یونس خان (سرگودھا)
IN THE HANDS OF THE TALIBAN
یوآنے رِڈلے مریمYvonne Ridley
ـ’’ کیا تم وہی چڑیا ہوجسے طالبان نے اپنے پنجرے میں بند کر دیا تھا ؟‘‘
وہ لندن کی ایک سیاہ کیب میں سوار ہوئی تھی اوریہ سوال اُس کیب کے ڈرائیور نے اُس سے کیاتھا۔جو اخبارات میں چھپنے والی اس کی تصاویر کی وجہ سے اُسے پہچان چکا تھا۔ اُس کے ’ہاں‘ میں سر ہلانے پر ڈرائیور نے اُس سے پوچھا ’’ کیا انہوں نے تمہارے ساتھ جنسی تعلق بھی استوار کیا تھا ؟‘‘ جب اُس نے ’نفی‘ میں سر ہلایا تو اُس کیب ڈرائیور نے آگے جھپکتے ہوئے اُس سے کہا ـ’’ مجھے بالکل یقین نہیں آتا۔ اگر میں وہاں ہوتا تو تمہیں بھنبھوڑ کر رکھ دیتا۔‘‘ اُ س خاتون کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ وہ سمجھی کہ شائد ٹیکسی ڈرائیور اُسکے حُسن کو خراجِ تحسین پیش کر رہا ہے۔’’مہذب دنیامیں واپسی پر خوش آمدید، یوآنے۔۔۔‘‘ اُس نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔وہ اس لمحے اس سوال سے ہراساں ہو کر سوچ رہی تھی کہ یہ ہے وہ فرق کہ جہاں وہ ایک غیرمہذب دنیا سے تو اپنی عزت بچا کر لے آئی ہے لیکن اس مہذب دنیا کا باسی اُسے سرِ عام بھنبھوڑنے کی باتیں کر رہا ہے۔
یہ سرگزشت ہے اُس صحافی خاتون کی جو افغانستان میں رہنے والے لوگوں کے بارے میں ایک مضمون لکھنا چاہتی تھی۔ وہ 9/11 کے واقعہ کے بعدعام افغانوں کے خدشات اُن کی خواہشات اور آنے والے دنوں میں امریکہ سے وابستہ انکی اُمیدوں سے متعلق آگہی حاصل کرنا چاہتی تھی۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ 11 ستمبر کے واقعے پر اُنکی کیاسوچ ہے ؟ وہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ امریکہ کی متوقع کاروائی کے بارے میں ان لوگوں کے کیا تاثرات ہیں؟
2001 کی 11 ستمبر کو ابھی دن کا نصف حصہ ہی گزر پایا تھا کہ برطانیہ کے ایک بڑے اخبار ـ’ڈیلی ایکسپریس‘ کی خاتون صحافی یوآنے رِڈلےؔ نے محسوس کیا کہ لوگ نیوز روم کے چاروں طرف رکھے ٹی۔وی سیٹوں کے سامنے تیزی سے چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں جمع ہو ر ہے ہیں۔ نیوز آپریشن میں جرنلسٹ، فوٹوگرافرز، نیوز ڈیسک کا عملہ، سب ایڈیٹرز، گرافک آرٹسٹس اور دیگر کارکن مل جل کر کام کرتے ہیں۔ رِڈلے بھی بھاگتی ہوئی وہاں پہنچی اور اُسے یہ دیکھ کر شدید دھچکا لگا کہ اُس کے سامنے ٹی۔ وی سکرین پر’ ورلڈ ٹریڈ سنٹر‘ آگ کی لپیٹ میں تھا۔ وہ چند دن پیشتر اُسکے قرب و جوار میں تھی اور وہ وہاں جا نہیں پائی تھی۔ اُس نے فوری طور پر اپنی بہن سے فون پر رابطہ کیا اور اُس سے کہا کہ ممکن ہے طیارے کے پائلٹ کو ہارٹ اٹیک ہو گیا ہو یا کوئی اور عارضہ لاحق ہو گیا ہو جس کی وجہ سے اس کا طیارے پر کنٹرول نہ رہا ہو اور وہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی بلڈنگ سے ٹکرا گیا ہو۔ اُس کے مطابق جان۔ ایف کینیڈی کے قتل کے واقعے کے بعد امریکی تاریخ میں یہ ایک ہولناک ترین خبر تھی۔
اس واقعے کے فوراً بعد اخبار کے ایڈیٹر کا خیال تھا کہ خبروں کے حصول کے لئے اُسے نیویارک جانا چاہیے جبکہ رڈلے دمشق یا لبنان جانا چاہتی تھی اُسکے مطابق یہ علاقے اب خبروں کی زینت بننے والے تھے۔ اُسکے دفتر سے نکلنے تک ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا ساؤتھ ٹاور زمین بوس ہو چکا تھا۔ وہ دوڑتی ہوئی اپنے گھر پہنچی وہاں سے اپنے چند کپڑے اٹھائے اور ہتھروؔ ائیرپورٹ کی طرف روانہ ہو گئی۔ اُسکے ائیرپورٹ پہنچنے تک بحراوقیانوس کے پار سے آنے والی تمام پروازوں کو کیناڈا کی طرف موڑا جا چکا تھا۔ اس وقت تک ٹریڈسنٹر کا نارتھ ٹاور بھی ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا تھا۔
رِڈلے برٹش ائیرویز کے ڈیسک کے سامنے لگی قطار میں شامل ہو گئی۔ ہر طرف ایک افراتفری کا عالم تھا۔ کوئی ایک گھنٹے کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ کم از کم ایک دن کے لئے بحراوقیانوس کے اوپر سے کوئی پرواز نہیں گزرے گی۔ اس وقت تک میکسیکو اور کیناڈا کی طرف سے امریکہ جانے والے فضائی راستے بھی سرحدیں بند کر دئے جانے کی وجہ سے مسدود کر دئیے گئے تھے۔ تا ہم اُس نے رجائیت پسندی کا سہارہ لیتے ہوئے نیویارک کے لئے ۱۳ستمبر کا ٹکٹ خرید لیا۔
۱۱ستمبر کو منگل کا دن تھا۔ ۱۳ستمبر بروز جمعرات رِڈلے اعلی الصبح تین بجے اپنے گھر پہنچی۔ وہ ساری رات جاگتی رہی تھی ۔ ہولڈال کو دوبارہ پیک کیا اور ٹیکسی پر سوار ہو کر شدید سردی میں پیڈنگٹنؔ ریلوے سٹیشن پہنچی۔ لیکن سٹیشن پہنچنے پر اُسے پتہ چلا کہ ٹرین سروس بند کر دی گئی ہے ۔تا ہم صبح پانچ بجے سروس شروع ہونے کا امکان ہے۔ موسم کی شدت کے سامنے اسکی گرم لیدر جیکٹ اُسے گرم رکھنے کے لئے ناکافی تھی ۔ وہ پلیٹ فارم پر اُس وقت تک ٹھٹھرتی رہی جب تک کہ خدا خدا کر کے سروس بحال نہ ہوئی اس طرح وہ بذریعہ ٹرین ہتھروؔ ائیرپورٹ پہنچی ۔ وہاں پہنچ کر انکشاف ہوا کہ فلائیٹ ایک مرتبہ پھر منسوخ کر دی گئی ہے ۔ برطانیہ سے کوئی بھی صحافی ابھی تک برطانیہ سے باہر نہیں جا سکا تھا کیونکہ امریکی فضائی حدود میں داخلے کی ابھی تک پابندی تھی۔
جمعہ کے روز رڈلے پھر ہتھرو ائیرپورٹ پہنچی اور نیویارک کے متبادل ٹکٹ کے لئے قطار میں لگ گئی۔ اُس وقت اُس نے یہ جان کر بے چینی محسوس کی کہ اوّلین ترجیح اُن امریکی لوگوں کو دی جا رہی ہے جو گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں جبکہ ایسے لوگوں کی ایک کثیر تعداد اس وقت وہاں موجود تھی۔
انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے میں ہی نہ آ رہی تھیں۔ ابھی ٹکٹ حاصل کرنے کے درمیان صرف دو منٹ کی دوری تھی کہ اُسکے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ یہ اسکا باس جِمؔ تھا۔ رڈلے نے اُسے جلدی جلدی بتایا کہ چند منٹ میں وہ ٹکٹ وصول کر رہی ہے اور ٹکٹ وصول کرتے ہی وہ رنگ بیک کرے گی لیکن جِم کا جواب سُن کر وہ سناٹے میں آ گئی۔جِم نے کہا تھا کہ نیویارک کو بھول جاؤ اور سیدھی اسلام آباد پہنچو۔ رڈلے نے محسوس کیا کہ گویا وہ قوتِ گویائی سے محروم ہو گئی ہے۔ وہ خود کو یہ کہتے ہوئے محسوس کر رہی تھی کہ میرے تمام ملبوسات تو ڈاؤن ٹاؤن نیویارک کے لئے پیک ہوئے تھے یہ بیک و رڈ ایشیا کے کسی گھٹیا قسم کے شہر کے لئے تو نہیں خریدے گئے تھے۔
جِم کے اس فیصلے کا کیا محرک تھا وہ اس سے بے خبر تھی۔ رڈلے کے تامّل کو جمؔ نے محسوس کیا اور کہا کہ سٹوری اب افغانستان اور پاکستان سے شروع ہونے والی ہے۔ اب اسلام آباد وہ جگہ ہے جہاں ہمیں موجود ہونا چاہئے۔ وہ دلی طور پر تو قائل نہ ہو سکی لیکن اس قطار کو چھوڑ کر بڑبڑاتے ہوئے برٹش ائیرویز ؔ کے کاؤنٹر پر جا پہنچی۔ برٹش ائیرویز بھی اس وقت پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے لئے تمام پروازیں منسوخ کر چکی تھی۔ کسی کے کہنے پر وہ اماراتؔ کے ڈیسک پر پہنچی۔ وہاں سے اُسے لندن تا لاہور براستہ دبئی ٹکٹ مل گیا۔ اُسے کہا گیا کہ لاہور سے اسلامٓ باد کی انٹرنل فلائیٹ کی بکنگ کرانا بہتر رہے گا۔
۴۳سالہ یوآنے رِڈلے اس طرح اسلام آباد پہنچی۔ اسلام آباد کا میریٹ ہوٹل اس وقت دنیا بھر کے صحافیوں سے بھرا پڑا تھا جبکہ ان میں اگر کوئی کمی تھی تو وہ برطانوی صحافی تھے ۔
رڈلے درہ خیبر جانا چاہتی تھی لیکن وہاں تمام میڈیا کا داخلہ سختی سے بند کر دیا گیا تھا۔ افغانستان کے حالات ہر آنے والے دن کے ساتھ خراب ہو رہے تھے۔ اس طرح باقاعدہ ویزے کے ذریعے افغانستان میں داخل ہونے کا امکان بھی کم سے کم ہوتا جا رہا تھا۔ اُدھر افغانستان پر حملے کے لئے الٹی گنتی شروع ہو چکی تھی۔وقت کم تھا اس لئے رڈلے نے قلم اور کیمرہ لیا، اپنی وضع قطع میں کچھ تبدیلی کی اور ٹروجن جنگ کے جنگجوؤ ں کی طرح اپنے آپ کو لکڑی کے گھوڑے کی جگہ برقعے میں چھپایا اور مقامی اپریٹروں کی مدد سے ایک افغان عورت کے بہروپ میں جلال آباد پہنچنے کا بندوبست کر لیا۔ وہ ایک گونگی بہری لڑکی کے روپ میں جلال آباد سے کوئی چار میل دور ایک گاؤں ’کاما‘ پہنچی۔
وہاں ایک افغان خاندان کے ساتھ ایک رات گزارنے کے بعد واپسی کے سفر میں رڈلے ’ دَوربابا‘ کے پہاڑوں میں ایک گدھے پر سفر کر رہی تھی۔ تقریباً بیس منٹ کا سفر باقی تھا کہ گدھا اچانک گدھے پن پر اتر آیا اور اچانک اس نے آگے کی طرف جست لگا دی۔ اس اچانک آفت پر اسکے منہ سے بے ساختہ انگریزی گالی نکل گئی۔ چونکہ یہ پشتو کا لفظ نہیں تھا اس لئے بہت سارے لوگوں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ جس چیز سے چونکے تھے وہ برقع پوش خاتون کا شور تھا۔ افغان عورتیں اونچی آواز میں بولنے کی جسارت نہیں کرتیں۔ رڈلے گدھے کی لگام پکڑنے کے لئے آگے جھکی تو اسکا کیمرہ بھی نمایاں طور پر نظر آ گیا۔ جس پر افغان سپاہی نے فوراً شور مچا تے ہوئے رڈلے کو گدھے سے نیچے اترنے کا حکم دے دیا۔ سپاہی نے اس سے گدھا چھین لیا اور کیمرہ ہٹانے کو حکم دیا۔ جونہی اس نے کیمرہ اپنے جسم سے الگ کیا اس نے جھپٹا مار کر اسے اس سے چھین لیا اور ساتھ ہی گدھے کے مالک سے بھی سختی سے پوچھ گیچھ شروع کر دی۔ جس نے جواباً گائیڈ کے چچا کی طرف اشارہ کر دیا۔ سپاہی تیزی کے ساتھ اس کی طرف بڑھا کچھ سوال وجواب کے بعد اس نے اُس بوڑھے کے چہرے پر تھپڑوں کی بارش کر دی ۔ جس سے اس کی ناک سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ اس دوران لوگ اکھٹے ہو گئے اور رڈلے اس جمگھٹے سے کچھ دور چلی گئی۔ طالبان کو زیادہ غرض گائیڈز سے تھی اور رڈلے برقع میں ہونے کی وجہ سے ابھی تک سپاہی کی آنکھوں سے اوجھل تھی۔ اس کی ہمراہی عورت بھی غائب ہو گئی تھی۔ اس دوران رڈلے سپاہی کے پاس گئی اور اپنا کیمرہ واپس طلب کیا۔ سپاہی اس وقت تک اسے بھول چکا تھا۔ رڈلے اپنے مطالبے کے لئے جو زبان بول رہی تھی وہ اس کے لئے عجیب و غریب تھی۔ اس دوران کچھ اور طالبان بھی آ گئے وہ حیران تھے کہ وہاں ایک انگریز عورت کہاں سے آ گئی۔ اسی دوران ایک افغان سپاہی نے اس گرفتار کر لیا۔
جونہی اس کی گرفتاری کی خبر میڈیامیں آئی ان تمام مغربی قوتوں نے جن کے لئے کسی فرد کو سیاسی مقصد کے تحت قربانی کا بکرا بنا دینا کوئی شرم کی بات نہیں ہے، رڈلے کو جاسوس ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کر دیا۔ انہوں نے اس کی کچھ دستاویزات اور تصاویر چوری کیں اور اپنی تیکنیکی مہارت کے بل بوتے پر ان میں کچھ تبدیلیاں کرکے ان کی نقول بنا بنا کر طالبان کر ارسال کرنا شروع کر دیں ۔ان میں دو انتہائی مستند دکھائی دینے والی دستاویزات تو ایسی تھیں کہ جن کے مطابق اس کا جاسوس ہونے کا واضع امکان دکھائی دیتا تھا ۔ طالبان جاسوسی کا شبہ ہونے پر کسی کو بھی معاف نہیں کرتے تھے۔ وہ یوآنے کوبہ آسانی کسی ٹینک کی نال کے ساتھ لٹکا کر پھانسی دے سکتے تھے اور دوسروں کو عبرت کے لئے اس کی لاش کو سارے شہر میں پھراتے۔ لیکن کوئی ایسا ا گروہ یا ادارہ موجود تھا جو اسے جاسوس ثابت کرنے کی مسلسل کوشش کر رہا تھا۔ اس ادارے نے کچھ فائلیں قطر میں موجود ’الجزیرہ‘ ٹیلی ویژن چینل کے ہیڈ کوارٹر کو بھی بھیجیں۔ الجزیرہ کے لندن بیورو نے اس کی مزید چھان بین کی اور انہوں انہیں نشر کر دیا ۔وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ دستاویزات اصلی ہیں یا نہیں۔ یہ کام بڑی محنت اور سرگرمی سے کیا گیا۔ اس گھناؤنے فعل کا مقصد رڈلے کو استعمال کرنا یا پھنسانہ مقصود تھا۔ ان دونوں صورتوں میں کسی ایک کے بھی وقوع پزیر ہونے کے نتائج بہت سنگین ہوتے۔اگر رڈلے کی میت کسی تابوت میں بند برطانیہ میں آتی تو رائے عامہ فوری طور پر طالبان پر بمباری کے حق میں ہو جاتی ۔
رڈلے نے طالبان کو اسلام آباد میں ہوٹل کے کمرے کا نمبر بتا دیا تھا چونکہ اس کے پاس چھپانے کے لئے کچھ نا تھا۔ کسی گروپ نے اس کے کمرے کی تلاشی تولی لیکن اسکے کمرے سے نہ تو رقم چرائی گئی اور نہ ہی کریڈٹ کارڈ چوری کئے گئے۔ اسکا پاسپورٹ بھی اُسی جگہ موجود رہا جہاں اسے رکھا گیا تھا۔ چوری کی گئی تو صرف ٹیلی فون نمبروں والی ڈائری جبکہ اسکے کاغذات کو الٹ پلٹ کر دیا گیا تھا۔ اسکے بستر کی بھی تلاشی لی گئی۔ ہو سکتا ہے کہ طالبان کے پردے میں کوئی دوسرا گروہ پاکستان میں کام کر رہا ہو یا ممکن ہے کہ صحافیوں ہی کے کسی گروہ نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہو۔سوہوؔ ،برطانیہ میں اس کے فلیٹ کی بھی تلاشی لئی گئی تھی ۔ ان ’ مہربانوں‘ نے ان دستاویزات کی اتنی مقدار میں کاپیاں ارسال کیں کہ طالبان کو اپنے ’مہربانوں‘ کے محرکات پر شکوک پیدا ہو گئے۔ اس طرح وہ ان پیدا ہونے والی الجھنوں کی گرہیں کھولتے کھولتے سازش کی تہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔جس دن امریکہ اور برطانیہ نے کابل پر پہلہ میزائل حملہ کیا افغانیوں نے رڈلے کو انسانی بنیادوں پر رہا کر دیا۔ ملا عمر نے رڈلے کو انسانی بنیادوں پر رہا کرنے کے پروانے پر دستخط کئے تھے۔ یہ افغانیوں کے ایک آنکھ والے لیڈر ملا عمر کی فہم و فراست کا ثبوت تھا۔
رڈلے اس بات پر خدا کر شکر ادا کرتی ہے کہ طالبان انٹیلی جنس حکام احمق واقع نہیں ہوئے۔ انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ مغربی انٹیلی جنس کے ادارے انھیں فریب دے کر استعمال کرناچاہتے ہیں۔ اسطرح انہوں نے ان کی چال کو ناکام بنا دیا ۔برطانیہ کے ایک ممبر پارلیمنٹ نے رڈلے کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ’’ آپ نے صحافت کا ایک اچھا نمونہ پیش کیا ہے ۔۔۔ آپ نے افغانوں کے انسانی چہرے کو نمایاں کیا ہے۔ جب کہ مغرب کئی ہفتوں سے انہیں شیطان کے روپ میں پیش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ انھیں شیطانی شکل میں پیش کر کے بموں کا نشانہ بنانا اسان ترین بات تھی۔ تم نے بہت اچھا کیا کہ ان کا بھانڈہ پھوڑ دیا ‘‘
یوآنے رڈلے کی افغانستان سے رہائی کے بعد انگلینڈ پہنچنے پر حالات میں تیزی سے تبدیلی آئی۔ یورپ اور امریکہ نے رڈلے سے جو توقعات قائم کی تھیں وہ پوری پوری نہ ہوئیں بلکہ اس کی زندہ سلامت آمد نے انکے طالبان مخالف پروپیگنڈہ پر بھی پانی پھیر دیا۔ اس سے پہلے سنڈے ٹیلی گراف لندن کی نمائندہ کرسٹینا لیمبؔ دو دفعہ افغانستان کا چکر لگا چکی تھی۔ اُس کی کہانیوں سے استعماری عزائم رکھنے والی قوتوں نے کافی فائدہ اٹھایا تھا۔ اس تجربے سے اُنکی کچھ توقعات رڈلے سے بھی وابسطہ تھیں۔ کرسٹینا کے فراہم کردہ مواد کی بنیاد پر مغربی ابلاغ عامہ نے کافی عرصہ تک طالبان پر یک طرفہ الفاظ کی گولہ باری جاری رکھی تھی وہ اس فضا کو مستحکم بنانے کی مسلسل کوششوں میں بھی مصروف تھے کہ رڈلے افغانستان جا پہنچی۔ اب استعماری طاقتوں کو زندہ رڈلے کی بجائے مردہ رڈلے میں زیادہ دلچسپی تھی۔ اسکا تابوت انکے عزائم کو بھر پور مہمیز دے سکتا تھا جبکہ اسکی مصنفہ کی زندہ لندن میں واپسی نے ان کی سازش کے سارے تارو پود کو بکھیر کر رکھ دیا۔
رڈلے کہتی ہے کہ بظاہر وہ جاسوس ہی تھی اور ان کے راز ’’چوری‘‘ کرنے کے لئے بھیس بدل کر ان کے ملک میں گھسی تھی۔ اسکے علاوہ اُس نے انھیں اشتعال دلانے میں بھی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی تھی۔ اس نے تفتیشی افسروں کے منہ پر تھوکا تھا، انھیں گالیاں دیں تھیں۔وہ انھیں بری طرح دھتکارتی رہی تھی۔ اس کے جواب میں طالبان اُسے اپنی بہن اور معزز مہمان قرار دیتے رہے تھے۔ طالبان نے رڈلے کو ایک ائیر کنڈیشنڈ اور صاف ستھرا کمرہ دے رکھا تھا جسکی چابی بھی اسکے پاس تھی۔ رڈلے کہتی ہے کہ اگر اس کا موازنہ ابو غرائب اور جزیرہ گوانتا ناموبے میں رکھے گئے بے گناہ قیدیوں کی حالت سے کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ امریکی ان کے ساتھ انتہائی غیر مہذب اور غیر انسانی سلوک روا رکھ رہے ہیں انھیں ایسے پنجروں میں رکھا گیا ہے جس میں وہ سیدھے کھڑے بھی نہیں ہو سکتے ۔ یہ مناظر ٹی۔وی پر بھی دکھائے جاتے ہیں۔ یہ وحشیانہ حرکات ایک سُپر پاور اپنی دھاک بٹھانے کے لئے کر رہی ہے ۔ وہ پوچھتی ہے کہ وہ کون سی قوم ہے جو ان دونوں میں سے مہذ ب اور شائستہ قرار پاتی ہے ؟
۷اکتوبر ۲۰۰۱ء کو امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا اور اگلے ہی دن ملا عمر نے رڈلے کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کر دیا۔ وہ تقریباً گیارہ دن ان کی قید میں رہی تھی۔ رہائی کے بعد رڈلے نے طالبان کی قید کے دوران گزرے ہوئے وقت کی داستان ‘In the Hands of the Taliban‘ کے نام سے لکھی۔ یہ کتاب اردو میں ترجمہ ہو چکی ہے جسے محمد یحیی خان نے خوبصورتی سے اردوکے قالب میں ’ طالبان کی قیدمیں ‘ کے نام سے ڈھالا ہے۔
اپنی رہائی کے تقریباً اڑھائی سال بعد۳۰جون ۲۰۰۳ء کو یوآنے رڈلے نے اسلام قبول کر لیا اور اسکا اسلامی نام مریم ؔتجویز ہوا۔ اس ماہیت قلب کی توضیح کرتے ہوئے رڈلے مریم کہتی ہیں کہ وہ اسلام لانے سے پہلے مسلمانوں سے کبھی متاثر نہیں ہوئیں تھیں۔ اُن کے مطابق ہزاروں، لاکھوں مسلمان اس کے ملک برطانیہ میں آتے جاتے رہتے ہیں اور وہ بھی ایشیا کے ملکوں میں آتی جاتی رہی ہیں۔ انھیں ہر طرف مادی رویوں سے ہی واسطہ پڑاہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اسلام سے کیسے متاثر ہوتیں؟ اپنے معاشرے میں انہیں دوسروں جیسا ہی پا کر ، مجھے ان کے فکری مرکز پر غور کرنے کی کیسے ترغیب ملتی ؟‘‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ جلال آباد میں دوران تفتیش انٹیلی جنس اور دیگر عملہ کے ارکان کے اس روئیے نے بھی انھیں ایک عجیب تجربے سے دوچار کیا۔ طالبان ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرتے تھے۔ اس وقت وہ یہ نہیں سمجھ سکتی تھی کہ وہ ایسا کیوں کرتے تھے؟ مریم کے مطابق اُسے ایسا گمان گزرتا تھا کہ یا تو اس میں بطور عورت وہ کشش نہیں ہے جو جنس مخالف کو متوجہ کر تی ہے یا ان کے دل میں اس کے خلاف کوئی بغض ہے یا ہو سکتا ہے کہ نفرت کے باعث اس کی شکل بغور دیکھنا انھیں گوارا نہ ہو۔ وہ اس سے سوال کر کے یا تو پیچھے دیوار پر لگی کسی چیز پر خالی خولی نگاہیں مرکوز کئے رکھتے یاپھر چھت کو گھورتے رہتے۔ انہیں اِن سے تنہائی میں ملنے کے مواقع بھی ملتے، جس طرح وہ دو دو تین تین کی صورت میں بے نیازی کا مظاہرہ کرتے تنہائی میں بھی ویسے ہی لا تعلق رہتے۔ وہ اُن کے اس رویے کو ایک طرح کی توہین سمجھتی۔ رڈلے کہتی ہیں کہ اگر اس طرح کی بات ہوتی تو اُن کے رویے میں درشتی اور کرختگی آ جانی چاہیے تھی۔ وہ اگر اس کے ناخن کھینچ ڈالتے، اسے ٹھنڈے یخ پانی میں ڈبکیاں دیتے یا گرم سلاخوں سے اس کا بدن داغ دیتے، تو وہ ایساکر سکتے تھے، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو ایسا صر ف اور صرف انکا ایک عورت کے لئے عزت و احترام کی وجہ سے تھا۔ مریم کہتی ہیں کہ ان کے نزدیک یہ راز اب جا کر کھلا ہے کہ اسلام اگر عورت کو حجاب کا حکم دیتا ہے تو مرد کو بھی غضِ بصر کا حکم دیتا ہے ۔ حیا اور شرم کے لئے مرد اور عورت دونوں پر برابرذمہ داری ڈالی گئی ہے ۔
مغربی ماہرین نفسیات کے نزدیک رڈلے کا اسلام قبول کرنا ایک نفسیاتی عارضہ ہے۔ جسے ’سٹاک ہوم سِنڈروم‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک ایسا نفسیاتی ردِعمل ہے جس میں کبھی کبھی یرغمالی، یرغمال بنانے والوں سے ہی ہمدردی کا اظہار کرنا شروع کر دیتا ہے ،قطع نظر اُس خطرے کے کہ جس میں یرغمال بنانے والوں نے اُسے یرغمال بنا کر رکھا ہو۔یہ اصطلاح ۱۹۷۳ء میں اُس وقت منظر عام پر آئی جب سویڈن کے شہر سٹاک ہومؔ میں ہونے والی ایک ڈاکہ زنی کی واردات کے بعد کہ جس میں ڈاکوؤں نے بنک کے ملازمین کو ۲۳اگست سے ۲۸اگست تک مسلسل چھ روز تک یرغمالی بنا ئے رکھا اور ان مغویان نے جذباتی طور پر ظلم کرنے والوں کا ہی ساتھ دینا شروع کر دیا ۔ ابتلا کے چھ دنوں کے بعد آزاد ہونے پر اُنہوں نے یرغمال بنانے والوں کاہی دفاع کیا ۔سٹاک ہوم سِنڈروم کو کبھی کبھی’ ہیلسنکی سنڈروم ‘کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔
مریم اب اسلام کی ایک پر جوش مبلغ ہیں ۔ آپ’ اسلام چینل‘ کی سیاسی تجزیہ کار ہیں اور نیویارک سے شائع ہونے والے ایک اخبار ’ڈیلی مسلمز ‘ میں کالم لکھتی ہیں۔ وہ ’خود کُش بمبار‘ کی اصطلاح سے نفرت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ ایک دل شکن اور نفرت انگیز اصطلاح ہے جسے مغرب نے مسلمانوں کی تضحیک کرنے کے لئے ایجاد کیا ہے، جبکہ اسے بہت سارے لوگ شہادت آپریشن سمجھتے ہیں اور آپ کو اسے اُسکے پس منظر میں ہی دیکھنا چاہیے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشّۂ مَے کو تعلق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
(علامہ اقبال)