(Last Updated On: )
جب اُونچی ہوں پروازیں
سنتے نہیں پنچھی
پھر پیڑوں کی آوازیں
ہنستے ہوئے رونے کا
موسم آیا ہے
دُکھ درد بلونے کا
دشمن دل والوں کا
شہر تمہارا بھی
ہوا شہر سیالوں کا
دُکھ خواب کے کھونے کا
پھول تھے چاندی کے
ہر پیڑ تھا سونے کا
آئے نہ نگاہوں میں
آنکھیں بچھائی تھیں
اُس شوخ کی راہوں میں
اک زخم بھرا جب سے
مانگ رہا ہے دل
اک زخم نیا رب سے
خوشبو کی طرح مہکو
شاخ پہ اس دل کی
پنچھی کی طرح چہکو
جگنو ہے ،نہ تارا ہے
ہجر کی راتوں میں
بس نام تمہارا ہے
اک یاد پرانی ہے
دل کے چناب میں پھر
کوئی طغیانی ہے
یادوں کی پناہوں میں
زندگی گزرے گی
اب ہجر کی بانہوں میں
مت دور نکل جانا
ممکن ہوتا ہے
موسم کا بدل جانا
ہم باہر رُلتے ہیں
حالانکہ دروازے
سب اندر کھلتے ہیں