اقبال حسن آزاد(مونگیر)
آنگن میں اس کی لاش رکھی تھی ۔
رونے والوں کی کوئی کمی نہیں تھی ۔ آنگن میں ، دلان میں یابرآمدے میں ہر جگہ رونے والے موجود تھے ۔ گھر کے کونے کو نے سے گریہ وآزاری کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ اس کے بیوی بچے ، بھائی بہن ، دوسرے رشتہ دار، پڑوسی ، آفس میں اس کے ساتھ کام کرنے والے سبھی رورہے تھے ۔ کچھ باآواز بلند ، چند ایک سسکیوں میں اورجو رو نہیں رہے تھے ان کے چہروں پر بھی غم کی لکیریں ابھر آئی تھیں۔
اسے یہ سب دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ جب تک وہ زندہ تھا اسے اس با ت کا گمان بھی نہ تھا کہ اس کے گھر والے ، ملنے جلنے والے ، دوست احباب ، بھائی بہن ، پڑوسی سب اسے اس قدر عزیز رکھتے ہیں، اور اس کی جدائی پر ان کے کلیجے چا ک ہوجائیں گے ۔ اس کے بھائی بہنوں کو تو ہمیشہ اس سے یہ شکایت رہی کہ اس کی تمام تر توجہ صرف بیوی بچوں پر ہے جب کہ اس کی بیوی بچے یہ سمجھتے رہے تھے کہ وہ ان کی ضروریات پوری نہیں کر پاتاہے ۔ بیوی کو تو ہمشیہ یہ شک رہا کہ وہ چھپ چھپا کر اپنے گھر والوں کی مدد کیا کر تا ہے اور اس کے سامنے اپنی تنگ دامانی کا رونا روتا ہے ۔ پڑوسی اس کے خشک رویئے کی وجہ سے اسے اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے تھے بلکہ دو ایک سے تو اس کا جھگڑا بھی ہو چکا تھا جب کہ آفس میں بھی وہ ایک غیر مقبول شخص تھا مگر ان ساری باتوں کو سمجھتے ہوئے بھی وہ ناسمجھ بنا رہا تھا۔ در اصل اس کے پاس ان سب باتوں کے بارے میں سوچنے کے لیے وقت ہی نہیں تھا۔ سارا دن تو دنیا کے الجھیڑوں کو سلجھاناے میں گذر جاتا او ررات آتی تو وہ تھک کر اتنا چور ہو چکا ہوتاکہ بستر پر جاتے ہی گہری نیند سوجاتا اور ابکے تو وہ ایسی گہری نیند سونے جارہا تھا کہ اب قیامت کے روز ہی اس کی آنکھ کھلے گی اور ابھی جو وہ اپنی کھلی آنکھوں سے اپنے رونے والوں کو دیکھ رہا تھا تو یہ اس فرشتہ ا جل کی مہربانی تھی جس نے ا س کی درخواست قبول کر والی تھی ورنہ اب تک اس کی روح عالم بالا کی سمت پرواز کر چکی ہوتی ۔
ابھی وہ مرنے کے لیے خود کو پوری طرح تیار بھی نہیں کر پایا تھا ۔ ابھی تو اس کے ریٹائر ہونے میں پانچ سال دس مہینے اوربیس دن باقی تھے۔ ابھی تو اس کی کسی بھی بیٹی کی شادی نہیں ہوئی تھی حالانکہ وہ روز بعد نماز عشاء سورۃ مریم پڑھا کر تاتھا اور اس کا بڑالڑکا بھی پڑھ لکھ کر بیکار تھا۔ دونوں چھوٹے لڑکے ابھی اسکول میں زیر تعلیم تھے ۔ بیوی ہمیشہ بیمار رہا کرتی ۔ اب اتنے سارے بکھیڑوں کو سر پر لئے موت کے بارے میں سوچنا بھی عجیب سی بات تھی ۔ ا س لئے آج صبح جب وہ اپنی سائیکل پر آفس کے لئے روانہ ہو ا تو اس کے سان و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ آج کا دن اس کی زندگی کا آخری دن ہوگا۔ آج بھی وہ حسب معمول وقت مقررہ پر اٹھ بیٹھا تھا اوربستر چھوڑ نے کے بعد اس نے وہی سارے کام انجام دیئے تھے جو وہ اور دنوں میں کیا کر تا تھا ۔ ان کے علاوہ اس نے ایک کام اور کیا تھا۔ اپنی گلی میں بیٹھنے والے کتے کو رات کی بچی ہوئی دو روٹیاں لا کر دی تھیں ۔ وہ کتا اس کا کوئی نہیں تھا۔ وہ تو کتوں کو اپنی دہلیز پر چڑھنے بھی نہیں دیتا تھا کہ کہیں رحمت کے فرشتے اس کے گھر کا راستہ نہ بھول جائیں۔ مگررحمت کے فرشتے تو اس گھر کا راستہ ایسے بھولے تھے کہ بس۔ کبھی کبھی کوئی کتابارش سے بچنے کے لئے یا سخت گرمی میں اس کے بر آمدے پر چڑھ آتا تھا۔ اگر اس وقت وہ گھر میں موجود ہوتا تو فوراً ڈنڈا لے کر اسے کھدیڑدیا کرتا البتہ کبھی کبھی کسی کتے کے آگے رات کی بچی ہوئی روٹیاں رکھ دیا کر تاتھا۔ جیسا کہ آج اس نے کیا تھا اس کے بعد وہ روز کی طرح اپنی سائیکل پر سوار آفس کے لئے روانہ ہوگیا تھا۔ راستے بھر وہ سوچ کے سلسلوں میں الجھا رہا۔ وہ سوچتا بہت زیادہ تھا اور سوچ سوچ کر خوفزہ رہا کر تا۔ اسے ہمیشہ یہ خوف ستاتا رہتا کہ پتہ نہیں کب کیا ہوجائے حالانکہ وہ اچھی طرح جانتاتھا کہ یہ کسی کو نہیں معلوم کہ آنے والا پل کن حادثات و واقعات کو لئے آئے گا لہذا مستقبل کے بارے میں خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارا ان الجھنوں اور پریشانیوں سے سابقہ ہی نہ پڑے جن سے ہم ہمیشہ خوفزدہ رہتے ہیں اور اگر ایسی صورت حال سامنے آجاتی ہے تو ہم کسی نہ کسی طرح اس کا سامنا کر ہی لیتے ہیں ۔ اب پہلے سے پریشان ہو کر اپنی الجھنوں کو بڑھا نے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس کی سوچ کے سلسلے ٹوٹتے ہی نہ تھے ۔ وہ ہمیشہ فکر مند رہتا کہ فکر کرنا انسانی خصلت ہے ۔ شاید جانوروں کو کسی بات کی فکر نہ ہوتی ہو مگر وہ جانور تو نہ تھا۔ لہٰذا ہمیشہ کوئی نہ کوئی فکر دامن گیر رہتی ۔ وہ ملکی یا بین الاقوامی مسائل کے بارے میں زیادہ نہیں سوچتاتھا کہ یہ ساری سوچ بھرے پرے لوگوں کے لئے ہے یا پھر ان کے لئے جن کے پاس سوچنے کی کچھ اور نہیں ہوتا۔ اب جب آدمی ان سوچوں میں اس قدر گم ہو تو اسے کیا معلوم کہ اس کے ارد گرد کیا ہورہا ہے ۔ وہ تو اپنی سوچ کے نہ ختم ہونے والے سلسلے میں الجھا ہوا تھا کہ پیچھے سے آرہی ایک تیز رفتار گاڑی نے اس کی سائکل کو زبر دست ٹکر ماردی۔ سائیکل ٹوٹ پھوٹ کر دور جاگری اوراس کا جسم ہوا میں دور تک اچھلا اور پھر سڑک کے درمیان بنے Dividerسے جا ٹکرایا۔ جسم کا پنجر ہ ٹوٹا تو اس میں برس ہا برس سے قید روح پھڑا پھڑا کر نکلنے کو بیتا ب ہوگئی ۔ اسے سخت اذیت کا احساس ہوا۔ اس کے سارے جسم ، ہاتھ پیر ایک ایک عضو میں عجیب تکلیف دہ انداز میں اینٹھن ہونے لگی۔ شاید روح کو باہر نکلنے کے لئے بہت زور لگانا پڑا تھا۔ آخر اس کی روح جسم کو چھوڑ کر الگ ہوگئی اور Dividerکے پاس ایک بے جان جسم پڑا رہ گیا ۔ سڑک پر دوڑنے والی گاڑیاں رک گئیں اور لوگ دوڑ دوڑ کر اس کے جسم کے پاس آنے لگے ۔ وہ حیرت زدہ سا اس مڑے تڑے جسم کو دیکھ رہا تھا۔ اس طرح، گویا پہلی بار دیکھ رہا ہو۔ خون آلود گنجا سر، دھنسی ہوئی آنکھیں ، پچکے گال، نحیف و نزار جثہ۔ ابھی وہ اس مردہ جسم کو دیکھنے میں منہمک ہی تھا کہ اسے اپنے کاندھوں پر کسی کے ہاتھ کا دباؤ محسوس ہوا ۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔ وہ فوراً سمجھ گیا کہ اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھنے والا فرشتہ اجل ہے اور اسے لینے آیا ہے ۔ موت کا فرشتہ اسے لے کر چلنے کو ہوا تو اس نے بڑی لجاجت سے کہا۔’’کیا میں تھوڑی دیر اور نہیں رک سکتا ؟‘‘
’’نہیں ، یہ خلاف قدر ت ہے ، مرنے کے بعد انسان کا ناطہ اس دنیا سے ٹوٹ جاتا ہے اوروہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہاں سے چلا جاتا ہے ۔
’’واہ ! یہ کیسا انصاف ہے ۔ جس دنیا میں انسان اپنی زندگی کے بیش قیمت مہ و سال گذار تاہے ، جہاں اس کے اپنے رہتے ہیں اس جگہ سے اس کا تعلق بس ایک لمحے میں کیسے ختم ہو سکتا ہے ۔ آخر اسے یہ تو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کے بعد لوگ اس کے جسم کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہیں۔ ا سکے اس طرح چلے جانے سے کیا محسوس کر تے ہیں ۔ اس کی کمی کا احساس لوگوں کا ہوتاہے یا نہیں ۔ ‘‘
فرشتہ اس کی باتیں سن کر چپ ہوگیا ۔ فرشتے کو خاموش دیکھ کر اس کی ہمت بڑھی اور اس نے آگے کہا۔
’’کم از کم اس وقت تک جب تک اس لاش کو سپرد خاک نہیں کر دیا جاتا تب تک …………‘‘
فرشتے نے سراٹھا کر آسمان کی جانب دیکھا گویا کسی سے اجازت طلب کر رہا ہو۔ پھر اس نے گردن سیدھی کی اور کہا۔’’ٹھیک ہے ۔ مگر اس لاش کے سپر دخاک ہوتے ہی تمھیں میرے ساتھ چلنا ہوگا۔‘‘
اور پھر وہ اس وقت سے لے کراب تک مسلسل اپنے جسم کے ساتھ ساتھ رہا تھا ۔پولس آئی تھی ۔ امبولنس آئی تھی ۔ اس کی لاش کو لوگ اٹھا کر اسپتال لے گئے ۔تھے اس کا پوسٹ مارٹم ہوا تھا اور پھر ا سکے جسم کو اس کے عزیزوں کے سپرد کردیاگیا تھا اور اب ا س کے لاش آنگن میں پڑی تھی ۔ لوگ اس کا آخری دیدار کر تے جاتے تھے اور روتے جاتے تھے اور اسے یہ سب دیکھ دیکھ کر بڑا اچھا لگ رہاتھا۔ پھر جب ا سکے جنازہ کو اٹھایا گیا تو آہ وبکا کی اتنی بلند آواز تھی کہ گھر کے درودیوار ہل گئے ۔ وہ چار کاندھوں پر سوار مسجد کے دروازے تک آیا۔ اور پھر اس کے جنازے کو مسجد کے باہر ایک کنارے نہایت احتیاط او رآہستگی کے ساتھ رکھ دیاگیا۔ آج مسجد میں معمول کے کچھ زیادہ بھیڑ تھی ۔ چند ایک وضو کر رہے تھے۔ کچھ لوگ سنتیں ادا کر رہے تھے اور کچھ ایسے بھی تھی جو مسجد کے باہر ٹوپیاں پہنے نماز جنازہ کا انتظار کر رہے تھے ۔ جنازے کے پاس ایک پیڑ و میکس روشن تھا۔ وقت مقررہ پر جماعت کھڑی ہوئی ۔ فرض ادا کر نے کے بعد سنت ،و تر، نوافل ۔ پھر یکے بعد دیگر ے لوگ مسجد سے نکلنے لگے اور صفیں درست ہونے لگیں۔ امام صاحب بھی نماز سے فارغ ہو کر آگئے مگرچند ایک اب تک نماز میں مشغول تھے ۔ لگتاتھا سارے نوافل آج ہی ادا کر دینے ہیں۔ باہر کھڑے لوگ بے چینی سے پہلو بدلنے لگے ۔ایک نوجوان صف سے باہر نکلا ۔ اس نے مسجد کے اندر جھانک کر دیکھا۔ پھر واپس مڑا اور عجیب سی ہنسی ہنستا ہوا بولا۔
’’ابھی تک نماز ہی پڑھ رہے ہیں۔‘‘
ایک سن رسیدہ شخص نے زور سے آواز لگائی ۔
’’نماز جنازہ شروع ہونے والی ہے ۔‘‘ شاید کھڑے کھڑے اس کے گھٹنوں میں د رد ہونے لگاتھا۔ اس کی بانگ کا کچھ اثر ہوا اور بقیہ لوگ بھی جلدی جلدی پیروں میں چپلیں ڈالتے ہوئے باہر نکل آئے۔صفیں ایک بار پھر درست ہوئیں۔ جنازہ کی نماز شروع ہوئی اورختم ہوگئی ۔ اس کے بھائی لپک کر آگے بڑھے اورجنازے کو کاندھوں پر اٹھالیا ۔ ایک نوجوان پیٹرومکس لئے آگے آگے چلا۔ کچھ لوگ وہیں پر کھڑے رہ گئے اورجب جنازہ آگے بڑھ گیاتو وہ لوگ اپنے گھروں کی جانب مڑگئے۔ کاندھے بدلتے رہے اور جنازہ کبھی توانا کبھی ناتواں کاندھوں کے سہارے قبرستان بڑھنے لگا۔ آگے موڑ پر کچھ اور لوگ جدا ہوگئے ۔ قبر ا بھی پوری طرح تیار نہیں ہوئی تھی ۔ لوگ ٹولیوں میں بٹ کر باتیں کرنے لگے ۔ ایک شاعر اپنے ارد گر د کھڑے لوگوں کو اپنی تازہ غزل کے اشعار سنانے لگا۔ وہ سن رسید ہ شخص جس کے گھٹنوں میں درد رہا کر تا تھا، اپنے ایک ہم عمر کو ایلو پیتھی اور ہومیو پیتھی کا فرق سمجھانے میں لگا تھا۔ چند ایک کشمیر کے مسئلے پر گفتگو کر رہے تھے اور اس کا ایک کلیگ کسی کو یہ بتا رہا تھا کہ مرحوم نے چند روز قبل اپنی کسی ضرورت کے تحت اس سے دو ہزار روپے قرض لئے تھے ۔ اسی درمیان کچھ لوگ اپنے رشتہ داروں کی قبر پر فاتحہ پڑھنے لگے گئے ۔ تھوڑی دیر بعد گورکن نے اعلان کیا کہ قبر تیار ہے۔ اس کا ایک بھائی قبر کے اندر اتر گیا۔ ساتھ ہی محلے کا ایک نوجوان بھی قبر میں اتر گیا۔ پھر لوگوں نے اس کی میت اٹھائی اور ایک موٹے رسے کے سہارے اسے دھیرے دھیرے قبر میں اتارا جانے لگا۔ اس کے بھائی نے اسے قبر میں لٹایا اورکفن سے ڈھکے اس کے چہرے کو قبلہ رو کردیا۔ پھر دونوں قبر سے باہر نکل آئے ۔ تختے بچھا دئے گئے اورقبر پر مٹی ڈالی جانے لگی ۔ کچھ لوگ مٹی ڈال کر فوراً چلے گئے ۔باقی فاتحہ پڑھنے کورکے رہے ۔ فاتحہ کے بعد قل کے بارے میں اعلان ہوا اورقبر ستان خالی ہوگیا۔
اس نے ایک بار پھر اپنے کاندھوں پر کسی کا ہاتھ محسوس کیا۔ اس نے مڑ کر دیکھاتو موت کے فرشتے نے کہا۔’’اب جاؤ اور اپنی قبر میں سماجاؤ۔ ابھی منکر نکیر آئیں گے ۔ وہ تم سے سوال جواب کریں گے ۔‘‘
’’کیا میں تھوڑی دیر اور نہیں رک سکتا ؟‘‘
’’اب کیا ہے ؟‘‘
’’میں دیکھنا چاہتاہوں کہ میرا جنازہ اٹھ چکنے کے بعد میرے گھر والوں کا کیا حال ہے ۔‘‘
فرشتے نے ایک بار پھر آسمان کی جانب دیکھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کہا۔
’’اچھا تھوڑی دیر اور سہی ۔‘‘
اب وہ پھر اپنے گھر میں تھا۔ رونے کی آوازیں ختم ہوچکی تھیں۔ گھر میں ہر طرف چہل پہل تھی۔ اس کی بہنیں کچن میں مشغول تھیں۔ بہت سارے آدمیوں کا کھانا بنانا تھا۔ رات کافی ہوچکی تھی ۔ چھوٹے بچے سوئے جارہے تھے ۔ایک عورت باربار کچن میں آکر صورتحال کا جائزہ لے رہی تھی ۔ محلے کی ایک عورت ڈھیر ساری سبزیاں کاٹنے میں مشغول تھی ۔ ایک دوسری عورت بہت سارا آٹا گوندھ رہی تھی ۔ا سکی چھوٹی بھابھی اپنے تین سالہ بچے کو چائے بسکٹ کھلارہی تھی ۔ اس کی بڑی لڑکی کمرے کا فرش دھورہی تھی ۔ لڑکے باہر بیٹھے غم خواروں کو چائے پلارہے تھے ۔ ایک بزرگ رشتہ دار اس کے بڑے لڑکے کو بتارہے تھے کہ Compensateگراونڈ پر نوکری حاصل کر نے کے لئے اسے کیا کیا کر نا ہوگا۔ اندر ایک کمرے میں اس کی بیوی اپنی چھوٹی بیٹی کے ہاتھوں نارنگی کھاری تھی کہ نارنگی کھانے سے قلب کو تقویت حاصل ہوتی ہے اور دل کو سکون ملتاہے ۔
’’اب چلیں۔ ‘‘ فرشتے کی آواز سن کر وہ پلٹا۔ اس کی آنکھوں میں اداسی بھر گئی تھی ۔ اس نے سرجھکا لیا اور اپنے بازو فرشتے کی جانب بڑھادئے فرشتہ اسے لے کر اڑنے ہی والا تھا کہ اس کے کانوں میں کسی کے رونے کی آواز آئی ۔ ’’ذرا ٹھہرو، دیکھوں تو کون رورہا ہے ۔‘‘
اور پھر ان دونوں نے دیکھا کہ گلی کا کتا آسمان کی جانب منہ اٹھائے دردناک آواز میں رورہا تھا اور بس روئے ہی جارہا تھا۔ ٭٭٭
آپ لاکھ فرض کر لیں کہ آپ کی موت واقع ہوچکی ہے ،پر مرے بغیر مرنا تو نہیں ہوتا،مگر میرا یہ ہے کہ کوئی نصف صدی سے کہانیاں لکھ لکھ کر اس دوران میں ایک اپنے سوا ساری کائنات کو جیتا رہا۔سو یہی لگتا ہے کہ میرے ساتھ جو اور جیسے بھی بیتی وہ میرے مَرے مَرے ہی بیت گئی۔اس لیے اپنا وفات نگار آپ ہی بنتے ہوئے مجھے کسی لے دے کا سامنا نہیں۔ایک بات اور،ایک کہانی کار ہونے کے ناطے میں اس سے غافل نہیں کہ مُردوں کو بھی کیوں کر خود آپ ہی چل پھر کر اپنی کہانیاں پوری کرنا پڑتی ہیں۔لہٰذا پس مرگ بھی سانس لیے جانا اور اپنی موت جیے جانا مجھے غیر فطری معلوم نہیں ہوتا۔میرے ملنے جلنے والے مجھے اپنے وجود میں نہ پا کر اکثر شکایت کرتے ہیں کہ کیا پتہ،میں کہاں ہوتا ہوں۔ہاں، واقعی کیا پتہ،کہاں؟ اپنے کرداروں میں سے جس کے بدن میں بھی رات آجائے۔مجھ سے ملنا مطلوب ہو جیسے بھی بنے اپنے گمان میں اسی کردار کی ٹوہ میں لگ جائیے،یا پھر بس دعا کیجیے کہ خدا مغفرت کرے،کیا خوب آدمی تھا!
مجھے اوائل سے ہی زندگی کسی کہانی کی طرح پیش آئی۔
(جوگندر پال کے خود وفاتیہ کا پہلا پیراگراف
بحوالہ کتاب جوگندر پال ،ذکر ،فکر، فن مرتب کردہ: ڈاکٹر ارتضیٰ کریم)