ڈاکٹر روبی شبانہ (وارانسی)
ہندوستان میں آزادی کے بعد کے اب تک کے دور میں طنز و مزاح نگاروں میں سب سے معتبر اور مستند نام مجتبیٰ حسین کا ہے۔ہندوستان میں طنز و مزاح کو فروغ دینے ،اسے مستحکم بنانے اور اعتبار عطا کرنے میں مجتبیٰ حسین کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔اسی سبب سے جس تیز رفتاری سے مجتبیٰ حسین نے کل ہند شہرت حاصل کی وہ موجودہ دور میں بہت کم لوگوں کے حصّے میں آئی ہے۔ان کے مزاحیہ مضامین کے مجموعے میںـ’’تکلف برطرف‘‘(۱۹۶۸ء)، ’’قطع کلام‘‘(۱۹۶۹ء)، ’’قصہ مختصر‘‘(۱۹۷۲ء)، ’’بہر حال‘‘(۱۹۷۴ء)، ’’بلآ خر‘‘(۱۹۸۲ء)،اور ’’الغرض‘‘(۱۹۸۷ء) شائع ہو چکے ہیں۔مزاحیہ خاکوں کے مجموعے میں’’آدمی نامہ‘‘(۱۹۸۱ء)،’’سو ہے وہ بھی آدمی‘‘(۱۹۸۷ء) اور ’’چہرہ در چہرہ‘‘(۱۹۹۴ء) شائع ہو چکے ہیں۔ان کے علاوہ مزاحیہ سفرناموں میں’’جاپان چلو جاپان چلو‘‘(۱۹۸۳ء)،’’سفر لخت لخت‘‘ ( ۱۹۹۵ء) اور ان کے کالموں کا مجموعہ بھی ’’میرا کالم ‘‘ کے عنوان کے تحت شائع ہو چکا ہے۔
مجتبیٰ حسین نے اپنی مزاح نگاری کا آغاز روز نامہ’’سیاست‘‘حیدرآباد کے کالم’’شیشہ و تیشہ‘‘سے کیا۔اس میں انھوں نے’’کوہِ پیما‘‘کے قلمی نام سے لکھنا شروع کیا ۔اس طرح ۱۲اگست ۱۹۶۲ء سے مجتبیٰ حسین نے طنز و مزاح کی صنف سے جو اپنا رشتہ قائم کیا تو پھر انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ان کا فکر و فن کسی دائرہ میں قید نہیں ہے بلکہ انھوں نے انشائیہ،خاکہ،سفرنامہ،کالم نگاری جیسے منفرد اصناف میں طنز و مزاح کے گل و بوٹے کھلائے ہیں۔ایک مزاح نگار کی حیثیت سے مجتبیٰ حسین کی کامیابی کا راز ان کے گہرے مشاہدے اور دلچسپ تجزیے میں پوشیدہ ہے۔وہ ہر موضوع میں طنز ومزاح کا پہلو نکالنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتے ہیں۔ان کے مزاح کا محور انسان کی شخصی اور نفسیاتی رجحانات کے گرد گھومتا ہے ۔وہ عام طور پر سیاسی و سماجی مسائل کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ان کے فن میں ان کی محنت و ریاضت کی جھلک ملتی ہے۔کلاسیکی ادب کا وسیع مطالعہ ہے ان کے پاس۔تحریروں میں سلاست و روانی کے ساتھ ساتھ ایک خاص قسم کا اہتمام و رکھ رکھاؤ ہے۔وہ اپنے تجربے و مشاہدے کے ذریعے انسان کے مختلف رجحانات کا دلچسپ تجزیہ پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں اور اپنی شگفتہ بیانی سے مزاح کو پراثربنانے میں انھیں کمال حاصل ہے۔
مجتبیٰ حسین کسی مخصوص نقطہ نظر کے حامل نہیں ہیں۔وہ عوامی طبقہ سے تعلّق رکھتے ہیں اور انھیں اس طبقہ سے محبّت ہے۔وہ اس کی بہتری کے خواہاں ہیں اور اس سبب ہمارے ذہن و دل کے قریب بھی ہیں۔مزاح نگاری ان کے نزدیک ایک کیفیت کی پیداوار ہے اور سچّے مزاح کی حدیں سچّے غم کی حدوں کے بعد شروع ہوتی ہیں۔ہم غور کریں تو ان کے طنز و مزاح میں حزن کی ایک لہر برابر کام کرتی رہتی ہے۔وہ درد و کرب میں گھرا ہونے کے باوجود مسکراتے ہیں اور ہمیں قہقہوں کی دولت سے نوازتے ہیں کیونکہ زندگی اور اس کے متعلّق ان کا رویّہ ہمدردانہ ہے۔وہ اپنے وسیع مشاہدیاور باریک بینی سے زندگی اور سماج کے مختلف گوشوں پر نظر ڈال کر صرف ہنسنے ہنسانے کا سامان ہی مہیّا نہیں کراتے بلکہ قارئین کو غور و فکر کی دعوت بھی دیتے ہیں۔اخلاقی قدروں کے زوال،متوسّط طبقہ کے عام مسائل،مہنگائی،گرانی اور اس کے علاوہ افراد میں دھوبی،پوسٹ مین، مہمان، نوکر، باورچی، افسر،ڈاکٹر،چالک، شاعر،صدر،لیڈر،گریجویٹ جیسے موضوعات ان کے زیرِ تحریر ہیں۔ان کا طنز اگر زندگی کے تمام گوشوں کا احاطہ کرتا ہے تو ان کا مزاح زندگی کی دھوپ چھاؤں کا احساس کراتا ہے۔ان کے مزاح میں طنز کے گہرے نشتر پوشیدہ ہیں اور اس طنز کی کاٹ یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ سماج کی تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔فسادات کے موضوع پر مبنی ان کا مضمون’’سندھ باد جہازی کا سفرنامہ‘‘ایک بہترین مزاح پارہ کے ساتھ ایک کامیاب طنزیہ بھی ہے لیکن اس میں فسادات سے زیادہ ہندوستان کی سیاسی ،معاشرتی اور اقتصادی زندگی کو مجتبیٰ حسین نے بے نقاب کیا ہے۔مثال کے طور پر یہ اقتباس دیکھیےـ:۔
’’میرے قیام و طعام کا یہاں کوئی مستقل بندوبست نہیں تھا لیکن بعد میں لوگوں نے بتایا کے ہندوستانمیں خود اہلِ ہند کے قیام و طعام کا کوئی مستقل بندوبست نہیں ہے۔وہ تو بس سارے ملک کو ایک سرائے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور آخر میں سرائے کا کرایہ بقائے میں رکھ کراس عالمِ جاودانی کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔‘‘
مجتبیٰ حسین کے طنز میں تلخی و زہر ناکی نہیں ہے۔وہ طنز کو مزاح کے پردے میں پیش کرنے کے قائل ہیں جہاں ان کے مزاح میں ان کی شگفتہ اندازِ نگارش چار چاند لگا دیتی ہے۔وہ دلکش الفاظ اور ذو معنی محاوروں سے اپنی تحریروں کو اس طرح سجاتے ہیں کہ زبان کی لطافت کا جادو ہر سو چھا جاتا ہے۔حالانکہ کہیں کہیں غیر فصیح اور متروک الفاظ کا استعمال ان کے یہاں بری طرح کھٹکتا ہے لیکن مجموعی طور پر وہ ہماری توجّہ اپنی جانب کھیچنے میں پوری طرح کامیاب ہوتے ہیں۔مشاہدات کی نیرنگی کی دلچسپ تصویر کشی میں مجتبیٰ حسین کا انداز سب سے جدا ہے۔وہ مختلف روپ میں ہمارے سامنے جلوہ گر ہوتے ہیں۔کبھی وہ اپنے گھر میں برف کی الماری کا رونا رو رہے ہوتے ہیں تو کبھی سڑک پر کھڑے ہو کر کسی شاعر کی چال ناپ رہے ہوتے ہیں،کبھی لائبریری میں مختلف قسم کے قارئین کا مطالعہ کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی تو کبھی چوک کے کلاک ٹاور پر چڑھ کر فسادات کا نظارہ کرتے ہیں ،کبھی کسی منتری کو اس کے اصل بھیس میں ملاحظہ کرتے ہیں تو کبھی سڑک اور اس سے ہوئی تباہ کاریوں کا نظارہ کرتے ہیں۔غرض وہ اپنی باتوں کے پھول اور پتھّر سے ہنسی کی نت نئی راہیں دکھاتے ہیں۔
انسانی فطرت اور نفسیات پر مجتبیٰ حسین کی پکڑ بہت گہری ہے۔وہ کسی کا مذاق نہیں اڑاتے بلکہ کرداروں کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ معاشرے کی مضحک صورتِ حال کو منظرِ عام پر لے آتے ہیں۔مثال کے لیے دیکھیے مندرجہ ذیل اقتباس:۔
’’سڑک اور شاعر کا رشتہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ بے ایمانی اور تاجر کا رشتہ،شاعر زندگی بھر سڑکیں ناپتا ہے اور بالآخر سڑکیں ہی شاعر کو ناپ لیتی ہیں پھر اخباروں میں خبر چھپتی ہے کہ ملک کے ممتاز شاعر حضرت طویل بحرویؔ ایک سڑک کے کنارے مردہ حالت میں پائے گئے۔مرحوم نے اپنے پیچھے ایک بیوی اور ایک سڑک چھوڑی ہے۔خدا ان دونوں کو صبرِ جمیل عطا کرے۔آمین ثمّ آمین۔‘‘ (تکلّف برطرف ،ص ۱۰۱ )
آجکل رمضان کے مہینے میں افطار پارٹی کا جو رواج ہمارے سیاست دانوں اور غیر سیاست دانوں نے رائج کیا ہے اس کے متعلّق ان کا نظریہ ملاحظہ غور فرمائیے:۔
’’خدا کی قسم جب سے آیا ہوں ہر جگہ اس پارٹی کا ذکر سن رہا ہوں ـ۔کیا منشور ہے اس پارٹی کا؟‘‘عرض کیا ’’ وہی منشور ہے جو عموماَ ہمارے یہاں کی ساری پارٹیوں کا ہوتا ہے یعنی کھاؤ اور موجاڑاؤ۔‘‘(آخر کار ،ص۷۰)
مجتبیٰ حسین اس روایت کے اہم رکن ہیں جو فرحت اللہ بیگ،پطرس بخاری،رشید احمد صدّیقی،کنہیّا لال کپور،شوکت تھانوی اور احمد جمال پاشا سے ہوتے ہوئے ان تک پہنچی ہے۔انھوں نے صرف اس تسلسل کو برقرار ہی نہیں رکھا بلکہ اپنی طرف سے اس میں اظافہ ہی کیا ہے۔ان کے یہاں طنز کی نشتر زنی کم ہے لیکن ان کا مزاح نئی کیفیات کا حا مل ہے ۔کہیں ان کا مزاح صرف تبسّم کی طرف مائل کرتا ہے تو کہیں ہنسی کی پھلجھڑی چھوڑتا ہے،کہیں طوفان برپا کرنے والا قہقہہ ہے تو کہیں تیز چبھن ہے۔اس طرح ان کے مزاح کے تین پہلو ہیں یعنی خالص مزاح،حزنیہ مزاح اور طنز آمیز مزاح۔وہ اپنے پیش رو اور ہمعصر مزاح نگاروں سے معنوی طور پر ہم آہنگ ہوتے ہوئے بھی اپنی انفرادیت قائم رکھی ہے۔ذہانت،صداقت،نفسیاتی تحلیل اور انداز کی برجستگی ان کی شگفتہ اندازِ نگارش میں چار چاند لگا دیتی ہے۔مجتبیٰ حسین کی منفرد طنز و مزاح نگاری کا بہ خوبی اندازہ درجہ ذیل کے چند اقتباسات سے لگایا جا سکتا ہے :۔
’’ چند قدم ہی چل پائے تھے کہ داڑھ مذکور میں اچانک بجلی کوند گئی ۔برق کی ایک رو تھی جو داڑھ سے نکل کر سارے بدن میں لہرا گئی۔ایک تجلّی تھی جو آنکھوں کو چکا چوند کر گئی۔یوں لگا جیسے ہماری داڑھ میں اچانک ایک ہرن نے کلیلیں بھرنا شروع کر دیا ہو․․․․داڑھ کے درد کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ درد بالاقساط ہوتا ہے یعنی درد کی ایک لہر جاتی ہے اور دوسری آتی ہے ۔جب در کی پہلی لہر جا چکی تو ہم پر یہ عظیم انکشاف ہوا کہ درد کی ہر لہر کے ساتھ ہم میں ’’جدید شاعر‘‘بننے کی زبردست صلاحیتیں پیدا ہو رہی ہیں۔ ایسے پیغمبرانہ انکشافات صرف داڑھ کے درد ہی میں ممکن ہیں۔اچانک ہم پر یہ رازکھلا کہ ’’ جدید شاعری ‘‘ اصل میں’’داڑھ کے درد کی شاعری ‘‘ہے جس مین آدمی کا سارا کرب سمٹ آتا ہے اور وہ سورج کو چبا کر کھاجانے کی منزل میں پہنچ جاتا ہے۔‘‘( ’’بہر حال‘‘ ۱۵۔۱۴ )
’’یوں بھی ان دنوں صرف کاغذ پر ہی ہر چیز محفوظ نظر آتی ہے ۔چاہے وہ عمارت ہو یا ہمارا کردار ،فلسفہ ہو یا ہماری تہذیب۔‘‘( ’’آخر کار ‘‘ ۲۵ )
’’ اب حکمران حکومت کا بوجھ نہیں اٹھاتے بلکہ حکومت خود ایک ایسا بھاری بوجھ ہے جسے عوام اٹھاتے ہیں اور گرتے پڑتے چلتے رہتے ہیں۔‘‘
خاکہ نگاری میں مزاحیہ عناصر کی آمیزش کی جو روایت فرحت اللّہ بیگ ،شوکت تھانوی اور رشید احمد صدّیقی نے شروع کی تھی اسے مجتبیٰ حسین نے نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اس میں اضافہ ہی کیا ہے۔ان کی خاکہ نگاری کی خوبی یہ ہے کہ وہ دل میں کینہ اور بغض نہیں پالتے ۔وہ کسی کا خاکہ نہیں اڑاتے بلکہ صحیح معنوں میں خاکہ کھیچتے ہیں۔وہ شخصیت کے نمایاں پہلو کے ذریعے زیرِتبصرہ شخصیت کی پرت در پرت کھولتے چلے جاتے ہیں ۔مثال کے طور پر کنہیاّ لال کپور کی لمبائی کے ذریعے ان کی شخصیت کو پیش کرتے ہیں تو راجندر سنگھ بیدی کے خاکے میں ان کے مزاج کی غیر رسمیت کو ،سجاّد ظہیر کی مسکراہٹ کو اور مشفق خواجہ کی فقرے بازی کو اپنی خاکہ نگاری کا مرکز بنا کر ان کے اوصاف و کردار کو بہت سہل اور شگفتگی کے ساتھ پیش کر دیا ہے۔ان کے شخصیتوں کے خاکے منفرد القاب و آداب سے مزیّن ہیں جو قافیہ و ردیف میں ہیں مثلاََ کنہیّا لال کپور (لمبا آدمی)،راجندر سنگھ بیدی (سو ہے وہ بھی آدمی)،فکر تونسوی(بھیڑ کا آدمی)وغیرہ وغیرہ۔ان القاب و آداب سے ہی شخصیت سے واقفیت ہو جاتی ہے۔ان کے خاکہ پیش کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ پیش کردہ شخصیت کا کوئی مضحک پہلو تلاش کر لیتے ہیں اور پھر اسی پس منظر میں اس شخصیت کے خد و خال کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ اس کی فطری لیکن دلچسپ شخصیت ہمارے سامنے ہوتی ہے ۔مثال کے طور پر یہ اقتباس دیکھیے؛۔
’’کنہیّا لال کپور کو جب بھی دیکھتا ہوں تو قطب مینار کی یاد آتی ہے ․․․․کپور صاحب اور قطب مینارمیں مجھے فرق یہ نظر آیا کہ قطب مینار پر رات کے وقت ایک لال بتّی جلتی رہتی ہے تاکہ ہوائی جہاز وغیرہ ادھر کا رخ نہ کریں ۔کپور صاحب ہر رات کے وقت یہ انتظام نہیں ہوتا جو خطرے سے خالی نہیں ہے ۔کیا پتہ کسی دن کوئی ہوائی جہاز اندھیرے میں کپور صاحب سے نبرد آزما ہو جائے اورٹکرا کر پاش پاش ہو جائے۔‘‘( ’’آدمی نامہ‘‘ ۹ )
شخصیت کے اندر تک اتر جانا مجتبیٰ حسین کا ہنر ہے۔ان کے ہمعصر یوسف ناظم نے بھی بہترین خاکے لکھے ہیں لیکن صرف شخصیت کی ظاہری حد تک جبکہ مجتبیٰ حسین شخصیت کی تہ تک اتر جاتے ہیں اور درِّ نایاب ڈھونڈھ لاتے ہیں بیدی کے کاکے سے یہ اقتباس دیکھیے؛۔
’’بات در اصل یہ ہے کہ بیدی صاحب ہمیشہ جذبوں کی سرحد پر رہتے ہیں اور سکنڈوں میں سرحد کو اِدھر سے ادھر اور ادھر سے اِدھر عبور کر لیتے ہیں ۔ا ن کی ذات ’’ جھٹپٹے کا وقت‘‘ہے۔برسات کے موسم میں آپ نے کبھی یہ منظر دیکھا ہوگا کہ ایک طرف تو ہلکی سی پھوار پڑ رہی ہے اور دوسری طرف آسمان پر دھلا دھلایا سورج چھما چھم چمک رہا ہے ۔اس منظر کو اپنے ذہن میں تازہ کرلیجیے تو سمجھیے آپ اس منظر میں نہیں بیدی صاحب کی شخصیت میں دور تک چلے گئے ہیں۔ان کی ذات میں ہر دم سورج اسی طرح چمکتا ہے اور اسی طرح ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی ہوتی ہے۔‘‘ (’’آدمی نامہ‘‘ ۲۲ )
’’جاپان چلو جاپان چلو‘‘ اور ’’سفر لخت لخت‘‘مجتبیٰ حسین کے تخلیق کردہ سفرنامے ہیں جو مزاحیہ سفرنامے کی تاریخ کا روشن حصّہ ہیں۔اجنبی ملکوں کی معاشرت ،وہاں کے رسم و رواج اور تہذیب و تمدّن کا موازنہ اپنی معاشرت اور رسم و رواج سے کیا ہے۔اس طرح تضاد اور مبالغے کے ذریعے مزاح پیدا کیا ہے۔ان کے لکھے سفرناموں میں طنز و مزاح بھی ہے ،انشا پردازی بھی ہے،خاکہ نگاری بھی ہے اور انسان دوستی کا وہ زاویہ نظر بھی ہے جو مجتبیٰ حسین سے مخصوص ہے۔’’جاپان چلو جاپان چلو‘‘بہت دلچسپ اور مزاحیہ سفرنامہ ہے۔اس میں انھوں نے جاپان کی قومی و ملکی اہم خصوصیات کا اپنے مخصوص اسلوب میں ذکر کیا ہے۔چھوٹے چھوٹے فقروں میں بلیغ باتیں کہنے کے فن سے وہ بہ خوبی واقف ہیں۔اگرچہ صنف کے لحاظ سے یہ ایک سفرنامہ ہے مگر مصنّف بنیادی طور پر انشائیہ نگار ہے اس لیے ان کا یہ اسلوب واقعات کی ترتیب پر حاوی ہے۔جاپانیوں کی کم آمیزی ،محنت و مشقّت،کردار پرستی،مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ غرض ان ساری خصوصیات کو دل کھول کر سراہا ہے اور وہاں کا موازنہ اپنے ملک کی خصوصیات سے کرنے میں انہیں کوئی شرمندگی و ہچکچاہٹ نہیں ہوئی ہے۔ہندوستان کے سفر میں پیش آنے والی دشواریوں کی حقیقی و دلچسپ مرقع کشی کی ہے۔جاپان میں پڑھنے پڑھانے کا کتنا رواج ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ساڑھے گیارہ کروڑ کی آبادی ہر سال اسّی کروڑ کتابیں خریدتی اور پڑھتی ہے۔اس کا موازنہ اپنے ملک سے کرتے ہوئے خود کے متعلّق لکھتے ہیں کہ پڑھنے لکھنے میں اتنی شہرت رکھنے کے باوجود تین برسوں میں ہم نے کوئی کتاب نہیں خریدی ۔ادیب دوستوں کی کتابوں کے اعزازی نسخے ضرور قبول کرتے ہیں اور ان کو پڑھے بغیر ہی ردّی میں بیچ دیتے ہیں ۔
اس سفر کے دوران مجتبیٰ حسین نے اس بات میں زیادہ دلچسپی لی ہے کہ جاپان میں اردو اور اسلام کس حد تک موجود ہے۔اردو کے متعلّق ان کا یہ انکشاف بے حد دلچسپ ہے کہ وہاں اردو اتنی موجود ہے کہ وہاں اردو نے خود ہمیں تلاش کر لیا ۔اسی طرح جا پا نیوں کے کردار کے متعلّق ان کا یہ جملہ ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے کہ ’’جاپانیوں کی ہر چیز چھوٹی ہوتی ہے سوائے کردار کے‘‘۔اس سفرنامے میں بہت سے خاکے بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں جو ہمارے ذہن پر دیر پا اثر قائم رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔دوسرا سفرنامہ ’’سفر لخت لخت‘‘لندن، پیرس کے ساتھ ساتھ تاشقند،سمرقند اور بخارا کے متعلّق دلچسپ نکات موجود ہیں ۔انھوں نے ان شہروں کے احوال و آثار
پر روشنی نہیں ڈالی ہے بلکہ اصل بات وہ زاویہ نگاہ ہے جو انھوں نے اس سفر میں اختیار کیا ہے۔ملکوں کے تمدّن و طرزِ زندگی کے بجائے انسانوں کو زیادہ توجّہ سے دیکھا ہے۔یہ سفرنامہ جو مختلف اسفار کے تاثرات کا مجموعہ ہے،اس میں مجتبیٰ حسین نے ادب ،تارخ اور انسان کے متعلق اپنے تجربات بیان کیے ہیں۔
جدید دور کے کالم نگاروں میں مجتبیٰ حسین نے ایک الگ مقام بنایا ہے۔ان کی کالم نگاری زندگی کی تلخیوں اور مسرّتوں کی آماجگاہ ہے۔وہ ہر موضوع میں مزاح کا پہلو ڈھونڈ نکالنے میں ماہر ہیں۔انھوں نے سیاسی اور سماجی کالموں کے ساتھ ساتھ ادبی کالم بھی لکھے ہیں۔ان کی تحریروں میں طنز کم اور مزاح کی بے ساختگی زیادہ ہے۔ان کی کالم نگاری کا اندازہ مندرجہ ذیل اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے:۔
’’ہر ایک کا اپنا اپنا ’’جمہوری حق ‘‘ہے۔یہاں ہر آدمی اپنے اپنے جمہوری حق کے لیے لڑ رہا ہے اور جمہوری تقاضوں کے لیے وہ سب کچھ کر رہا ہے جو نہایت غیر جمہوری ہے۔تاجر اشیا کی قیمتیں بڑھاتا ہے اور آپ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو آپ کوئی غلطی نہیں کرتے کیونکہ یہ بھی آپ کا ’’جمہوری حق‘‘ہے ۔پیدل چلنے والا اگر بیچ سڑک پر چلتا ہے تو براہِ کرم اسے نہ ٹوکیے کیونکہ یہ اس کا ’’جمہوری حق‘‘ہے اور اگر آپ فٹ پاتھ پر سائیکل چلاتے ہیں تو یہ بھی آپ کا ’’جمہوری حق‘‘ ہے۔شاعر کے لیے شعر کہنا اس کا ’’جمہوری حق‘‘ ہے اوراس کے کلام پر ہوٹنگ کرنا آپ کا ’’جمہوری حق‘‘ہے۔یوں ہمارے یہاں جمیوری حقوق کی حالت نظیر اکبر آبادی کے’’آدمی نامہ ‘‘سی ہو گئی ہے کہ ’’یہ بھی آدمی اور وہ بھی ہے آدمی ‘‘۔‘‘(’’چنگاری‘‘)
یوں مجتبیٰ حسین نے کالم نگاری کو بھی لطیف مزاح اور ژرف نگاہی سے روشناس کرایا ہے۔غرض مجتبیٰ حسین نے انشائیہ،خاکہ،سفرنامہ،کالم نگاری جیسی سبھی صنف میں اعلیٰ درجہ کا طنز و مزاح پیش کرکے فکر و نظر کے نئے پہلو روشن کرنے میں پوری طرح کامیاب رہے ہیں۔ویسے تو عام طور پر مجتبیٰ حسین کی عبارت مستحکم اور مربوط ہوتی ہے لیکن کہیں کہیں غیر فصیح اور متروک الفاظ کا استعمال اور انگریزی لفظوں کے غلط تلفّظ عبارت کی روانی میں مخل ہوتے ہیں ۔لیکن ان سب کے باوجود وہ قارئین کی توجہ اپنی جانب کھیچنے میں کامیاب رہتے ہیں۔مجتبیٰ حسین نے اپنے قلم کی تازگی اور تخلیقی قوت کو بر قرار اور زندہ رکھا ہے ورنہ عام طور پر اکثر ادیب اپنے آپ کو دہرانے لگتے ہیں یا پھر بہت جلد قلم رکھ دیتے ہیں لیکن مجتبیٰ حسین نے اپنی تخلیقی توانائی کو کمزور نہیں پڑنے دیا ہے اور اس کا راز شاید یہ ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش کی عوامی زندگی ،سماج ،ادب،میلانات و رجحانات سے خود کو پوری طرح باخبر رکھتے ہیں۔مشاہدات کی نیرنگی اور فکر و خیال کی تابناکی کی وجہ سے ہی انھوں نے بہت کم وقت میں ہی شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا تھا ۔انھوں نے نہ صرف اعلیٰ درجہ کی طنز و مزاح کی کمی کو پورا کیا ہے بلکہ فکر و نظر کے نئے دریچے بھی وا کیے ہیں ۔معاصر طنزیہ و مزاحیہ ادب میں ،کم از کم ہندوستان کی حد تک بے شک ان کا ادبی مرتبہ سب سے بلند ہے۔