سیّد علی محسن(فیصل آباد)
لڑکا بھاگ کر اس کا بازو پکڑ نہ لیتا تو وہ یقیناًنہر میں کود چکی ہوتی ۔
پُل سنسان پڑا تھا ، سڑکیں خاموش ، نہر میں پانی دھیرے دھیرے۔دھند نے تاریکی کے ساتھ مل کر جالا بُن دیا تھا ۔دُور تک کوئی ذی روح نہ کار ،گاڑی کی آواز۔ابھی رات کے گیارہ بجے تھے مگر جیسے ساری خلقت نیند اوڑھ کے بے سدھ پڑی تھی ،کہیں دُور سے کسی وقت کتے کے بھونکنے کی آواز سناٹے کا سینہ چیرتی اور دم توڑ دیتی ، وہ پتا نہیں کیوں جاگ رہا تھا ۔شاید بھونک کر اپنے ہونے کا احساس دلانے کے لئے ۔پندرہ سولہ سال کا لڑکا کانوں پر مفلر لپیٹے ، میلی جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کسی گانے کی دھن پر سیٹی بجاتا پُل پر نمودار ہوا تھا اور یکدم ٹھٹھک کررک گیا ۔ایک پل کے لئے وہ اپنی جگہ سے ہلا نہیں ، اس سے چند قدم کے فاصلے پر نہر کے جنگلے کو پکڑے وہ کھڑی تھی ، آدھا دھڑ جنگلے پر ، نہر میں جھکا ہوا۔لڑکا تیزی سے بھاگا اور مضبوطی کے ساتھ اس کا بازو پکڑ لیا۔اس نے بانہہ چھڑانے کی کوشش کی مگر لڑکے کی گرفت مضبوط تھی ۔وہ پینتیس چھتیس سال کی متناسب جسم عورت تھی ، لڑکے نے دوسرا بازو اس کی کمر کے گرد لپیٹ کر پیچھے کھینچا تو جوان جسم کی حدت نے لڑکے کے بدن میں برقی رو دوڑا دی ۔اُس نے گھبرا کر بازو ہٹا لیا ۔عورت نے ناگواری سے اس کا ہاتھ جھٹکا، لڑکا خفت سے پیچھے ہٹا مگر عورت کا بازو نہیں چھوڑا۔
’’ چھوڑو ! چھوڑ دو مجھے ! ‘‘ عورت نے جھٹکے کے ساتھ اس کی گرفت چھڑانا چاہی ۔لڑکے نے اس کا دوسرا بازو بھی پکڑ لیا۔
’’ مر جانے دو مجھے ‘‘ عورت نے بازو چھڑانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا ۔
’’ کیوں ؟‘‘ لڑکے کی انگلیاں اس کے بازو میں کھب رہی تھیں۔
’’ میں مر جانا چاہتی ہوں۔۔‘‘ عورت نے ایک بار پھر مزاحمت کی مگر لڑکے نے اپنی گرفت ڈھیلی نہیں چھوڑی۔
وہ دونوں پُل پر ایک دوسرے کے قریب کھڑے تھے ۔ سڑکیں خاموش ، نہر میں پانی دھیرے دھیرے۔دھند نے تاریکی کے ساتھ مل کر جالا بُن دیا تھا ۔دُور تک کوئی ذی روح نہ کار ،گاڑی کی آواز۔
’’ کیوں مرنا چاہتی ہو ؟ ‘‘ نوعمر لڑکا عورت کی قربت میں نروس تھا، باربار ادھر ادھر دیکھتا جیسے کسی اور کی مدد کا طلبگار ہو ، خدشہ ہو کہ اکیلا عورت کو سبنھال نہیں پائے گا،دوبارہ اسے نہر میں کودنے سے روک نہیں سکے گا۔
’’ تمہیں اس سے کیا ؟ ‘‘ عورت کے لہجہ میں کڑواہٹ تھی ، اس کی شال کندھے سے سرک گئی تھی ۔ اس نے سیاہ رنگ کی جرسی پہن رکھی تھی ، تنگ جرسی نے سینے کے ابھار نمایاں کر دئیے تھے ۔
’’ مجھے کیا ۔۔۔؟ مگر میں تمہیں مرنے نہیں دوں گا ‘‘لڑکے کی نظریں عورت کے سینے پر پڑیں اور فوراً جھک گئیں ،دانستہ اُس نے دوبارہ نظر اٹھاکر نہیں دیکھا۔
’’ تم کون ہوتے ہو۔۔۔؟ ‘‘ عورت نے بازو پر رکھا لڑکے کا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کی مگر زیادہ سختی سے نہیں۔
’’میں ۔۔۔کوئی بھی۔۔۔چلو ہٹو پیچھے ۔۔۔‘‘ لڑکے نے اسے نرمی سے دھکیل کر جنگلے سے پیچھے ہٹا لیا ۔ عورت نے اس بار زیادہ مزاحمت نہیں کی ،شاید وہ ذہنی طور پر لڑکے کے تابع ہو چکی تھی ۔لڑکا کم عمر مگر مضبوط جسم کا مالک تھا۔ وہ اسے نہر میں کودنے سے روک چکا تھا اور دوبارہ ایسی کسی بھی کوشش کو کامیاب ہونے نہ دیتا ۔
’’ تم کہاں سے نکل آئے ؟پُل پر کوئی نہیں تھا ‘‘ عورت کے لہجے میں اب تلخی کم ہو رہی تھی ۔
’’ میں ورکشاپ سے آرہا تھا ۔۔ تمہیں دیکھا تو رُک گیا۔۔۔ ‘‘ لڑکے کے لہجے میں اعتماد نہیں تھا ،شرماہٹ اس کے چہرے اور لہجے میں جھلکتی تھی ۔وہ ایک شرمیلا لڑکا تھا،کم گو۔نظریں ملا کر بات کرنے سے کترا رہا تھا۔
’’تم نہ روکتے تو اب تک میں ۔۔۔‘‘ عورت اب اپنائیت محسوس کررہی تھی جیسے لڑکا اجنبی نہ ہو۔
’’ تم ڈوب چکی ہوتیں ‘‘لڑکے نے معصومیت سے کہا۔۔عورت ہونٹ بھینچے خاموش رہی ۔
’’ نہر کا پانی بہت ٹھنڈا ہے ۔۔اُف ! ‘‘لڑکے نے سادگی سے کہا ۔اپنی ہی کہی ہو ئی بات نے اس کے بدن پر کپکپی طاری کی ،جیسے اسے یکدم سردی لگی ہو۔ عورت کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہو کر غائب ہو گئی جیسے لڑکے کی بچگانہ بات نے مزا دیا ہو۔اس نے ابھی تک شال کو شانوں پر ٹھیک نہیں کیا، شاید دانستہ۔
’’شاید ڈوبنے سے بچ جاتی مگر ٹھنڈ سے مر جاتی ۔۔۔‘‘ عورت کی بات اور دوستانہ مسکراہٹ نے لڑکے کی گھبراہٹ کم کردی ۔
’’ تم جاؤ۔۔! ‘‘ عورت نے دھیمی آواز میں کہا، تکلفاً، جیسے جی نہ چاہ رہا ہو۔
’’ میں جاؤں ؟ ‘‘ لڑکے نے پہلی بار براہ راست اس کی آنکھوں میں جھانکا۔
’’ ہو ۔ں۔‘‘ وہ بادل نخواستہ بولی ۔
’’ تا کہ تم چھلانگ لگا کر ڈوب مرو ‘‘ اُس نے طنز نہیں کیا مگر بات سمجھداری کی تھی ۔
عورت چپ رہی مگر یوں کہ اُس کا سارا بدن بول رہا تھا۔
’’ چلو تمہیں گھر چھوڑ آؤں۔۔‘‘ لڑکے نے اس کی کلائی پکڑی ، عورت نے دوسرے ہاتھ سے لڑکے کا ہاتھ ہٹانا چاہا، اس کی انگلیوں کے لمس نے لڑکے کے جسم میں کرنٹ دوڑا دیا۔وہ اس قربت سے جلد فرار چاہتا تھا مگر عورت کے دل میں نجانے کیا تھا۔
’’ میں نہیں جاؤں گی ، گھر نہیں جاؤں گی ‘‘ عورت کسمسائی مگر کلائی نہیں چھڑائی ۔
’’ کیوں ؟ کیوں نہیں ؟ ‘‘ لڑکے کا ہاتھ نرم کلائی سے لپٹا ہوا تھا ۔اُس کا چہرہ تپ اٹھا تھا ، شاید شدت جذبات سے ۔
’’ وہ مارے گا ۔۔ مجھے پھر مارے گا ۔۔‘‘ عورت بڑبڑائی ۔ہاتھ نہیں چھڑایا۔
’’ کون ؟ ‘‘ لڑکے کی رگوں میں خون ابلنے لگا تھا ۔
’’ میرا خاوند ‘‘ وہ اب سرکش نہیں تھی ، جیسے خود بھی لمس کی دھیمی دھیمی آنچ میں سلگ رہی ہو۔
’’ کیوں ؟ کیوں مارے گا ؟‘‘ عورت کی کلائی سے لپٹی لڑکے کی انگلیاں عجیب نشے میں تھیں ۔
’’ خالی ہاتھ ۔۔کہتا ہے خالی ہاتھ واپس نہ آنا‘‘عورت کے لہجہ میں بیچارگی تھی
’’ خالی ہاتھ ؟ ‘‘ لڑکا کلائی سے ہاتھ ہٹانا چاہتا تھا مگر ہٹا نہیں پایا۔
’’پیسے مانگتا ہے ‘‘وہ تھکی تھکی بولی جیسے اپنا سارا دکھ اُس کی جھولی میں ڈال دیاہو۔
’’ پیسے ؟ ‘‘
’’ نشہ کرتا ہے ، پُڑی کے لئے پیسے ‘‘عورت کا سانس لڑکے کے چہرے سے ٹکرایا جیسے وہ برسوں کے آشنا ہمیشہ سے اتنا قریب ہوں ۔
’’ بڑا ذلیل ہے ‘‘ لڑکے کو عورت پر ترس آرہا تھا
دور کہیں سے صرف بھونکنے کے لئے جاگتے ہوئے کتے کی آواز سنائی دی۔لڑکے نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا ، دائیں پھر بائیں ، دُور تک کوئی نہیں تھا۔خلقت نیند اوڑھ کر بے سدہ پڑی تھی اور وہ کسے ہوئے بدن والی عورت کے ساتھ پُل پر کھڑا تھا جس کا شوہر نشے کی پُڑی کے لئے پیسے مانگتا تھا اور وہ پُل سے نہر میں کودنے والی تھی ۔جرسی نے اس کے سینے کے ابھار نمایاں کررکھے تھے اور بازو کا لمس لڑکے کے جسم میں کرنٹ دوڑا رہا تھا ۔وہ عجیب مخمصے میں تھا ،عورت کو ڈوب مرنے کے لئے چھوڑ کر چلا جائے یا کسی اور کے آنے تک عورت کو باتوں میں لگائے یونہی کھڑا رہے ۔رات گہری ، دھند پھیل رہی تھی ، کسی کے آنے کی توقع فضول تھی ۔یکدم اس نے اپنی سوچ سے بڑا فیصلہ کر لیا ۔
’’ کتنے پیسے ۔۔۔؟‘‘ لڑکے کے سوال نے عورت کو چونکا دیا، وہ یوں پوچھ رہا تھا جیسے جیب میں ڈھیر سارے نوٹ لئے کھڑا ہو اور ایک منٹ میں اس کا مسئلہ حل کر دے گا ۔
’’ جتنے مل جائیں، کم ہیں اس کے لئے ‘‘ عورت کی آنکھوں میں امید جاگ اٹھی تھی۔
’’ پھر بھی ؟ سو؟ دو سو ؟ ‘‘
’’ سو دو سو سے کیا ہو گا۔۔۔‘‘ عورت نے ہاتھ نہیں کھینچا ، وہ بات بڑھا رہی تھی یا ریٹ ۔۔۔؟
’’ پانچ سو ؟ ‘‘ لڑکے نے سرگوشی کی ۔
’’ پانچ سو۔۔۔؟‘‘عورت کے منھ سے بے اختیار نکلا۔ اس کا ہاتھ پھیلا اور کلائی پر لپٹی لڑکے کی انگلیاں اس کی انگلیوں میں پیوست ہو گئیں ۔
’’ ہاں ! پانچ سو کا نوٹ !میری جیب میں ہے ‘‘ لڑکے نے سادگی سے کہا۔وہ تیز تیز سانس لے رہا تھا۔
’’ جیب میں ؟ ‘‘عورت نے مزید قریب ہو کرلڑکے کا ہاتھ دھیرے سے اٹھا کر اپنے شانے پر رکھ لیا ۔لڑکے کا سارا جسم تھرتھرا اٹھا۔
’’ ہاں ‘‘ بمشکل اس کے منھ سے نکلا ۔اس کا ہاتھ عورت کے شانے پر لرز رہا تھا۔
’’ صرف ایک نوٹ؟‘‘ عورت نے کانپتی انگلیوں کا لمس گردن پر بھی محسوس کیا۔
’’ ایک ہی ہے ۔۔استاد نے خرچہ دیا تھا آج کام بہت تھا اسی لئے میں دیر سے آ رہا ہوں ‘‘ اب انگلیاں گال کو چھو رہی تھیں ۔ عورت کو پہلی بار اندازہ ہوا وہ کم عمر تو تھا مگر ۔۔۔وہ جھوٹ بول رہا تھا ،اس کی جیب میں پانچ سو والے دو نوٹ تھے ۔
’’ اچھا! تو پانچ سو کا نوٹ ۔۔۔؟ ‘‘ عورت نے ادا کے ساتھ گال پر رینگتی انگلیوں کو ذرا سا جھٹکا۔
’’چار سو ٹی وی کی قسط ،سو میں نے فلم دیکھنے کے لئے رکھا تھا ‘‘ لڑکے نے دوسرے ہاتھ سے جیکٹ کی جیب سے پانچ سو کا نوٹ نکالا۔ گال پر رکھے ہاتھ کی انگلیاں اب عورت کے ہونٹوں کی طرف گامزن تھیں۔عورت نے نرمی کے ساتھ شریر انگلیوں کو ہاتھ میں لے کر گال سے الگ کیا۔
’’ فلم ؟‘‘ اُس نے مٹھی میں پکڑے ہاتھ کو دبایا، لڑکے کا سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگا
’’ ہاں !آج رات ! آخری شو !‘‘ لڑکے نے زبان خشک ہونٹوں پر پھیری ۔نوٹ عورت کو پکڑایا نہیں ، وہ ایک جھلک ہی دیکھ سکی پانچ سو کی ۔
’’ کونسی فلم ۔۔۔؟ ‘‘ اب عورت کھل گئی تھی ،جیسے آخری شو دیکھنے لڑکے کے ساتھ جانے والی ہو۔
’’ انگریزی ۔۔ نام نہیں آتا ۔۔‘‘ لڑکے کا تنفس تیز ہو گیا۔ وہ عورت کے جسم کا لمس اپنے بدن پر محسوس کررہا تھا۔
’’ نام کیا ۔۔ کرنا ۔۔۔‘‘ عورت نے معنی خیز انداز میں ہونٹ بھینچا ، نوٹ لڑکے کے ہاتھ سے پکڑ کر گریبان میں رکھ لیا۔لڑکے کا سانس اکھڑ گیا۔ بے اختیار اس کا ہاتھ نوٹ کے تعاقب میں عورت کی چھاتی تک گیا، وہ کسمسا کر پیچھے ہٹ گئی ۔ لڑکا اپنی رو میں آگے بڑھا مگر اس نے نہیں دیکھا اس کی پشت پر پولیس کی وردی میں کالا بھجنگ سپاہی کھڑا ہے ۔وہ پتا نہیں کہاں سے یکدم نمودار ہوا تھا ، عورت نے اسے دیکھ لیا تھا ، اس کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار واضح تھے ۔ آنکھوں میں خوف کی پرچھائیں جیسے وہ رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہو۔
’’ تمہارے ہونٹ کیوں کانپ رہے ہیں ۔۔۔؟ ‘‘ لڑکے نے ہاتھ اس کے بازو پر رکھنا چاہا ۔اب وہ کچھ دیر پہلے
والا شرمیلا ، گھبرایا ہوا سولہ سالہ لڑکا نہیں لگ رہا تھا ۔عورت کے لمس نے اسے یکدم جوان کردیا تھا۔ وہ اپنی پشت پر کھڑے سپاہی سے بے خبر تھا۔عورت کا بدن کانپ رہا تھا ، سردی سے نہیں ،خوف سے۔اُس نے جواب نہیں دیا ، پھٹی ہوئی نظروں سے سپاہی کے درشت چہرے کو دیکھتی رہی ۔
’’ سنو ۔۔۔! ‘‘ وہ بے قابو ہو رہا تھا۔اس نے قریب ہو کر عورت کے ہونٹوں کو چھونا چاہامگر اس کا ہاتھ ہوا میں معلق رہ گیا۔ سپاہی کے مضبوط پنجے نے لڑکے کا شانہ جکڑ لیا تھا ۔لڑکا اس اچانک افتاد سے بوکھلا گیا ۔ سپاہی کے لبوں پر زہریلی مسکراہٹ تھی ،خوفناک چہرے پر دھاک جما دینے والے والی مونچھیں۔لڑکے کا سانس جیسے رک گیا ۔عورت بھی تھرتھر کانپ رہی تھی ۔
کچھ دیر میں سارا منظر بدل کر رہ گیا ۔سپاہی نے عورت کو ڈانٹ پھٹکار کے چلتا کیا ، وہ پُل سے ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ اتری اور قصبے کی طرف جاتی پگڈنڈی پر گم ہو گئی۔ وہ خسارے میں نہیں رہی ،پانچ سو کا نوٹ اس نے کما لیا تھاجو سپاہی کی نظروں اور ہاتھوں کی پہنچ سے دور محفوظ تھا۔عورت نظروں سے اوجھل ہو گئی تو کالے بھجنگ ، خوفناک مونچھوں ، درشت چہرے والے سپاہی نے لڑکے کو گریبان سے پکڑ کر جھنجھوڑا ۔وہ پہلے ہی دہشت سے ہاتھ پیر چھوڑ بیٹھا تھا۔سپاہی کو زیادہ تردد نہیں کرنا پڑا ، دو چار تھپڑ اور گھونسے کھاتے ہی لڑکے نے جیکٹ کی جیب سے پانچ سو کا نوٹ نکال کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔سپاہی کی باچھیں کھل گئیں، ڈیوٹی سے گھر کو لوٹتے ہوئے یہ بونس تھا جو اس نے زیادہ محنت کے بغیر جیب میں ڈال لیا ۔لڑکا نیم مردہ ، نڈھال پُل کا جنگلہ تھامے کھڑا تھا ۔
’’ بھاگ جاؤ !‘‘ سپاہی غرایا
لڑکے سے ایک قدم چلا نہیں گیا ، اس کے حواس معطل تھے ۔
’’ عورت کا نشہ کرتا ہے ۔۔کمینہ۔! سپاہی نے اسے دھکیلا ، لڑکا لڑکھڑا کر نیچے گر گیا ۔وہ مضبوط ہڈپیر کا مالک تھا مگر شاید زندگی میں پہلی بار پولیس کے ہتھے چڑھا تھا۔اوسان خطا کر بیٹھا۔
’’ خبردار ! جو پھر کبھی ۔۔۔‘‘ سپاہی اسے ٹھڈا مارتے یکدم رک گیا ۔لڑکے کی حالت ابتر تھی ،اسے لگا وہ مر جائے گا۔جھک کر اس نے لڑکے کو سیدھا کیا جس کی آنکھوں میں دہشت جمی تھی۔ وہ بیحد خوفزدہ ، سہما ہوا تھا۔
’’اٹھو ! ‘‘ سپاہی نے اس کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر اسے سہارا دیا ۔لڑکا لڑکھڑاتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔سپاہی کی بانہوں میں اس کا وجود لرز رہا تھا۔سپاہی نے جنگلے کے سہارے اسے کھڑا کر دیا۔ ایک اندیشے نے سپاہی کو بھی پریشان کیا ، وہ ا ب وہاں سے کھسکنے کے چکر میں تھا۔
’’ ہمت کرو ! جوان ہو یار ‘‘ سپاہی کا لہجہ یکدم دوستانہ ہو گیا ۔اس نے نرمی سے لڑکے کے شانے کو تھپتھپایا جو باربار آنکھیں کھولتا بند کرتا ۔
’’ لو ! کھوکھے سے چائے کا کپ پی لینا ‘‘ کمال ہمدردی کے ساتھ اس نے جیب سے دس کا نوٹ نکال کر لڑکے کی جیب میں ڈال دیا۔ لڑکے کے گالوں کو پیار سے تھپتھپاتے ہوئے وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا پُل سے اتر کر قصبے کو جانے والی پگڈنڈی پر گم ہو گیا۔لڑکا پُل کا جنگلہ تھامے دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا مخالف سمت میں ۔
پولیس کی جعلی وردی والا ، نقلی مونچھیں اتارتا ہوا کمرے میں داخل ہوا تو عورت کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔’’ کتنے ؟ ‘‘ اس نے شوخ نظروں سے عورت کو دیکھا۔
’’ لعنت ہے تم پر! ‘‘ عورت چیخی ،وہ آگ برسا رہی تھی ۔
’’ تھوڑی دیر ہو گئی پتلون کی زپ ٹوٹ گئی تھی ۔۔‘‘ مرد نے خفت سے کہا ’’ میں پہنچا تو وہ بچہ تمہارے گال پر ہاتھ رکھنے والا تھا۔۔‘‘
’’وہ بچہ نہیں تھا ۔۔۔‘‘ عورت چلاّئی ۔وہ آپے سے باہر ہو رہی تھی ۔
’’ کیوں ؟ کیا کِیا اس نے ۔۔؟ ‘‘ مرد کوپہلی بار کچھ تشویش ہوئی ۔
’’ پکا حرامی تھا۔۔‘‘ عورت بڑبڑائی ۔
’’مجھے تو چپ چاپ پانچ سو پکڑا دئیے ۔۔۔ جان نکل رہی تھی اس کی ‘‘ مرد نے حیرانی سے کہا۔
’’ پانچ سو؟ ‘‘ عورت نے ماتھا پیٹ لیا ، وہ غصے میں مٹھیاں بھینچ رہی تھی ۔
’’ ہاں ! اس کی جیب میں تھے ، تمہیں ٹرخا دیا اس نے ۔۔؟‘‘مرد ،عورت کی دیوانگی کا لطف بھی لے رہا تھا۔ عورت نے جواب نہیں دیا ، چپ چاپ پانچ سو کا نوٹ مرد کو پکڑا دیا ۔ مرد نے نوٹ کو غور سے دیکھا ، اس کے ہونٹ بھنچ گئے ۔ اپنی جیب سے نکال کر دوسرا نوٹ اس نے بلب کی روشنی میں دیکھا اور عورت کی طرح غصے میں ابلتا ہوا مٹھیاں بھینچے لگا۔
٭
رات آدھی بیت چکی تھی ۔لڑکے نے دس کا نوٹ پان والے کو دیا ۔
’’ میٹھا؟‘‘ پان والے نے پوچھا
لڑکے نے نفی میں سر ہلایا۔
الائچی سپاری ۔۔؟‘‘
لڑکے نے پھر نفی میں سر ہلادیا ۔
’’ گولڈلیف ۔۔؟ ‘‘لہجہ کرخت ہو گیا ، پان والے کا ہاتھ سگریٹ کے پیکٹ کی طرف بڑھا۔
’’ نہیں ‘‘ لڑکے کے انکار نے پان والے کا ہاتھ روک لیا۔ وہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے گا۔
’’ پانچ سو والے دو! ‘‘ لڑکے کے لبوں پر مسکراہٹ ناچ رہی تھی ۔اس کے ہاتھوں پر عورت کے جسم کا لمس ابھی تک زندہ تھا۔ پان والا کھلکھلا کر ہنسا ، رنگ برنگے نوٹوں کی گڈی میں سے پانچ سو والے دو نکال کر لڑکے کو تھما دئیے ۔ ٭