اکمل شاکر
نہ جانے میرے من میں کیا چل رہا ہے
خدا کا تصور؟
خیالِ بتاں؟
عشقِ مریم؟
خدا جانے ماحول کی دھوپ میں
کون کیسے،کہاں چل رہا ہے
چنبیلی کے پھولوں میں خوشبو نہیں ہے
کہیں موسمی دو پرندے نظر آرہے ہیں
کہیں شام کے بیکراں جسم میں گُد گُدی ہورہی ہے
کہانی میں کردار زندہ نہیں ہے
مصنف کے ہاتھوں میں خونی قلم ہے
مگر ایک قاری کہاں جسم کے ناولوں میں
یوں زندہ رہے گا
کہ سورج زمیں کی محبت میں
اپنی شعاعیں یونہی بانٹتا ہے
نہ جانے میرے من میں کیا چل رہا ہے؟
تمہاری محبت؟۔۔۔محبت خدا کی؟
یامریم کی چاہت؟
خدا جانے بھیگے ہوئے کاغذوں میں
کسی ہمسفر کالکھا لفظ’’کشتی‘‘
بھلا دیر تک
ان ہواؤں کی یلغار میں
کیسے زندہ سلامت رہے گا
مگر میری قسمت کی گاڑی میں
مریم کے وعدوں کے اسباب رکھے کہاں ہیں
کبھی راستے میں اُمیدوں کے ہوٹل میں
شاید ملیں ہم
مری زندگی خاکساری کے ملبے میں
ایسی دبی ہے
کہ پہچان جانے میں تم کو
کئی سال میں میری چاہت کی دنیا میں
رہنا پڑے گا۔۔!!