(Last Updated On: )
کاوش عباسی
وہ دور گھر میں جو چُپ چاپ بیٹھا ہے
پھر وہ کئی رات دن سے اکیلا ہے
جب بھی وہ باہر نکلتا ہے تو دیکھتا ہے
کہ وہ ،وہ بڑا ہے جو چھوٹوں کے نرغے میں ہے
وہ سمندر میں ندیوں میں جو کھیلتا ،سر پٹختا ہے
وہ موتی ہے ،لوگ(اب کیوں کہ سجتے نہیں)
اس کو چنتے ،پہنتے نہیں
وہ تخیل ہے دل اب جسے جانتے ،چاہتے ،
یاد کرتے نہیں
ایسی محنت ہے ہر ذہن میں اب جو جگتی نہیں،
ہر نظر میں چمکتی نہیں
ایسا ساتھی ہے ،ساتھی بھی ساتھی نہیں اس کے
ساتھ اس کے چلتے نہیں
لیکن اب وہ
یہ سب پر تڑپتا نہیں ،شانت ہے
آپ ہی اپنی محفل ہے
اپنی فزوں قدر کی آپ ہی داد ہے
آپ اپنا ہنر،آپ اپنی طلب
اَب وہ ،وہ زاویہ ہے
جو باہر کو کھلتا ہوا،اپنے اندر میں پھر مڑ گیا ہے!