضعی خطوط میں اصلیت کا رنگ لانے کے لئے القاب میں الٹ پھیر کی ہے، یہ اس کی بہترین مثال ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس خط میں مکتوب نگار نے اختتامہ جملہ ’’امید ہے کہ آپ بخیر ہوں گے‘‘ میں لفظ’’ ہے‘‘ کے ساتھ تحریر کیا ہے، جبکہ علامہ اقبال نے اس مخصوص جملہ میں جب وہ تحریر کے بالکل آخر میں لایا گیا ہو ’’ ہے‘‘ کا استعمال نہیں کیا ہے۔ وہ ہمیشہ ’’ امید کہ‘‘ لکھتے تھے۔ ان کے اردو کے تقریباً گیارہ سو خطوط میں اگر اس کی دو چار مثالیں ملتی ہیں تو وہ ناقل حضرات کی ان الفاظ کو پہچاننے میں غلطی کے سبب ہو سکتی ہیں۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ مکاتیبی ادب کی تاریخ میں ’’امید کہ‘‘ علامہ اقبال کی پہچان ہو گا۔ لمعہ کے معاملے میں اس غلطی کو یوں بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے نام کے 29مکاتیب میں سے دس میں یہ جملہ اسی ترکیب سے تحریر کیا گیا ہے۔ ان کے خطوط میں نقل کی غلطی کا امکان بھی خود بخود یوں مسترد ہو جاتا ہے کہ کئی خطوط میں یہ جملہ صحیح حالت میں تحریر ہے۔ اس لئے اب یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ جن دس خطوط میں علامہ اقبال کا یہ مخصوص جملہ ’’ ہے‘‘ کے ساتھ تحریر ہے، وہ علامہ اقبال کے مکاتیب نہیں ہیں، علامہ کے نام سے وضع کئے گئے ہیں۔30؎
مندرجہ بالا وجوہ کے علاوہ بھی ماسٹر اختر نے دیگر خطوط کے بارے میں ایسے ٹھوس دلائل دئیے ہیں کہ ہم انہیں آسانی سے مسترد نہیں کر سکتے اور لمعہ کے نام خطوط کے بارے میں ہمارا شک مستحکم ہو جاتا ہے۔
مگر اس اختلافی مسئلے کی ڈور ایک بار پھر الجھ گئی ہے، کیونکہ ہفت روزہ ’’ ہماری زبان‘‘ میں لمعہ حیدر آبادی کے نام علامہ اقبال کے خطوط کی دریافت کے بارے میں یہ بیان شائع ہوا ہے:
’’ اکبر رحمانی نے یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کے لئے اقبال اور لمعہ حیدر آبادی کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔ وہ گذشتہ ایک سال سے اصل خطوط کی تلاش کر رہے تھے بالاخر انہیں اپنی کوششوں میں کامیابی حاصل ہوئی اور لمعہ حیدر آبادی کے قریبی رشتہ داروں کے یہاں سے خطوط کا ایک ایسا ذخیرہ ملا، جس میں علامہ کے اقبال کے تحریر کردہ چند خطوط بھی ہیں۔ ان میں دو غیر مطبوعہ خطوط بھی ہیں۔ لمعہ کے نام اقبال کے اصل خطوط دریافت ہونے سے ڈاکٹر تاثیر اور عبدالواحد معینی کے الزام کی تردید ہو جاتی ہے۔ پروفیسر اکبر رحمانی لائق صد مبارک باد ہیں کہ ان کی محنت اور سعی رائیگاں نہیں گئی اور اس طرح انہوں نے اقبالین میں برسوں سے چلی آ رہی بحث کا خاتمہ کر دیا۔ اقبال اکادمی پاکستان نے اقبال نامہ کے زیر طبع دوسرے ایڈیشن سے لمعہ کے نام خطوط اقبال کو مشتبہ تصور کر کے خارج کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے اسے اکبر رحمانی نے بد بختانہ، عاجلانہ اور غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف سخت احتجاج کیا ہے۔۔۔ پروفیسر اکبر رحمانی عنقریب پاکستان جانے والے ہیں، جہاں وہ اس معاملے میں اکادمی کے عہدے داروں، ماہرین اقبالیات اور علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید سے گفت و شنید کریں گے۔‘‘ 31؎
اس بیان کے بعد لمعہ کے نام اقبال کے خطوط کے جعلی یا وضعی ہونے کے سلسلے میں کوئی حتمی اور قطعی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اکبر رحمانی کے پی ایچ ڈی کے مقالے کے منظر عام پر آنے سے ہی ان خطوط کی اصلیت کا فیصلہ کرنا ممکن ہے۔ تاہم اسی ضمن میں کمال احمد صدیقی کا مضمون’’ علامہ اقبال سے منسوب کچھ خط ایک مطالعہ‘‘ 32؎ بھی قابل ذکر ہے جس میں انہوں نے ماسٹر اختر کی کتاب ’’ اقبال کے کرم فرما‘‘ میں شامل علامہ کے بعض خطوط سے متعلق مزید نئے نکات بیان کئے ہیں، جن سے اس شبے کو تقویت ملتی ہے کہ لمعہ نے اپنے نام علامہ کے خطوط میں یا تو تصرف کیا ہے، یا مکتوب الیہ کا نام بدل دیا ہے۔۔۔ یہ مضمون بھی خاصے کی چیز ہے، اس کے مطالعے سے لمعہ کے نام علامہ کے خطوط سے متعلق حتمی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔۔۔
کمال احمد صدیقی سے زیر نظر مجموعہ مکاتیب کے مرتب کی ذیل میں تسامح ہوا ہے۔ انہوں نے علامہ کے برادر بزرگ شیخ عطا محمد اور اس مجموعے کے مرتب شیخ عطاء اللہ کو ایک ہی شخص سمجھ لیا ہے اور صاحب مرتب کو علامہ کا بڑا بھائی بتایا ہے، جو قطعی غلط ہے۔۔۔ راقمہ کے خیال میں تحقیقی موضوعات پہ قلم اٹھاتے ہوئے نہایت بیدار مغزی اور ژرف نگاہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تنقید کی صورت میں ان اوصاف کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے کہ کہیں ہمارے اٹھائے گئے نکات اعتبار کے درجے سے گر نہ جائیں۔
4اقبالنامہ (حصہ دوم):
اقبال کے 187 خطوط کا یہ مجموعہ بھی شیخ عطاء اللہ شعبہ معاشیات ہیلی کالج آف کامرس لاہور نے قیام پاکستان کے چار سال بعد1951ء میں لاہور سے باہتمام شیخ محمد اشرف کیا۔ اس مجموعے کی اشاعت کی نوید شیخ عطاء اللہ نے ’’ اقبالنامہ(حصہ اول)‘‘ ہی میں سنا دی تھی، لکھتے ہیں:
’’ ابھی کافی اور اہم مواد خطوط کی صورت میں میرے پاس موجود ہے۔ تلاش و جستجو جاری ہے مجھے توقع ہے کہ میں جلد از جلد حصہ دوم کی اشاعت کے فرض سے سبکدوش ہو سکوں۔‘‘ 33؎
اس مجموعے کے مکتوب الیہم کی تعداد 43ہے، جن میں قائداعظم محمد علی جناح، اکبر الہ آبادی، مولوی عبدالحق، عطیہ بیگم، مہاراجا کشن پرشاد، صاحبزادہ آفتاب احمد، خواجہ حسن نظامی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اس مجموعہ مکاتیب کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ اقبال نامہ کے مرتب شیخ عطاء اللہ کا جذبہ و شوق قابل داد ہے کہ انہوں نے مناسب وقت پر مکاتیب اقبال کی جمع آوری کا کام شروع کیا اور چند سال میں حضرت علامہ کے بہت سے متفرق خطوط اکٹھے کر کے انہیں اقبالنامہ حصہ اول و دوم میں شائع کر دیا۔ مکاتیب اقبال کے یہ مجموعے از بس قیمتی ہیں لیکن تدوین کے اعتبار سے یہی مجموعے سب سے زیادہ ناقص بھی ہیں۔۔۔۔ مرتب نے مکاتیب کی ترتیب و تدوین کا کوئی اصول و معیار پیش نظر نہیں رکھا۔‘‘ 34؎
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ’’ اقبال نامہ، حصہ دوم‘‘ میں بھی انہی اغلاط کو دہرایا گیا ہے، جن کا ذکر اس سے قبل ’’ اقبال نامہ، حصہ اول‘‘ میں تفصیل سے کیا جا چکا ہے۔ یعنی بعض خطوط پر سنین اور تاریخیں درست نہیں ہیں۔
اس مجموعے کی بڑی خامی یہ ہے کہ مرتب نے ضخامت بڑھانے کے لئے ایسے خطوط بھی شامل کر لیے ہیں، جو پہلے ہی کسی نہ کسی مجموعے میں شائع ہو چکے تھے۔ صورت حال یہ ہے کہ اس وقت 187خطوط کے اس مجموعے میں58خطوط ایسے ہیں جو دوسرے مجموعوں میں موجودہ ہیں، یا زیادہ بہتر متن کے ساتھ شائع ہو چکے ہیں، اس طرح حصہ دوم کے خطوط کی تعداد187سے کم ہو کر 129رہ جاتی ہے۔ حصہ دوم میں بھی حصہ اول کی طرح بعض خطوط نا مکمل چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ بعض مقامات پر مصلیٰ متن حذف کر دیا گیا ہے، لیکن بعض مقامات پر ایسا لگتا ہے، مرتب خطوط سے اصل متن اخذ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس طرح کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
1 خط نمبر20تا22 خالی جگہوں میں خواجہ حسن نظامی کا نام مصلحتاً حذف کر دیا گیا ہے۔
2خط نمبر24, 25اور 56میں بعض انگریزی کتابوں کے نام جان بوجھ کر چھوڑ دئیے گئے ہیں۔
3 خط نمبر77, 79, 118 میں بھی اسی قبیل کی خامیاں ہیں۔
ان کے علاوہ ’’ اقبالنامہ، حصہ دوم‘‘ میں حواشی درج نہیں کئے گئے، صرف چند ایک خطوط میں یہ اہتمام کیا گیا ہے، حالانکہ اس کی اشد ضرورت تھی۔ مرتب نے اس امر کی وضاحت بھی نہیں کی کہ آیا انہوں نے تمام خطوط کے اصل متون کو خود ملاحظہ کیا تھا یا نہیں۔ بیشتر خطوط کے ماخذ کی بھی نشان دہی نہیں کی۔ بعض مکاتیب کے مکتوب الیہم یا تو سرے سے موجود نہیں یا مشکوک ہیں، مثلاً:
1خط نمبر44(ص:100) کا مکتوب الیہ تصدق حسین تاج نہیں ہے، بلکہ یہ خط میر حسن الدین کے نام لکھا گیا تھا۔
2 خط نمبر86 (ص:228) یہ خط ماسٹر طالع محمد کے نام نہیں، بلکہ سردار ایم بی احمد، مشیر انکم ٹیکس بمبئی کو لکھا گیا ۔ 35؎
3 خط نمبر106(ص:265) محمد دین فوق کے نام نہیں بلکہ مولوی انشاء اللہ خاں ایڈیٹر وطن کے نام تھا۔
4 خط نمبر108 (ص:271) کا مکتوب الیہ گم نام ہے۔
5 خط نمبر156 (ص:351) مولانا اختر شیرانی کے نام نہیں بلکہ ان کے والد حافظ محمود شیرانی کے نام تھا۔
مندرجہ بالا خامیوں کے باوجود’’ اقبال نامہ، حصہ اول و دوم‘‘ کی اہمیت مسلم ہے اور شیخ عطاء اللہ کے الفاظ میں:
’’ ان خطوط کے مطالعے کے بعد اقبال کی ذات سے متعلق جو امتیازات مجھے نظر آئے ہیں، ان میں ان کا خلوص، ان کی علم دوستی، اسلام سے ان کی شیفتگی، ہندوستان کے مسلمانوں کی زبوں حالی پر ان کی دلسوزی اور اصلاح حال پر ان کی کوشش، ممالک اسلامیہ کے اتحاد و استقلال و استحکام کی تجاویز اور کوشش، اہل و عیال سے محبت، دوستوں کے لئے جذبہ مروت اور عالم انسانیت کے لئے فلاح و خیر سگالی کے جذبات نمایاں ہیں۔ اقبال کو سمجھنے کے لئے ان کے کلام کی طرح، ان کے خطوط کا مطالعہ بھی دوستداران اقبال کے لئے لازمی ہے۔ ‘‘ 36؎
دیباچے میں شیخ عطاء اللہ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اقبال کے افکار سے وسیع حلقہ کو روشناس کرانے کی غرض سے اس مجموعے کے اہم مکاتیب کو انگریزی اور فارسی میں شائع کرایا جائے گا، اور اگر ممکن ہوا تو عربی میں بھی اس کی اشاعت کا اہتمام پیش نظر رہے گا۔ 37؎ مگر افسوس کہ تراجم کا یہ منصوبہ بروئے کار نہ آ سکا۔
ڈاکٹر تحسین فراقی اپنے مضمون ’’ اقبال نامہ۔۔۔۔ چند گزارشات، چند تصحیحات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جہاں تک شیخ عطاء اللہ کے مرتبہ اقبالنامہ (دو جلد1944, 1951ئ) کا تعلق ہے، صحت متن کے اعتبار سے حد درجہ ناقص ہے۔ مکاتیب اقبال کے متفرق مجموعوں میں تعداد مکاتیب کے اعتبار سے یہ جتنا بڑا مجموعہ ہے، صحت متن کے اعتبار سے اتنا ہی ناقص ہے کیونکہ ان میں بعض مکاتیب کی تاریخیں غلط ہیں۔ بعض مکاتیب کے مکتوب الیہم وہ نہیں جو دراصل تھے۔ بعض مصالح کی بنیاد پر متن میں قطع و برید کی گئی ہے مثلاً راس مسعود، مولوی عبدالحق اور اکبر منیر کے نام خطوط میں۔۔۔۔۔ کچھ مکاتیب متن کے اعتبار سے ادھورے ہیں۔۔۔ بعض انگریزی خطوں کا ترجمہ بہت ناقص ہے، اقبالنامہ جلد اول میں نکلسن کے نام خط اور جلد دوم میں عطیہ کے نام اقبال کے بعض مکاتیب مثال کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ کہیں کہیں متن کے اندر ہی حواشی لکھ دئیے گئے ہیں حالانکہ ان کا محل یا تو آخر میں ہوتا ہے یا پا ورق میں، مثلاً اقبالنامہ، جلد دوم صفحات126, 131 نقل حرفی متعدد مقامات پر افراد و کتب کے نام غلط درج ہو گئے ہیں۔۔۔ بعض مقامات پر آیات قرآنی، شعر اور مصرعے صحت متن سے عاری ہیں۔ 38؎
غرض ڈاکٹر تحسین فراقی نے نہایت کدو کاوش سے ’’ اقبالنامہ جلد اول اور دوم‘‘ کی اغلاط کی نہ صرف نشان دہی کی ہے بلکہ ان کی تصحیح بھی کی ہے۔۔۔ ڈاکٹر صاحب کی معین کردہ تلمیحات کی روشنی میں ’’ اقبالنامہ‘‘ صحت متن کے ساتھ دوبارہ چھاپا جائے تو یقینا ایک گراں قدر اور مستحسن اقدام ہو گا۔
5 مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خاں، طبع اول:
نیاز الدین خان کے نام علامہ کے اناسی (79) خطوط پر مشتمل، یہ مجموعہ اقبال کے شعری مجموعوں کے مروج سائز پر باریک ٹائپ میں طبع کیا گیا۔ سر ورق پہ سال اشاعت درج نہیں ہے، مگر ایس اے رحمان کی تمہیدی سطور بہ عنوان ’’ تصدیق‘‘ پر8جولائی 1954ء کی تاریخ اور سال درج ہے، جس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ سال اشاعت بھی 1954ء ہو گا۔ یہ مجموعہ بزم اقبال لاہور نے شائع کیا ہے اور مکتوب الیہ کے دو صاحبزادوں، خان افتخار الدین احمد اور خان نفیس الدین احمد کے ادبی ذوق کا مرہون منت ہے۔ اس مجموعے کا پیش لفظ ایس اے رحمان کے قلم سے ہے۔ پیش لفظ میں انہوں نے بتایا ہے کہ مکتوب الیہ بستی دانشمندوں (جالندھر) کے رئیس اور علم و ادب سے شغف رکھنے والے بزرگوں میں سے تھے۔ ادبی ذوق کے علاوہ علامہ اقبال اور خان نیاز الدین خاں دونوں کو اعلیٰ نسل کے کبوتر پالنے کا شوق تھا، چنانچہ یہ ان خطوط کا ایک نمایاں موضوع ہے۔
تمہیدی سطور میں ایس اے رحمان نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اس مجموعے میں شامل خطوط میں سے سوائے ایک خط کے انہوں نے تمام خطوط خود ملاحظہ کئے ہیں، اور اس طرح ان خطوط کی صحت اور استناد کی ایک روشن مثال قائم کی ہے۔
یہ مکاتیب ص:1سے ص:55تک محیط ہیں دو خطوط کی عکسی نقلو بھی شامل کتاب ہیں۔ عکسی نقول کے جائزے اس امر کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ متون اصل کے مطابق ہیں۔ یہ خطوط جنوری 1916ء اور جون1928ء کے درمیانی عرصے پر محیط ہیں۔ یہ خطوط ان دو خطوط کے علاوہ ہیں جو ہمیں ’’ اقبال نامہ‘‘ حصہ دوم(ص:317) پر ملتے ہیں۔
زیر نظر مجموعے میں یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ اگر خط کی تاریخ شروع میں درج ہے تو اسے شرو ع ہی میں رہنے دیا ہے اور اگر آخر میں درج ہے تو اسے آخر میں درج کیا گیا ہے تاہم سنین کے سلسلے میں یہ ترمیم کر دی گئی ہے کہ 16ء (عکس خط، ص:3) 17ء (عکس خط، ص:11) کو 1916ء اور 1917ء میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ علامہ کے نام کے جزو ’’ محمد ‘‘ پر علامت ’’ ؐ‘‘ نہیں بنائی گئی، حالانکہ علامہ اقبال نے اس علامت کا خاص طور پر اہتمام کرتے تھے۔
خط نمبر44(ص:32) میں دس مقامات پر دس اصحاب کے نام اور ان کے کوائف حذف کر دئیے گئے ہیں، تاہم حاشئیے میں یہ وضاحت کر دی گئی ہے کہ ایسا مصلحتاً کیا گیا ہے ۔ کسی خط کا سنہ تحریر مشکوک نہیں ہے، البتہ خط نمبر41(ص:29, 30) پر دو تاریخیں درج ہیں، ایک تاریخ آگاز میں (لاہور16اپریل 1920ء ) اور ایک تاریخ آخر (لاہور11مئی 1920ئ) میں گمان غالب ہے کہ خط کے آخر میں درج تاریخ، خط نمبر42کی ہے جو ٹائپ کی غلطی سے خط نمبر41 کے آخر میں درج ہو گئی ہے۔
زیر نظر مجموعے کی پروف ریڈنگ اگرچہ احتیاط سے کی گئی ہے، تاہم ہمیں کتابت کی متعدد اغلاط نظر آتی ہیں، مثلاً:
نمبرشمار
صفحہ
سطر
غلط
صحیح
1
8
9
بہت
محبت
2
9
24
ٓؑاعصاد
اعصار
3
10
2
والد نامہ
والا نامہ
4
14
5
تمام
تمام
5
14
9
مخلوق بر
مخلوق پر
6
14
9
بہ کہنا
یہ کہنا
7
15
4
نہبں
نہیں
8
16
6
نلص
مخلص
9
18
18
انذاختہ
انداختہ
10
19
13
بھے
مجھے
11
20
3
مخص
مخلص
12
20
21
صوقیانہ رنگ
صوفیانہ رنگ
13
27
20
ندومی
مخدومی
14
29
9
ارسال فرما تھے
ارسال فرمائے تھے
15
32
15
امگان
مکان
16
32
16
گا
کا
16
33
21, 22
کھا پینے
کھانے پینے
17
34
9
خاں صاجب
خاں صاحب
18
38
6
آپ کا کا
آپ کا
19
39
2
دسمیر
دسمبر
20
40
20
یچے
بچے
21
41
13
ندومی
مخدومی
22
43
4
ندومی
مخدومی
23
44
2
یمعوں
مجمعوں
24
46
2
آگے
آکے
25
55
7
آچ
آج
26
55
12
نلص
مخلص
مندرجہ بالا اغلاط سے ظاہر ہوتا ہے کہ کتابت کے لئے جس غایت درجے کی احتیاط کی ضرورت تھی، اس کا اہتمام نہیں کیا گیا، تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ دیگر مجموعہ ہائے مکاتیب کی نسبت اس میں متون نقل بمطابق اصل ہیں اور تحریفات و محذوفات کی تعداد بھی زیادہ نہیں ہے۔ اس مجموعے کے منظر عام پر آنے سے بقول ایس اے رحمان ’’ اقبالیات کے ذخیرے میں بیش بہا اضافہ‘‘ ہوا ہے۔
مکاتیب اقبال بنام: خان محمد نیاز الدین خان، طبع دوم:
زیر بحث مجموعے کا دوسرا ایڈیشن1986ء میں اقبال اکادمی پاکستان، لاہور کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ اس کا مقدمہ (ملاحظات، ص:7تا16) پروفیسر مرزا محمد منور نے تحریر کیا ہے۔ طبع اول، میں حواشی و تعلیقات کی کمی محسوس ہوتی تھی، اس لئے اس ایڈیشن میں اس کا اہتمام کیا گیا ہے، نیز خان محمد نیاز الدین خان کا مختصر تعارف اور مکاتیب گرامی بنام نیاز الدین خان کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ مکتوب الیہ کے صاحبزادے نفیس الدین احمد ایم اے (علیگ) نے ’’ تعارف‘‘ میں خطوط کی ترتیب و اشاعت کے پاس منظر پر روشنی ڈالی ہے۔ خان نیاز الدین خان کے سوانحی خاکے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صاحب قلم تھے اور شعر بھی کہتے تھے، ان کی متعدد قلمی یادگاریں 1947 ء کے ہنگاموں کی نذر ہو گئیں۔ ان میں ایک فارسی کتاب کا ترجمہ، خود نوشت بہ عنوان:’’ حیات بے ثبات‘‘ اور اردو فارسی کلام پر مشتمل بیاض شامل تھی۔ مزید برآں انہوں نے ’’ پیام مشرق‘‘ کا منظوم اردو ترجمہ بھی کیا تھا، علامہ نے اسے پسند تو کیا مگر فرمایا کہ شائع نہ کیا جائے، ورنہ اصل کتاب نگاہوں سے اوجھل ہو جائے گی۔ 39؎
پروفیسر محمد مرزا منور نے مقدمے میں علامہ کی شخصیت اور ان کی مکتوب نگاری پر تنقیدی نگاہ ڈالی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ غالب کے سوا، اردو کے شاید ہی کسی دوسرے شاعر نے اتنے خطوط لکھے ہوں گے۔ تاہم غالب اور اقبال میں فرق یہ ہے کہ 1857ء کے بعد غالب مکتوب نویسی کو، اپنی تنہائی کی تسکین کے لئے، بہ طور مشغلہ حیات اختیار کیا تھا، مگر اقبال نے محض تنہائی سے گھبرا کر یا فارغ ایام کی شکم پروری کے لئے شاید ہی کبھی خط لکھا ہو۔ ان کے خطوط کی کثرت کثیرہ لوگوں کے مکاتیب کا جواب ہے۔ 40؎
مکتوب الیہ کے نام خطوط ص:19سے ص75تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس ایڈیشن کے کل صفحات 100 ہیں۔ اس مجموعہ میں طبع اول میں شامل دو خطوط کی عکسی نقول حذف کر دی گئی ہیں، حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ان عکسی نقول کے علاوہ دیگر خطوط کے عکس بھی پیش کیے جاتے۔ اس مجموعے کے سر ورق پہ جس خط کی عکسی نقل دی گئی ہے، وہ خان محمد نیاز الدین خان کے نام نہیں ہے بلکہ ڈاکٹر ظفر الحسن کے نام ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ خط مکتوب الیہ کے نام خط کا عکس دیتے۔
طبع اول میں ہمیں کتابت کی جو اغلاط نظر آتی ہیں اس ایڈیشن میں اگرچہ ان کی تصحیح کر دی گئی ہے مگر اس ایڈیشن میں بھی کتابت کی بعض اغلاط راہ پا گئی ہیں، مثلاً:
نمبر شمار
صفحہ
سطر
غلط
صحیح
1
28
14
الحمد لللہ
الحمد للہ
2
29
16
خط لکھتا
خط لکھتا
نقل نویسی میں بے احتیاطی اور سہل پسندی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ متون میں الحمد للہ کا املا دو طرح سے ملتا ہے، یعنی صحیح لفظ الحمد للہ (ص:18) پہ درج ہے جبکہ باقی تمام خطوط میں ان الفاظ کا غلط املا نقل کیا گیا ہے۔
کتابت کی اغلاط کے علاوہ اس ایڈیشن میں ایک افسوس ناک اور ناقابل فہم غلطی یہ نظر آتی ہے کہ اس میں جابجا تصرفات و اضافے کئے گئے ہیں، بعض جگہ پورا جملہ حذف کر دیا گیا ہے۔ طبع اول اور طبع دوم کے خطوط کا تفصیلی جائزہ لیں تو ہمیں مختلف خطوط میں مختلف طرح کا متن نظر آتا ہے، مثلاً
نمبرشمار
صفحہ
سطر
طبع اول، 1954ء
صفحہ
سطر
طبع دوم، 1986ء
1
4
26
آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔۔۔
23
5
آپ کا مزاج گرامی بخیر ہو گا۔۔۔۔
2
5
5
قیام کرو۔۔۔
23
11
قیام کروں۔۔۔
3
5
20
جلد ہو جائے۔۔۔
24
3
جلد ختم ہو جائے۔۔۔
4
5
21
خرید کیا ہے
24
4
خرید لیا ہے۔۔۔
5
6
23
جس کے رو سے۔۔۔
25
3
جس کی رو سے
6
7
23
مولینا گرامی جالندھری تشریف فرما
23
4
مولینا گرامی جالندھری یہاں تشریف فرما۔۔۔
7
8
15
گرامی صاحب بھی اب آلام و افکار۔۔۔
27
3
گرامی صاحب بھی آلام و افکار۔۔۔۔
8
8
21
محبت کا مبالغہ شامل ہے
27
7
محبت کا مبالغہ بھی شامل ہے۔۔۔۔
9
9
23
اسلام نے ہی بتائے ہیں۔۔۔
28
8
اسلام نے ہی بنائے ہیں۔۔۔۔
10
10
7
ہر کتاب کو اپنے۔۔۔
28
17
ہر کتاب اپنے۔۔۔۔
11
10
19
یہ کہنے میں کوئی مبالغہ
29
7
یہ کہنے میں مبالغہ۔۔۔
12
11
12
دل کو آپ سے۔۔۔
30
2
دل کو تو آپ سے۔۔۔
13
11
14
لاہور تشریف لاتے ہیں۔۔۔
30
4
لاہور تشریف لائے ہیں۔۔۔۔
14
15
3
ہمراہ لائیں۔۔۔
34
8
ہمراہ لاویں۔۔۔
15
18
19, 18
برانذاختہ کر دیا ہے
38
3
برانداختہ کر رکھا ہے۔۔۔
16
19
21
لاہور آنے کا بھی قصد۔۔۔
39
7
لاہور آنے کا قصد۔۔۔
17
23
22
نہایت موزوں ہے۔۔۔
43
2
نہایت ہی موزوں ہے
18
23
24
گرامی صاحب کے۔۔۔
43
4
گرامی کے۔۔۔
19
27
18
بعض ممبروں کا۔۔۔
46
18
بعض ممبران کا۔۔۔
20
27
23
ایوان خواص
47
4
ایوان خاص
21
28
2
ایوان عوام۔۔۔۔
47
4
ایوان عام
22
31
4
ترسم کہ سراز
50
7
ترسم نہ سراز
23
31
13, 14
Messrs Luzac & Co. Oriental
50
13, 14
Oriental
24
31
22
خدا کرے کہ یہ ختم ہو جائے۔ عرشی امرتسری نے ۔۔۔۔
51
2
عرشی۔۔۔۔۔ امرتسری نے۔۔۔۔
25
31
23
زخم کو چھیڑ دیا۔۔۔
51
2
زخم کو چھیڑ دیا ہے۔۔۔
26
36
6
منظور نہ ہو۔۔۔
55
16
منظور نہ ہوا۔۔۔
27
37
5
وہ بھی قبول نہ ہو۔۔۔
56
13
وہ بھی مقبول نہ ہو۔۔۔
28
42
9
اس کا علاج نقرس کے علاج۔۔۔
61
17, 18
اس کا علاج اس سے۔۔۔
29
42
18
رفع ہو گئی ہے۔۔۔
62
5
رفع ہو گئی۔۔۔
30
42
23
امید کہ آپ کا مزاج۔۔۔
62
9
امید کہ مزاج۔۔۔
31
43
17
نواب صاحب کے پرائیویٹ۔۔۔
63
5
نواب صاحب پرائیویٹ۔۔۔۔
32
44
4
امید ہے کہ۔۔۔۔
63
12
امید کہ۔۔۔
33
45
11
امید کہ آپ کا مزاج۔۔۔
64
17
امید کہ مزاج۔۔۔
34
45
20
اقبال فنڈ قائم کرنا میری رائے میں۔۔۔۔
65
6
اقبال فنڈ قائم کرنا۔۔۔
35
46
16
یہ بات میرے نزدیک مروت کے۔۔۔
66
3
یہ بات مروت کے۔۔۔
36
48
2, 3
ہمارے ملک کے لوگ
67
12
ہمارے لوگ۔۔۔
37
49
16
ان میں سے اکثر۔۔۔
69
4
ان میں اکثر۔۔۔۔
38
49
20
فلسفے میں یکتا ہے۔۔۔
69
6
فلسفے میں لکھتا ہے۔۔
39
52
10, 9
کی خدمت میں میری طرف سے آداب۔۔۔
72
5
کی خدمت میں آداب۔۔۔
40
53
7
ایسی ایسی مشکلات۔۔
73
3
ایسی مشکلات۔۔۔
41
54
12
1967ء
74
10
1968ء
42
55
4
گردہ میں پتھر ہے۔۔۔
75
1
گردہ میں پتھری ہے۔۔۔
مکوس کی عدم موجودگی میں یہ فیصلہ کرنا قدرے مشکل ہے کہ طبع اول کا متن درست ہے یا طبع دوم کا۔۔۔۔’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ جلد اول اور دوم میں خان محمد نیاز الدین خان کے نام جو خطوط شامل ہیں وہ غالباً’’ مکاتیب اقبال‘‘ طبع اول سے نقل کئے گئے ہیں، لہٰذا ان کا متن ایک سا ہے تاہم موازنے سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ طبع دوم کے متن میں جو ترامیم کی گئی ہیں وہ مرتب کی طرف سے ہیں مگر مرتب نے کس بنیاد پہ یہ ترامیم کی ہیں اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔
اس ایڈیشن میں بھی پہلے ایڈیشن کی خامیوں کو دہرایا گیا ہے، مثلاً:
1 16کو1916ء کو بنا دیا گیا ہے۔
2علامہ اقبال کے نام کے جزو ’’ محمد‘‘ پہ علامت ’’ ؐ ‘‘ کا اہتمام نہیں کیا گیا، سوائے ایک خط (ص:39) میں یہ التزام موجود ہے، اس سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ذرا سی کوشش اور احتیاط سے اس کمی کو دور کیا جا سکتا تھا۔
3طبع اول کے جس خط (ص:29) پہ دو مختلف تواریخ درج ہیں، ان کی تصحیح کے بجائے اس غلطی کو طبع دوم (ص:49, 48) میں بھی دہرایا گیا ہے۔
ان خامیوں کے علاوہ زیر نظر ایڈیشن میں ہمیں ایک اور خامی یہ نظر آتی ہے کہ اگرچہ اس میں حواشی و تعلیقات کا اضافہ کیا گیا ہے، مگر اس میں خطوط کے نمبر شمار تو ایک جیسے ہیں، مگر صفحات نمبر پہلے ایڈیشن کے شمار کئے گئے ہیں، اس سے تھوڑی سی الجھن پیدا ہو جاتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پہلے اور دوسرے یعنی دونوں ایڈیشنوں کے صفحات نمبر درج کیے جاتے تاکہ کسی ابہام کا احتمال نہ ہونے پاتا۔
حواشی میں اس با ت کی وضاحت بھی نہیں کی گئی ۔ کہ مختلف خطوط میں موجود قوسین کاتب یا مرتب نے بڑھائے ہیں یا بعینہ علامہ اقبال کے خطوط کے اصل متون میں شامل تھے۔البتہ ان تعلیقات سے جہاں او ربہت سے امور واضح ہو جاتے ہیں، وہاں اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ کبوتر پالنے کا شوق مکتوب الیہ کو نہیں بلکہ ان کے بڑے صاحبزادے نوبہار الدین خاں کو تھا، اور اس نے کبوتروں کی ایک نئی نسل بھی تیار کی تھی۔
بحیثیت مجموعی اس ایڈیشن کی اہمیت پہلے ایڈیشن کی نسبت زیادہ ہے، اگر اس اشاعت میں جو تصرفات راہ پا گئے ہیں، ان کی تصحیح کر دی جائے تو ا سکی قدر و قیمت میںمزید اضافہ ہو جائے گا۔ بہرحال بہ الفاظ پروفیسر مرزا محمد منور:
’’ اس ننھے منے سے مجموعہ مکاتیب نے خان صاحب کو حیات جاوید بخش دی۔ مردان حر دوامی قدروں کی طرح لافانی ہیں۔ ان مردان حر سے ذر اسی نسبت بھی لافانی بنا دیتی ہے۔‘‘ 41؎
مکتوبات اقبال، طبع اول:
مکاتیب اقبال کا یہ مجموعہ ممتاز حسن کی تحریک پر مرتب کیا گیا اور اسے اقبال اکادمی، کراچی نے ستمبر1957ء میں شائع کیا۔ اس مجموعے کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ اسے مکتوب الیہ (سید نذیر نیازی) نے خود مرتب کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:’’ حضرت علامہ سے باقاعدہ خط و کتابت کا آغاز1929ء میں ہوا۔ ابتدا میں پیام مشرق کی طباعت اس کا سبب بنی۔ پھر انگریزی خطبات تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے اردو ترجمے نے اس سلسلے کو اور آگے بڑھایا۔‘‘ 42؎ اس طرح 182 مکاتیب کا یہ مجموعہ 1929ء اور1936ء کے درمیانی عرصے میں لکھے گئے، خطوط پر مشتمل ہے، جب مکتوب الیہ جامعہ ملیہ دہلی میں استاد تھے۔ دو مختصر خطوط 1937ء کے ہیں، تب وہ لاہور آ چکے تھے۔
دیباچے میں خطوط کی تعداد182بتائی گئی ہے۔ صحیح تعداد179(43)؎ ہے۔ ان میں 177 خطوط سید نیر نیازی کے نام ہیں۔ ایک دن ان کے والد ماجد (خط:1912ئ) کے نام اور ایک خط کے مکتوب الیہ مولانا سلامت اللہ شاہ ہیں۔ دو خط انگریزی میں ہیں۔ (صفحات: 28, 29 اور 339) ابتدا میں دو خطوں کا عکس دیا گیا ہے۔ ’’ تین خطوں کا عکس اس سے پہلے امروز کے اقبال نمبر22اپریل1949ء میں چھپ چکا ہے۔ آٹھ خطوط کی عکسی نقول، جنگ کراچی کے اقبال ایڈیشن اپریل 1974ء میں شائع کی گئی ہیں۔ دو خطوط اقبال نامہ، دوم (ص:312, 309) میں بھی شامل ہیں۔‘‘ 44؎
ابتدائی بارہ صفحات (سر ورق، انتساب، فہرست اور عکس مکاتیب) پر صفحات کے نمبر درج نہیں ہیں۔ پھر آٹھ صفحات کی تمہید پر صفحات کا شمار الف تا ح کیا گیا ہے۔ کتاب کا متن (متون خطوط اور حوشی و تعلیقات) 372صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ آخر میں12 صفحات کا اشاریہ شامل کتاب ہے۔
اس مجموعے کے خطوط کو سنہ وار اور تاریخ وار ترتیب دیا گیا ہے، تاہم بہ قول صابر کلوروی اس مجموعے کے گیارہ خطوط کی سنین قیاسی ہیں، کیونکہ خط لکھتے وقت علامہ تاریخ لکھنا بھول گئے تاہم مرتب کتاب ہذا نے ان سنین کا سراغ لگا لیا ہے۔
خط، ص:37کی تاریخ محررہ (8نومبر) بھی قیاسی ہے۔
خط، ص:162کا مہینہ جولائی ہے نہ کہ جون
خط، ص:212پر مہینہ اکتوبر ہے۔
خط، ص:330پر مہینہ ستمبر ہے۔
خط، ص:250کی تاریخ محررہ 30جنوری درج ہے۔ اگلے پچھلے خطوط کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ درست نہیں۔ 22جنوری اور 25جنوری کے درمیان کی کوئی تاریخ ہو سکتی ہے، زیادہ قرین قیاس تاریخ25جنوری ہے۔ 45؎
مولف نے دیباچے میں اعتراف کیا ہے کہ ان خطوط میں بعض اسماء اور عبارتیں مصلحتاً حذف کر دی گئیں، درج ذیل خطوط کی عبارتیں مصلحتاً حذوف کر دی گئیں:
خط،ص:228محررہ20نومبر34ء
خط، ص:230، محررہ29نومبر34ء
خط، ص:271، محررہ 17مئی 1935ء
خط، ص:302، محررہ18نومبر35ء
اس مجموعے میں علامہ کے خطوط کا متن قدرے خفی قلم میں دیا گیا ہے اور پس منظر نسبتاً جلی خط میں چنانچہ غور سے دیکھنا پڑتا ہے کہ اصل خط کہاں سے شروع ہوا اور کہاں ختم ہوا۔ خطوط پر خط نمبر بھی درج نہیں ہیں۔ حواشی و تعلیقات کہیں کہیں زیادہ طویل ہو گئے ہیں اور خود مرتب کو بھی اس کا احساس ہے، لکھتے ہیںـ:’’ مجھے اعتراف ہے کہ یہ تصریحات کہیں کہیں ضرورت سے زیادہ طویل ہو گئی ہیں۔‘‘ 46؎ ص:24 (خط محررہ از، لاہور، یکم جون) پہ ایک جملہ اس طرح درج ہے:
’’ گو مجھے اس پر شبہ ہے کہ عام لوگ اس سے مستفیض ہو سکیں گے۔‘‘ جبکہ اس خط کے متن سے پتہ چلتا ہے کہ عام لوگ اس (تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے ترجمے) سے مستفیض نہیں ہو سکیں گے اور نذیر نیازی نے بھی حاشئیے میں وضاحت کی ہے کہ حضرت علامہ کا خیال تھا کہ عام لوگ خطبات کے ترجمے سے مستفیض نہیں ہو سکیں گے۔
زیر نظر مجموعے میں بھی مرتب نے 33 ء کو 1933ء بنا دیا ہے، بلکہ بیشتر خطوط کے سنین کے ساتھ علامت ’’ ئ‘‘ (عیسوی) کے اہتمام نہیں کیا گیا او رعلامہ کے نام کے جزو’’ محمد‘‘ پر علامت ’’ ؐ‘‘ کا التزام نہیں کیا گیا۔
اس مجموعے میں کتابت کی مختلف اغلاط نظر آتی ہیں، مثلاً:
نمبرشمار
صفحہ
غلط
صحیح
1
10
مبرے
میرے
2
141
عرض کر کر دوں۔۔
عرض کر دوں۔۔۔
3
162
طیار
تیار
4
169
شاہرک
شاہ رگ
5
174
نمام
تمام
سید نذیر نیازی کے نام خطوط میں علامہ اقبال نے اپنی بعض کتابوں کی طباعت کے کاروباری معاملات سے لے کر اپنی مہلک بیماری گلے کی خرابی اور آواز کا بیٹھ جانا، کے بارے میں چھوٹی چھوٹی جزئیات تحریر کر دی ہیں۔ سید نذیر نیازی نے اس مجموعہ مکاتیب کو خود مرتب کر کے اس کے پس منظر اور پیش نظر پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
2مکتوبات اقبال، طبع دوم:
اقبال اکادمی پاکستان، لاہور نے اکتوبر1977ء میں طبع اول کا فوٹو لے کر یہ مجموعہ دوبارہ شائع کیا۔ طبع دوم کی ضخامت میں چار صفحات کم کر دئیے گئے ہیں بلاشمار کے ابتدائی صفحات بارہ کے بجائے آٹھ ہیں۔ دوسرے ایڈیشن کے صفحات142, 143 پر کچھ عبارت محذوف ہے، گویا ان صفحات کی فوٹو کاپی صحیح نہیں بنائی گئی۔
7انوار اقبال، طبع اول:
بشیر احمد ڈار کی مرتبہ یہ کتاب اقبال اکادمی کراچی نے مارچ1967ء میں شائع کی۔ یہ اقبال کی متفرق تحریروں کا مجموعہ ہے، جس میں مضامین، تبصرے، کتابوں پر آراء اور مختلف لوگوں کے نام خطوط بھی ہیں۔ اس میں چونکہ زیادہ تعداد خطوط کی ہے، اس لئے ہم اس کا جائزہ مکاتیب کے مجموعوں کے ضمن میں پیش کر رہے ہیں ۔
اس مجموعے کے پہلے سولہ صفحات (سر ورق، پیش لفظ، عرض حال اور مندرجات کی فہرست) کے بعد متن کتاب کے آغاز سے از سر نو صفحات کا شمار کیا گیا ہے، جو 319 صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ آخر میں29صفحات کا اشاریہ بھی شامل کتاب ہے۔ کتاب خط نستعلیق میں ہے۔ مگر313تا آخر نسخ ٹائپ استعمال کیا گیا ہے۔ کاغذ دبیز اور مضبوط ہے۔
جس زمانے میں یہ مجموعہ مرتب ہوا، بشیر احمد ڈار نے اقبال اکادمی کے ڈائریکٹر تھے۔ انہوں نے بڑی کاوش اور تگ و دو سے اکادمی میں موجود بہت سا غیر مطبوعہ اور غیر مدون مواد مرتب کیا، بلکہ بہ قول ممتاز حسن اس قسم کی کاوش ان کے فرائض منصبی میں داخل ہے۔۔۔ جس محنت اور عرق ریزی سے انہوں نے یہ کام سر انجام دیا ہے وہ فرائض کی حد سے بہت آگے ہے۔47؎
’’ انوار اقبال‘‘ میں شامل اصل خطوط کی تعداد 175 (48) ہے، لیکن صابر کلوروی نے خطوط کی تعداد191بتائی ہے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ خطوط کی تعداد میں یہ اختلاف زیادہ اہمیت کا باعث اس لئے نہیں ہے کہ ہم نے ہر اس تحریر کو خط تصور کیا ہے، جو بطور خط ہی بھیجی گئی ہے چاہے اس پر تاریخ محررہ یا مقام تحریر بھی درج نہ ہو۔ مثال کے طور پر میر ولی اللہ ایبٹ آبادی کی کتاب ’’ لسان الغیب‘‘ پر علامہ کا تبصرہ خط کی صورت میں تھا، لیکن مصنف نے اس خط کے صرف اسی حصے کا حوالہ دیا ہے جو مصنف کی کتاب سے متعلق تھا۔ اس طرح کی تحریروں کا اسلوب اور خطابیہ انداز بیان اس کے خط ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ ان تحریروں کو ہم زیادہ سے زیادہ نامکمل خط کہہ سکتے ہیں۔ ایسی تحریروں کو تقاریظ سے الگ متصور کرنا چاہئے۔ 49؎
زیر نظر مجموعے میں علامہ کے دو خطوط کے عکس دئیے گئے ہیں۔ اس مجموعے میں علامہ کے دو فارسی خطوط بھی شامل ہیں، یہ سعید نفیسی کے نام ہیں۔ مرتب کتاب نے ان خطوط کا اردوترجمہ بھی دیا ہے۔ سر اکبر حیدری کے نام خط (ص:32) اصلاً انگریزی میں ہے، اس کا اردو ترجمہ بھی دیا گیا ہے۔ بعض دیگر خطوط پر بھی اصلاً انگریزی خط ہونے کا گمان گزرتا ہے، لیکن اس کی تصریح نہیں کی گئی، مثلاً مظفر الدین قریشی کے نام خطوط، انگریزی میں معلوم ہوتے ہیں۔
اس مجموعے میں شامل خطوط میں کوئی داخلی ترتیب موجود نہیں ہے اور نہ انہیں سنین وار مرتب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مجموعے میں گیارہ خطوط ایسے ہیں، جن کا ذکر فہرست میں نہیں ہو سکا، مثلاً:ـ بنام خواجہ حسن نظامی (ص:4) ثاقب کانپوری (ص:5) خواجہ وصی الدین (ص:6) عبدالعلی شوق سندیلو ی(ص:9) حاجی محمد احمد خاں (ص:11) محمد عبدالقوی فانی (ص:15) ابولمکارم محمد عبدالسلام متخلص بہ سلیم (ص:15) اظہر عباس (ص:16) سر اکبر حیدری (ص:32) نجم الغنی رامپوری (ص:284) محمد ادریس(ص:316)
اس مجموعے میں عددی اعتبار سے زیادہ تر خطوط حسب ذیل اصحاب کے نام ہیں:
محمد دین فوقـ:26 غلام رسول مہر:23
شاکر صدیقی:11 ڈاکٹر مظفر الدین قریشی:25
مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی:8 میر خورشید احمد:7
ضیاء الدین برنی:7
بعض خطوط کے سنین معلوم کرنے کی کوشش کی گئی اور ڈاک خانے کی مہر سے تاریخ محررہ کا سراغ لگایا گیا ہے، مثلاًـ:
شاکر صدیقی کے نام بعض خطوط:ص113, 114.
شوق سندیلوی کے نام خطوط:ص10, 9
اس مجموعے کے آٹھ خطوط دیگر مجموعوں میں شامل ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
1خطوط میں 17, 18 بنام عبدالرحمان شاطر (تعداد:2 خطوط اقبال ص:72 )پر زیادہ مستند متن کے ساتھ موجود ہیں۔
2 خط ص204بنام سردار رب نواز ڈیرہ بھی ’’ خطوط اقبال‘‘ ص196 پر صحیح متن کے ساتھ موجود ہ۔
3 خط ص217 بنام ظفر احمد صدیقی اور خط ص223 بنام محمد رمضان (اقبالنامہ، حصہ اول) اور خط ص225بنام محمد احمد اللہ خان پہلے ہی ’’اقبالنامہ حصہ دوم‘‘ میں شائع ہو چکے تھے۔ لہٰذا انہیں اس مجموعے میں شامل کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔
4 خط ص226بنام تلوک چند محروم بھی اپنے مستند متن کے ساتھ ’’خطوط اقبال‘‘ ص104پر شائع ہو چکا ہے۔
5خط ص157 تمکین کاظمی کے نام نہیں تھا بلکہ مانٹ موینسی کے نام تھا۔ یہ خط پہلے ہی ’’ اقبالنامہ حصہ اول‘‘ ص’’ ط‘‘ پر شائع ہو چکا تھا۔
یوں191 خطوط کے اس مجموعے میں صرف183خطوط نئے ہیں۔ 50؎
’’ انوار اقبال‘‘ کے متعدد خطوط تاریخ یا سنہ کے بغیر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرتب کتاب نے بعض خطوط کے سلسلے میں صحیح تاریخ کی دریافت میں کوشش ضرور کی ہے، لیکن پھر بھی متعدد خطوط کی تاریخ کی نشان دہی نہیں ہو سکی۔ صابر کلوروی نے بہت سے خطوط کی صحیح تاریخ اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ 51؎
متن خوانی اور نقل نویسی میں جو احتیاط اور وقت نظر مطلوب تھی، ’’ انوار اقبال‘‘ میں اس کا فقدان ہے۔ بعض خطوط کا اصل خطوط سے موازنہ کرنے پر بشیر احمد ڈار کے ہاں بھی، شیخ عطاء اللہ کی سی بے احتیاطی نظر آتی ہے۔ ذیل کی چند مثالیں ملاحظہ کیجئے:
(الف) ص186: میاں عبدالرشید کے نام دوسرا خط (عکس مطبوعہ: کردار نو، اپریل مئی 1963ء 152؎)
انوار اقبال اصل خط
آپ کا دوست آپ اور آپ کے دوست
کے لئے وصول کے لئے موصول
(ب) ص204: مکتوب بنام رب نواز خاں (عکس مطبوعہ: ’’ آزاد کشمیر‘‘ 22 اپریل 1955ء 52؎)
66، جون30ئ 26، جولائی 30ء
ہوئے۔ زیادہ ہوئے۔ اللھم زد فزو،زیادہ
(ج) ص210: مکتوب بنام خواجہ عبدالوحید (عکس مطبوعہ: ماہ نو، اپریل 1955ء 54؎
میں ان کے لیکچر میں ایک لیکچر
محمد محمد ؐ
متن خوانی میں بے احتیاطی کے علاوہ اس میں شامل خطوط میں کتابت کی اغلاط بھی نظر آتی ہیں:
نمبرشمار
صفحہ
غلط
صحیح
1
52
الحمدلللہ
الحمد للہ
2
90
چھت گیا
چھپ گیا
3
167
مولوی صاف
مولوی صاحب
4
169
مں
میں
5
180
جس لو
جس کو
اس مجموعے میں حواشی و تعلیقات کا مناسب انتظام نہیں کیا گیا، چنانچہ وضاحت طلب امور تشنہ رہ گئے ہیں۔ مرتب نے اکا دکا مقامات کے سوا کہیں نہیں بتایا کہ کسی خط کا ماخذ کیا ہے؟ کیونکہ اس مجموعے میں شامل بیشتر خطوط مختلف اخبار و رسائل میں شامل ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی حوالوں کی اس کمی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میں نے کئی برس پہلے بشیر احمد ڈار کو ’’ انوار اقبال‘‘ کی اس خامی کی طرف متوجہ کیا تو انہوں نے 20دسمبر1972ء کو جواباً یوں وضاحت کی:
جہاں تک ماخذات کی کمی کا معاملہ ہے، اس کی ایک خاص وجہ تھی۔ جیسے لوگ دوسرے لوگوں کی محنت پر ڈاکہ ڈالنے کے عادی ہیں، اور پھر اس کو تسلیم کرنے سے منکر اگر آپ بالفرض انقلاب کے حوالے سے کوئی چیز بڑی محنت سے معلوم کر کے شائع بھی کروا دیں، تو کچھ عرصے بعد یہی چیز انقلاب، کے حوالے سے وہ خود کسی مجموعے میں شامل کر کے تمام سرخروئی اپنے لئے مخصوص کر لیتے ہیں۔ ان کی اس حرکت سے بچنے کے لئے میں نے عملاًان تمام ماخذات کو آخری مسودے سے حذف کر دیا تھا۔
ہاشمی صاحب اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ سرقے کے خدشے سے حوالے حذف کرنا اصولاً غلط ہے اس سے کتاب کی ثقاہت مجروح اور اس کی استنادی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ 55؎
آخر میں ہم بہ قول ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار یہ کہہ سکتے ہیں: ’’ مجموعہ اہم ہے لیکن تدوین از حد ناقص‘‘ 56؎
(ii) انوار اقبال، طبع دوم:
’’ انوار اقبال‘‘ دوسری بار1977ء میں طبع اول کا عکس لے کر شائع کیا گیا۔ اس میں طبع اول کی تمام اغلاط موجود ہیں اور بعض الفاظ (ص:111) چھپائی میں نہیں آ سکے، جس سے متن خوانی میں دقت پیش آتی ہے۔ طبع دوم کا کاغذ نسبتاً باریک ہے۔
8مکاتیب اقبال بنام گرامی، طبع اول:
اقبال کے نوے خطوط پر مشتمل یہ مجموعہ، مولانا شیخ غلام قادر گرامی اور اقبال کے باہمی ربط و تعلق کا ایک دلچسپ مرقع ہے۔ اقبال کے اصل خطوط شیخ سردار محمد کے توسط سے اقبال اکادمی کو حاصل ہوئے تھے چنانچہ یہ مجموعہ مکاتیب اپریل 1969ء کو اقبال اکادمی کراچی سے چھپا۔ مقدمہ و تعلیقات محمد عبداللہ قریشی کی ہیں۔ تمہید و تعارف غلام رسول مہر اور ممتاز حسن کا ہے۔سب سے پہلا خط11مارچ1910ء کا ہے، اور آخری 31 جنوری 1927ء کا۔
ابتدائی سولہ صفحات (سر ورق، فہرست، پیش لفظ ازـ: ممتاز حسن) کے بعد صفحات کا شمار از سر نو کیا گیا ہے۔ مولانا غلام رسول مہر نے سات صفحات کے ’’ تمہید و تعارف‘‘ میں گرامی کی شخصیت اور اقبال و گرامی کے باہمی تعلقات پر روشنی ڈالی ہے۔ مرتب نے مقدمہ میں گرامی کے سوانحی، ان کی شخصیت و شاعری، زیر نظر خطوط اور ان کے حوالے سے اقبال اور گرامی کے باہمی روابط کی تفصیل مہیا کی ہے۔ گرامی کے بعض جوابی خطوط بھی دستیاب ہوئے ہیں، جن سے محمد عبداللہ قریشی نے تعلیقات و حوایشی میں استفادہ کیا ہے۔ حواشی کے ضمن میں محمد عبداللہ قریشی کی دیدہ ریزی اور دماغ کاوی یقینا داد کی مستحق ہے۔ انہوں نے مکاتیب اقبال کے مرتبین کے لئے ایک تابندہ مثال قائم کی ہے۔ خطوط تاریخ وار اور سنہ وار مرتب کئے گئے ہیں، مگر سات خطوط پر کوئی تاریخ یا سنہ درج نہیں، ان میں سے چھ خطوں کے سنہ تو صاحب مرتب نے متعین کر دئیے ہیں، تاہم ایک خط (ص:92) کا حتمی سنہ متعین نہیں ہو سکا اور صرف اتنا لکھ دیا گیا ہے کہ یہ خط1910ء اور1912ء کے درمیانی عرصے میں لکھا گیا تھا۔ صابر کلوروی نے اس خط کی تاریخ محررہ نومبر، دسمبر1911ء 57؎ بتائی ہے۔
اس مجموعے کے مطالعے سے یہ افسوس ناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ گرامی کے کئی خطوط ضائع ہو گئے۔ 11مارچ1910ء کے خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کم از کم دو خط لکھے جا چکے تھے۔ 11مارچ1910ء کا یہ خط بھی ’’ شہاب‘‘ (حیدر آباد دکن) کے مدیر کو بسکٹ فروش کی دکان سے پڑیا کی صورت میں ملا۔ 1911ء 1913ء اور 1925ء کا کوئی خط اس مجموعے میں شامل نہیں۔ قیاس غالب ہے کہ ان سالوں کے خطوط بھی ضائع ہو گئے۔
اس مجموعے میں شامل بعض مکاتیب قبل ازیں مختلف مجموعوں میں چھپ چکے ہیں، مثلاً: خط نمبر1اور38اقبالنامہ حصہ اول (صفحات:12, 13, 14, 15) میں خط نمبر2, 3, 18, 21, 24, 43, 60اور 87 ’’ نقوش، خطوط نمبر‘‘ اول (صفحات:23, 24, 25, 26, 27اور28) میں خط نمبر16اور42اقبال میوزیم لاہور میں محفوظ ہیں۔ 58؎
نقل متن میں، مرتب نے خاصی احتیاط سے کام لیا ہے، تاہم دیگر مرتبین خطوط کی طرح انہوں نے ’’ محمد ‘‘ پر علامات ’’ ؐ‘‘ نہیں بنائی، حالانکہ علامہ اقبال نے ہمیشہ اس کا التزام رکھا۔ خط نمبر83 (ص:232) پہ ایک جملہ اس طرح درج ہے ’’ جس جس کو یہ بخار آیا ہے ا سکی عمر میں بقدر سی سال کا اضافہ کیا گیا ہے۔‘‘ اس میں لفظ’’ سی‘‘ قابل غور ہے، یہاں نہ معلوم صحیح لفظ کیا ہے کیونکہ اس خط کا متن پیش نظر نہیں ہے۔ اگر ’’ سی‘‘ کی جگہ لفظ’’ اسی ‘‘ لکھ دیا جائے تو جملہ میں کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔ زیر نظر مجموعے میں کتابت کی کچھ اغلاط راہ پا گئی ہیں، ملاحظہ کیجئے:
نمبرشمار
صفحہ
سطر
غلط
صحیح
1
114
19
خیرت
خیریت
2
156
2
قلب
قلب
3
مبنی پر انصاف
مبنی بر انصاف
4
کھینج
کھینچ
مرتب نے حواشی و تعلیقات کا جو التزام کیا ہے، ان کی اہمیت اور افادیت میں قطعی کوئی کلام نہیں، مگر بعض تعلیقات طویل ہو گئے ہیں، مثلاً: سر عبدالقادر (صفحات:107، 108) نواب ذوالفقار علی خاں (صفحات:108, 109) اور اکبر الہ آبادی (ص:178) کے تعارفی شذرات اگر مختصر ہوتے تو بہتر تھا، مرتب نے تعلیقات میں نظم ’’ خضر راہ‘‘ پر اپنی طرف سے اظہار خیال کے بعد نظم کے متعلق غلام رسول مہر کا طویل تنقیدی مضمون نقل کر دیا ہے، حالانکہ اس کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی۔
مجموعے کے آخر میں ایک اشاریہ ہے، جس میں نظموں اور کتابوں کے حوالوں کے علاوہ اشخاص کا اشاریہ بھی دیا گیا ہے، مگر بعض اشخاص مثلاً: مرزا جلال (ص:185) چودھری خوشی محمد (ص:204) کا ذکر نہیں کیا گیا، اسی طرح اشاریے میں خطوط کے موضوعات کا حوالہ بھی نہیں دیا گیا، چنانچہ ہم اس اشاریے کو جامع اور مکمل نہیں کہہ سکتے۔
ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اس مجموعے کی ایک اور خامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ اس مجموعے کو آئندہ چھاپتے وقت اس امر کو ملحوظ رکھا جائے تو بہتر ہے کہ خطوط کا متن پہلے دیا جائے اور تعلیقات متن کے بعد دئیے جائیں۔ مختصر حواشی پا میں شذرے کے طور پر بھی دیے جا سکتے ہیں لیکن طویل شذرات (شخصیات سے متعلق الگ اور واقعات سے متعلق) متن کے بعد آئیں تو مناسب ہیں۔ ‘‘ 59
(ii) مکاتیب اقبال بنام گرامی، طبع دوم:
اقبال اکادمی پاکستان، لاہور نے یہ مجموعہ جون 1981ء میں دوبارہ شائع کیا، جو طبع اول کی عکسی اشاعت ہے۔ آخر میں ’’ اضافہ طبع دوم‘‘ کے تحت گرامی کے نام ا یک نئے اور بیگم گرامی کے نام سات خطوط (ماخوذ از: ’’ خطوط اقبال بنام بیگم گرامی‘‘ مرتبہ: حمید اللہ شاہ ہاشمی 60؎ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس ایڈیشن میں بعض الفاظ اور جملے چھپائی میں نہیں آ سکے، مثلاًـ: صفحات154, 155, 183, 189, 236یہ ایڈیشن چونکہ طبع اول کی عکسی نقول ہے، اس لئے اس میں بھی طبع اول کی خامیاں جوں کی توں دہرا دی گئی ہیں۔
طبع دوم میں مرتب نے ایک نیا دیباچہ بھی تحریر کیا ہے، جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ گرامی کے نام خطوط جس اسلوب سے مرتب کئے گئے تھے، اسے بے حد پسند کیا گیا اور اس کے بعد خطوط کا جو بھی مجموعہ منظر عام پر آیا، اس کے مرتب نے ان کی اسی روش کی پیروی کی۔
اس مجموعہ مکاتیب سے علامہ کے نظریہ فن اور فن شاعری کے رموز سے ان کی واقفیت کا اظہار ہوتا ہے۔ شاعری کے نقاد کی حیثیت سے بھی ان کا مقام و مرتبہ متعین ہوتا ہے۔ بعض نظموں اور اشعار خصوصاً فارسی اشعار کے شان نزول کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں۔ علامہ اقبال کی حیدر آباد میں ملازمت کی خواہش کی بعض تفصیلات بھی پہلی بار منظر عام پر آتی ہیں۔
9خطوط اقبال:
خطوط اقبال کے اس مجموعے میں علامہ کے ایک سو گیارہ خطوط شامل ہیں۔ اسے رفیع الدین ہاشمی نے مرتب کیا ہے اور مکتبہ خیابان ادب 39چیمبرلین روڈ لاہور سے 1976ء میں شائع ہوا۔ ’’ پیش لفظ‘‘ میں ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا ہے کہ اس مجموعے میں علامہ کے وہ خطوط شامل ہیں، جو 1976ء سے پہلے شائع ہونے والے کسی باقاعدہ مجموعے میں شامل نہ ہو سکے یا اگر شامل تھے تو ان کا متن غلط یا نا مکمل تھا۔
زیر نظر مجموعے میں اردو کے 91انگریزی کے 19اور عربی کا ایک خط شامل ہے۔ عربی اور انگریزی خطوط کا اصل متن مع ترجمہ دیا گیا ہے۔ مجموعے میں اقبال کے 9اردو اور انگریزی خطوط کی عکسی نقول بھی شامل ہیں۔ اقبال کے نام جامعہ ازہر کے علامہ مصطفی المراغی کے جوابی خط کی عکسی نقل بھی مہیا کی گئی ہے۔
’’ عرض مرتب‘‘ کے زیر عنوان مرتب نے صحت متن کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے مختلف مثالوں کے ذریعے وضاحت کی ہے، اس مجموعے کے سلسلے میں مرتب نے لکھا ہے:
’’ میں نے اول تو خطوط کی عکسی نقول مہیا کرنے کی کوشش کی اور جس قدر خطوں کی عکسی نقول مل سکیں، اسے سامنے رکھ کر، خطوط کے متون نقل کرنے میں حتی الامکان پوری احتیاط سے کام لیا، یہاں تک کہ حضرت علامہ کا اصل املا بھی جوں کا توں برقرار رکھا ہے۔ اسی طرح اگر تاریخ کسی خط کے آغاز میں درج ہے تو آغاز ہی میں درج کی، اگر آخر میں ہے تو آخر میں۔ خط میں سن 16ء لکھا ہے تو اسے 1916ء نہیں بنایا یعنی نقل نویسی میں نقل کی اصل سے مطابقت کو برقرار رکھا گیا ہے۔ پھر جن خطوط کی عکسی نقول دستیاب نہیں ہو سکیں، دوسرے ذرائع سے امکانی حد تک، ان کا صحیح متن دریافت کرنے کی سعی کی گئی، اس کے باوجود کئی خطوط کے دو دو متن ملے چنانچہ نسبتاً زیادہ قابل ترجیح متن اختیار کر کے اختلافات کی نشاندہی، حواشی میں کر دی گئی۔ اسی طرح انگریزی خطوط کے ترجموں میں بھی خاصی احتیاط سے کام لیا ہے۔ جس جس انگریزی خط کا متن دستیاب ہو سکا وہ اردو ترجمے کے ساتھ درج کر دیا گیا ہے۔ تاکہ قارئین ترجمے کا موازنہ اصل متن سے کر سکیں۔ ترجمے کے ضمن میں ایک وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ میں نے انگریزی خطوط کے القاب کا اردو ترجمہ نہیں کیا بلکہ انہیں جوں کا توں رہنے دیا ہے کیونکہ اول تو ان القاب کا ایسا مناسب و موزوں ترجمہ کرنا آسان نہیں جو پوری طرح اس مفہوم کو ادا کرے جو خط لکھتے ہوئے علامہ اقبال کے ذہن میں کسی خاص مکتوب الیہ کے لئے موجود تھا۔ دوسرے ڈیر سر، مائی ڈیر اکبر وغیرہ ایسے القبا ہیں جو حضرت علامہ نے اپنے اردو خطوط میں بھی کئی جگہ استعمال کئے ہیں اس لئے ایسے القاب کو اردو میں بھی علی حالہ برقرار رکھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ ‘‘ 61؎
’’ خطوط اقبال‘‘ کے آغاز میں مکاتیب اقبال کے مختلف مجموعوں کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہوئے اقبال کے خطوط اور ان کی خطوط نویسی پر ایک تنقیدی نظر ڈالی گئی ہے۔ خطوط کی ترتیب تاریخ و سنہ وار ہے، البتہ ایک مکتوب الیہ کے نام جملہ خطوط یکجا ہی دیے گئے ہیں۔ ہر خط سے پہلے مکتوب الیہ کا مختصر تعارف اور خط کا مختصر پس منظر درج ہے۔ مختصر پارورتی تعلیقات میں متن خط کے اختلافات اور بعض شخصیات وغیرہ کے بارے میں تعارفی اشارات موجود ہیں۔ کتاب کا تیسرا حصہ (ضمیمے، ص:308, 292) متون مکاتیب سے متعلق بعض نثری و شعری تحریروں پر مشتمل ہے۔ چوتھے حصے بعنوان:’’ ماخذ‘‘ میں ہر خط کے ذریعہ حصول، قبل ازیں اس کی اشاعت اور بعض انگریزی خطوط کے ناقص ترجموں سے بحث کی گئی ہے۔ مجموعے کے آخر میں کتابیات اور ایک مفصل اشاریہ بھی شامل ہے۔
صابر کلوروی نے زیر نظر مجموعے میں خطوط کی تعداد ایک سو گیارہ کے بجائے ایک سو دس 63؎ تسلیم کی ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ خط نمبر46(ص:174) بنام صوفی غلام مصطفی تبسم ’’ انوار اقبال‘‘ کا متن کچھ زیادہ ہے، اس لئے ہمارے نزدیک یہ متن زیادہ مستند ہے۔’’ خطوط اقبال‘‘ میں اس خط کو شامل کرنے کا جواز نہیں تھا۔
اگرچہ بہ قول فروغ احمد 63؎ زیر نظر مجموعہ کتابت اور طباعت کے اعتبار سے بھی معیاری ہے، تاہم ہزار احتیاط کے باوجود کچھ نہ کچھ سہو کتابت اور نقص طباعت کا راہ پا جانا عین ممکن ہوتا ہے، چنانچہ فروغ احمد نے اور اس مجموعے کے مرتب نے خود بھی بعض اغلاط کی نشان دہی کی ہے، مثلاً:
نمبرشمار
صفحہ
سطر
غلط
صحیح
1
103
9
نومبر
ستمبر
2
122
2
خفتہ
سفتہ
3
124
11
قادیانیت کے بارے اقبال کی
قادیانیت کے بارے میں اقبال کی
4
126
13
رکھتا ہوں
رکھتا ہو
5
131
3
نالید
نالیدو
6
160
4
تکلیف
تکلیف دینا
7
177
6
نصیر الدین
نصر الدین
8
201
3
میں پیش
میں نہیں پیش
9
209
2
میں گوشت
میں نے گوشت
10
211
12
24فروری
24جنوری
11
224
12
تھامس
تھامسن
12
237
17
الجھن
الجھی
13
249
5
مفید طلب
مفید مطلب
طباعت کی دو اور اغلاط بھی دکھائی دیتی ہیں، مثلاً ص:76 کی سطر4میں لفظ’’ یکم‘‘ کی جگہ یہ نشان باقی رہ گیا ہے:’’ تا‘‘ اورص:160کی سطر4میں’’ آپ کو تکلیف‘‘ کے بعد لفظ’’ دیتا‘‘ کی جگہ خالی رہ گئی ہے۔
دو مقامات پر املا کی غلطیاں کھٹکتی ہیں، یعنی صرف178پر عنوان بنام اکرام الحق سلیم کے تحت سطر5میں ’’ خاصا عرصہ‘‘ لکھا گیا ہے۔ اسی طرح ص180کی سطر2میں’’ اچھا گلا پایا‘‘ کے بجائے ’’ اچھا گلہ پایا‘‘ تحریر ہوا ہے۔
مرتب نے بعض خطوط کی تاریخیں اور سنین کی اصلاح کر دی ہے، مثلاً: مکتوب بنام جاوید اقبال 1933ء میں لکھا گیا، نہ کہ 1932ء میں (ص:222) مکتوب بنام مصطفی المراغی 1937ء میں لکھا گیا، نہ کہ 1936ء میں (ص:214) مکتوب بنام یلدرم، دسمبر1933ء میں لکھا گیا، نہ کہ دسمبر1932ء میں (ص:151) محمد نعمان کے نام خط اکتوبر1937ء کا تحریر کردہ ہے (گفتار اقبال، ص:210)64؎
ان اغلاط کے باوجود، بہ قول ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خطوط اقبال میں ’’متن کی تصحیح کے علاوہ بعض تاریخوں کو بھی درست کیا گیا ہے۔‘‘ 65؎ زیر نظر مجموعہ اپنی افادیت و اہمیت کی بدولت اقبالیات میں ایک موثر و اہم ترین اضافہ ہے، فروغ احمد لکھتے ہیںـ:
’’ یہ کتاب گرانقدر اپنے ظاہری محاسن کے اعتبار سے نہیں بلکہ اس کی قدر و قیمت کا تعین اس دیدہ ریزہ اور عرق ریزی سے ہوتا ہے، جس سے مرتب نے تحقیق و تفتیش، مقابلہ و موازنہ اور توثیق و تصحیح کے سلسلہ میں کام کیا ہے۔‘‘ 66؎
خطوط اقبال، طبع دوم:ـ
تقریباً ایک سال بعد1977ء میں طبع اول کے عکس پر مبنی ’’ خطوط اقبال‘‘ کی ایک اور اشاعت دہلی سے عمل میں آئی۔ یہ ایڈیشن چونکہ مرتب کی اطلاع و اجازت کے بغیر شائع کیا گیا، اس لئے اس اشاعت میں، طبع اول کی تمام اغلاط و نقائص موجود ہیں۔ اگر مرتب کی اجازت سے یہ ایڈیشن چھپایا جاتا تو ممکن ہے کہ یہ اغلاط و نقائص راہ نہ پا سکتے۔
10روح مکاتیب اقبال:
زیر بحث مجموعہ محمد عبداللہ قریشی نے مدون کیا، جو جشن صد سالہ اقبال نومبر1977ء کے موقع پر اقبال اکادمی لاہور نے شائع کیا۔ یہ خطوط کا کوئی نیا مجموعہ نہیں بلکہ مختلف مجموعہ ہائے مکاتیب میں سے 1233خطوں کے اقتباسات تاریخ وار جمع کر دیے گئے ہیں۔
یہ مجموعہ تقریباً748صفحات پہ محیط ہے، انتساب: محمد دین فوق کے نام ہے۔ فہرست مندرجات ص5سے 64تک محیط ہے۔ دیباچہ بہ عنوان:’’ تقریب‘‘ ص65سے 68 تک پھیلا ہوا ہے۔ متن کتاب ص69تا 699ہے۔ آخر میں ایک طویل اشاریہ (صفحات:701تا748) ہے۔ اشاریہ احمد رضا نے مرتب کیا ہے، اشاریے کے عنوانات یہ ہیں:1اشخاص، 2مقامات، ادارے، 3 کتب ، رسائل اور اخبارات۔
محمد عبداللہ قریشی نے دیباچے میں اس مجموعے کی تدوین و ترتیب اور مقصد پر روشنی ڈالی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں ان تمام مجموعوں (یعنی جو اس مجموعے سے پہلے شائع ہو چکے ہیں) کے خط کو یک جا کر کے پہلے تاریخ وار مرتب کیا ہے، پھر ہر خط کی اقبال ہی کے الفاظ میں تلخیص کر کے گویا دریا کو کوزے میں یا سمندر کو صدف میں بند کر دیا ہے، اس مجموعے کی اشاعت کے مقاصد یہ ہیں:
1 علامہ کے وہ تمام خطوط، جو کہیں نہ کہیں مل سکتے ہیں، یک جا ہو کر ایک نظر میں دیکھے جا سکیں۔
2روزنامچہ یا آپ بیتی قسم کی ایک چیزتیار ہو جائے۔
3سوانح نگاروں کو حضرت علامہ کے روزانہ معمولات، شب و روز کی سرگرمیوں، ذہنی اور مزاجی کیفیتوں، ملکی سیاست کے اتار چڑھاؤِ ادبی اور کاروباری مشغلوں، موسموں کے تغیر و تبدل، حوادث عالم کے اثرات، روحانی اور جسمانی عوارض، خوشی اور غمی، تفریحات اور مرغوبات کا حال معلوم کرنے میں آسانی ہو۔
4اقبال کی سلامت روی، ان کی رواداری، بے تکلف دوستوں سے ان کی محبت اور نفرت، خوش طبعی اور شگفتہ مزاجی اور بذلہ سنجی کے واقعات سامنے آ سکیں۔ 67؎
ڈاکٹر حمید یزادنی، محمد عبداللہ قریشی کی اس کاوش کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کی ہے:
’’ روح مکاتیب اقبال، حضرت علامہ سے متعلق ایک ایسی زبردست حوالے کی کتاب بن گئی ہے، جو محققین کو اگر کاملاً نہیں تو بہت بڑی حد تک بقیہ مجموعہ ہائے مکاتیب اقبال سے بے نیاز کر دے گی۔ محققین کے علاوہ عشاق اقبال کے لئے بھی یہ ایک انتہائی خوبصورت تحفہ ہے۔‘‘ 68؎
لیکن ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کی رائے اس سلسلے میں ڈاکٹر حمید یزدانی سے مختلف ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’’ روح مکاتیب اقبال‘‘ تو محض ایک خلاصہ نگاری ہے، خلاصہ نگار اپنے زاویہ نظر سے تلخیص و انتخاب کرتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ انتخاب ہر کسی کے لئے اطمینان بخش ہو۔ حقیقت میں خطوں کا انتخاب شعروں کے انتخاب سے بھی مشکل تر مسئلہ ہے کیونکہ خط ایک ایسا ہشت پہلو نگینہ ہوتا ہے جس کے ہر پہلو کی اہمیت زاویہ نظر بدل جانے سے اور ہو جاتی ہے، اس لئے خطوط کو مکمل صورت ہی میں چھپنا چاہئے۔ 69؎ خلاصہ نگاری کی بہرحال اہمیت ہے۔ دور حاضر میں گوناگوں مصروفیات اور فرائض کی ادائیگی میں فرصت کے لمحات کم ہی ملتے ہیں۔ موجودہ دور میں جس طرح مختصر افسانہ مقبولیت حاصل کر رہا ہے اسی طرح تلخیص نگاری کی افادیت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ راقمہ کی ناقص رائے میں زیر بحث مجموعہ مکاتیب اقبال کی اہمیت و افادیت، اقبال کے دیگر مجموعہ ہائے مکاتیب سے کسی طور بھی کم نہیں ہے۔
11خطوط اقبال بنام بیگم گرامی:
بیگم مولانا گرامی کے نام اقبال کے آٹھ خطوط کا یہ مختصر مجموعہ، حمید اللہ ہاشمی نے مرتب کر کے جنوری 1978ء میں فیصل آباد سے شائع کیا تھا۔ مولانا گرامی کی وفات کے بعد بیگم گرامی ان کا کلام مرتب کر کے چھپوانا چاہتی تھیں۔ اس سلسلے میں وہ علامہ اقبال سے مشورہ و اعانت کی طالب ہوئیں۔ یہ خطوط مولانا گرامی کے ورثاء سے حاصل کر کے مرتب کئے گئے ہیں۔
مرتب نے مجموعے کے ابتدائی حصے میں مولانا گرامی اور اقبال کے باہمی بے مکلفانہ روابط پر روشنی ڈالی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اقبال کے مطبوعہ مکاتیب کے علاوہ، گرامی کی غیر مطبوعہ یادداشتوں سے بھی مدد لی ہے، پھر بیگم گرامی کا مختصر تعارف کرایا ہے۔ اس کے بعد خطوط اقبال کا متن درج ہے۔ آخر میں عکس خطوط شامل ہیں۔
عکس خطوط کے جائزے سے متن میں متعدد اغلاط کا پتا چلتا ہے، مثلاً:
نمبر شمار
صفحہ
سطر
خطوط اقبال بنام بیگم گرامی
عکس خطوط
1
47
4
1918ء
18ء
2
47
8
تعمیل سمن نہیں ہوئے
تعمیل سمن کی نہیں ہوئی
3
47
9
امید ہے آپ
امید کہ آپ
4
47
11
1917ء
17ء
5
52
2
الحمد لللہ
الحمد للہ
6
52
5
اس کام کے
اس کے
7
52
7
پہلے ان
پہلے صرف ان
8
52
14
13ستمبر1967ء
13ستمبر67ء
9
53
3
پانچ سال مدت
پانچ کی سال مدت70؎
10
53
4
نہ کہ کتاب
نہ کتاب
11
53
8
20اپریل1930ء
25اپریل30ء
12
56
5
بھیجوگی
بھیجونگی
14
56
8
1930ء
30ء
15
58
3
قابل اعتبار
قابل اعتماد
16
60
5
عزیز سے میں نے
عزیز سے یا آپ سے میں نے
17
60
12
آپ سارا کلام
آپ کل کلام
18
61
16
باہر سے آنے والے
باہر رہنے والے
19
61
18
نہ ہوتی
نہ ہو سکتی
20
61
19
نوبت نہیں
نوبت ہی نہیں
اس مجموعے میں مولانا گرامی کے نام، اقبال کا ایک غیر مطبوعہ خط بھی شامل ہے۔ محمد عبداللہ قریشی نے ان تمام خطوط کو ’’ مکاتیب اقبال بنام گرامی‘‘ کے دوسرے ایڈیشن میں شامل کر لیا ہے مگر خطوط کی عکسی نقول شامل نہیں کیں، اس لئے متن میں بہت سی اغلاط راہ پا گئی ہیں۔
12اقبال نامے:
یہ مجموعہ ڈاکٹر اخلاق اثر نے مرتب کیا اور 1981ء میں طارق پبلی کیشنز صادق منزل چوکی امام باڑہ بھوپال سے شائع ہوا۔ کل صفحات104ہیں۔ سر ورق، انتساب (بہ نام: جناب ممنون حسن خاں) فہرست مندرجات (مکتوب الیہم، خطوط کی تعداد اور ترتیب) پر صفحات نمبر درج نہیں ہیں۔ ’’ اقبال نامہ‘‘ (اخلاق اثر) ص:9تا14 اقبال نامے (تحقیقی و تنقیدی مطالعہ) ص15تا24ہے۔ متن خطوط ص25سے104تک پھیلا ہوا ہے۔
دیباچے (بہ عنوان: اقبال نامے) میں مرتب نے اس مجموعے کی تدوین کے بارے میں اس طرح اظہار خیال کیا ہے:
’’ اردو کے عظیم شاعر اقبال کے بھوپال سے متعلق اکہتر غیر مطبوعہ اور مطبوعہ مکاتیب کے مجموعے اقبال نامے کو ترتیب دینے کی سعادت مجھے حاصل ہوئی ہے۔ اس مجموعہ میں وہ تمام دستیاب مکاتیب شامل ہیں جو علامہ اقبال نے لاہور سے بھوپال میں موجود یا بھوپال سے بھوپال میں موجود اور بھوپال سے باہر موجود اپنے دوستوں اور عقیدت مندوں کو تحریر کئے تھے۔‘‘ 71؎
اس مجموعے میں جن اصحاب کے نام مکتوبات شامل ہیں، ان کی تفصیل اس طرح ہے:
1محمد امین زبیری
1
2شاہ اسد الرحمن قدسی
1
3محمد شعیب قریشی
1
4سید نذیر نیازی
15
5عباس علی خاں لمعہ حیدر آبادی
1
6سر راس مسعود
27
7لیڈی امتہ المسعود
3
8مولانا سید سلیمان ندوی
4
9خواجہ ایف، ایم شجاع
1
10ڈاکٹر سید عبدالباسط
5
11قاضی تلمذ حسین
1
12سلامت اللہ شاہ
1
13ممنون حسن خاں
10
ان میں سے بیشتر خطوط، مختلف مجموعہ ہائے مکاتیب میں شائع ہو چکے ہیں۔ چند مکاتیب پہلی بار شائع ہوئے مثلاً بقول مرتب : محمد شعیب قریشی کے نام11جون1930ء (ص:26) غیر مطبوعہ ہے اور محمد شعیب قریشی کے نام اقبال کا یہ پہلا دستیاب مکتوب ہے۔
ممنون حسن خاں کے توسط سے مرتب کو سر راس مسعود کے نام اقبال کے تین غیر مطبوعہ اور پانچ مطبوعہ مکاتیب دستیاب ہوئے۔ سر راس مسعود کے نام خط مورخہ 10جون1937ء (ص76) کے بارے میں مرتب کا دعویٰ ہے کہ اس مجموعے کے ذریعے پہلی بار اس کا معیاری مکمل اور مستند متن سامنے آ رہا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مشمولہ متن بھی مکمل نہیں ہے اور شیخ اعجاز احمد کے مذہبی عقیدے کے بارے میں اقبال کے ریمارکس حذف کر دیے گئے ہیں۔
مرتب نے زیر نظر مجموعے میں انگریزی خطوط کے تراجم دیے ہیں، اصل انگریزی متن درج نہیں کیے، چنانچہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ یہ متون کس حد تک اصل کے مطابق ہیں۔ مرتب نے حواشی و تعلیقات کا اہتمام نہیں کیا اور نہ اس بات کا حوالہ دیا ہے کہ مطبوعہ خطوط انہوں نے کس مجموعے سے اخذ کیے ہیں، بعض خطوط کئی بار چھپ چکے ہیں، مرتب نے اس امر کی وضاحت نہیں کی کہ اس نے کس مطبوعہ متن کو بنیاد بنایا ہے۔
غیر مطبوعہ خطوط جو اس مجموعے کے ذریعے پہلی بار سامنے آئے ہیں، اگر مرتب ان کی عکسی نقول بھی شامل کر دیتے تو مجموعے کی افادیت میں مزید اضافہ ہو تا۔
مرتب نے ’’ اقبال نامے‘‘ (تحقیقی و تنقیدی مطالعہ) کے عنوان کے تحت جو معلومات فراہم کی ہیں اور علامہ اقبال کے بھوپال سے تعلق پر بحث کی ہے، اس میں حوالوں کی عدم موجودگی بری طرح کھٹکتی ہے۔ ماسٹر اختر نے لکھا ہے، فاضل مرتب نے ساری معلومات کا بغیر کسی حوالوں کے امتحانی نوٹس کی طرح کمال خوبی سے احاطہ کر لیا ہے۔72؎
مجموعی طور پر یہ مجموعہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں علامہ کے بھوپال سے متعلق خطوط ایک جگہ جمع کر دیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں چند غیر مطبوعہ خطوط بھی سامنے آ گئے ہیں، بہرحال اپنی نوعیت کے اعتبار سے اقبالیات میں اس کی اہمیت مسلم ہے۔
اقبالؒ۔۔۔۔۔ جہان دیگر:
زیر بحث مجموعہ محمد فرید الحق ایڈووکیٹ نے مرتب کر کے، گردیزی پبلشرز کراچی سے 8 جولائی 1983ء میں شائع کیا۔ کل صفحات152ہیں۔ شروع کے چوبیس صفحات یعنی سر ورق (ص:1,2) انتساب ص:3 عرض ناشر (ص:4) ترتیب مضامین (ص:5) خطوط کی ترتیب (ص:6) پیش لفظ (از : محمد فرید الحق، ص:7تا13) دیباچہ (از: محمد علی صدیقی، ص:14تا 21) تعارف (از: رئیس امروہوی، ص:22تا24) پر مشتمل ہیں۔ ص24خالی ہے، ص25پہ ’’ اردو خطوط‘‘ کے الفاظ درج ہیں اور متن خطوط صفحہ26سے 128تک پھیلا ہوا ہے۔ آخر میں (ص:129تا151) مولانا راغب احسن کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ خطوط کی کل تعداد 44ہے، جن میں سے اردو خطوط کی تعداد35ہے اور9انگریزی خطوط ہیں۔
یہ خطوط اسلامیان ہند کے ایک معروف عالم اور سیاست دان مولانا راغب احسن کے نام ہیں۔ ان خطوط سے علامہ کے علمی مشاغل، دینی مسلک اور سیاسی فکر کے متنوع پہلو روشن تر ہو کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ یہ خطوط، اقبال اور مولانا راغب احسن کے مابین 1967ء سے 1937ء کے عرصے پر محیط ہیں۔ یہ تمام خطوط محمد فرید الحق کے پاس محفوظ ہیں، بہ قول محمد علی صدیقی:
’’ اس مجموعہ مکاتیب میں بعض ایسے خطوط بھی شامل ہیں جن سے مولانا راغب احسن پر غیر معمولی اعتماد کا اظہار ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں بعض مسائل کے بارے میں علامہ کی مبہم آرا زیادہ صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔۔۔۔ کچھ ایسے مکاتیب بھی شامل ہیں جو کافی چونکا دینے والی تحریر سمجھی جائیں گی۔ ‘‘ 73؎
مولانا راغب احسن کے نام خطوط کی تعداد اکتالیس ہے، اور یہ تمام خطوط سوائے ایک خط کے جو’’ اقبالنامہ، حصہ دوم‘‘ (ص:251) میں شامل ہے، غیر مطبوعہ ہیں اور اس مجموعہ کے ذریعے پہلی بار سامنے آئے ہیں۔ اس مجموعے میں ایک خط انوری بیگم (ص:27) کے نام سے ہے اور ایک انگریزی خط (ص:121) مولانا شفیع کے نام ہے، علاوہ ازیں ایک خط (ص:33) کے القاب ’’ ڈیر مولنا‘‘ درج ہیں، یہ خط بھوپال سے لکھا گیا ہے۔ ایک داخلی شہادت کی بنا پر ہم اسے مولانا راغب احسن کے نام قرار نہیں دے سکتے، اس خط میں اس طرح کے جملے ملتے ہیں۔
’’ راغب احسن کی مجھے خود فکر ہے۔۔۔۔ آج راغب صاحب کا خط بھی آیا ہے۔۔۔۔ راغب صاحب کے خط سے جو حالات معلوم ہوئے۔۔۔‘‘
مگر مکتوب الیہ کون ہے؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
اس مجموعے کی نمایاں ترین خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تمام خطوط کے عکس دیے گئے ہیں، انگریزی خطوط کے عکس اور اردو تراجم بھی دئیے گئے ہیں۔ متن خوانی میں اگرچہ خاصی احتیاط سے کام لیاگیا ہے، تاہم عکسی نقول کے موازنے سے متن کی بہت سی غلطیاں نظر آتی ہیں، مثلاً:
نمبر شمار
صفحہ
سطر
عکس خط
صفحہ
سطر
اقبالؒ جہان دیگر
1
26
5
والسلام
27
7
فقط
2
30
13
والسلام
31
13
3
30
14
6فروری 35ء
31
16
6فروری 30ء
4
32
1
12فروری 35ء
33
1
12فروری30ء
5
32
11
والسلام
33
13
فقط
6
34
1
6جولائی35ء
35
1
6جولائی 30ء
7
34
14
والسلام
35
14
فقط
8
36
13
مرے
37
14
میرے
9
38
9
لیکے
39
7
لئے
10
38
17
ہیں
39
12
ہے
11
38
20
جدید دنیا کے حالات
39
14
کے حالات
12
38
21
اسلام کی یہ خدمت
39
14
اسلام کی خدمت
13
38
25
اور بھی دو چار حضرات شریک
39
18
اور بھی حضرات شریک
14
38
31
محمد ؐ
39
21
محمد
15
40
3
محمد ؐ عثمان ؑ
41
3
محمد عثمان
16
40
10
والسلام
41
9
فقط
17
44
20
والسلام
45
18
فقط
18
46
11
جماعت بھی
47
11
جماعت ہی
19
46
14, 15
کرے اور کوئی
47
14
کرے کوئی
20
46
17
والسلام
47
16
فقط
21
46
17
محمد ؐ
47
17
محمد
22
48
15
ممکن نہیں
49
19
ممکن ہے
23
50
6
سے بھی زیادہ
51
6, 5
سے زیادہ
24
50
6
شفیع داؤدی صاحب
51
6
شفیع داؤدی
25
50
12
والسلام
51
12
فقط
26
52
13
ممکن ہے متقدری صاحب
53
16
مقتدری صاحب
27
54
11
والسلام
55
11
فقط
28
56
17
والسلام
57
14
29
60
1
پرائیویٹ
61
1
30
70
8
بیزاری کی وجودہ
71
8
بیزاری کے وجوہ
31
72
6
ہندوستان سے باہر
73
7
ہندوستان کے باہر
32
72
8
لائق ہو ملنے
73
9
لائق ملنے
33
73
5
والسلام
73
18
فقط
34
78
7
ہے ان کی
79
8
ہے کہ ان کی
35
79
1
شملہ میں آپ کا
81
16
آپ کا شملہ میں
36
79
3
ممکن ہے کہ
81
17
ممکن ہے
37
82
16
امید کہ
83
13
امید ہے کہ
38
82
18
سلجوقی قونصل افغانی مرے
83
14
سلجوقی افغانی میرے
39
85
2
ہاں
83
15
یہاں
40
86
10
لیکن
87
11
مگر
41
88
1
پرائیویٹ
89
1
41
86
15
تو میں پھر
87
14
تو پھر
42
90
10
اصلی
91
11
اصل
43
92
6
ہاں
93
6
وہاں
44
104
6
آپ کو تکمیل تعلیم
105
21
تکمیل تعلیم
زیر نظر مجموعے میں اختلاف متن کے علاوہ اور بھی بہت سی خامیاں بری طرح کھٹکتی ہیں، مثلاً:
1خطوط کو تاریخ اور سنین وار مرتب نہیں کیا گیا۔
2خط نمبر1ص نمبر27پر درج ہے جبکہ فہرست میں اسے ص28پر درج بتایا گیا ہے اور نمبر شمار ایک کے بجائے دو درج ہیں، حالانکہ متن خطوط میں یہ خط سب سے پہلے درج ہے۔
3 جہاں عبارت نہیں پڑھی جا سکی (ص:47اور73) وہاں جگہ چھوڑ دی گئی ہے اور اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔
4 نذیر نیازی کے ہاتھ کا لکھا ہوا خط (صـ:ـ101, 100) اور خط ص:105پر سنہ درج نہیں ہے اور نہ مرتب نے اس کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے۔
5حواشی و تعلیقات کی عدم موجودگی بری طرح محسوس ہوتی ہے۔
6مولانا راغب احسن کے نام خطوط کی تعداد چوالیس 44(ص:16) بتائی گئی ہے، حالانکہ دو خطوط کے مکتوب الیہم مختلف ہیں اور ایک مکتوب الیہ گم نام ہے، گویا اس طرح راغب احسن کے نام خطوط کی تعداد اکتالیس بنتی ہے۔
7اس مجموعے میں 9انگریزی خطوط اور ان کے تراجم بھی شامل ہیں، یہ تراجم کس نے کیے ہیں؟ اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔
8 کئی خطوط میں عکسی نقول کے مطابق نئے پیراگراف نہیں بنائے گئے، مثلاً: صفحات47, 53, 83
9ایک غلطی جو کثرت سے دہرائی گئی ہے، وہ اقبال کے خطوط کے آخر میں درج الفاظ، ’’والسلام‘‘ کو لفظ’’ فقط‘‘ سے بدل دیا ہے۔
تاہم دیگر مجموعہ ہائے مکاتیب کی نسبت زیر نظر مجموعے میں30ء کو 1930ء نہیں بنایا گیا اور علامہ کے نام کے جزو ’’ محمد‘‘ پر علامت’’ ؐ‘‘ کا اہتمام کیا گیا ہے، سوائے چند خطوط (ص39, 47) کے جہاں یہ التزام نہیں کیا گیا، علاوہ ازیں اگر تاریخ خط کے آغاز میں درج ہے تو اسے آغاز ہی میں رہنے دیا ہے اور اگر آخر میں درج ہے تو اسے آخر میں درج کیا ہے۔
14کلیات مکاتیب اقبال، جلد اول:
’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ جلد اول، اردو اکادمی، دہلی سے 1989ء میں شائع ہوئی۔ اسے سید مظفر حسین برنی نے مرتب کیا ہے۔ کل صفحات1207ہیں، صفحات کا شمار مسلسل کیا گیا ہے۔ خطوط تاریخ وار مرتب کئے گئے ہیں۔ انگریزی اور جرمن زبان میں اقبال کے خطوط کے اردو تراجم پیش کئے گئے ہیں۔ انگریزی اور جرمن خطوط کے تراجم شامل کرنے کی غایت مرتب نے یہ بتائی ہے کہ چونکہ خطوط کو سنہ وار مرتب کیا گیا ہے، اس لئے ان تراجم کو بھی حسب موقع شامل کیا گیا ہے۔ا ردو اکادمی، دہلی نے اقبال کے تمام معلومہ مکاتیب کو پانچ جلدوں میں چھاپنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ان پانچ جلدوں کو کس طرح ترتیب دیا گیا ہے، اس کے متعلق مرتب لکھتے ہیں:
’’ علامہ اقبال کے تمام معلومہ خطوط کی تدوین و اشاعت کا منصوبہ اس طرح بنایا گیا ہے کہ انہیں پانچ جلدوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ اس تقسیم کے لئے کوئی جواز بھی ہونا چاہئے تھا۔ بہت غور و فکر کے بعد اقبال کی تصانیف کو نشان راہ بنایا گیا ہے، یعنی رموز بیخودی’’ بانگ درا‘‘ ’’ بال جبریل‘‘ اور پھر آخری زمانہ ۔۔۔۔ اس طرح اقبال کے ذہنی سفر کو سمجھنے میں بھی آسانی ہو گی۔‘‘
1جلد اول، میں1899ء سے 1918ء تک لکھے ہوئے تین سو انیس (319) خطوط شامل ہیں، جن میں سے ایک غیر مطبوعہ ہے اور ایک سو تینتیس (133) خطوط کے عکس دیے جا رہے ہیں۔ (1918ء ان کی تصنیف رموز بیخودی کا سال اشاعت ہے)
2جلد دوم۔۔۔۔۔ اس میں 1919ء سے 1928ء تک لکھے ہوئے مکتوبات درج کئے گئے ہیں (اس سال ان کے چھ خطبات، فکر اسلامی کی تشکیل جدید لکھے گئے )
3جلد سوم۔۔۔۔ میں1929ء سے آخر1934ء تک لکھے ہوئے خطوط شامل ہیں (جنوری 1935ء میں بال جبریل کی اشاعت ہوئی)
4جلد چہارم میں 1935ء سے 1938ء تک لکھے ہوئے مکتوبات شامل کیے گئے ہیں (21 اپریل 1938 ء علامہ اقبال کی تاریخ وفات ہے) اس آخری جلد کے دوسرے حصے میں علامہ کے خطوط کا تنقیدی و تحلیلی مطالعہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں:
الف :چاروں جلدوں میں شامل خطوط کی مکمل فہرست (مکسب تاریخ)
ب: مکتوب الیہم کی مکمل فہرست (ابجدی ترتیب سے)
ج: چاروں جلدوں میں اشخاص، مقامات و ادارے اور کتب و رسائل کا مکمل اشاریہ بھی دیا جا رہا ہے۔
د: سب جلدوں کا ایک جامع اشاریہ (Master Index) اور خطوط میں جن موضوعات پر لکھا گیا ہے، ان کا اشاریہ آخری جلد میں دیا جا رہا ہے۔
۵: جلد پنجم۔۔۔۔۔ علامہ اقبال کے انگریزی خطوط پر مشتمل ہے۔ انگریزی کے تمام خطوط کا اردو ترجمہ جلد اول تا چہارم میں باعتبار تاریخ اپنے اپنے مقام پر دے دیا گیا ہے۔ انگریزی کے اصل خطوط اس جلد میں تاریخی ترتیب سے یک جا کر دئیے گئے ہیں 74؎
’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ کی ترتیب کچھ اس طرح ہے: انتساب ص5پہ ترتیب مندرجات ص7تا21 حرف آغاز (از: سید شریف الحسن نقوی) مقدمہ (از: سید مظفر حسین برنی) ص25سے 53تک محیط ہے۔ مقدمہ میں مرتب نے مختلف زبانوں میں مکتوب نگاری کی ابتدا پر روشنی ڈالی ہے، علاوہ ازیں علامہ کے مکاتیب کے مختلف مجموعوں کا مختصر سا تعارف بھی پیش کیا ہے، مگر ان خطوط کو بھی جو خطوط کے کسی مجموعے کے بجائے مختلف کتابوں (مثلاً: اقبال یورپ میں، مظلوم اقبال Iqbal His Political Ideas at Cross Road. میں چھپے ہیں۔ مرتب نے ان کا ذکر مجموعہ ہائے مکاتیب کی ذیل میں کیا ہے۔ مرتب نے مختلف مجموعہ ہائے مکاتیب کی صرف اولیں اشاعت کا حوالہ دیا ہے، حالانکہ کئی مجموعے (مثلاً: مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خاں، مکتوبات اقبال بنام نذیر نیازی، انوار اقبال) اس سے زیادہ بار شائع ہو چکے ہیں۔ مقدمہ میں مرتب نے ان امور کا تذکرہ بھی کیا ہے، جو ’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ کی ترتیب و تدوین میں پیش نظر رکھے گئے، یعنی تمام خطوط کو تاریخ وار مرتب کیا گیا ہے، جن خطوط کی تاریخیں پچھلے مجموعوں میں غلط چھپ گئی تھیں، بعد میں کی جانے والی تحقیق کی روشنی میں ان کی تاریخیں درست کر لی گئیں۔ بعض خطوط پر تاریخ درج نہیں ہے، ان کا زمانہ اندرونی و بیرونی شہادتوں کی روشنی میں متعین کیا گیا ہے کئی خطوط ایسے ہیں جن پر نہ تاریخ درج ہے اور نہ کسی دوسرے ذریعے سے ان کے زمانہ کتابت کا تعین ہو سکا ہے، ایسے خطوط چوتھی جلد کے آخر میں درج کر دیے جائیں گے۔
مقدمے میں جن معروف اور غیر معروف اصحاب کا ذکر آیا ہے، ان کی تفصیل مقدمے کے آخر میں حواشی میں دی گئی ہے۔ حواشی کی ترتیب و تدوین میں نثار احمد فاروقی صاحب نے معاونت کی ہے۔ متن خطوط ص62سے 798تک محیط ہے۔ یہ خطوط جن مکتوب الیہم کو لکھے گئے، یا ان مکاتیب میں جن شخصیات کا ذکر آیا ہے، ان کے متعلق مختصر سوانحی نوعیت کے حواشی ص 809 تا 1134پہ دئیے گئے ہیں۔ حواشی سے قبل حواشی کی فہرست (ص799تا808) درج کی گئی ہے۔ کتابیات کی تفصیل ص1135تا1150پہ دی گئی ہے۔ اشاریہ ص1151سے 1186 تک پھیلا ہوا ہے۔ اشاریے کے عنوانات یہ ہیں:1 اشخاص، 2ممالک، شہر، مقامات ، 3 اخبارات و رسائل، 4 انجمن، ادارے، کانفرنس، 5 کتابیں، ڈکشنریاں، انسائیکلو پیڈیا، انگریزی کتابیات کی فہرست ص1204تا1207پہ درج کی گئی ہے۔
’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ جلد اول، میں کل 319خطوط ہیں، ان میں269اردو خطوط، 17جرمن خطوط کے اردو تراجم اور 33 انگریزی خطوط کے تراجم شامل ہیں۔ 133 کی عکسی نقول شامل کی گئی ہیں، مگر133 عکسی نقول کے بجائے کل عکس140ہیں، تعداد میں فرق شاید اس وجہ سے ہے کہ مرتب نے ان عکسی نقول کو شمار نہیں کیا جو پہلے بھی منظر عام پہ آ چکی ہیں اور اب انہیں اس کلیات میں شامل کیا گیا ہے۔ مرتب نے یہ تعداد ان عکوس کی بتائی ہے، جو اس کلیات کے ذریعے پہلی بار منظر عام پہ آئے ہیں، مگر مرتب نے مقدمے میں کہیں اس کی وضاحت نہیں کی۔
کلیات کی چھپائی خوبصورت ہے۔ متن خطوط جلی قلم میں اور حواشی خفی قلم میں ہیں۔ کاغذ نسبتاً دبیز ہے۔ نقل متن میں اگرچہ احتیاط برتی گئی ہے، مگر اس کے باوجود عکسی نقول کے جائزے سے نقل متن میں بہت سی کوتاہیاں نظر آتی ہیں۔ ذیل میں متن کا ایک جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
نمبر شمار
صفحہ
سطر
کلیات مکاتیب اقبال جلد اول
صفحہ
سطر
عکس خط
1
152
7
کے رستے کشمیر جائیں
154
7
کے رستے جائیں
2
152
11
میری آرزو
154
11
مری آرزو
3
152
14
کریگی
154
13, 14
کرے گی
4
243
5
ہے کہ
244
4
ہے
5
254
3
کیلئے
257
6
کے لئے
6
254
11
میرے
287
2
مرے
7
255
7
خواجہ نظامی صاحب
259
2
خواجہ نظامی
8
255
14
عرض کر رہا ہوں
259
9
عرض کرتا ہوں
9
256
2
سرکار والا مہاراجہ
262
2
سرکار والا تبار
10
260
5
ایک وجہ
263
1
وجہ ایک
11
260
5
سات آٹھ سو روپے ماہوار
263
2
سات آٹھ سو روپیہ ماہوار
12
260
14
حیرتناک
263
12
حیرت ناک
13
267
13
میں اس وقت
269
9
اس وقت میں
14
272
8
محمد
275
5
محمد ؐ
15
279
8
پنجاب میں آپ کی
284
14
پنجاب میں اب آپ کی
16
279
11
لکھے یا نہ لکھے
285
1
لکھے نہ لکھے
17
287
3
گیا ہے
288
3
گیا
18
301
4
الحمد للہ آپ کا
303
7
الحمد للہ کہ آپ کا
19
301
4
افرغ ہو
303
8
فارغ
20
302
2
سرکار والا تبار
307
2
سرکار والا
21
318
3
بخیر ہوں
319
4
بخیر ہو
22
353
1
1915ء
358
1
15ء
23
375
2
ہے۔ پنجاب
377
1
ہے مگر پنجاب
24
378
7
1915ء
379
7
15ء
25
382
2
چاہتے
385
1
چاہتے ہیں آہ!
26
383
8
کے ساتھ
386
5
کے ساتھ ہو
27
389
3
الحمد للہ سرکار
391
5
الحمد للہ کہ سرکار
28
389
5
افسوس ہے کہ
391
5
افسوس کہ
29
390
2
پڑھتا ہوں
393
5
پڑھ رہا ہوں
30
379
5
کبھی اجلاس میں
398
4
کبھی کسی اجلاس میں
31
397
7
مفید آدمی
398
6
مفید تر آدمی
32
401
9
میں اسی
407
9
میں بھی اسی
33
405
4
تحریر کیا ہے
408
3
تحریر کیا
34
405
5
کیے ہیں
408
4
کیے
35
405
6
وہ سینہ بہ سینہ
408
5
وہ رسالہ سینہ بہ سینہ
36
405
12
گرمی سخت
408
11
گرمی رخصت
37
406
9
رکھ کر
410
8
رکھ کے
38
411
14
میرے
413
11
مرے
39
440
3
کتاب میرے
441
3
کتاب پہلے سے مرے
40
463
10
میں تو ایک عرصے سے
464
11
میں تو عرصے سے
41
466
1
4فروری
467
1
4فروری16ء
42
485
10
ہے سرکار تک
488
12
ہے کہ سرکار تک
43
485
12
سے معلوم
489
14
سے یہ معلوم
44
485
16
اس
489
14
سے یہ معلوم
45
486
14
اس کو اسی وقت
490
12
اسی کو اس وقت
46
486
13
ہے خداے واحد
293
12
ہے اس خدائے واحد
47
496
4
بیشتر اور مشرق
498
2, 3
بیشتر اقوام مشرق
48
505
2
میں سمجھتا
507
9
میں اسے سمجھتا
49
505
7
ہے تو
508
6
ہے
50
515
8, 9
تاریخ اور آثار
516
9
تاریخ و آثار
51
538
3, 4
دے آپ
539
9
دے اور آپ
52
577
11
امید ہے کہ
580
2
امید کہ
53
593
20
محمد ؐ اقبال
595
8
محمد ؐ اقبال لاہور
54
605
6
کب قصد ہے
606
6
کب تک قصد ہے
56
607
17
محمدؐ اقبال
609
4
محمد ؐ اقبال لاہور
57
617
15
میرے پاس
621
8
مرے ہاں
58
617
16
خدمت میں رہا
621
8, 9
خدمت میں حاضر رہا
89
624
1
گا۔ آپ نے
623
11
گا۔ کیا آپ نے
60
633
7
مگر
634
7
لیکن
61
635
10
1917ء
638
1
17ء
62
637
1
سے فائدہ
639
8
سے یہ فائدہ
63
644
20
کے لئے جو
646
6
کے متعلق جو
64
681
2
ڈیر مولانا گرامی السلام علیکم
683
2
ڈیر مولنا گرامی
65
681
7
کر کے لکھیں کہ
683
7
کر کے کہ
66
681
11
شدید
683
12
شاید
67
695
4
الفت رسائل
696
5
الفت رسل و رسائل
68
705
13
تھا اور میں
706
12
تھا افسوس
69
717
کے یہاں
720
4
کے ہاں
70
743
8
ضروری
746
4
ضرور
71
751
5
سے زیادہ
754
1
سے بھی زیادہ
72
759
6
دشت در
758
4
دشت و در
73
776
11
کشائش کی دل
780, 781
13
کشایش کی کہ دل
74
789
10
اغراض کے لیے یہ
791
4
اغراض کے لحاظ لحاظ
مندرجہ بالا گوشوارے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں، کہ نقل متن میں جس غایت درجہ کی دقت نظر اور کدو کاوش درکار تھی، اس کا خیال نہیں رکھا گیا۔ عکسی نقول اسی وقت سود مند ثابت ہوتی ہیں، جب ان کا متن صحیح نقل کیا جائے۔ مقدمے میں مرتب نے دعویٰ کیا ہے کہ تمام خطوط میں ایک ہی املا ملتا ہے، تاکہ الجھن نہ ہو، مگر عکسی نقول کے جائزے سے ہمیں متعدد مقامات پہ دو طرح کا املا ملتا ہے، مثلاً: کریگی (کرے گی) کیلئے (کے لئے)، سیالکوٹ (سیال کوٹ)، دئیے (دیے) وغیرہ۔ نیز اس امر سے ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ علامہ اقبال اپنے نام کے جزو ’’ محمد‘‘ پر علامت ’’ ؐ ‘‘ خصوصیت سے بناتے ہیں، یہی نہیں بلکہ جہاں کہیں بھی ’’ محمد ‘‘ یا ’’ محمدیہ‘‘ کے الفاظ آتے ہیں، علامہ ان پہ بہ اہتمام علامت’’ ؐ‘‘ بناتے ہیں، لیکن خطوط کے عکوس کے جائزے سے اس امر کی بھی نشان دہی ہوتی ہے کہ نقل متن میں سوائے چند خطوط کے باقی تقریباً تمام خطوط میں اس کا خیال نہیں رکھا گیا، مثلاً: صفحات 272, 298, 349, 353, 360, 368, 435, 463, 466, 469, 478, 492, 520, 529, 545, 577, 759, 767, 783, 793۔
مقدمے میں مرتب نے لکھا ہے کہ علامہ خط لکھتے وقت تاریخ کبھی خط کے آغاز میں لکھتے ہیں اور کبھی آخر میں کبھی تاریخ مع ماہ و سال پوری لکھتے ہیں اور کبھی 29جون لکھ دیتے ہیں، کبھی سنہ کے اوپر پورے اعداد ہوں گے اور کہیں صرف07ء لکھ دیں گے۔ مرتب نے لکھا ہے کہ ہم نے اس کا التزام صرف ان خطوط میں کیا ہے، جن کی اصلی یا عکسی نقلیں ہم نے دیکھی ہیں جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ علامہ تاریخ خط کے آغاز میں لکھتے ہیں، یا آخر میں، مرتب نے عکس کے مطابق اس کو ملحوظ رکھا ہے، مگر انہوں نے اس اصول کی نفی ایک دو مقامات پہ کی ہے کہ 29جون وغیرہ کے ساتھ سنہ کو حذف کر دیا ہے، مزید یہ کہ 07ء وغیرہ کو 1907ء بنا دیا گیا، حالانکہ عکس میں اس کا التزام نہیں کیا گیا۔ مرتب نے ایک مقام (ص466) پہ صرف4فروری لکھا ہے، مگر عکس (ص467) میں4 فروری 16ء موجود ہے، اسی طرح دو مقامات پہ 15ء کو 1915ء سے بدل دیا ہے۔
عکوس میں علامہ نے بالتزام علامت ’’ سنہ‘‘ کو ملحوظ رکھا ہے، مگر مرتب نے سوائے چند خطوط کے بیشتر خطوط میں اس علامت کو حذف کر دیا ہے، مثلاً: صفحات 152, 253, 271, 278, 288, 293, 294, 298, 302, 306, 312, 313, 318, 320, 323, 331, 366, 372, 381, 389, 400, 401, 406, 411, 422, 425, 431, 438, 440, 442, 457, 485, 500, 502, 515, 518, 545, 560, 565, 576, 591, 596, 207, 624, 627, 633, 640, 642, 644, 679, 652, 662, 668, 684, 705, 708, 738, 741, 756, 767۔
علاوہ ازیں متن خطوط میں کئی مقامات پہ عکسی نقول کے برعکس نئے پیراگراف بنا دیے گئے ہیں، یا پھر جہاں عکس کے مطابق پیراگراف بنانا چاہئے تھا، وہاں اس کا خیال نہیں رکھا گیا، مثلاً: صفحات349, 364, 375, 411, 752, 792, 793۔
مندرجہ بالا تحریفات و محذوفات کی وضاحت، مرتب نے کہیں بھی نہیں کی۔
’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ میں جن مجموعہ ہائے مکاتیب سے خطوط اخذ کئے گئے ہیں ان کے آخر میں ماخذ کی نشان دہی کر دی گئی ہے، یہ نشان دہی تشنہ ہے کیونکہ ماخذ کے ساتھ صفحات نمبر درج نہیں کئے گئے۔ علاوہ ازیں خط اگر ’’ اقبالنامہ‘‘ سے لیا گیا ہے، تو قوسین میں محض’’ اقبالنامہ‘‘ کے الفاظ لکھے گئے ہیں، اس سے یہ وضاحت نہیں ہوتی کہ خط’’ اقبالنامہ‘‘ حصہ اول سے لیا گیا ہے، یا حصہ دوم سے۔ سب سے بڑا نقص اس ضمن میں یہ نظر آتا ہے کہ مختلف مجموعہ ہائے مکاتیب سے خطوط نقل کرتے وقت، کامل احتیاط سے کام نہیں لیا گیا، نتیجتہً متن میں بہت سے تصرفات راہ پا گئے ہیں۔ مرتب نے بعض مقامات پہ تو ان تصرفات کی وضاحت کی ہے، مگر بیشتر مقامات پہ ہمیں یہ التزام نظر نہیں آتا۔ ہم نے چند خطوط کے متن کا موازنہ ’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ کے متن سے کیا ہے، ذیل میں ایک مختصر سا جائزہ پیش کیا جاتا ہے:
نمبر شمار
صفحہ
سطر
اقبالنامہ حصہ اول
صفحہ
سطر
کلیات مکاتیب اقبال جلد اول
1
9
11
پوچھتے ہیں خط
76
7
پوچھتے ہیں کہ خط
2
11
4
امیر و داغ
86
3
امیر اور داغ
3
11
7
دو حروف
86
6
دو حرف
4
11
9
میں بیٹھے
86
7
میں بیٹھے بیٹھے
5
73
8
ہو تو میں
239
7
ہو تو
اقبالنامہ، حصہ دوم
6
353
1
دہلی ملوں
84
5
دہلی میں ملوں
7
361
11
کیجئے
160
5
کیجے
8
362
4
ہوتا تو میں ابھی
160
11
ہوتا تو ابھی
9
36
12
مگر میں ان
228
7
مگر ان
10
39
9, 10
پیر مشرقی
234
3
پیر مشرق
خطوط اقبال
11
67
12
تکلیف ہوتی ہو گی
77
4
تکلیف ہوئی ہو گی
12
68
4
ریجنٹ کوئٹہ
78
8
ایجنٹ کوئٹہ
13
68
6
کرسکا اس کی
78
10
کر سکا کہ اس کی
14
71
6
واقعی خوب
93
15
واقعی میں خوب
15
91
5
سر ولیم میور کی تصانیف
106
6
سر ولیم میور تصانیف
16
73
3
پیشہ ہی
151
11
پیشہ میں
یہ محض چند خطوط کے متن کا موازنہ ہے، اگر تمام خطوط کے متون کا موازنہ کیا جائے، تو تحریفات و ترامیم کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ جائے۔ نقل متن میں یہ تساہل لائق تحسین امر نہیں ہے، کیونکہ مرتب نے خود ہی مقدمے میں لکھا ہے:’’ متن میں اگر ایک لفظ بھی بدل جائے تو جملہ کا مفہوم ہی خبط ہو جاتا ہے۔‘‘ 75؎ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ میں جا بہ جا تصرفات کئے گئے ہیں، ان تصرفات سے نہ صرف یہ کہ جملہ کا مفہوم خبط ہو گیا ہے، بلکہ صحت متن کے متعلق بھی شبہ پیدا ہو گیا ہے۔ مرتب نے مقدمے میں وضاحت کی ہے کہ انہوں نے تمام خطوط میں ایک ہی املا رکھا ہے، اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں:
’’ اردو کا کوئی معیاری املا نہیں ہے، پھر بھی صحت سے وہ املا زیادہ قریب ہے، جس کے رہنما اصول انجمن ترقی اردو ہند نے تیار کیے تھے۔‘‘76؎
مگر مرتب نے جن اصولوں کو رہنما بنایا ہے، انہیں تمام خطوط میں ملحوظ نہیں رکھا۔ متون خطوط میں ہمیں دو طرح کا املا ملتا ہے، کئی الفاظ جنہیں الگ الگ لکھنا چاہئے،ا نہیں اکٹھا لکھا گیا ہے، جو الفاظ دو چشمی (ھ) سے لکھنے چاہیں، وہ ہاے محتفی سے لکھے ہیں، مثلاً کیلئے، کرونگا انہیں وغیرہ۔ اسی طرح ایک ہی لفظ کا دو طرح کا املا استعمال کیا ہے۔ مثلا مولانا۔۔۔ مولینا، دیجئے ۔۔۔ دیجئے، سیال کوٹ۔۔۔۔ سیالکوٹ، فرمائیے۔۔۔۔ فرمایے، قائم ۔۔۔۔۔قایم، فرمائش۔۔۔۔ فرمایش، دئیے۔۔۔۔ دیے، شکرئیے۔۔۔۔۔۔شکریے، گذرے۔۔۔۔۔گزرے۔۔۔۔ اسی طرح ’’ خاصا‘‘ اور’’ مہاراجا‘‘ کے الفاظ کو متعدد مقامات پہ ’’ خاصہ‘‘ اور’’ مہاراجہ‘‘ لکھا ہے،گویا مرتب نے مقدمے میں جن اصولوں پر کاربند رہنے کی نشان دہی کی ہے خود ہی ان کی نفی بھی کر دی ہے۔۔۔ صابر کلوروی صاحب نے بھی اپنے ایک مضمون میں اغلاط متن کی نشان دہی کی ہے۔77؎
مقدمے میں مرتب نے اقبال کے خطوط کے مجموعوں کا تعارف کراتے ہوئے ’’ اقبال۔۔۔ جہان دیگر‘‘ کے ضمن میں لکھا ہے کہ اس میں راغب حسن (احسن) کے نام اردو انگریزی زبانوں میں لکھے ہوئے چوالیس (44) خطوط ہیں، خطوط کی صحیح تعداد44 کے بجائے اکیالیس (41) ہے، کیونکہ دو خطوط کے مکتوب الیہم مختلف ہیں، اور ایک خط کا مکتوب الیہ گم نام ہے، مگر مرتب نے اس ضمن میں بغیر تحقیق کے، اس مجموعہ مکاتیب کے دیباچہ نگار (محمد علی صدیقی، ص14تا21) کی غلطی کو دہرا دیا ہے، جنہوں نے راغب احسن کے نام خطوط کی تعداد چوالیس (44) بتائی ہے۔
’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ میں ہمیں کتابت اور ٹائپ کی اغلاط بھی نظر آ جاتی ہیں۔مثلاً
نمبر شمار
صفحہ
سطر
غلط
صحیح
1
20
5
194
294
2
32
4
تفصبل
تفصیل
3
52
6
اشاریہ مکاتیب بنال
اشاریہ مکاتیب اقبال
4
55
19
چارلس لیمپ
چارلس لیمب
5
99
14
ینگ ٹرک پاٹی
ینگ ٹرک پارٹی
6
100
21
دی ٹی اسٹیشن
ٹی وی اسٹیشن
7
110
5
نمام
تمام
8
126
1
مائر ڈئیر
مائی ڈئیر
9
160
17
پرلشان
پریشان
10
390
2
غرض کروں
عرض کروں
11
390
4
ہجران
ہجراں
12
390
5
درمان
درماں
13
485
4
حلد
جلد
14
627
12
عرش برین
عرش بریں
15
797
6
لاہور
لاہور
16
1012
8
تلمیحات اقبال
تلمیحات اقبال
17
1117
9
جسن
جس
’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ میں ان اغلاط کے علاوہ بعض دیگر اغلاط بھی کھٹکتی ہیں، مثلاً:
1خطوط پر نمبر شمار درج نہیں کئے گئے۔
2دو خطوط i ص 235، ii ص476 کے آخر میں ’’ عکس‘‘ کے الفاظ لکھے گئے ہیں، مگر ان خطوط کے عکوس شامل نہیں کئے گئے، علاوہ ازیں مرتب نے عکوس کی تعداد133بتائی ہے جبکہ کل عکس140بنتے ہیں۔
3 متون خطوط کے آخر میں حواشی شامل کے گئے ہیں، جو حواشی مرتب کی ذاتی معلومات پہ مبنی ہیں، ان کی وضاحت کر دی گئی ہے، اگر حواشی کہیں سے اخذ کئے گئے ہیں، تو اس کا حوالہ بھی دے دیا گیا، مگر اس میں ہمیں ایک تو یہ بات کھٹکتی ہے کہ جس کتاب کو ماخذ بنایا گیا ہے، اور جس صفحے سے وہ حواشی نقل کئے گئے ہیں، اس کے صفحہ نمبر کی نشاندہی نہیں کی گئی، سوائے چند ماخذ کے دوسری بات یہ کہ بعض جگہ یا تو ماخذ کی تفصیل مکمل طور پہ نہیں دی، یا پھر ماخذ کا حوالہ ہی نہیں دیا گیا، مثلاً ص:915 پہ ماخذ نامکمل ہیں، اور صفحات115،1133پہ ماخذ کی تفصیل درج نہیں ہے۔
4صفحات751, 792کے بین السطور علامت بنائی گئی، مگر حاشیہ نہیں دیا گیا۔
’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ جلد اول، پر تبصرہ کرتے ہوئے خلیق انجم اسے ’’ معیاری‘‘ اور’’بنیادی کام‘‘ قرار دیتے ہیں لکھتے ہیں:
’’ برنی صاحب نے یہ خطوط انتہائی سائنٹیفک انداز میں مرتب کیے ہیں۔ متنی تنقید کے تمام جدید اصول و ضوابط کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ متن درست ترین ہو۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ کلیات مکاتیب اقبال، علامہ کے خطوط کے تمام مجموعوں سے زیادہ بہتر اور سائنٹفک ہے۔ اقبالیات میں اہم ترین اضافہ ہے۔‘‘ 78؎
تبصرہ نگار کے نزدیک ’’ کلیات‘‘ کا کام ’’ سائنٹفک‘‘ ہے، اور علامہ کے خطوط کے ’’ تمام مجموعوں سے زیادہ بہتر‘‘ ہے۔ مندرجہ بالا اغلاط، تبصرہ نگار کے اس دعوے کو غلط ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ مرتب نے بلا شبہ سائنٹفک اصولوں کو مدنظر رکھا ہے، مگر ان اصولوں کی جا بہ جا نفی کی ہے۔ متن میں سینکڑوں اغلاط ہیں، کتابت اور ٹائپ کی اغلاط بہ کثرت ہیں۔ حواشی کے ماخذ کا حوالہ کہیں دیا ہے، کہیں چھوڑ دیا ہے، اس طرح تبصرہ نگا رکا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ انہوں (سید مظفر حسین برنی) نے جن لوگوں سے استفادہ کیا ہے، اس کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ اصل میں اقبال کے مکاتیب کی تدوین نو کا کام نہایت توجہ، محنت، صلاحیت اور باہمی صلاح و مشورے کا طالب ہے۔ محض چند اصول وضع کر دینے اور بہ عجلت ’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ کو چھاپ دینا، کسی طرح سے بھی ’’ معیاری‘‘ اور’’ بنیادی‘‘ کام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تبصرہ نگار کا کہنا ہے کہ اقبال پر زیادہ معیاری اور سائنٹفک کام، پاکستان کی نسبت ہندوستان میں ہو رہا ہے ۔ حقیقت یہ نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں بھی اقبال پر نہایت عمدہ اور معیاری کام ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ اس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ مرتب نے حواشی کی ذیل میں جگہ جگہ پاکستانی محققین اور نقادوں کے تحقیقی کام سے استفادہ کیا ہے، حتیٰ کہ کلیات کی ترتیب و تدوین کے جو اصول وضع کئے گئے ہیں، وہ بھی معمولی ترامیم کے ساتھ پاکستانی محقق اور نقاد (ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب) کے تحقیقی و تنقیدی مقالے (تصانیف اقبال کا تحقیق و توضیحی مطالعہ) سے اخذ کئے گئے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ مرتب سے یہ اصول پوری طرح نبھ نہ سکے۔ گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ کو از سر نو بہتر، معیاری اور مستند متن اور حواشی کے ساتھ چھاپنے کی ضرورت ہے، اور اس کی ترتیب و تدوین میں ان اصولوں کو خاص طور سے مدنظر رکھا جائے، جو ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب نے وضع کیے ہیں، مثلاً:
’’ سب سے پہلے تو اردو، انگریزی، فارسی، جرمن اور عربی خطوط کو الگ کر دیا جائے، پھر باعتبار نوعیت ان کی تقسیم اس کی طرح کی جائے:
اول: وہ خطوط جن کے اصل یا عکس دستیاب ہیں۔
دوم: وہ خطوط جن کا متن مستند اور باوثوق حوالوں کے ذریعے دستیاب ہوا ہو۔
سوم: وہ خطوط جن کے ایک سے زائد متن دستیاب ہوں۔
چہارم: نا مکمل اور جزوی خطوط، جن کا پورا متن موجود نہیں۔‘‘ 79؎
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے ان چاروں اصولوں کی نہایت عمدہ اور جامع انداز میں وضاحت کی ہے، اگر ان اصولوں کو بھی پیش نظر رکھا جاتا، تو مرتب (سید مظفر حسین برنی) کے اس کام کو ہم یقینا ’’ معیاری‘‘ اور’’ سائنٹیفک‘‘ کہہ سکتے تھے۔ آخر میں ہم بہ قول ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی یہ کہہ سکتے ہیں:
’’ مکاتیب اقبال عمیق تر تحقیق و مطالعے کے بعد، از سر نو تدوین و ترتیب کے متقاضی ہیں۔ یہ کام جس قدر اہم ہے اسی لحاظ سے محنت و صلاحیت اور وسائل و ذرائع چاہتا ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کے الفاظ میں مکاتیب اقبال کی تدوین نو اقبالیاتی اداروں کا کام ہے، کیونکہ ان کے پاس ریکارڈ بھی ہے اور طباعت و اشاعت کی سہولتیں اور معقول گرانٹیں بھی بایں ہمہ اقبال کے محقق و نقاد اپنی انفرادی حیثیت میں بھی اس ذمہ داری سے کلیتاً بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ ‘‘ 80؎
پروفیسر صابر کلوروی صاحب نے ’’ کلیات مکاتیب اقبال جلد اول‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے مختلف تصرفات اور اغلاط کی تصحیح کے لئے ٹھوس ثبوت فراہم کئے ہیں۔۔۔ آخر میں وہ کلیات مکاتیب کو تمام ممکنہ اغلاط سے پاک رکھنے کے لئے درج ذیل تجاویز پیش کرتے ہیں:
1 مکاتیب کے عکس اس طرح شائع کئے جائیں کہ یہ کم سے کم جگہ گھیریں ہر ممکن کوش کی جائے کہ اصل خط اور عکس آمنے سامنے آ سکیں۔
2حواشی کا قلم، عام متن کی نسبت خفی ہونا چاہئے اس مواد کی (Pasting) کچھ اس طرح کی جائے کہ یہ کم جگہ لے۔
3مکتوب الیہم اور متن کے اندر بعض امور کے حواشی کے ضمن میں مناسب تقابلی اشارے (Cross References) دینے چاہئے۔
4 سنین اور متن کی درستی کا ہر ممکن خیال کیاجائے اور زیادہ سے زیادہ خطوط کی عکسی نقول فراہم کی جائیں۔
5 کتاب کی پروف ریڈنگ اور اشاریہ سازی کا معاملہ زیادہ توجہ طلب ہے۔ اسے سرسری نہ لیا جائے۔
6 اس امر کا امکان ہے کہ اقبال کی بعض تقاریظ بھی خطوط شمار کر لی جائیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ دیباچے میں ’’ خط‘‘ کی مناسب تعریف کی جائے اور اس کی حدود واضح کی جائیں تاکہ دیگر نوع کی تحریروں سے انہیں ممیز کیا جا سکے۔ 81؎
کلیات مکاتیب اقبال جلد اول (طبع دوم):
مذکورہ کلیات کا دوسرا ایڈیشن 1991ء میں شائع ہوا۔ امید تھی کہ طبع دوم میں طبع اول کی اغلاط کی تصحیح کر دی جائے گی لیکن افسوس کہ اغلاط جوں کی توں دوہرا دی گئی ہیں۔۔۔ مذکورہ ایڈیشن کے دیباچے میں بعض جگہ پہ تبدیلی کی گئی ہے۔ فلیپ پر اقبال شناسوں مثلاً ڈاکٹر مختار الدین احمد، محمد ظہیر الدین احمد، ڈاکٹر صابر کلوروی، ڈاکٹر انور سدید اور ڈاکٹر وحید عشرت وغیرہ کی آرا درج ہیں۔۔۔ اس ایڈیشن میں ضمیمہ کے طور پر پندرہ سولہ صفحات کا اضافہ کیا گیا ہے، اس میں1918ء تک کے عرصہ کے درج ذیل خطوط کا اضافہ کیا گیا ہے۔
1 خط بنام سر ولیم روتھین اسٹائن 18 دسمبر1902ء ماخذ قومی زبان جنوری 1991ء
2 خواجہ غلام الحسنین 1904ء Education کتاب، مصنف مذکور۔
3 شعیب قریشی8نومبر1918ء ہماری زبان8نومبر1989ء
4 محمد عبداللہ العمادی10اکتوبر1918ء (غیر مطبوعہ، عکسی)
آخر الذکر دونوں خطوط کے عکس بھی شامل کتاب کئے گئے ہیں ایک اور خط کا عکس بھی مرتب کو بعد میں دستیاب ہوا ہے جو شامل کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں سر ولیم روتھین اسٹائن، خلیفہ عبدالحکیم اور گولزیر اگنائس پر بھی وضاحتی نوٹ بطور حواشی کتاب میں اضافہ کیا گیا ہے۔
مذکورہ کلیات کے پہلے ایڈیشن کے جائزے میں ہم نے جن اغلاط کی نشان دہی کی ہے، دوسرے ایڈیشن میں اگر ان کی تصحیح کر دی جاتی تو یقینا اس کی افادیت و اہمیت کو چار چاند لگ جاتے۔۔۔۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
’’ کلیات مکاتیب اقبال کی تدوین نہایت اہم کام ہے۔۔ زیر نظر کلیات دیکھ کر انداز ہوتا ہے کہ اس نوعیت کے کام کے لئے محض وسائل کافی نہیں، بلکہ اس کے لئے وہ تحقیقی ذوق اور نظر مطلوب ہے، جو ایک طویل مشق اور موضوع پر کچھ وقت کام کرنے ہی سے پیدا ہوتی ہے۔۔۔۔ چنانچہ زیر نظر کلیات کو دیکھ کر قدرے مایوسی، قدرتی بات ہے۔‘‘ 82؎
کلیات مکاتیب اقبال۔۔۔۔ جلد دوم:
اردو اکادمی دہلی نے علامہ اقبال کے مکاتیب پانچ جلدوں میں چھاپنے کا جو پروگرام مرتب کیا ہے، اس کے تحت پہلی اور دوسری جلد منظر عام پر آ گئی ہے۔ پہلی جلد میں1899ء سے 1918ء تک کے خطوط شامل ہیں اور دوسری جلد میں1919ء سے 1928ء تک کے خطوط شامل کئے گئے ہیں۔ اس مدت کا تعین بہ قول سید مظفر حسین برنی ’’ اس مدت کا تعین اس لحاظ سے کیا گیا کہ 1928ء میں علامہ نے فکر اسلامی کی تشکیل جدید کے موضوع پر اپنے مشہور زمانہ خطبات لکھے تھے اور ان خطبات کے مباحث پر اس عہد کے علماء سے خط و کتابت کرتے رہے تھے۔‘‘ (ص:30)
خطبات کے علاوہ یہ دور (1919ء تا 1928ئ) علامہ کی نجی، علمی، ادبی اور سیاسی زندگی میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ برصغیر کی سیاسی تاریخ میں بھی یہ دور کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ علامہ کے خطوط میں اس سیاسی صورت حال پہ کافی مواد مل جاتا ہے۔۔۔۔’’ پیام مشرق‘‘ ’’ بانگ درا‘‘ زبور عجم اور خطبات اسی دور میں منظر عام پر آئے گویا علمی و ادبی لحاظ سے علامہ کی زندگی میں یہ دور خاصا زرخیز رہا۔
زیر نظر کلیات 1991ء میں شائع ہوئی اور اسے بھی سید مظفر حسین برنی نے مرتب کیا ہے۔ مرتب نے اس جلد میں خطوط کی کل تعداد چار سو اکتیس بتائی ہے۔ جبکہ کل تعداد چار سو تیس ہے۔ ایک خط ضمیمے میں شامل ہے جو علامہ نے کیپٹن منظور حسن کے نام لکھا تھا (ص:1118) ضمیمے میں شامل خط پہ نمبر شمار نہیں ہے، تاہم فہرست کے مطابق اس کا نمبر430بنتا ہے اور یوں کل خطوط چار سو تیس ہوئے۔۔۔۔ ایک سو دس خطوط کے عکس دیے گئے ہیں مگر مرتب نے عکوس کی تعداد ایک سو بارہ بتائی ہے دراصل فہرست میں ایک سو بارہ عکوس کا ہی حوالہ دیا گیا ہے مگر ص:372 اور ص:425 پر لفظ عکس لکھا گیا ہے تاہم عکس نہیں دیا گیا۔ یوں عکوس کی کل تعداد ایک سو دس ہوئی۔ انگریزی خطوط کی تعداد بھی تینتیس (33) کے بجائے چھتیس (36) ہے فہرست میں بعض انگریزی خطوط کے ساتھ لفظ’’ انگریزی‘‘ نہیں لکھا جس سے صحیح تعداد متعین نہ ہو سکی، مثلاً: خط بنام مہاتما گاندھی، ص216، خط بنام سردار ایم بی احمد ص:386، خط بنام دینا ناتھ، ص:523، خط بنام مرزا محمد سعید، ص:651، خط بنام حمید احمد انصاری، ص:710, 712 فہرست میں ان خطوط کے ساتھ لفظ انگریزی درج نہیں کیاگیا، اس لئے تعداد کا صحیح تعین نہ کیا جا سکا۔
زیر نظر کلیات 1224صفحات پر محیط ہے۔ فہرست مندرجات ص7سے ص26تک محیط ہے۔ ’’ حرف آغاز‘‘ شیکرٹری سید اشتیاق عابدی ک اتحریر کیا ہوا ہے، جو ص27تا28پہ درج ہے۔ مقدمہ از سید مظفر حسین برنی ص:29تا42پہ ہے۔ مقدمے میں مرتب نے اس دور کے مکاتیب کے حوالے سے علامہ کی علمی و ادبی اور سیاسی زندگی پہ روشنی ڈالی ہے۔۔۔۔ مکاتیب اقبال ص:43 سے 712 تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ایک خط ضمیمے میں ہے، ص:118
فہرست حواشی ص713تا721 اور متن حواشی ص:722تا1096ہے۔ فہرست تعلیقات ص:1097پر ہے اور متن تعلیقات ص:1908سے 1117 تک ہے۔ ص:1119 سے 1126 تک کتابیات محیط ہیں۔۔۔ اشاریہ ان عنوانات کے تحت مرتب کیا گیا ہے ـ:1اشخاص، 2 مقامات، 3کتابیں، رسائل، 4 ادارے، تنظیمیں۔۔۔۔ انگریزی کتابیات ص: 1223 تا 1224 پر ہیں۔ کلیات کی قیمت280/روپے ہے۔ جو ضخامت کے لحاظ سے بالکل مناسب ہے۔
نقل متن کا معاملہ بظاہر آسان بہ باطن نہایت جگر کاوی کا طالب ہوتا ہے اور کام کے پھیلاؤ کی صورت میں اس کی اہمیت چوگنی ہو جاتی ہے۔۔۔۔ کلیات مکاتیب اقبال کا جب ہم عمیق نظری سے جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں متن کے ذیل میں کچھ تصرفات، اصلاحات اور اغلاط نظر آتی ہیں۔۔۔ بعض خطوط کا متن عکس کے مطابق نقل نہیں کیا گیا۔۔۔۔۔ ذیل میں ہم زیر نظر کلیات کے چند خطوط کا موازنہ پیش کر رہے ہیں، جس سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مرتب نے صحت متن کا کس حد تک خیال رکھا ہے:
نمبر شمار
صفحہ
سطر
کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم
صفحہ
سطر
مظلوم اقبال
1
82
1
الحمد للہ کہ
249
1
الحمد للہ۔۔۔
2
82
9
قائم۔۔۔۔
249
9
قائم ہیں۔۔۔
3
90
3
متعلق لکھ۔۔۔
253
17
متعلق پہلے لکھ۔۔۔
4
98
4
سے امتحان۔۔۔
254
14
سے اعجاز امتحان۔۔۔
5
105
12
اس لئے اس پر۔۔۔
265
4
اس پر۔۔۔
6
109
20
پیٹی۔۔۔
269
20
بلٹی
7
119
13
تین سو زائد۔۔۔
276
18
تین سو سے زائد۔۔۔
8
135
15
ریز رو
279
9
ریز روڈ
9
135
279
12 تا 15
کرایہ زیادہ نہ دینا پڑے گا ، جس قدر ٹکٹ ہوں گے انہیں کا کرایہ دینا ہو گا۔ دو ٹکٹ تمہاری بیبیوں کے ہوں گے تم بھی ان کے ساتھ بیٹھ جانا اور اگر کوئی لیڈی آ گئی تو تم کو مردوں کے کمرے میں بیٹھنا ہو گا۔ داری کا ٹکٹ تیسرے درجے کا ہو گا۔ بورڈ گاڑی پر لگوا لینا۔
10
157
14
دینی علوم۔۔
282
3
علوم دینی ہی۔۔۔
11
176
2
وہ گم نام۔۔۔
290
18
وہ خط گمنام۔۔۔
12
176
5
اس کی عمر قریب۔۔۔
290
20
اس کی عمر قریباً۔۔۔
13
181
6
کے مشہور۔۔۔
292
19
کے ایک مشہور۔۔۔
14
182
10
اس دنیا۔۔۔
293
23
اس بد نصیب دنیا۔۔۔
15
185
2
آج خوب۔۔۔
295
11
آج صبح خوب۔۔۔
16
210
16
لکھے یہ۔۔۔
297
3
لکھے اگر یہ۔۔۔
17
222
6
انجمن کے۔۔۔
297
19
انجمن کی۔۔۔
18
222
7
بھی کالج۔۔۔
297
20
بھی ہو کالج۔۔
19
316
5
واقف کار ہیں۔۔۔
317
20
واقف ہیں
20
316
14
گاہے گاہے
318
9
گاہے ماہے۔۔۔
21
392
11
مسلمان ایشیا
341
11
مسلمانان ایشیا۔۔
22
556
1
لاہور، 22 اکتوبر 24ء
351
18
لدھیانہ، 22اکتوبر 24ء
درج بالا گوشوارہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حرمت متن پر زیادہ دھیان نہیں دیا گیا۔ متن میں اختلاف ہمیں دیگر مجموعہ ہائے مکاتیب کے موازنے سے بھی معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔ ذیل میں ہم کلیات مکاتیب اقبال کا موازنہ، مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خان، انوار اقبال، خطوط اقبال، اقبال نامہ اور مکاتیب اقبال بنام گرامی سے کرتے ہیں، تاکہ صحیح متن کی نشان دہی ہو سکے۔
نمبر شمار
صفحہ
سطر
کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم
صفحہ
سطر
مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خان، طبع دوم
1
97
7
نہ۔۔۔
39
7
نہیں۔۔۔
2
123
17
کے رنگ۔۔۔
41
11
کے رنگوں۔۔۔
3
142
5
عزیز جنگ۔۔۔۔
41
20
نواب عزیز جنگ۔۔۔
4
143
4
ہے کمال شاعری۔۔۔
42
9
ہے وہ کمال شاعری۔۔۔
5
145
4
نہایت موزوں
43
3
نہایت ہی موزوں
6
161
16
امید کہ مزاج۔۔۔
42
1
امید کہ آپ کا مزاج۔۔۔
7
164
1
یہ معلوم ہوا۔۔۔
46
8
یہ نہ معلوم ہوا۔۔۔۔
8
164
2
کے طور پر۔۔۔
46
9
کے طرز پر۔۔۔
9
169
16
ایوان عوام۔۔۔
47
4
ایوان عام۔۔۔
10
174
2
نوازش نامہ ملا۔۔۔
48
18
نوازش نامہ ابھی ملا۔۔۔
11
174
4
عنقریب آنے۔۔۔
48
19
عنقریب لاہور آنے۔۔۔
12
174
5
ہم دست روانہ۔۔۔
48
20
ہمدست ارسال
13
179
4
ایک قصیدہ۔۔۔
51
1
ایک فارسی قصیدہ۔۔۔
14
180
5
بھی قیاس۔۔۔
52
5
بھی یہی قیاس۔۔۔
15
184
2
سے آتے۔۔۔
53
13
سے واپس آتے۔۔۔
16
209
6
گئی اور۔۔۔
54
15
گئی ہے اور۔۔۔
17
209
7
میں اراکین انجمن۔۔۔
54
16
میں بھی اراکین انجمن
18
210
3
بالکل غلط ہے اس خیال سے کہ۔۔۔
55
6
بالکل غلط ہے۔ میرے ساتھ ان کی کوئی گفتگو اس بارے میں نہیں ہوئی واقعات کی رو سے یہ بات بالکل غلط ہے اس خیال سے کہ۔۔۔۔
19
258
6
بابری بہترین کتاب
57
19
تزک بابری بہترین کتاب
نمبر شمار
صفحہ
سطر
کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم
صفحہ
سطر
مکاتیب اقبال بنام گرامی، طبع دوم 1981ء
1
185
11
خزانہ ملت۔۔۔
162
17
خزانہ مدت۔۔۔
2
185
13
وقت کا لازوال
162
19
وقت کا ایک لازوال۔۔۔
3
193
4
اس لئے۔۔۔
164
2
اس واسطے۔۔۔۔
4
193
19
نہ تخت۔۔۔
164
17
بہ تخت
5
195
2
اس امر کی۔۔۔
165
10
اس کی۔۔۔
6
195
4
دیکھیں۔۔۔
165
4
دیکھئے
7
211
7
شاہ نعمت اللہ کرمانی۔۔
166
25
شاہ نعمت اللہ ولی کرمانی۔۔
8
245
4
پہلے مصرع
171
7
علوم جدیدہ نے بڑی تحقیق و تدقیق کے بعد یہ معلوم کیا ہے کہ ذرات عالم اپنے محور حرکت کر رہے ہیں۔ پہلے مصرع۔۔۔
9
276
8
وجہ کچھ۔۔۔
177
23
وجہ خواہ کچھ۔۔۔
10
276
8
مولانا اکبر مرحوم۔۔۔
177
23
صوفی اکبر مرحوم۔۔۔
نمبر شمار
صفحہ
سطر
کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم
صفحہ
سطر
خطوط اقبال، طبع اول 1976ء
1
165
13
بیرسٹر ایٹ لاء کا۔۔۔
141
1
بیرسٹر ایٹ لاء لاہور کا۔۔۔
2
165
15
5 تاریخ
141
3
5مارچ
3
165
16
قیام دہلی کے۔۔۔
141
5
قیام دہلی میں اضافے۔۔
4
494
6
نقطہ نظر۔۔۔
165
14, 15
نقطہ خیال
5
573
18
تمہارے خط
144
7
تمہارے دونوں خط۔۔۔
نمبر شمار
صفحہ
سطر
کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم
صفحہ
سطر
اقبالنامہ، حصہ اول
1
151
1
ایسا مترشح۔۔۔
111
2
ایسا خیال مترشح۔۔۔
2
151
5
سنی سنائی باتوں پر۔۔۔
111
8
سنی سنائی بات پر۔۔۔
نمبر شمار
صفحہ
سطر
کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم
صفحہ
سطر
اقبال بنام شاد، طبع اول 1986ء
1
134
5
خمادی شاد۔۔۔
253
14
خماری شاہ
2
135
3
عجب کہ۔۔۔
254
20
عجب ہے کہ۔۔۔
3
135
3, 4
خماری شاد۔۔۔
254
21
خماری شاہ۔۔۔
4
506
4
اتنے روز لاہور سے۔۔۔
278
20
اتنے روز پنجاب سے۔۔۔
5
566
5
افواہ یہاں سر محمد شفیع صاحب۔۔۔
280
13
افواہ میاں سر محمد شفیع صاحب۔۔۔
نمبر شمار
صفحہ
سطر
کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم
صفحہ
سطر
انوار اقبال، طبع دوم 1977ء
1
208
9
بارگارہ۔۔۔
69
11
درگاہ۔۔۔
2
260
12
میرا ان سے سلام ضرور۔۔۔
161
1
میرا سلام ان سے ضرور۔۔۔
3
498
10
بعد ایک۔۔۔
244
13
بعد آپ ایک۔۔۔
4
544
4
سمجھتا ہو۔۔۔
32
12
سمجھتا ہوں۔۔۔
مندرجہ بالا اختلاف متن مرتب کے اس دعوے کو غلط ثابت کرتا ہے کہ نقل متن میں بے پناہ محنت صرف کی گئی ہے۔۔۔ حتیٰ کہ بعض خطوط عکس کے مطابق نقل کئے ہی نہیں گئے، مثلاًـ: صفحات131اور 245 پر پوری پوری سطریں نقل نہیں کی گئیں۔
زیر نظر کلیات میں ’’ کلیات مکاتیب اقبال جلد اول‘‘ کی اغلاط کو دہرایا گیا ہے، یعنی جس مجموعہ مکاتیب سے خط لیا گیا ہے، اس کا صرف نام لکھ دینے پر اکتفا کیا ہے، جو ناکافی ہے۔ اگر صفحات کے نمبر بھی درج کر دیے جاتے تو بہتر تھا۔ علاوہ ازیں حواشی میں بھی اسی غلطی کو دہرایا گیا ہے اور حوالہ مکمل نہیں دیا گیا۔۔۔۔ جو خطوط ’’ اقبالنامہ‘‘ سے لئے گئے ہیں، ان کے ساتھ جلد اول یا دوم نہیں لکھا، جس سے کافی کوفت ہوتی ہے۔
کلیات مکاتیب کا غائر مطالعہ چند اور خامیوں او رکوتاہیوں کو بھی ہمارے سامنے لاتا ہے، مثلاً:ـ
’’ فہرست مکاتیب میں شیخ عطا محمد کے نام خط13جون1922ء کا ہے، ناکہ 15جون 1922ء اسی طرح شیخ اعجاز احمد کے نام خط جو کہ 15جون1922ء کا ہے، کی تاریخ نہیں لکھی گئی۔‘‘
ص:51پر ’’ مخلص محمد اقبال لاہور‘‘ کے الفاظ بہ مطابق عکس نقل نہیں کئے گئے۔ علاوہ ازیں علامہ نے خط کی تاریخ قطعہ تاریخ کے آخر میں لکھی ہے مگر مرتب نے خط کے آغاز میں لکھ دی ہے۔ اسی طرح ص:58 پر بھی ’’ محمد اقبال‘‘ عکس کے مطابق نقل نہیں کیا گیا۔
عکس کے مطابق خط کی تاریخ نقل کرتے ہوئے اضافہ کر دیا گیا ہے، یعنی 19ء کو 1919ء کر دیا گیا ہے، مثلاً صفحات:71, 77, 85, 92وغیرہ۔
ص:90 پر لفظ ’’ کی‘‘ (دعا کی برکت) محذوف ہے۔ ’’ مظلوم اقبال‘‘ ص:253 پر بھی لفظ’’کی‘‘ ’’ محذوف ہے۔ اسی طرح کلیات کے ص:257 اور ’’ مظلوم اقبال‘‘ کے ص:313 پر لفظ’’ کر‘‘ محذوف ہے۔‘‘
کلیات مکاتیب ص:225 پر انگریزی خط کا ترجمہ درج ہے، یہ ترجمہ ’’ خطوط اقبال‘‘ ص:142 پر سے نقل کیا گیا ہے، تاہم کلیات اور ’’ خطوط اقبال‘‘ کے ترجمے میں نمایاں فرق ہے۔ یہ ترجمہ نئے سرے سے کیوں کیا گیا؟ اس کی وضاحت مرتب نے نہیں کی۔ کلیات ص:221 پر حاشیہ ادھورہ ہے۔
کلیات ص:130کے حاشئے میں علامت2کے بجائے علامت3ہونی چاہئے کیونکہ علامت 2کو دو مرتبہ لکھا گیا ہے۔
کلیات ص:134 پر ’’ خماد شاد‘‘ اور ’’ خماری شاہ‘‘ کو واوین میں نہیں لکھا جبکہ ’’ شاد اقبال‘‘ ص:253 پر با اہتمام واوین میں لکھا گیا ہے۔
مذکورہ بالا تصرفات و اغلاط کے علاوہ، ہمیں کتابت کی اغلاط بھی کھٹکتی ہیں، مثلاً:
نمبر شمار
صفحہ
سطر
غلط
صحیح
1
61
1
یرشاد
پرشاد
2
152
2
جانے سے جانے سے
جانے سے
3
192
6
نکا کر
نکال کر
4
217
1
پں
میں
5
226
3
الحمد الللہ
الحمد للہ
صفحات:237, 239, 242, 248, 252, 253, 254 پر بھی الحمد الللہ (الحمد للہ) لکھا ہے۔
چودھری محمد حسین کا شمار علامہ اقبال کے دیرینہ اور با اعتماد احباب میں ہوتاہے۔ علامہ نے انہیں اپنے بچوں کا گارڈین بھی مقرر کیا تھا۔۔۔۔ ظاہر ہے علامہ نے مختلف امور کے سلسلے میں انہیں خطوط بھی لکھے ہوں گے مگر زیر نظر کلیات میں چودھری محمد حسین کے نام ایک خط بھی شامل نہیں ہے۔ ممکن ہے مرتب نے کوشش کی ہو مگر انہیں یہ خطوط دستیاب نہ ہو سکے ہوں۔ ذیل میں ہم ان خطوط کی ایک فہرست درج کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ثاقف نفیس ایم اے اردو نے 1984ء میں چودھری محمد حسین پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا، علامہ کے خطوط اس مقالے میں شامل ہیں۔ چار خطوط کے عکس بھی شامل ہیں۔ یہ مقالہ پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور کی لائبریری میں موجود ہے اور اس کا نمبرT/268 ہے۔ مقالے کے نگران ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ہیں۔ بعد ازاں ثاقف نفیس نے اپنے مضمون ’’ چودھری محمد حسین اور علامہ اقبال: روابط اور مکاتیب 83؎‘‘ میں چودھری محمد حسین کے نام علامہ کے پانچ خطوط کا عکس پیش کیا ہے۔۔۔۔ ثاقف نفیس نے ’’ تحقیق نامہ‘‘ میں نو مزید نئے خطوط شائع کیے ہیں مگر ان خطوط کے عکوس نہیں دیے۔ 84؎
مکاتیب اقبال بنام چودھری محمد حسین
1
لاہور7ستمبر22ء
2
لاہور23ستمبر22ء
3
لاہور25ستمبر22ء
4
لاہور2 اکتوبر22ء
5
لاہور24جولائی 23ء
6
لاہور6 اگست23ء
7
لاہور26اگست23ء
8
لاہور30اگست23ء
9
لاہور8ستمبر23ء
10
لاہور8مئی 24ء
11
لاہور16جولائی 24ء
12
لاہور25جولائی 24ء
13
لاہور5اگست24ء
14
لاہور15اگست24ء
15
لاہور25اگست24ء
16
لاہور30اگست24ء
17
لاہور18ستمبر24ء
18
22ستمبر24ء
19
لاہور10اکتوبر24ء
20
مقالہ: ص:97سنہ ندارد
21
مقالہ ص:98سنہ ندارد
22
21جولائی 24ء
23
مقالہ: ص:ـ99سنہ ندارد
24
بحر روم ملوجا 21ستمبر31ء
25
بحر روم ملوجا 22ستمبر31ء
26
لنڈن 24دسمبر32ء
علامہ اقبال کے بیشتر خطوط میں بعض مصلحت اندیش افراد نے رد و بدل اور کاٹ چھانٹ کی ہے۔ زیر نظر کلیات مکاتیب میں جن خطوط کے عکس میسر آ سکے انہیں بلا تامل درج کر دیا گیا ہے اور یوں ناقص متون کی تکمیل ہو گئی۔ تاہم بعض ایسے خطوط کہ جن کے متون میں کچھ الفاظ یا سطریں حذف کر دی گئی ہیں، وہ جوں کے توں کلیات میں شامل کر لیے گئے ہیں، مثلاً ص:ـ120 , 180 وغیرہ لہٰذا مرتب کا یہ دعویٰ کاملاً درست نہیں ہے:’’ ہماری کتاب میں مشمولہ خطوط اقبال کے متون نہ صرف مکمل بلکہ مستند بھی ہیں‘‘ ص31 ذاتی و نجی خطوط میں الفاظ یا سطریں حذف کر دینے کی جو روش عام ہے، وہ بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔ اس ضمن میں رشید حسن خاں لکھتے ہیں:
’’ مرحومین کے خطوں کو چھپنا چاہئے، مگر تحریف اور دخل اندازی کے بغیر یعنی کسی مرتب کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بعض لفظوں کی جگہ نقطے لگائے یا ایک لکیر کھینچ دے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ بعض لفظ، جملے یا سطریں مرتب کے خیال میں شائع ہونے کے قابل نہ ہوں، مگر مرتب کو یہ حق دیا کس نے کہ وہ اپنے خیال سے کام لے کر دوسرے شخص کی عبارت میں رد و بدل کرے؟ کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہو سکتا۔ اگر مرتب میں اتنا حوصلہ نہیں، اتنی جرات نہیں کہ وہ سب کچھ چھاپ سکے، تو پھر ایسے مصلحت اندیش، عافیت دوست یا کم زور اعصاب رکھنے والے کیلئے جائز ہی نہیں کہ وہ ایسے کسی مجموعے کو شائع کرنے کا خیال بھی دل میں لائے۔‘‘ 85؎
غرض مرتب اپنے طور پر تو مکتوب نگار کی خامیوں کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے مگر یہ کوشش اتنی بھونڈی ہوتی ہے کہ پڑھنے والے کا ذہن غلط و صحیح خیالات کی پٹاری بن کر رہ جاتا ہے اور یوں تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ طرح طرح کے مفروضے قائم کر لیتا ہے۔۔۔۔ اگر ذرا سی ہمت اور جرأت سے کام لے لیا جائے تو مکتوب نگار اور قارئین کڑی آزمائش سے بچ جائیں۔ مکتوبات اقبال کے بعض مرتبین نے بھی مکاتیب اقبال میں اس نوعیت کی ترامہم کر کے قارئین کے لئے مشکلات کے در وا کر دیے ہیں۔
’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ کے تفصیلی و تنقیدی جائزے کے بعد ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کلیات کاملاً ’’ معیاری‘‘ نہیں ہے۔۔۔۔ سید اشتیاق عابدی سیکرٹری اردو اکادمی دہلی کے یہ جملے غور طلب ہیں’’ یہ کتاب بوجوہ بڑی عجلت میں شائع کی جا رہی ہے اس لئے عین ممکن ہے کہ اس کی کتابت و طباعت میں کچھ خامیاں رہ گئی ہوں۔‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہی کلیات کا یہ پھیلا ہوا کام ’’ عجلت‘‘ کا متحمل ہو سکتا ہے؟راقمہ کے خیال میں ایسے کلمات سے مرتبین اور ناشرین راہ پا جانے والی خامیوں سے بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں حالانکہ صرف اس قدر لکھ دینے سے خلاصی نہیں ہوتی کیونکہ تحقیق کا کام حد درجہ محنت، جانفشانی اور عرق ریزی کا طالب ہوتا ہے۔
کلیات مکاتیب اقبالؒ(جلد سوم):
سید مظفر حسین برنی کی مرتبہ’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ جلد سوم، جنوری 1929ء سے دسمبر1934ء تک کے خطوط پہ محیط ہے۔ مذکورہ کلیات1993ء میں اردو اکادمی دہلی سے شائع ہوئی۔ اس میں ضمیمہ سمیت 412 خطوط ہیں، جبکہ مقدمے میں406 خطوط کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس جلد میں14 غیر مطبوعہ خطوط بھی شامل ہیں اور پندرہ خطوط غیر مدون ہیں جو کسی مجموعے میں شامل نہیں ہوئے۔۔۔۔۔ اس جلد میںسو (100) مکاتیب انگریزی کے ہیں اور بہ قول مرتب: ’’ چند خطوط کا ترجمہ پہلی بار کیا ہے او رباقی خطوط کے ترجموں پر نظر ثانی کی گئی ہے۔۔۔ دو خط فارسی زبان میں بھی ہیں جو ایران کے ادیب و نقاد سعید نفیسی کے نام26اگست 1932ء اور 4 نومبر1932 ء کو لکھے گئے۔ ان خطوط کے اردو ترجموں کے ساتھ اصل فارسی متون بھی شامل کر دیے ہیں۔‘‘ (ص:30)
زیر تبصرہ کلیات میں ایک سو اسی (180) خطوط کے عکوس کی نشان دہی کی گئی ہے۔ جبکہ فہرست میں188مکاتیب کے عکوس کا ذکر کیا گیا ہے۔ تاہم سات مکاتیب کے عکس کا حوالہ تو دیا گیا ہے مگر شامل نہیں کئے گئے اور یوں مجموعی عکوس کی تعداد181بنتی ہے۔عکوس کے سلسلے میں ایک دلچسپ صورت حال راغب احسن کے مکاتیب کی ذیل میں نظر آتی ہے اور وہ اس طرح کہ ’’اقبال جہان دیگر‘‘ میں سے متن تو نقل کر لیا گیا ہے مگر عکس کا حوالہ نہیں دیا گیا اور نہ ہی مذکورہ کلیات میں ان عکوس کو شامل کیا گیا ہے البتہ چند مکاتیب کے عکوس درج کئے گئے ہیں مثلاً صفحات:213,603, 625 اور 694 علاوہ ازیں راغب احسن کے نام علامہ کے انگریزی مکاتیب کے تراجم کے ساتھ عکس کی نشان دہی کی گئی ہے مثلاً صفحات :429, 603, 625 اور 694 علاوہ ازیں راغب احسن کے نام علامہ کے انگریزی مکاتیب کے تراجم کے ساتھ عکس کی نشان دہی کی گئی ہے مثلاً صفحات: 429, 434, 474 اور478 ’’ اقبال ۔۔ جہان دیگر‘‘ کی نمایاں خوبی ہی یہ ہے کہ اس میں تقریباً ہر خط کا عکس شامل ہے اور یوں متن کی صحت کے سلسلے میں شبہات کی گنجائش نہیں رہتی۔ زیر تبصرہ کلیات میں ’’ اقبال۔۔۔۔ جہان دیگر‘‘ کے متون کو عکس سے موازنہ کیے بنا ہی شامل کر لیا گیا ہے چنانچہ ’’ اقبال۔۔۔۔ جہاں دیگر‘‘ کی اغلاط مذکورہ کلیات میں بھی در آئی ہیں۔ غرض یہ کہ عکوس کے سلسلے میں مرتب کا یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے کہ ’’ یک سو اسی (180) مکاتیب کے عکس بھی دیے جا رہے ہیں۔ جو تمام مشمولہ مکاتیب کے قریباً چوالیس (44) فیصد ہیں۔ باالفاظ دیگر ہر دو خط میں سے ایک کا عکس حاصل کیا گیا ہے تاکہ کماحقہ، صحت متن کی جا سکے۔‘‘ (ص:30) مرتب کو’’ اقبال۔۔۔۔ جہان دیگر‘‘ میں سے عکوس نقل کر کے شامل کرنے میں کسی قسم کی کاوش نہ کرنا پڑتی، یہ مجموعہ مکاتیب ان کے پاس موجود تھا کیونکہ انہوں نے راغب احسن کے نام مکاتیب اسی مجموعے سے نقل کئے ہیں او رانہوں نے اس کا حوالہ بھی دیا ہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ ’’ اقبال۔۔۔۔ جہان دیگر‘‘ میں سے عکوس نقل کرنے میں کیا امر مانع تھا جبکہ انہوں نے کچھ مکاتیب کے عکوس کا حوالہ بھی دیا ہے، یہ غیر متوازن صورت حال بعید از فہم ہے۔
سید مظفر حسین برنی صاحب نے مقدمے میں لکھا ہے کہ ’’ حسب سابق اس جلد میں بھی صحت متن کی جانب بطور خاص توجہ کی گئی ہے چنانچہ دستیاب شدہ خطوط کا موازنہ و مقابلہ عکسی نقول سے کیا گیا ہے متعدد مطبوعہ خطوط میں کہیں کہیں تو ایک ایک پیراگراف حذف تھا، اسے عکس کے مطابق متعلقہ جگہ پر شامل کر دیا گیاہے۔‘‘ (ص:30)مرتب کا یہ دعویٰ کس حد تک بجا ہے، اس کا اندازہ درج ذیل گوشوارے سے ہوتا ہے:
نمبر شمار
صفحہ
سطر
متن ’’کلیات مکاتیب اقبال‘‘ جلد سوم
صفحہ
سطر
عکس ’’کلیات مکاتیب اقبال‘‘ جلد سوم
1
58
2
ڈیر نیازی صاحب۔۔
59
2
ڈیر نیازی صاحب السلام علیکم۔۔۔
2
63
2
فی الحال اشعار سے۔۔
64
2
فی الحال اصلاح اشعار کے لئے۔۔۔
3
67
4
مجیب صاحب سے۔۔
68
5
مجیب سے
4
75
17
مولانا غلام مرشد۔۔۔
76
1
بخدمت مولانا غلام مرشد
5
117
20
واقفیت نہیں۔۔۔
116
6
واقفیت نہیں ہے۔۔
6
180
5
جاؤں کا۔۔۔۔
182
7
جاؤں گا۔۔۔
7
197
4
بوقت خریداری ادا۔۔
196
8
بوقت خریدار ادا۔۔۔
8
202
6
نسبت زیادہ۔۔۔
201
13
نسبت بہت زیادہ۔۔۔
9
212
3
آپ کا خط ابھی ملا۔۔
213
2
آپ کا خط مع میشاق ابھی ملا
10
212
3
کچھ عجیب نہیں۔۔۔
213
3
کچھ عجب نہیں۔۔۔
11
212
7
ایک جزو کی صورت میں
213
7
ایک خبر کی صورت میں
12
227
3
لاہور ہی رہوں گا۔۔۔
226
9
لاہور ہی میں
لاہور ہی میں رہوں گا۔۔۔
14
256
6
تاثیر صاحب کو۔۔۔
255
12
تاثیر صاحب سے۔۔۔
15
264
6
تمام سوالوں کا۔۔۔
265
5
تمام سوالوں کے۔۔۔
16
274
1
سفر کے لکے۔۔۔
273
7
سفر کے لئے۔۔۔
17
278
9
ایڈیشن۔۔۔
279
6
ایڈریس
18
334
20
الٰہی ہے۔۔۔
335
9
الٰہی رہے۔۔۔
19
411
7
پہننے کے لئے کپڑے
410
14
پہننے کے کپڑے
20
423
16
خدا تعالیٰ اپنی
424
7
خدا تعالیٰ انہیں۔۔۔
21
470
19
میرا خیال ہے ایک۔۔
271
7
میرا خیال ہے کہ ایک۔۔
22
486
6
گر یہ بات۔۔۔
487
7
اگر یہ بات۔۔۔
23
491
11
معاملہ پیچیدہ ہے۔۔۔
492
13
معاملہ کسی قدر پیچیدہ ہے۔
24
500
12
میرے۔۔۔
501
4
مرے۔۔۔
25
502
8
معلوم نہیں۔۔۔
305
8
معلوم نہیں کہ۔۔۔
26
504
10
ایک روز آنے کا۔۔۔
505
11, 12
ایک روز کے لئے آنے کا۔۔۔
27
504
13
تو قیام کا۔۔۔
505
15
تو پھر قیام کا۔۔۔
28
504
14
باقی میری تمام۔۔۔
505
16
باقی مری عام۔۔۔
29
513
1
حکیم صاحب اوقات خاص۔۔۔
512
15
حکیم صاحب کی خدمت میں یہ بھی عرض کریں کہ اوقات خاص۔۔۔
30
516
6
سمجھتے ہیں ان کا۔۔۔
517
7
سمجھتے ہیں اس واسطے ان کا
31
516
5
مگر ان کی تعداد دگنی ہونی۔۔۔
522
5, 6, 7,
مگر ان کی تعداد زیادہ معلوم ہوتی تھی کہیں غلطی تو نہیں ہو گئی۔ خط میں آپ لکھتے ہیں کہ دواؤں کی مقدار دگنی کر دی گئی ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو ان دونوں دواؤں کی مقدار دگنی ہونی۔۔۔۔
32
77
18
بجائے دوا کے۔۔۔
579
3
بجائے دو کے۔۔۔
33
577
22
کر لیں۔۔۔
579
8
کریں۔۔۔
34
578
1
مجھے شکایت۔۔۔
579
9
مجھے کوئی شکایت۔۔۔
35
578
8
ان کو خود لکھوں گا۔۔۔
579
17
ان کو خط لکھونگا۔۔۔
36
590
20
بخار مجھے نہیں ہوا۔۔۔
592
4
بخار آج نہیں ہوا۔۔۔
37
626
10
امید ہے کہ۔۔۔
627
16
امید کہ۔۔۔
38
626
12
میرے دوست۔۔۔
627
18
مرے دوست۔۔۔
39
626
15
میرے کمرے۔۔۔
627
22
مرے کمرے۔۔۔
40
634
11
صبح کی نماز گریہ و زاری
636
4
صبح کی نماز میں گریہ و زاری
41
638
10
جامعہ کی طرف۔۔۔
637
11
جامعہ ملیہ کی طرف۔۔۔
42
638
11
سروجنی نائیڈو۔۔۔
637
12
مسز سروجنی نائیڈو۔۔۔
43
643
13
اب علی بخش۔۔۔
644
8
وہ اب علی بخش۔۔۔
44
645
2
امید ہے۔۔۔
646
2
امید کہ۔۔۔
45
647
4
آواز میں ہوتی ہے۔۔
648
4
آواز میں معلوم ہوتی ہے۔
46
660
17
کہ وہ روپیہ کی۔۔۔
663
2, 3
کہ چند ان سے کہ دیں کہ چند روز کے بعد ان کے خط کا آخری جواب دوں گا، وہ روپیہ کی۔۔۔۔
درج بالا گوشوارے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مرتب نے عکس کے مطابق متن نقل کرنے میں کتنی کاوش کی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔ مرتب کا ایک اور دعویٰ بھی قابل گرفت ہے، ان کا کہنا ہے:’’ اس جلد میں یہ بھی التزام کیا گیا ہے کہ عکس متعلقہ خط کے سامنے رہے تاکہ وقت ضرورت قاری کو مقلاہ و موازنہ میں سہولت ہو۔‘‘ (ص:30) جب ہم عکس کے مطابق متن کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں عکس مطلوبہ مقام پہ درج نہ ہونے کے باعث کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مثلاً ایک خط کا متن مذکورہ کلیات کے ص:510پر ہے جبکہ عکس ص:519پر ہے۔ اسی طرح صفحات639اور 641 پہ بھی اسی قسم کی صورت حال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
زیر تبصرہ کلیات میں جن مجموعہ ہائے مکاتیب سے خطوط نقل کئے گئے ہیں ان کے متون میں بھی کہیں کہیں نمایاں فرق ہے۔ نمونے کے طور پر ذیل میں ’’ اقبالنامہ حصہ دوم ‘‘ اور’’ خطوط اقبال‘‘ کا موازنہ پیش کیا جاتا ہے:
نمبر شمار
صفحہ
سطر
کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم
صفحہ
سطر
اقبالنامہ، حصہ دوم
1
119
11
انسان کی اصل فطرت۔۔
372
7
انسان کی اصلی فطرت۔۔
2
136
12
زبان فارسی ہے۔۔۔
377
3, 4
زبان فارسی۔۔۔
3
146
16
الفہرست دیکھی ہو گی۔۔
379
6, 7
فہرست دیکھی ہو گی۔۔۔
4
146
19
اچھی بات ہو۔۔۔
379
6, 7
اچھی بات ہے۔۔۔
5
149
4
میں نے مولوی۔۔۔
380
12
میں نے بھی مولوی۔۔
6
149
9
مسلمانوں کو لاحق حاصل ہے۔۔۔
381
4
مسلمانوں کے لاحق حال ہے۔۔۔۔
نمبر شمار
صفحہ
سطر
کلیات مکاتیب اقبال، جلد سوم
صفحہ
سطر
خطوط اقبال
1
126
18
الحمد للہ کہ خیریت ہے۔۔
196
12
الحمد ہر طرح خیریت ہے۔۔
2
245
17
البتہ مشرق ضرب۔۔
210
9
البتہ مشرقی ضرب۔۔۔
3
246
4
یہ خط ارسالی سے۔۔۔
210
14
یہ خط مارسالی سے۔۔۔
اسی طرح ’’ مکتوبات اقبال‘‘ مرتبہ: سید نذیر نیازی کے ص:46 اور ’’ اقبالنامہ حصہ اول‘‘ کے ص:341 اور مذکورہ کلیات کے بالترتیب صفحات185, 365 کے متون میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں کتابت کی اغلاط دوران مطالعہ بری طرح سے کھٹکتی ہیں اور بعض لفظ کتابت ہونے سے رہ گئے ہیں، مثلاً:
نمبر شمار
صفحہ
سطر
غلط
صحیح
1
33
11
عطائے
عصائے
2
41
3
قلمبد
قلم بند
3
46
16
جلد ہیں۔
جلد میں ہیں۔
4
46
23
جنہوں ادب پروری
جنہوں نے ادب پروری
5
134
12
نامزدکی
نامزدگی
6
215
1
حدیث میں نے دیکھا ہے
حدیث میں دیکھا ہے
7
217
20
پنکڑھی
پنکھڑی
8
229
14
لبے
لیے
9
243
6
رائٹر
رائیٹر
10
259
8
گل کندہ
گل کدہ
11
299
7
او
اور
12
338
7
غرض
عرض
13
346
12
معاشات
معاشیات
14
408
3
جدز
جلد از
15
408
4
ئی
کوئی
16
709
1
حواشنی
حواشی
زیر تبصرہ کلیات میں درج ذیل تسامحات اور اغلاط بھی نظر آتی ہیں، جن سے کلیات کی مجموعی قدر و قیمت متاثر ہوتی ہے:
1۔مکاتیب کی فہرست میں منشی طاہر دین کے نام خط کو بلا تاریخ لکھا ہے جبکہ مقدمے میں (ص:33) 21 ستمبر1931ء کی تاریخ کا تعین کیا گیا ہے۔
2۔کلیات کے ص:102پہ درج خط راغب احسن کے نام نہیں ہے بلکہ کسی مولانا کے نام ہے۔
3 ۔کلیات کے ص180 حاشیہ نمبر3میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ یہ سطریں ’’ مکتوبات اقبال‘‘ میں حذف کر دی گئی ہیں، جبکہ ’’ مکتوبات اقبال‘‘ ص:41 پر یہ سطریں درج ہیں۔۔۔ کلیات کے ص197 پر بھی اسی طرح کی وضاحت کی گئی ہے حالانکہ ’’ مکتوبات اقبال‘‘ ص54 پر یہ سطریں محذوف نہیں ہیں۔ کلیات ص638 کے حاشئیے میں بھی اسی طرح کے وضاحتی جملے لکھے گئے ہیں مگر ’’ مکتوبات اقبال‘‘ ص:206 پر جملے حذف نہیں کئے گئے۔
4 ۔کلیات کے ص:185 کا حاشیہ نمبر1 مکمل نہیں ہے کیونکہ اس میں پروفیسر سہیل کی کتاب کا نام درج نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کتاب کے ترجمے کا نام لکھا گیا ہے۔
5۔ عکس کے مطابق تاریخ نقل نہیں کی گئی۔ آغاز کو آخر میں اور آخر کی تاریخ کو آغاز میں تحریر کیا ہے، مثلاً ص:214 اسی طرح لفظ’’ محمد‘‘ پہ علامت ’’ ؐ‘‘ نہیں بنائی گئی۔
6 ۔کلیات ص:277کے حاشئیے میں حوالہ نہیں دیا گیا کہ یہ حاشیہ کس خط کا ہے۔
7 ۔کلیات ص:284 اور ص:289 پر جہاں حاشیہ نمبر 2پر جہاں حاشیہ نمبر2 ہونا چاہئے تھا وہاں حاشیہ نمبر1 لکھا گیا ہے۔
8 ۔ص:304 پر سعید نفیسی کے نام علامہ کا خط’’ انوار اقبال‘‘ (ص291) سے نقل کیا گیا ہے مگر اس کا حوالہ نہیں دیا گیا۔
9۔ص:321 حاشیہ نمبر1 زاید ہے کیونکہ یہ حاشیہ ص نمبر320 پر بھی درج ہے اور ایک ہی خط کے سلسلے میں درج کیا گیا ہے۔
10۔ ص:418 پر حاشئے کی علامت 1سید سلیمان ندوی کے خط پر دی گئی ہے جبکہ یہ حاشیہ پروفیسر محمد شیرانی کے نام خط کا ہے۔
11۔ ص:698 پر راغب احسن کے نام خط’’ اقبال۔۔۔۔ جہان دیگر‘‘ (ص:91) سے لیا گیا ہے مگر حوالہ ’’ مکتوبات اقبال کا دیا گیا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے۔
درج بالا اغلاط و تصرفات کے علاوہ اگر ہم ان بے شمار اغلاط کو بھی مدنظر رکھیں جو ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے اپنے مضمون کلیات مکاتیب اقبال (جلد سوم)۔۔۔۔ ایک جائزہ 82 ؎‘‘ میں بیان کی ہیں تو یہ احساس قوی تر ہو جاتا ہے کہ تحقیقی، تنقیدی اور علمی نوعیت کے کام عجلت پسندی اور سہل انگاری کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
الغرض’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ کی اب تک جتنی جلدیں منظر عام پر آئی ہیں وہ اگر ایک لحاظ سے اہم ہیں تو دوسری طرف ان میں موجود تصرفات و اغلاط کو دیکھتے ہوئے از سر نو مرتب کرنے کی ضرورت کا احساس دو چند ہو جاتا ہے۔۔۔ تاہم سید مظفر حسین برنی اس حوالے سے لائق ستائش ہیں کہ انہوں نے مشکل اور وسیع کام کو سمیٹ کر اقبالیین کے لئے راہ ہموار کر دی ہے۔۔۔ اقبالیات سے متعلق جو کام پاکستان میں ہونا چاہئے تھا، اس کا آغاز اہل بھارت نے کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ہم سے زیادہ فعال ہیں۔۔۔ ہم ابھی تک سوچ رہے ہیں کہ کام کرنے والے آگے نکل گئے ہیں۔۔۔۔ بہرحال ا قبالیات سے متعلق تحقیقی و تنقیدی نوعیت کا کام خواہ بھارت میں ہو ، پاکستان میں یا کہیں اور، دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس حد تک معیاری اور سائنٹفک ہے۔۔۔۔ لہٰذا اردو اکادمی رہلی کی اس کاوش کو حرف آخر نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ بہتر سے بہتر کی طرف سفر جاری رہنا چاہئے۔۔۔۔ مزید برآں ’’ کلیات مکاتیب اقبال ‘‘ کسی ذمہ دار اور اہل ادارے کی طرف سے مستند متن اور حواشی کے ساتھ چھپنے چاہیں تاکہ صحیح اور مضبوط بنیادوں پر خوبصورت اور دیر پا عمارت تعمیر ہو سکے۔
(15) مکاتیب سر محمد اقبال بنام مولانا سید سلیمان ندوی:
علامہ اقبال نے اپنے معاصرین کو مختلف امور کے سلسلے میں خطوط تحریر کیے۔ ان کی وفات کے بعد اقبال کے عقیدت مندوں نے ان مکاتیب کو مجموعوں کی صورت میں چھاپنا شروع کر دیا اور یہ یقینا ایک قابل تحسین فعل تھا۔۔۔۔ کچھ شخصیات تو ایسی ہیں کہ علامہ کے ان کے نام خطوط ایک علیحدہ مجموعے کی صورت اختیار کر گئے ہیں، مثلاً: قائد اعظم ، عطیہ فیضی، مولانا راغب احسن، مولانا غلام قادر گرامی، خان محمد نیاز الدین خان، سید نذیر نیازی وغیرہ۔۔۔۔ ’’ مکاتیب سر محمد اقبال بنام مولانا سید سلیمان ندوی‘‘ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اگرچہ سید سلیمان ندوی کے نام خطوط’’ اقبالنامہ، حصہ اول‘‘ میں شائع ہو چکے ہیں لیکن ان خطوط کو الگ چھاپنے کی ضرورت کچھ یوں بھی تھی کہ یہ تعداد میں زیادہ ہیں اور ایک اور ہم بات یہ کہ علامہ نے سید سلیمان ندوی سے دینی امور اور دیگر مسائل کو سلجھانے کے لئے مفید مشورے طلب کیے ہیں، جو اس امر کی دلیل ہیں کہ علامہ میں علمی انکسار حد درجہ بڑھا ہوا تھا۔
زیر تبصرہ مجموعہ مکاتیب، سید شفقت رضوی نے مرتب کر کے 1992ء میں المخزن پرنٹرز (مکتبہ رشیدیہ) پاکستان چوک، کراچی سے شائع کیا۔ کتاب143 صفحات پہ محیط ہے۔ آغاز میں صاحب مرتب نے مقدمہ تحریر کیا ہے، جس میں انہوں نے مولانا سید سلیمان ندوی کے حالات زندگی اور ان کی علمی و ادبی کاوشوں کا سرسری سا جائزہ پیش کیا ہے، اسی طرح علامہ اقبال کے حالات زندگی اور سید سلیمان ندوی کے ساتھ ان کے روابط کا تذکرہ بھی کیا ہے۔
اگرچہ سید صاحب کے نام علامہ کے خطوط’’ اقبالنامہ‘‘ میں چھپ سکے ہیں، مگر ماخذ کی ذیل میں مرتب نے ’’ معارف‘‘ کی جلد73نمبر4 تا جلد75نمبر1 کا حوالہ دیا ہے۔۔۔ طویل مقدمے (ص5 تا ص28) کے بعد اصل متن ص29) کے بعد اصل متن ص29سے لے کر ص112 تک پھیلا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔’’ رجال مکاتیب اقبال‘‘ کے عنوان سے تقریباً 30 شخصیات کے مختصر حالات زندگی قلم بند کئے گئے ہیں۔
مذکورہ مجموعہ مکاتیب کے متن کا موازنہ جب ہم ’’ اقبالنامہ حصہ اول‘‘ سے کرتے ہیں تو ہمیں متن میں کہیں کہیں اختلاف دکھائی دیتا ہے ذیل کے گوشوارے سے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
نمبر شمار
صفحہ
سطر
مکاتیب سر محمد اقبال بنام مولانا سید سلیمان ندوی
صفحہ
سطر
اقبالنامہ، حصہ اول
1
30
6
اک
77
3
ایک
2
30
16
ان ہی
77
14
انہیں
3
31
3
قرون
78
7
قرنوں
4
31
13
قادریت
79
3
قادریہ
5
35
18
اس قسم کی۔۔۔
86
2
اس قسم کے۔۔۔
6
39
14
چوں
92
12
چو
7
40
2
ازان
93
9
اذاں
8
40
3
بیالہ
93
10
ببالد
10
40
17
استعمال نہیں
94
7
استعمال نیا
11
40
18
گرداگر
94
8
گردا گرد
12
41
4
قصیدیہ
94
15
قصیدہ
13
42
7
بروید
96
8
بردمد
14
43
9
اس میں
88
2
’’ از ‘‘ میں
15
45
10
مولانا محمود حسن
99
13
مولانا محمود الحسن
16
49
12
معلوم نہیں اس بارے میں
106
2
معلوم نہیں آپ کا اس بارہ میں
17
51
3
نہیں دیتے
108
2
نہیں چھوڑتے
18
52
17
ایسا کیوں لکھا
110
13
ایسا لکھا
19
53
8
ہو سکتے ہیں۔۔۔
111
9
ہو سکتے ہوں۔۔۔
20
57
10
کتابیں مل۔۔۔
115
12
کتابیں عاریتاً مل۔۔
21
61
7
کے بارے میں جو نوٹ۔۔۔
119
15
پر جو نوٹ۔۔۔
22
61
20
تفہیمات الٰہیہ
121
1
کیا تفہیمات الٰہیہ۔۔۔
23
65
5
انہی ۔۔۔
126
2
انہیں۔۔۔
24
67
18
ابو الکلام صاحب۔۔۔
132
9
مولوی ابو الکلام صاحب
25
67
20
محمد اقبال۔۔۔
133
2
محمد اقبال بیرسٹر۔۔
26
69
21
ذریعہ منگوا۔۔۔
135
12
ذریعہ سے منگوا۔۔۔
27
70
3
محمد اقبال۔۔۔
135
16
محمد اقبال بیرسٹر۔۔۔
28
71
19
معلوم ہوا ہے۔۔۔
138
7
معلوم ہوا۔۔۔
29
72
1
تذکرہ کا ایک۔۔۔
138
11
تذکرہ پر ایک۔۔۔
30
72
17
براہ تو خرقہ
139
14
براہ تو سخت۔۔۔
31
72
17
پوشند۔۔۔
139
14
کوشند۔۔۔
32
75
18
راستے۔۔۔
144
10
رستہ۔۔۔
33
78
16
قائم کی تھی۔۔۔
149
3, 4
قائم کی ہے۔۔۔
34
79
2
جس کا۔۔۔
150
5
جن کا۔۔۔
35
81
4
تجربہ و مشاہدہ پر ہے۔۔
153
3
تجربہ و مشاہدہ ہے۔۔۔
36
81
10
ان کے متعلق۔۔۔
154
1
اذان کے متعلق۔۔۔
37
81
17
یہ اصول۔۔۔
154
8
کیا یہ اصول۔۔۔
38
87
3
یعنی کلام جدید۔۔۔
161
10
یعنی علم کلام جدید۔۔۔
39
89
16
اردو میں۔۔۔
165
11
اردو میں ہے۔۔۔
40
92
18
تو امید ہے کہ پاسپورٹ۔۔۔
170
10
تو پاسپورٹ۔۔۔
41
92
10
5اکتوبر
170
12
15اکتوبر
42
93
1
9اکتوبر
171
2
19اکتوبر۔۔۔
43
93
11
افغانستان گورنمنٹ۔۔
171
13
افغان گورنمنٹ۔۔۔
44
94
5
خیال ہے۔۔۔
173
1
خیال رہے۔۔۔
45
94
10
ہمارے ساتھ۔۔۔
173
7
ہمارے ہمراہ۔۔۔
46
94
17
اکتوبر کی صبح پشاور۔۔۔
173
14
اکتوبر کی صبح کو پشاور۔۔
47
94
19
20تاریخ کی صبح۔۔
174
1
اکتوبر کی صبح کو پشاور۔۔
48
95
2
البتہ ملازم کو دو تین۔۔
174
4
البتہ ملازم کا دو تین۔۔
49
101
14
معاملات کی فہرست۔۔
184
2
معاملات کی ایک فہرست۔۔
50
106
11
نبی نہ ہو گا۔۔۔
191
10
نبی نہیں ہو گا۔۔۔
51
109
3
رقیب سمجھتا ہوں۔۔۔
195
11
رقیب تصور کرتا ہوں۔۔
درج بالا اختلاف متن بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔۔۔۔ مرتب نے اگرچہ ’’ اقبالنامہ‘‘ کو ماخذ نہیں بنایا، مگر’’ اقبالنامہ‘‘ میں شامل سید سلیمان ندوی کے نام خطوط کا موازنہ، مذکورہ مجموعے کے خطوط کے ساتھ کرنا از بس ضروری تھا کیونکہ یہ خطوط قبل ازیں ’’ اقبالنامہ‘‘ میں شائع ہو چکے تھے۔۔۔۔ مرتب اگر موازنے کے ساتھ ان خطوط کو شائع کرتے تو ان خطوط کا یقینا ایک مستند اور معیاری متن تیار ہو جاتا اور ان کی یہ کاوش مزید مستحسن ہو جاتی۔
اختلاف متن کے علاوہ مذکورہ مجموعہ مکاتیب میں کتابت کی اغلاط بھی کھٹکتی ہیں، مثلاً:
نمبر شمار
صفحہ
سطر
غلط
صحیح
1
44
5
معالہ
معاملہ
2
45
10
خضرت
حضرت
3
46
2
شکر
سکر
4
47
7
الابم
الائیم
5
92
1
ن
ان
6
96
10
زریعہ
بذریعہ
علاوہ ازیں لفظ’’ علیحدہ‘‘ کو’’ علاحدہ‘‘ لکھا ہے، جو جدید املا کے مطابق درست ہے مگر ا س سے علامہ کے خطوط کا متن مجروح ہو جاتا ہے۔ کیونکہ طرز املا کی تحقیق میں نہایت اہمیت ہے۔ بسا اوقات تو اس کے توسط سے مصنف کے زمانے، مزاج اور کسی خاص مصنف کی تحریر کا تعین بھی کیا جاتا ہے۔۔۔۔
زیر تبصرہ مجموعہ مکاتیب میں کچھ اور خامیان بھی کھٹکتی ہیں، مثلاًـ:
اضافت کا اہتمام نہیں کیا گیا، جبکہ ’’ اقبالنامہ‘‘ میں اس کا خیال رکھا گیا ہے۔۔۔۔ اس تساہل کی بنا پر لفظ یا عبارت پڑھنے میں کوفت ہوتی ہے اور روانی و تسلسل برقرار نہیں رہتا۔
رموز اوقاف کا خیال بھی نہیں رکھا گیا، مثلاً جہاں وقفہ (‘) ہونا چاہئے وہاں ختمہ (۔) درج کر کے جملہ ختم کر دیا گیا ہے، جبکہ وہ جملہ جاری ہے۔۔۔۔۔۔ علاوہ ازیں واوین بھی ہٹا دیے ہیں مثلاً ’’ معارف‘‘ ’’ صوفی‘‘ ’’ ابطال‘‘ ’’ ضرورت‘‘ کو بغیر واوین کے لکھا ہے، جس سے یہ مخصوص الفاظ عبارت کا عام حصہ معلوم ہوتے ہیں۔
لفظ’’ محمد‘‘ پر علامت’’ ؐ‘‘ نہیں بنائی جبکہ علامہ اقبال اس کا خصوصیت سے اہتمام کرتے تھے۔
’’ اقبالنامہ‘‘ میں بعض خطوط کی تاریخ خط کے آخر میں درج ہے، مگر مذکورہ مجموعہ مکاتیب میں آغاز میں درج کر دی گئی ہے، مثلاً صـ36 پر ’’مخلص محمد اقبال‘‘ دو مرتبہ لکھا گیا ہے۔
حواشی کے سلسلے میں مرتب نے اگرچہ یہ وضاحت کی ہے کہ اگر حاشیہ مکتوب الیہ کے قلم سے ہے تو وہاں ’’ س‘‘ لکھا گیا ہے اور جہاں مرتب کے قلم سے وہاں ’’ ش‘‘ لکھا گیا ہے، مگر یہ اہتمام تمام حواشی میں روا نہیں رکھا گیا۔
بہرحال انفرادی نقطہ نظر سے سید شفقت رضوی صاحب کی یہ کوشش مستحسن ہے کہ انہوں نے ایک مجموعے کی صورت میں ان خطوط کو چھاپا، تاہم اگر درج بالا اغلاط اور تصرفات کی تصحیح و وضاحت کر دی جائے تو اس کی قدر و قیمت دو چند ہو جائے گی۔
اقبال کے خطوط کی اہمیتـ:
علامہ اقبال نے ایک جگہ لکھا ہے:
’’شاعر کے لٹریری اور پرائیویٹ خطوط سے اس کے کلام پر روشنی پڑتی ہے اور اعلیٰ درجے کے شعراء کے خطوط شائع کرنا لٹریری اعتبار سے مفید ہے۔‘‘ 87؎
ان کا یہ قول، کسی اور سے زیادہ خود ان کے مکاتیب پر صادق آتا ہے۔ بہ قول محمد عبداللہ قریشی:
’’ حضرت علامہ کی ہمہ گیر شخصیت کے گوناگوں پہلوؤں کو سمجھنے کے لئے ان کے نجی اور ذاتی خطوط کے عظیم سرمائے کو سب سے اہم کلیدی حیثیت حاصل ہے۔‘‘ 88؎
علامہ اقبال نے اپنی زندگی میں بلا مبالغہ ہزاروں خطوط لکھے۔ اقبال خط کا جواب لکھنے میں بہت باقاعدہ اور مستعد تھے، ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی لکھتے ہیں:
’’ عام طور پر لوگ کاتب خط کی اخلاقی حالت اور خط کے مضمون کی اہمیت کے علاوہ ذاتی حالات کو مد نظر رکھ کر جواب دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ بعض اوقات عدیم الفرصتی اور جسمانی عوارض بطور خاص جواب لکھنے سے مانع ہوتے ہیں مگر حضرت علامہ نے باوجود جسمانی عوارض، علمی مطالعے میں استغراق اور عدیم الفرصتی کے کبھی جواب لکھنے سے گریز نہیں فرماتے۔‘‘ 89؎
شاعری کی طرح علامہ کے خطوط میں بھی بڑا تنوع ملتا ہے۔ ان میں مختلف علمی، ادبی، فکری اور مذہبی موضوعات زیر بحث آئے ہیں، اور ایسے موضوعات بھی جو اقبال کے تحت الشعور میں تو تھے مگر شاعری میں کسی مناسب عنوان سے ظاہر نہ ہو سکے تھے، علاوہ ازیں مندرجہ بالا مجموعہ ہائے مکاتیب میں اقبال کی شخصیت اور فن کے متعلق بعض نادر انکشافات بھی سامنے آتے ہیں۔
عبداللطیف اعظمی لکھتے ہیں کہ اچھے خط کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ بے ساختہ ہو، تصنع اور ریاکاری سے پاک ہو اور لکھنے والے کے دل و دماغ کا صحیح معنی میں ترجمان اور عکاس ہو۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اقبال اردو کے ان چند مکتوب نگاروں میں سے ہیں، جن کی شخصیت اور ذہنیت کو ان کے خطوط کی روشنی میں بڑی آسانی سے سمجھا اور پڑھا جا سکتا ہے۔ اقبال انتہائی سادہ اور بے تکلف، لگاوٹ اور تصنع سے دور، دوستوں کے دوست، مخلصوں کے مخلص، خالص پنجابی کی طرح کھرے اور بے باک، جو دل میں وہی قلم پر، ان کے خطوط ہو بہو ان کی تصویر ہیں۔ 90؎
اردو کے مکاتیبی ادب میں خطوط غالب نمایاں حیثیت کے حامل ہیں، مگر ان کی حیثیت ادبی ہے، فکری نہیں۔ اقبال کے خطوط کی قدر و قیمت ادبی نہیں بلکہ فلسفیانہ ہے، وہ ہمیشہ قلم برداشتہ لکھتے تھے۔ بعض اوقات تو ان پر نظر ثانی بھی نہیں کی گئی، اس عدم اہتمام کی وجہ سے کہیں کہیں لفظ بھی چھوٹ گئے ہیں۔ انہیں خیال بھی نہیں تھا کہ یہ خطوط شائع ہوں گے۔ 91؎
ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار لکھتے ہیں:’’ علامہ کے خطوط تین لحاظ سے خاص اہمیت کے حامل ہیں:
1ان کے شعری افکار کی توضیح و تشریح کے لئے
2ان کے خیالات کے تدریجی ارتقا اور پس منظر کی وضاحت کے لئے۔
3ان کے سوانحی حالات، کردار و شخصیت کو سمجھنے کے لئے۔‘‘ 92؎
اقبال کے ذخیرہ مکاتیب کا عمیق مطالعہ کریں تو ان کی افادیت و اہمیت کا دائرہ اور بھی پھیل جاتا ہے، اور ’’ اقبال کے خطوط‘‘ کو پڑھ کر ان کے ذہنی سفر اور ان کے ذہنی ارتقا کی داستان قلم بند کی جا سکتی ہے، اقبال کے خطوط ان کی زندگی کا آئینہ ہیں۔ 93؎
عبداللطیف اعظمی نے علامہ اقبال کی مکتوب نگاری کے تین ادوار مقرر کیے:
1 ابتدائی دور: ابتدا سے یورپ سے واپسی تک یعنی 1908ء تک۔ تقریباً27سال
2دور شباب: 1908ء سے 1934ء تک یعنی علالت کے آغاز تک۔ 26سال
3 آخر دور: جنوری 1934ء سے وفات تک یعنی 21 اپریل 1938ء تک 94؎
ان کا خیال ہے کہ اقبال کے خطوط کی بڑی تعداد 1908ء سے 1934ء تک کے عرصے میں لکھی گئی، اس دور کے خطوط کی تعداد677 ۔ 95؎ ہے۔ چنانچہ سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد دریا باری، گرامی، اکبر الہ آبادی، عطیہ فیضی، مہاراجہ سرکشن پرشاد شاد سے مراسلت اسی دور میں شروع ہوئی اور زیادہ تر اسی دور میں ختم ہو گئی۔ خان محمد نیاز الدین خاں اقبال کے بے تکلف اور مخلص دوستوں میں سے تھے، ان کے نام79خطوط ہیں، یہ سب کے سب اسی دور میں شروع ہوئے اور اسی میں ختم ہو گئے۔ اسی طرح سید نذیر نیازی کو بھی اقبالیات میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ ان کے نام اس دور میں38خطوط ملتے ہیں۔
ان خطوط میں ہمیں علامہ کے شعری سفر سے متعلق معلومات بھی ملتی ہیں۔ علامہ اپنے دوست احباب کو اپنی شعری کاوشوں سے آگاہ کرتے رہتے تھے مثلاً:’’ رموز بیخودی‘‘ کے سلسلے میں خان محمد نیاز الدین خاں کے نام2 مارچ1917ء کے خط میں لکھتے ہیں:
’’ مثنوی کا دوسرا حصہ جس کا نام رموز بیخودی ہو گا، انشاء اللہ اس سال کے ختم ہونے سے پیشتر ختم ہو جائے گا۔‘‘ 92؎
انہی کے نام27جون1917ء کے خط میں لکھتے ہیں:
’’ رموز بیخودی کو میں اپنے خیال میں ختم کر چکا تھا مگر پرسوں معلوم ہوا کہ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ترتیب مضامین کرتے وقت یہ بات ذہن میں آئی کہ ابھی دو تین ضروری مضامین باقی ہیں یعنی قرآن اور بیت الحرام کا مفہوم و مقصود حیات ملیہ اسلامیہ میں لکھا ہے۔ان مضامین کے لکھ چکنے کے بعد اس حصہ مثنوی کو ختم سمجھنا چاہئے۔ مگر ایسے ایسے مطالب ذہن میں آئے ہیں کہ خود مسلمانوں کے لئے موجب حیرت و مسرت ہوں گے کیونکہ جہاں تک مجھے معلوم ہے ملت اسلامیہ کا فلسفہ اس صورت میں اس سے پہلے کبھی اسلامی جماعت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ نئے سکول کے مسلمانوں کو معلوم ہو گا کہ یورپ جس قومیت پر ناز کرتا ہے، وہ محض بودے اور سست تاروں کا بنا ہوا ایک ضعیف چیتھڑا ہے۔ قومیت کے اصول حقہ صرف اسلام نے ہی بتائے ہیں جن کی پختگی اور پائیداری مرور ایام و اعصار سے متاثر نہیں ہو سکتی۔‘‘ 97؎
تقریباً پانچ ماہ کے بعد27نومبر1917ء کو انہیں مزید اطلاع دیتے ہیں:
’’ مثنوی ختم ہو گئی۔ اسے نقل کر رہا ہوں۔ چند روز کے بعد پریس میں دے دی جائے گی۔‘‘98؎
اس طرح ہمیں مثنوی کا نام ، اس کے مباحث اور اس کی تیاری و اشاعت کے بارے میں تمام معلومات ان خطوط سے مل جاتی ہیں۔
اقبال کو اس بات کا احساس تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کی بیداری میں ان کی نظموں اور مثنویوں کا دخل ہے، اس لئے 1919ء میں جب مولانا ابو الکلام آزاد کی مشہور کتاب ’’ تذکرہ‘‘ شائع ہوئی اور اس کے مقدمہ میں کتاب کے مرتب فضل الدین احمد مرزا نے مسلمانوں کی اس بیداری کا تمام کریڈٹ مولانا آزاد کے ’’ الہلال‘‘ کو دے دیاتو قدرتی طور پر اقبال کو سخت شکایت پیدا ہوئی۔ فاضل مقدمہ نگار نے لکھا تھا:
’’ الہلال، کے ایک ایک مضمون بلکہ ایک ایک سطر نے جیسے جیسے ہوش ربا اثر لوگوں پر ڈالے ہیں، ان کو اگر بیان کیا جائے تو ایک پورا رسالہ بن جائے۔ مثال کے طور پر صرف چند محترم ناموں کا ذکر کروں گا۔ طبقہ علماء میں سے حضرت مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی کایہ قول خود مولانا ابو الکلام نے ایک مرتبہ مجھ سے نقل کی اتھ اکہ ہم سب اصلی کام بھولے ہوئے تھے، الہلال نے یاد دلایا۔۔۔۔۔۔ (جدید) تعلیم یافتہ جماعت میں فدائے قوم مسٹر محمد علی اور مسٹر شوکت علی خاں اور ہمارے قومی شاعر ڈاکٹر اقبال کا ذکر کر دینا کافی ہے۔ ان اسلام پرستوں کو مذہب کی راہ اسی نے دکھلائی اور بتدریج اپنے رنگ میں یک قلم رنگ دیا، ورنہ ہم لوگوں کو وہ زمانہ بھی اچھی طرح یاد ہے جب نیا نیا الہلال نکلا تھا اور مسلم یونیورسٹی کے متعلق مسٹر محمد علی نے اس کی مخالفت میں مضامین لکھے تھے، تھوڑے ہی عرصے کے بعد وہی الہلال، والی صدا یونیورسٹی کے متعلق انہوں نے بھی بلند کی۔ مسٹر شوکت علی کا تو اس بارے میں عجب حال ہے، وہ ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ ابو الکلام نے ہم کو ایمان کا راستہ بتلا دیا، ڈاکٹر اقبال کا مذہبی عقائد میں پچھلا حال جو کچھ سنا ہے، اس کے مقابلے میں اب ان کی فارسی مثنویاں دیکھتے ہیں تو سخت حیرت ہوتی ہے۔ اسرار خودی، اور رموز بیخودی فی الحقیقت الہلال ہی کی صدائے باز گشت ہیں۔‘‘ 99؎
’’ تذکرہ ‘‘کے شائع ہوتے ہی ڈاکٹر اقبال نے مولانا سید سلیمان ندوی کو اپنے خط مورخہ 1 نومبر1919ء میں یہ شکایت کی:
’’ مولانا ابو الکلام کا تذکرہ آپ کی نظر سے گزرا ہو گا، بہت دلچسپ کتاب ہے مگر دیباچہ میں مولوی فضل الدین احمد لکھتے ہیں کہ اقبال کی مثنویاں تحریک الہلال ہی کی بازگشت ہیں، شاید ان کو یہ معلوم نہیں کہ جو خیالات میں نے ان مثنویوں میں ظاہر کیے ہیں ان کو برابر1907ء سے ظاہر کر رہا ہوں، اس کے شواہد میری مطبوعہ تحریریں نظم و نثر و انگریزی و اردو موجود ہیں، جو غالباً مولوی صاحب کے پیش نظر نہ تھیں، بہرحال اس کا کچھ افسوس نہیں کہ انہوں نے ایسا لکھا، مقصود اسلامی حقائق کی اشاعت ہے نہ نام آوری۔ البتہ اس بات سے مجھے رنج ہو اکہ ان کے خیال میں اقبال تحریک الہلال سے پہلے مسلمان نہ تھا، تحریک الہلال نے اسے مسلمان کیا۔ ان کی عبارت سے ایسا خیال مترشح ہوتا ہے، ممکن ہے ان کا مقصود یہ نہ ہو۔ میرے دل میں مولانا ابو الکلام آزاد کی بڑی عزت ہے اور ان کی تحریک سے ہمدردی، مگر کسی تحریک کی وقعت بڑھانے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اوروں کی دل آزاری کی جائے۔‘‘ 100؎
’’ نقیب‘‘ بدایوں (فروری1919ء ۔ جنوری 1922ئ) کے مالک اور ایڈیٹر شیخ وحید احمد نے جب علامہ اقبال کی توجہ ’’ تذکرہ‘‘ کی زیر بحث عبارت کی طرف مبذول کرائی تو اس کے جواب میں علامہ نے انہیں30اگست 1921ء کو لکھا:
’’ آپ کا حسن ظن میری نسبت بہت بڑھ گیا ہے۔ حقیقت میں میں نے جو کچھ لکھا ہے اس کی نسبت دنیائے شاعری سے کچھ بھی نہیں اور نہ کبھی میں نے Seriously اس طرف توجہ کی ہے۔ بہرحال آپ کی عنایت کا شکر گزار ہوں۔ باقی رہا یہ امر کہ موجودہ بیداری کا سہرا میرے سر پر ہے یا ہونا چاہئے۔ اس کے متعلق کیا عرض کروں۔ مقصود تو بیداری سے تھا اگر بیداری ہندوستان کی تاریخ میں میرا نام تک بھی نہ آئے تو مجھے قطعاً اس کا ملال نہیں۔ لیکن آپ کے اس ریمارک سے مجھے بہت تعجب ہوا کیونکہ میرا خیال تھا کہ اس بات کا شاید کسی کو احساس نہیں۔ مولوی ابو الکلام صاحب آزاد کے تذکرہ کا دیباچہ لکھنے والے بزرگ نے جن الفاظ میں محمد علی، شوکت علی اور میری طرف اشارہ کیا ہے ان سے میرے اس خیال کو اور تقویت ہو گئی ہے لیکن اگر کسی کو بھی اس کا احساس نہ ہو تو مجھے اس کا رنج نہیں کیونکہ اس معاملہ میں خدا کے فضل و کرم سے بالکل بے غرض ہوں۔‘‘101؎
مذکورہ خطوط سے علامہ کی طبعی بے نیازی او ربے غرضی کا پتہ چلتا ہے۔۔۔۔۔ انداز تحریر ایسا ہے کہ کہیں یہ احساس نہیں ہوتا ہے کہ علامہ اپنے آپ کو اور اپنے علمی و ادبی کارناموں کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں۔۔۔ البتہ معاصرین کی کم نگاہی اور بے بصری کا انہیں گلہ ضرور تھا، جو میرے خیال میں جائز ہے۔
مکاتیب اقبال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بعض نو آموز شاعر بڑی کثرت سے اپنی شعری کاوشیں اصلاح کی خاطر ان کی خدمت میں بھیجا کرتے تھے، مگر یہ کہہ کر کہ میں زبان داں نہیں ہوں او رنہ زبان کی باریکیوں پر میری نظر ہے، اصلاح دینے سے انکار کر دیا کرتے تھے۔ چنانچہ جب چک جھمرہ ضلع لائل پور کے ایک صاحب شاکر صدیقی نے اس طرح کی خواہش کی تو اقبال نے لکھا:
’’ اردو زبان میں آپ سے زیادہ نہیں جانتا کہ آپ کے کلام کو اصلاح دوں۔ باقی رہے شاعرانہ خیالات و سوز گداز، یہ سیکھنے سکھلانے کی شے نہیں، قدرتی بات ہے۔ ان سب باتوں کے علاوہ مجھ کو اپنے مشاغل ضروری سے فرصت کہاں کہ کوئی ذمہ داری کا کام اپنے سر لوں۔ میں نے آپ کے اشعار پڑھے ہیں، میری رائے میں آپ اس جھگڑے میں نہ پڑیں تو اچھا ہے۔‘‘ 102؎
مگر بعد میں جب مجبور ہو کر انہیں یہ ناخوشگوار کام انجام دینا پڑا تو ا ن کے مشوروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ زبان اور محاورے کی باریکیوں اور شاعرانہ محاسن پر ان کی بڑی گہری اور وسیع نظر تھی، بہ قول ڈاکٹر عبدالحق:’’ بہت سے خطوط شعری اصلاحت اور نکات فن سے متعلق ہیں۔ ان کی نکتہ شناسی اور فن کا معیار پورے عروج پر دکھائی دیتا ہے۔‘‘ 102؎ چنانچہ شاکر صدیقی کو اپنے خطوط میں بہت ہی مفید اور اہم مشورے دیے ہیں، مثلاً: 6 جولائی 15ء کے خط میں لکھتے ہیں:
’’ الفاظ حشو سے پرہیز کرنا چاہئے، آپ کی نظم میں بہت سے الفاظ حشو ہیں۔ محاورہ کی درستی کا بھی خیال ضروری ہے۔ سودا سر میں ہوتا ہے نہ دل میں۔ علیٰ ہذا القیاس عہد کو یا وعدہ کو بالائے طاق رکھتے ہیں نہ بالائے بام وغیرہ، اسی طرح مرکب کی عناں ہوتی ہے نہ زمام۔ بہت سے الفاظ مثلاً چونکہ تعاقب وغیرہ اشعار کے لئے موزوں نہیں ہیں، ان سے احتراز اولیٰ ہے۔ ہے خوشی تجھ کو کمال۔۔۔۔۔ الخ کے دوسرے مصرعے میں ہر کی ’’ ہ‘‘ تقطیع میں گرتی ہے۔ سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ یہ نظم طویل ہے۔‘‘ 104؎
اسی طرح انہیں صاحب کے نام14اگست1915ء کے خط میں لکھتے ہیں:
’’ یعنی مدہوشوں کو تو آمادہ پیکار کر، اس مصرعے میں پیکار کا لفظ ٹھیک نہیں ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں: یعنی اپنی محفل بے ہوش (یا مدہوش) کو ہشیار کر اور بھی خامیاں اس نظم میں ہیں جو یقینا دو چار بار پڑھنے سے آپ کو معلوم ہو جائیں گی۔۔۔۔۔ گذشتہ خط میں جو آپ نے نظم لکھی تھی اس میں ایک لفظ زمام تھا جس پر میں نے اعتراض کیا تھا۔ غالباً میں نے اعتراض کیا تھا کہ زمام کا لفظ ناقہ یا شتر کے لئے خاص ہے، مرکب کے لئے عناں چاہئے۔ اس کے بعد میرے دل میں خود بخود شبہ سا پیدا ہو گیا۔ میں نے فارسی کی لغات میں جستجو کی۔ معلوم ہوا کہ زمام کا لفظ مرکب کے لئے بھی آ سکتا ہے گو ناقے کے لئے یہ لفظ خصوصیت سے مستعمل ہوتا ہے۔ صاحب بہار عجم نے کوئی سند ایسے استعمال کی نہیں لکھی مگر چونکہ انہوں نے فارسی الفاظ و محاورات کی تحقیق و تدقیق میں بڑی جانفشانی کی ہے اس واسطے ان کے بیان بلا سند کو بھی قابل اعتبار سمجھنا چاہئے۔ یہ اس واسطے لکھتا ہوں کہ آپ اس غلطی میں مبتلا نہ رہیں جو میری لا علمی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔‘‘ 105؎
اسی طرح ایک اور خط میں لکھتے ہیں:
’’ تراکیب و الفاظ کی ساخت و انتخاب محض ذوق پر منحصر ہے اور ایک حد تک زبان فارسی کے علم پر۔ آپ فارسی زبان کی کتابیں خصوصااشعار پڑھا کریں۔ مثلاً دیوان بیدل، نظیری نیشاپوری، صائب جلال اسیر، عرفی، غزالی مشہدی، طالب آملی وغیرہ ان کی مزاولت سے مذاق صحیح خود بخود پیدا ہو گا اور زبان کے محاورات سے بھی واقفیت پیدا ہو گی۔ عروض کی طرف خیال لازم ہے۔ اس نظم کا پہلا مصرع ہی بہ اعتبار عروض غلط ہے۔ زنجیر، فقیر، وزیر، عسکری، روکشی، تفسیر، خوان مسلم کا خوشہ چین وغیرہ۔۔۔۔ پست اور خلاف محاورہ ہیں۔ خوان کا خوشہ چیں نہیں کہتے، خرمن کا خوشہ چین ہوتا ہے۔ خوان کا زلہ ربا کہتے ہیں۔ ہے کے ’’ی‘‘ کو طول دینا برا معلوم ہوتا ہے۔۔ آہ میں ’’ ہ‘‘ کی آواز کو چھوٹا کرنا یوں بھی برا ہے۔ ایک ہی مصرع اردو میں چار اضافتیں بری معلوم ہوتی ہیں، اس سے فارسی والے بھی محترز ہیں۔‘‘ 106؎
یہ تمام مشورے تو اقبال نے دیے اور کبھی کبھار بعض اشعار پر اصلاح بھی دی، مگر ایک خط میں صاف صاف فرما دیا:’’ تلمذ سے مجھے معاف فرمایے‘‘ اس کے علاوہ اپنے ایک خط مورخہ2جون31ء میں یہ بھی لکھ دیا:’’ اصلاح سے معاف فرما یے کہ نہ فرصت ہے نہ اہلیت‘‘ مگر جہاں تک اہلیت کا تعلق ہے وہ تو مندرجہ بالا مثالوں سے واضح ہے کہ اقبال میں اصلاح شعر کی صلاحیت و اہلیت بدرجہ اتم موجود تھی، اور اگر وہ چاہتے تو انتہائی خوش اسلوبی سے اس فرض کو ادا کر سکتے تھے مگر بالعموم اس لئے پہلو تہی کرتے تھے کہ ان کے پاس فرصت کی کمی تھی۔
اقبال کے خطوں سے ان کے نظریہ فن کے متعلق بیش قیمت معلومات و نکات فراہم ہوتے ہیں۔ انہوں نے غالباً نظری تنقید نگاروں مثلاً ڈرائیڈن، آرنلڈ وغیرہ کا خصوصی مطالعہ نہیں کیا تھا بلکہ قدیم یونان اور جدید مغرب کے تمام فلاسفروں اور فن کے بارے میں ان کے نظریوں کو غور سے پڑھاتھا۔ اسی لئے ان کے نظریہ فن میں غیر معمولی شادابی اور توانائی ہے اور ان کے ادبی اور تنقیدی نقطہ نظر میں شروع سے آخر تک زندگی و تازگی اور صحت و انفرادیت ملتی ہے۔ اقبال فن برائے فن کے مخالف تھے اور وہ آرٹ کو اخلاقیات اور حیاتیات سے علیحدہ کرنا چاہتے تھے۔ 107؎ ایک جگہ انہوں نے اس مہلک نظریے پر سختی سے نکتہ چینی کی ہے، سید سلیمان ندوی کے نام مورخہ 10 اکتوبر1919ء میں لکھتے ہیں:
’’ شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کے کبھی میرا مطمح نظر نہیں رہا کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لئے وقت نہیں، مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو اور بس، اس بات کو مدنظر رکھ کر جن خیالات کو مفید سمجھتا ہوں، ان کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں، کیا عجب کہ آئدنہ نسلیں مجھے شاعر تصور نہ کریں، اس واسطے کہ آرٹ (فن) غایت درجہ کی جانکاہی چاہتا ہے اور یہ بات موجودہ حالات میں میرے لئے ممکن نہیں۔‘‘ 108؎
اقبال شاعری کے لئے حیات بخشی کو ضروری سمجھتے ہیں، وہ ایسے آرٹ کو اہمیت دیتے ہیں، جس کی کوئی غایت نہ ہو، ان محدود معنوں میں وہ اپنے آپ کو شاعر بھی نہیں کہتے:
’’ میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا۔ اس واسطے کوئی میرا رقیب نہیں اور نہ میں کسی کو اپنا رقیب تصور کرتا ہوں، فن شاعری سے مجھے بھی دلچسپی نہیں رہی، ہاں بعض مقاصد خاص رکھتا ہوں جن کے بیان کے لئے اس ملک کے حالات و روایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔‘‘ 109؎
علامہ اقبال کے نزدیک ایسا آرٹ جو معنوں کو پست اور جذبات کو مردہ کرنے والا ہو، اہم نہیں ہے، اسی طرح زبان کے معاملے میں بھی ان کا نظریہ، زندگی سے علیحدہ نہیں ہے،و ہ اسے جامد اور میکانکی چیز نہیں سمجھتے۔ سردار عبدالرب نشتر کو لکھتے ہیں:
’’ زبان کو میں ایک بت تصور نہیں کرتا جس کی پرستش کی جائے بلکہ اظہار مطالب کا ایک انسانی ذریعہ خیال کرتا ہوں۔ زندہ زبان انسانی خیالات کے انقلاب کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اور جب اس میں انقلاب کی صلاحیت نہیں رہتی تو مردہ ہو جاتی ہے۔ ہاں تراکیب کے وضع کرنے میںمذاق سلیم کو ہاتھ سے نہ دینا چاہئے۔‘‘ 110؎
غرض علامہ کا طبعی انکسار اور عجز و بے نفسی ان کے خطوط میں قدم قدم پہ جھلک دکھاتا ہے۔۔ علامہ سے زیادہ فن کی باریکیوں اور شعر کے حسن و قبح سے کون واقف تھا؟ مگر علامہ شعراء کی صف میں خود کو شما رنہیں کرتے اور حقیقت حال بھی یہ ہے کہ وہ سرکاری، درباری اور مشاعروں کے شاعروں سے یکسر مختلف تھے۔ دراصل وہ ایک پیامبر تھے، جنہوں نے اظہار مطالب کے لئے شعر کا قالب اپنایا۔۔۔۔۔
اقبال کے خطوط کے مطالعہ سے یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے دل و دماغ کی سرگزشت بھی مختصر طور پر لکھنا چاہتے تھے، جس سے لوگوں کو ان کی شاعری اور افکار کے سمجھنے میں سہولت ہو۔ 11 ؎ لیکن یہ کام وہ نہ کر سکے، تاہم ان کے خطوں میں ایسا مواد موجود ہے، جو ان کی نظموں اور تنقیدی صلاحیتوں پر روشنی ڈال سکتا ہے۔ عطیہ بیگم فیضی کے نام خط میں لکھتے ہیں:
’’ مجھے نظموں کے انتخاب میں بے حد مشکل پیش آ رہی ہے، گذشتہ 5, 6 برس کے عرصے میں جتنی بھی نظمیں کہی ہیں، وہ نجی حیثیت رکھتی ہیں اور میرا خیال ہے کہ عوام کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی۔ ان میں سے بعض میں نے ضائع بھی کر دی ہیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی چرا کر چھپوا دے۔‘‘ 112؎
سرکشن پرشاد شاد کو لکھتے ہیں۔
’’ اس تنہائی میں مثنوی اسرار خودی کے حصہ دوم کا کچھ حصہ لکھا گیا اور ایک نظم کے خیالات یا پلاٹ ذہن میں آئے جس کا نام ہو گا ’’ اقلیم خاموشاں‘‘ یہ نظم اردو میں ہو گی اور اس کا مقصود یہ دکھانا ہو گا کہ مردہ قومیں دنیا میں کیا کرتی ہیںان کے عام حالات و جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں۔ ‘‘ 113؎
منشی سراج الدین کے نام خط میں ’’ پرندے کی فریاد‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ مندرجہ بالا نظم کی بندش ملاحظہ فرمائیے چونکہ بچوں کے لئے ہے اس واسطے اضافات اور وقت مضمون سے خالی ہے۔ علاوہ ازیں فریاد کرنے والے آخر پرندہ ہے۔‘‘ 114؎
’’ پیام مشرق‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ فی الحال میں ایک مغربی شاعر کے دیوان کا جواب لکھ رہا ہوں جس کا قریباً نصف حصہ لکھا جا چکا ہے، کچھ نظمیں فارسی میں ہوں گی کچھ اردو میں۔‘‘ 115؎
نظم ’’ خضر راہ‘‘ کے متعلق سید سلیمان ندوی کے نام خط میں لکھتے ہیں:
’’ جوش بیان کے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا ہے صحیح ہے، مگر یہ نقص اس نظم کے لئے ضروری تھا (کم از کم میرے خیال میں) جناب خضر کی پختہ کاری، ان کا تجربہ اور واقعات و حوادث عالم پر ان کی نظر ان سب باتوں کے علاوہ ان کا انداز طبیعت جو سورۂ کہف سے معلوم ہوتا ہے اس بات کا مقتضی تھا کہ جوش اور تخیل کو ان کے ارشادات میں کم دخل ہو، اس نظم کے بعض بند میں نے خود نکال دیے اور محض اس وجہ سے کہ ان کا جوش بیان بہت بڑھا ہوا تھا اور جناب خضر کے اندر طبیعت سے موافقت نہ رکھتا تھا، یہ بن اب کسی اور نظم کا حصہ بن جائیں گے۔‘‘ 116؎
اسی طرح’’ ضرب کلیم‘‘ کے آرٹ کے متعلق سر راس مسعود کے نام خط (اقبالنامہ، حصہ اول ص:381)اور’’ جاوید نامہ‘‘ کے متعلق ان کے خطوط میں تفصیل سے وضاحت ملتی ہے چنانچہ ہم بہ قول ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کہہ سکتے ہیں:’’ کلام اقبال کے بعض حصوں کے پس منظر کو جاننے اور تخلیقی محرکات کے ساتھ ساتھ فنی باریکیوں کو سمجھنے کے لئے یہ خطوط بہت اہم ہیں۔‘‘ 117؎ اسی طرح سید وقار عظیم لکھتے ہیں:
’’ ان خطوں میں اقبال کے کلام کی تشریح اور توضیح کے ایسے نکات ملتے ہیں جن میں بحث، تجزیے، تاویل اور توجیہہ نے فکر و خیال کی پیچیدگیوں کی عقدہ کشائی کی ہے۔‘‘ 118؎
اقبال کے خطوں سے ان کے افکار پر بھی روشنی پڑتی ہے، وہ تصوف سے بخوبی واقف تھے لیکن گو سفندی طبیعت اور خانقاہی مزاج کو پسند نہیں کرتے تھے، ان کے نظام فکر میں مسکینی و محرومی کو دخل نہیں ہے، اس لئے انہوں نے عجمی تصوف کی افیونی خصوصیت کی جا بجا مخالفت کی ہے:
’’ حضرت امام ربانی نے مکتوبات میں ایک جگہ بحث کی ہے کہ گستن اچھا ہے یا پیوستین میرے نزدیک گستن عین اسلام ہے اور پیوستین رہبانیت یا ایرانی تصوف ہے اور اسی کے خلاف میں صدائے احتجاج بلند کرتا ہوں۔ گذشتہ علمائے اسلام نے بھی ایسا ہی کیا ہے اور اس بات کی تاریخی شہادت موجود ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب آپ نے مجھے سرالوصال کا خطاب دیا تھا تو میں نے آپ کو لکھا تھا کہ مجھے سر الفراق کہا جائے۔ اس وقت میرے ذہن میں یہی امتیاز تھا جو مجدد الف ثانی نے کیا ہے۔ آپ کے تصوف کی اصطلاح میں اگر میں اپنے مذہب کو بیان کروں تو یہ ہو گا کہ شان عبدیت انتہائی کمال، روح انسانی کا ہے۔ اس سے آگے اور کوئی مرتبہ یا مقام نہیں یا محی الدین ابن عربی کے الفاظ میں عدم محض ہے یا بالفاظ دیگر یوں کہئے کہ حالت سکر منشائے اسلام اور قوانین حیات کے مخالف ہے اور حالت صحو جس کا دوسرا نام اسلام ہے، قوانین حیات کے عین مطابق ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ تھا کہ ایسے آدمی پیدا ہوں جن کی مستقل حالت کیفیت صحو ہو۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ؐ کے صحابہ میں صدیق و عمر تو بکثرت ملے مگر حافظ شیرازی کوئی نظر نہیں آتا۔‘‘ 119؎
ادب اور تصوف پر بحث کرتے ہوئے منشی سراج الدین کے نام خط میں لکھتے ہیں:
’’ یہ حیرت کی بات ہے کہ تصوف کی تمام شاعری مسلمانوں کے پولیٹیکل انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوئی اور ہونا بھی یہی چاہئے تھا جس قوم میں طاقت و توانائی مفوز ہو جائے جیسا کہ تاتاری یورش کے بعد مسلمانوں میں مفقود ہو گئی، تو پھر اس قوم کا نکتہ نگاہ بدل جایا کرتا ہے، ان کے نزدیک ناتوانی ایک حسین و جمیل شے ہو جاتی ہے اور ترک دنیا موجب تسکین۔۔۔۔۔ اس ترک دنیا کے پردے میں قومیں اپنی سستی و کاہلی اور اس شکست کو جوان کو تنازع للبقا میں ہو چھپایا کرتی ہیں۔ خود ہندوستان کے مسلمانوں کو دیکھئے کہ ان کے ادبیات کا انتہائی کمال لکھنو کی مرثیہ گوئی پر ختم ہوا۔‘‘ 120؎
اقبال کا خیال ہے کہ حیات اس لئے وجود میں آئی ہے کہ وہ کائنات کی غیر منظم قوتوں کو تسخیر کر کے ان میں حسین نظم و ضبط پیدا کرے اور انہیں اپنے کام میں لائے، عجمیت اس نظریے کے خلاف ہے، وہ ہمیں جگاتی نہیں، سلاتی ہے، بیدار نہیں کرتی، غافل اور کابل کر دیتی ہے۔ اس لئے اقبال نے اس کی شدت سے مخالفت کی ہے اور اس کو قومی زوال کا سب سے بڑا سبب قرار دیا ہے۔ اس عجمی اثر سے ہمارے ادب میں غیر متوازن جمالی نقطہ نظر پیدا ہوا ہے جسے اقبال نے رد کر کے حسن کو حرکت اور ارتقاء سے وابستہ کر دیا ہے۔ 121؎ اقبال عجمیت کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ ہندوستان کے مسلمان کئی صدیوں سے ایرانی تاثرات کے اثر میں ہیں۔ان کو عربی اسلام سے اور اس کے نصب العین ا ور غرض و غایت سے آشنائی نہیں۔ا ن کے لٹریری آئیڈیل بھی ایرانی ہیں اور سوشل نصب العین بھی ایرانی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس مثنوی میں حقیقی اسلام کو بے نقاب کروں جس کی اشاعت رسول اللہ صلعم کے منہ سے ہوئی۔ صوفی لوگوں نے اسے تصوف پر ایک حملہ تصور کیا ہے اور یہ خیال کسی حد تک درست بھی ہے انشاء اللہ دوسرے حصے میں دکھاؤں گا کہ تصوف کیا ہے اور کہاں سے آیا اور صحابہ کرام کی زندگی سے کہاں تک ان تعلیمات کی تصدیق ہوتی ہے جس کا تصوف حامی ہے۔‘‘ 122؎
اقبال کے خیالات کا اصلی سرچشمہ قرآن ہے اور انہوں نے اکثر جگہ اس کے صحیح مطالعے پر زور دیا (اقبالنامہ، ص:49,50) وہ خود بھی چاہتے تھے کہ عہد حاضر کے افکار کی روشنی میں قرآن کی تشریح کریں، سر راس مسعود کو لکھتے ہیں:
’’ اس طرح میرے لئے ممکن ہو سکتا تھا کہ میں قرآن کریم پر عہد حاضر کے افکار کی روشنی میں اپنے وہ نوٹ تیار کر لیتاجو عرصہ سے میرے زیر غور ہیں۔ لیکن اب تو نہ معلوم کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ اگر مجھے حیات مستعار کی بقیہ گھڑیاں وقف کر دینے کا سامان میسر آئے تو میں سمجھتا ہوں قرآن حکیم کے ان نوٹوں سے بہتر میں کوئی پیشکش مسلمانان عالم کو نہیں کر سکتا۔‘‘ 123؎
اقبال کو قرآن کریم اور مثنوی مولانا روم ؑ سے بڑا شغف رہا ہے اور ان کی فکری تشکیل و ترویج میں ان سر چشموں کے گہرے اور دیرپا اثرات کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیاجا سکتا، خطوط میں ایک جگہ یہ ذکر ملتا ہے کہ انہوں نے مثنوی کبھی بھی شروع سے آخر تک نہیں پڑھی124؎ انہوں نے لکھا ہے کہ ان کی عمر کا زیادہ حصہ مغربی فلسفہ کے مطالعہ میں گزرا ہے۔
اقبال کی نظر وقت کے اہم تقاضوں پر تھی اور وہ ایک جدید معاشرتی نظام کی تلاش میں سرگرداں تھے وہ نئے نظام میں مذہب کے اعلیٰ اور صحت مند تصور کو باقی رکھنا چاہتے تھے اور ان کی دلی خواہش تھی کہ ماضی کی توانا روایات اور عناصر کی مدد سے مستقبل کو سنوارا جائے، وہ قوموں کی زندگی میں نئے اور پرانے دونوں عناصر کو برابر کی اہمیت دیتے تھے، ان کی آرزو تھی کہ پرانے حقائق کو جدید افکار کی روشنی میں پیش کیا جائے۔ سید سلیمان ندوی کو15 جنوری 1934ء کے خط میں لکھتے ہیں:ـ
’’ دنیا اس وقت عجیب کشمکش میں ہے، جمہوریت فنا ہو رہی ہے اور اس کی جگہ ڈکٹیٹر شپ قائم ہو رہی ہے۔ جرمنی میں مادی قوت کی پرستش کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ سرمایہ داری کے خلاف پھر ایک جہاد عظیم ہو رہا ہے، تہذیب و تمدن (بالخصوص یورپ میں) بھی حالت نزع میں ہے، غرض کہ نظام عالم ایک نئی تشکیل کا محتاج ہے۔ ان حالات میں آپ کے خیال میں اسلام اس جدید تشکیل کا کہاں تک ممد ہو سکتا ہے۔ ‘‘ 125؎
اقبال ایک وسیع المطالعہ شخص تھے، اس بات کی شہادت سید سلیمان ندوی کے نام خطوط سے ملتی ہے، ان کے نام خطوط میں اقبال تلاش و تحقیق میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔ 23اکتوبر 1918ء کے خط میں صائب، مخلص، کاشی، یحییٰ شیرازی اور30اکتوبر کے خط میں ناصر علی، صائب، زلالی، ظہوری، ملا طغرا، بیدل ، قآانی کے حوالے دیے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ شعر العجم، ملفوظات، انسائیکلو پیڈیا آف اسلام، لطائف غیبی، ابطال ضرورت، باہر عجم، تذکرہ علامہ مشرقی اور تذکرہ مولانا ابو الکلام وغیرہ اہم تصانیف کے حوالوں سے ان کے گہرے علمی انہماک اور مطالعہ کا پتہ چلتا ہے۔ مسئلہ زماں سے اقبال کو بڑی دلچسپی تھی۔ وہ اس جدید فلسفے کو اسلامی افکار سے ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے۔ 126؎ اس ضمن میں اسلامی فلاسفہ کی تصانیف کی تلاش پر وہ خاصے متجسس دکھائی دیتے ہیں۔ لمعات، فصوص الحکم، الفتوحات، رسالہ العلم، بغداد کے قدیم صوفیہ، عبقات، تحقیق زماں، جواہر الفرد، مباحث مشرقیہ، شرح مواقف، ارشاد الفعول، طریق الحکمیہ، المقابلات، شمس بازغہ، صدرا، حجتہ اللہ البالغہ، رسالہ اتقان فی غایتہ الزماں، تحقیق المکان، تفہیمات الٰہیہ، درایتہ الزماں وغیرہ دقیق مباحث پر مشتمل کتابوں سے ان کے فلسفیانہ ذوق و شوق کا پتہ چلتا ہے۔ تازہ ترین تصانیف بھی ان کے زیر مطالعہ رہتیں، فکر و فلسفہ کے یہ نشانات شاعری میں بہت کم پائے جاتے ہیں بہ قول، رفیع الدین ہاشمی: ’’ مکاتیب اقبال، ان کے شعور تحقیق و تنقید اور شعری و ادبی نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہیں بلکہ اس سے ان کے تبحر علمی اور وسعت مطالعہ کا بھی پتہ چلتا ے۔‘‘ 127؎
مکاتیب اقبال سے ان کے مستقبل کے بعض تصنیفی منصوبوں کا پتہ چلتا ہے جن کے مطابق وہ قرآن، فقہ، تصوف اور اجتہاد وغیرہ کے متعلق مندرجہ ذیل مضامین و کتب لکھنا چاہتے تھے:
1مقدمہ القرآن 2 اسلامی تصوف کی تاریخ
3 حیات مستقبلہ اسلامیہ 4 قلب و دماغ کی سرگذشت
5 اسلامی فقہ کی تاریخ 6 تاریخ ادب اردو
7فصوص الحکم پر تنقید 8 رامائن (اردو میں)
9 The Book of frogotten Prophet.
اس طرح ہمیں ان کے خطوط سے موعودہ تصانیف کے بارے میں خاصی معلومات مل جاتی ہیں۔
علامہ کی سیرت کی ایک اہم خصوصیت ان کی وسیع القلبی ہے، انہوں نے اپنے معاصرین کا ذکر بڑے احترام سے کیا ہے ان کے جتنے مجموعہ ہائے مکاتیب اب تک شائع ہوئے ہیں، ان میں ایک بھی خط ایسا نہیں جس سے ہم عصرانہ چشمک کا اظہار ہو، شیخ عطاء اللہ (ایم اے) لکھتے ہیں:
’’ اقبال نے کبھی کسی دوست کو کسی دوسرے دوست یا بیگانے کے متعلق ایسی بات نہیں لکھی جو براہ راست اسے لکھنے یا کہنے پر آمادہ نہ ہوں۔‘‘ 128؎
اقبال نجی محفلوں اور پرائیویٹ گفتگوؤں میں بڑے بذلہ سنج، خوش گفتار اور ظریف انسان تھے۔ بے تکلف دوستوں خصوصاً مولانا گرامیؒ کے نام خطوں میں اس شگفتہ طبعی کا اظہار اکثر ہوتا ہے:
’’ آپ کہاں ہیں؟ حیدر آباد میں یا عدم آباد میں؟ اگر عدم آباد ہوں تو مجھے مطلع کیجئے کہ تعزیت نامہ لکھوں۔‘‘ 129؎
’’ گرامی سال خوردہ ہے یعنی سالوں اور برسوں کو کھا جاتا ہے۔ پھر بوڑھا کیونکر ہو سکتا ہے، بوڑھا تو وہ ہے جس کو سال اور برس کھا جائیں۔‘‘130؎
’’ مولانا گرامی ابھی آلام و افکار سے آزاد نہیں۔ عرصہ ہوا میں نے انہیں خط لکھا تھا مگر ان کے لئے خط کا جواب دینا ایسا ہی نا ممکن ہے جیسا کہ روس کا موجودہ حالت میں جرمنی سے لڑ سکنا۔‘‘ 131؎
’’ گرامی صاحب نے شاید ملک الموت کو کوئی رباعی کہہ کر ٹال دیا ہے اور کیا تعجب کہ ہجو کہنے کی دھمکی دی ہو‘‘ 132؎
’’ آپ کے کبوتر بہت اچھے ہیں مگر افسوس کہ زمانہ حال کی مغربی تہذیب سے بہت متاثر معلوم ہوتے ہیں۔ مقصود اس سے یہ ہے کہ بچوں کی پرورش سے بہت بیزار ہیں۔‘‘ 133؎
ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی کے نام لکھتے ہیں:
’’ تمام لاہور میں اس بات کا چرچا ہے کہ ماسٹر عبداللہ اعلان آزادی کے خوف سے کہیں بھاگ گئے ہیں۔ کیا یہ واقعی درست ہے؟‘‘ 134؎
ان خطوں میں ہمیں تخیلاتی دنیا میں مگن رہنے والے اقبال کے علاوہ اس اقبال سے بھی قریب آنے کی سعادت حاصل ہوتی ہے جو ہماری طرح گوشت پوست کا ایک معمولی انسان ہے اور اپنے غم میں دوسروں کو شریک کرنے کے علاوہ دوسروں کے غم پر رونے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے۔ 135؎ 1908ء میں یورپ سے واپسی کے بعد اقبال کی ذہنی کیفیت پر حیرت انگیز حد تک یاس و درماندگی چھائی ہوئی ہے۔ وہ شراب نوشی میں پناہ لینا چاہتے ہیں، یا ترک وطن کرنے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں، یا پھر سپیرا بن کر در بدر پھرنے کا ذکر کرتے ہیں، ذہن اقبال کی یہ سب سے زیادہ اذیت ناک تصویر ہے ۔ عطیہ فیضی کو لکھے خطوط کے علاوہ بھی ان کی اس ذہنی کیفیت کا ذکر ملتا ہے، اکبر الہ آبادی کو لکھتے ہیں:
’’ لاہور ایک بڑا شہر ہے لیکن میں اس ہجوم میں تنہا ہوں ۔ ایک فرد واحد بھی ایسا نہیں جس سے دل کھول کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جا سکے۔‘‘ 136؎
مولانا شوکت علی کو1914ء میں لکھا تھا:
’’ بھائی شوکت! اقبال عزلت نشین ہے اور اس طوفان بے تمیزی کے زمانہ میں گھر کی چار دیواری کو کشتی نوح سمجھتا ہے۔ دنیا اور اہل دنیا کے ساتھ تھوڑا بہت تعلق ضرور ہے مگر محض اس وجہ سے کہ روٹی کمانے کی مجبوری ہے۔ تم مجھے علی گڑھ بلاتے ہو، میں ایک عرصہ سے خدا گڑھ میں رہتا ہوں اور اس مقام کی سیر کئی عمروں میں ختم نہیں ہو سکتی۔‘‘ 137؎
علی گڑھ اور لاہور کی تعلیمی ملازمت کی پیش کش کو ٹھکرا دیا۔ وہ قید ملازمت سے آزاد رہنا چاہتے ہیں۔ خطوط اقبال کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال گرد و پیش کے حالات سے مطمئن نہ تھے۔ انہیں جو کام انجام دینا تھا اسے تعمیل تک نہ لے جا سکے۔ بظاہر ان کی خارجی زندگی پر سکون نظر آتی ہے لیکن خطوط کے بین السطور افکار کے تلاطم کا اضطراب ذہن اقبال کی حیرت انگیز تصویر پیش کرتا ہے۔
ان خطوط میں بعض جملے حکیمانہ اقوال کا درجہ رکھتے ہیں، مثلاًـ:
’’ حدود خودی کے تعین کا نام شریعت ہے اور شریعت اپنے قلب کی گہرائیوں میں محسوس کرنے کا نام طریقت ہے۔‘‘ 138؎
’’ طاقت کا سرچشمہ فراست ہے۔‘‘ 139؎
’’ اکثر انسانوں کو کنج تنہائی میں بیٹھے ہمہ دانی کا دھوکا ہو جاتا ہے۔‘‘140؎
’’ شاعری محض محاورات اور اظہار بیان کی صحت سے بڑھ کر کچھ اور بھی ہے۔‘‘ 141؎
اقبال کے خطوط کی زبان اور اسلوب بالعموم سادہ اور آسان ہے، البتہ کہیں کہیں مشکلا ور غریب الفاظ آ گئے ہیں، مثلاً : تعزز، حظوظ، ارقام، مرئیات، اعصاد (اعصار) ایقاطی وغیرہ۔ وہ فقروں کی بناوٹ میں طوالت سے پرہیز کرتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے فقرے ان کی اختصاد پسند طبیعت سے فطری مناسبت رکھتے ہیں۔ اس سے بیان کی سادگی قائم رہتی ہے اور اثر آفرینی بھی بڑھ جاتی ہے، مثلاً:
’’ اب اسلامی جماعت کا محض خدا پر بھروسہ ہے۔ میں بھلا کیا کر سکتا ہوں، صرف ایک بے چین ا ور مضطرب جان رکھتا ہوں، قوت عمل مفقود ہے۔ ہاں یہ آرزو رہتی ہے کہ کوئی قابل نوجوان جو ذوق خدا داد کے ساتھ قوت عمل بھی رکھتا ہو، مل جائے۔ جس کے دل میں اپنا اضطراب نقل کر دوں۔‘‘ 142؎
’’ مکاتیب اقبال بنام گرامی‘‘ کے فاضل مرتب محمد عبداللہ قریشی نے اقبال کے خطوط کے اسلوب نگارش پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ جہاں تک گرامی کے نام اقبال کے زیر نظر خطوط کا تعلق ہے، ان میں اکثریت ایسے خطوں کی ہے جو اردو نثر کا نہایت شگفتہ نمونہ ہیں۔ یہ نہ بے رنگ ہیں نہ خشک۔ اقبال کی دیگر علمی تحریروں کی طرح ان کی عبارت میں رعب و دبدبہ بھی ہے اور وزن بھی۔ فکر کی جولانی بھی ہے اور خیال کی برجستگی بھی۔ بعض بعض جگہ تو شاعری نثر سے ہم آغوش نظر آتی ہے۔‘‘143؎
یہ خصوصیت ان ہی خطوط تک محدود نہیں ہے جو حضرت گرامی کو لکھے گئے ہیں، دوسرے خطوط میں بھی موجود ہے، مثلاً: خواجہ حسن نظامی مرحوم کو 25 اپریل 1906ء کو ایک خط لکھا تھا جس کا آغاز یوں ہوتا ہے:
’’ سرمست سیاح کو سلام، متھرا۔ ہر دوار، جگن ناتھ، امرناتھ جی سب کی سیر کی۔ مبارک ہو، مگر بنارس جا کر لیلام ہو گئے۔‘‘ اس کے بعد لکھتے ہیں:ـ’’ میرے پہلو میں ایک چھوٹا سا بت خانہ ہے کہ ہر بت اس صنم کدے کا رشک صنعت آذری ہے۔ اس پرانے مکان کی کبھی سیر کی ہے خدا کی قسم، بنارس کا بازار فراموش کر جاؤ۔‘‘ 144؎ غرض یہ کہ :’’ سوانحی ، جذباتی اور فکری اہمیت سے قطع نظر وہ اسلوب کی خوبصورتی اور نثر کی شگفتگی سے خالی نہیں ہے۔‘‘ 145؎
غرض ان خطوط سے علامہ اقبال کی ایک مستند سوانح مرتب کی جا سکتی ہے، ان میں ان کے روز و شب کی معمولی معمولی تفصیلات آ گئی ہیں، آخر میں ان خطوط کی اہمیت پروفیسر آل احمد سرور کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے:
’’ ان خطوط کی دلچسپی، ان کی شوخی، رنگینی، ظرافت، ادبیت میں نہیں، ان کے خیالات کی اہمیت اور عظمت میں مضمر ہے، ان میں سچے اور پوری طرح محسوس کئے ہوئے خیال کا حسن ہے جسے کسی اور حسن کی ضرورت نہیں۔‘‘ 146؎
٭٭٭
حواشی
1۔ مکاتیب اقبال، بنام: خان محمد نیاز الدین خان، ص:24
2۔ اقبال کی صحبت میں، ص:470
3۔ اقبال نامہ، اول، مرتبہ: شیخ عطاء اللہ، ص:3,4
4۔ ملفوظات، ص:120، بحوالہ: تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، از: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ص:207, 208
5 ۔ اقبال کی صحبت میں، از: ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، ص:481
6۔’’ مکاتیب اقبال کے ماخذ‘‘ از: صابر کلوروی، ص:41, 42 مشمولہ: اقبال ریویو، جولائی 1982ء
7 ۔شاد اقبال، ص:36
8۔ مہاراجہ سر کشن پرشاد شاد، حیات اور ادبی خدمات، ص:41، بحوالہ: تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، از: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ص:210
9۔ شاد اقبال، ص:36
10۔ تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، از: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ص:211
11۔ شاد قبال، ص:36
12۔ 1986ء کا اقبالیاتی ادب (ایک جائزہـ) ص:28
13۔ کتاب مذکور، ص:29
14 ۔ مکاتیب اقبال کے ماخذ، مشمولہ: اقبال ریویو، جولائی 1982ء ص:46
15۔ تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص:217
16۔ دیباچہ:Letters of Iqbal ، 1977ء
17۔ مکاتیب اقبال کے ماخذ، ص:47، مشمولہ، اقبال ریویو، جولائی 1982ء ص:46
18۔ اقبالنامہ، حصہ اول، ص:ح
19مکاتیب اقبال کے ماخذ، مشمولہ: اقبال ریویو، جولائی 1982ء ص:49, 50, 51
20۔ مکاتیب اقبال کے ماخذ، مشمولہ: اقبال ریویو، جولائی 1982ء ص:56
21۔ اقبال کے خطوط، مشمولہ: عرفان اقبال، مرتبہ:128
22۔ تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ 324, 325
23۔ اقبال اور ممنون، از ڈاکٹر اخلاق اثر،1983ء ص:15
24۔ مظلوم اقبال، از: شیخ اعجاز احمد، ص:337
25۔ قصہ ایک خط کا۔۔۔ از: ڈاکٹر وحید عشرت، مشمولہ: مجلہ اقبالیات، اقبال اکادمی لاہور، جولائی۔ ستمبر1987ء ص:98, 99
26۔ اقبال کا فکر و فن، ص:117
27۔ نقش اقبال، ص:184
28 ۔ ’’ اقبال اور بھوپال‘‘ از: مہبا لکھنوی، طبع دوم، 1982ء
29 ۔ تحقیقات و تاثرات، ص:46بحوالہ: اقبال کے کرم فرما، ص:37
30۔ اقبال کے کرم فرما،ا ز: ماسٹر اختر، ص:37, 38 مئی 1989ء
31 ۔ ’’ لمعہ حیدر آبادی کے نام علامہ اقبال کے خطوط دریافت‘‘ از: پروفیسر عبدالرؤف، مشمولہ:ـ ہفت روزہ ’’ ہماری زبان‘‘ انجمن ترقی اردو ہند (دہلی) یکم جون1989ئ، شمارہ:21 ، جلد:48
32۔ سہ ماہی اردو ادب، انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دہلی، ص9تا70 ، شمارہ (3) 1991ء
33 ۔ اقبالنامہ، حصہ اول، ص:ظ
34 ۔ مکاتیب اقبال پر ایک تنقیدی نظر، مشمولہ: اقبال ایک تحقیقی مطالعہ، ص:248
35۔ Letters of Iqbal، ص148
36۔اقبال نامہ، حصہ دوم، ص:14, 15
37 ۔ایضاً، ص83
38۔ سیارہ، لاہور، جون جولائی 1992ئ، ص:297, 298
39 ۔ مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خاں مرحوم، طبع دوم، ص:89
40۔ ایضاً، ص:9
41۔ مکاتیب اقبال بنام: خان محمد نیاز الدین خان، طبع دوم، ص:16
42۔ تمہید، مکتوبات اقبال، ص:1
43۔ مکاتیب اقبال کے ماخذ، از: صابر کلوروی، مشمولہ: اقبال ریویو، جولائی 1982ء ، ص:69
44۔ تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص:235
45۔ مکاتیب اقبال ماخذ، از: صابر کلوروی، ص:69, 70
46۔ مکتوبات اقبال، ص:ح
47: پیش لفظ ’’ انوار اقبال‘‘ ص:6, 7
48تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص:240
49۔ مکاتیب اقبال کے ماخذ، مشمولہ: اقبال ریویو، جولائی 1982ئ، ص70
50۔ مکاتیب اقبال کے ماخذ، از : صابر کلوروی، مشمولہ: اقبال ریویو، جولائی 1982ئ، ص:72
51۔ ایضاً، ص:72, 73
52, 53, 54 تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص:242
55 ۔ تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص:247
56۔ اقبال ایک مطالعہ، ص:249
57۔ مکاتیب اقبال کے ماخذ، مشمولہ: اقبال ریویو، جولائی 1982ء ، ص:83
58 تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص:251
59۔ مکاتیب اقبال پر ایک تنقیدی نظر، مشمولہ: اقبال ایک مطالعہ، ص:250
60۔ خطوط اقبال بنام بیگم گرامی، کا جائزہ ہم آئندہ صفحات میں لیں گے۔
61۔ عرض مرتب، ص:22, 23
62 ۔ مکاتیب اقبال کے ماخذ، مشمولہ: اقبال ریویو، ص:85
63۔ خطوط اقبال کا دسواں مجموعہ، مشمولہ: تفہیم اقبال، 1985ئ، ص:66, 67
64۔ تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص:256
65۔ مکاتیب اقبال پر ایک تنقیدی نظر، مشمولہ: اقبال ایک مطالعہ، ص:250
66۔ خطوط اقبال کا دسواں مجموعہ، مشمولہ: تفہیم اقبال، از : پروفیسر فروغ احمد، ص:55
67۔ ’’ تقریب‘‘ ص:66, 67
68۔ بیابہ مجلس اقبال، از: ڈاکٹر حمید یزدانی، طبع اول، 1987ء ص:378
69 ۔ مکاتیب اقبال پر ایک تنقیدی نظر، مشمولہ: اقبال ایک مطالعہ، ص:251
70۔ صحیح جملہ اس طرح ہے:’’ پانچ سال کی مدت‘‘ علامہ نے بہ عجلت’’ کی‘‘ پہلے لکھ دیا۔
71۔ اقبال نامے، ص:9
72۔ ریاست بھوپال اور اقبال، از: ماسٹر اختر، 1987ئ، ص:83
73۔ دیباچہ، از: اقبال۔۔۔۔۔ جہان دیگر، ص:15
74۔ مقدمہ، از سید مظفر حسین برنی، ص41تا43
75۔ مقدمہ، از مرتب، ص44
76 ۔ حوالہ مذکور، ص48
77 ۔ مجلہ اقبال، اپریل، جولائی 1992ئ، بزم اقبال لاہور، ص:129 تا131
78 ۔ ہفت روزہ’’ ہماری زبان‘‘ انجمن ترقی اردو ہند (دہلی) یکم جنوری 1990ئ، شمارہ:1 جلد 49 ، ص6
79 ۔ تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص:272
80۔ ایضاً، ص:276
81۔ مجلہ اقبال، اپریل، جولائی 1992ئ، بزم اقبال لاہور، ص:135
82۔ اقبالیات کے تین سال، ص:30
83 ۔ تحقیق نامہ، شعبہ اردو گورنمنٹ کالج لاہور، شمارہ:1 ، 1991-84ء ص:11 تا34
84۔ ایضاً1994-95، ص:251 تا266
85 ۔ فنون، مدیر: احمد ندیم قاسمی، سالنامہ، ستمبر۔۔۔۔۔ دسمبر1992ئ، شمارہ 37 لاہور، ص:40
86۔ ماہنامہ ’’ سیارہ‘‘ لاہور، سالنامہ فروری 1994ئ، ص394 تا440
87۔ انوار اقبال، مرتبہ: بشیر احمد ڈار، ص:11
88۔ روح مکاتیب اقبال، ص:65
89۔ اقبال کی صحبت میں، از: محمد عبداللہ چغتائی، ص:471
90۔ مکاتیب اقبال کا تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ، مشمولہ: دانائے راز، ص:ـ128,129
91۔ تنقید اقبال اور دوسرے مضامین، از: ڈاکٹر عبدالحق ص:71
92 ۔ اقبال ایک مطالعہ، ص:245
93 ۔ خطوط اقبال کی اہمیت، از: ڈاکٹر جمیل جالبی، مشمولہ: اقبال دور جدید کی آواز، مولفہ: سلطانہ مہر، ص:20
94۔ مکاتیب اقبال کا تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ، از: عبداللطیف اعظمی، مشمولہ: دانائے راز ص:130
95۔ ایضاً، ص:130
96۔ مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خاں، طبع دوم، 1986ئ، ص:26
97 ۔ مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خاں، طبع دوم، 1986ئ، ص:28
98۔ ایضاً
99 ۔ تذکرہ، طبع اول، مکتبہ احباب لاہور، ص:13، بحوالہ: دانائے راز، از: عبداللطیف اعظمیٰ، ص:138
100۔ اقبالنامہ، حصہ اول، مرتبہ: شیخ عطاء اللہ ص:110, 111
101۔ایضاً، ص:427, 428
102۔ انوار اقبال، مرتبہ: بشیر احمد ڈار، طبع دوم، 1977ئ، ص:110
103۔ تنقید اقبال اور دوسرے مضامین، ص:63
104 ۔ انوار اقبال، مرتبہ: بشیر احمد ڈار، ص:111, 112
105 ۔ ایضاً، ص112, 113
106۔ ایضاً، ص:114, 115
107 ۔ اقبال کے خطوط، از: ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی، مشمولہ: اقبال آئینہ خانے میں، مرتبہ آفاق احمد، ص:132
108 ۔ اقبالنامہ، حصہ اول، ص:108
109 ۔ ایضاً، ص:195
110۔ ایضاً، ص:56
111 ۔ اقبالنامہ، حصہ اول، ص:108
112۔ اقبال از: عطیہ بیگم، ص:73
113۔ شاد اقبال، مرتبہ: ڈاکٹر محی الدین قادری زور، ص:3
114۔ اقبالنامہ، حصہ اول، ص:22
115۔ اقبالنامہ، حصہ اول، ص:107
116۔ اقبالنامہ، حصہ اول، ص:119
117 ۔ اقبال ایک مطالعہ، ص:233
118 ۔ اقبال۔۔۔۔۔۔ خطوں کی روشنی میں، مشمولہ اقبالیات کا مطالعہ، مرتبہ: ڈاکٹر سید معین الرحمن، 1977ئ، ص:208
119 ۔ خطوط اقبال، ص:116, 117
120۔ اقبالنامہ، حصہ اول، ص:44, 45
121 اقبال کے خطوط۔۔۔۔ ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی، مشمولہ: اقبال آئینہ خانے میں، مرتبہ: آفاق احمد، ص: 138, 139
122 ۔ اقبالنامہ، حصہ اول، ص:24
123 ۔ اقبالنامہ، حصہ اول:ـ357, 358
124 ۔ ایضاً، ص:103
125 ۔ ایضاً، صـ:181
126 ۔ ’’ مسلم فلسفہ میں زمان کا مسئلہ‘‘ از: اقبال، تعارف و ترجمہ: از ڈاکٹر تحسین فراقی، مشمولہ: سیارہ، مارچ۔ اپریل 1987ئ، ص:70 تا81
127 ۔ خطوط اقبال، مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، ص:60
128 ۔ اقبالنامہ، حصہ دوم، ص:18
129 ۔ مکاتیب اقبال، بنام گرامی، ص:97
130 ۔ ایضاً، ص:151
131۔ مکاتیب اقبال بنام خان نیاز الدین خاں، ص:8
132 ۔ ایضاً، ص:13
133 ۔ ایضاً، ص:39
134 ۔ اقبالنامہ، حصہ دوم، ص:350
135۔ اقبال۔۔۔۔۔ خطوں کی روشنی میں، مشمولہ: اقبالیات کا مطالعہ، مصنف: سید وقار عظیم، مرتبہ: ڈاکٹر سید معین الرحمن1977ئ۔
136 ۔ اقبالنامہ، حصہ دوم، ص:35
137 ۔ ایضاً، ص:355
138 ۔ اقبالنامہ، حصہ اول، ص:202
139 ۔ ایضاً، ص:445
140 ۔ ایضاً، ص:11
141 ۔ خطوط اقبال، ص:133
142 ۔ اقبالنامہ، حصہ دوم، ص:49
143 ۔ مکاتیب اقبال بنام گرامی، طبع دوم، جون1981ئ، ص:85
144 ۔ اقبالنامہ حصہ دوم۔356
145 ۔ اقبال کے خطوط، از: ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی، مشمولہ: اقبال آئینہ خانے میں، مرتبہ: آفاق احمد، ص:150
146 ۔ اقبال کے خطوط، از: آل احمد سرور، مشمولہ: عرفان اقبال، مرتبہ: زہرا معین، طبع دوم، ص:142
٭٭٭