شفیق مراد
قربتوں کے درمیاں اب فاصلہ کوئی نہ تھا
ساتھ چلنے کے لئے بھی راستہ کوئی نہ تھا
تو مجھے میری بصیرت دیکھ کر پہچانتا
تجھ سے کیا شکوہ‘ جہاں میں آئینہ کوئی نہ تھا
شہر میں ظلمت کے بادل بھی اُسی کے دم سے تھے
سلسلہ تھا وہ انا کا مسئلہ کوئی نہ تھا
ہاتھ کی اُلجھی لکیریں اور چہرے کا نمود
کاغذوں پہ کیا میں لکھتا زائچہ کوئی نہ تھا
یاد کی خوشبو سے روشن ہو گئے دل کے چراغ
ہاں ! تعلق مٹ گیا تھا رابطہ کوئی نہ تھا
کاش جو کہتا زبان سے دل میں وہ ہوتا خلوص
بات میٹھی اور رسیلی ذائقہ کوئی نہ تھا
جی حضوری اور ریاکاری پہ وہ خوش ہو گیا
بات میری سچی سنتا حوصلہ کوئی نہ تھا
شہر میں چلتے ہوئے ہر ایک چہرے پر لکھی
روئیدادیں تو بہت تھیں واقعہ کوئی نہ تھا
میں نے اُس کو پاس پا کر بھی نہیں دیکھا مرادؔ
رنگ میلا ہو نہ جائے مسئلہ کوئی نہ تھا
جانتا ہوں روٹھ کر بھی مان جاتا ہے مرادؔ
اُن کے میرے درمیان اب سلسلہ کوئی نہ تھا