عبداللہ جاویدؔ (کینیڈا)
لگے ہے آسماں جیسانہیں ہے
نظر آتا ہے جو ہوتا نہیں ہے
تم اپنے عکس میں کیا دیکھتے ہو
تمہارا عکس بھی تم سا نہیں ہے
ملے جب تم تو یہ احساس جاگا
اب آگے کا سفر تنہا نہیں ہے
بہت سوچا ہے ‘ہم نے زندگی پر
مگر لگتا ہے کچھ سوچا نہیں ہے
یہی جاناہے‘ہم نے کچھ نہ جانا ہے
یہی سمجھا ہے ‘کچھ سمجھانہیں ہے
یقیں کا دائرہ دیکھا ہے کس نے
گماں کے دائرے میں کیا نہیں ہے
یہاں تو سلسلے ہی سلسلے ہیں
کوئی بھی واقعہ تنہا نہیں ہے
بندھے ہیں کائناتی بندھنوں میں
کوئی بندھن مگر دکھتا نہیں ہے
ہو‘کس نسبت سے جاویدؔصاحب
نہ ہونا توہے یاں ہونا نہیں ہے
٭٭٭٭٭
بن برسے ‘برسات کھڑی ہے باہر
دن ہے یا کہ رات کھڑی ہے باہر
روح کے دروازے پر دستک ہوتی ہے
لینے کو بارات کھڑی ہے باہر
دل کی اک اک بات چھپائی تھی ہم نے
دل کی اک اک بات کھڑی ہے باہر
جیت کے گاجے باجے بجتے ہیں
ماتم کرتی مات کھڑی ہے باہر
تم‘جاویدؔابھی تک اندر بیٹھے ہو
سورج کی سوغات کھڑی ہے باہر
٭٭٭٭٭
صدا دے کر چلا جاتا ہے کوئی
درِدل کو بجا جاتا ہے کوئی
مَیں جب ہٹتا ہوں اُس کے راستے سے
مجھے رستہ دکھاجاتا ہے کوئی
بچا لیتا ہے دریا سے تو اکثر
سمندر میں گرا جاتاہے کوئی
اندھیرا کرکے جب میں بیٹھتاہوں
اندھیرے کو جلاجاتاہے کوئی
اُتر کر آسمان سے دل کی چھت پر
فضا کو جگمگاجاتا ہے کوئی
ستاروں کے دئیے سارے بجھاکر
دیا دل کا جلاجاتا ہے کوئی
ہوا پر بیٹھ کر آتا ہے گھر میں
ہواؤں میں سما جاتا ہے کوئی
تماشہ دیکھنا چاہو تو دیکھو
تماشہ سا دکھا جاتاہے کوئی
زمانے کو اٹھا کر بازوؤں میں
زمانہ سا اڑا جاتا ہے کوئی
کلاہ وجبہ و دستار لے کر
فقیروں سا بنا جاتا ہے کوئی
محبت کو جنوں کا رنگ دے کر
سرِمحفل نچا جاتا ہے کوئی
ہمیشہ ساتھ رہنے کی لکیریں
ہتھیلی سے مٹا جاتاہے کوئی
تم اس کو روکنا چاہو ہو جاویدؔ
دھواں بن کر اڑا جاتا ہے کوئی
٭٭٭٭٭٭
زندگی میں ابتری پہلے سے تھی
گھر کے اند ر بے گھری پہلے سے تھی
اپنے اندر کا سفر پہلے سے تھا
اپنے باہر بے کلی پہلے سے تھی
زندگی کے شور کو گھیرے ہوئے
ایک گہری خامشی پہلے سے تھی
چہچوں سے گو قفس معمور تھا
روح پر تولے کھڑی پہلے سے تھی
میری بربادی پہ کیوں نادم ہوں آپ
میری قسمت تو لکھی پہلے سے تھی
اس زمیں پر آپ آئے بعد میں
یہ زمیں جاویدؔجی پہلے سے تھی