فہیم جوزی(ملتان)
یہ عنوان ہمارے عہد کا بنیادی استعارہ ہے۔بیسویں صدی کی تصویروں میں،نظموں میں اور کہانیوں میں کالے سورج کو پینٹ کیا گیا تھا۔کالا سورج تاریکیوں کی حکمرانی کا استعارہ ہے لیکن حمیدہ جبیں رضوی نے اکیسویں صدی کے آغاز میں اپنے تخلیقی آئینے میں ایک ایسی بستی کی وجودی واردات کو منعکس کیا ہے جس میں کوئی سورج ہی نہیں ۔کالا نہ روشن!اس بستی کا سورج چوری ہو گیا ہے۔اور یہ بستی کیسی ہے؟
’’۔۔۔۔اس گنبدِ بے در کی دیواریں شکستہ آئینے کی طرح ہیں۔آئینے کی کرچیوں میں تھرتھراتے عکس ہیں۔ہر طرف ہزاروں زبانوں والی بلا ہے۔ہزاروں سوکھے کمزور ہاتھوں میں کشکول ہیں۔کشکول لہو سے بھرے ہیں۔محبت کی پیاسی زبانیں لہو چاٹتی ہیں۔کاندھوں پر بے شناخت سے چہرے اور پتھر کے نچلے دھڑ والی عورتیں اور چیخیں۔۔چیخیں۔‘‘(افسانہ ’’بے سورج بستی‘‘)
یہ اکیسویں صدی کا Audio-Visual Montage ہے،جس میں ہمارے اندرون ذات کی بے تسلسل کہانی ہے۔یہ ایک گنجلک کہانی ہے جس کی ہر شاخ سے کسی اور کہانی کا کلائمکس پھوٹ رہا ہے۔حمیدہ معین رضوی کہتی ہے کہ سورج چوری ہو گیا تھاتومجھے نیتشے کی یہ بات یاد آجاتی ہے کہ خدا مرچکا ہے۔نیتشے نے اپنے دور کی لا ایمانیت کو اس فلسفیانہStatementمیں ظاہر کرکے اخلاقی،تہذیبی،ثقافتی،تمدنی،نفسیاتی اور سماجی قدروں میں جاری و ساری بدی کے زہر کو اس ایک بیان میں قید کر دیا تھا۔اور جب میرا ذہن اسلامی تاریخ کی تہ در تہ روحانی، فلسفیانہ اور صوفیانہ روائتوں میں بھٹکنے لگتا ہے تو میرے سامنے ایک صوفی شخصیت اچانک ایک کوندے کی طرح چمکتی ہیں،جن کے ایک ہاتھ میں آگ تھی اور دوسرے میں پانی۔کوئی پوچھتا ہے کہاں جا رہی ہیں؟۔فرمایا:دوزخ کو پانی سے بجھانے اور جنت کو آگ سے سرد کرنے۔اور پھر میرے ذہن میں مرزا غالبؔ اپنے بھرپور طنز بھرے لہجے میں گونجتے ہیں:
طاعت میں تا رہے نہ مئے و انگبیں کی لاگ دوزخ کو ڈال دے کوئی لے کر بہشت میں
حمیدہ معین رضوی کے افسانوں کو پڑھتے ہوئے مجھے احساس ہوا جیسے یہ کومل،نازک اور حساس روح بھی کچھ ایسی ہی پگڈنڈیوں کی ہم سفر ہے جو تشکیک اور یقین کی راہوں سے گزر کر جاتی ہیں۔
جدید انسان کا سفر اڑھائی ہزار سال تک پھیلا ہوا ہے۔کوئی اس سفر کو پانچ ہزار سال تک لے جاتا ہے اور کوئی اس سے کہیں دور۔مگر وقت کے آئینے میں دیکھیں تو یہ سفر صرف تین نقطوں تک محدود ہے۔ان تین نقطوں کے درمیان فاصلہ جتنا بہی ہو۔۔۔یقین سے تشکیک تک اور تشکیک سے ایمان تک۔
حمیدہ معین رضوی کے کردار بیرون ملک پاکستانی کرداار ہیں جو انہی تین نقطوں کے درمیان پھیلے ہوئے عذاب میں مبتلا ہیں اور ہر کوئی ایک لا ینحل،بے معنی اور گھمبیر صورتحال کی ایک کہانی ہے،جسے حمیدہ معین رضوی نے انتہائی خوبصورت نثری پیرایہ دیا ہے،جس کی ہر سطر شاعرانہ معنویت سے بھری ہوئی ہے اور حمیدہ معین رضوی اپنی سہ بُعدی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ رواں ہیں۔
’’سیاہ بادلوں کی اوٹ سے گرتی کیچڑ بھری برف پہ میں گاڑی ڈر ڈر کر چلا رہی ہوں۔آنسو رواں ہیں۔۔۔۔اس دُکھ کا کیا کروں؟ جو اُلٹی چھری بنا ضمیر کو ذبح کر رہا ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ان(حمیدہ معین رضوی)کی زیادہ تر کہانیاں ایسی دلچسپ ہیں کہ انہیں آسانی سے ٹی وی لانگ پلے میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔وہ کرداروں اور ماحول کی پوری تفصیل جزئیات کے ساتھ بیان کرتی ہیں اور طاہر ہے کشتی میں بوجھ زیادہ ہو جائے تو اس کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔ان کا اسلوب بیان بھی دھیمی رفتار کا حامل ہے۔کہانی لکھتے ہوئے انہیں کوئی جلدی نہیں ہوتی۔چنانچہ ان کی کہانی بھی ایسے قاری کا انتخاب کرتی ہے جو جلدی میں نہ ہو۔ہوائی جہاز کی بجائے پسنجر ٹرین میں سفر کرنا پسند کرتا ہو۔ان کی زیادہ تر کہانیوں کا آغاز لندن یا کسی ایسے ہی یورپی شہر کے ایک اداس کردینے والے ہجوم،احساسِ تنہائی یا منظر سے ہوتا ہے جس میں مرکزی کردار پر اداسی یا پشیمانی،یا یادوں کا ہجوم یلغار کر دیتا ہے۔عموماََ یہ کردار کسی مرد کا ہوتا ہے کہ اکثر خواتین ادیبوں کی طرح انہیں بھی مذکر اور متکلم کے حوالے سے کہانی کہنا مرغوب ہے۔مشرقی ماحول خصوصاََ پاکستان کے کراچی،لاہور اور سیالکوٹ کی معاشرتی زندگی پس منظر کا کام دیتی ہے۔پیش منظر میں لندن وغیرہ رہتے ہیں اور مرکزی کردار کی یادوں کا حوالہ اس کی کھوئی ہوئی محبت یا ٹوٹی ہوئی ازدواجی زندگی ہوتا ہے۔بعض کہانیاں مغربی ماحول میں مشرقی کرداروں کو پیش آنے والی دقتوں ،تعصبات اور مسائل کا احاطہ کرتی ہیں اور آزادی،انسانی مساوات،انصاف اور نگ و نسل کے امتیازات کے خلاف اُٹھنے والی تحریکوں کے بعض کرداروں اور رویوں کا احوال بھی کہتی ہیں۔جہاں تک کی زبان اور اظہاری طریقوں کا تعلق ہے ،وہ بہت اچھے اور معیاری ہیں۔‘‘
(منشا یاد کا اقتباس از حمیدہ معین رضوی کا فن بطور پیش لفظ بے سورج بستی )