یوں راز چھپاتے ہیں
آنکھ کے چشموں کو
دامن میں گراتے ہیں
یوں زیست نکھاریں ہم
پیار میں چند لمحے
مل کر جو گزاریں ہم
ہے بات یہ چاہت کی
شکن پیشانی پر
پہچان محبت کی
ہونٹوں پہ خموشی ہے
ایسا لگتا ہے
دل پیار کا دوشی ہے
دردوں کی دوا کر لیں
مل کے آسانول!
کچھ عہد وفا کرلیں
رہ کٹھن سودائی کی
دل میں لئے پھرتے
ہیں کسک جُدائی کی
مِلنے کو ترستے ہیں
ساون کے بادل
جس وقت برستے ہیں
یہ سچا فسانہ ہے
پیار کے روگی کا
دشمن یہ زمانہ ہے
یوں قرض ادا کردو
روز کے وعدوں سے
اِک وعدہ وفا کردو
ضد چھوڑو آ جاؤ
دِل تو پاگل ہے
اس کو نہیں تڑپاؤ
آنکھوں میں خمار آیا
شوخ جوانی پر
جِس وقت نکھار آیا
جو بن ہے بہاروں پر
پھول محبت کے
آئے مہکاروں پر
معمو ل کی عادت ہے
اُن کا بگڑ جانا
اظہارِ محبت ہے
برکھا سی گھٹاؤں میں
دل نے سکوں پایا
ماں تیری چھاؤں میں
یوں روٹھ کے مت جاؤ
دِل کی دھڑکن ہو
تم دِل میں سما جاؤ
پھُولے نہ سماتے ہیں
تیری گلی میں ہم
جس وقت بھی آتے ہیں
گزرو تو سہی اخترؔ
در پر بیٹھے ہیں
تجھے دیکھنے کو سج کر
خاموش کہانی ہے
آنکھ کا شرمانا
اُلفت کی نشانی ہے