شعر گوئی ایک وہبی صلاحیت ہے۔ اگرچہ مطالعہ کتب اور علم عروض پر عبور حاصل کرنے کے بعد انسان کسی حد تک قافیہ اور ردیف کے جوڑ توڑ سے شعر کہنا سیکھ جاتا ہے مگر یہ اکتسابی ہنر، وہبی صلاحیت کی جگہ نہیں لے سکتا۔۔۔۔ علامہ اقبال ایک فطری شاعر تھے۔ وہ اتنے پر گو شاعر تھے کہ ایک روایت کے مطابق وہ ایک وقت میں تین سو شعر کہہ لیتے تھے اور پھر حافظہ بھی غیر معمولی تھا، جس ترتیب سے شعر حافظے میں محفوظ ہو جاتے، اسی ترتیب سے وہ بعد ازاں قلم بند کر دیتے۔۔۔ گویا شعر گوئی کے معاملے میں ان کی طبیعت میں سیل ہمہ گیر کی سی روانی اور بے قراری ہوتی تھی۔ حتیٰ کہ زبان بھی اس راہ میں رکاوٹ نہ بن پاتی اور وہ اردو، فارسی دونوں زبانوں میں یکساں روانی اور سہولت سے شعر کہتے چلے جاتے۔۔۔۔۔ چنانچہ اقبال کی شہرت ایک شاعر کی حیثیت سے مسلم ہو گئی۔۔۔۔۔ ان کے اس حیثیت کو تحریر و تقریر کے ذریعے مزید نمایاں کیا گیا مگر وہ نامور شاعر کے ساتھ ساتھ مفکر، معلم، محقق اور نثر نگار بھی ہیں۔۔۔۔ نثر نگار کی حیثیت سے انہیں زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی کیونکہ نثر لکھنا ایک اکتسابی فعل ہے جسے علامہ نے بہ امر مجبوری انجام دیا۔۔۔ علامہ ذاتی طور پر بھی نثر نگاری کی طرف سے بے نیاز رہے، اس لئے نثر میں جو کچھ تحریر کیا اسے یا تو درخور اعتنا نہ جانا یا پھر ضائع کر دیا۔
نثر میں اظہار خیال کے لئے دلائل و براہین اور تفاصیل کی ضرورت ہوتی ہے اور شعر کی طرح دریا کو کوزے میں بند نہیں کیا جا سکتا، علاوہ ازیں تفاصیل کی فراہمی کے لئے کامل یکسوئی اور وقت کی فراوانی اشد ضروری ہے۔ علامہ اقبال اس کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ ان کے پاس وقت کم ہوتا اور وہ دیگر مصروفیات کی نذر ہو جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دل کی لگن یا خوشی سے نثر نگاری کی طرف توجہ نہیں دی۔ جو کچھ تحریر کیا وہ کسی نہ کسی مجبوری یا ضرورت کے تحت لکھا۔۔
باوجودیکہ علامہ اقبال نثر میں اظہار خیال سے کتراتے رہے تاہم انہوں نے جو لکھا وہ مدلل، جامع اور مفصل ہے۔ ان کی نثر کا مطالعہ کرتے ہوئے کہیں ادھورے پن اور تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ زیر بحث موضوع کو مقدور بھر دلائل سے واضح کرتے ہیں اور قارئین کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔۔۔۔ان کی شاعری کے سامنے ان کی دیگر تمام حیثیتیں دب گئی ہیں۔ یا پھر شاعری کے تابع اور ضمنی بن کر رہ گئی ہیں۔ ہم ان کی ان حیثیتوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔۔۔۔ بطور نثر نگار وہ ایک ضمنی حیثیت رکھتے ہیں یہ حیثیت بھی اس لائق ہے کہ شاعری کی طرح اسے بھی وقعت و اہمیت کی نظر سے دیکھا جائے۔۔۔۔ انہوں نے بہت سے ایسے موضوعات پر نثر میں قلم اٹھایا، جو قبل ازیں وہ شعر میں بیان کر چکے تھے۔ ان کی نثر، شعر کی تفہیم میں بھی معاون ثابت ہوتی ہے اور ان کے افکار اور شخصیت کے مخفی گوشوں کو جانچنے اور پرکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔۔۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علامہ کی اس ضمنی حیثیت پر بھی بھرپور توجہ دی جائے تاکہ اقبال شناسی کا حق بہتر طور پر ادا ہو سکے۔۔۔۔۔
نثر نگار کی حیثیت سے علامہ اقبال نے جو کچھ لکھا وہ ہماری اس کتاب کا موضوع ہے۔۔۔۔ نثر میں علامہ کا اولین کارنامہ اقتصادیات کے موضوع پر ایک مستقل علمی کتاب ہے، جو ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔
ایم اے کرنے کے بعد13مئی 1899ء کو اقبال اورینٹل کالج لاہور میں میکلوڈ عربک ریڈر مقرر ہوئے۔ ریڈر شپ کے فرائض منصبی میں تاریخ اور اقتصادیات کی تدریس کے علاوہ مختلف علوم و فنون کی بعض کتابوں کی تالیف اور ان کا ترجمہ شامل تھا۔ اورینٹل کالج کی سالانہ رپورٹ بابت 1901, 1902ء (8جون1902ئ) کے مطابق شیخ محمد اقبا ایم اے نے مندرجہ ذیل تراجم اور تالیفات مرتب کیں:
(1) تاریخ کے موضوع پر Stubbs کی تصنیف Early Plantagenets کی اردو میں تلخیص اور اس کا ترجمہ۔
(2) علم الاقتصاد کے موضوع پر Walker تصنیف Political Economy کی اردو میں تلخیص اور اس کا ترجمہ۔
(3) علم الاقتصاد پر ایک نئی تصنیف (زیر ترتیب) 1؎
اس طرح علامہ اقبال نہ صرف اقتصادیات کا درس دیتے رہے بلکہ انہیں واکر کی کتاب کا ترجمہ کرنے کا بھی موقع ملا۔
علامہ اقبال کی تاریخ پیدائش آج تک ایک متنازع مسئلہ بنی ہوئی ہے، اگرچہ حکومت پاکستان نے سرکاری طور پر9نومبر1877ء کو ان کا سنہ پیدائش قرار دے دیا ہے اور اب پاکستان اور بیرون ملک میں بھی عام طور پر اسے ہی اقبال کا یوم ولادت مانا جاتا ہے، اس کے باوجود ہمارے بہت سے محققین اس سے متفق نہیں ہیں 2؎ اور اقبال کی تاریخ پیدائش پر آج تک کاملاً اتفاق نہیں ہو سکا۔۔۔۔ اسی طرح ان کی پہلی علمی کتاب ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے سال اشاعت پر بھی آج تک حتمی طور پر اتفاق نہیں ہو سکا۔۔۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے اولین ایڈیشن پر اس کا سنہ اشاعت درج نہیں ہے، اور نہ علامہ اقبال نے بذات خود اس کتاب کے سنہ اشاعت کے بارے میں کہیں وضاحت کی ہے۔ اقبال کے مختلف سوانح نگاروں کے ہاں اس کے سال اشاعت کے سلسلے میں متضاد بیانات ملتے ہیں، مثلاً
(1) 1901ئ: قاضی احمد میاں جونا گڑھی
(2) 1903ء : ڈاکٹر عبادت بریلوی
(3) 1904ء : ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
’’ علام الاقتصاد‘‘ کا سال اشاعت1903ء اس لئے قرار دیا جاتا ہے کہ ممتاز حسن نے ’’ علم الاقتصاد‘‘ (طبع دوم، 1961ئ) کے دیباچہ میں سال اشاعت1903ء بتایا ہے اور عام طور پر یہی سنہ کتاب کا سال تصنیف قرار دیا گیا ہے لیکن اب نئی تحقیق کی رو سے کچھ نئے شواہد سامنے آئے ہیں، مثلاً: محمد حمزہ فاروقی اور مشفق خواجہ نے سال تصنیف1904ء قرار دیا ہے۔ محمد حمزہ فاروقی یہ کہتے ہیں کہ یہ کتاب دسمبر1904ء میں شائع ہوئی تھی 3؎ جبکہ مشفق خواجہ کا کہنا ہے کہ یہ کتاب دسمبر1904ء 4؎ تک شائع ہو چکی تھی۔ بظاہر ان دونوں بیانات میں معمولی سا فرق ہے کہ کتاب دسمبر1904ء میں شائع ہوئی اور دسمبر1904ء تک شائع ہو چکی تھی لیکن زیادہ مستند بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ کتاب دسمبر1904ء ’’ تک‘‘ شائع ہو چکی تھی کیونکہ ’’ مخزن‘‘ دسمبر1904ء کے شمارے میں کتاب کی اشاعت کا اعلان چھپا تھا۔ اگر دسمبر’’ میں‘‘ شائع ہوتی تو اسی دسمبر کے شمارے میں اعلان کیسے چھپتا؟ اعلان تو بعد میں مثلاً جنوری کے شمارے میں چھپنا چاہئے تھا۔۔۔۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے مہینے کا تعین کئے بنا محض1904ء کو کتاب کا سنہ اشاعت قرار دیا ہے 5؎ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب نے تعین سنہ کے لئے مختلف حقائق یکجا کئے ہیں اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ کتاب دسمبر1904ء تک شائع ہو چکی تھی۔۔۔۔ ہاشمی صاحب کے فراہم کردہ حقائق اور دلائل کے مطابق ’’ مخزن‘‘ لاہور میں’’ علم الاقتصاد‘‘ کے کچھ حصے اشاعت سے قبل شائع ہوتے رہے۔ ’’ مخزن‘‘ کے شمارے اپریل1904ء میں ’’ علم الاقتصاد‘‘ کا آخری حصہ بہ عنوان ’’آبادی‘‘ اس نوٹ کے ساتھ چھپا:’’ کتاب زیر طبع ہے‘‘ (ص ا) گویا کتاب 1904ء کے اوائل میں مکمل ہوئی اور کتابت کے لئے دے دی گئی۔ اس سے یہ تو واضح ہے کہ اس کا سنہ اشاعت 1901ء یا 1903ء غلط ہے، غالب قیاس یہ ہے کہ فروری کے آخری یا مارچ کے ابتدائی ایام میں تکمیل ہوئی کیونکہ اسی صورت میں آخری باب کی ’’ مخزن‘‘ کے شمارے اپریل میں شمولیت ممکن ہوئی۔ گویا ’’ مخزن‘‘ اپریل 1904ء سے ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی طباعت و کتابت کا اعلان کیا گیا اور دسمبر1904ء کے مخزن میں کتاب شائع ہونے کا اعلان اس طرح چھپا’’ ہم ناظرین کو بڑی خوشی سے یہ اطلاع دیتے ہیں کہ یہ قابل قدر کتاب جس کا ایک باب ’’ مخزن‘‘ میں شائع ہو چکا ہے، چھپ کر تیار ہو گئی ہے۔‘‘ 6؎
درج بالا حقائق کی رو سے ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے سال اشاعت کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے اور اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ہو جاتا ہے، جو ممتاز حسن کے دیباچہ سے پیدا ہوئی تھی، جس میں ممتاز حسن نے کتاب کا سنہ اشاعت1903ء لکھا تھا۔۔۔۔ ہم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کی کتاب کے سنہ اشاعت کی ذیل میں کی گئی تحقیق سے اتفاق کرتے ہوئے یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ کتاب دسمبر1904ء تک شائع ہو چکی تھی۔
پس منظر:
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال نے ’’ علم الاقتصاد‘‘ کیوں لکھی؟ یہ سوال اس لئے بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک شاعر ہیں، اور شاعر ہونے کے ناطے، انہیں ایک غیر شاعرانہ (خشک) موضوع پر نثر میں کتاب لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں مثلاً: ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ واکر (Walker) کی Political Economy نصاب میں شامل تھی، اور اقبال ہر ہفتے گورنمنٹ کالج میں بی اے اور ایم اے کے طلباء کو اس پر درس دیا کرتے تھے۔ انہوں نے درس دینے کے لئے اقتصادیات کا مطالعہ کیا کیونکہ وہ ایک وسیع المطالعہ شخص تھے، گویا اقتصادیات پر کتاب لکھنا منصبی ضرورت تھی۔ انہوں نے واکر (Walker) کی Political Economy کا ملحض ترجمہ کرنے کا بھی موقع ملا، اس طرح ان کے مطالعے میں مزید وسعت پیدا ہوئی۔۔۔۔ اسی اثناء میں پروفیسر آرنلڈ جو کہ 1905ء میں اورینٹل کالج کے قائم مقام پرنسپل بنے، انہوں نے علامہ اقبال کو کتاب لکھنے کی تحریک دی۔ اس بات کا ذکر اقبال نے ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے دیباچے میں کیا ہے اور کتاب کو ان کی ’’ صحبت کا فیضان‘‘ قرار دیا ہے غرض اولاً:ـ علم الاقتصادیات کا مطالعہ، دوم: آرنلڈ کی تحریک، سوم: منصبی ضرورت، ان تین محرکات نے انہیں کتاب لکھنے پر آمادہ کیا۔۔۔۔۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اس بات سے اختلاف کرتے ہیں کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کسی منصبی ضرورت کے تحت لکھی گئی، وہ لکھتے ہیں:
’’ بنا بریں ہمارا خیال ہے کہ علم الاقصاد، کا سبب تالیف فرض منصبی نہ تھا، البتہ یہ ممکن ہے کہ اس طرح کا تالیفی کام معلمانہ کارکردگی کے طور پر بہ نظر استحسان دیکھا جاتا ہو اور اقبال کے ذہن میں یہ بات موجود ہو۔ علم الاقتصاد، کے تالیفی محرکات میں یہ امر اس لئے بھی قرین قیاس ہے کہ اورینٹل کالج کی سالانہ رپورٹ1901ئ، 1902ء میں زیر تصنیف علم الاقتصاد کو بایں الفاظ: A New work of political Economy in Preparation ان کی سالانہ کارکردگی میں شمار کیا گیا ہے۔‘‘ 7؎
مشفق خواجہ کے نزدیک علامہ اقبال نے اپنے طور پر اقتصادیات کا مطالعہ شروع کر دیا تھا اوراس مضمون میں استعداد بہم پہنچائی تھی۔ 8؎ ڈاکٹر ملک حسن اختر، مشفق خواجہ کی اس بات سے اختلاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ ان (مشفق خواجہ) کا یہ خیال بھی درست نہیں ہے کہ علامہ اقبال نے از خود معاشیات کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اورینٹل کالج میں پنجاب میکلوڈ عربک ریڈر کی اسامی کا تقاضا یہ تھا کہ وہ بعض کتابوں کے تراجم کریں۔ اس سلسلے میں انہوں نے واکر کی پولیٹیکل اکانومی اور سٹبز کی تاریخ کی کتاب کا ترجمہ کیا تھا اور عین ممکن ہے کہ ان کتابوں کے انتخاب میں انہیں دخل نہ ہو۔‘‘ 9؎
ڈاکٹر صدیق جاوید لکھتے ہیں کہ علامہ نے اس تصنیف کی تیاری میں مالتھس اور واکر کے علاوہ جن علمائے معاشیات کے خیالات سے استفادہ کیا ہے ان میں مارکس بھی شامل ہے۔۔۔ اگرچہ علامہ نے مارکس اور اس کی کسی کتاب کا نام نہیں لیا مگر ’’ علم الاقتصاد‘‘ میں لگان پر باب کے ذیل میں مارکس کا غیر طبقاتی ریاست (Classless Society) کا تصور ان کے پیش نظر رہا ہو گا، ڈاکٹر صدیق جاوید لکھتے ہیں:
’’ کارل مارکس اقتصادیات، سیاسیات، تاریخ اور فلسفہ کے علاوہ علم عمرانیات کی تاریخ کے عظیم عمرانیوں میں شمار ہوتا ہے۔ اسے عمرانیات کے ایک دبستان سیاسی عمرانیات (Political Sociology) سے متعلق خیال کیا جاتا ہے۔ ان دنوں یورپ اور امریکہ میں سماجی علوم اور ادب و فن کے حوالے سے شائع ہونے والا تقریباً ہر مطالعہ مارکس کے خیالات سے بالواسطہ یا بلا واسطہ متاثر نظر آتا ہے یا اس کے بعض تصورات کے خصوصی پہلوؤں کے مطالعے پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی تعلیمی، علمی تصنیفی اور سیاسی شعبوں میں مارکس کا حوالہ آتا ہے۔ مطالعہ اقبال کے حوالے سے بھی ہمارے ہاں مارکس کے افکار اور اس پر اقبال کی تنقید کا تذکرہ رہتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اقبال 1902ء کے لگ بھگ مارکس اور اس کے فلسفیانہ افکار سے متعارف ہو چکے تھے۔‘‘10؎
بہرحال اس بات سے سبھی متفق ہیں کہ اقبال کو کتاب لکھنے کی تحریک پروفیسر آرنلڈ نے کی۔ علامہ نے اپنے طور پر معاشیات کا مطالعہ نہ بھی کیا ہو، پھر بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انہیں شروع ہی سے اقتصادیات کے موضوع سے دلچسپی تھی، اور یہ دلچسپی بعد تک قائم رہی۔ انہوں نے اپنی شاعری، خطوط اور مضامین میں معاشی و اقتصادی مسائل کا تذکرہ وقتاً فوقتاً کیا ہے، البتہ انہوں نے بعد میں اس موضوع پر کوئی مفصل کتاب نہ لکھی لیکن علم معاشیات سے دلچسپی اور اس کا مطالعہ تمام عمر جاری رہا۔۔۔۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کی یہ دلیل زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے کہ علامہ نے ’’ علم الاقتصاد‘‘ فرض منصبی کے طور پر نہ لکھی تھی بلکہ منصبی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے لکھی تھی۔
تعارف:
’’ علم الاقتصاد‘‘ کا پہلا ایڈیشن پیسہ اخبار کے خادم التعلیم سٹیم پریس لاہور میں طبع ہوا۔ یہ خط نستعلیق میں ہے اور اس پر سنہ اشاعت درج نہیں ہے۔ سر ورق پر مصنف کا نام اس طرح درج ہے: ’’ شیخ محمد اقبال ایم اے اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور‘‘ انتساب ص اپر ’’ عالی جناب ڈبلیو بل اسکوئر ڈائریکٹر محکمہ تعلیم پنجاب‘‘ کے نام ہے۔۔۔۔ مضامین کی فہرست ص2پر ہے اور ص3خالی ہے۔ دیباچہ مصنف ص4 سے ص7تک ہے۔ دیباچے میں اقبال نے جن شخصیات کا شکریہ ادا کیا ہے، ان میں پروفیسر آرنلڈ، لالہ جیا رام صاحب، اپنے دوست اور ہم جماعت مسٹر فضل حسین بی اے کینٹب اور جناب شبلی نعمانی شامل ہیں۔ کتاب کا اصل متن ص8سے شروع ہو کر ص216پر ختم ہو جاتا ہے۔۔۔ علامہ نے آرنلڈ کی تحریک پر یہ کتاب لکھی اور مولانا شبلی نے کتاب کے بعض حصوں میں زبان کی اصلاح و درستی کی گویا زبان کے معاملے میں کتاب کو شبلی جیسے عالم فاضل شخص کی سند حاصل ہے۔
’’ علم الاقتصاد‘‘ پانچ حصص اور بیس ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں علم الاقتصاد کی ماہیت اور دولت کی تعریف کی گئی ہے اور باقی چار حصوں میں معاشیات کے چار بنیادی شعبوں سے تفصیلاً بحث کی گئی ہے۔ اقبال نے ان موضوعات پر نہ صرف افکار و نظریات کو پیش کیا ہے، بلکہ ان پر تنقید بھی کی ہے اور اپنی ذاتی رائے بھی دی ہے۔
’’ علم الاقتصاد‘‘ 1904ء میں شائع ہوئی اور تقریباً مئی 1908ء تک بازار میں فروخت کے لئے موجود رہی، کیونکہ اسی ماہ ’’ مخزن‘‘ میں اس کا اشتہار چھپا تھا۔ ابتداً کتاب کتنی تعداد میں شائع ہوئی؟ شاید ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہوئی ہو۔ عموماً اس زمانے میں کتابیں اتنی تعداد ہی میں شائع ہوتی تھیں۔۔۔۔ اس کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت میں اقبال نے دلچسپی ظاہر نہ کی۔ ممکن ہے دوست احباب نے انہیں اس طرف متوجہ کیا ہو، لیکن انہوں نے اس سلسلے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب کا دوسر اایڈیشن علامہ اقبال کی زندگی میں شائع نہ ہو سکا۔ اولین ایڈیشن بھی کم یاب ہے۔ ایک نسخہ پنجاب یونیورسٹی لائبریری اور ایک اقبال میوزیم لاہور میں ہے۔
علامہ اقبال نے ’’ علم الاقتصاد‘‘ کو اپنی علمی کوششوں کا پہلا ثمر قرار دیا ہے مگر یہ بات باعث حیرت ہے کہ اقبال نے اپنی اس کتاب کا ذکر صرف دو جگہ کیا ہے، اور وہ بھی نجی خطوط میں۔۔۔ حالانکہ یہ ان کا پہلا باقاعدہ علمی کارنامہ تھا اور پھر جیسا کہ وہ اسے اپنی علمی کوششوں کا ثمر قرار دیتے ہیں، اس کا زیادہ ذکر نہ کرنا اور اس کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت میں دلچسپی نہ لینا کچھ تعجب انگیز امر معلوم ہوتا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اقبال کی جوانی کا ثمر ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خیالات میں ارتقا ہوتا چلا گیا، چنانچہ فکر و نظر کی بلوغت نے اس اولین تخلیقی کام کو قابل اعتنا نہ جانا۔ اہم بات یہ ہے کہ علم معاشیات اقبال کا بنیادی موضوع نہ تھا، اگرچہ اس موضوع سے انہیں تا حیات دلچسپی ضرور رہی مگر انہوں نے کوئی کتاب نہ لکھی اور نہ ہی انہوں نے اپنی کتاب کو دوبارہ شائع کرایا۔ وہ نثر کے بجائے شاعری کی طرف زیادہ مائل تھے۔ اپنی زندگی میں شاعری کے مجموعوں کو متعدد بار شائع کرایا، لیکن ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی دوبارہ اشاعت کی نوبت ان کی زندگی میں نہ آ سکی۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اقبال طبعاً بے نیاز اور منکسر المزاج تھے، اپنے تخلیقی کارناموں کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرتے تھے، چنانچہ اس کتاب کا ذکر عطیہ فیضی اور کرشن پرشاد شاد کے نام خطوط ہی میں نظر آتا ہے۔ عطیہ فیضی کینام مکتوب (از کیمبرج) مورخہ 24اپریل1907ء میں لکھا ہے:
I am thinking of sending you a copy of my political Economy in Urdu. But I am sorry I have not got one here. thought it would not be difficult to get it from india. I shall write it for the mail . 11
’’ علم الاقتصاد‘‘ زیادہ مقبول نہ ہو سکی۔ایک وجہ تو یہی ہے کہ اقبال نے اسے دوبارہ شائع نہ کیا، اس بنا پر اقبال کے دور کے بعد کی نسل اس کتاب سے تقریبا ً نا واقف رہی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جس زمانے میں یہ کتاب شائع ہوئی، اس وقت اردو دان طبقے کو علم معاشیات سے کچھ دلچسپی نہ تھی۔ مزید برآں اس کتاب کی اشاعت کے بعد اقبال کی جو کتابیں شائع ہوئیں وہ علمی و فکری اعتبار سے اس قدر بلند تھیں کہ ان کے مقابلے پر ’’ علم الاقتصاد‘‘ کا قبولیت عام کی سند حاصل کرنا مشکل تھا۔ 12 عام طور پر ’’ علم الاقتصاد‘‘ کو معاشیات پر اردو میں پہلی کتاب قرار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی اشاعت سے قبل تقریباً چھ کتابیں شائع ہو چکی تھیں، مثلاً Wayland کی کتاب Elements of Political Economy (مترجم: پنڈت دھرم نرائن) رسالہ علم انتظام مدن(مولفین: محمد منصور شاہ اور مسعود شاہ خان )1865ء میں Nassan William Senior کی کتاب Political Economy کا ترجمہ ’’ رسالہ علم انتظام مدن‘‘ (مترجمین: بابو رام کالی چودھری اور رائے شنکر داس) 1869ء میں ’’ مل‘‘ کی کتاب کے ابتدائی تیرہ ابواب کا ترجمہ ’’ اصول سیاست مدن‘‘ کے نام سے شائع ہوا (مترجم: رائے بہادر پنڈت دھرم نرائن دہلوی)’’ دستور المعاش‘‘ جان یارکس لیڈلی کی کتاب ’’ پرائمر پولیٹیکل اکانومی‘‘ کا ترجمہ ہے (مترجم: شمس العلماء مولوی محمد ذکاء اللہ) ان چھ کتابوں کے علاوہ 1900ء تک اور بھی کئی مختصر رسالے لکھے گئے، لیکن ان کی حیثیت زیادہ تر نصابی ہے۔ ان چھ کتابوں میں صرف ایک یعنی ’’ رسالہ علم انتظام مدن‘‘ کس حد تک آزادانہ غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ باقی تمام کتابیں انگریزی کتابوں کا براہ راست ترجمہ ہیں۔۔۔۔۔۔ اقبال کی ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی اشاعت سے پہلے اتنی کتابوں کی موجودگی اس امر کا ثبوت ہے کہ اہل اردو اقتصادیات کے علم سے بالکل نا آشنا نہ تھے۔ 13؎
البتہ یہ بات درست ہے کہ علم المعیشت پر ’’ علم الاقتصاد‘‘ پہلی معیار کتاب ہے۔ اس خیال کا اظہارعلامہ اقبال نے بھی ایک جگہ کیا ہے:
’’ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی ایک عرصہ سے جاری ہے۔ علم الاقتصاد پر اردو میں سب سے پہلے مستند کتاب میں نے لکھی۔ ‘‘ 14؎
اس طرح ’’ علم الاقتصاد‘‘ سے قبل علم معاشیات پر کافی حد تک کام ہو چکا تھا، اقبال چونکہ ایک کثیر المطالعہ شخص تھے، ممکن ہے کہ محولہ بالا کتب ان کی نظر سے گزری ہوں، اس لئے ان کتابوں کی موجودگی میں ’’ علم الاقتصاد‘‘ کو معاشیات پر اردو میں پہلی کتاب قرار نہیں دے سکتے، لیکن اس سے ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی اہمیت میں کمی نہیں آتی، کیونکہ پہلی کتب ترجمہ ہیں۔ ’’ رسالہ علم انتظام مدن‘‘ کے جو آزادانہ غور و فکر کی بنا پر طبع زاد تالیف کے قریب ہو جاتا ہے۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ اولیت کی حامل نہ ہونے کے باوجود اپنی ایک علیحدہ اور نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ علامہ اقبال نے اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت میں دلچسپی نہ لی، نتیجتہً کتاب ساڑھے تین یا چار سال کے بعد نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ دوسرے ایڈیشن کی اشاعت میں نہ علامہ نے دلچسپی ظاہر کی اور نہ کسی ادارے کی طرف سے اس کی اشاعت کا اہتمام کیا گیا۔ یہ امر باعث حیرت ہے کہ علامہ اقبال کی زندگی میں کسی ادارے کی طرف سے اس کی اشاعت کی تحریک نہیں ہوئی۔ ستاون سال 15؎ یا اٹھادن سال 16؎ بعد اقبال اکادمی کراچی کے زیر اہتمام اس کی دوسری اشاعت عمل میں آئی۔
’’ علم الاقتصاد‘‘ کے اولین ایڈیشن کی طرح دوسرے ایڈیشن پر بھی سال اشاعت درج نہیں ہے۔ یہ مسئلہ ممتاز حسن کے ’’ پیش لفظ‘‘ کو پڑھ کر حل ہو جاتا ہے، کیونکہ ’’ پیش لفظ‘‘ کے اختتام پر 10جون 1921ء درج کر دیا گیا ہے۔ پہلا ایڈیشن خط نستعلیق میں تھا، جبکہ دوسرا ایڈیشن خط نسخ میں ہے۔ کتاب کتنی تعداد میں شائع ہوئی اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ سر ورق اور اس کی پشت کا صفحہ شمار میں نہیں لایا گیا۔ مضامین کی فہرست ا، ب اور ج پر ہے، ص د خالی ہے۔ ’’ پیش لفظ‘‘ از ممتاز حسن ص1سے 10تک ہے اور مقدمہ (از: انور اقبال قریشی ص11سے 19تک ہے پیش کش: از مصنف (اقبال) ص21پر ہے۔ ص22خالی ہے۔ دیباچہ از مصنف ص23سے 26 تک ہے، اور متن کتاب سے از سر نو کتاب کے صفحات کا شمار ہوتا ہے۔
اقبال اکادمی کراچی کی یہ مستحسن کوشش ہے کہ اس نے کتاب کی دوسری اشاعت میں دلچسپی ظاہر کی اور طبع اول کے متن کی تصحیح کی ۔ کتاب کے سر ورق پر مرتب کا نام درج نہیں ہے۔ ممتاز حسن نے پیش لفظ میں اس کی وضاحت کر دی ہے، لکھتے ہیں:
’’ موجودہ نسخے کے متن کی تصحیح مجلہ اقبال ریویو کے مدیر معاون جناب خورشید احمد صاحب کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ انہوں نے متن پر حواشی بھی لکھے ہیں اور کتابت کی غلطیوں کو بھی درست کر دیا ہے۔ انگریزی اصطلاحات حاشئے میں دی گئی ہیں۔ جہاں کسی لفظ یا اصلاح کی توضیح ضروری تھی وہاں حاشئے میں تشریح کر دی گئی ہے۔‘‘ 17؎
تیسری مرتبہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ تقریباً سولہ سال بعد اقبال اکادمی لاہور کے زیر اہتمام 1977ء میں شائع ہوئی۔سنہ اشاعت کے ساتھ غلطی سے ’’ بار اول‘‘ لکھ دیا گیا ہے۔ اقبال اکادمی ہی نے اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا تھا، اور تیسرا ایڈیشن بھی اسی کے زیر اہتمام شائع ہوا، اتنی واضح بات کے باوجود کتاب پر’’ بار اول‘‘ لکھا گیا ہے۔ سر ورق کے لئے دو صفحے رکھے گئے ہیں، پہلے صفحے پر صرف ’’ علم الاقتصاد‘‘ لکھا گیا ہے، اور اس کی پشت کا صفحہ مکمل طور پر خالی نہیں ہے، بلکہ اس قسم کے الفاظ درج ہیں:’’ اچھی کتاب کا نکھار ہمیشہ قائم رہتا ہے‘‘ گویا یہ ایک قسم کا اشتہار ہے سر ورق کے دوسرے صفحے پر مصنف کے مکمل تعارف میں تبدیلی کر دی گئی ہے۔ یعنی: ’’شیخ محمد اقبال ایم اے اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور‘‘ کے بجائے صرف’’ شیخ محمد اقبال‘‘ درج ہے۔ اس ترمیم کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ علامہ نے با اہتمام اپنے نام کے ساتھ ’’ اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور‘‘ لکھا تھا اس تعارف کا درج کرنا ضرور تھا، کیونکہ ا سی تعارف کی کی بنا پر ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے سنہ اشاعت کا تعین کیا جاتا رہا ہے۔ اس سر ورق کی پشت کے صفحہ پر سال اشاعت، تعداد، قیمت، اہتمام وغیرہ کی تفصیل درج ہے۔ فہرست مضامین پر ص نمبر درج نہیں ہے، لیکن پیش لفظ از ممتاز حسن ص7سے شروع ہوتا ہے، جس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ فہرست مضامین ص5اور 6پر ہے۔ پیش لفظ (از: ممتاز حسن) ص7تا17مقدمہ (از انور اقبال قریشی) ص18تا28) پیش کش (از: مصنف) ص29، دیباچہ (از: مصنف) ص30تا 34 اور متن کتاب ص35 سے شروع ہو کر 264 پر ختم ہو جاتا ہے۔ کتاب کے آخر میں دوسرے ایڈیشن کی طرح ضمیمہ درج ہے۔ اس طرح اس (تیسرے) ایڈیشن کے صفحات کے نمبر شمار میں تبدیلی کی گئی ہے۔
’’ علم الاقتصاد‘‘ چوتھی مرتبہ 1991ء میں آئینہ ادب لاہور سے شائع ہوئی۔ کتاب پر ناشر کے طور پر آئینہ ادب لاہور درج ہے، اور بار چہارم کے بجائے بار دوم لکھا ہے۔ اصل میں1991ء کا یہ نسخہ اقبال اکادمی لاہور1977ء کے نسخہ کی نقل ہے، جس پہ غلطی سے بار دوم کے بجائے بار اول لکھا گیا تھا۔ اس نسخے کے ناشر اقبال اکادمی لاہور اہتمام آئینہ ادب لاہور کا تھا۔۔۔۔ 1991ء کے نسخے میں سابقہ غلطی کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب پر بار دوم لکھا ہے اور ناشر اور اہتمام آئینہ ادب لاہور کا ہے حالانکہ مذکورہ اشاعت1977ء ہی کی نقل ہے اور اس میں متن، حواشی اور تعلیقات کی ذیل میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔۔۔۔ البتہ اتنی تبدیلی ضرور کر دی گئی ہے کہ ناشر کے طور پر اقبال اکادمی پاکستان لاہور کے بجائے آئینہ ادب لاہور کا نام درج کر دیا گیا ہے۔
آئینہ ادب لاہور نے ’’ علم الاقتصاد‘‘ کو چونکہ نئے سرے سے نہیں چھاپا لہٰذا متن کے جائزے میں اس کا موازنہ نہیں کیا گیا۔ کیونکہ جو تصرفات اور اغلاط اقبال اکادمی لاہور1977ء کے نسخے میں ہیں، وہ 1991ء کے نسخے میں جوں کی توں موجود ہیں۔
متن کا مطالعہ:
اب ہم اقبال اکادمی کے دو نسخوں (1961-1977ء ) کا موازنہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے اولیں نسخے سے کرتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اقبال اکادمی ’’ علم الاقتصاد‘‘ کو بہتر طور پر شائع کرنے میں کس حد تک کامیاب رہی ہے:
پہلے ایڈیشن کی کتابت کی اغلاط نظر آتی ہیں۔ کچھ اغلاط کی تو ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی 18؎ نے نشان دہی کر دی ہے لیکن ان کے علاوہ بھی پہلے ایڈیشن میں بہت سی اغلاط نظر آتی ہیں، مثلا:
نمبرشمار
صفحہ
غلط
صحیح
1
12
چس
جس
2
19
بیج
بیچ
3
30
آب ہوا
آب و ہوا
4
65
آساشن
آسائش
5
190, 98, 65
مضرت رسان
مضرت رساں
6
89
رسید
رسد
7
91
فروحت
فروخت
8
79
تھون
تہوں
9
93
اشاء
اشیاء
10
156, 109, 102, 100, 98
موزون
موزوں
11
141, 106
ہنڈیوں
منڈیوں
12
120
گو
کو
13
121
چاندے
چاندی
14
141
فلان
فلاں
15
141
روپیے
روپے
16
166, 143
سو دو زیان
سود و زیاں
17
152
زمیداروں
زمینداروں
18
157
ہوا
ہوا
19
163
کاروان
کارواں
20
167
احرت
اجرت
21
168
یتجہ
نتیجہ
22
171
ہوئی
ہوتی
23
178
جہان
جہاں
24
188
کبھی
بھی
25
189
بے درمان
بے درماں
26
194
قاتحین
فاتحین
27
195
پڑی
بڑی
28
196
تیز
تر
29
203
ناتوان
ناتواں
30
204
مصارف ہستی
مصاف ہستی
31
206
بیچھے
پیچھے
32
214
سیل روان
سیل رواں
33
156
موزون
موزوں
اقبال اکادمی کی اشاعتوں میں طبع اول کی یہ اغلاط درست کر دی گئی ہیں، مگر اس کی وضاحت نہیں کی گئی، لیکن دوسرے اور تیسرے ایڈیشن میں بھی کتابت کی بعض نئی اغلاط راہ پا گئی ہیں۔ ان کی فہرست ذیل میں پیش کی جاتی ہے:
نمبرشمار
صفحہ
طبع دوم1961ء
صفحہ
طبع سوم1977ء
صحیح
1
86
روئی
129
روٹی
روٹی
2
91
بین المالک
134
بین المالک
بین الممالک
3
135
ہنڈیاں
184
ہنڈیاں
منڈیاں
4
137
سود و زیان
186
سود و زیاں
سود و زیاں
5
159
کاروان
209
کاروان
کارواں
6
162
سود و زیان
212
سود و زیاں
سود و زیاں
7
182
سوال
234
سوال
حال
8
182
دفعہ
235
دقعہ
دفعہ
9
182
بے ورمان
235
بے درمان
بے درماں
10
202
نوح انسان
256
نوع انسان
نوع انسان
طبع اول میں نمبر7, 6, 2 اور9 کی کتابت درست ہے۔
طبع اول میں بہت سے الفاظ قدیم یا متروک املا کے مطابق ہیں۔ اقبال اکادمی کے دونوں نسخوں میں ان کو جدید املا کے مطابق لکھا گیا ہے، جیسے جاوے جائے بعض جگہ طبع اول میں بھی جائے (ص:29لکھا ہے پگہلا ’’ پگھلا‘‘ ،مجہہ ’’ مجھ‘‘ ،نہو’’ نہ ہو‘‘ طبع اول کے ص35پر نہ ہو چھپا ہے مجہے’’ مجھے‘‘ چائ’’ چائے‘‘ سمجہنے’’ سمجھنے‘‘ سمجہو’’ سمجھو‘‘ بڑہتی’’ بڑھتی‘‘ کھلاتا’’ کہلاتا‘‘ جاویں ’’جائیں‘‘ معنے’’ معنی‘‘ جنپر’’ جن پر‘‘ ماہیگیری’’ ماہی گیری‘‘
طبع دوم اور سوم میں بیسیوں مقامات پر اصل متن میں تصحیح اور تصرفات کئے گئے ہیں لیکن ان اصلاحات و ترامیم کی صرف چند مقامات پر وضاحت کی گئی ہے۔ اصل متن کے کئی الفاظ محذوف کر دئیے گئے ہیں، بعض جگہ متعدد الفاظ کا اضافہ ہے، کئی مقامات پر دو، ایک یا پھر آدھ جملہ حذف کر دیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت نہ حاشئے میں ملتی ہے اور نہ قلابین میں محذوف جملے دئیے گئے ہیں مثلاً:
(1) طبع سوم کے ص39پر تقریباً دو جملے محذوف ہیں، یہ دونوں جملے طبع اول (ص:10) اور طبع دوم (ص:5) میں موجود ہیں۔ محذوف جملہ اس طرح ہے :’’ مثلاً ہر شخص یہ خواہش کرتا ہے کہ اس کے دوست اس کے ساتھ محبت کا برتاؤ کریں، مگر یہ دولت نہیں ہے۔‘‘
(2) طبع سوم کے ص71پر ایک جملے میں بے جا تصرف کیا گیا ہے۔ اصل جملہ طبع اول (ص:38) طبع دوم (ص:34) میں اس طرح ہے:’’ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ مصالح پیدا کرنے میں پوری آزادی حاصل ہے۔‘‘ طبع سوم میں یہ جملہ کچھ یوں چھپا ہے:’’ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ مصالح پیدا کرنے والوں کو باہمی خرید و فروخت کرنے میں پوری آزادی حاصل ہے۔‘‘
(3) طبع سوم کے ص99 پر ایک جملہ حذف کر دیا گیا ہے، جبکہ طبع اول (ص:64) طبع دوم (ص:59) میں یہ جملہ محذوف نہیں ہے۔ اصل عبارت یوں ہے:’’ کمیت کے علاوہ مختلف ممالک کے دستکاروں کی محنت کی کیفیت بھی مختلف ہوتی ہے۔ بعض ممالک کے دستکاروں کی عادات جبلی طور پر قوانین صحت کے خلاف ہوتی ہیں۔‘‘ یہی عبارت طبع سوم میں اس طرح چھپی ہے:’’ کمیت کے علاوہ مختلف ممالک کے دستکاروں کی عادات جبلی طور پر قوانین صحت کے خلاف ہوتی ہیں۔‘‘
(4) طبع سوم ص101پر آدھا جملہ محذوف ہے۔ محذوف جملہ طبع اول (ص:66) اور طبع دوم (ص:62) پر درج ہے۔ اصل متن اس طرح ہے:’’ یہ اسباب اختلاف مختلف ممالک ہیں یا تو حقیقتاً موجود ہیں اور اپنا عمل کر رہے ہیں۔ یا حقیقتاً موجود تو ہیں۔۔۔۔‘‘ طبع سوم میں یہ جملہ اس طرح شائع ہوا ہے:’’ یہ اسباب اختلاف ممالک میں حقیقتاً موجود تو ہیں۔‘‘
نہ معلوم طبع سوم میں محولہ محذوفات و تصرفات سے مرتب کی کیا غایت ہے؟ اگر ان جملوں کو محذوف کرنا ضروری تھا تو طبع دوم میں بھی اس کا اہتمام کیا جاتا، اور حاشیئے میں یا قلابین میں اس کی وضاحت کر دی جاتی تاکہ الجھن پیدا ہونے کا احتمال نہ رہتا۔
اقبال اکادمی کے دونوں نسخوں میں حواشی میں جن تصرفات و اصلاحات کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں کچھ تو مناسب ہیں لیکن ترامیم کی بعض نوعیتیں غور طلب ہیں۔ ان کی طرف ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اشارہ کیا ہے۔ 19؎ ہم یہاں ان مزید ترمیمات و تصرفات کا جائزہ لیں گے جو ہمارے خیال میںنامناسب ہیں، مثلاً:
نمبر شمار
صفحہ
طبع اول
صفحہ
طبع دوم
1
17
آیا عقل۔ ہنر اور فطری قویٰ جن کو انسان کے ذاتی اوصاف کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے قدر کہتے ہیں
13
آیا عقل، ہنر اور فطری قویٰ کو جنہیں انسان کے ذاتی اوصاف کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے حاصل قدر کہا جا سکتا ہے
2
22
تو ظاہر ہے کہ تمام استدلالات جو اس اصول پر مبنی سمجھے جائیں گے غلط ہوں گے
17
تو ظاہر ہے کہ وہ تمام استدلالات جو اس اصول پر مبنی ہوں گے غلط سمجھے جائیں گے
3
57
پیدائش دولت سے کسی قوم کی قابلیت
53
کسی قوم کی قابلیت پیدائش دولت کے لحاظ سے
4
57
خواہ زمین کی کاشت نقطہ تقلیل نہ پہنچی ہو۔۔۔۔۔۔
53
خواہ زمین کی کاشت نقطہ تقلیل تک نہ پہنچی ہو
5
77
نیز مشکل سے ہاتھ آنا ان کی قدر کا
74
نیز مشکل سے ہاتھ آنا اس کی قدر کا۔۔۔۔۔
نمبر(1) کے بارے میں مرتب نے لکھا ہے کہ اس نے جملے کو رواں اور واضح کرنے کے لئے ادنیٰ تصرف کیا ہے۔ مصنف (اقبال) نے جملے کے آخر میں سوالیہ نشان لگایا ہے، اگر اس جملے کو سوالیہ انداز میں پڑھا جائے تو مفہوم میں کوئی د قت پیش نہیں آتی، اس لئے یہ ترمیم بے جا ہے۔ میری دانست میں مرتب نے جملے میں تصرف تو کر دیا لیکن جملے کے آخر میں سوالیہ نشان ختم کر دینے سے وہ بات پیدا نہ ہو سکی جو اصل متن میں نظر آتی ہے۔
نمبر (2) طبع اول کا جملہ بالکل واضح ہے۔ اس میں لفظ ’’استدلالات‘‘ کتابت یا طباعت کی غلطی ہے، مگر ا س سے جملے کے مفہوم میں فرق نہیں آتا۔ مرتب کی یہ ترمیم و اضافہ بھی نا مناسب ہ۔
نمبر (3) یہ ترمیم بھی بالکل غیر ضروری ہے، کیونکہ لکھنے والے کے موڈ پر منحصر ہے کہ وہ کون سے الفاظ جملے کے آغاز میں لاتا ہے اور کون سے آخر میں، اگر یہ ادنیٰ تصرف نہ بھی کیا جاتا تو جملے کے مفہوم میں کوئی فرق نہ آتا۔
نمبر (4) یہاں مرتب نے صرف لفظ ’’ تک‘‘ کا اضافہ کیا ہے۔ یہ کوئی ایسی بڑی خامی بھی نہیں ہے کہ جو جملے کے مفہوم پر اثر انداز ہو۔ بالعموم کتابت یا طباعت میں کچھ الفاظ چھوٹ جاتے ہیں۔ مرتب نے اس جملے میں تو لفظ’’ تک‘‘ کی وضاحت کر دی، لیکن اصل متن میں ایسے کوئی الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے، مگر ان کی وضاحت صرف چند ایک مقامات پر ہی کی گئی ہے۔
نمبر (5) مرتب نے حاشئے میں وضاحت کی ہے کہ اصل متن میں لفظ ’’ اس‘‘ تھا، جبکہ اصل متن میں لفظ’’ ان ‘‘ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب بہ قول مرتب اصل متن ہی میں لفظ’’ اس ‘‘ موجود تھا تو پھر حاشئے میں اس کی وضاحت کی کیا ضرورت تھی؟
ان اصلاحات و تصرفات کا ذکر مرتب نے حواشی میں کر دیا ہے، مگر اصل متن میںایسی بہت سی اصلاحات کی گئی ہیں، جن کے بارے میں ہمیں کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ ترامیم و اصلاحات مرتب کی ہیں یا کسی اور کی۔
’’ علم الاقتصاد‘‘ کے اول و دوم اور سوم میں مختلف طرح کا متن ملتا ہے، مثلاً:
نمبر شمار
صفحہ
طبع اول
صفحہ
طبع دوم
صفحہ
طبع سوم
1
13
اس گھڑی کی وساطت سے
8
اس گھڑی کی وساطت سے۔۔۔
44
اس گھڑی کی وساطت سے
2
14
جو انسان کے لئے مفید ہیں۔۔
10
جو انسان کے لئے مفید ہیں۔۔۔۔
45
جو انسان کے لئے مفید ہوں۔۔۔
3
16
کسی قدر آسائش کو بھی چاہتا ہے
13
کسی قدر آسائش کو بھی چاہتا ہے۔۔
49
کسی قدر آسائش بھی چاہتا ہے۔۔
4
49
اسی طرح دولت کی مقدار بعض دفعہ کچھ عرصے کے لئے۔۔
14
اسی طرح دولت کی مقدار کا مسئلہ بعض دفعہ کچھ عرصے کے لیے
51
اسی طرح دولت کی مسئلہ ہے بعض دفعہ کچھ عرصہ کے لئے۔۔۔۔
5
20
علم الاقتصاد کے اصول ابتدائی کیا کیا ہیں۔
15
علم الاقتصاد کے اصول ابتدائی کیا کیا ہیں۔
52
علم الاقتصاد کے ابتدائی اصول کیا کیا ہیں
6
24
یہ تسلیم کرنے میں ہمیں عذر نہیں ہے
20
یہ تسلیم کرنے میں عذر نہیں ہے
57
یہ تسلیم کرنے میں عذر نہیں ہے
جس کے فوائد کا ذکر باب سوم میں آئیگا
31
جس کے فوائد کا ذکر باب چہارم میں آئیگا
66
جس کے فوائد کا ذکر باب چہارم میں آئے گا
8
34
جہاں سے کہ وہ اپنے
33
جہاں سے وہ اپنے
70
جہاں سے وہ اپنے
9
34
ہمارے ملک میں چونکہ قانون تقلیل حاصل کے عمل
33
ہمارے ملک میں چونکہ قانون تقلیل حاصل کے عمل
70
ہمارے ملک میں چونکہ قانون تقابل حاصل کے عمل
10
40
قومی دولت کو یکساں
37
قومی دولت کے لئے یکساں
75
قومی دولت کے لئے یکساں
11
40
قومی دولت کے پیدا ہونے کی۔۔۔
مزید دولت کے پیدا ہونے کی۔۔۔۔
75
مزید دولت پیدا ہونے کی۔۔۔
12
41
جو چیز اس سے سو سال پہلے۔۔۔
38
جو چیز سو سال پہلے۔۔۔
75
جو چیز سو سال پہلے۔۔۔
13
41
اگر بعض مانع اسباب نہ پیش آ گئے
39
اگر بعض مانع اسباب نہ پیش آئیں
76
اگر بعض مانع اسباب نہ پیش آئیں
14
43
تخصیص و تنظیم کرنی۔۔
40
تخصیص و تنظیم کرنی۔۔۔
78
تخصیص و تنظیم کرنا۔۔۔
15
44
ہمراہیوں پر فوق لیجانے کی
41
ہمراہیوں پر فوقیت لے جانی۔۔۔
79
ہمراہیوں پر فوقیت لے جانے کی
16
49, 50
باب اول میں تمہیں۔۔۔
36
باب دوم میں تمہیں۔۔
84
باب دوئم میں تمہیں
17
50
مگر باب دوم میں ہم نے۔۔۔۔
46
مگر باب سوم میں ہم نے۔۔۔
84
مگر باب سوم میں ہم نے۔۔۔
18
63
دیگر ممالک انہیں اشیاء کو۔۔۔
58
دیگر ممالک انہی اشیاء کو۔۔۔
98
دیگر ممالک انہی اشیاء کو۔۔۔
20
64
دستکاروں کے ہنر سمجھنا اور دور اندیشی میں۔۔۔
59
دستکاروں کی ہنر مندی، سمجھ اور دور اندیشی میں۔۔۔
99
دستکاروں کی ہنر مندی، سمجھ اور دور اندیشی میں۔
21
65
علم ادب اور دیگر علمی مشاغل۔۔۔
60
علم و ادب اور دیگر علمی مشاغل
100
علم و ادب اور دیگر علمی مشاغل
22
71
جنکے رو سے ایسی اشیاء کا
69
جن کے رو سے اشیاء کا۔۔۔
109
جن کی رو سے اشیاء کا
23
72
جنکی وساطت سے تجارت عالم کی
70
جن کی وساطت سے تجارت کی۔۔
110
جن کی وساطت سے تجارت کی
24
78
جس شخص کو مہینے دن کی محنت
76
جس شخص کو ایک مہینے کی محنت۔۔۔۔
116
جس شخص کو ایک مہینے کی محنت۔۔۔
25
81
زر نقد کی قوت خرید اور۔۔۔
79
زر نقد کی قیمت خرید اور۔۔۔
121
زر نقد کی قیمت خرید اور۔۔۔
26
82
زیادہ قیمت ادا کرنے کی متحمل
80
زیادہ قیمت کے متحمل۔۔۔
121
زیادہ قیمت کے متحمل۔۔۔
27
87
اس حصے کی افادیت انتہائی کا۔۔۔
85
اس حصے کی افادیت انتہائی کا۔۔۔
127
اس حصے کی افادیت انتہائی کا۔۔۔
28
88
مصارف پیدائش کے قریب آ جائیگی۔۔۔
85
مصارف پیدائش کے قریب آ جائیگی
128
مصارف پیدائش کے قریب آ جائیں گے۔۔۔
29
97
کہ تجارت بیرونی سے۔۔۔
94
کہ بیرونی تجارت سے
137
کہ بیرونی تجارت سے
30
98
گریز نہیں کی جا سکتی
95
گریز نہیں کی جاسکتی
138
گریز نہیں کیا جا سکتا
31
102
پیدا کرنے میں صرف ہوتی رہے۔۔۔
98
پیدا کرنے میں صرف ہوتے رہیں
144, 143
پیدا کرنے میں صرف ہوتے رہیں
32
107
دن بدن زیادہ زیادہ۔۔۔
104
دن بدن زیادہ سے زیادہ۔۔۔
149
دن بدن زیادہ سے زیادہ
33
110
غور کرنے پر معلوم ہو گا۔۔۔
106
غور کرنے سے معلوم ہو گا۔۔۔
152
غور کرنے سے معلوم ہو گا
35
111
واجب الاداء ہوتے۔۔۔
107
واجب الادا ہوتی۔۔۔
153
واجب الادا ہوتی۔۔
36
114
اس شے کی قدر سے ہے۔۔۔
110
اس شے کی قدر سے ہے۔۔۔
156
اس شے سے ہے۔
37
117
مقدار پر انحصار رکھتا ہے۔
113
مقدار پر ہے۔۔۔
159
مقدار پر ہے۔۔۔
38
137
سکوں کا وزن قانونی وزن سے۔۔۔
122
سکوں کا وزن قانونی وزن سے
169
سکوں کا وزن قانونی ہے۔۔۔
39
130
اس کی قدر16آنے برابر ہوتی
125
اس کی قدر16 آنے کے برابر مقرر کرنی۔۔۔
173
اس کی قدر 16آنے کے برابر ہیمقرر کرنی۔
40
142
یعنی اعتبارات فرضی اور حقوق نالشی
137
یعنی اعتبارات، قرضے اور حقوق نالشی۔۔۔
185
یعنی اعتبارات، قرضے اور حقوق نالشی
41
146
تو میں یہ حق ہرگز نہ خرید کرتا۔۔۔
140
تو میں ہرگز نہ خرید کرتا
190
تو میں ہر گز نہ خرید کرتا
42
136
میری غرض یہی ہوتی ہے کہ مجھے منافع ہو۔ اگر مجھے کمپنی
140
میری غرض یہی ہوتی ہے کہ مجھے منافع ہو۔۔۔ اگر مجھے کمپنی۔۔۔
190
میری غرض یہی ہوتی ہے کہ مجھے کمپنی۔۔۔
43
155
اس کے مزارع۔۔۔
151
اس کا مزارع۔۔۔
200
اس کا مزارع
44
156
نہ زمینداروں کا۔۔۔
153
نہ کہ زمینداروں کا
202
نہ کہ زمینداروں کا
45
159
سرمایہ منتقل ہو گا وہاں۔۔۔
156
سرمایہ منتقل ہو وہاں۔۔۔
205
سرمایہ منتقل ہو وہاں
46
160
باب گذشتہ میں بیان کر آئے ہیں
157
باب گذشتہ میں کہہ آئے ہیں۔
206
باب گذشتہ میں کہہ آئے ہیں۔
47
161
ایک ہی وقت پر ایک ہی قسم کی۔۔۔
157
ایک ہی وقت پر ایک ہی قسم کی۔۔۔
206
ایک ہی وقت ایک ہی قسم کی۔
48
170
وہ منافع حاصل کرینگے۔۔
165
وہ منافع حاصل کرینگے
216
زیادہ منافع حاصل کریں گے۔۔۔
49
178
مجبوراً تجارت کی اس شاخ کو۔۔۔
173
مجبوراً تجارت کی اس شاخ کو۔۔۔
224
مجبوراً اس شاخ کو۔۔۔
50
180
پیداوار محنت میں سے۔۔۔
175
پیداوار محنت میں سے۔۔۔
227
پیداوار محنت سے
51
185
مقابلہ ناکامل دستکاروں کی۔
171
مقابلہ درستکاروں کی
231
مقابلہ درستکاروں کی
52
193
پل تیا کرواتی دیگر رفاہ عام کی۔۔۔
186
پل تیار کرواتی ہے اور دیگر رفاء رام کی۔۔۔
239
پل تیار کراتی ہے اور دیگر رفاء عام کی۔۔
53
199
آبادی۔۔۔وجہ معیشت
195
آبادی
247
آبادی
طبع اول میں کئی مقامات پر متعدد عبارات اور جملوں کو نمایاں کرنے کے لئے ان کے نیچے خط کھینچا ہے۔ مختلف الفاظ یا جملوں کے نیچے خط کھینچنے سے مقصود قارئین کو متعلقہ بات کی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے بھی اس کا اہتمام کیا ہے، لیکن اقبال اکادمی کے دو نسخوں میں طبع اول کے خط کشیدہ حصوں کو خط کشیدہ نہیں بنایا گیا، اور نہ دیگر محذوفات و تصرفات کی مانند اس کی کہیں وضاحت کی گئی ہے۔ طبع اول میں ’’ دیباچہ مصنف ‘‘ (ص4) ہے، اور یہ صحیح ہے۔ یہ فارسی لفظ ’’ دیباچہ‘‘ کا معرب ہے۔ اقبال بالعموم ’’ دیباچہ‘‘ ہی لکھتے ہیں۔ طبع اول ص6اور7پر بھی انہوں نے ’’ دیباچے‘‘ لکھا ہے۔ ’’ اسرار خودی‘‘ میں منقول جامی کے ایک شعر میں بھی ’’ دیباچہ‘‘ ہے۔ (ص21) طبع دوم اور سوم میں اس لفظ کو ’’ دیباچہ‘‘ بنا دیا گیا ہے، جو درست نہیں ہے۔ (20) شاید مرتب کے پیش نظر یہ بات ہو کہ عام قارئین لفظ ’’ دیباچہ‘‘ سے مانوس نہیں ہیں، اس لئے اس لفظ کو مانوس بنانے کے لئے ’’ دیباجہ‘‘ سے ’’ دیباچہ‘‘ کر دیا۔ اگرچہ لفظ’’ دیباچہ‘‘ بھی صحیح ہے اور عام طور پر یہی لفظ زیادہ مستعمل ہے، لیکن چونکہ یہاں اصل متن کا مسئلہ ہے اور علامہ اقبال نے بھی با اہتمام لفظ’’ دیباجہ‘‘ لکھا ہے، اس لئے اس کا خیال رکھنا چاہئے تھا اور بے جا تصرف سے گریز کرنا چاہئے تھا۔
طبع اول کے اکثر الفاظ جو واحدہیں، انہیں جمع اور جو جمع ہیں انہیں واحد بنا دیا گیا ہے، اور اس کی وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، مثلاً: طبع اول (ص20) طبع دوم (ص15)، طبع سوم (ص52) میں لفظ ’’ معانی‘‘ جمع ہے، مگر اسے واحد بنا دیا گیا ہے۔ اسی طرح پہلے نسخے کے ص33 پر لفظ ’’ سمندر‘‘ واحد کے طور پر استعمال ہوا ہے، لیکن طبع دوم (ص31) طبع سوم (ص68) میں’’ سمندروں‘‘ کر دیا گیا ہے، اگرچہ اصل متن کے مطالعے سے لفظ’’ سمندر‘‘ کو سمندروں لکھنے کی توجیہہ سمجھ میں آ جاتی ہے، کہ اس لفظ سے پہلے کے جملے میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، وہ جمع ہیں، مثلاً: چراگاہوں، جنگلوں، گویا یہ اصلاح صحیح ہے، لیکن اس کی وضاحت کر دی جاتی تو بہتر تھا۔ اسی طرح بہت سے الفاظ مثلاً’’ ضرورت‘‘ ،’’ ہے‘‘ وغیرہ کو جمع بنا دیا گیا ہے۔
طبع اول کے ص154، ص178وغیرہ پر اپنے موقف میں اقبال نے نیا پیراگراف شروع نہیں کیا۔ جبکہ طبع دوم کے ص151، ص173اور طبع سوم ص199، ص225پر الگ سے پیراگراف بنا کر بات شروع کی گئی ہے۔ طبع اول کے متن میں بعض جگہ نئے پیراگراف کی ضرورت تھی، چونکہ اقبال نے ایسا نہیں کیا، اس لئے اس کا بھی خیال رکھنا ضروری تھا۔
طبع اول میں اضافت کا خاص خیال رکھا گیا ہے، سوائے چند مقامات کے، کہ جہاں اضافت نہیں ہے۔ طبع دوم اور سوم میں محض چند ایک مقامات کے، اضافت کا بالکل بھی خیال نہیں رکھا گیا، جس سے عبارت کی روانی میں رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے۔ مزید برآں طبع اول کے ص81پر کچھ جملوں کو واوین نہیں لکھا گیا، جبکہ طبع دوم ص79، طبع سوم121 پر واوین کا اہتمام کیا گیا ہے، اس کی خاص ضرورت نہ تھی۔
اس مفصل جائزے کے بعد ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں، کہ مرتب نے ’’ حرمت متن‘‘ کا ادراک نہیں کیا۔ مرتب کی ترامیم و اصلاحات سے اگرچہ عبارات میں روانی پیدا ہو گئی ہے، اور جملے بھی چست ہو گئے ہیں لیکن اس سے اصل متن بہت حد تک مشکوک ہو گیا ہے۔ مرتب کی یہ کوشش اپنی جگہ بہت اہم ہے، البتہ یہ اس کی ذمہ داری تھی کہ اصل متن میں جو الفاظ سہوراً رہ گئے تھے، یا جن کا املا موجودہ قواعد کے مطابق نہیں تھا، یا جن جملوں میں ترامیم و اضافے کی ضرورت تھی، ان تمام امور کی حواشی میں وضاحت کر دی جاتی۔ بعض ترامیم و اصلاحات کی وضاحت حاشئے میں کی گئی ہے، مگر وہ ناکافی ہے۔ اگر بار بار حواشی درج کرنا نا مناسب تھا تو قلابین میں اضافہ شدہ، محذوف شدہ، ترمیم و وضاحت شدہ الفاظ و جملے درج کر دیے جاتے، اس عمل سے اصل متن مجروح نہ ہوتا اور عبارت کی روانی میں بھی فرق نہ آتا۔
مختصر یہ کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کو دوبارہ زیادہ بہتر طریقے سے شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ ’’بہتر اشاعت‘‘ میں موجودہ اور صحیح تر املا کا اہتمام کیا جائے اور اس کی وضاحت حواشی، قلابین یا قوسین میں ضرور کر دی جائے۔
ترجمہ یا طبع زاد؟
علامہ اقبال کثرت سے مطالعہ کیا کرتے تھے۔ مطالعے کا یہ سلسلہ آخر عمر تک جاری رہا۔ وہ علمی و ادبی مجلسیں ہوں یا نجی صحبت، ہر قسم کے موضوع پر باسانی عالمانہ گفتگو کر سکتے تھے، یہ ان کی وسعت مطالعہ کی دلیل ہے۔ خیال ہے کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ (1904ئ) کی تالیف سے قبل انہوں نے علم معاشیات سے متعلق اہم کتابوں کا مطالعہ کیا ہو گا۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی اشاعت سے پہلے وہ واکر (Walker) کی پولیٹیکل اکانومی کا ملخص ترجمہ کر چکے تھے۔ جب ہم ’’ علم الاقتصاد‘‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس پر مختلف یورپی مصنفین کی تصانیف کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ ترجمہ ہے یا طبع زاد؟علامہ اقبال نے طبع اول کے دیباچہ میں لکھا ہے:
’’ یہ واضح کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب کسی خاص انگریزی کتاب کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ اس کے مضامین مختلف مشہور اور مستند کتب سے اخذ کئے گئے ہیں اور بعض جگہ میں نے اپنی ذاتی رائے کا بھی اظہار کیا ہے۔‘‘ 21؎
اس وضاحت سے یہ بات طے ہو جاتی ہے کہ مختلف کتب سے استفادہ تو کیا گیا ہے، مگر اپنی آراء کا بھی اظہار کیا گیا ہے، گویا آزادانہ پیرائے میں اقتصادیات کے موضوع پر بحث کی گئی ہے۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر اس بات سے اختلاف کرتے ہیں کہ جب ’’ علم الاقتصاد‘‘ ایک طبع زاد کتاب تھی، تو علامہ کو دیباچے میں اس بات کا اعلان کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، ڈاکٹر ملک حسن اختر لکھتے ہیں:
’’ علامہ اقبال نے اپنی کتاب میں ان مشہور اور مستند کتب کا حوالہ نہیں دیا اور نہ کہیں ان کا نام لیا ہے جن سے انہوں نے استفادہ کیا تھا۔ اس سے اور بھی تعجب ہوتا ہے کہ انہیں اس بات کی وضاحت کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ان کی یہ کتاب کسی خاص انگریزی کتاب کا ترجمہ نہیں ہے حالانکہ کسی بھی طبع زاد تصنیف کے دیباچے میں اس بات کا اعلان ضروری نہیں ہوتا۔ دراصل علامہ اقبال اس سے پہلے فرانسس اے واکر کی کتاب پولیٹیکل اکانومی کا ترجمہ کر چکے تھے چنانچہ اس سے یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ شاید یہ بھی ترجمہ ہو۔ واکر کی کتاب کا جو ترجمہ انہوں نے کیاتھا، وہ اب نہیں ملتا۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ علم الاقتصا دکی بنیاد یہی ترجمہ ہے۔‘‘ 22؎
ہماری رائے میں علامہ نے یہ وضاحت اس لئے ضروری محسوس کی کہ انہوں نے ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی تصنیف سے قبل واکر کی پولیٹیکل اکانومی کا ترجمہ کیا تھا۔ اس خیال کو رفع کرنے کے لئے کہ کہیں ’’ علم الاقتصاد‘‘ کو واکر کی کتاب کا ترجمہ نہ سمجھا جائے، انہوں نے طبع زاد کتاب کے دیباچے میں اس کی نشان دہی کر دی۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر اس اقتباس میں خود ہی علامہ کے اس اعلان پر اعتراض کر رہے ہیں، اور خود ہی اپنے اس اعتراض کا جواب بھی دے رہے ہیں کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ سے قبل چونکہ وہ واکر کی کتاب کا ترجمہ اخذ کر چکے تھے۔ اس لئے یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ شاید یہ بھی ترجمہ جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے کہ علامہ نے اسی شبہ کو رفع کرنے کی غرض سے دیباچے میں وضاحت ضروری سمجھی، اس بات سے ڈاکٹر ملک حسن اختر بھی بخوبی واقف ہیں، ایسی صورت میں ان کے اس اعتراض کا کیا جوا زہے؟
محمد حمزہ فاروقی بھی اس بات سے متفق ہیں کہ جہاں تک مواد کا تعلق ہے، یہ کسی ایک کتاب کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ اس میں اس دور کے مقبول و متدوال نظریات آ گئے ہیں علامہ نے الفریڈ مارشل (Alfred Marshal) واکر (Walker) ایڈم اسمتھ (Adam Smith) اور جے ایس مل (J.S. Mill) کی تصانیف سے استفادہ کیا تھا۔ مالتھس (Malthus) اور پروفیسر ٹاوسگ (Taussig) کے نظریات سے بھی آپ متاثر نظر آتے ہیں۔ محمد حمزہ فاروقی مزید کہتے ہیں کہ علامہ نے ان انگریزی مصنفین کا حوالہ نہیں دیا، اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ چونکہ یہ ایک درسی کتاب تھی، اس لئے درسی کتاب میں بھاری بھر کم ناموں کے حوالے دینا ضروری نہیں تھا23؎
اگر محمد حمزہ فاروقی مندرجہ انگریزی مصنفین کی کتب کا بھی حوالہ دے دیتے، اور’’ علم الاقتصاد‘‘ کے ان حصوں کی بھی نشاندہی کر دیتے جو محولہ بالا مصنفین کے خیالات سے متاثر نظر آتے ہیں، تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا قدرے آسان ہو جاتا کہ اقبال ان مصنفین سے کس حد تک متاثر ہوئے۔ ان کا کہنا صحیح نہیں ہے کہ علامہ اقبال نے حوالوں کی طرف توجہ نہیں کی کیونکہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ میں ایڈم سمتھ، مالتھس اور جے ایس مل کا ذکر ایک دو مقامات پر ضرور آیا ہے۔
اس پر تو اکثر نقاد متفق ہیں کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کسی ایک کتاب کا ترجمہ نہیں ہے، بلکہ اس میں مختلف انگریز مصنفین کے نظریات آ گئے ہیں، لیکن مشفق خواجہ اور ڈاکٹر ملک حسن اختر نے دو خاص انگریز مصنفین کے اثرات کا ذکر کیا ہے۔ مشفق خواجہ نے الفریڈ مارشل کے اثرات کا اور ڈاکٹر ملک حسن اختر نے واکر کے اثرات کا حوالہ دیا ہے، مشفق خواجہ کا کہنا ہے کہ علامہ اقبال نے سب سے زیادہ فائدہ جس کتاب سے اٹھایا، وہ الفریڈ مارشل کی کتاب Principle of Economics ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کتاب علم معاشیات پر پہلی باضابطہ کتاب ہے۔ یہ کتاب پہلی بار1890ء میں شائع ہوئی اور علمی دنیا میں اس حد تک مقبول ہوئی کہ 1898ء تک اس کے چار ایڈیشن شائع ہوئی اور علمی دنیا میں اس حد تک مقبول ہوئی کہ 1898ء تک اس کے چار ایڈیشن شائع ہو چکے تھے۔ اس کی اس مقبولیت سے مشفق خواجہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ممکن ہے اس کتاب کی مقبولیت دیکھ کر ہی اقبال نے ’’ علم الاقتصاد‘‘ لکھنے کا ارادہ کیا ہو۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت وہ یہ بتاتے ہیں کہ Principles of Economics کے اثرات ’’ علم الاقتصاد‘‘ پر بہت زیادہ ہیں۔ اقبال نے اگرچہ مارشل کی کتاب کا لفظ بہ لفظ ترجمہ نہیں کیا لیکن مواد اسی کتاب سے لیا ہے۔ بعض جگہ اقبال نے مارشل کی کئی عبارتوں کا لفظی ترجمہ بھی کیا ہے۔ آگے چل کر مشفق خواجہ لکھتے ہیں:
’’ اقبال کا مارشل کی عہد آفرین کتاب سے اس حد تک متاثر ہونا ضروری تھا۔ اس کتاب سے استفادہ کئے بغیر وہ علم الاقتصاد کو بہتر نہیں بنا سکتے تھے۔ لیکن مارشل کا حوالہ نہ دینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘ 24؎
لیکن ملک حسن اختر، مشفق خواجہ کی اس بات سے اختلاف کرتے ہیں کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ پر سب سے زیادہ اثر مارشل کی کتاب کا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ سب سے زیادہ واکر کی پولیٹیکل اکانومی سے متاثر نظر آتی ہے۔ ا س سلسلے میں انہوں نے تفصیلاً تحریر کیا ہے کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ میں ابواب کی تقسیم، عنوانات، حتیٰ کہ کتاب کا ذیلی عنوان ’’ علم سیاست مدن‘‘ بھی واکر کی کتاب پولیٹیکل اکانومی کا ترجمہ ہے، نہ کہ مارشل کی ’’ اصول معاشیات‘‘ کا جو Principles of Economics کا ترجمہ ہے۔ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں انہوں نے پولیٹیکل اکانومی کے کچھ اقتباسات نقل کئے ہیں، اور ان کے ساتھ اقبال کی ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے اقتباسات پیش کئے ہیں۔ 25؎ ان اقتباسات میں بعض تو واکر کی کتاب کے اقتباسات کا لفظی ترجمہ ہیں، اور بعض آزاد ترجمے کی ذیل میں آتے ہیں۔ مشفق خواجہ نے مارشل کی کتاب کو علم معاشیات پر پہلی باضابطہ کتاب قرار دیا ہے، جبکہ ڈاکٹر ملک حسن اختر کا کہنا ہے کہ مارشل کی کتاب سے سات برس پہلے واکر کی پولیٹیکل اکانومی شائع ہو چکی تھی، اور1888ء تک اس کے تین ایڈیشن شائع ہو چکے تھے اور 1892ء میں تیسرے ایڈیشن کی تلخیص شائع ہوئی۔ اس طرح نو سال میں چار ایڈیشن شائع ہوئے۔ ان تمام حقائق اور تفاصل کے بعد وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اقبال کی ’’ علم الاقتصاد‘‘ واکر کی کتاب سے متاثر ہے، علامہ نے واکر کی پولیٹیکل اکانومی کا جو ترجمہ تلخیص کی صورت میں کیا تھا، بعد میں اس میں تھوڑی ترامیم اور کچھ اضافہ کر کے ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے نام سے اپنی کتاب شائع کر دی۔
ڈاکٹر ملک حسن اختر نے واکر کی پولیٹیکل اکانومی اور علامہ اقبال کی ’’ علم الاقتصاد‘‘ کا تفصیلی تقابلی جائزہ پیش کئے بغیر یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ علامہ نے جو ترجمہ کیا تھا، اسی میں ترمیم و اضافہ کرنے کے بعد اپنے نام سے شائع کر دیا فاضل مصنف نے اپنے مضمون کا عنوان ’’ علم الاقتصاد‘‘ متعین کیا ہے، لیکن اس مضمون میں’’ علم الاقتصاد‘‘ کے تمام پہلو زیر بحث نہیں لائے گئے اور جس پہلو پر بحث کی گئی ہے وہ بھی تشنہ ہے۔ محض چند اقتباسات کی بنیاد پر جناب ملک حسن اختر کی رائے کچھ عجیب سی لگتی ہے۔ علامہ اقبال کا واکر کی کتاب سے متاثر ہونا ایک یقینی امر ہے، کیونکہ یہ نصاب میں شامل تھی اور اقبال اس پر درس دیا کرتے تھے۔ مزید برآں انہوں نے اس کا ملخص ترجمہ بھی کیا تھا، اس طرح لاشعوری طور پر واکر کی پولیٹیکل اکانومی کے اثرا ت ان کے ذہن پر مرقسم ہو گئے ہوں گے، اور جب انہوں نے خود اس موضوع پر کتاب لکھی تو یہ اثرات الفاظ میں ڈھل گئے۔ ایک مترجم جب اسی موضوع پر کچھ لکھتا ہے، جس سے اس کا براہ راست واسطہ رہا ہو تو لا محالہ ا س موضوع کے اثرات اس کی تحریر میں در آتے ہیں۔ یہی کچھ علامہ اقبال کے ساتھ بھی پیش آیا، البتہ یہ ضرور ہے کہ بعض مقامات پر انہوں نے مارشل اور واکر کی تحریروں کا لفظی یا آزاد ترجمہ پیش کیا ہے۔ مگر یہ بات واقعی تعجب انگیز ہے کہ انہوں نے اس اثر پذیری کے باوجود کتاب میں دونوں مصنفین کا حوالہ نہیں دیا، حالانکہ یہ ضروری تھا کم از کم واکر کی پولیٹیکل اکانومی کا تذکرہ کرنا ضروری تھا، کہ یہ کتاب نصاب میں شامل تھی اور علامہ اس کا ترجمہ بھی کر چکے تھے۔
بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ ایک طبع زاد کتاب ہے۔ اگرچہ بعض انگریز مصنفین کی کتب کے اثرات اس میں موجود ہیں، لیکن پوری کتاب کو ترجمے کی ذیل میں نہیں رکھ سکتے، اگر اقبال چاہتے تو واکر کی پولیٹیکل اکانومی کے ملخص ترجمے کو شائع کروا دیتے اور علیحدہ سے ’’ علم الاقتصاد‘‘ نہ لکھتے، مگر انہوں نے ایسا نہ کیا کہ وہ آزادانہ طور پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے تھے اور سادہ و آسان انداز میں ان تجاویز کو پیش کرنا چاہتے تھے جو انہوں نے اقتصادی حالت کی بہتری کے لئے متعین کی تھیں۔ ہم سید افتخار حسین شاہ کی اس رائے سے متفق ہیں:
’’ علم الاقتصاد، میں اخذ و ترجمہ کے علاوہ انفرادی غور و فکر کی بھی ایسی راہیں ملتی ہیں کہ جن پر علامہ ا گر بعد کی زندگی میں بھی گامزن رہتے تو یقینا ایک ماہر اقتصادیات کی حیثیت سے شہرت حاصل کرتے۔‘‘ 26
علم الاقتصاد کی اہمیت:
اردو نثر میں علامہ اقبال کا پہلا علمی کارنامہ علم معاشیات پر ایک باضابطہ کتاب ہے۔ علامہ نے جس دور میں یہ کتاب لکھی، اس وقت اردو میں اس موضوع پر کوئی باقاعدہ تصنیف موجود نہیں تھی، البتہ بعض انگریزی کتب کے اردو میں تراجم کئے گئے لیکن یہ تراجم طبع زاد کی ذیل میں نہیں آتے۔
معاشیات جیسے خشک موضوع پر ایک باقاعدہ کتاب لکھ دینا اس دور میں قدرے مشکل تھا، جبکہ اقبال ایک شاعر تھے اور شاعر فطرتاً حساس، جذباتی اور پرجوش ہوتے ہیں، علم الاقتصادیات خالصتاً ایک خشک موضوع ہے، اس میں جذبات کی رنگ آمیزی ممکن نہیں ہوتی۔ اقبال نے ایک شاعر ہونے کے باوجود اپنے نثری کارنامے کا آغاز علمی موضوع سے کیا۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں:
’’ علم الاقتصاد کے دور (بیسویں صدی کے آغاز) میں، ایک علمی زبان کی حیثیت سے، اردو کچھ ایسی ترقی یافتہ نہ تھی، اور معاشیات جیسے سائنسی فن پر اردو میں کچھ لکھنا خاصا مشکل تھا، پھر بھی اقبال نے یہ کتاب اردو میں لکھی۔‘‘ 27؎
علامہ نے معاشیات کے اہم شعبوں سے بحث کی ہے، مثلاً: پیائش دولت، تبادلہ دولت، پیداوار دولت کے حصہ دار وغیرہ پر سیر حاصل گفتگو کی ہے، اس بحث کے دوران میں بہت سے ضمنی موضوعات بھی آتے ہیں۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ علامہ کی نوجوانی کی تصنیف ہے، مگر نوجوان اقبال اپنے دور کے معاشی حالات سے بخوبی واقف تھا۔ یورپ کے بڑھتے ہوئے سامراج اور ایشیا و افریقہ کی معاشی پسماندگی سے اچھی طرح واقف تھے۔
پیدائش دولت کے باب میں علامہ اقبال نے ضمنی طور پر زمین، محنت، سرمایہ اور کسی قوم کی قابلیت پیدائش دولت کے لحاظ سے، پر بحث کی ہے۔ وہ دولت اور تنظیم دولت کو افراد کے بلند اخلاقی و روحانی نصب العین کے تابع دیکھنا چاہتے ہیں۔ 28؎
باب پنجم میں آبادی کا ذکر کیا ہے کہ وہ کسی ملک کی معیشت پر کسی طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے جدید اشیاء کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جدید اشیاء کی پیداوار اور صرف دولت کے موضوع پر گفتگو کی ہے۔ مسئلہ ملکیت زمین سے علامہ کو ہمیشہ دلچسپی رہی، ’’ علم الاقتصاد‘‘ میں وہ زرعی لگان کے باب میں بعض فلسفیوں کے حوالے سے اس خیال کو پیش کرتے ہیں کہ زمین چونکہ کسی خاص فرد یا قوم کی محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ قدرت کا مشترکہ عطیہ ہے، اس لئے اس پر قوم کے ہر فرد کو مساوی حق ملکیت حاصل ہے۔ اقبال دل سے اس بات کے آرزو مند تھے کہ ملک کو مفلسی اور غربت کے چنگل سے آزاد کر دیا جائے۔ یہ مسائل ایسے ہیں جو آج بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی ایک پیچیدہ مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ ملک کی اقتصادی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی بقا کے لئے ان تمام اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے، جو ایک صحت مند معاشرے میں ہونی چاہئیں۔ آبادی کی زیادتی ملک کے صنعتی وسائل پر بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ روزگار کے مواقع مہیا نہ ہونے کے باعث ملک میں غربت عام ہوتی جا رہی ہے۔ نتیجتہً بیروزگاری کے باعث ملک میں جرائم کی رفتار بڑھتی جا رہی ہے، ذہن پراگندہ ہیں، جسمانی صحت قابل رحم ہے اور اخلاقی قدریں ناپید ہو گئی ہیں۔ علامہ اقبال نے آج سے تقریباً نواسی سال پہلے آبادی کو کنٹرول کرنے کی تجاویز پیش کر دی تھیں۔ گویا اقبال کے وجدان نے انہیں بہت پہلے اس مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کر دیا تھا، اگر آج ہم اقبال کی پیش کردہ تجاویز کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی مثبت لائحہ عمل اختیار کریں تو ممکن ہے کہ صورت حال مختلف ہو۔
علامہ اقبال کے نزدیک معیشت اور اخلاق ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں، اگر اخلاق اور معیشت متحد نہ ہوں تو معاشرے میں بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں، چودھری مظفر حسین لکھتے ہیں کہ حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ تنظیم دولت کے لئے آئینی، قانونی اور تنظیمی طریقے اختیار کرے تاکہ معاشرے کے اندر تقلیل و کثرت دولت کے اخلاقی مفاسد جنم نہ لینے پائیں ۔ 29؎
ہمارے ہاں امیر طبقہ امیر سے امیر تر ہے۔ دور غلامی کی طرح آج بھی غریبوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ انہیں ان کی محنت کے مطابق اجرت نہیں دی جاتی، نتیجتہً وہ جدید سہولتوں سے محروم ہیں۔ امیر طبقہ بے تحاشا فضول خرچی کرتا ہے۔ اہل محنت سے علامہ اقبال کو دلی ہمدردی ہے، وہ ان کی زبوں حالی پر نالاں ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ انہیں آسودگی اور خوشحالی نصیب ہو، معاشرہ انہیں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتے تھے جس میں غریب کا معیار زندگی بلند کر کے اسے درمیانہ طبقہ تک پہنچنے کی سہولتیں فراہم کی جائیں اور امیر کے ذرائع آمدنی کو محدود کر کے اسے درمیانہ طبقہ سے تجاوز کرنے سے روکا جائے۔ 30؎ علامہ اقبال جاگیردارانہ نظام کے شدت سے مخالف تھے۔ انہیں ساہوکار، زمیندار اور کارخانہ دار کے مقابلے میں مزدور اور کاشتکار سے ہمیشہ ہمدردی رہی ہے۔ اس ہمدردی کا اظہار اقبال نے اپنے بعد کے کلام (خضر راہ، پیام مشرق، جاوید نامہ) میں بھی کیا ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ دولت مزدور پیدا کرتا ہے لیکن مالک انہیں معاوضہ زکوٰۃ کی طرح دیتا ہے۔
’’ علم الاقتصاد‘‘ میں کئی دیگر معاشی مسائل پر بھی مختصراً روشنی ڈالی گئی ہے، اگرچہ موجودہ دور میں علم معاشیات نے بہت زیادہ ترقی کر لی ہے، لیکن بہت سے بنیادی مسائل آج بھی وہی ہیں، جن کی نشان دہی اقبال نے کی ہے۔ یہ کتاب اقبال کے اقتصادی تصورات سمجھنے میں بہت ممد ثابت ہو سکتی ہے۔ بالخصوص وہ اقتصادی تصورات جو ایک حد کے بعد ملکی سیاست پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں (اور ہوتے ہیں۔ 31؎ علامہ اقبال کے نزدیک معاشی ترقی کا راز قومی تعلیم میں مضمر ہے، تعلیم ہی سے دست کار کا ہنر اور فن، اس کی محنت اور کارکردگی اور ذہانت ترقی کرتی ہے، اس کے اخلاق سنورتے ہیں۔
’’ علم الاقتصاد‘‘ میں بہت سی ایسی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں، جو آج بھی مستعمل ہیں، اگرچہ ان میں سے بہت سی اصطلاحات متروک ہو گئی ہیں، تاہم معاشیات کا طالب علم ان سے ناواقف نہیں ہے۔ ایسی بہت سی اصطلاحات کے مترادفات مشفق خواجہ نے اپنے مضمون میں پیش کئے ہیں۔ 32؎ دیباچے میں علامہ اقبال اصطلاحات کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ نئی علمی اصطلاحات کے وضع کرنے (کی) دقت کو ہر با مذاق آدمی جانتا ہے، میں نے بعض اصطلاحات خود وضع کی ہیں اور بعض مصر کی عربی اخباروں سے لی ہیں جو زمانہ حال کی عربی زبان میں آج کل متد اول ہیں، جہاں جہاں کسی اردو لفظ کو اپنی طرف سے کوئی نیا مفہوم دیا ہے ساتھ ہی اس کی تصریح بھی کر دی ہے۔‘‘ 33؎
زبان و بیان کے اعتبار سے بھی ’’ علم الاقتصاد‘‘ موجودہ قواعد زبان اور جدید اسلوب کے قریب ترین ہے، اگرچہ کہیں کہیں املا قدیم قاعدے کے مطابق ہے، اس میںاقبال کا قصور نہیں ہے۔ جس دور میں اقبال نے یہ کتاب لکھی، اس وقت اردو زبان علمی اعتبار سے اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی کہ اس میں مستند علمی کتاب لکھی جا سکے۔ اس وقت کے باوجود اقبال نے معاشی مسائل نہایت آسان اور سلیس زبان میں بیان کئے ہیں۔ اپنی بات کی وضاحت میں سادہ اور آسان اور عام فہم مثالیں دی ہیں۔ اس قسم کی مثالیں ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے تقریباً ہر باب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں، سید نذیر نیازی لکھتے ہیں’’ علم الاقتصاد‘‘ کا انداز بیان بڑا سلجھا ہوا ، صاف اور سلیس ہے، زبان سر تا سر علمی 34؎ اقبال نے دیباچے میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ میں اہل زبان نہیں ہوں لکھتے ہیں:
’’ زبان اور طرز عبارت کے متعلق صرف اس قدر عرض کر دینا کافی ہو گا کہ میں اہل زبان نہیں ہوں۔ جہاں تک مجھ سے ممکن ہوا ہے میں نے اقتصادی اصولوں (کے) حقیقی مفہوم کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور اردو زبان میں اس متین طرز عبارت کی تقلید کرنے کی کوشش کی ہے جو انگریزی علمی کتابوں میں عام ہے۔‘‘ 35؎
یہ محض علامہ اقبال کا احساس تھا کہ وہ اہل زبان نہیں ہیں، ورنہ اقبال سے زیادہ اہل زبان کون ہو سکتا ہے، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کا کہنا ہے کہ اگر’’ اہل زبان‘‘ کو یہاں ایک بطور اصطلاح کے لیا جائے تو اقبال کا اہل زبان نہ ہونا اس تالیف کے لئے بہت مفید ثابت ہوا ہے۔ اگر وہ’’ اہل زبان‘‘ ہوتے تو محاورے اور روز مرے کے چٹخارے سے بچنا ان کے لئے مشکل ہوتا اور وہ علمی لحاظ سے متین طرز عبارت اس خوبی سے اختیار نہ کر سکتے۔ 36؎ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی زبان کے سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں اصلاح کا کام مولانا شبلی نعمانی نے انجام دیا ہے۔ دیباچے میں علامہ اقبال نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے، گویا زبان کے معاملے میں ’’ علم الاقتصاد‘‘ کو شبلی کی سند حاصل ہے۔
’’ علم الاقتصاد‘‘ کا اسلوب کہیں کہیں مدرسانہ اور فلسفیانہ ہے۔ 37؎ ’’ علم الاقتصاد‘‘ چونکہ درسی تقاضوں کے تحت لکھی گئی تھی، اس لئے اس میں اکثر مقامات پر سمجھانے کا انداز نظر آتا ہے، مثلاً اس قسم کے فقرے نظر آتے ہیں’’ بہ الفاظ دیگریوں کہو کہ‘‘ ’’ مگر یاد رکھنا چاہئے‘‘ ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تم جانتے ہو کہ ’’ تم شاید یہ کہو گے کہ‘‘ ’’ فرض کرو‘‘ کہیں اس غلطی میں نہ پڑ جانا ’’ دولت ہی کو لے لو‘‘ پھر اس کا کیا فائدہ وغیرہ اس طرز بیان سے بات بھی واضح ہو جاتی ہے اور عبارت میں پھیکا پن بھی نہیں آنے پاتا، ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں:
’’ یہ کتاب اپنے اندر نہ صرف معلومات کے اعتبار سے وسعت اور ہمہ گیری رکھتی ہے بلکہ زبان و بیان اور اسلوب کے اعتبار سے بھی منفرد نظر آتی ہے کیونکہ جس زمانے میں یہ لکھی گئی، اس زمانے میں اس انداز کی نثر لکھنے کا رواج عام نہیں تھا۔‘‘ 38؎
’’ علم الاقتصاد‘‘ کی اہمیت آج بھی مسلم ہے، وجہ یہ ہے کہ اقبال نے معاشیات کے جن مباحث پر گفتگو کی ہے، وہ آج بھی موجود ہیں، البتہ جدید ماحول کے تحت ان مسائل میں کافی حد تک تبدیلی بھی آئی ہے، مگر بنیادی مسائل وہی ہیں، جو ’’ علم الاقتصاد‘‘ میں زیر بحث آئے ہیں، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی اہمیت پر اس طرح روشنی ڈالتے ہیں:
’’ آج علم الاقتصاد، کی اہمیت اقبال کی اولیں تصنیف اور ایک یادگار کے طور پر ہے، نہ کہ معاشیات کی ایک کتاب کی حیثیت سے۔ معاشی نظریات اور اصولوںمیں اتنی پیش رفت ہو چکی ہے کہ علم الاقتصاد کا علمی مرتبہ لائق اعتنا نہیں، اور نہ یہ کتاب جدید معاشیات کے طلبہ کے لئے چنداں سود مند ہو سکتی ہے۔ جوں جوں وقت گزرے گا، اس کی یہ حیثیت گھٹتی چلی جائے گی، مگر اقبال کی تصنیف کے طور پر اس کی اہمیت بدستور قائم رہے گی۔‘‘ 39؎
انور اقبال قریشی ایک ماہر معاشیات ہیں، اور انہوں نے ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی طبع دوم کا مقدمہ بھی لکھا ہے، ان سے جب کسی دوست نے پوچھا کہ’’ علم الاقتصاد‘‘ موجودہ دور میں کیا اہمیت رکھتی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ’’ علم الاقتصاد‘‘ کا مقابلہ موجودہ دور کے علم معاشیات سے کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ 1930ء کے ڈکوٹا ہوئی جہاز کا 1960ء کے بوئنگ جہاز سے کیا جائے۔ 1930ء میں بوئنگ جہاز کا تصور بھی موجود نہ تھا، لیکن ڈکوٹا آج بھی خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں فاصلے کم اور ہوائی اڈے معمولی درجے کے ہیں، ایک مقام رکھتا ہے۔ یہی کیفیت زیر تبصرہ کتاب کی ہے۔ اس زمانے کے لحاظ سے یہ ایک نہایت قابل قدر علمی کارنامہ تھا، اور اس وقت علم المعیشت کی تعلیم انگریزی زبان میں بھی بہت معمولی درجہ رکھتی تھی اور اس مضمون کے جاننے والوں کی تعداد نہایت محدود تھی۔ اردو میں ایک ایسی کتاب لکھنا جو اس مشکل مضمون کو عام فہم الفاظ میں بیان کرے، عوام کے لئے ایک نہایت علمی ذخیرہ مہیا کر دے، ایک انتہائی قابل قدر کوشش تھی، جس کی اہمیت اور افادیت آج بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ 40؎ سید نذیر نیازی ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی اہمیت پر اس طرح تبصرہ کرتے ہیں:
’’ معاشیات میں اس وقت سے لے کر اب تک جو گراں قدر اضافے ہوئے، انداز بحث اور نقطہ نظر جس طرح بدلا اور بدلتا چلا جا رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے علم الاقتصاد کی موجودہ اہمیت اگرچہ کہنے کو صرف تاریخی ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود محمد اقبال کی صحت فکر اور مضمون پر گرفت کے ساتھ ساتھ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ معاشیات کی حقیقی اہمیت اور بنیادی نوعیت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ان کی صحت آج بھی مسلم ہے، تو اس کی قدر و قیمت کا اقرار کرنا پڑتا ہے۔‘‘ 41؎
مندرجہ بالا آراء سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اگرچہ علم معاشیات میں خاصی پیش رفت ہو چکی ہے آج بھی علم اقتصاد کی پہلی علمی تصنیف کے طور پر اور ایک معاشی کتاب کے طور پر بھی دلچسپی سے پڑھی جا سکتی ہے۔ معاشی اصول و نظریات میں تبدیلی ایک فطری امر ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، ماحول و معاشرے میں تبدیلی آتی ہے اور پرانے نظریات اور اصول بھی بڑی حد تک بدل جاتے ہیں۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ ایک ایسے شاعر کے قلم سے نکلی ہے جو نثر کو مقصود بالذات نہیں بلکہ انسانی خیالات کے اظہار کا محض ایک ذریعہ خیال کرتا تھا۔
٭٭٭
حواشی
1اقبال ایک مطالعہ، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، ص27
2خالد نظیر صوفی (اقبال درون، ص163) ڈاکٹر وحید قریشی، (نقوش، اقبال نمبر، حصہ دوم، دسمبر1977ء ، ص30) اور ڈاکٹر اکبر حیدری کاشمیری کے نزدیک 29دسمبر1973ء صحیح ہے۔۔۔ سعید اختر درانی (اقبال یورپ میں، ص15) کے خیال میں جنوری، فروری 1976ء درست ہے۔
3اقبال ریویو، جنوری 1976ء ص69
4رسالہ اردو، جولائی، اکتوبر1921
5زندہ رود (حیات اقبال کا تشکیلی دور) ص87
6تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص292, 291
7تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص289
8رسالہ ’’ اردو‘‘ جولائی اکتوبر1961ء
9اقبال ایک تحقیقی مطالعہ ص187
10مجلہ ’’ اقبال‘‘ بزم اقبال لاہور، اکتوبر1989ء ص:95-94
11’’ اقبال از: عطیہ فیضی، مطبوعہ اقبال اکادمی کراچی، ص18‘‘
12اقبال کا پہلا علمی کارنامہ۔۔۔۔۔۔ علم الاقتصاد، مشمولہ: رسالہ ’’ اردو‘‘ جولائی اکتوبر1961ء
13اقبال کا پہلا علمی کارنامہ۔۔۔۔۔ علم الاقتصاد، از : مشفق خواجہ، مشمولہ: رسالہ ’’ اردو‘‘ جولائی، اکتوبر1961
14مکتوب بنام سر کشن پرشاد شاد، مشمولہ: شاد اقبال، مرتبہ: ڈاکٹر محی الدین قادری زور، ص45
15تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص296
16پیش لفظ ’’ علم الاقتصاد‘‘ ازـ: ممتاز حسن ص2
17پیش لفظ’’ علم الاقتصاد‘‘ از: ممتاز حسن ص9
18تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص295
19تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص298
20تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص300
21’’ دیباچہ مصنف‘‘ علم الاقتصاد طبع اول، ص6
22اقبال ایک تحقیقی مطالعہ ص: 192, 191, 190
23علم الاقتصاد، از محمد حمزہ فاروقی، مشمولہ: اقبال ریویو، مجلہ اقبال اکادمی کراچی،جنوری 1976ء ص:74
24اقبال کا پہلا علمی کارنامہ۔۔۔۔ علم الاقتصاد، از مشفق خواجہ، مشمولہ : رسالہ اردو، جولائی اکتوبر1960ء
25اقبال ایک تحقیقی مطالعہ، ص192تا205
26 اقبال اور پیروی شبلی، از: سید افتخار حسین شاہ، ص140
27 تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص284
28 اقبال کی علم الاقتصاد، از پروفیسر محمد عثمان، مشمولہ: حیات اقبال کا ایک جذباتی دور، ص80
29 اقبال کے زرعی افکار، از: چودھری مظفر حسین، ص:11
30 مئے لالہ فام، از ڈاکٹر جاوید اقبال، ص299
31اقبال کی نثر کا مزاج، از سلیم اختر، مشمولہ: مجلہ سہ ماہی اقبال، اپریل تا جولائی 1977ء ص87
32اقبال کا پہلا علمی کارنامہ۔۔۔۔ علم الاقتصاد، از مشفق خواجہ، مشمولہ: رسالہ اردو، جولائی تا اکتوبر1961
33دیباچہ مصنف، طبع اول، ص6
34دانائے راز، از : سید نذیر نیازی، 1979ء ص143
35دیباچہ مصنف، طبع اول، ص6
36 اقبال کا اسلوب نگارش، از ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، ص14
37نثر اقبال، از ڈاکٹر اسلم فرخی، مشمولہ: دانائے راز اقبال، مرتبہ: بابائے اردو مولوی عبدالحق
38اقبال کی اردو نثر، ص80
39تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص300
40مقدمہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ از انور اقبال قریشی، طبع دوم، ص13
41دانائے راز، از سید نذیر نیازی، 1979ئ، ص143
٭٭٭