(Last Updated On: )
شفیق مراد
مسئلے جو بھی تھے وہ حل ہو گئے
تُو ملا تو ہم مکمل ہو گئے
پاؤں رکھتے ہی گلستاں میں ترے
سبز موسم پھر مسلسل ہو گئے
جتنے بھی کل تھے ہوئے وہ آج اور
آج جتنے بھی تھے وہ کل ہو گئے
بندگی کی ہو گئی تکمیل پھر
درد و غم جب روح میں حل ہو گئے
آج چھائی تھی ذرا سنجیدگی
اُس کو دیکھا اور چنچل ہو گئے
میرے آنسو پر ترا آنسو گِرا
اشک پھر اشکِ مسلسل ہو گئے
مسکرا کے اُس نے جب دیکھا مرادؔ
خشک دریا دل کے جل تھل ہو گئے