نصرت ظہیر(دہلی)
چاہت کا ہے ایک جھروکا
جس کے دونوں جانب میں ہوں
دونوں جانب حیرانی سے
میں ہی خود کو دیکھ رہا ہوں
میں ہی خود کو سوچ رہا ہوں
میں ہی اپنی انگلی تھامے
گھوم رہا ہوں اُن گلیوں میں
اُن صحنوں اوردالانوں میں
جن میں دفن ہیں
کانچ کے ہیرے، آنکھ کے موتی،
پیر مکوڑے شاہ کی قبریں
اک چڑیا کا ننھا بچہ
اور اک روئی کے بالوں والی نرم سی گڑیا
وہیں پڑے ہیں نل کے پیچھے
ملتانی مٹّی کے کچھ گیلے سے ٹکڑے
وہیں ابھی تک دیواروں سے لپٹی ہیں
پُررعب صدائیں
وہیں طاق میں رکھی ہوں گی
کچھ بوڑھی معصوم دعائیں
میں ہی اپنا ہاتھ پکڑ کر
کودرہا ہوں اس چھجّے سے اس چھت پر
اور ڈھونڈ رہا ہوں
وقت کی چرخی سے لپٹے
مانجھے کے سرے کو
جس کی پتنگیں
ظالم موسم لوٹ چکے ہیں
میں ہی اپنے کندھے چڑھ کر
دیکھ رہا ہوں کب سے دنیا کے میلے کو
جس میں کبھی اک بار گیا تو
واپس ہی پھر لوٹ نہ پایا
بچھڑ گیا خود سے بھی اک دن
وہی جو بچھڑا تھامیلے میں
اب جاکر وہ مجھے ملا ہے
ایک جھروکے سے میں اس کو دیکھ رہا ہوں
سوچ رہا ہوں
میں خود کتنا بدل گیا ہوں
لیکن وہ اب بھی ویسے کا ہی ویسا ہے
اس کے چہرے کی شادابی
اس کی آنکھوں کی مہتابی
مجھ سے زیادہ چمک رہی ہے
مجھ سے زیادہ مہک رہی ہے
مجھ سے شگفتہ ذہن ہے اس کا
مجھ سے کشادہ اس کا دل ہے
میں اس کا دھندلا ماضی ، وہ
میرا روشن مستقبل ہے!