عمران ہاشمی(گوجرانوالہ)
ہستی……
ہستی اندھا غار
اندھے غار میں پھنسا ہُوا ہے
امبر کا اَسوار
اور اَسوار کے ہاتھوں میں ہیں
ارمانوں کے ہار
ہر اِک ہار میں بندھے ہوئے ہیں
پھُولوں جیسے خار
٭٭٭
خوف کے سائے
اُن کی وحشت بھری سرسراہٹ سُنو
وہ تو جیسے مرے گھر کے آنگن میں ہی
اپنے نوکیلے دانتوں سمیت آگئے
اُنکے خونخوار پنجے
خُدایا مدد……المدد یاخُدا
اُن کے نتھنے……
کہ جو بُوئے آدم کے ازلی تعاقب میں ہیں
اور پھر وہ بہت سے
بہت سی بھیانک ‘خطرناک شکلیں لئے
کس طرف سے مِرے گھر کے چاروں طرف آگئے
یہ سبھی جنگلی بھیڑئیے
شہر میں کِس طرح
اُف خُدایا……مِرا گھر
شہر کے دوسرے گھر کہاں ہیں ؟
اور اُن کے مکیں!
کوئی آواز دیتا نہیں
یاخُدا……المدد
٭٭٭
مرے ہمسفر
میں کئی بار اُن کو دیکھتا ہوں
راستوں میں کہیں کو جاتے ہوئے
کھوئے کھوئے سے
اور اُداس ‘اُداس
مجھ سے بیگانہ
خود سے بے پروا
کسی انجانی سوچ میں ڈوبے
کہیں اَن دیکھی منزلوں کی طرف
بڑے بے چین ‘اور بڑے خاموش
میرے ہمراہ چلتے چلتے بھی
مجھ سے بیگانہ خود سے بے پروا
…………
میں کئی بار اُن کو دیکھتا ہوں