شفیق انجم(اسلام آباد)
ہیولامیرے سامنے چت لیٹا ہوا ہے اور میں منتظر ہوں کہ وہ کچھ کہے ۔برسوں کی بانجھ امیدوں پر آج ہرے پات لگے ہیں اور اک عمر سے منجمد خوابوں میں دھوپ لہرائی ہے۔ اک دھمک اور ارتعاش سا بدن میں تلملا رہا ہے اور میں گمان کرتا ہوں کہ شاید بجھے ہوئے چراغوں میں دوبارہ سے کوئی روشنی جی اٹھے۔سو میں منتظر ہوں کہ وہ کچھ کہے۔کشٹ کاٹتے کاٹتے صدیاں بیت گئیں ،ایسی مشقتیں کہ چٹانوں پر بھی وارد ہوتیں تو انھیں قطرہ قطرہ بہا لے جاتیں ۔مجھ بد نصیب کی قسمت میں تو یہ بہہ جانا بھی نہیں ۔ہمیشہ سے یہی ہوا ہے کہ خاک ذروں کی مانند ریزہ ریزہ ہوتا ہوں ،قریہ قریہ روندا جاتا ہوں اور جب امید بندھ چلتی ہے کہ رہائی کی منزل قریب ہے تو پھر سے قید کا ایک نیا سلسلہ آغاز ہو جاتا ہے ۔ جبر کے عفریت کے کھردرے کٹیلے ہاتھ تھکتے ہی نہیں ،بس گوندھے چلے جاتے ہیں اور گاچنی مٹی کی طرح میں بل پہ بل کھاتا گندھ رہا ہوں ۔اک بے طرح گھماؤ کہ جو رکتا ہے نہ تھمتا ہے،عفریت کی بے رحم انگلیاں بھی نہیں چٹختیں اورنہ مجھ میں یہ حوصلہ آتا ہے کہ جست لگا کر ایک طرف ہو جاؤں اور سینہ تان کے اپنے مزید گندھے جانے سے انکار کر دوں ۔آہ افسوس کہ میں ایسا کچھ بھی نہیں کر سکتا ۔ بس ایک منحنی سی سوچ ابھرتی ہے اور دب جاتی ہے ۔لفظ اندر ہی اندر انگڑائی لیتے ہیں اور دھت ہو جاتے ہیں ۔ہونٹ جگالی کرتے اور جم جاتے ہیں۔۔۔۔میں ایک نظر ہیولے کو دیکھتاہوں اور شدت کرب سے آنکھیں میچ لیتاہوں ۔ خواہش سر پٹختی ہے کہ میں اپنا آپ سارے کا سارا اس کے سامنے پھیلا کر اور اس کو اپنے اوپر پورے کا پورا اوڑھ کر ا سے ی تک ازلوں ازلی ان کہی اگال دوں لیکن لفظ اندر ہی اندر ڈوب رہے ہیں ۔برف کی سلیں سی میرے وجود کو یخ کرتی ہوئی سوچ کے آر پار ہو رہی ہیں اور میں منجمد آنکھوں کے ادھ کھلے کناروں سے چپ چاپ اسے تکے چلا جاتا ہوں ۔۔بس تکے چلا جاتا ہوں۔
یہ ایک بڑے اور کشادہ کمرے کا منظر ہے ۔کمرے کا دروازہ بند ہے اور کھڑکیوں پر پردے پڑے ہیں ۔روشنی تیز ہے نہ بہت مدھم۔ریکارڈ بج رہا ہے اور سُروں کا دھیما ارتعاش چاروں اور پھیلا ہوا ہے ۔آتش دان میں انگارے دہک رہے ہیں اوران سے اٹھنے والی البیلی تپش ماحول کو خوشگوار بنا رہی ہے۔ایک طرف موتیے اور گلاب کے تازہ پھول سجے ہیں ۔بھینی بھینی خوشبو پتیوں سے نکل کر در و دیوار پر بوسے ثبت کرتی اور روشندانوں کے اُس پار اتر جاتی ہے۔ہرہر چیز بہت قرینے اور سلیقے سے ترتیب دی گئی ہے ،ایسے کہ نظر ہزار بار دیکھنے پر بھی نہ تھکے۔باہر یقینا رات ڈھل چکی ہے لیکن کمرے کے اندر وقت کی ٹک ٹک رات اور دن کے بین بین گویا کہ تھم سی گئی ہے۔اداس لمحے ایک طرف بیٹھے اونگھ رہے ہیں اور ان پر ماحول نے چپکے سے سفید چادر ڈال دی ہے۔فرش پر بچھے قالین پر سناٹا بکل مارے بیٹھا ہے اور بہت سنبھل سنبھل کر پہلو پہ پہلو بدلتا ہے مبادا کہ کوئی آواز ابھرے۔کمرے کی ایک دیوار کے ساتھ نفیس صوفہ دھرا ہے اور دوسری طرف بڑا اور گداز ریشمی کپڑے میں مغلف بیڈ ہے ۔بیڈ کے چاروں طرف دھندلے دائروں کی لطیف دیواریں سی محوِ رقص ہیں اوران کے بیچوں بیچ میں اور وہ اک خما رگھلے اضطراب کے ساتھ ایک دوسرے کے منتظر ہیں۔ ہیولے کی آنکھیں چھت کے منقش زاویوں میں کچھ ٹٹول رہی ہیں ۔چہرہ متغیر ہے اور سوچ کے لہریے بار بار بن بگڑ رہے ہیں۔سانسوں کے ردھم میں بے چینی ہمک رہی ہے اور وقفے وقفے سے ایک لمبی اور گہری آہ سی اس کے حلق کی دیواریں پھاندتی ہوئی ابھر آتی ہے۔ میرے طرح ذرا پل کو اس کے ہونٹ بھی پھڑ پھڑاتے ہیں ،چہرے پر کچھ رنگ سے جھلملاتے ہیں ،آنکھوں میں اک چمک سی اترتی ہے اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہے۔۔۔انجماد سانسوں میں اتر کر لفظوں کو اچک لیتا ہے ،کہر پھیل رہا ہے،مسلسل پھیل رہا ہے ۔ہم بے بسی سے ایک دوسرے کو تکتے ہیں ،خوب خوب تکتے ہیں اور مضطرب ہو کر نظریں چرا لیتے ہیں۔
اس کی آنکھیں ۔۔آہ اس کی آنکھیں کہ اک وجد آور چھلکتی کشش سے لبا لب بھری ہوئی ہیں اور اس کے ہونٹ کہ جن سے قطرہ قطرہ شیریں رس نچڑتا دکھائی دے اور اس کے گال اور چہرہ اور مرمریں بدن کہ جس کو ہوائے بہاری چھو کر گزرے تو مدتو ں رشک کرے ۔اک کنواری کونپل کہ جو اپنے شباب سے بے نیاز دریا کنارے جھوم رہی ہو یا قوسِ قزح کی اک نکھری قاش کہ بادلوں کے پاکیزہ کندھوں پر بیٹھی گنگناتی چلی جائے یا وائلن کے تاروں سے نکلتی اک مدھر تان کہ سماعتوں میں اتر اتر رقص کرے ۔میں اسے لفظ لفظ پڑھنا ،سطر سطر جذب کرنا اور حرف حرف لکھنا چاہتا ہوں لیکن افسوس کہ نہ پڑھ سکتا ہوں نہ لکھ سکتا ہوں۔بہت طول طویل رفاقتوں کے باوجود بھی وہ میرے لیے اجنبی ہے اور میں اس کے لیے۔قرب کے اس تسلسل کو شمار کرتاہوں تو وقت بھر بھری مٹی کی طرح میرے ہاتھوں سے سرکنے لگتاہے ۔زندگی کی ٹھوس فصیلیں پگھل پگھل شفاف دائروں میں ڈھلتی ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ اس کمرے سے باہر،اردگرد اور اس سے پرے اور اس سے بھی پرے جہاں جہاں نظر پڑتی ہے ،میں اور وہ ساتھ ساتھ ہیں ۔میں زقند بھر کر سالوں صدیوں کو پھلانگتا ہوا تاریخ کی دھند میں بہت دور تک اترتا ہوں اور اسے تلاشتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرب کا یہ بندھن اس بھی پہلے ،دور بہت دور کہیں ،پہلی بار گندھے جانے سے بھی پہلے پڑاؤ در پڑاؤ ،سلسلہ در سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔میں اور وہ ،وہ اور میں ایک دوسرے میں مدغم ، ایک دوسرے میں گم۔۔لیکن اجنبی ۔۔آہ کھرچ کھرچ کھرچنے سے بھی معلوم نہیں ہو پاتا کہ میں کون ہوں،وہ کون اور ہمارے ارے پرے ادھر اُدھر یہ دائرہ در دائرہ بکھراؤکیا ہے۔۔۔میں سوچوں کے بھنور میں سے جست بھر کر دوبارہ سے بیڈ پر آ بیٹھتا ہوں ؛ اونگھتے لمحوں اور بکل میں لپٹے سناٹے کو ایک نظر دیکھتا ہوں اور پھر سے ہیولے کوتکنے میں مگن ہو جاتاہوں۔کرم ۔۔کرم اے صاحبِ جُود و عطا۔۔کہ ترے کرم کے بغیر میرے گیان کی تختی بے حرف بے صدا ہے
بے بسی ۔۔۔آہ بے بسی ۔۔آہ یہ عذابِ بے پناہ۔۔۔یہ وبالِ بے کنار
نہ زمیں پھٹتی ہے کہ میں اس میں سما جاؤں اور نہ آسماں مہرباں ہوتاہے کہ مجھے نگل لے۔دل ابل ابل چشمے کی مانند بہہ نکلا ہے اور آنکھیں سلگ سلگ انگارہ بن گئی ہیں مگر میرا حال مجھ پرکُھلا نہیں ۔چٹیل فصیلیں غضب ناک تند خُو لمحوں میں سے سر ابھارے کھڑی ہیں اور میرے ناتواں ہاتھ ان کے آہنی دروازوں پر دستک دے دے کر شل ہو چکے ہیں ۔ایڑیاں رگڑ رگڑ کر فریاد کرتا ہوں ،بلک بلک دہائی دیتاہوں ،کا ش کوئی مسیحائی کو اترے،کاش کہ کوئی درد بانٹے۔اک ذرا پل ہی کو سہی ۔اک ذرا پل ہی کو کہیں سے کوئی پچکارے تو میں یہ سمجھوں کو گویا مرادوں سے میرا دامن بھر گیا۔زیادہ کی طلب نہیں۔میرے ہونٹوں پر گلاب مہکیں ۔۔نہ سہی۔میری آنکھوں میں ستارے جھلملائیں ۔۔نہ سہی۔میری سانسوں میں ترنم اترے ۔۔نہ سہی۔ایسا کچھ بھی نہ سہی کہ جنم جنم کے ترسے ہوئے کو بس ایک ننھی سی عطا ہی بہت ہے۔شناسائی کا اک قطرۂ بے مایہ،ترحم کا اک تارۂ کم نور،تفہیم کا اک سایۂ مجہول۔افسوس ، افسوس کہ میں شاید اتنے کا بھی سزاوار نہیں۔آہ بے بسی۔۔۔بے بسی۔۔۔تشنہ لبی۔۔۔غریب الوطنی۔۔
اضطراب مسلسل بڑھ رہا ہے،بھیانک چہرے والی بے رحم اداسی بین کرنے لگی ہے اور اندر ہی اندر سینہ پیٹتا کرب بے قابو ہوا جاتاہے۔میں وارفتگی کے عالم میں ہیولے کے کچھ اور سمٹ آتا ہوں ،ہونٹ ہونٹوں کو چوس لینے اور آنکھیں آنکھوں میں پیوست ہو جانے کو بے قرار ہیں ۔اچانک انجماد ٹوٹتاہے اور آواز آتی ہے ۔۔پڑھ۔میں اسے پورے کا پورا اپنے اوپر اوڑھ لیتا ہوں اور ایک ایک لفظ پر انگلی رکھ کر سطر سطر پڑھنے لگتا ہوں ۔ایک دفعہ پڑھ چکنے کے بعد پھر پڑھتا ہوں ، بار بار پڑھتاہوں اور شاید ساتھ ساتھ لکھتا بھی جاتا ہوں لیکن عجب ہے کہ دوہرائے جانے کے باوجود نہ وہ پڑھا جاتا ہے نہ لکھا جاتا ہے۔انگلی میرے اپنے وجود پر دھری ہے اور میں اپنے آپ کو پھیلائے اور اپنے آپ کو اوڑھے سوچ کے بھنوریلے دائروں میں ہلکورے کھائے چلا جاتا ہوں ۔۔۔آہ افسوس کہ میں کچھ بھی تو نہیں پڑھ سکتا ۔شاید میں پڑھنا جانتا ہی نہیں۔ میں ہذیانی ہو ہو ہیولے کو اپنے اوپر سے اتارتا ہوں اور اسے بیڈ پر پورے کا پورا پھیلا کر اپنا آپ اسے اوڑھا دیتا ہوں اور بھنچ بھنچ کر کہتا ہوں ۔۔پڑھ۔وہ ایک دفعہ ا سے ی تک مجھے پڑھتا ہے اور لکھتا ہے اور پھر بار بار پڑھتا اور لکھتا ہے لیکن اجنبیت کا کورا کا غذجوں کا توں ہے۔کہیں کوئی نقطہ تک بھی نہیں ابھرا۔ہیولا بے بسی سے میری طر ف دیکھتاہے ،اک سرد آہ بھرتا ہے اور آنکھیں مِیچ لیتا ہے۔
کمرے میں وقت کی ٹک ٹک دوبارہ سے آغاز ہو گئی ہے ۔اونگھتے لمحے ہڑ بڑا کر اٹھے ہیں اور بیدار ہوتے ہی انھوں نے ماحول کی چادر لوتھڑا لوتھڑا کر دی ہے ۔قالین پر اپنی بکل میں سمٹا سناٹا رفتہ رفتہ تحلیل ہو رہا ہے اور ایک بے ہنگم شور مسلسل پھیلے چلا جا تا ہے۔موسیقی کے سُر اکھڑ رہے ہیں۔گلاب اور موتیے کے پھول مرجھانے لگے ہیں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ برسوں کی بانجھ امیدوں پر خزاں کا عالم جوں کا توں ہے ۔منجمد خواب منظروں میں اندھیرا ناچ رہا ہے اور کہیں سے کسی روشنی کے اتر آنے کا گما ں تک بھی نہیں۔